ایک شام آرزو کا فون آیا۔ عابر اپنے موبائل کی اسکرین پر اس کا نام دیکھ کر خوش ہو گیا۔ اس نے بٹن دبا کر مسکراتے ہوئے کہا ۔۔ "ہیلو۔"
عابر کیسے ہیں آپ؟ ۔۔۔ آرزو کی کھنکتی آواز سنائی دی۔
میں بالکل بھلا چنگا ہوں ۔۔۔ عابر نے بے تکلفی سے کہا۔
سوری سر۔ اس دن اسپتال کی ایمرجنسی کال نے بدمزگی پیدا کر دی۔ میں آپ کا صحیح معنی میں استقبال نہ کر پائی ۔۔
اب کیا مجھے ہار پھول پہنانے تھے ۔۔۔ عابر ہنسا۔۔ آپ نے چاٸے پلا دی یہ بہت ہے ۔ میں پھر کسی دن آ جاؤں گا ۔۔
یہ فون میں نے آپ کو بلانے کے لئے ہی کیا ہے ۔ آرزو پُرشوق لہجے میں بولی۔۔ میرا کل اسپتال سے آف ہے۔ آپ کل شام کو آ جائیں، میں آپ کو جلدی جانے نہ دوں گی۔ رات کا کھانا کھلا کر بھیجوں گی ۔۔ پھر کل آرہے ہیں نا آپ؟ ۔۔
جی۔ میں ضرور آؤں گا لیکن کھانے کا تکلف مت کیجئے گا ۔۔ اوکے ۔۔۔ عابر نے اقرار چاہا۔
میں کھانا بہت اچھا بناتی ہوں۔ آج میں آپ کے لئے اسپیشل کیک بناؤں گی۔ ٹھیک ہے پھر کل ملاقات ہوتی ہے ۔۔۔ آرزو نے اصرار کیا۔۔ شام کو آپ کا انتظار کروں گی ۔۔
اور پھر جواب سنے بغیر آرزو نے فون آف کر دیا۔ عامر نے مسکرا کر اپنے موبائل پر نظر ڈالی اور اسے جیب میں رکھ لیا۔
دوسرے دن جب عابر، آرزو کے گھر پہنچا تو اسے کالے ٹراؤزر اور زردی مائل قمیض میں پایا۔ آج اس نے ہلکا سا میک آپ کر رکھا تھا۔ وہ اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھتی لاؤنج میں لے آئی اور اسی صوفے پر بٹھایا جہاں وہ پہلے دن بیٹھا تھا۔
آج میں نے اسپتال فون کر کے کہہ دیا ہے کہ کیسی بھی ایمرجنسی ہو، میں نہیں آؤں گی۔ کسی اور ڈاکٹر کو کال کر لیجئے گا۔ آپ جانتے ہیں میرے سینئر ڈاکٹر اکمل نے مجھ سے کیا پوچھا ؟ ۔۔۔ آرزو اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
نہیں ۔۔ میں نہیں جانتا ۔۔۔ عابر بولا ۔
وہ پوچھنے لگے۔ بھئی ڈاکٹر آرزو۔ آج کیا کوئی خاص بات ہے؟ میں نے انہیں فوراً بتا دیا کہ جی خاص بات ہے۔ آج میرے یہاں بہت ہی خاص بندہ آ رہا ہے۔ وی وی آئی پی ۔۔۔ آرزو نے ہنس کر بتایا۔
اس قدر اہم بنانے کا شکریہ ۔۔۔ عامر نے اسے ممنون انداز میں دیکھا۔
اچھا پہلے ایک کپ چائے پیتے ہیں، کیک کھاتے ہیں اور پھر بناتے ہیں آپ کی ڈھیروں تصویریں ۔۔۔ آرزو چٹکی بجاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
تصویریں ۔۔۔ عابر چونکا۔
بھئی اب وہ زمانہ تو ہے نہیں کہ ماڈل کو اپنے سامنے بٹھا کر پینٹنگ بنائی جائے۔ اب گھنٹوں بیٹھنے کی کسی کے پاس فرصت ہے اور نہ آرٹسٹ کے پاس وقت ۔ میں ڈیجیٹل کیمرے سے آپ کی تصویریں اتار لوں گی۔ ان میں سے ایک سلیکٹ کر کے جب بھی وقت ملے گا ، کام کرتی رہوں گی ۔۔۔ آرزو نے وضاحت کی۔
اس دن آرزو نے رات تک بےشمار تصویریں اتاریں۔ وہ عابر کی کچھ بولڈ تصویریں بھی اتارنا چاہتی تھی لیکن عابر نے بہت سختی سے انکار کر دیا ۔
نہیں آرزو صاحبہ ۔۔ میں رنبیر کپور نہیں ہوں ۔ وہ اداکار ہے۔ میں اداکار نہیں ہوں۔ میں کسی صورت بےلباس ہونے کے لئے راضی نہیں ۔۔
اٹس اوکے ۔۔ ریلیکس ۔۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ آرزو نے مسکرا کر کہا اور کیمرہ بند کر کے رکھ دیا۔
رات کو وہ دونوں بڑی خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔ جابر کو یہ خاموشی بڑی کھل رہی تھی۔ آرزو یکدم بولتے بولتے چپ ہو گئی تھی۔ عابر بولنا چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔ وہ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ وہ خوبصورت تھی، ڈاکٹر تھی۔ پھر بھی تنہا تھی۔ اس نے دنیا بھر کی باتیں کی تھیں لیکن اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں بولی تھی۔ اگر اس نے کوٸی ذاتی سوال کیا بھی تھا تو وہ بڑی خوبصورتی سے طرح دے گئی تھی۔
پھر یکدم اس نے خاموشی توڑی اور بولی ۔۔
عابر میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی تھی ۔۔
آرزو کا یہ جملہ سن کر عابر کا دھیان فورا بابا دنیا کی طرف گیا۔ آواز آئی۔۔
” تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ہے۔“
عابر مسکرایا اور بولا ۔ " کیا آپ دنیا ہیں؟ ۔۔
کیا مطلب؟ ۔۔۔ آرزو الجھ کر بولی۔
اس بات کا مطلب تو مجھے بھی نہیں معلوم ۔۔۔ عابر معصومیت سے بولا ۔ وہ بابا دنیا کا اس کے سامنے تذکرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں آپ جیسا چہرہ جانے کب سے ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔ آرزو نے اپنی بات کی وضاحت کی ۔۔ بڑا نادر چہرہ ہے آپ کا بہت زبردست پینٹنگ بنے گی۔ اچھا چھوڑیں اس بات کو۔ میں آپ کو اپنے بارے میں ایک پراسرار بات بتاتی ہوں ۔۔
یہ ہوئی نا بات فورا بتایٸے ۔۔۔ عابر سنبھل کر بیٹھ گیا۔ آرزو نے جب اپنی ذات کے حوالے سے پر اسرار راز کھولا تو عابر حیرت زدہ رہ گیا۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔ وہ غیر یقینی انداز میں بولا ۔
یہ سچ ہے۔ عابر میری پیٹھ پر سانپ کا نشان ہے اور یہ پیدائشی ہے ۔۔۔ آرزو نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ میں نے یہ بات کسی کو بتائی نہیں آپ پہلے مرد ہیں جس کے سامنے میں نے یہ راز کھولا ہے، کہیں آپ مجھ سے ڈرنے تو نہیں لگیں گے؟ ۔۔
ہاں ڈرنا تو چاہئے ۔۔۔ عابر نے مسکراتے ہوئے ازراہ مذاق کہا۔
چھی ۔۔۔ اس نے مخصوص انداز میں ناک سکوڑی۔۔ میں کوئی ناگن ہوں ؟ ۔۔
پھر پشت پر سانپ کا نشان کیوں؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ اس مسئلے پر آپ نے کسی بزرگ وغیرہ سے بات نہیں کی؟ ۔۔
میرے والدین نے کی ہو تو میں نہیں جانتی لیکن میں نے نہیں کی ۔۔۔ آرزو نے سنجیدگی سے کہا۔۔ کیا آپ کسی بزرگ کو جانتے ہیں ؟ ۔۔
نہیں میں کسی بزرگ کو نہیں جانتا ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ ویسے یہ نشان ہے کتنا بڑا ؟
کوئی ایک فٹ بڑا ہو گا ، صاف اور واضح ہے ۔۔۔ آرزو نے اسے اپنی جادو بھری آنکھوں کے حصار میں لیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی۔
اچھا پھر میری پینٹنگ پر کام کب سے شروع کر رہی ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے یکدم موضوع بدلا۔
بس فرصت ملتے ہی کام شروع ہو جائے گا، آپ کو جلدی تو نہیں؟ ۔۔۔ وہ بولی۔
نہیں آپ کام اپنے حساب اپنے انداز سے کیجئے ۔۔۔ عابر اٹھتے ہوئے بولا ۔۔ اب میں چلوں ، خاصا وقت ہو گیا ہے ۔۔
اچھا ۔۔۔ اس کے لہجے میں ایک بےنام سی اداسی تھی ۔۔۔ پھر کب آئیں گے؟ ۔۔۔ وہ اس کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھی۔
جب آپ کال کریں گی ۔۔۔ عابر نے خوشدلی سے کہا۔
اچھا ۔۔۔۔ اس نے اچھا کو خاصا کھینچ کر کہا۔۔ آپ کوئی کال بوائے ہیں کیا ؟
خوب معنی پہنائے میری بات کے ۔۔ آپ بولڈ ہونے کے ساتھ شریر بھی ہیں ۔۔۔ عابر نے رخصت ہوتے ہوئے کہا۔
آرزو نے تھینکس کہا اور اسے جاتے ہوئے ایک خاص انداز سے دیکھنے لگی۔ جانے ان نظروں میں کیا تھا۔
مائی پنکھی جو اب رانی پنکھی بن چکی تھی ، سرخ ریشمی لباس میں اپنی چارپائی پر بڑی تمکنت سے بیٹھی تھی۔ اس کے سر پر تاج موجود تھا جو گزشتہ رات کی کہانی سنا رہا تھا۔ رانی پنکھی کو صحرا میں منعقدہ تقریب کا ایک ایک لمحہ یاد تھا۔ یہ اعزاز واقعی بڑا تھا جو کسی انسان کو اس کے شیطانی کارناموں پر عطا کیا گیا تھا۔ اس کی شان میں وہاں جو کچھ کہا گیا ، اسے یاد کر کے وہ جھوم رہی تھی۔
لیکن وقت رخصت جو بدمزگی ہوئی ، اسے یاد کر کے رانی پنکھی فکرمند ہو گئی ۔ کالی دنیا میں بگا کی جو حیثیت تھی ، وہ اس سے اچھی طرح واقف تھی اور اس بات کا بھی اسے اچھی طرح احساس تھا کہ بگا اسے محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ اسے دل میں بسائے ہوئے تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وقت رخصت وہ ایسی بات کہہ دے گا اور اس کے جواب میں اس کے منہ سے بھی ایسی بات نکل جائے گی جو اس کو ناراض کر جائے گی لیکن اب جو ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
رات گزر چکی تھی صبح کا اجالا پھیل چکا تھا۔ نیم کے درخت پر کوؤں کی کائیں کاٸیں جاری تھی۔ رانی پنکھی کے آواز دینے پر جب کالے منہ کی سفید بلی اندر کمرے سے نکل کر دروازے پر آئی تو سامنے بیٹھی رانی پنکھی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ سرخ لباس اور سر پر تاج ۔۔۔ مائی پنکھی کی تو ٹون ہی بدلی ہوئی تھی ۔
رانی پنکھی نے انجو کی آنکھوں میں حیرت دیکھی تو پیار سے بولی۔۔
" آ جا ۔۔ میری انجو ۔۔۔“
انجو نے دو تین زقندیں بھریں اور اس کے پاؤں میں لوٹنے لگی۔ رانی پنکھی نے اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور پیار کرتے ہوئے بولی۔۔
انجو میں رانی بن گئی ہوں، میں رات کو یہاں نہیں تھی، میں نے تجھ سے کہا تھا نا کہ میں رات کو جانے کہاں ہوتی ہوں، سالانہ جلسے میں مجھے تاج پہنایا گیا، انجو تو وہاں ہوتی تو سنتی کہ میری شان میں وہاں کیا کیا کہا گیا، میں تجھے سب سناؤں گی ، ایک ایک بات بتاؤں گی ، چل پہلے میرے ناشتے کا انتظام کر، میں بھی ذرا یہ تاج سنبھال کر اندر رکھ دوں اور کپڑے بدل لوں ۔۔
رانی پنکھی نے انجو کو چارپائی پر چھوڑا اور خود بڑی تمکنت سے چلتی اندر کمرے میں چلی گئی۔
انجو اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی۔
تھوڑی دیر کے بعد جب رانی پنکھی باہر آئی تو وہ گھریلو لباس میں تھی۔ اپنے روایتی لباس کالے لہنگے اور کالی کرتی میں ۔ وہ تیز تیز چلتی باورچی خانے میں پہنچی۔
چولہے میں آگ جلا کر اس نے ہنڈیا میں مال مسالاً ڈالا اور اسے اہلنے کے لیے رکھ دیا۔ دس منٹ کے بعد جب ہنڈیا میں ابال آ گیا تو رانی پنکھی نے انجو کو اشارہ کیا۔ اشارہ ملتے ہی وہ ایکشن میں آ گئی۔
پھڑپھڑاتے کوے کو رانی پنکھی نے ہنڈیا میں ڈالا اور یخنی تیار ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ سیال تیار ہونے پر اس نے اہلتے سیال میں ہاتھ ڈال کر کوے کو نکالا اور اسے لیے باورچی خانے سے باہر آگئی۔ انجو کمرے میں جا چکی تھی۔
وہ بیچ صحن میں کھڑی ہوئی ، اس نے ایک نظر اوپر دیکھا اور کچھ پڑھ کر کوا آسمان کی طرف اچھال دیا ۔۔ لے بگا ۔۔
لیکن جواب میں وہ ہوا، جو کبھی نہ ہوا تھا۔
اس دن جب عابر، آرزو کے گھر پہنچا تو اس کا انداز ہی بدلا ہوا تھا۔ اس نے عابر کو فون کر کے بلایا تھا۔ کہا تھا ۔۔
میں اسپتال سے نکل رہی ہوں، کیا آپ ابھی میرے گھر آ سکتے ہیں ؟ ۔۔
ہاں آ سکتا ہوں ۔۔م عامر نے اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔ اس وقت ساڑھے چھ بجے ہیں، میں ساڑھے سات آٹھ کے درمیان پہنچ جاؤں گا، ٹھیک ہے ۔۔
سو سوئٹ ۔۔۔ آرزو یکدم خوش ہو گئی ۔۔ بے شک آپ آٹھ بجے کے بعد آ جائیں، آرام سے لیکن اتنا یاد رکھیے گا کہ کھانا میرے ساتھ کھائیں گے ۔۔ اوکے۔ میں انتظار کروں گی ۔۔۔ اور پھر عابر کا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا۔ یہ اس کی عجب عادت تھی۔
عابر آٹھ بجے کے بعد ہی یہاں پہنچا تھا۔ آرزو نے دروازہ کھولا تو اس کے بائیں ہاتھ میں نازک سا گلاس تھا جو آدھا بھرا ہوا تھا۔ عابر نے غور سے اس ادھ بھرے گلاس کی طرف دیکھا لیکن وہ اندازہ نہ کر پایا کہ اس میں پانی ہے، کولڈ ڈرنک ہے یا کچھ اور ۔۔
آرزو نے عابر کے اندر آنے کے بعد دروازہ لاک کیا اور مسکرا کر بولی ۔۔ کیسے ہیں؟
مجھے کیا پتا؟ ۔۔۔ عابر اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا ۔
کیا مطلب؟ ۔۔۔ آرزو نے رک کر پوچھا۔
مطلب یہ کہ میں کیسا ہوں ، اس کے بارے میں آپ ہی کچھ بتا سکتی ہیں، مجھے کیا معلوم کہ میں کیسا ہوں ۔۔۔ عابر ہنسا۔
یو آر سو سویٹ ۔۔۔ آرزو نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
اور جب وہ دونوں لاؤنج میں آگئے تو آرزو اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے کے بجائے کھلے دروازے کی طرف بڑھی۔۔
آئیے اندر آ جائیں ۔۔
آج پہلی بار اس نے آرزو کا بیڈ روم دیکھا۔ کمرے میں گھستے ہی دو کرسیاں پڑی تھیں، کرسیوں کے ساتھ کارنر ٹیبل ، جس پر لینڈ لائن ٹیلیفون رکھا تھا اور ساتھ ایک ڈائری تھی۔ عابر کو ٹیلیفون دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ آرزو نے اس لینڈ لائن کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسے نمبر دینے کی کوشش کی تھی۔ آگے بیڈ تھا جس پر گہرے نیلے رنگ کی چادر بچھی تھی۔ بیڈ کے اس طرف ڈریسنگ ٹیبل تھی جو ہر طرح کے سامان سے خالی تھی۔ ڈریسنگ کے برابر واش روم کا دروازہ اور بیڈ کے سامنے ٹیلی ویژن تھا مع ڈی وی ڈی پلیئر ۔۔
آرزو نے عابر کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ آج اس نے ڈھیلا ڈھالا گلابی گاؤن نما لباس پہن رکھا تھا۔ آرزو نے گلاس سے ایک ہلکا سا گھونٹ بھرا۔ عابر کو مسکراتی نظروں سے دیکھا اور بولی ۔۔
آج میں بہت اداس تھی، میرا جی چاہ رہا تھا میرے پاس کوئی ہو ۔۔ اپنا جیسا ۔۔ بس پھر میں نے آپ کے نام پر انگلی رکھ دی آپ آگئے آپ کا بڑا کرم ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ گلوگیر سی ہو گئی۔
مان دینے کا شکریہ ۔۔۔ عابر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اداسی بال کھول رہی تھی۔۔ آرزو صاحبہ کیا ہوا آپ کو ؟ ۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی ۔۔ بس یوں ہی کبھی ڈپریشن میں آ جاتی ہوں ۔۔
میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ آپ ڈاکٹر ہیں، خوبصورت ہیں پھر بھی اکیلی ہیں، آخر ایسا کیوں ؟ ۔۔۔ عابر نے سوال اٹھایا۔
کس نے کہا میں اکیلی ہوں آپ ہیں نا میرے پاس ۔۔۔ آرزو نے ٹالنا چاہا۔
یہ ایک وقتی ساتھ ہے ۔۔۔ عابر نے سنجیدگی سے کہا۔۔ آپ نے شادی کیوں نہیں کی ابھی تک۔ یہ بتانا پسند کریں گی ؟ ۔۔
کس نے کہا آپ سے کہ میں نے شادی نہیں کی بابا، میں شادی شدہ ہوں، ایک بچی کی ماں ہوں ۔۔۔ آرزو نے دونوں ہاتھ میں تھامے گلاس سے پھر ایک گھونٹ بھرا۔
عابر اُس کے اس انکشاف پر حیران رہ گیا۔ وہ کہیں سے شادی شدہ نظر نہ آتی تھی کجا ایک بچی کی اماں ۔
کہاں ہے وہ بچی؟ عابر نے پوچھا۔
عابر صاحب، معاف کیجئے گا یہ مرد بڑے کمینے ہوتے ہیں ۔۔۔ آرزو یکدم انتہائی تلخ ہو گئی۔۔ وہ جاتے ہوئے بچی کو ساتھ لے گیا ، سنا ہے وہ ملک ہی چھوڑ گیا، میری بچی ایک سال کی تھی جب مجھے طلاق ہوئی اور میری بچی مجھ سے چھنی ۔۔۔۔ ایک طویل عرصہ ہو گیا مجھے اپنی بچی کو دیکھے ہوئے ، اب تو وہ جوان ہو رہی ہوگی ۔۔
جوان ۔۔۔ عابر کو یہ بات ہضم نہ ہوئی۔
جی عابر صاحب، اس وقت وہ بارہ تیرہ سال کی تو ہوگی ، میری شادی پندرہ سال کی عمر میں ہو گئی تھی ۔۔۔ آرزو نے گلاس منہ سے لگایا۔
اوہ اچھا ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ " اس شخص نے آپ کو طلاق کیوں دی ؟“ وہ ایک لالچی شخص تھا، اسے دولت کی ہوس تھی، میرے والدین جب اس کی ہوس پوری نہیں کر سکے تو اس نے مجھے ٹھوکر مار دی ۔ تب میں نے خود کو سنبھالا۔ تعلیم حاصل کی ، ڈاکٹر بنی، آج میرے پاس دولت ہے، میں ساٹھ ہزار روپے اس گھر کا کرایہ ادا کرتی ہوں، اتنے بڑے گھر میں مجھے تنہا رہنا پسند ہے، میں خوش ہوں۔ میں اب کبھی شادی نہیں کروں گی، مجھے شادی سے نفرت ہے ۔۔۔ آرزو نے عابر کی آنکھوں میں دیکھا پھر یکلخت اس نے اپنا موڈ بدلا ، چہرے پر مسکراہٹ بکھیری۔ پھر اپنے مخصوص انداز میں ناک سکوڑی ۔۔ چھی ۔۔ آپ نے یہ کیا موضوع چھیڑ دیا ؟
سوری ۔۔ آرزو صاحبہ ۔۔ عابر کی نظریں اس گلاس پر تھیں جو آرزو نے دونوں ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔
سوری ۔۔ عابر صاحب میں آپ کو کولڈ ڈرنک دینا بھول گئی ۔۔۔ اس نے اپنے گلاس کو خاص انداز سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ " میں ابھی لاتی ہوں۔"
بیٹھ جائیے ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ یہ بتائیے اس گلاس میں کیا ہے؟
ڈرنک ہے لیکن کولڈ نہیں ۔۔۔ آرزو نے اسے گہری نظروں سے دیکھا پھر ہنسی اور ہنستی چلی گئی۔
آپ ڈاکٹر ہو کر زہر پی رہی ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے سنجیدگی سے کہا۔
جب تنہائی کاٹے نہ کٹے تو آدمی کیا کرے ؟ ۔۔۔ آرزو پھر سے آزردہ ہو گئی۔
لیکن آپ تو کہتی ہیں کہ آپ کو تنہا رہنا پسند ہے؟ ۔۔۔ عابر نے جرح کی۔
ہاں پسند ہے ۔۔۔ آرزو کی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیرنے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں پہلے ہی کیا کم قیامت خیز تھیں کہ ان گلابی ڈوروں نے انہیں مزید قیامت خیز بنا دیا تھا۔ ان بند ہوتی آنکھوں کو اس نے ہلکا سا کھول کر کہا ۔۔
" اب میں کسی مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن تنہائی تو کاٹتی ہے، پتا نہیں آپ میری بات سمجھیں گے کہ نہیں ؟“
آپ کے گھر کے لوگ کہاں ہیں۔ ان کے ساتھ رہیں نا ۔۔۔ عابر نے کہا۔
سب مر کھپ گئے ۔۔ کوئی نہیں ہے میرا ۔۔۔ آرزو ہذیانی سی ہوگئی ۔۔ پلیز چھوڑیں اس موضوع کو کوئی اور بات کریں، میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔۔ گلاس ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے وہ پورے ہاتھ تو نہ جوڑ سکی البتہ اس نے اپنی انگلیاں جوڑ دیں۔
عابر نے خلاف معمول کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اسے یک ٹک دیکھتا رہا۔
وہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔ " میں آپ کے لیے کولڈ ڈرنک لاتی ہوں ۔"
چند منٹوں کے بعد وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک گلاس تھا۔ عابر کو گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ کولڈ ڈرنک سفید تھی۔ ایک لمحے کو عابر کے دل میں شبہ گزرا کہ کہیں یہ کمبخت اس کے لیے کولڈ ڈرنک کے بجائے ” ڈرنک “ تو نہیں لے آئی ۔ عابر نے اس گلاس کو اپنی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے سوچا۔
شبہ نہ کریں، سو فیصد کولڈ ڈرنک ہے ۔۔۔ آرزو اس کی چوری پکڑتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔ میں کسی کو فریب نہیں دیتی ۔۔
چلیے میں یقین کر لیتا ہوں ۔۔۔ عابر نے یہ کہتے ہوئے ہلکا سا گھونٹ لیا۔ وہ واقعی کولڈ ڈرنک تھی۔ اس نے مطمئن ہو کر لگاتار دو گھونٹ لیے۔ آرزو نے ٹی وی آن کیا ، ڈی وی ڈی منتخب کر کے پلیٹر میں لگائی۔ وہ اس کی طرف سے پینٹے موڑے قالین پر بیٹھی ڈی وی ڈی لگانے میں مصروف تھی۔ اس کی پیٹھ دیکھ کر عابر کو اس سانپ کا خیال آیا جو بقول آرزو اس کی پیٹھ پر موجود تھا۔ اچانک اس کے اندر ایک شدید خواہش جاگی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ سانپ کو کیونکر دیکھے۔ آرزو سے کسی طرح کی فرمائش کرنا انتہائی معیوب بات تھی۔
ایک انگلش رومانوی فلم لگا کر آرزو اس کے برابر والی کرسی پر آ بیٹھی اور بولی۔۔ " یہ بڑی زبردست فلم ہے، میں اسے دس بارہ مرتبہ دیکھ چکی ہوں ۔“
اچھا ۔۔۔ عابر نے ٹی وی اسکرین پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
فلم شروع ہوئی تو عابر کو یہ اندازہ لگاتے دیر نہ لگی کہ فلم کسی قسم کی ہے۔ جذباتی مناظر کی بھرمار نے عابر کو بےچین کر دیا۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھا اور لاؤنج میں آ کر ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔
آرزو کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ عابر بیڈ روم سے اٹھ کر کیوں گیا ہے۔ اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر عابر کو دیکھا جو صوفے پر بیٹھا پورے اطمینان سے کولڈ ڈرنک کے گھونٹ لے رہا تھا ۔
آرزو نے ڈی وی ڈی پلیئر آف کر دیا اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اندر سے آواز لگائی ۔۔
عابر اندر آجائیں میں نے ڈی وی ڈی پلیئر آف کر دیا ہے ۔۔
عابر اس کی آواز سن کر بیڈ روم میں آ گیا اور کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا ۔۔ ایسی فلمیں دیکھ کر میرے سر میں درد ہو جاتا ہے ۔۔
آرزو نے کوئی جواب نہ دیا ۔ چند لمحوں بعد اس کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے ٹی وی کے اوپر رکھے ہوئے موبائل کو اٹھایا، اسکرین پر نام دیکھ کر وہ بیڈ روم سے باہر نکل گئی اور بات کرتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔ اتنی دور کہ عابر تک اس کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔ پھر اس نے موبائل آف کر کے لاؤنج کی میز پر رکھا اور اندر آگئی ۔۔
سوری عابر ۔۔ آپ بور تو نہیں ہوئے ؟
نہیں ۔۔۔ عابر نے گلاس خالی کر کے کارنر ٹیبل پر رکھا۔
اچھا یہ بتائیے آپ کھانا کسی وقت کھانا پسند کریں گے؟ آرزو نے ٹیبل سے خالی گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
جب آپ کا دل چاہے ۔۔۔ عابر بولا ۔
آرزو نے وال کلاک پر نظر ڈالی ۔۔ چلئے پھر آدھا گھنٹے کے بعد کھاتے ہیں، آپ اجازت دیں تو ایک چکر کچن کا لگا لوں ؟ ویسے کھانا تیار ہے ۔۔
آپ ایک نہیں ، دو چکر لگائیں ۔۔۔ عابر نے ہنس کر کہا۔
وہ گنگناتی ہوئی بیڈروم سے نکل گئی۔ کچن سے اس کے گانے اور دیگچیوں سے ڈھکن اٹھانے اور رکھنے کی آوازیں آتی رہیں۔
عابر سوچنے لگا کہ یہ کس قسم کی لڑکی ہے پھر اسے فورا ہی خیال آیا کہ لڑکی کہاں عورت ہے، ایک بچی کی ماں ۔۔ یہ اور بات کہ اسے عورت کہنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ وہ کس ٹائپ کی لڑکی ہے، یہ بات وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا لیکن اسے یہ احساس ضرور تھا کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔
کچھ دیر کے بعد وہ گنگناتی ہوئی بیڈ روم میں آ گئی۔ اسے مسکراتی آنکھوں سے دیکھا اور واش روم کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی ۔۔ ایک منٹ میں آئی ۔۔
پھر واش روم کا دروازہ کھولنے سے پہلے گردن موڑ کر بولی ۔۔ عابر صاحب آپ نے میری پیٹھ پر بنے سانپ کو دیکھنے کی کبھی فرمائش نہیں کی ، حیرت ہے؟ ۔۔ اور پھر عابر کا جواب سنے بغیر واش روم میں داخل ہوئی اور کھٹاک سے دروازہ بند کر لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واش روم سے باہر آئی تو اس نے لباس تبدیل کر لیا تھا۔ اب وہ ٹراؤزر اور لمبی قمیض میں تھی ۔ وہ اندر سے بالوں میں برش کرتی نکلی تھی ، پھر وہ بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل کے درمیان کھڑی ہو کر برش کرتے ہوئے بولی ۔۔
عابر صاحب ۔۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اسپتال کی نوکری چھوڑ دوں ۔۔
کیوں ؟ عابر نے پوچھا۔ اسے اس کے اس خیال پر حیرت ہوئی۔
اور جب اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے پر گئی تو یہ حیرت دو چند ہو گئی۔
آرزو کا چہرہ عابر کی طرف تھا اور پیٹھ آئینے کی جانب۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنے بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ عابر کو آئینے میں جو نظر آ رہا تھا، اس کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایسا اس نے دانستہ کیا تھا یا بھول ہے۔
لیکن اس کی یہ بھول بڑی چشم کشا تھی ۔ کھلی قمیض میں سے اس کی پیٹھ صاف نظر آ رہی تھی۔ اس کی پشت پر سانپ کا کوئی نشان نہ تھا، جلد صاف تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آرزو نے جو کچھ کہا، وہ جھوٹ کہا تھا۔ لیکن کیوں ؟
ہالوں میں برش پھیرتے پھیرتے وہ رک گئی۔ عابر کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر اس کی چھٹی حس جاگی ۔ اس نے گردن موڑ کر آئینے میں دیکھا تو اس کے منہ سے بےاختیار نکلا ۔۔
" او مائی گاڈ "
اس نے برش بیڈ پر اچھالا اور کسی چھلاوہ کی طرح چھلانگ مار کر واش روم میں گھس گئی اور جب باہر آئی تو شرمندہ شرمندہ سی تھی ۔ قمیض کی کھلی ہوئی زپ بند ہو چکی تھی۔
عابر نے اسے مرید شرمندہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جو بات چل رہی تھی ، وہ اس نے دہرائی ۔۔
آپ اسپتال کی نوکری کیوں چھوڑنا چاہتی ہیں ؟
ہاں ۔۔۔ آرزو کو جیسے سہارا ملا۔ وہ اس کو ممنون نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی ۔۔ اسپتال کی نوکری میں بک بک بہت ہے، میں چاہ رہی ہوں کہ اپنا کلینک کھول لوں ، اس طرح مجھے اپنے مشاغل کے لیے وقت بھی مل جائے گا اور وقت بے وقت اسپتال جانے سے میری جان چھوٹ جائے گی ۔۔
خیال تو برا نہیں ۔۔ لیکن کلینک جمتے جمتے ہی جمے گا، میرا مطلب ہے وقت لگے گا ۔۔۔ عابر بولا ۔
کوئی پرواہ نہیں ۔۔۔ آرزو نے یہ کہہ کر گھڑی پر نظر ڈالی ۔۔ آیئے لاؤنج میں چلیں، میں کچن میں کام بھی کرتی رہوں گی اور باتیں بھی ۔
او کے ۔۔۔ عابر اس کے ساتھ بیڈ روم سے باہر نکل آیا اور صوفے پر اس طرح بیٹھا کہ وہ سامنے نظر آتی رہے۔
آرزو نے فریج کا دروازہ کھول کر کچھ چیزیں نکالیں اور مصروف عمل ہو گئی۔ دس پندرہ منٹ بعد اس نے میز پر کھانا لگانا شروع کر دیا۔ اس نے اچھا خاصا تکلف کر لیا تھا۔ کھانا اچھا تھا ، عابر نے پوری دلچسپی اور رغبت سے کھایا۔ کھانے کے دوران وہ عابر سے ادھر ادھر کی بات کرتی رہی پھر اچانک اس نے ایک سوال کیا اور یہ پہلا ذاتی سوال تھا جو اس نے اب تک کی ملاقاتوں میں کیا تھا۔
عابر کیسے ہیں آپ؟ ۔۔۔ آرزو کی کھنکتی آواز سنائی دی۔
میں بالکل بھلا چنگا ہوں ۔۔۔ عابر نے بے تکلفی سے کہا۔
سوری سر۔ اس دن اسپتال کی ایمرجنسی کال نے بدمزگی پیدا کر دی۔ میں آپ کا صحیح معنی میں استقبال نہ کر پائی ۔۔
اب کیا مجھے ہار پھول پہنانے تھے ۔۔۔ عابر ہنسا۔۔ آپ نے چاٸے پلا دی یہ بہت ہے ۔ میں پھر کسی دن آ جاؤں گا ۔۔
یہ فون میں نے آپ کو بلانے کے لئے ہی کیا ہے ۔ آرزو پُرشوق لہجے میں بولی۔۔ میرا کل اسپتال سے آف ہے۔ آپ کل شام کو آ جائیں، میں آپ کو جلدی جانے نہ دوں گی۔ رات کا کھانا کھلا کر بھیجوں گی ۔۔ پھر کل آرہے ہیں نا آپ؟ ۔۔
جی۔ میں ضرور آؤں گا لیکن کھانے کا تکلف مت کیجئے گا ۔۔ اوکے ۔۔۔ عابر نے اقرار چاہا۔
میں کھانا بہت اچھا بناتی ہوں۔ آج میں آپ کے لئے اسپیشل کیک بناؤں گی۔ ٹھیک ہے پھر کل ملاقات ہوتی ہے ۔۔۔ آرزو نے اصرار کیا۔۔ شام کو آپ کا انتظار کروں گی ۔۔
اور پھر جواب سنے بغیر آرزو نے فون آف کر دیا۔ عامر نے مسکرا کر اپنے موبائل پر نظر ڈالی اور اسے جیب میں رکھ لیا۔
دوسرے دن جب عابر، آرزو کے گھر پہنچا تو اسے کالے ٹراؤزر اور زردی مائل قمیض میں پایا۔ آج اس نے ہلکا سا میک آپ کر رکھا تھا۔ وہ اسے پر شوق نگاہوں سے دیکھتی لاؤنج میں لے آئی اور اسی صوفے پر بٹھایا جہاں وہ پہلے دن بیٹھا تھا۔
آج میں نے اسپتال فون کر کے کہہ دیا ہے کہ کیسی بھی ایمرجنسی ہو، میں نہیں آؤں گی۔ کسی اور ڈاکٹر کو کال کر لیجئے گا۔ آپ جانتے ہیں میرے سینئر ڈاکٹر اکمل نے مجھ سے کیا پوچھا ؟ ۔۔۔ آرزو اس کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
نہیں ۔۔ میں نہیں جانتا ۔۔۔ عابر بولا ۔
وہ پوچھنے لگے۔ بھئی ڈاکٹر آرزو۔ آج کیا کوئی خاص بات ہے؟ میں نے انہیں فوراً بتا دیا کہ جی خاص بات ہے۔ آج میرے یہاں بہت ہی خاص بندہ آ رہا ہے۔ وی وی آئی پی ۔۔۔ آرزو نے ہنس کر بتایا۔
اس قدر اہم بنانے کا شکریہ ۔۔۔ عامر نے اسے ممنون انداز میں دیکھا۔
اچھا پہلے ایک کپ چائے پیتے ہیں، کیک کھاتے ہیں اور پھر بناتے ہیں آپ کی ڈھیروں تصویریں ۔۔۔ آرزو چٹکی بجاتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
تصویریں ۔۔۔ عابر چونکا۔
بھئی اب وہ زمانہ تو ہے نہیں کہ ماڈل کو اپنے سامنے بٹھا کر پینٹنگ بنائی جائے۔ اب گھنٹوں بیٹھنے کی کسی کے پاس فرصت ہے اور نہ آرٹسٹ کے پاس وقت ۔ میں ڈیجیٹل کیمرے سے آپ کی تصویریں اتار لوں گی۔ ان میں سے ایک سلیکٹ کر کے جب بھی وقت ملے گا ، کام کرتی رہوں گی ۔۔۔ آرزو نے وضاحت کی۔
اس دن آرزو نے رات تک بےشمار تصویریں اتاریں۔ وہ عابر کی کچھ بولڈ تصویریں بھی اتارنا چاہتی تھی لیکن عابر نے بہت سختی سے انکار کر دیا ۔
نہیں آرزو صاحبہ ۔۔ میں رنبیر کپور نہیں ہوں ۔ وہ اداکار ہے۔ میں اداکار نہیں ہوں۔ میں کسی صورت بےلباس ہونے کے لئے راضی نہیں ۔۔
اٹس اوکے ۔۔ ریلیکس ۔۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ آرزو نے مسکرا کر کہا اور کیمرہ بند کر کے رکھ دیا۔
رات کو وہ دونوں بڑی خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے۔ جابر کو یہ خاموشی بڑی کھل رہی تھی۔ آرزو یکدم بولتے بولتے چپ ہو گئی تھی۔ عابر بولنا چاہتا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔ وہ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ وہ خوبصورت تھی، ڈاکٹر تھی۔ پھر بھی تنہا تھی۔ اس نے دنیا بھر کی باتیں کی تھیں لیکن اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ایک حرف بھی نہیں بولی تھی۔ اگر اس نے کوٸی ذاتی سوال کیا بھی تھا تو وہ بڑی خوبصورتی سے طرح دے گئی تھی۔
پھر یکدم اس نے خاموشی توڑی اور بولی ۔۔
عابر میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی تھی ۔۔
آرزو کا یہ جملہ سن کر عابر کا دھیان فورا بابا دنیا کی طرف گیا۔ آواز آئی۔۔
” تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ہے۔“
عابر مسکرایا اور بولا ۔ " کیا آپ دنیا ہیں؟ ۔۔
کیا مطلب؟ ۔۔۔ آرزو الجھ کر بولی۔
اس بات کا مطلب تو مجھے بھی نہیں معلوم ۔۔۔ عابر معصومیت سے بولا ۔ وہ بابا دنیا کا اس کے سامنے تذکرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں آپ جیسا چہرہ جانے کب سے ڈھونڈ رہی تھی ۔۔۔ آرزو نے اپنی بات کی وضاحت کی ۔۔ بڑا نادر چہرہ ہے آپ کا بہت زبردست پینٹنگ بنے گی۔ اچھا چھوڑیں اس بات کو۔ میں آپ کو اپنے بارے میں ایک پراسرار بات بتاتی ہوں ۔۔
یہ ہوئی نا بات فورا بتایٸے ۔۔۔ عابر سنبھل کر بیٹھ گیا۔ آرزو نے جب اپنی ذات کے حوالے سے پر اسرار راز کھولا تو عابر حیرت زدہ رہ گیا۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔ وہ غیر یقینی انداز میں بولا ۔
یہ سچ ہے۔ عابر میری پیٹھ پر سانپ کا نشان ہے اور یہ پیدائشی ہے ۔۔۔ آرزو نے ہنستے ہوئے کہا۔۔ میں نے یہ بات کسی کو بتائی نہیں آپ پہلے مرد ہیں جس کے سامنے میں نے یہ راز کھولا ہے، کہیں آپ مجھ سے ڈرنے تو نہیں لگیں گے؟ ۔۔
ہاں ڈرنا تو چاہئے ۔۔۔ عابر نے مسکراتے ہوئے ازراہ مذاق کہا۔
چھی ۔۔۔ اس نے مخصوص انداز میں ناک سکوڑی۔۔ میں کوئی ناگن ہوں ؟ ۔۔
پھر پشت پر سانپ کا نشان کیوں؟ ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ اس مسئلے پر آپ نے کسی بزرگ وغیرہ سے بات نہیں کی؟ ۔۔
میرے والدین نے کی ہو تو میں نہیں جانتی لیکن میں نے نہیں کی ۔۔۔ آرزو نے سنجیدگی سے کہا۔۔ کیا آپ کسی بزرگ کو جانتے ہیں ؟ ۔۔
نہیں میں کسی بزرگ کو نہیں جانتا ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ ویسے یہ نشان ہے کتنا بڑا ؟
کوئی ایک فٹ بڑا ہو گا ، صاف اور واضح ہے ۔۔۔ آرزو نے اسے اپنی جادو بھری آنکھوں کے حصار میں لیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی۔
اچھا پھر میری پینٹنگ پر کام کب سے شروع کر رہی ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے یکدم موضوع بدلا۔
بس فرصت ملتے ہی کام شروع ہو جائے گا، آپ کو جلدی تو نہیں؟ ۔۔۔ وہ بولی۔
نہیں آپ کام اپنے حساب اپنے انداز سے کیجئے ۔۔۔ عابر اٹھتے ہوئے بولا ۔۔ اب میں چلوں ، خاصا وقت ہو گیا ہے ۔۔
اچھا ۔۔۔ اس کے لہجے میں ایک بےنام سی اداسی تھی ۔۔۔ پھر کب آئیں گے؟ ۔۔۔ وہ اس کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھی۔
جب آپ کال کریں گی ۔۔۔ عابر نے خوشدلی سے کہا۔
اچھا ۔۔۔۔ اس نے اچھا کو خاصا کھینچ کر کہا۔۔ آپ کوئی کال بوائے ہیں کیا ؟
خوب معنی پہنائے میری بات کے ۔۔ آپ بولڈ ہونے کے ساتھ شریر بھی ہیں ۔۔۔ عابر نے رخصت ہوتے ہوئے کہا۔
آرزو نے تھینکس کہا اور اسے جاتے ہوئے ایک خاص انداز سے دیکھنے لگی۔ جانے ان نظروں میں کیا تھا۔
مائی پنکھی جو اب رانی پنکھی بن چکی تھی ، سرخ ریشمی لباس میں اپنی چارپائی پر بڑی تمکنت سے بیٹھی تھی۔ اس کے سر پر تاج موجود تھا جو گزشتہ رات کی کہانی سنا رہا تھا۔ رانی پنکھی کو صحرا میں منعقدہ تقریب کا ایک ایک لمحہ یاد تھا۔ یہ اعزاز واقعی بڑا تھا جو کسی انسان کو اس کے شیطانی کارناموں پر عطا کیا گیا تھا۔ اس کی شان میں وہاں جو کچھ کہا گیا ، اسے یاد کر کے وہ جھوم رہی تھی۔
لیکن وقت رخصت جو بدمزگی ہوئی ، اسے یاد کر کے رانی پنکھی فکرمند ہو گئی ۔ کالی دنیا میں بگا کی جو حیثیت تھی ، وہ اس سے اچھی طرح واقف تھی اور اس بات کا بھی اسے اچھی طرح احساس تھا کہ بگا اسے محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ اسے دل میں بسائے ہوئے تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وقت رخصت وہ ایسی بات کہہ دے گا اور اس کے جواب میں اس کے منہ سے بھی ایسی بات نکل جائے گی جو اس کو ناراض کر جائے گی لیکن اب جو ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
رات گزر چکی تھی صبح کا اجالا پھیل چکا تھا۔ نیم کے درخت پر کوؤں کی کائیں کاٸیں جاری تھی۔ رانی پنکھی کے آواز دینے پر جب کالے منہ کی سفید بلی اندر کمرے سے نکل کر دروازے پر آئی تو سامنے بیٹھی رانی پنکھی کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ سرخ لباس اور سر پر تاج ۔۔۔ مائی پنکھی کی تو ٹون ہی بدلی ہوئی تھی ۔
رانی پنکھی نے انجو کی آنکھوں میں حیرت دیکھی تو پیار سے بولی۔۔
" آ جا ۔۔ میری انجو ۔۔۔“
انجو نے دو تین زقندیں بھریں اور اس کے پاؤں میں لوٹنے لگی۔ رانی پنکھی نے اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا اور پیار کرتے ہوئے بولی۔۔
انجو میں رانی بن گئی ہوں، میں رات کو یہاں نہیں تھی، میں نے تجھ سے کہا تھا نا کہ میں رات کو جانے کہاں ہوتی ہوں، سالانہ جلسے میں مجھے تاج پہنایا گیا، انجو تو وہاں ہوتی تو سنتی کہ میری شان میں وہاں کیا کیا کہا گیا، میں تجھے سب سناؤں گی ، ایک ایک بات بتاؤں گی ، چل پہلے میرے ناشتے کا انتظام کر، میں بھی ذرا یہ تاج سنبھال کر اندر رکھ دوں اور کپڑے بدل لوں ۔۔
رانی پنکھی نے انجو کو چارپائی پر چھوڑا اور خود بڑی تمکنت سے چلتی اندر کمرے میں چلی گئی۔
انجو اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی۔
تھوڑی دیر کے بعد جب رانی پنکھی باہر آئی تو وہ گھریلو لباس میں تھی۔ اپنے روایتی لباس کالے لہنگے اور کالی کرتی میں ۔ وہ تیز تیز چلتی باورچی خانے میں پہنچی۔
چولہے میں آگ جلا کر اس نے ہنڈیا میں مال مسالاً ڈالا اور اسے اہلنے کے لیے رکھ دیا۔ دس منٹ کے بعد جب ہنڈیا میں ابال آ گیا تو رانی پنکھی نے انجو کو اشارہ کیا۔ اشارہ ملتے ہی وہ ایکشن میں آ گئی۔
پھڑپھڑاتے کوے کو رانی پنکھی نے ہنڈیا میں ڈالا اور یخنی تیار ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ سیال تیار ہونے پر اس نے اہلتے سیال میں ہاتھ ڈال کر کوے کو نکالا اور اسے لیے باورچی خانے سے باہر آگئی۔ انجو کمرے میں جا چکی تھی۔
وہ بیچ صحن میں کھڑی ہوئی ، اس نے ایک نظر اوپر دیکھا اور کچھ پڑھ کر کوا آسمان کی طرف اچھال دیا ۔۔ لے بگا ۔۔
لیکن جواب میں وہ ہوا، جو کبھی نہ ہوا تھا۔
اس دن جب عابر، آرزو کے گھر پہنچا تو اس کا انداز ہی بدلا ہوا تھا۔ اس نے عابر کو فون کر کے بلایا تھا۔ کہا تھا ۔۔
میں اسپتال سے نکل رہی ہوں، کیا آپ ابھی میرے گھر آ سکتے ہیں ؟ ۔۔
ہاں آ سکتا ہوں ۔۔م عامر نے اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔ اس وقت ساڑھے چھ بجے ہیں، میں ساڑھے سات آٹھ کے درمیان پہنچ جاؤں گا، ٹھیک ہے ۔۔
سو سوئٹ ۔۔۔ آرزو یکدم خوش ہو گئی ۔۔ بے شک آپ آٹھ بجے کے بعد آ جائیں، آرام سے لیکن اتنا یاد رکھیے گا کہ کھانا میرے ساتھ کھائیں گے ۔۔ اوکے۔ میں انتظار کروں گی ۔۔۔ اور پھر عابر کا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا۔ یہ اس کی عجب عادت تھی۔
عابر آٹھ بجے کے بعد ہی یہاں پہنچا تھا۔ آرزو نے دروازہ کھولا تو اس کے بائیں ہاتھ میں نازک سا گلاس تھا جو آدھا بھرا ہوا تھا۔ عابر نے غور سے اس ادھ بھرے گلاس کی طرف دیکھا لیکن وہ اندازہ نہ کر پایا کہ اس میں پانی ہے، کولڈ ڈرنک ہے یا کچھ اور ۔۔
آرزو نے عابر کے اندر آنے کے بعد دروازہ لاک کیا اور مسکرا کر بولی ۔۔ کیسے ہیں؟
مجھے کیا پتا؟ ۔۔۔ عابر اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا ۔
کیا مطلب؟ ۔۔۔ آرزو نے رک کر پوچھا۔
مطلب یہ کہ میں کیسا ہوں ، اس کے بارے میں آپ ہی کچھ بتا سکتی ہیں، مجھے کیا معلوم کہ میں کیسا ہوں ۔۔۔ عابر ہنسا۔
یو آر سو سویٹ ۔۔۔ آرزو نے اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔
اور جب وہ دونوں لاؤنج میں آگئے تو آرزو اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے کے بجائے کھلے دروازے کی طرف بڑھی۔۔
آئیے اندر آ جائیں ۔۔
آج پہلی بار اس نے آرزو کا بیڈ روم دیکھا۔ کمرے میں گھستے ہی دو کرسیاں پڑی تھیں، کرسیوں کے ساتھ کارنر ٹیبل ، جس پر لینڈ لائن ٹیلیفون رکھا تھا اور ساتھ ایک ڈائری تھی۔ عابر کو ٹیلیفون دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ آرزو نے اس لینڈ لائن کا کبھی ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسے نمبر دینے کی کوشش کی تھی۔ آگے بیڈ تھا جس پر گہرے نیلے رنگ کی چادر بچھی تھی۔ بیڈ کے اس طرف ڈریسنگ ٹیبل تھی جو ہر طرح کے سامان سے خالی تھی۔ ڈریسنگ کے برابر واش روم کا دروازہ اور بیڈ کے سامنے ٹیلی ویژن تھا مع ڈی وی ڈی پلیئر ۔۔
آرزو نے عابر کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ آج اس نے ڈھیلا ڈھالا گلابی گاؤن نما لباس پہن رکھا تھا۔ آرزو نے گلاس سے ایک ہلکا سا گھونٹ بھرا۔ عابر کو مسکراتی نظروں سے دیکھا اور بولی ۔۔
آج میں بہت اداس تھی، میرا جی چاہ رہا تھا میرے پاس کوئی ہو ۔۔ اپنا جیسا ۔۔ بس پھر میں نے آپ کے نام پر انگلی رکھ دی آپ آگئے آپ کا بڑا کرم ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ گلوگیر سی ہو گئی۔
مان دینے کا شکریہ ۔۔۔ عابر نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اداسی بال کھول رہی تھی۔۔ آرزو صاحبہ کیا ہوا آپ کو ؟ ۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی ۔۔ بس یوں ہی کبھی ڈپریشن میں آ جاتی ہوں ۔۔
میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ آپ ڈاکٹر ہیں، خوبصورت ہیں پھر بھی اکیلی ہیں، آخر ایسا کیوں ؟ ۔۔۔ عابر نے سوال اٹھایا۔
کس نے کہا میں اکیلی ہوں آپ ہیں نا میرے پاس ۔۔۔ آرزو نے ٹالنا چاہا۔
یہ ایک وقتی ساتھ ہے ۔۔۔ عابر نے سنجیدگی سے کہا۔۔ آپ نے شادی کیوں نہیں کی ابھی تک۔ یہ بتانا پسند کریں گی ؟ ۔۔
کس نے کہا آپ سے کہ میں نے شادی نہیں کی بابا، میں شادی شدہ ہوں، ایک بچی کی ماں ہوں ۔۔۔ آرزو نے دونوں ہاتھ میں تھامے گلاس سے پھر ایک گھونٹ بھرا۔
عابر اُس کے اس انکشاف پر حیران رہ گیا۔ وہ کہیں سے شادی شدہ نظر نہ آتی تھی کجا ایک بچی کی اماں ۔
کہاں ہے وہ بچی؟ عابر نے پوچھا۔
عابر صاحب، معاف کیجئے گا یہ مرد بڑے کمینے ہوتے ہیں ۔۔۔ آرزو یکدم انتہائی تلخ ہو گئی۔۔ وہ جاتے ہوئے بچی کو ساتھ لے گیا ، سنا ہے وہ ملک ہی چھوڑ گیا، میری بچی ایک سال کی تھی جب مجھے طلاق ہوئی اور میری بچی مجھ سے چھنی ۔۔۔۔ ایک طویل عرصہ ہو گیا مجھے اپنی بچی کو دیکھے ہوئے ، اب تو وہ جوان ہو رہی ہوگی ۔۔
جوان ۔۔۔ عابر کو یہ بات ہضم نہ ہوئی۔
جی عابر صاحب، اس وقت وہ بارہ تیرہ سال کی تو ہوگی ، میری شادی پندرہ سال کی عمر میں ہو گئی تھی ۔۔۔ آرزو نے گلاس منہ سے لگایا۔
اوہ اچھا ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ " اس شخص نے آپ کو طلاق کیوں دی ؟“ وہ ایک لالچی شخص تھا، اسے دولت کی ہوس تھی، میرے والدین جب اس کی ہوس پوری نہیں کر سکے تو اس نے مجھے ٹھوکر مار دی ۔ تب میں نے خود کو سنبھالا۔ تعلیم حاصل کی ، ڈاکٹر بنی، آج میرے پاس دولت ہے، میں ساٹھ ہزار روپے اس گھر کا کرایہ ادا کرتی ہوں، اتنے بڑے گھر میں مجھے تنہا رہنا پسند ہے، میں خوش ہوں۔ میں اب کبھی شادی نہیں کروں گی، مجھے شادی سے نفرت ہے ۔۔۔ آرزو نے عابر کی آنکھوں میں دیکھا پھر یکلخت اس نے اپنا موڈ بدلا ، چہرے پر مسکراہٹ بکھیری۔ پھر اپنے مخصوص انداز میں ناک سکوڑی ۔۔ چھی ۔۔ آپ نے یہ کیا موضوع چھیڑ دیا ؟
سوری ۔۔ آرزو صاحبہ ۔۔ عابر کی نظریں اس گلاس پر تھیں جو آرزو نے دونوں ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔
سوری ۔۔ عابر صاحب میں آپ کو کولڈ ڈرنک دینا بھول گئی ۔۔۔ اس نے اپنے گلاس کو خاص انداز سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ " میں ابھی لاتی ہوں۔"
بیٹھ جائیے ۔۔۔ عابر بولا ۔۔ یہ بتائیے اس گلاس میں کیا ہے؟
ڈرنک ہے لیکن کولڈ نہیں ۔۔۔ آرزو نے اسے گہری نظروں سے دیکھا پھر ہنسی اور ہنستی چلی گئی۔
آپ ڈاکٹر ہو کر زہر پی رہی ہیں؟ ۔۔۔ عابر نے سنجیدگی سے کہا۔
جب تنہائی کاٹے نہ کٹے تو آدمی کیا کرے ؟ ۔۔۔ آرزو پھر سے آزردہ ہو گئی۔
لیکن آپ تو کہتی ہیں کہ آپ کو تنہا رہنا پسند ہے؟ ۔۔۔ عابر نے جرح کی۔
ہاں پسند ہے ۔۔۔ آرزو کی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیرنے لگے تھے۔ اس کی آنکھیں پہلے ہی کیا کم قیامت خیز تھیں کہ ان گلابی ڈوروں نے انہیں مزید قیامت خیز بنا دیا تھا۔ ان بند ہوتی آنکھوں کو اس نے ہلکا سا کھول کر کہا ۔۔
" اب میں کسی مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن تنہائی تو کاٹتی ہے، پتا نہیں آپ میری بات سمجھیں گے کہ نہیں ؟“
آپ کے گھر کے لوگ کہاں ہیں۔ ان کے ساتھ رہیں نا ۔۔۔ عابر نے کہا۔
سب مر کھپ گئے ۔۔ کوئی نہیں ہے میرا ۔۔۔ آرزو ہذیانی سی ہوگئی ۔۔ پلیز چھوڑیں اس موضوع کو کوئی اور بات کریں، میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔۔۔ گلاس ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے وہ پورے ہاتھ تو نہ جوڑ سکی البتہ اس نے اپنی انگلیاں جوڑ دیں۔
عابر نے خلاف معمول کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اسے یک ٹک دیکھتا رہا۔
وہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔ " میں آپ کے لیے کولڈ ڈرنک لاتی ہوں ۔"
چند منٹوں کے بعد وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک گلاس تھا۔ عابر کو گلاس ہاتھ میں لیتے ہوئے ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ کولڈ ڈرنک سفید تھی۔ ایک لمحے کو عابر کے دل میں شبہ گزرا کہ کہیں یہ کمبخت اس کے لیے کولڈ ڈرنک کے بجائے ” ڈرنک “ تو نہیں لے آئی ۔ عابر نے اس گلاس کو اپنی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے سوچا۔
شبہ نہ کریں، سو فیصد کولڈ ڈرنک ہے ۔۔۔ آرزو اس کی چوری پکڑتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔۔ میں کسی کو فریب نہیں دیتی ۔۔
چلیے میں یقین کر لیتا ہوں ۔۔۔ عابر نے یہ کہتے ہوئے ہلکا سا گھونٹ لیا۔ وہ واقعی کولڈ ڈرنک تھی۔ اس نے مطمئن ہو کر لگاتار دو گھونٹ لیے۔ آرزو نے ٹی وی آن کیا ، ڈی وی ڈی منتخب کر کے پلیٹر میں لگائی۔ وہ اس کی طرف سے پینٹے موڑے قالین پر بیٹھی ڈی وی ڈی لگانے میں مصروف تھی۔ اس کی پیٹھ دیکھ کر عابر کو اس سانپ کا خیال آیا جو بقول آرزو اس کی پیٹھ پر موجود تھا۔ اچانک اس کے اندر ایک شدید خواہش جاگی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ سانپ کو کیونکر دیکھے۔ آرزو سے کسی طرح کی فرمائش کرنا انتہائی معیوب بات تھی۔
ایک انگلش رومانوی فلم لگا کر آرزو اس کے برابر والی کرسی پر آ بیٹھی اور بولی۔۔ " یہ بڑی زبردست فلم ہے، میں اسے دس بارہ مرتبہ دیکھ چکی ہوں ۔“
اچھا ۔۔۔ عابر نے ٹی وی اسکرین پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
فلم شروع ہوئی تو عابر کو یہ اندازہ لگاتے دیر نہ لگی کہ فلم کسی قسم کی ہے۔ جذباتی مناظر کی بھرمار نے عابر کو بےچین کر دیا۔ وہ ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھا اور لاؤنج میں آ کر ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔
آرزو کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ عابر بیڈ روم سے اٹھ کر کیوں گیا ہے۔ اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر عابر کو دیکھا جو صوفے پر بیٹھا پورے اطمینان سے کولڈ ڈرنک کے گھونٹ لے رہا تھا ۔
آرزو نے ڈی وی ڈی پلیئر آف کر دیا اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اندر سے آواز لگائی ۔۔
عابر اندر آجائیں میں نے ڈی وی ڈی پلیئر آف کر دیا ہے ۔۔
عابر اس کی آواز سن کر بیڈ روم میں آ گیا اور کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا ۔۔ ایسی فلمیں دیکھ کر میرے سر میں درد ہو جاتا ہے ۔۔
آرزو نے کوئی جواب نہ دیا ۔ چند لمحوں بعد اس کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے ٹی وی کے اوپر رکھے ہوئے موبائل کو اٹھایا، اسکرین پر نام دیکھ کر وہ بیڈ روم سے باہر نکل گئی اور بات کرتی ہوئی کچن میں چلی گئی۔ اتنی دور کہ عابر تک اس کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔ پھر اس نے موبائل آف کر کے لاؤنج کی میز پر رکھا اور اندر آگئی ۔۔
سوری عابر ۔۔ آپ بور تو نہیں ہوئے ؟
نہیں ۔۔۔ عابر نے گلاس خالی کر کے کارنر ٹیبل پر رکھا۔
اچھا یہ بتائیے آپ کھانا کسی وقت کھانا پسند کریں گے؟ آرزو نے ٹیبل سے خالی گلاس اٹھاتے ہوئے کہا۔
جب آپ کا دل چاہے ۔۔۔ عابر بولا ۔
آرزو نے وال کلاک پر نظر ڈالی ۔۔ چلئے پھر آدھا گھنٹے کے بعد کھاتے ہیں، آپ اجازت دیں تو ایک چکر کچن کا لگا لوں ؟ ویسے کھانا تیار ہے ۔۔
آپ ایک نہیں ، دو چکر لگائیں ۔۔۔ عابر نے ہنس کر کہا۔
وہ گنگناتی ہوئی بیڈروم سے نکل گئی۔ کچن سے اس کے گانے اور دیگچیوں سے ڈھکن اٹھانے اور رکھنے کی آوازیں آتی رہیں۔
عابر سوچنے لگا کہ یہ کس قسم کی لڑکی ہے پھر اسے فورا ہی خیال آیا کہ لڑکی کہاں عورت ہے، ایک بچی کی ماں ۔۔ یہ اور بات کہ اسے عورت کہنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ وہ کس ٹائپ کی لڑکی ہے، یہ بات وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا لیکن اسے یہ احساس ضرور تھا کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے۔
کچھ دیر کے بعد وہ گنگناتی ہوئی بیڈ روم میں آ گئی۔ اسے مسکراتی آنکھوں سے دیکھا اور واش روم کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولی ۔۔ ایک منٹ میں آئی ۔۔
پھر واش روم کا دروازہ کھولنے سے پہلے گردن موڑ کر بولی ۔۔ عابر صاحب آپ نے میری پیٹھ پر بنے سانپ کو دیکھنے کی کبھی فرمائش نہیں کی ، حیرت ہے؟ ۔۔ اور پھر عابر کا جواب سنے بغیر واش روم میں داخل ہوئی اور کھٹاک سے دروازہ بند کر لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ واش روم سے باہر آئی تو اس نے لباس تبدیل کر لیا تھا۔ اب وہ ٹراؤزر اور لمبی قمیض میں تھی ۔ وہ اندر سے بالوں میں برش کرتی نکلی تھی ، پھر وہ بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل کے درمیان کھڑی ہو کر برش کرتے ہوئے بولی ۔۔
عابر صاحب ۔۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اسپتال کی نوکری چھوڑ دوں ۔۔
کیوں ؟ عابر نے پوچھا۔ اسے اس کے اس خیال پر حیرت ہوئی۔
اور جب اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے پر گئی تو یہ حیرت دو چند ہو گئی۔
آرزو کا چہرہ عابر کی طرف تھا اور پیٹھ آئینے کی جانب۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنے بالوں میں برش پھیر رہی تھی۔ عابر کو آئینے میں جو نظر آ رہا تھا، اس کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایسا اس نے دانستہ کیا تھا یا بھول ہے۔
لیکن اس کی یہ بھول بڑی چشم کشا تھی ۔ کھلی قمیض میں سے اس کی پیٹھ صاف نظر آ رہی تھی۔ اس کی پشت پر سانپ کا کوئی نشان نہ تھا، جلد صاف تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آرزو نے جو کچھ کہا، وہ جھوٹ کہا تھا۔ لیکن کیوں ؟
ہالوں میں برش پھیرتے پھیرتے وہ رک گئی۔ عابر کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر اس کی چھٹی حس جاگی ۔ اس نے گردن موڑ کر آئینے میں دیکھا تو اس کے منہ سے بےاختیار نکلا ۔۔
" او مائی گاڈ "
اس نے برش بیڈ پر اچھالا اور کسی چھلاوہ کی طرح چھلانگ مار کر واش روم میں گھس گئی اور جب باہر آئی تو شرمندہ شرمندہ سی تھی ۔ قمیض کی کھلی ہوئی زپ بند ہو چکی تھی۔
عابر نے اسے مرید شرمندہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جو بات چل رہی تھی ، وہ اس نے دہرائی ۔۔
آپ اسپتال کی نوکری کیوں چھوڑنا چاہتی ہیں ؟
ہاں ۔۔۔ آرزو کو جیسے سہارا ملا۔ وہ اس کو ممنون نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی ۔۔ اسپتال کی نوکری میں بک بک بہت ہے، میں چاہ رہی ہوں کہ اپنا کلینک کھول لوں ، اس طرح مجھے اپنے مشاغل کے لیے وقت بھی مل جائے گا اور وقت بے وقت اسپتال جانے سے میری جان چھوٹ جائے گی ۔۔
خیال تو برا نہیں ۔۔ لیکن کلینک جمتے جمتے ہی جمے گا، میرا مطلب ہے وقت لگے گا ۔۔۔ عابر بولا ۔
کوئی پرواہ نہیں ۔۔۔ آرزو نے یہ کہہ کر گھڑی پر نظر ڈالی ۔۔ آیئے لاؤنج میں چلیں، میں کچن میں کام بھی کرتی رہوں گی اور باتیں بھی ۔
او کے ۔۔۔ عابر اس کے ساتھ بیڈ روم سے باہر نکل آیا اور صوفے پر اس طرح بیٹھا کہ وہ سامنے نظر آتی رہے۔
آرزو نے فریج کا دروازہ کھول کر کچھ چیزیں نکالیں اور مصروف عمل ہو گئی۔ دس پندرہ منٹ بعد اس نے میز پر کھانا لگانا شروع کر دیا۔ اس نے اچھا خاصا تکلف کر لیا تھا۔ کھانا اچھا تھا ، عابر نے پوری دلچسپی اور رغبت سے کھایا۔ کھانے کے دوران وہ عابر سے ادھر ادھر کی بات کرتی رہی پھر اچانک اس نے ایک سوال کیا اور یہ پہلا ذاتی سوال تھا جو اس نے اب تک کی ملاقاتوں میں کیا تھا۔
0 تبصرے