اتفاق سے ہم دونوں کے مقدر میں کوئی عورت نہیں لکھی اور تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ ٹی وی سے جو خبر نشر ہوئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ مسروقہ نوٹ بالکل نئے ہیں۔ ان کے نمبر بینک میں محفوظ ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجرم اس صورت میں یہ نوٹ اس شہر میں خرچ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ شنکر نے سر ہلا کر کہا۔ وہ یقینا کسی دوسرے صوبے میں فرار ہو گیا ہو گا۔
وہ بنگال، آسام .. یا میسور بھی جاسکتا ہے کیونکہ یہاں اتنی بڑی رقم غیر محفوظ ہونے کے علاوہ اس کی جان بھی خطرے میں تھی۔ دفعتاً مجھے اپنے سابق باس کا خیال آیا۔ میں اس کے بارے میں سوچنے لگا جس کے دو روپ تھے۔ اس کا ایک روپ یہ تھا کہ وہ اس ملک کا بہت بڑا صنعتکار تھا، دوسرے وہ زیر زمین دُنیا کا مافیا تھا۔ اس نے جرائم پیشہ افراد کا ایک گروہ بنا رکھا تھا۔ اس معاملے کا سنسنی خیز اور دل چسپ پہلو یہ تھا کہ ایک ڈاکو نے دوسرے ڈاکو کی دولت پر زبردست ڈاکا مارا تھا۔ لوہے کو لوہے نے کاٹا تھا۔ جب ہم اس کے آلہ کار تھے اور اس کا ہر حکم بجالاتے تو وہ دنیا کی ہر آسائش، شباب اور شراب فراہم کرتا تھا۔
شنکر کا اس گروہ سے نکلنا اس کی اپنی لغزش کا نتیجہ تھا مگر میرے اخراج کا سب ایک قتالۂ عالم تھی۔ میں ان دنوں ایک پری پیکر سے محبت کرتا تھا، اس کا نام کانتا تھا۔ میں اس بت طناز پر دل کھول کر خرچ کرتا تھا۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس پر اپنی آمدنی لٹاتا تھا۔ وہ نہ صرف سمجھدار، مہربان، فیاض، بلکہ شاطر بھی تھی۔ میری مت ماری گئی تھی جو میں نے اسے اپنے باس سے ملا دیا تھا کہ وہ میرے انتخاب پر رشک کرے۔ دراصل اسے عالمی مقابلہ حسن میں شریک کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اس کے تناسب اس معیار پر پورے اترتے تھے جو مقابلے کے لیے مقرر تھے لیکن میرا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ مجھے امید نہیں تھی کہ وہ بے وفا نکلے گی۔ اسے جیسے ہی باس کا قرب نصیب ہوا اس نے مجھے یکسر فراموش کر دیا مگر میں ہمت ہارنے والوں میں سے نہ تھا، اس لیے کہ وہ میرا سپنا تھی اور میں اسے شدت سے چاہتا تھا کہ اس سے بے تعلق نہیں ہو سکتا تھا۔ جب باس نے میری اس جذباتی کیفیت اور دیوانگی کو محسوس کیا تو اس نے مجھے اپنے گروہ سے نکال دیا۔ علیحدہ کرتے وقت اس نے نہایت واشگاف الفاظ میں مجھے تنبیہ کی تھی کہ میں بھولے سے بھی اس کے اور کانتا کے درمیان حائل ہونے کی کوشش نہ کروں۔ اگر کیا، تو یہ ناقابل معافی حماقت ہو گی، پھر میری لاش کا پتا بھی نہیں چلے گا۔
میں اتنا بے وقوف نہ تھا کہ میں اس کی دھمکی پر کان نہ دھرتا… کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ بے رحم ، سفاک اور خطرناک شخص ہے۔ مجھے کانتا کے ساتھ گزرے لمحات گزار کر اسے بھلا دینے کا دُ کھ اس لیے بھی نہیں تھا کہ میں جانتا تھا کہ جیب بھری ہو تو ایک کیا، ایسی دس کانتا مل جاتی ہیں۔ دل کو اور خود کو دلاسا دے کر کتوں اور ناراض شوہروں کی تلاش کے دھندے سے لگ گیا۔
رات کے نو بجے میں اور شنکر بار سے نکلے تو اس وقت طبیعت بڑی بھاری تھی اور بھوک بھی لگ رہی تھی۔ شنکر نے ایک ٹھیلے سے برگر خریدا۔ ہم آدھا آدھا کھاتے ہوئے بوجھل قدموں سے اپنی نرک جیسی کھولیوں کی طرف بڑھے۔ بلڈنگ کی سیڑھیوں کے پاس مالکن ٹھنی نظر آئی جو کچھ کرایے داروں سے الجھی ہوئی تھی۔ میں دبے پائوں اس کی نظروں سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا مگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ مسٹر شیکھر … اس کا لہجہ استہزائیہ تھا۔ وہ تیزی سے اس طرف آئی۔ میں نے ندامت سے کہا۔ سوری مس نلنی…! چونکہ مجھے اندیشہ تھا کہ آپ کہیں دوسرے کرایہ داروں کے سامنے کرایہ مانگ کر شرمندہ نہ کریں۔ کافی دنوں سے کوئی گم شدہ کتا، کتیا ملی اور نہ ہی شوہر … اس لیے ابھی آپ کی نظروں سے کترا کے نکل رہا تھا۔ آئی ایم سوری۔
لمحے کے لیے نلنی کی آنکھوں میں ایک چمک سی کوند گئی ، پھر اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور پھر بڑی خوش اخلاقی سے بولی۔ مجھے تمہاری طرف سے اطمینان ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تم ایک ذمے دار شخص ہو۔ جیسے ہی تمہیں پیسے ملیں گے میرا کرایہ ادا کرو گے۔ پھر اسے اچانک یاد آگیا۔ تمہیں کسی نے فون کیا تھا, کس نے ؟ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ نلنی نے تیزی سے اپنی سرمگیں پلکیں جھپکائیں اور شوخی سے بولی۔
کوئی لڑکی تھی۔اس کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ تمہاری کوئی پرانی شناسا ہے۔ اس نے پیغام دیا ہے کہ تم آج ہی اس سے رابطہ کر لو۔ پھر توقف کر کے اپنے پرس سے نوٹ بک نکالی اور اس کی ورق گردانی کرتی ہوئی بولی۔ ایک منٹ … اس کا نمبر دیتی ہوں۔ اس کا نام کیا تھا؟ میں نے بے تابی سے سوال کیا۔ نلنی نے ذہن پر زور دیا اور سوچنے لگی، پھر بولی۔ بڑا سندر نام تھا… اس کا نام کانتا تھا۔ میں اک دم سے چونک پڑا۔ مجھے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا۔ اس نے پرس سے بال پین نکال کر ایک کاغذ پر نمبر لکھ کر اسے پھاڑا، پھر میری طرف بڑھا دیا۔ ہاں… ایک بات مجھے جو یاد آئی، اس نے کہا تھا کہ اگر آج تم کسی وجہ سے فون نہ کر سکو تو پھر اس وقت تک نہ کرنا جب تک خود میں فون نہ کروں۔ پھر وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی اور اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ کیا وہ کوئی مال دار بیوہ ہے ؟ اس قسم کی عورتیں دل کھول کر رقم خرچ کرتی ہیں۔ میں اس کے خلاف ہوں۔ میں محبت سے جیتنے کے حق میں ہوں۔ میرے نزدیک محبت خریدنا غیر شائستگی اور ایک طرح سے سودے بازی ہے۔ تمہیں اتنا ارزاں نہیں بننا چاہیے۔ مجھے دیکھو! کبھی میری آنکھوں میں جھانکو۔
مجھے اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی فرصت کہاں تھی۔ کانتا کے پیغام نے میرے اندر بے چینیاں بھر دی تھیں۔ میں اسے فورا فون کرنا چاہتا تھا۔ جب میں کانتا سے فون پر بات کر کے ریسیور کریڈل پر رکھ رہا تھا تو نلنی کا ہلکا سا قہقہ سُنائی دیا۔ اس کے قہقہے میں جو حسرت اور خفت تھی … وہ بھی میری راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ میں کانتا کے فلیٹ کی طرف جا رہا تھا تو میرے ذہن میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے۔
اس بے وفا نے مجھے آج کیوں یاد کیا تھا۔۔؟ آخر میری کیا ضرورت آن پڑی تھی جب کہ میرے باس نے ایک مہارانی کی طرح رکھا ہوا تھا۔ کیا باس کا دل اس سے بھر گیا یا اس کھلونے سے کھیل کر باس نے اسے اپنی زندگی سے نکال دیا ہے ؟ کیا اس کے دل کے نہاں خانے میں میری سوئی محبت جاگ اٹھی ہے؟ نہیں ایک قلاش شخص سے دُنیا کی بدصورت سے بدصورت عورت محبت کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ کہیں وہ یہ تو نہیں چاہتی کہ باس کو میرے ہاتھوں قتل کروا کے اس کی ساری دولت ، کاروبار اور جائیداد پر قابض ہو جائے… ؟ اس بات کا امکان تھا۔ میں نے اس کے فلیٹ کی اطلاعی گھنٹی بجائی۔ چند لمحوں کے بعد ڈور سے کانتا کے قدموں کی چاپ آتی سُنائی دی پھر اس کی آواز آئی- دروازہ کھلا ہے۔ اندر آکر کھانے کی ٹیبل پر آجائو وہاں تمہارے لیے چکن بروسٹ اور مشروب خاص موجود ہے۔ جب میں اندر گھسا اور اسے متلاشی نظروں سے دیکھا تو اس کی ریشمی آواز کا زیرو بم فضا میں گونجا۔ تم بھوجن کرو، میں تھوڑی دیر میں آرہی ہوں۔
میرا حال بھوک سے برا ہو رہا تھا۔ میں چکن بروسٹ پر کسی گدھ کی طرح ٹوٹ پڑا اور ندیدوں کی طرح شکم سیر ہونے لگا۔ چکن بروسٹ فل تھا۔ خواب گاہ کی تپائی پر مشروب سے بھری بوتل، سوڈا کی بوتل اور گلاس بھی موجود تھا۔ مہینوں بھر بعد تو خوب کھانے کو ملا تھا۔
کانتا کے آنے تک چکن بروسٹ کا نام و نشان تک باقی نہ تھا۔ صرف ہڈیاں بیچی تھیں۔ ان پر گوشت کا ریشہ تک نہ رہا تھا۔ مشروب پیتے ہوئے میں ہلکی ہلکی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا۔ میں اس فلیٹ اور اس کی شاہانہ آرائش کے طلسم میں کھو گیا۔ دریچے کے قریب نرم گدے، مخملیں تکیے اور ریشمی چادر والی مسہری بچھی تھی۔ میں نے اپنے لیے دوسرا جام تیار کیا۔ اس اثنا میں کانتا غسل خانے سے نمودار ہوئی تو اس کے مخملیں شانوں پر ریشمی سیاہ زلفیں بادلوں کی طرح بکھری ہوئی تھیں۔ اس کے بالوں سے سوندھی سوندھی خُوشبو کی مہک پھوٹ رہی تھی۔اس کا پُر شکوہ سراپا غضب ڈھا رہا تھا۔ اس کا حسن پہلے کی طرح دل فریب اور شعلہ جوالا بنا ہوا تھا۔ کانتاجان … ! میں حیران ہوں کہ آج تم نے مجھے کیسے یاد کر لیا؟ کہیں میں سپنا تو نہیں دیکھ رہا… مجھے یقین تھا کہ تم مجھ سے ناراض اور بد گمان نہیں ہو گے اور میری دعوت پر سر کے بل چلے آئو گے ؟ میں فوراً ہی چلا آیا ہوں۔ میرے دل کے کسی کونے میں اب تم سے کوئی شکایت نہیں رہی۔
اس نے اپنی لمبی لمبی سرمگیں پلکیں جھپکائیں اور پیار بھرے لہجے میں بولی تو اس کے چہرے پر ندامت کی سُرخی پھیل گئی۔ میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں … یوں تو میرے پروانوں کی کوئی کمی نہیں، یہ تم بھی اچھی طرح جانتے ہو لیکن تمہارے جیسا مخلص اور قدر دان کوئی نہیں۔ یہ سب بھونرے ہیں، ہوس پرست ہیں۔ مجھے تم پر اندھا اعتماد ہے ،اس لیے میں نے تمہیں کبھی بھی مایوس نہیں کیا۔ مجھے اس سے انکار نہیں کانتا ! تمہارے علم میں میری مالی حالت یقیناً ہو گی۔ میں آج اب ایک بھکاری سے بھی بدتر ہوں۔ مجھے تم سے مالی تعاون درکار نہیں ہے۔ میرے پاس اس قدر پیسہ ہے کہ تم تصور نہیں کر سکتے؟چند لمحوں کے بعد ماضی کی والہانہ اور ناقابل فراموش اور یادگار محبت نے دوبارہ جنم لیا تو اس نے بتایا کہ سابق باس سے متنفر ہو کر اب وہ ہمیشہ کے لیے میری ہے۔ وہ اس بات پر سخت نادم تھی کہ اس نے میرا دل دُکھایا اور میری محبت کو پھول کی طرح پامال کیا۔
وہ میرے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی۔ مجھے معاف کر دو میرے پیارے شیکھر …! میں نے اس سے جو محبت کا ناٹک رچایا ہے وہ صرف تمہاری ترقی اور مستقبل کے لیے تھا۔ میں نے تمہارے لیے یہ قربانی دی تھی کیونکہ مجھے ڈر اور اندیشہ تھا کہ ہماری محبت اور قربت سے جل کر وہ بے رحم اور سفاک شخص تمہیں قتل نہ کرا دے لیکن اس نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے پاگل ہیں، اس لیے اس نے تمہیں دھمکی دے کر اپنے گروہ سے نکال دیا۔ میں تم سے جتنا عرصہ جدا رہی، اس دوران مجھ پر کیسی اذیت اور قیامت ٹوٹتی رہی، تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے ۔ وہ نفرت سے باس کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگی۔ میں اس ذلیل، کمینے اور شیطان سے عبرتناک انتقام لینا چاہتی ہوں۔ میرا بس چلے تو اسے لمحے کے لیے بھی زندہ نہ رہنے دوں۔ پھر بڑے فخر اور تکبر سے کہنے لگی۔ میں نے اپنی انتقامی کارروائی کی پہلی چوٹی سر کر لی ہے … میر اخیال ہے کہ اس کے لیے اتنی ہی سزا کافی ہے۔
میں نے اس کا غرور اور تکبر خاک میں ملا دیا ہے۔ میں کچھ سمجھا نہیں میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کیا تم نے دو کروڑ کی رقم کی رہزنی کی واردات کی خبر نہیں سنی ؟ جو اس شہر کی سب سے بڑی سنسنی انگیز واردات تھی۔ ہاں۔ میں نے سر ہلایا۔ لیکن تمہارا اس سے کیا تعلق؟
0 تبصرے