کالی بکری - پارٹ 6 آخری

Urdu Font Stories - 18
 
یہ گھر پوری طرح نہوست ذدا ہو چکا ہے شاید یہاں کبھی کوئی نماز نہیں پڑھتا ۔۔۔؟؟ کیوں ایسا ہی ہے یاں میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں۔۔؟؟ یہ کہتے ہوئے قاری بلال نے شمشاد کی طرف دیکھا تو شمشاد نے شرمندہ ہوتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا تو قاری بلال نے کہا تو یہ تھا میرے سوال کا جواب اسی وجہ سے وہ منہوس دن میں بھی اس گھر میں آرام سے ٹکی رہتی ہے اگر آپ لوگ نماز اور قرآن پڑھتے تو وہ خود ہی یہاں سے بھاگ جاتی لیکن ایک تو آپ لوگ نماز نہیں پڑھتے ہو اوپر سے آپ لوگوں نے شیطانی خون بھی پی لیا جو کہ آپ دودھ سمجھ کر اس بکری سے نکال کر پیتے رہے ہو یہ سن کر شمشاد نے حیرت سے کہا قاری وہ دودھ ہی تھا اگر آپ دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں ابھی بھی کچھ پڑا ہو گا یہ کہتے ہوئے شمشاد نے کہا وہ جو باقی بچا ہوا دودھ ہے وہ تو لے کر آؤ۔۔۔؟؟ 

یہ سنتے ہی صدیقہ جلدی سے گئی اور دودھ سے بھرا برتن لے آئی مولانا بلال نے کچھ پڑھا اور اس برتن پر پھونک مارتے ہوئے شمشاد سے کہا اب ذرا اس برتن کا ڈھکن اٹھا کر دیکھو۔۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے ڈھکن اٹھایا تو سب کے سب حیران رہ گئے کیونکہ اس برتن میں دودھ نہیں بلکہ کالا سا خون تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے شمشاد نے کہا قاری صاحب ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے بس آپ ہمیں اس منہوس سے بچا لیں ۔ یہ سنتے ہوئے مولانا صاحب نے کہا بچانے والی ذات الله تعالٰی کی ہے تم اس کا نام لیتے رہا کرو وہ تمہیں ان شیطانی طاقتوں سے بچاتا رہے گا پھر چائے کوئی بھی سامنے آ جائے الله کے کلام کا مقابلہ کوئی شیطانی طاقت نہیں کر سکتی۔ 

اب ایک بالٹی میں صاف پانی لے کر آؤ ۔ یہ سنتے ہی شمشاد پانی لے کر آگیا پھر مولانا صاحب نے کہا ایک گلاس میں پینے کا پانی لاؤ۔۔؟؟ شمشاد نے وہ بھی لا کر دے دیا تو مولانا بلال نے گلاس کے پانی پر کچھ پڑھا اور پھر گلاس والے پانی سے کچھ پانی بالٹی کے پانی میں ڈال دیا اور باقی کا پانی شمشاد کو دیتے ہوئے کہا یہ پانی آپ سب گھر کے لوگ تھوڑا تھوڑا پی لیں ۔ تو شمشاد وہ پانی خود بھی پیا اور باقی فروہ اور صدیقہ کو پلا دیا۔ اس کے بعد مولانا بلال نے شمشاد سے کہا اب میں جا رہا ہوں اور شام مغرب کی نماز کے بعد دوبارہ یہاں آؤں گا اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ شیطانی چیز آج دوبارہ یہاں ضرور آئے گی یہ سن کر شمشاد اور اس کے گھر والے ڈر کر مولانا بلال کی طرف دیکھنے لگے ۔ انہیں اپنی طرف حیرت سے دیکھنے کے بعد مولانا بلال نے کہا آپ لوگ اطمینان رکھیں وہ آج یہاں آخری بار ہی آئے گی کیونکہ آج ہم اس کا خاتمہ کر دیں گے۔ شمشاد نے کہا مولانا صاحب کیا ہم وہاں ویرانے میں جا کر اسے ختم نہیں کر سکتے۔۔؟؟ 

مولانا بلال نے کہا وہ ہمیں وہاں نہیں ملے گی اگر ملی بھی تو ہم اسے اس جگہ پر آسانی سے ختم نہیں کر سکیں گے کیونکہ وہ جگہ پوری طرح سے ناپاک ہے جہاں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور صدقے کی چیزیں گری ہوتی ہیں ایسے میں اگر ہم اسے وہاں قابو کریں گے تو وہ وہاں سے بھاگ جائے گی اور اگر اس دوران میرے کپڑوں پر ذرا بھی گندگی لگ گئی تو میرا عمل کمزور پڑ سکتا ہے اسی لیئے ہم اسے اسی گھر میں بلا کر ختم کر دیں گے یہ کہتے ہوئے مولانا بلال نے بالٹی کا پانی شمشاد کے صحن کے علاوہ ہر جگہ پر چھڑک دیا اور شمشاد سے کہا شام ہوتے ہی تم سب لوگ اس صحن کے سامنے والے کمرے میں ہی رہنا اور کمرے کا دروازہ کھلا رکھنا۔ شمشاد نے کہا لیکن مولانا صاحب ایسے تو وہ ہمارے کمرے میں گھس جائے گی اور ہمیں مار دے گی مولانا بلال نے کہا ہاں وہ تمہارے کمرے میں جانے کی کوشش کرے گی لیکن وہ تمہارے کمرے کی دہلیز پار نہیں کر پائے گی لیکن اس دوران تم میں سے کوئی بھی کمرے سے باہر نہیں نکلے گا۔ باقی میں سمبھال لوں گا۔ اتنے میں نعیم جو کافی دیر سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اس نے مولانا بلال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مولانا صاحب مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔؟؟ مولانا بلال نے کہا جی پوچھیئے جناب۔۔؟؟

 نعیم نے کہا میرے بھائی حاجی مشتاق بھی آپ کی طرح کافی نمازی پرہیزگار تھے لیکن ان کو اس منہوس نے بہت آسانی اور بے رحمی سے مار دیا تھا کیا وہ آپ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا دے گی۔۔؟؟ مولانا بلال نے کہا مشتاق صاحب میرے شاگرد ضرور تھے لیکن جیسا کہ آپ نے بتایا وہ اس ویرانے میں اس کے پیچھے گئے تو وہ شیطانی چیز ان پر حاوی ہو گئی ایسا اس وجہ سے ہوا کہ ایک تو حاجی مشتاق صاحب ابھی عمل سیکھ رہے تھے اس وجہ سے ان کا علم اس شیطانی چیز کے لیئے کافی نہیں تھا دوسرا وہ اسے قابو کرنے کی نیت سے ان کے مسکن میں چلے گئے جہاں یہ چیزیں آسانی سے قابو نہیں آسکتی اور ہو سکتا ہے اسی دوران ان کے کپڑوں میں کسی قسم کی گندگی لگ گئی ہو اس لیئے وہ شیطانی چیز ان پر حاوی ہو گئی ہو گئی باقی اگر وہ کسی اور جگہ پر ہوتے تو شاید وہ اسے قابو کر سکتے تھے ۔ 

علم کے دوران ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیئے جب بھی کوئی شیطانی چیز ڈر کر کہیں بھاگ رہی ہو تو کبھی بھی اس کے پیچھے نہیں جانا چاہیئے کیونکہ جس وقت وہ ڈر کر بھاگ رہی ہوتی ہے اس وقت اس کی طاقت میں بے پناہ اظافہ ہو چکا ہوتا ہے جسے وہ خود کو بچانے کے لیئے استعمال کرتی ہے اسی لیئے عمل کے دوران کوشش کرنی چاہیئے کہ کچھ بھی ہو جائے کوئی بھی شیطانی چیز کہیں بھاگ نا سکے اور اگر وہ کسی وجہ سے بھاگ جائے تو اس سے پیچھے ہرگز نہیں جانا چاہیئے بلکہ دوبارہ اس کے واپس آنے کا انتظار کرنا چاہیئے ۔ اس لیئے آج جب وہ اس گھر میں داخل ہوگی تو میں اسے یہاں سے بھاگنے کا موقع نہیں دونگا بلکہ یہیں اسے ختم کر دونگا۔ اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں شام کو الله کے فضل سے ہم اس کو جہنم واصل کر دیں گے

 انشااللہ۔ یہ کہہ کر مولانا بلال صاحب نعیم کے ساتھ چلے گئے۔ ان کے جاتے ہی شمشاد نے صدیقہ سے کہا یاد ہے نہ ہمیں کیا کرنا ہے۔۔؟؟ صدیقہ نے کہا جی ہم تیار رہیں گے۔ اس کے بعد سب نے کھانا وغیرہ کھایا اور اپنے کمرے میں جا کر قاری بلال صاحب کے بارے میں باتیں کرنے لگے پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد سب نے عصر کی نماز پڑھی اور مغرب کی نماز کا انتظار کرنے لگے اور جب مغرب کا وقت ہوا تو شمشاد اور صدیقہ نماز پڑھ کر فروہ کے جا کر بیٹھ گئے جو کہ بالکل صحن کے سامنے تھا اس دوران فروہ اور اس کے والدین پوری طرح سے ڈر کر سامنے صحن کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اچانک دھند کی شدت بڑھنے لگی اور صحن کے سب جانور دھندلے دکھائی دینے لگے اسی دوران اچانک ایک خوفناک آواز سنائی دی سے سن کر سب ڈر سے لرزتے ہوئے باہر دیکھنے لگے اتنے میں وہی کالی بکری بھاگ کر شمشاد کے کمرے کے دروازے کے پاس آکر کھڑی ہو گئی اور انہیں دیکھنے لگی لیکن شمشاد اپنی جگہ سے نہیں ہلا اور اسے دیکھتا رہا۔۔ ابھی شمشاد اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ بکری آہستہ آہستہ سے اس کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی تو جیسے ہی اس بکری کا پاؤں دروازے کی دہلیز پر پڑا تو اس بکری نے عجیب سی آواز میں ایک زور دار چیخ ماری اور اسی وقت وہ بکری ایک خوفناک عورت کی شکل میں بدل گئی

 اس کا چہرہ پوری طرح سے جلا ہوا اور بھیانک تھا اس کے ماتھے پر ایک بڑی سی لال رنگ کی آنکھ بنی ہوئی تھی ابھی شمشاد اور گھر کے باقی لوگ اس کی طرف دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ منہوس عورت ہاتھوں پیروں سے چلتی ہوئی دوبارہ ان کے کمرے میں داخل ہونے لگی تو جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ دروازے کے اندر رکھنا چاہا تو پھر سے اسے ایک زور دار جھٹکا سا لگا اور وہ خوفناک سی آوازیں نکالتے ہوئے ادھر اُدھر بھاگنے لگی اور دوبارہ شمشاد کے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگی یہ دیکھتے ہوئے فروہ نے اپنا منہ صدیقہ کی آغوش میں چھپا لیا اس دوران وہ منہوس ان کو دیکھتے ہوئے دروازے پر کھڑی بار بار اپنا بڑا سا منہ کھول رہی تھی جس میں سے اس کی سانپ جیسی دو کونے والی زبان اور اس کے خون آلود دانت صاف دکھائی دے رہے تھے

 ابھی وہ منہوس ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک مولانا بلال صاحب اس منہوس کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے جلدی سے ایک پانی سا اس منہوس کے اوپر پھینکا جس کی وجہ سے اس منہوس نے چیختے ہوئے مولانا کی طرف دیکھا اور وہاں سے بھاگنے کے لیئے باہری دیوار پر چڑھنے لگی تو اچانک اسے پھر سے ایک زور دار جھٹکا لگا اور وہ چلاتے ہوئے واپس مولانا کی طرف بڑھی تو مولانا بلال کچھ پڑھنے لگے اس دوران جیسے ہی اس منہوس نے مولانا پر حملہ کرنا چاہا تو مولانا بلال نے اس کے بال پکڑ لیئے جس کی وجہ سے اس منہوس کی چیخیں نکل گئی۔

 اسی وقت مولانا بلال نے اپنی جیب سے ایک پانی کی بوتل نکالی اور اسے منہ سے کھول کر وہ سارا پانی اس منہوس کے سر پر ڈال دیا اور جسے سے وہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگی اسی دوران مولانا نے جیب سے ایک چھوٹی سی کینچی نکال کر اس کینچی پر کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور اس سے اس منہوس کے کچھ بال کاٹ کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیئے اسی دوران وہ منہوس زمین پر گر کر بری طرح ٹرپنے لگی۔

 پھر بلال صاحب نے ایک اور چھوٹی بوتل نکالی جس میں کالے رنگ کا پانی تھا وہ سارا پانی مولانا بلال نے اس منہوس پر چھڑک دیا اس پانی کے اس پر پڑتے ہی اس منہوس کے جسم سے دھواں نکلنے لگا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے مولانا بلال نے اس پر تیزاب پھینک دیا ہو۔ اس دوران مولانا نے ایک کاغظ کا بنا تعویز نکالا اور اس میں اس منہوس کے بال ڈال کر اس تعویز کو آگ لگا دی پھر کیا تھا کہ شمشاد کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ منہوس کا سارا جسم جلنے لگا اور اس کے جسم سے طرح طرح کے رنگ کی آگ نکل رہی تھی پھر اچانک اس کا سارا جسم جل کر خاکستر ہو گیا اور مولانا صاحب نے شمشاد سے کہا اب آپ باہر آ جائیں اور ایک بالٹی پانی لے کر آئیں یہ سن کر شمشاد جلدی سے مولانا بلال کے پاس پانی کی بالٹی لے کر گیا۔

 پھر مولانا بلال نے ایک اور تعویز نکال کر اس بالٹی کے پانی میں ڈال دیا اور شمشاد سے کہا اب اس خاک کو اس پانی سے دھو ڈالو۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے وہ ساری راخ اس پانی سے دھو ڈالی۔ اس کے بعد مولانا بلال صاحب نے شمشاد سے کہا آپ مبارک ہو الله کے فضل اور پاک کلام کی وجہ سے اب وہ منہوس جہنم واصل ہو چکی ہے۔ یہ سن کر شمشاد نے مولانا بلال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خوشی سے مولانا بلال صاحب کے ہاتھ چوم لیئے اور جلدی سے کچھ پیسے نکال کر مولانا بلال کو دیتے ہوئے کہا مولانا صاحب یہ آپ کا ہدیہ ہے برائے مہربانی نہ مت کیجئے گا۔ مولانا بلال صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا یہ پیسے تو بہت کم ہیں مجھے تو زیادہ چاہیئں۔۔

 یہ سن کر شمشاد نے دوبارہ جیب سے اور پیسے نکال کر کہا یہ لیئجئے مولانا صاحب مولانا نے کہا یہ تو اب بھی کم ہیں۔۔ یہ سنتے ہی شمشاد نے کہا حضور گستاخی معاف لیکن اس سے زیادہ ابھی میرے پاس نہیں ہیں۔۔ یہ سنتے ہوئے مولانا نے وہ پیسے پکڑے اور ہنستے ہوئے دوبارہ شمشاد کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا اگر آپ مجھے ہدیہ دینا ہی چاہتے ہیں تو آج سے آپ تمام لوگ پانچ وقت کی نماز پڑھا کریں اور گھر میں قرآن پاک کی تلاوت ضرور کیا کریں جہاں پانچ وقت کی نماز پڑھی جائے اور قرآن پاک کی تلاوت باقاعدگی سے کی جائے وہاں کبھی کوئی بھی شیطانی طاقت زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکتی اس لیئے آپ لوگ اب سے پانچ وقت کی نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کیا کریں تاکہ دوبارہ آپ کو میری ضرورت نا پڑے کیونکہ اگر آپ لوگ یہ کام پہلے کرتے تو شاید مجھے یہاں آنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کیونکہ الله کے کلام کے آگے کوئی طاقت سر نہیں اٹھا سکتی اس لیئے پورے یقین کے ساتھ الله کی عبادت کیا کرو اور الله سے اپنے لیئے مدد طلب کیا کرو انشاء اللّه کبھی مایوس نہیں ہو گے اور جہاں تک ہو سکے ہر قسم کی لالچ خود کو بچاؤ۔ یہ سن کر شمشاد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ 

شمشاد نے کہا مولانا صاحب آج سے ہم زور نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کیا کریں گے۔ یہ سن کر مولانا بلال صاحب نے شمشاد کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا شاباش ماشااللہ۔۔ تو اب آپ مجھے اجازت دیں آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔ یہ کہہ کر مولانا بلال صاحب وہاں سے چلے گئے اور اس رات کے بعد شمشاد اور اس کے گھر والوں نے پانچ وقت کی نماز پڑھنے اور قرآن پاک کی تلاوت باقاعدگی سے کرنے کی عادت ڈال لی تو اس کے بعد ان کے ساتھ کبھی کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہیں ہوا 
(ختم شد )

👇👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے