اس کے بعد ہمیں کسی عالم یاعامل سے بات کرنی ہوگی۔ یہ سنتے ہی نصیر نے کہا مولانا بلال صاحب۔۔۔ ہاں مولانا بلال صاحب ہی اس مسلے کو حل کر سکتے ہیں ۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا مولانا بلال صاحب۔۔۔؟؟ وہ کون ہیں۔۔۔؟؟ نصیر نے کہا وہ ہر جمعہ کو ایک منار والی مسجد میں نماز جمعہ پڑھانے آتے ہیں اور انہوں نے بتایا تھا کہ وہ ان شیطانی چیزوں کو بھگانے میں کافی علم رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات وہ یہ کام فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگوں کو ان پر یقین ہے کہ وہ ایک قابل عالِم ہیں ۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا پھر تو ہمیں ان سے ضرور ملنا چاہیئے ۔ نصیر نے کہا ہاں ہماری قسمت اچھی ہے کہ آج جمعرات ہے اور کل نماز جمعہ کے بعد ہم ان سے بات کر لیں گے۔
یہ سن کر شمشاد نے کہا ہاں ٹھیک ہے اب چلو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں اس کے بعد میں حاجی صاحب کے گھر جا کر انہیں حاجی صاحب کے بارے میں اطلاع دیتا ہوں اب جلدی چلو رات ہونے والی ہے ۔ یہ کہتے ہوئے شمشاد نصیر کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل پڑا پھر جب آدھا راستہ تہہ کر لیا تو نصیر نے کہا شمشاد بھائی اب یہاں سے میں اکیلا چلا جاؤں گا آپ حاجی صاحب کے گھر چلے جائیں ورنہ رات کے وقت اس ویرانے میں لاش ڈھونڈنا خطرناک ہو سکتا ہے اوپر سے دھند بھی بہت بڑھ رہی ہے۔۔ یہ سن کر شمشاد نے ہاں میں سر ہلایا اور نصیر کو راستے میں چھوڑ کر حاجی صاحب کے گھر کی طرف چلا گیا یہ دیکھتے ہوئے نصیر ڈرتا ہوا اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک نصیر کو لگا کہ اس کے پیچھے پیچھے کوئی اور بھی چل رہا ہے تو نصیر نے فوراً ڈرتے ہوئے اپنے پیچھے دیکھا لیکن پیچھے کوئی نہیں تھا یہ دیکھ کر نصیر دوبارہ تیزی سے اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا کہ اتنے میں اچانک نصیر کی کمر پر کسی نے ہاتھ سے تھپکی ماری ۔۔
تو اسی وقت نصیر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس نے پیچھے دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا یہ دیکھ کر نصیر ڈر سے لرز گیا پھر نصیر نے ادھر اُدھر دیکھا تو گلی میں نصیر کے علاوہ کوئی نہیں تھا اتنے میں کسی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی جیسے کوئی بھاگتا ہوا نصیر کی طرف آرہا ہے لیکن دھند کی وجہ سے کوئی نظر نہیں آرہا تھا اور نصیر پاگلوں کی طرح ڈرتا ہوا کبھی پیچھے دیکھتا تو کبھی آگے کی طرف دیکھنے لگا لیکن کوئی کہاں سے آرہا ہے اس سمت کا پتا نہیں چل رہا تھا اس دوران دھند کی شدت میں اظافہ ہو گیا تھا لیکن بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز آہستہ آہستہ سے بالکل صاف سنائی دے رہی تھی یہ دیکھتے ہوئے نصیر نے ہمت کر کے گھر کی طرف دوڑنا شروع کر دیا اور بھاگتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ کوئی بھاگتا ہوا بالکل اس کے قریب پہنچ چکا ہے لیکن اس نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا اور اندھادھند بھاگتا ہوا گھر کے دروازے سے ٹکرا کر گر گیا اس دوران اس کا سر پھٹ گیا اور اس میں سے خون بہنے لگا۔۔ اتنے میں گھر کا دروازہ کھلا اور نصیر کا بھائی کبیر باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ نصیر زمین پر گرا ہوا درد سے چلا رہا تھا۔
یہ دیکھتے ہوئے کبیر ابھی اس کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک دھند میں سے ایک خوفناک سی عورت نمودار ہوئی اور اس نے نصیر کی ٹانگوں کو پکڑا پھر تیزی سے اسے گھسیٹتے ہوئے واپس دھند کی طرف بھاگ نکلی یہ دیکھتے ہی کبیر شور مچاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگنے لگا لیکن وہ دیکھتے ہی دیکھتے بھاگتی ہوئی دھند میں غائب ہو گئی اس دوران کبیر نصیر کو آوازیں دیتا ہوا اس کے پیچھے بھاگتا ہوا گھر سے کافی دور نکل آیا لیکن اسے نصیر کا کچھ پتا نہیں چلا۔۔ تو کبیر اسی جگہ بھائی بھائی کہتے ہوئے زور زور سے رونے لگا۔ اتنے میں اچانک کہیں سے نصیر کے چیخنے کی آواز سنائی دی تو کبیر جلدی سے اٹھا اور نصیر کو آوازیں دیتا ہوا ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔
لیکن ہر جگہ شدید دھند چھائی ہوئی تھی اتنے میں دوبارہ نصیر کی چیخوں کی آواز سنائی دی تو کبیر نے غور کیا کہ یہ آواز جھاڑیوں کی طرف سے آرہی ہے تو کبیر نے بنا کچھ سوچے جھاڑیوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا لیکن جب کبیر جھاڑیوں میں پہنچا تو وہاں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ اتنے میں کبیر کے پیچھے سے جھاڑیوں کے ہلنے کی آواز سنائی دی تو کبیر نے نصیر کو آواز دیتے ہوئے کہا بھائی آپ کہاں ہو۔۔۔ بھائی میں یہی ہوں جلدی بولو نصیر بھائی۔۔۔ لیکن کبیر کو کوئی جواب نہیں ملا۔۔ اتنے میں کبیر کی نظر ایک پرچھائی پر پڑی جو کہ کبیر سے کچھ ہی دوری پر کھڑی تھی اور اس کی تیز تیز سانسوں کی آواز اس سنسان جگہ پر صاف سنائی دے رہی تھی لیکن دھند کی وجہ سے وہ صاف دکھائی نہیں دے رہی تھی بس ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی کبیر سے کچھ قدم دور کھڑا ہوا تیز تیز سانس لے رہا ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کبیر آہستہ آہستہ اس پرچھائی کی طرف بڑھنے لگا تو وہ پرچھائی بھی کبیر کی طرف بڑھنے لگی لیکن جیسے ہی کبیر اس کے قریب پہنچا تو کبیر کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی کیونکہ اس کے سامنے وہی بھیانک شکل والی عورت کھڑی تھی جو نصیر کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی تھی اسے دیکھتے ہی کبیر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ وہ کبیر کی طرف دیکھ کر اپنا خون آلود منہ کھول رہی تھی جس میں اس کے ٹیڑھے میڑھے چھوٹے بڑے دانت دکھائی دے رہے تھے یہ دیکھ کر کبیر کے پورے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی
جس کی وجہ سے کبیر کا پیشاب اس کے کپڑوں میں ہی نکل گیا اور کبیر اسے دیکھتے ہوئے کانپتا ہوا آہستہ آہستہ سے پیچھے ہٹنے لگا یہ دیکھ کر وہ منہوس عورت بھی آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگی تو اچانک کبیر نے پلٹ کر وہاں سے دوڑ لگا دی اور جھاڑیوں کے اوپر سے چھلانگیں لگاتا ہوا اندھادھند بھاگنے لگا لیکن اس کو اپنے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے اس منہوس کے قدموں کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی کہ اچانک کبیر بھاگتے ہوئے کسی سے ٹکرا کر گر گیا اور جیسے ہی کبیر نیچے گر کر جلدی سے اٹھنے لگا تو اچانک کسی نے کبیر کا بازو پکڑ لیا تو کبیر نے گھبراہٹ میں بنا اس کی طرف دیکھے ہی اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کی تو اتنے میں کسی نے کبیر سے کہا ارے رکو۔۔۔ کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔؟؟
یہ سنتے ہی کبیر اس طرف دیکھا تو اس کا بازو شمشاد نے پکڑا ہوا تھا اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی لوگ تھے جو کبیر کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے یہ دیکھتے ہی کبیر نے کہا شمشاد بھائی۔۔۔۔؟؟ اور یہ کہتے ہوئے کبیر شمشاد سے لپٹ کر رونے لگا تو شمشاد نے کبیر کو آہستہ سے اپنے سے دور کرتے ہوئے کہا ارے کبیر۔۔۔۔؟؟؟ تم اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔۔ ؟؟ کبیر نے روتے ہوئے کہا میں یہاں نصیر بھائی کو ڈھونڈنے آیا تھا ۔
لیکن میرے پیچھے کوئی خوفناک سی عورت پڑ گئی تھی اگر آپ نہ آتے تو وہ مجھے بھی نصیر بھائی کی طرح پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتی۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے حیرت سے کبیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا۔۔۔۔۔ نصیر۔۔۔ کی طرح۔۔۔؟؟ کبیر نے کہا جی شمشاد بھائی نصیر بھائی کو بھی وہی عورت اپنے ساتھ لے کر اس طرف آئی تھی۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا ارے یہ کیسے ہو سکتا ہے نصیر کو تو میں خود کچھ دیر پہلے ہی تمہارے گھر کے پاس چھوڑ کر آیا تھا ۔ یہ سنتے ہی کبیر نے پھر شمشاد کو وہ سب کچھ بتایا جو کہ نصیر اور اس کے ساتھ ہوا تو شمشاد نے کہا اس کا مطلب کہ وہ شیطانی عورت اس وقت تمہارے گھر کے پاس ہی تھی۔ کبیر نے کہا پتا نہیں شمشاد بھائی کیا چکر ہے لیکن آپ سب لوگ یہاں کیا کرنے آئے تھے۔۔۔؟؟
شمشاد نے کہا دراصل ہم بھی یہاں کسی کو ڈھونڈنے آئے ہیں۔۔یہ سنتے ہی کبیر نے حیرانی سے کہا کسی کو ڈھونڈنے آئے ہیں لیکن کس کو۔۔۔۔؟؟؟ شمشاد نے پھر کبیر کو حاجی صاحب کی اس عورت کے ہاتھوں سے ہوئی موت کے بارے میں بتایا تو کبیر نے کہا شمشاد بھائی ہمیں جلد از جلد نصیر بھائی کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہیں وہ میرے بھائی کو بھی نہ مار ڈالے یہ کہتے ہوئے کبیر پھر سے رونے لگا تو اتنے میں ایک شخص نے کبیر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ہمت رکھو کبیر بھائی آپ کا بھائی آپ کو ضرور مل جائے گا میں جانتا ہوں کہ اس وقت آپ کے دل پر کیا گزر رہی ہے لیکن دیکھو آج میں نے بھی اپنے ابو کو ہمیشہ کے کھو دیا ہے لیکن میں پھر بھی ہمت سے کام لے رہا ہوں اس لیئے رونے دھونے سے بہتر ہے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے۔
یہ سن کر کبیر نے اس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تم کون ہو بھائی۔۔۔؟؟ اتنے میں شمشاد نے کبیر سے اس شخص کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ساجد ہے حاجی صاحب کا بیٹا اور یہ باقی لوگ ان کے رشتےدار ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں ایک ساتھ جا کر حاجی صاحب اور نصیر کو ڈھونڈنا چاہیئے یہ سنتے ہی کبیر نے اپنے آنسوں صاف کیئے اور شمشاد کی طرف دیکھتے ہوئے بولا وہ منہوس عورت نصیر بھائی کو اُس طرف ہی کھینچ کر لائی تھی۔
👇👇
0 تبصرے