انہی خیالات کے ساتھ وہ تھک کر بستر پر اوندھا لیٹا اور تمام سوچوں سے غافل ہو گیا۔ اگلی صبح وہ اپنے شکار کے ہوٹل میں بھیڑ کے ساتھ داخل ہوا اور عقبی زینے کی طرف بڑھ گیا۔ ماحول سُنسان اور سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ و ادھر اُدھر دیکھ کر محتاط انداز سے گول چکر دار زینے پر قدم بڑھانے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ زینے کے بلوں کی مانند زندگی بھی سیدھی اور سپاٹ نہیں بلکہ اُلجھا گھما دینے والی ہے۔ وہ قدم اٹھاتا ہوا اوپر چلا آیا، اسی لمحے لفٹ دوسری منزل پر آ کر رک گئی۔ لوگ باہر نکل کر راہداری میں پھیل گئے۔ سلیمان سیڑھیوں پر ہی رُک گیا۔ وہ لوگوں کے ادھر اُدھر ہٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب راہداری سُنسان ہوئی تو وہ اوپر چلا آیا۔
اس کے قدم تیزی سے کمرا نمبر ایک سو پندرہ کی طرف اٹھنے لگے۔ دروازے کے سامنے رک کر اس نے ہیٹ سر پر جھکا دیا اور قمیض کے بڑے کالر کھڑے کر لیے ، پھر آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ کون ہے ؟ کسی نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ جناب ! میں ہوٹل بوائے ہوں۔ آپ کے لیے ایک پارسل لایا ہوں۔ سلیمان نے تیزی سے کہا۔ پارسل …! اندر سے، حیرت سے رُک رُک کر دُہرایا گیا۔ اچھا اسے دروازے کے پاس چھوڑ دو۔ میں بعد میں اُٹھا لوں گا۔ مگر جناب قاعدے کے مطابق مجھے آپ کے دستخط بھی کرانا ہیں۔ اچھی بات ہے۔ ایک منٹ ٹھہرو، میں دروازہ کھولتا ہوں۔ اندر موجود شخص نے خاصے تذبذب سے کہا اور سلیمان کے ہونٹوں پر پُراسرار سی مسکراہٹ آگئی۔
اس نے بریف کیس کھولا اور اس میں موجود مختلف پرزوں کو جوڑنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے اُس کے ہاتھ میں جدید ساخت کا والٹر اسکاٹ ریوالور تیار تھا، جس پر سائلنسر فٹ تھا۔ یہ حیرت انگیز ریوالور پرویز خان نے فراہم کیا تھا، جو یورپ کے کسی جرائم پیشہ آدمی نے تیار کیا تھا اور خفیہ طور پر لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کر رہا تھا۔ اس نے ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹاتے ہوئے دروازے کی طرف تان دیا۔ اُس کی ساری توجہ دروازے کے پیچھے سے ابھرنے والی آہٹوں پر مرکوز تھی۔ قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ دروازے کی طرف آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے کے عضلات میں سختی اور بے رحمی ابھر آئی۔ خون میں برق سی دوڑ گئی۔ اس وقت اندر سے چٹخنی کھلنے کی آواز آئی۔ کس چیز پر دستخط کرنا ہیں ؟ دروازہ کھولتے ہی اس شخص نے پوچھا۔ اپنی موت کے سرٹیفکیٹ پر سلیمان نے سرد لہجے میں کہا اور ٹرائیگر دبا دیا۔ فائر کی آواز سائلنسر کی وجہ سے کمرے کے اندر ہی رہ گئی۔
باہر راہداری میں کوئی ہوتا بھی تو سُنائی نہ دیتی۔ گولی ٹھیک اُس کے شکار ارباز خان کے ماتھے پر پڑی تھی۔ وہ الٹ کر فرش پر لڑھک گیا۔ اسے چیخنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ سُرخ خون ابل ابل کر سفید قالین پر پھیلنے لگا۔ سلیمان تیزی سے اندر داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔ اس نے ریوالور اپنی پتلون میں اُڑس لیا تھا۔ اس نے اپنی جیکٹ کی جیب سے دستانے نکال کر پہن لیے۔ موسم سرد تھا لہذا لوگ شرٹس یا قمیض کے اوپر کچھ نہ کچھ پہن کر نکلے تھے۔ وہ پھرتی سے کمرے کی تلاشی لینے لگا۔ الماری کے خانے ، میز کی درازیں، قالین، کوئی چیز اس کے ہاتھ سے نہ بچی، یہاں تک کہ اُسے وہ شے مل گئی جس کی اُسے جستجو تھی۔ یہ ایک کالے رنگ کا سفری بیگ تھا، جو ارباز خان نے دوسرے سامان میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔
جونہی سلیمان نے سنہری زپ کھولی، اُس کی آنکھوں میں چمک بھر گئی۔ اُس نے اندر رکھے ہوئے نوٹوں کے تمام بنڈل میز پر الٹ دیئے، پھر جلدی جلدی تمام رقم گن ڈالی اور جب مجموعی تعداد معلوم ہوئی تو اس کی پیشانی پر ناگواری کی سلوٹیں پڑ گئیں۔ رقم اس تعداد سے بھی نصف تھی جتنی اسے پانے کی توقع تھی۔
اس نے اضطراب کے عالم میں تیزی سے دوبارہ کمرے کی تلاشی لی مگر کچھ اور نہیں مل سکا۔ دل ہی دل میں کھولتے ہوئے اُس نے ارباز خان کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور لپک کر اس کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے قریب پہنچ کر اس نے ایک زور دار ٹھوکر اُس کی پسلیوں پر دے ماری۔ اب اُسے افسوس ہو رہا تھا کہ اُس نے پرویز خان کے حکم کے مطابق ارباز خان کو ٹھکانے لگانے میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ پہلے کمرے کی تلاشی لینا ضروری تھا، پھر اس سے باز پرس کر کے اُسے موت کے حوالے کرنا چاہیے تھا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکا تھا، باقی دولت کا راز اسے اب خود ہی معلوم کرنا تھا۔
کچھ سوچ کر اُس نے اُس کی جیبوں کی تلاشی لی مگر سوائے بٹوے کے اُس کی جیبوں سے کچھ نہ نکلا۔ وہ چند لمحے تک قالین پر پڑی لاش کو گھورتا رہا، پھر لمبے لمبے سانس لیے اور نوٹوں کے بنڈل اور ریوالور کو اپنے بریف کیس میں رکھ لیا۔ مقتول کا پرس بھی ان کے ساتھ رکھتے ہوئے بریف کیس بند کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ راہداری میں اس نے دستانے اتار کر جیب میں رکھے اور کچھ قدم چل کر عقبی زینے کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے چلی منزل کے واش روم میں گھس گیا۔ وہاں سے ایک منٹ بعد باہر نکلا اور توقع کے مطابق واش رومز سے نکلنے والے تین چار افراد میں شامل ہو کر ہوٹل کے بال کی طرف بڑھنے لگا۔
ہال میں رونق اور گہما گہمی تھی۔ دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ ہال میں بیٹھے لوگ ناشتہ کرنے ، اخبار پڑھنے اور ایل سی ڈی اسکرین پر تازہ سیاسی خبریں سنے اور تبصرے کرنے میں مگن تھے۔ کچھ لوگ اندر داخل ہو رہے تھے، کچھ ریسیپشن پر موجود تھے۔ بیرے ادھر ادھر آجارہے تھے۔ کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ آہستگی سے چلتا ہوا ہوٹل کے عقبی دروازے کی طرف آیا اور وہاں کسی کو موجود نہ پا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ سڑک پر آ کر اس نے پاس سے گزرتی ہوئی ایک ٹیکسی کو روکا۔ ایئرپورٹ وہ اندر بیٹھتے ہوئے بولا اور ٹیکسی روانہ ہو گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ ایک گھنٹے بعد ایک طیارہ پرواز کرنے والا ہے۔ ایک نئی کمپنی نے متعدد پروازیں اب شروع کر رکھی تھیں۔
طیارے میں داخل ہو کر وہ مطلوبہ سیٹ پر بیٹھا اور سیٹ کی پشت سے کمر ٹکاتے ہوئے بقیہ نصف رقم کے بارے میں سوچنے لگا چونکہ تھوڑی رقم ہی برآمد ہو سکی تھی، اس لیے ابھی اسے باقی رقم تلاش کرنے کے لیے مزید دوڑ دھوپ کرنا تھی۔ وہ دل ہی دل میں قسمت کو بُرا بھلا کہنے لگا۔ وہ دُگنی مصروفیت میں پھنس گیا تھا۔ اس وقت جب اسے اپنا فائنل امتحان دینے کے لیے مکمل یکسوئی سے تیاری کرنا تھی، یہ درد سر اُسے امتحان سے دُور کر سکتا تھا، جبکہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنا اس کے لیے زندگی اور موت والا معاملہ تھا۔ اگر وہ امتحان میں ناکام ہو جاتا تو عروہ اس سے منہ موڑ کر کامران سے شادی کر لیتی۔
یہ بات وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا مگر اس کے پائوں جرم کی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہاں بھی معافی نہیں تھی۔ وہ کام سے انکار نہ کرنے کا معاہدہ کر چکا تھا۔ اسے اپنے دماغ کی رگیں پھولتی محسوس ہوئیں۔ اس نے اپنا سر تھام لیا۔ طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا۔ دوسرے دن وہ کراچی ڈیفنس میں واقع ایک ماڈرن طرز کی عمارت کی دوسری منزل پر لفٹ سے اتر رہا تھا۔ وہ ایک دروازے کی طرف بڑھا، جس پر نیو کراچی انٹر پرائزز کے الفاظ تحریر تھے۔ جیسے ہی وہ دروازہ کھول کر سجے ہوئے استقبالیہ میں داخل ہوا، خوبصورت سی سیکرٹری نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اسے پسند کرتی تھی۔ سلیمان نے بھی ہوائی بوسہ اچھال دیا۔ سیدھے اندر چلے جائو مسٹر سلیمان۔ وہ بڑی ادا سے چہک کر بولی۔ مسٹر پرویز اور دلاور خان آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
سلیمان نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک دوسرے دروازے کی طرف چل دیا۔ جس پر پرائیویٹ کی تختی آویزاں تھی۔ اندر آفس میں پرویز خان اور دلاور خان بے تابی سے سگریٹ پیتے ہوئے اس کے منتظر تھے۔ جونہی پرویز خان کی اس پر نظر پڑی، وہ پُرجوش لہجے میں بولا۔ ہیلو برخوردار ! کہو ایڈونچر کیسا رہا…؟ کامیاب مگر سلیمان کے منہ سے کھوئے کھوئے لہجے میں نکلا۔ مگر کیا ..! پر ویز خان چونک کر تیزی سے بولا۔ جواب میں سلیمان نے بریف کیس اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس میں پچاس لاکھ روپیہ ہے اور وہ رقم بھی، جو اس کے پرس سے برآمد ہوئی ہے۔ سلیمان خان نے بریف کیس کھول دیا۔ مگر اس کے پاس تو پورے دو کروڑ روپے تھے ۔ دلاور خان جو پرویز کا خاص ساتھی تھا سُرخ ہوتے ہوئے بولا۔ باقی رقم تم نے تو نہیں مار دی کالج بوائے ! سلیمان کا چہرہ سُرخ ہو گیا، جبڑے کے عضلات تن گئے اور اس کا سیدھا ہاتھ ریوالور کی طرف بڑھا، جو اب بھی کھلے ہوئے بریف کیس میں یکجا صورت میں رکھا ہوا تھا۔
تم اپنا منہ بند رکھا کرو، تم جذباتی اور بے لگام آدمی ہو ۔ پرویز نے اسے ڈانٹا۔ وہ بُرے بُرے منہ بنانے لگا۔ مائی ڈیئر سلیمان ! تم اس احمق کی باتوں کا بُرا مت مانو ، اس کے پاس دماغ نہیں ہے ، صرف زبان ہی زبان ہے ۔ سلیمان نے ایک گہرا سانس لے کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔ میں جانتا ہوں کہ تم ہمارے ساتھ غداری نہیں کر سکتے ۔ پرویز خان نے کہا۔ مگر ارباز خان نے دو کروڑ کا غبن کیا تھا۔ اب تنظیم ہر حال میں وہ رقم واپس چاہتی ہے۔ مجھے بتائو کہ باقی رقم کہاں ہو سکتی ہے، میں جا کر لے آئوں گا؟ سلیمان نے میز پر مکا مارتے ہوئے کہا۔
یہ ہمارے کارکنوں کی رپورٹ ہے۔ جو انہوں نے ارباز خان کے جیل سے نکلنے کے بعد اس کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کے بارے میں فراہم کی تھی۔ پرویز نے ایک فائل سلیمان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد ہم نے ارباز خان کو پھر سے اُس کے کام پر لگا دیا تھا مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ضرورت سے زیادہ پینے لگا ہے اور ایک رقاصہ کے چکر میں پڑ گیا ہے تو تنظیم کی انتظامیہ نے اُسے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا مگر اس سے پہلے کہ فیصلہ پر عمل ہو سکتا ارباز خان کو اس کی سن گن مل گئی اور وہ دو کروڑ روپے لے کر فرار ہو گیا۔ پرویز خان نے قلم اٹھا کر کاغذ پر کچھ لکھا اور پرزہ سلیمان کی طرف بڑھا دیا۔ یہ گلبرگ کے اس کلب کا پتا ہے ، جہاں وہ ڈانسر رقص کرتی ہے۔ اس کا نام ستارہ ہے۔ تم یہ کام میرے سپرد کیوں نہیں کر دیتے ؟ دلاور خان نے لقمہ دیا۔
میں اس قماش کی عورتوں سے نمٹنا خوب جانتا ہوں۔ تم جذباتی آدمی ہو ، تمہارے لیے دوسرے کام ہی مناسب ہیں۔ پرویز خان نے ناصحانہ لہجے میں کہا اور دلاور کامنہ پھر لٹک گیا۔ پرویز نے اپنا رخ بدل کر سلیمان کی طرف کر لیا۔ تم اس عورت کو اپنے دام میں پھانس لو اور باتوں ہی باتوں میں معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ وہ بقیہ رقم کے متعلق جانتی ہے یا نہیں ! ہم اس کے ساتھ بلا ضرورت سختی نہیں کرنا چاہتے ، اس لیے کہ ابھی کچھ دن تک اخبارات میں ارباز خان کی موت کا تذکرہ ہوتارہے گا۔ تم اُسے کسی ایسی جگہ لے جانے کی کوشش کرنا جہاں تنہائی اور سکون ہو اور اس کام کے لیے ہمارا دریا کنارے ویران مقام پر بنا ہوا بنگلہ بہترین قیام گاہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہم نے اس کے ارد گرد طلسمات پھیلا رکھے ہیں۔ لوگ اس طرف جاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ جب سے دو پولیس والوں کی وہاں سے لاشیں ملی ہیں لوگ تھرتھر کانپتے ہیں۔ پرویز خان نے پروگرام سمجھاتے ہوئے کہا پھر چونک کر بولا۔ تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے ؟ بس جناب امتحان سر پر آرہا ہے اور تیاری نامکمل ہے۔ اوہ یہ تو مسئلہ ہے، مگر ہمارا مشن بھی فوری نوعیت کا ہے۔ اس کام کے بعد تم جم کر پڑھائی کرو اور امتحان پاس کر لو، تعلیم انسان کا زیور ہے۔ پرویز خان نے مشفقانہ انداز سے سلیمان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جبکہ دلاور خان کراہ کر رہ گیا۔ اُس کی انگارہ آنکھیں سلیمان کو گھور رہی تھیں۔
سلیمان گلبرگ تھری کے ماڈرن اور شاندار کلب و ہوٹل بلیو مون میں داخل ہوا۔ ریسیپشن گرل نے ستارہ کا نام سُن کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ آج اس کا رقص نہیں تھا، وہ جلد ہی اپنے فلیٹ پر چلی گئی تھی۔ وہ کائونٹر سے ہٹ کر ایک بیرے کے پاس آکر رکا اور اُسے نوٹوں کی جھلک دکھا کر ایک قریبی میز پر لے گیا۔اس کے ہاتھ کی سنہری گھڑی، مہنگے سگریٹ اور انگلیوں میں بیش قیمت انگوٹھیاں دیکھ کر ویٹر مرعوب سا ہو گیا تھا۔
مجھے ڈانسر ستارہ کے فلیٹ کا ایڈریس درکار ہے، اس شرط پر کہ تم کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کرو گے۔ مگر جناب والا مجھے ستارہ کے فلیٹ کا ایڈریس معلوم نہیں۔ منیجر یا ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی ہی بتا سکتی ہے۔ بیرا گڑبڑا کر بولا۔ سب کچھ ممکن ہے مائی ڈیئر ۔ سلیمان نے پانچ ہزار کے نوٹ کو رول کرتے ہوئے اُس کا ایک سرا بیرے کے ہاتھ میں چھویا تو وہ مسکرا دیا۔ اچھا، میں کوشش کرتا ہوں، مگر دس ہزار روپے ہوں گے۔ پانچ ریسیپشن والی لے گی اور پانچ میں۔ بیرا مسکرا کرا بولا۔ نوٹ دیکھ کر اس کی رال ٹپک پڑی تھی۔ وہ کائونٹر پر گیا اور دومنٹ بعد کاغذ کی ایک چٹ سلیمان کی طرف بڑھا دی۔ رات بارہ بجے کا وقت تھا۔ کلب کی رونق ماند پڑ گئی تھی۔ گلبرگ چوک میں سیاسی جلسہ تھا اس لیے لوگ اس طرف متوجہ تھے۔
داخلی دروازے پر کچھ لڑکے اور لڑکیاں دکھائی دے رہے تھے جو شاید ٹورسٹ تھے۔ سلیمان کلب سے باہر آکر ٹیکسی میں سوار ہوا اور فیصل ٹائون کے فلیٹس کی طرف روانہ ہو گیا۔ رات ایک بجے کا وقت تھا، جب وہ فیصل ٹائون فلیٹ کے اونگھتے ہوئے چوکیدار کے پاس سے گزر کر نیم تاریک زینے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ فلیٹس کی مین روڈ والی سائیڈ پر اس وقت بھی کافی رونق دکھائی دے رہی تھی، مگر وسطی مقام پر اندھیرا اور سناٹا تھا۔ چوکیدار شاید نشہ کرنے کا عادی تھا۔ وہ کرسی پر سویا پڑا تھا۔ سلیمان ہولے ہولے سیٹی بجاتا، بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا تیسری منزل پر آپہنچا۔ اسی وقت زور سے بجلی چمکی ،اس کی روشنی میں اس نے زینے کے اختتام کے سامنے ستارہ کے فلیٹ کے کنڈے پر پڑا ہوا بڑا سا تالا دیکھ لیا جو اُس کا منہ چڑھا رہا تھا۔ اس نے زینے سے اوپر راہداری میں آکر طائرانہ نگاہ ڈالی۔
چھوٹے چھوٹے پرانی ساخت کے پہلے بلب روشن تھے جن کی روشنی ماحول کو اُجاگر کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ یہ فلیٹ نمبر 220 تھا۔ وہ چند لمحے بے بسی کے عالم میں کھڑا دروازے کو گھورتا رہا پھر واپس ہو لیا۔ چوکیدار اب بھی اُونگھ رہا تھا۔ سلیمان اپنا پستول جیب میں ٹولتا ہوا فلیٹس کے سامنے واقع باغیچے کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اس فلیٹ کی نگرانی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
👇👇
0 تبصرے