دھوکہ - آخری حصہ


اس نے فخر سے اپنا سینہ ٹھونکا۔ یہ عظیم کارنامہ تمہاری کانتا نے انجام دیا ہے۔ وہ میرے چہرے پر تذبذب اور استعجاب دیکھ کر مزید بولی تو اس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی۔ اگرچہ باس سے میرے گہرے مراسم ہیں۔ میں یہ مہم سر کر کے اس کے پاس پہنچی تو وہ غصے سے کسی پاگل کتے کی طرح ہو رہا تھا۔ مجھے اس کامیابی سے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے اس کے منہ پر جوتا دے مارا ہو۔ میں نے اس سے زبردست انتقام لے لیا تھا۔ کیا یہ یہ منصوبہ تمہارے ذہن کی پیداوار تھا۔ مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ 

صرف منصوبہ ہی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی میں نے خود ہی کیا… سادہ سی بات ہے۔ مردانہ لباس، ایک نقاب، ہاتھوں میں دستانے، چرمی ٹوپی، خوف ناک ریوالور ! یہ چیزیں میرے بہت ہی کام آئیں۔ میں تمہاری اس دلیری کی جتنی بھی داد دوں۔ بہت کم ہے۔ میں نے سراہتے ہوئے کہا۔ کسی کے وہم و گمان ہیں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ اتنا دشوار گزار کام انجام دینے والا ڈاکو نہیں ایک جوان اور خُوبرو عورت ہو سکتی ہے … سب سے زیادہ دل چسپ امر یہ ہے کہ میں اب سمجھا کہ ڈاکو کا قد درمیانہ اور جسم چھریرا اور دُبلا پتلا کیوں تھا۔ رقم کہاں ہے ؟ خواب گاہ میں … بستر کے نیچے ۔ کانتا نے بڑے پر سکون لہجے میں بتایا۔ لیکن کانتا! اگر باس کے کانوں میں بھنک پڑ گئی تو وہ تمہارا پر شباب گداز بدن گولیوں سے بھون کر کتوں کو کھلا دے گا۔ میں نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔

اونہہ .. کانتا نے نفرت اور حقارت سے منہ بنایا۔ وہ اتنا عقلمند ہرگز نہیں ہے جتنا تم سمجھتے ہو۔ اس نے اپنی حماقتوں سے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اس کے گروہ کے کئی لوگ باغی ہو چکے ہیں۔ پولیس بھی اس کی تاک میں ہے۔ پھر کانتا نے گرم جوشی سے میرا ہاتھ تھاما اور مسہری کے پاس لے گئی، جہاں بستر کے نیچے دو کروڑ کی رقم بڑے بڑے نوٹوں کی شکل میں موجود تھی۔ کانتا نے الماری سے ایک تھیلا نکال کر اس میں نوٹوں کی گڈیاں بھر دیں۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اگر یہ رقم دو لاکھ بھی ہوتی تو بڑی ہوتی لیکن یہ دو کروڑ ہیں، انہیں فلیٹ میں رکھنا بڑی بے وقوفی ہے۔ میں نے کہا۔ یہ فضول سی بات ہے۔ میں تو اس وقت یہ سوچ رہی ہوں کہ ہم ہنی مون منانے کہاں جائیں اور بقیہ زندگی کہاں بسر کی جائے؟ یہ بات مت بھولو کہ نوٹوں کے نمبر بینک اور پولیس کے پاس موجود ہیں۔ میں نے اس کی سنسنی خیز بات پر توجہ دیئے بغیر کہا۔ میں جانتی ہوں۔ کانتا کے لہجے میں غضب کا ٹھہرائو اور اعتماد تھا۔ یہ رقم دبئی ، بحرین اور ابو ظہبی میں باآسانی کیش ہو جائے گی۔ وہاں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ 

گویا تم سدا کے لیے ہندوستان کو خیر باد کہنا چاہتی ہو ؟ صرف میں ہی نہیں، تم بھی میرے پیارے ! میں چاہتی ہوں کہ موقع ملتے ہی کسی اسمگلر کی لانچ سے فی الوقت دبئی چلے جائیں۔ ہمارے پاس پاسپورٹ ہیں … ہم امریکہ اور یورپ میں جاسکتے ہیں۔ ہمارے خلاف قانون کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کب چلنے کا ارادہ ہے …؟ ایک ہفتے بعد تا کہ تمام خطرات ٹل جائیں۔ خطرہ تو اب بھی کچھ نہیں ، لیکن احتیاط لازمی ہے۔ باس بیس دن کے لئے ہیروئن اور اپنی دل نواز محبوبائوں کو لے کر لندن گیا ہوا ہے۔ میں اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اس کا فلیٹ بیچ دوں گی۔ دو اداکارائیں اسے اچھی قیمت پر خریدنے کے موڈ میں ہیں، کیونکہ ایسا شان دار لگژری فلیٹ مشکل سے ملتا ہے، لیکن تمہیں ایک کام کرنا ہے۔ وہ کیا…؟ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ فرماؤ ۔

غور سے سُنو… اس سلسلے میں بھی تم پر شبہ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ پیشہ تمہیں ترک کئے سات آٹھ مہینے کا عرصہ بیت چکا ہے۔ احتیاطاً اس ملاقات کا ذکر کسی سے بھی نہ کرنا، اگر تمہاری کوئی محبوبہ ہو اور مالکن نلنی سے بھی… تم مجھ سے خود رابطہ نہ کرنا، جب تک میں خود تم سے رابطہ نہ کروں، لہذا تم یہاں آنے کی کوشش بھی نہ کرنا۔ اس دوران میں اپنا پروگرام بنالوں گی۔ لانچ کے مالک کو رقم دے کر کاغذی تیاریاں مکمل کرلوں گی۔ میں ہوائی جہاز سے دبئی پہنچوں گی اور وہیں تمہارا پرتپاک سواگت کروں گی۔ جب میں ایک گھنٹے بعد واپس جانے لگا تو اس نے اپنائیت سے کہا۔ میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں شیکھر ! اس میں کوئی تصنع اور کھوٹ نہیں ہے … اس بات کا اندازہ اور احساس اس بات سے کر سکتے ہو کہ میں نے تمہیں حاصل کرنے کے لیے کتنا خطرناک قدم اٹھایا ہے۔ پھر اس نے رقم کا تھیلا میری طرف بڑھایا اور ساتھ ہی ایک پھولا ہوا لفافہ بھی۔ لو ! اس میں وہ رقم ہے جو میں نے باس کی الماری کی تجوری سے نکالی ہے اور لفافے میں چالیس ہزار روپے ہیں۔ تم اس سے نئے کپڑے اور جوتے خرید لو تو اور کسی ہوٹل میں کمرا لے لو، پھر مجھے اطلاع دے دینا تا کہ میں تم سے وہاں ملنے آسکوں۔ میں نے تھیلا ہاتھوں میں تھام کر لفافہ جیب میں ٹھونس لیا۔

 یہ رقم میرے مسائل کا حل تھی۔ اس نے مجھ پر سرشاری طاری کر دی تھی۔ اب مجھے کتوں کی تلاش کی مہم سے نجات مل گئی تھی۔ ممبئی شہر میں رات کو بھی دن ہوتا ہے۔ میں نے نصف میل چلنے کے بعد ٹیکسی رُکوائی۔ میں نے اپنی کو ٹھری میں پہنچ کر روشنی نہیں کی۔ کوٹھری میں ایک چارفٹ کی الماری تھی۔ رقم کا تھیلا اس ہیں ٹھونس دیا جو میلے کچیلے کپڑوں کی آغوش میں گم ہو گیا۔ میں نے لفافے میں سے رقم نکالی تو کانتا کے فلیٹ کی ایک ڈپلی کیٹ چابی بھی برآمد ہوئی جو اس نے شاید غلطی سے لفافے میں رکھ دی تھی۔ مجھے اطمینان ہو گیا تھا کہ اس پر کسی کی نظر نہیں پڑسکتی۔ اسے میں نے بڑی حفاظت سے رکھ لیا۔ میری آنکھ کھلی تو دروازے پر کوئی دستک دے رہا تھا۔ شنکر سامنے تھا، وہ اندر آیا تو میں بستر پر دراز ہو گیا۔ وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔ رات تمہاری کہیں دعوت تھی ؟ جو صبح کے وقت لوٹے ہو ! تمہیں کس نے بتایا؟

مالکن مس نلنی نے۔ وہ اک دم سے ہنس دیا۔ میں نے دل میں نلنی کو جی بھر کے گالیاں دیں کہ کہیں اس نے کانتا کا نام نہ لے دیا ہو لیکن اس نے بتا دیا تھا۔ ”یار شیکھر! کیا تم نہیں جانتے کہ کانتا کیسی خود غرض عورت ہے …؟ اس نے تمہیں محبت میں کیسا دھوکا دیا… تم اس کا خیال دل سے نکال دو۔ اسے میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ وہ ڈیڑھ برس میری محبت رہی ہے۔ میں نے بے نیازی سے کہا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ باس کو تمہارے میل جول کی خبر ہو جائے اور مجھے تمہاری لاش بھی نہ ملے۔ یار ! ایساہر گز نہیں ہو گا، تو فکرمند اور پریشان نہ ہو۔ میں نے اسے یقین دلایا۔ اچھا تو تم میرے ساتھ چل کر ناشتا کرو۔ 

کل رات میں نے ایک شوہر کا سراغ لگایا ہے ، جو ایک فلیٹ میں اپنی سیکرٹری کے ساتھ رہتا ہے اور اس نے خفیہ سول میرج کر رکھی تھی۔ مجھے شریمتی جی نے ایک ہزار کی رقم دی۔ اس کا پتی اور سیکرٹری صاحبہ دونوں اسپتال میں داخل ہیں۔ یار ! میں بہت تھکا ہوا ہوں، سونا چاہتا ہوں۔ ابھی لیٹا تھا کہ نلنی آ دھمکی اور مجھے دیکھ کر حیرت سے بولی۔ میں سمجھی کہ تم رات آئے ہی نہیں…! تم غلط سمجھ رہی ہو ۔ مجھے اس عورت کے پتی نے ملازمت کے لیے بلایا تھا اور دو ماہ کی پیشگی تنخواہ بھی دی … یہ لو۔ میں نے اسے اپنا اور شنکر کا دو ماہ کا کرایہ دے دیا۔ اوہ .. نلنی چہکی۔ مجھے بنانے کی کوشش نہ کرو۔ اس کی آنکھوں میں حسرت اور آن جانا سا پیار تھا، پھر وہ لہجہ بدل کر تشویش سے بولی۔ تھوڑی دیر پہلے پولیس کے دو آدمی تمہیں پوچھتے ہوئے آئے تھے۔ میں نے انہیں ٹر خادیا تھا۔ میں اندر سے کانپ گیا۔ پولیس نے شاید مجھے مشتبہ لوگوں میں شامل کر لیا تھا۔

 دو کروڑ کی رقم عذاب بن گئی تھی۔ اس کی حفاظت کرنا آسان نہیں تھا۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک اغوا کی ہوئی لڑکی کو اس کی عزت و آبرو بچانا۔ یہ نہ صرف وبال بلکہ انتہائی اذیت ناک بھی تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں ناشتہ کرنے کے لئے ایک ہوٹل میں چلا آیا۔ میں ہوٹل میں گھس رہا تھا کہ شنکر بھی آگیا۔ میں نے انتہائی پر تکلف ناشتے اور کریم کافی کا آرڈر دیا تو اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ کبھی تمہارے باپ نے بھی کبھی سپنے میں بھی ایسا ناشتا کیا تھا؟ میں نے اس کو بتایا کہ میں نے نہ صرف نلنی کو تمہاری کھولی کا گذشتہ ماہ بلکہ دوماہ کا پیشگی کرایہ بھی ادا کر دیا ہے۔ بار کے مالک کا جو قرض ہم دونوں کے اعصاب پر تین ماہ سے بوجھ بنا ہوا ہے وہ بھی اس کے منہ پر دے ماروں گا۔ اب تمہیں کتوں کی تلاش میں خوار ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔

یار کہیں یہ میری سماعت کا فتور تو نہیں کیا کسی پتنی نے اپنے مال دار بوڑھے شوہر کو بازیاب کرنے کی خوشی میں تمہیں کسی بڑے انعام سے سرفراز کیا ہے ؟ اس وقت چونکہ ہوٹل کی تقریباً ساری میزیں خالی تھیں۔ صرف کونے کی میز پر ایک جوڑا ناشتا کر رہا تھا۔ میں نے شنکر کو اعتماد میں لے کر رات کا فسانہ اور دو کروڑ کی رقم کا قصہ سنایا۔ میں اور شنکر کوئی بات ایک دوسرے سے چھپاتے نہیں تھے۔ یار شیکھر ! اس تھیلے میں رقم نہیں بلکہ بم ہے جو کسی بھی لمحے پھٹ سکتا ہے۔ اس نے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے اتنی بڑی رقم تمہارے پاس رکھوا دی ہے۔ کبھی کسی وقت تمہیں چکمہ دے کر ساری رقم لے کر چمپت ہو جائے گی۔ وہ تجھے پہلے بھی ایک بار الو بنا چکی ہے۔ مگر یار ! وہ مجھ سے شدید محبت کرتی ہے۔ میں نے کانتا کا دفاع کیا۔ وہ میرے ساتھ ہرگز فراڈ نہیں کرے گی۔ دیکھ میرے یار ! جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے.. کیا تو یہ بات بھول رہا ہے ؟ جب محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے تو کیوں نہ ہم دو کروڑ کی رقم لے کر دبئی یا سنگاپور چلے جائیں اور وہاں ایک نئی اور خواب ناک زندگی کا آغاز کریں ؟ میں نے کہا۔ یہ رقم کانتا کے باپ کی تو ہے نہیں، ہمارے دُشمن باس کی ہے، جس نے ہمیں بے روزگاری کے دلدل میں دھکیل دیا۔

 لیکن میں اس وقت کچھ اور ہی سوچ رہا ہوں میرے یار! شنکر بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا۔ میں جرائم پیشہ زندگی سے تنگ آگیا ہوں، اب محنت مزدوری کی کھانا چاہتا ہوں۔ میں کرمانی کو دیکھتا ہوں تو شرم آتی ہے۔ وہ عمر میں ہم سے دس برس بڑا ہے ، ریلوے اسٹیشن پر قلی ہے۔ اپنی آمدنی سے کتنا خوش اور مطمئن ہے۔ اسے نہ تو پولیس کا دھڑکا رہتا ہے اور نہ ضمیر کی ملامت کا. مزے سے سوتا ہے۔ پولیس ہمیں کسی نہ کسی کیس میں پھنسانے کے چکر میں ہوتی ہے۔ ہم رات کو سکون سے سو نہیں پاتے۔ ابے … کیا یہ ڈائیلاگ کسی فلم کے ہیں؟ میں نے پوچھا۔ ہاں، میری اپنی زندگی کی فلم کے اس نے جواب دیا۔ میں نے سوچ لیا اور فیصلہ بھی کر لیا ہے کہ قلی بن جائوں گا یار ! تم بھی رات کو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچنا۔

اسی وقت میں نے دو مشکوک آدمیوں کو ہوٹل سے باہر ٹہلتے ہوئے دیکھا۔ میں اتنی بڑی رقم سے کسی قیمت پر ہاتھ دھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں انہیں دھوکا دینا چاہتا تھا۔ شنکر ریلوے اسٹیشن چلا گیا کرمانی سے بات کرنے اور میں اپنی کھولی میں جا پہنچا۔ نلنی سے ایک تھیلا مانگا اور اپنی کوٹھری میں لے آیا۔ اس میں پرانے کپڑے بھرے اور کمرا مقفل کر کے نیچے آیا اور ایک ٹیکسی کر کے اس میں سوار ہو گیا۔ میں نے عقبی آئینے میں دیکھا کہ میرا تعاقب کیا جارہا ہے۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ جتنا تیز دوڑا سکتے ہو دوڑائو … میرے دشمن میری جان لینے کے لیے تعاقب کر رہے ہیں۔ ڈرائیور جوان تھا اور ہوشیار بھی … اس نے تین گھنٹے انہیں پریشان کیا اور جل دیتا رہا۔ آخر کار انہوں نے شکست مان لی۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر میں کرایہ ادا کر کے عمارت میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ ان بد معاشوں نے ، جو دراصل پولیس کے آدمی تھے اور سادہ لباس میں تھے، مجھے دھر لیا۔ وہ کل تین افراد تھے۔ ان کے چہروں پر سختی اور آنکھوں سے سفاکی جھانک رہی تھی۔ ان میں سے ایک نے میرے ہاتھوں سے تھیلا چھین لیا اور لہرایا۔ 

میں انسپکٹر شرما ہوں اس نے وہیں کھڑے کھڑے تھیلے کی تلاشی لی اوراس میں پرانے کپڑے دیکھ کراس کا پارہ چڑھ گیا۔ اس نے طیش میں آکر تھیلا میرے منہ پر دے مارا۔ وہ رقم کہاں ہے ؟ کون سی رقم سر ! میں نے انجان بن کر پوچھا۔ جو تم نے تین دن پہلے دن دیہاڑے لوٹی تھی۔ دو کروڑ کی رقم۔ سر یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ وہ رقم میں نے لوٹی تھی ؟ ایک مخبر عورت نے اطلاع دی ہے۔ انسپکٹر صاحب ! آپ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ اتنی بڑی رقم اگر میرے ہاتھ لگتی تو اس وقت میں ہانگ کانگ ، دبئی یا سنگاپور میں ہوتا، اس کال کوٹھری میں نہیں سڑتا رہتا۔ میں تین دن کے لیے پونا جار ہا تھا کہ آپ نے-

اس کے باوجود مجھے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں مجھ سے چھ گھنٹے تک پوچھ گچھ ہوتی رہی ، ہراساں اور تشدد بھی گیا جب وہ میری خاصی خاطر مدارت کر چکے تو میں نے پولیس افسر سے کہا۔ سر ! کیوں نہ آپ ساتھ چل کر میرے گھر کی تلاشی لے لیں ..؟ مجرم اتنا احمق نہیں ہوتا کہ اتنی بڑی رقم اپنے گھر میں رکھے۔ اس نے میرے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر کے کہا۔ 

اگر وہ میرے گھر کی تلاشی لے لیتے تو میں بے موت مارا جاتا، اس لیے کہ رقم گھر پر ہی موجود تھی۔ میں گھر پہنچا تو رات کے دس بج رہے تھے ۔ میں سارا راستہ یہ سوچتا ہوا آیا تھا کہ اسی وقت رقم کانتا کو واپس دے آئوں گا اور اس سے معذرت کرلوں گا، پھر میں بھی قلی بن جائوں گا اور یہ میرا جذباتی فیصلہ نہیں تھا۔ میں رقم کا تھیلا لے کر بلڈنگ کے عقبی راستے سے نکلا اور کانتا کے فلیٹ پر پہنچ کر ڈپلی کیٹ چابی سے دروازہ کھولا , تو اس کی ہنسی کی آواز خواب گاہ میں گونج رہی تھی۔ وہ ہنسی سے دُہری ہو کر کہہ رہی تھی۔ راج پال ! میں نے شیکھر کو خوب بے وقوف بنایا۔ میں کل صبح پولیس کو اطلاع دوں گی کہ رقم اس کی الماری میں ایک تھیلے میں رکھی ہے۔ رقم کا دس فیصد انعام مجھے مل جائے گا۔ میں ایک گھنٹے پہلے ہی رقم والا تھیلا دیکھ کر آچکی ہوں۔ جو تم دس کلو ہیروئن لائے ہو ، ہم اسے لندن لے جائیں گے۔ وہاں شاہانہ فلیٹ خرید کر زندگی گزاریں گے.

میں نے بیڈ روم میں جھانک کر دیکھا۔ وہ دونوں شراب پی رہے تھے۔ راج پال کہہ رہا تھا۔ تم جتنی حسین ہو اتنی ہی ذہین بھی۔ یہ دس کلو ہیروئن وہاں لاکھوں پونڈ کی ہو گی جو ہماری قسمت بدل دے گی۔ ہماری زندگی اور مستقبل بنا دے گی۔ وہ ان جانے سپنے دیکھ رہے تھے۔ میں نے نیچے آ کر پہلے اپنے ایک دوست رندھیر داس کو فون کیا جو ایک کرائم رپورٹر تھا اور پھر انسپکٹر شرما کپور کو اطلاع دی، اس لیے کہ انعام کا معاملہ تھا۔ پولیس نے جس وقت چھاپہ مارا وہ نشے میں دُھت تھے۔ میرا دوست بھی پہنچ چکا تھا۔ وہاں سے نہ صرف رقم کا تھیلا بلکہ ہیروئن بھی برآمد ہو گئی۔ مجھے دو کروڑ کی مسروقہ رقم پر دس فیصد انعام کے علاوہ راج پال اسمگلر کی گرفتاری پر پانچ لاکھ بھی مل گئے۔ 

وہ اشتہاری مجرم تھا۔ کانتا نے میرے لیے گڑھا کھودا تھا اور خود اس میں جا گری تھی۔ اب وہ دونوں سرکاری مہمان ہیں۔ ان کی زندگی واقعی بدل گئی ہے جبکہ میں اور شنکر ایک ہوٹل چلا رہے ہیں۔ کملا کو اس کے پتی نے طلاق دے دی تھی، کیونکہ اس نے ان جانے راستے پر چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ اب میری پتنی ہے۔ اس نے ہوٹل کا کچن سنبھالا ہوا ہے۔ وہ اتنے عمدہ اور ذائقہ دار کھانے پکاتی ہے کہ لوگ انگلیاں چاٹ لیتے ہیں۔ کبھی آپ بھی ہمارے ہاں تشریف لائیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے