یہ کہتے ہوئے کبیر نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا تو شمشاد نے کہا ۔۔ تو چلو ہم پہلے وہیں چلتے ہیں یہ کہتے ہوئے سب لوگ کبیر کے بتائے گئے راستے کے مطابق ان جھاڑیوں کی طرف چلے گئے اور نصیر کو آوازیں دیتے ہوئے اسے ڈھونڈنے لگے کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد شمشاد ایک بڑی سی جھاڑی کے بیچ گیا تو اچانک شمشاد کے پاؤں کے نیچے کوئی چیز آئی تو جیسے ہی شمشاد نے نیچے دیکھا تو شمشاد کے پاؤں کے نیچے نصیر کا ہاتھ آیا ہوا تھا یہ دیکھتے ہی شمشاد نے سب لوگوں کو آواز دیتے ہوئے کہا جلدی سب لوگ یہاں آؤ نصیر یہاں ہے یہ کہتے ہوئے شمشاد نے باقی لوگوں کے ساتھ مل کر نصیر کو اٹھایا اور جھاڑیوں سے باہر لے جا کر لیٹا دیا۔۔ اور اسے ہلانے کی کوشش کرنے لگے اتنے میں ساجد نے نصیر کی گردن پر ہاتھ لگاتے ہوئے کہا( اناللہ واناالیہ راجعون)۔
یہ سنتے ہی سب لوگ حیرت انگیز نظروں سے ساجد کی طرف دیکھنے لگے تو ساجد نے کہا افسوس نصیر بھائی فوت ہو چکے ہیں۔ یہ سنتے ہی کبیر ڈھاڑیں مارتا ہوا ظاروقتار رونے لگا ۔ پھر سب لوگوں نے کبیر کو حوصلہ دیتے ہوئے اس سے تعزیت کی اور نصیر کی لاش کو اٹھا کر وہاں سے واپس محلے میں لے آئے جہاں ساجد نے دوبارہ نصیر کی لاش کا معائنہ کرتے ہوئے کہا ان کی گردن کی ہڈی توڑ دی گئی ہے جس کی وجہ سے اسی وقت ان کی موت ہو گئی ہو گی۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو۔۔۔؟؟ ساجد نے کہا شمشاد بھائی میں پیشے سے ڈاکٹر ہوں اور یہ دیکھیں ان کی کچھ پسلیاں بھی ٹوٹ کر کھال سے باہر آئی ہوئی ہیں یہ کہتے ہوئے جیسے ہی ساجد نے نصیر کا سویٹر اور قمیض اوپر کی تو واقعی میں نصیر کی پسلیاں ٹوٹ کر اس کے سینے سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔
یہ دیکھتے ہی کبیر دوبارہ گڑگڑاتے ہوئے رونے لگا۔ پھر کچھ لوگوں نے کبیر کو حوصلہ دیتے ہوئے نصیر کی لاش اس کے گھر پہنچا دی۔ اتنے میں شمشاد نے کبیر سے کہا دیکھو کبیر میں جانتا ہوں کہ تم اس وقت بہت درد میں ہو لیکن اس وقت ہم لوگوں کو دوبارہ اس جگہ پر جانا ہے کیونکہ ہمیں حاجی صاحب کی لاش کو بھی ڈھونڈ کر لانا ہے اس لیئے ابھی ہم جا رہے ہیں جیسے ہی حاجی صاحب ہمیں مل جائیں گے تو ہم دوبارہ تمہارے پاس آجائیں گے۔ یہ سن کر کبیر نے روتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا اور شمشاد باقی لوگوں کے ساتھ دوبارہ ان جھاڑیوں کی طرف چل پڑا راستے میں ساجد نے کہا اس سب کو دیکھ کر لگتا ہے وہ جسے بھی مارتی ہے بہت درد ناک طریقے سے مارتی ہے نصیر بھائی کی لاش کو دیکھ کر مجھے اس منہوس عورت کی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے اسی لیئے سب لوگ احطیاط سے رہنا جیسا کہ کبیر نے کہا تھا کہ وہ اس کے پیچھے بھاگی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اب بھی ہمارے آس پاس ہی کہیں ہو سکتی ہے اس لیئے سب لوگ اپنی آنکھیں کھلی رکھنا اور کوئی بھی ایک دوسرے سے الگ مت ہونا ورنہ وہ حاوی ہو سکتی ہے۔
یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا آج اس منہوس نے تین جانیں لے لی ہیں اب میں کسی کے ساتھ برا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اس لیئے میں سب بھائیوں سے کہتا ہوں جیسا ساجد کہہ رہا ہے ویسا ہی کرنا اور اگر تم میں سے کوئی بھی مصیبت میں ہو تو تم لوگ مجھے اس منہوس کے سامنے پھینک دینا اور خود بھاگ کر واپس آجانا۔۔ کیونکہ یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے میں ہی اس سب کا زمعدار ہوں یہ کہتے ہوئے شمشاد بھی چلتے چلتے رو پڑا۔۔ تو ساجد کے چچا نعیم نے شمشاد کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا شمشاد بھائی خود کو سنبھالیں الله کے فضل سے ہم سب لوگ خیریت سے واپس آئیں گے جو ہو چکا وہ ہو چکا۔۔ اب ہم اسے کسی کی جان نہیں لینے دیں گے ۔
یہ کہتے ہوئے سب لوگ شمشاد کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے دوبارہ جھاڑیوں میں پہنچ گئے اتنے میں نعیم نے کہا سب لوگ آیت الکرسی پڑھتے رہو اگر وہ ہمارے آس پاس بھی ہوئی تو جب تک ہم آیت الکرسی پڑھتے رہیں گے وہ ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔ یہ سنتے ہی سب لوگ آیت الکرسی پڑھنے لگے اور کافی دیر تلاش کرنے کے بعد سب لوگ ایک جگہ کھڑے ہو کر سوچ وچار کرنے لگے اتنے میں شمشاد نے کہا نصیر کے بتائے گئے واقعے کے مطابق حاجی صاحب کی لاش ایک بڑے سے پتھر کے آس پاس ہونی چاہیئے اس لیئے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں دوسری طرف جانا چاہیئے جہاں کچھ چھوٹی بڑی چٹانیں ہیں اور وہ جگہ یہاں سے مشرق کی طرف ہونی چاہیئے۔ ابھی شمشاد نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک ایک خوفناک چیخ کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی سب لوگ چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے اتنے میں کسی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دینے لگی تو نعیم نے کہا سب لوگ آیت الکرسی پڑھتے ہوئے مشرق کی طرف بڑھتے رہو۔
لگتا ہے اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور شاید وہ ہماری طرف ہی آرہی ہے یہ سنتے ہی سب لوگ آیت الکرسی پڑھتے ہوئے مشرق کی طرف چلنے لگے اس دوران کوئی کالی سی پرچھائی ان کے آس پاس منڈلانے لگی اسے دیکھتے ہی سب لوگ ڈر گئے لیکن سب لوگ آیت الکرسی پڑھتے ہوئے تیز تیز مشرق کی طرف بڑھنے لگے اتنے میں اچانک شمشاد کی نظر کسی سرخ اور سفید سی چیز پر پڑی تو شمشاد نے آیت الکرسی پڑھتے ہوئے ہی سب کو اس چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے پاس جانے کا کہا اور سب لوگ اس سرخ سفید چیز کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہ حاجی صاحب کی لاش تھی یہ دیکھتے ہی سب نے ان کی لاش کو اٹھایا اور وہاں سے واپس محلے کی طرف چل پڑے ابھی وہ آدھے راستے میں ہی گئے تھے کہ وہ منہوس عورت ہاتھوں پیروں پر چلتی ہوئی ان کے بالکل سامنے آکر کھڑی ہو گئی ۔ یہ دیکھتے ہی نعیم نے کہا سب لوگ اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے چلو یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔۔
یہ سنتے ہی سب نے ویسا ہی کیا اور جیسے ہی وہ سب اس کے پاس پہنچے تو وہ منہوس ان کے راستے سے دور بھاگ گئی اور پھر ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے عجیب عجیب آوازیں نکالنے لگی نعیم نے کہا کوئی بھی اس کی طرف مت دیکھنا بس ایسے ہی آگے دیکھ کر چلتے رہو۔۔ یہ سنتے ہی سب لوگ اونچی آواز میں آیت الکرسی پڑھتے ہوئے وہاں سے نکل کر محلے میں آگئے اور وہ منہوس پیچھے ہی رہ گئی جب حاجی صاحب کی لاش گھر پہنچی تو ان کے کپڑے خون سے لت پت ہو رہی تھے اور ان کا سر بری طرح سے پچک گیا تھا ساجد نے روتے ہوئے کہا اس منہوس نے میرے ابو کو بھی ویسے ہی تڑپا کر مارا ہوگا ان کے جسم کی بھی کافی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں ۔ یہ سنتے ہی سب لوگ رونے دھونے لگے اس دوران شمشاد حاجی صاحب کے گھر سے باہر آیا تو اس کے پیچھے نعیم بھی باہر آگیا اور اس نے شمشاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ شمشاد بھائی میرا بھائی تو چلا گیا لیکن ہمیں اس منہوس کا کوئی حل نکالنا ہوگا ورنہ اس محلے میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا جی نعیم بھائی اس کا حل بھی مرحوم نصیر بتا کر گیا تھا۔ یہ سنتے ہی نعیم نے کہا کیا حل تھا جلدی بتاؤ شمشاد بھائی۔۔۔؟؟ یہ سن کر شمشاد نے نعیم کو مولانا بلال کے بارے میں وہ سب بتایا جو نصیر نے شمشاد کو بتایا تھا۔ یہ سنتے ہی نعیم نے کہا مولانا بلال صاحب۔۔۔۔۔ ہاں ہاں میں جانتا ہوں انہیں وہ میرے مرحوم بھائی حاجی مشتاق کے استاد ہیں۔ شمشاد نے کہا تو پھر ہم کل ہی ان کے پاس چلیں گے۔ نعیم نے کہا جی انشاء اللّه ۔ اس کے بعد شمشاد نے نعیم سے دوبارہ تعزیت کی اور اپنے گھر جانے لگا تو نعیم نے کہا شمشاد بھائی ابھی صبح ہونے میں بہت وقت ہے تب تک اپنے گھر کے کھڑکیاں اور دروازے بند ہی رکھنا اور آیت الکرسی پڑھتے رہنا۔۔ کیا پتا وہ منہوس دوبارہ یہاں آجائے کیونکہ آپ کی باتوں کے مطابق جس نے بھی اسے ختم کرنے کی بات کی وہ اس دنیا سے چلا گیا اس کا مطلب صاف ہے کہ وہ ہمارے پیچھے بھی آ سکتی ہے۔۔
یہ سنتے ہی شمشاد نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے گھر چلا گیا اسے گھر آتے دیکھ کر صدیقہ نے پوچھا آپ کہاں چلے گئے تھے ہم کب سے پریشان ہو رہے تھے ۔ شمشاد نے کہا پہلے فروہ کو لے کر کمرے میں چلو ۔۔ بتاتا ہوں۔۔ یہ سنتے ہی صدیقہ فرہ کو لے کر کمرے میں چلی گئی پھر شمشاد نے کمرے کی کنڈی لگائی اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔ یہ دیکھتے ہوئے صدیقہ نے حیرت سے شمشاد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیا بات ہے آپ بہت ڈرے ہوئے لگ رہے ہیں۔۔۔؟؟ شمشاد نے کہا آج بہت برا ہوا ہے۔ صدیقہ نے کہا ہاں آج امی ہمیں چھوڑ کر جو چلی گئیں ہیں۔ یہ سن کر شمشاد نے کہا امی ہی نہیں آج دو لوگ اور بھی ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں۔
یہ سنتے ہی صدیقہ نے کہا دو لوگ اور بھی گئے ہیں۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے پھر وہ سب کچھ صدیقہ کو بتایا جو اس کی والدہ کے جنازے کے بعد ہوا۔۔ تو صدیقہ اور فروہ ڈر کر شمشاد سے لپٹ گئے صدیقہ نے کہا میں نے آپ سے کہا تھا نہ کہ وہ بکری نہیں کچھ اور ہی ہے شمشاد نے کہا ہاں تم سب سہی تھے اور میں غلط تھا میں لالچ میں آگیا تھا اس لیئے میں تم لوگوں سے معافی کا طلبگار ہوں۔۔
صدیقہ نے کہا ہم نے آپ کو معاف کیا بس آپ الله سے دعا کریں کہ وہ منہوس یہاں سے کہیں دفعہ ہو جائے شمشاد نے کہا بس آج کی رات ہم پر بھاری ہو سکتی ہے کل انشاءاللہ نماز جمعہ کے بعد حاجی صاحب اور نصیر کے جنازے میں شرکت کرنی ہے اس کے بعد میں قاری بلال کو یہاں لے کر آؤں گا اور اگر الله نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اس سے پہلے الله تعالٰی مجھے میرے گناہ اور لالچ کے لیئے معاف کر دے بس۔۔۔ صدیقہ نے کہا انشاء اللّه سب ٹھیک ہو جائے گا۔تحریر دیمی ولف۔ اس کے بعد سب لوگ کافی دیر تک جاگتے ہوئے آیت الکرسی پڑھنے لگے اس دوران فروہ سو گئی لیکن شمشاد اور صدیقہ جاگتے ہوئے آیت الکرسی پڑھتے رہے ۔کہ اتنے میں باہر سے جانوروں کی بھاگ دوڑ کی آواز سنائی دینے لگیں جسے سنتے ہی شمشاد صدیقہ ڈر کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تو شمشاد نے صدیقہ سے کہا لگتا ہے وہ آگئی ہے تم آیت الکرسی پڑھتی رہو۔۔۔
یہ کہتے ہوئے دونوں میاں بیوی دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے آیت الکرسی پڑھتے رہے پھر کچھ دیر میں دروازے پر دستک ہونے لگی تو شمشاد نے صدیقہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے منہ پر انگلی رکھتے ہوئے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دونوں منہ میں آیت الکرسی پڑھتے رہے کچھ دیر دستک ہونے کہ بعد اچانک ایک خوفناک سی آواز سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز آئی لیکن شمشاد اور صدیقہ مسلسل آیت الکرسی پڑھتے رہے اتنے میں دروازے کے پاس سے تیز تیز سانسوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں یہ سب کافی دیر تک چلتا رہا پھر اچانک سب کچھ تھم گیا اور فخر کی اذان کی آواز سنائی دینے لگی ۔ جسے سنتے ہی شمشاد اور صدیقہ نے سکون محسوس کیا اور پھر کچھ دیر کے بعد دونوں نے فجر کی نماز پڑھی اور جب شمشاد نے دروازہ کھولا تو دیکھا اس کے صحن میں چڑیاں اور بکریاں چہل پہل کر رہی تھی۔
یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے صدیقہ سے کہا دیکھو الله کے کلام میں کتنی طاقت ہے جس کی وجہ سے ہماری بکریاں بھی محفوظ رہیں اور ہم بھی ۔ صدیقہ نے کہا آج سے میں بھی پانچ وقت کی نماز پڑھا کروں گی اور ساتھ میں فروہ کو بھی پڑھایا کروں گی اور آپ بھی اب نماز باقاعدگی سے پڑھا کریں ہمارے گھر میں سوائے امی کے کوئی بھی نماز نہیں پڑھتا تھا اور جب وہ بیماری پڑی تو ان کے علاوہ کبھی کسی نے نماز نہیں پڑھی تھی ۔ شمشاد نے کہا تم سہی کہہ رہی ہو اب سے ہم پانچ وقت کی نماز پڑھیں گے۔ اب جلدی سے ناشتہ کروا دو مجھے نصیر کے گھر بھی جانا ہے۔
یہ سنتے ہی صدیقہ نے جلدی سے ناشتہ وغیرہ تیار کیا اور شمشاد ناشتہ کر کے نصیر کے گھر تعزیت کے لیئے چلا گیا پھر دوپہر کو نماز جمعہ کے بعد نصیر اور حاجی صاحب کے جنازے میں شریک کی اور وہاں سے نعیم کے ہمراہ مولانا بلال کے پاس چلا گیا پھر شمشاد اور نعیم نے مولانا بلال صاحب کو سب کچھ بتایا تو قاری بلال ان کے ساتھ شمشاد کے گھر آگئے پھر انہوں نے شمشاد کے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ذرا مجھے وہ سوئیاں لا کر دکھاؤ جو تم لوگوں نے اس بکری کی کمر سے نکالیں تھیں۔ یہ سنتے ہی صدیقہ نے جلدی سے وہ سوئیاں لا کر مولانا بلال کو دے دیں جنہیں دیکھ کر قاری بلال نے کہا تو یہ بات ہے۔۔
شمشاد نے کہا قاری صاحب ہمیں بھی بتائیں۔۔۔؟؟ کیا وہ یہاں سے چلی جائے گی۔۔؟؟ قاری بلال نے کہا سوال یہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ یہاں ٹھہر کیسے سکتی ہے۔۔؟؟ شمشاد نے کہا جی میں کچھ سمجھا نہیں۔ قاری بلال نے شمشاد کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر ٹھہر جاؤ ابھی تمہیں تمہارے اور مجھے میرے سوال کا جواب مل جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے قاری بلال نے جیب سے ایک رومال نکالا اور اسے گھر کے چاروں کونوں میں رگڑ کر اسے سونگھا
0 تبصرے