دبئی میں میرے ساتھ ایک لڑکا کام کرتا تھا. وہ لڑکا پاکستان سے فیصل آباد گوجرہ کے نواحی گاوں کا تھا ۔۔ ہم دونوں اس وقت دبئی سے ستر کلو میٹر دور روضہ حتہ والی سائیڈ پہ کھجوروں کے باغات میں نوکری کرتے تھے ۔۔اور رات کو باہر سوتے تھے کیونکہ وہاں بجلی میسر نہیں تھی۔
وہاں سانپ کثرت سے تھے اور ہم نے چیل کی لکڑی والا ایک کھمبا جسے ہمارا کفیل بہت دور سے گاڑی کے پیچھے کھینچ کے لایا تھا اس کے چار ٹوٹے کرکے ہم نے اونچا سا پھٹا بنایا ہوا تھا اور اس پھٹے کے اوپر گدے ڈال کے سوتے تھے کیونکہ پہاڑی علاقہ تھا اور کھجوروں کے باغات میں سانپ بہت ہوتے تھے اور رات کو سانپ دندناتے پھرتے ہوتے تھے ۔۔ایک سانپوں کا ڈر ہوتا دوسرا مچھر کاٹتا تو رات ایک دو بجے تک نیند نہیں آتی تھی۔۔۔ تب ہم دونوں ایک دوسرے کو دنیا جہاں کے قصے سنایا کرتے تھے اور ٹائم پاس کیا کرتے تھے ۔۔ اس لڑکے کا نام بسم اللہ تھا ۔۔اچھا لڑکا تھا ۔۔۔
ایک دن ایسے سانپوں کے قصے چل رہے تھے کہ بسم اللہ کہنے لگا کہ یہ سانپ تو کچھ بھی نہیں،، یہاں پہ تو صرف تیر سانپ اور کھپرا سانپ کی دو اقسام ہیں لیکن ہمارے پاکستان میں تو بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں سانپ کی ۔۔
باتوں باتوں میں بات ناگ کی چلی تو بسم اللہ کہنے لگا کہ ایک ناگ سانپ میرے ابو کا دوست بن گیا تھا اور میرے ابو کو بہت فائدے دئیے تھے اس ناگ نے ۔۔۔
مجھے ناگ کی داستان دلچسپ لگی تو میں اٹھ کے بیٹھ گیا اور کہا ،، بسم اللہ تفصیل سے سناو ساری داستاں اور پھر ہم دونوں نے سگریٹ کی ڈبی سیدھی کی اور دونوں نے سگریٹ سلگا لئے اور پھر بسم اللہ نے ناگ کی داستاں کچھ یوں شروع کی ۔۔چونکہ داستاں بسم اللہ کے ابو کی ہے تو یہاں میں اسکے ابو کی زبانی ہی تحریر کروں گا تاکہ آپکو سمجھنے میں آسانی ہو اور داستاں کی دلچسپی بھی برقرار رہے ___
تو پھر آئیے چلتے ہیں اور بسم اللہ کے ابو کی زبانی ہی ناگ سے دوستی کی داستاں سنتے ہیں
میرا نام مبارک علی ہے اور میں فیصل آباد گوجرہ کے نواحی گاوں میں رہتا ہوں ۔۔ہم دو بھائی تھے جبکہ ہماری کوئی بہن نہیں تھی ۔۔ہماری چھ ایکڑ زرعی زمین تھی ۔۔۔بڑا بھائی ایسے آوارہ گردی کرتا تھا اور میں زمینداری کرتا تھا ۔۔
راتوں کو فصلوں کو پانی لگانا دیہاتوں میں عام سی بات ہے
ہماری پانی کی باری بھی چھ ماہ دن کو ہوتی تھی اور چھ ماہ رات کو ۔۔۔ہماری زمینوں کے ساتھ تین چار ایکڑ میں ریت کا بڑا ٹیلا تھا اور یہ ٹیلا کسی فوجی کی لاٹ میں تھا اور فوجی خود کوہاٹ سائیڈ کا تھا اسکی بارہ ایکڑ زمین تھی جو کہ آٹھ ایکڑ آباد تھی اور چار ایکڑ میں ریت کا ٹیلا اور بڑی بڑی جھاڑیاں تھیں تبھی ان چار ایکڑ کو آباد کرنا مشکل تھا ۔۔اس ٹیلے کے عقب سے سرکاری نالہ پانی کا گزرتا تھا جو ہماری فصلوں کے بعد آگے والی زمینوں کو بھی پانی دیتا تھا۔۔ساون کا مہینہ تھا اور بہت حبس و گرمی تھی سارا دن پھر شام کے وقت ناجانے کہاں سے سیاہ بادل چھائے اور ایکدم بارش شروع ہوگئی ، بارش ایسے برسی کہ عشا کی اذانیں ہونے لگ گئیں لیکن بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔علاقے کے لوگوں نے دوبارہ دوبارہ اذانیں دینی شروع کردی تاکہ بارش رکے خیر بارش رک گئی اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور اسی رات ہماری پانی کی باری بھی تھی۔۔
ابو نے مجھے کہا کہ ایسا کرو کہ نہر پہ جاکے موگے میں کوئی کپڑا ٹھونس دو اور جب ہماری باری ختم ہوجائے تو کپڑا نکال لینا کیونکہ فصلوں کو تو اب پانی کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ گوڈے گوڈے پانی تو پہلے کھڑا تھا فصلوں میں ۔۔اور سب لوگ ہی ایسا کررہے تھے کہ موگے میں کپڑا ٹھونس کر اپنی باری ختم کرتے تھے ۔۔میں نے بھی ایک کھیس اٹھایا اور نہر پہ چلا گیا ۔۔بارش برس کے تھم گئی تھی اور آسمان صاف ہوگیا تھا چاند کی چودھویں کی رات تھی اور چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔۔۔
میں نے نہر پہ جاکے اپنے پانی کے ٹائم پہ موگے میں کپڑا ٹھونس دیا اور سوچا کہ فصلوں کو ایک چکر لگا کے دیکھ تو لوں کہ بارش کا پانی کتنا جمع ہوا ہے
میرے پاس بھی سیل والی ٹارچ تھی اور میں نے ٹارچ روشن کی ہوئی تھی اور سرکاری نالے کے اوپر اوپر اپنی زمینوں کی طرف جا رہا تھا ۔۔
جب میں اپنی زمین کے ساتھ ریت کے ٹیلے کے عقب سے گزرنے لگا تو مجھے کچھ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ، میں نے ٹارچ ریت کے ٹیلے کی طرف گھمائی تو میرا تو سانس ہی رکنے والا ہوگیا۔۔کیونکہ مجھ سے کچھ فاصلے پہ آٹھ نو فٹ کے دو سیاہ ناگ آپس میں ملاپ کررہے تھے
میں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ دو ناگ اگر چاند کی چودھویں کو ملاپ کررہے ہوں تو انکے اوپر کوئی کالے رنگ کا کپڑا ڈال دیں تو وہ بندے کو یا تو ناگ منی دے جاتے جو کہ ہر بیماری کا علاج ہوتی ہے اور بندے کو مالا مال کردیتے ہیں ۔۔۔میرے اوپر بھی شال نما لنگی تھی ، مجھے سوجھی کہ میں ان کے اوپر شال ڈال دوں شاید مجھے بھی مالا مال کردیں، پھر مجھے ڈر بھی لگتا کہ کہیں غصے میں آکر مجھے کاٹ ہی نہ لیں کیوں کہ دونوں ہی بہت بڑی بلائیں تھیں ۔۔میں نے سوچا کہ ایسا موقع بار بار کہاں ملتا ہے ۔۔اللہ کو یاد کیا اور چھلانگ لگا کے نالہ عبور کر گیا اور دھیرے دھیرے ان ناگوں کے پاس جانے لگا ۔۔ٹارچ کی روشنی بھی میں ان پہ سیدھی رکھی ، وہ دونوں ناگ فل مستی میں تھے اور کبھی اوپر اٹھتے کبھی ایک دوسرے سے لپٹ جاتے کبھی زمین پہ لیٹ جاتے ، میں ڈرتے ڈرتے قریب جاکے اپنی شال انکے اوپر ڈال دی اور واپس پلٹ کے نالہ عبور کر آیا ۔۔
میں نے سوچا کہ آگے فصلوں کو دیکھ آتا ہوں پھر واپسی پہ ناگوں کو دیکھوں گا
میں آگے فصلوں کا چکر لگایا اور واپس اسی جگہ پہ آگیا ۔۔مجھے شال میں کوئی حرکت محسوس نہیں ہو رہی تھی ۔۔لیکن میں شال اٹھا بھی نہیں سکتا تھا ۔۔
میں نے سوچا کہ اب گھر پانی کی باری ختم ہونے کے بعد گھر چلا جاتا ہوں اور فجر کے بعد پوہ پھوٹتے ہی آوں گا اور شال اٹھا لے جاوں گا۔ دل ہی دل میں خوش تھا کہ شال میں ناگ ضرور ناگ منی چھوڑ جائیں گے ۔۔۔ میں نے پانی کی باری ختم کی اور نہر کے موگے سے اپنا کھیس نکال کے گھر چلا آیا ۔۔۔
فجر کے وقت اٹھا اور نماز پڑھ کے کھیتوں کی طرف نکل آیا اور خوشی خوشی شال کی طرف بڑھ رہا تھا کہ دیکھوں تو سہی کہ بزرگوں کی بات کہاں تک سچ ہے،، کیا واقعی میری شال میں ناگ منی پڑی ہوگی ؟؟؟؟ دھیرے دھیرے میں ریت کے اس ٹیلے کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں پہ رات کو ناگ اور ناگن ملاپ کررہے تھے ۔۔
نہر کی پٹڑی سے اتر کر جب میں نالے پر چڑھا اور دور سے ہی نظریں اس جگہ پہ گاڑ دیں جہاں پہ رات کو ناگ اور ناگن ملاپ کر رہے تھے۔ لیکن مجھے دور سے ہی جھٹکے لگنے شروع ہوگئے تھے۔۔۔
قریب پہنچ کر جب اس جگہ پہ دیکھا جہاں پہ ناگ اور ناگن رات کو ملاپ کررہے تھے وہاں پہ میری شال تھی ہی نہیں ،، میں نالہ عبور کرکے اس جگہ پہ پہنچ گیا جہاں پہ رات کو ناگ اور ناگن ملاپ کررہے تھے۔ میں نے چاروں اطراف نظر دوڑائی کہ میری شال آخر گئی کہاں پر ، دل میں ہزار وسوسے آتے کہ شاید کوئی دوسرا آدمی میری شال اٹھا لے گیا ہو ۔۔پھر میں نے سانپوں کی لکیریں دیکھنی شروع کردیں لیکن رات کو چونکہ بارش زوروں کی ہوئی تھی اس لئے بھیگی ریت پہ لکیریں بھی نہیں تھیں پھر بھی میں نے تھوڑا ادھر ادھر گھوم پھر کے نگاہیں دوڑائیں تو دور مجھے ایک جھاڑی میں میری شال کا کونا پھنسا نظر آیا ۔۔۔میں بھاگ کے اس طرف گیا اور دیکھا تو میرے اوسان خطا ہوگئے ۔۔۔
ایک بل تھی جو کہ جھاڑی کے وسط میں تھی اور میری شال آدھی سے زیادہ اس بل میں گھسی ہوئی تھی بس ایک کونا شال کا باہر تھا ۔۔۔میں سمجھ گیا کہ میری شال ناگ اور ناگن ہی لے کر آئے ہیں ۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی شال کا کونا پکڑ کے باہر کھینچا تو میں حیران رہ گیا ۔۔۔میری شال کے ساتھ سونے کے تعویز باہر آئے تھے جسے مقامی زبان میں تویتڑی کہا جاتا ہے اور شادی کے وقت دلہن کو پہنائی جاتی ہیں۔۔کسی علاقے میں پانچ تویتڑیاں دلہن کو پہنائی جاتی ہیں کسی علاقے میں سات تویتڑیاں پہنائی جاتی ہیں ۔۔۔میں نے گنتی کی تو وہ سات تویتڑیاں تھیں خالص سونے کی ، میں نے ڈرتے ڈرتے وہ تویتڑیاں اٹھا کے جیب میں ڈال لی اور شال اٹھا کے گھر آگیا مجھے اب یقین ہوگیا تھا کہ ناگ اور ناگن اسی بل میں ہیں جو جھاڑی کے وسط میں ہے ۔۔
آٹھ دن کے بعد میری پانی کی باری تھی اور میں رات کو پانی لگانے کھیتوں میں چلا گیا ۔۔چاند کی تئیس چوبیس تاریخ تھی اس لئے رات اندھیری تھی ۔۔
میں نے کپاس کی فصل کو پانی چھوڑ کے نالہ کے اوپر ہی بیٹھ گیا ۔۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے پاس ہی سرسراہٹ سی محسوس ہوئی ۔۔ میں نے ٹارچ روشن کی تو میرے اوسان خطا ہوگئے ۔۔کالا سیاہ ناگ مجھ سے دو قدم کے فاصلے پہ کنڈلی مار کے بیٹھا تھا ۔۔۔میں پہلے تو ڈر گیا لیکن پھر مجھے حوصلہ ہوا کہ اگر ناگ مجھے نقصان پہنچانا چاہتا تو پہنچا سکتا تھا لیکن وہ میرے پاس آکر کنڈلی مار کے بیٹھ گیا ہے ۔۔۔مجھے اب رشک سا ہونے لگا تھا کہ ناگ میرا دوست بن گیا ہے کیوں کہ ناگن کے ساتھ ملاپ کے وقت میں نے انکے اوپر شال ڈال کر انکی پردہ پوشی کی تھی اور بدلے میں انہوں نے مجھے سات سونے کے تعویزدی تھیں ۔۔۔ میں نے ناگ کے بارے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا اور نہ تویتڑیاں کے بارے ۔۔۔ میں پانی لگاکے گھر آگیا ۔۔
0 تبصرے