اس نے پوچھا ۔۔ عابر ۔ کیا آپ شادی شدہ ہیں ؟
عابر نے اس اچانک سوال پر آرزو کو دیکھا اور بولا ۔ جی، میں شادی شدہ تھا ۔۔
واقعی آرزو کو شاید اس جواب کی امید نہ تھی۔ کیا آپ کی شادی بھی چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہو گئی تھی ؟ یہ کہہ کر وہ ہنسی ۔
نہیں ۔۔ اس حادثے کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔۔۔ عابر نے سنجیدگی سے کہا۔
چلیں وفع کریں ۔۔۔ آرزو نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی، میں نے غلط وقت پر غلط موضوع چھیڑ دیا، اچھا یہ بتائیں چائے پئیں گے یا کافی ؟ ۔۔
چائے ۔۔۔ وہ مسکرا کر بولا ۔
چائے بنانے میں آرزو نے خاصی دیر لگائی ۔ اس اثنا میں اس نے کچن سے اپنے بیڈروم کے کئی چکر لگائے ۔ موبائل اس کے ہاتھ میں تھا۔ وہ بار بار موبائل فون کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔
اچانک اسکرین روشن ہوئی لیکن گھنٹی نہیں بجی۔ فون سائلنٹ پر تھا۔ آرزو نے موبائل آن کر کے کان سے لگایا ۔۔ ہیلو کہا ۔۔ جواب میں ادھر سے کچھ سنا اور بولی ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔
پھر وہ تیز تیز قدموں سے کچن میں گئی اور ایک کپ چائے لے آئی ۔ عابر نے ایک کپ دیکھ کر پوچھا ۔۔ اور آپ ؟ ۔۔
میں چائے نہیں پیوں گی ۔۔۔ آرزو نے کچھ اس انداز سے کہا کہ عابر نے پھر کوئی سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔
چائے پیتے ہوئے عابر کی نظر لاؤنج کی وال کلاک پر گئی تو وہ چونکا۔ بارہ سے اوپر کا عمل تھا، اسے گھر پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگ سکتا تھا۔ خاصی دیر ہو گئی تھی ۔ وہ جلدی جلدی چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔
عابر کو جلدی جلدی چائے پیتے دیکھ کر آرزو نے کہا ۔۔
آرام سے ۔۔ گھر پہنچنے کی بہت جلدی ہے کیا ؟ میں آپ کو ساڑھے بارہ بجے سے پہلے نہ جانے دوں گی ۔۔
پندرہ منٹ کا مسئلہ تھا۔ عابد نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔۔
" چلیں ٹھیک ہے۔"
عابر صاحب۔ آپ کتنے اچھے ہیں ۔۔۔ آرزو نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر موبائل اٹھا کر بیڈ روم میں چلی گئی۔ عابر کو یہ تو محسوس ہورہا تھا کہ وہ بے چین ہے لیکن اس کی سرگرمی کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔
وہ پانچ سات منٹ کے بعد بیڈ روم سے نکلی اور پھر مسکراتی ہوئی کچن میں چلی گئی اور سنک میں پڑے برتن دھونے میں مصروف ہوگئی۔
ٹھیک ساڑھے بارہ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔
او گاڈ ، اس وقت کون آ گیا ؟ ۔۔۔ آرزو نے کچن سے آواز لگائی ۔۔ عابر صاحب ۔۔ ذرا د یکھئے گا ، دروازے پر کون ہے، میرا خیال ہے چوکیدار ہو گا ۔۔
عابر یہ سوچ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا کہ آرزو برتن دھونے میں مصروف ہے اس لیے اس نے اسے دروازے پر بھیج دیا ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ آرزو کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ دروازے پر کون ہے اس لیے اس نے قصدا اسے دروازہ کھولنے بھیجا ہے۔
دروازہ کھولتے ہی عابر کے ہوش اڑ گئے ۔
دو ہٹے کٹے بندے تیزی سے اندر آئے اور انہوں نے دائیں بائیں ہو کر بڑی پھرتی سے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔
جب عابر نے نظر اٹھائی تو اپنے سامنے ایک اور شخص کو ہاتھ میں ریوالور لیے کھڑا پایا۔
تم عابر ہو ؟ ۔۔۔ ریوالور والے شخص نے سوال کیا۔
عابر کو بڑی حیرت ہوئی کہ آنے والے اس کے نام سے بھی واقف تھے۔
چھوڑیں مجھے ۔۔ کون ہیں آپ لوگ ؟ عامر نے کسمسا کر کہا۔
شاہ جی ۔۔ وقت ضائع نہ کریں، اس کی شکل دیکھیں ، یہ عابر کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔۔۔ اسے مضبوطی سے گرفت میں لیے بائیں جانب والے بندے نے کہا۔
چلو پھر ۔۔۔ رہوالور والا شخص بولا ۔
پھر وہ عابر سے مخاطب ہوا ۔ تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہے، فیصلہ کر لو زندہ چلو گے یا مردہ؟ ۔۔
آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، اندر چل کر آرزو صاحبہ سے بات کر لیں ۔۔۔ عابر نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
لیکن انہوں نے ذرہ بھر بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ لمبے چوڑے بندوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اوپر اٹھایا اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگے، پیچھے ریوالور بردار شخص تھا۔
ان تینوں کے ہٹتے ہی ایک چوتھا آدمی نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت بریف کیس تھا۔ وہ کھلے دروازے سے اندر آیا اور جیسے ہی وہ راہداری سے مڑا۔ اسے آرزو نظر آ گئی، اس کے ہاتھ میں آدھا بھرا نازک سا گلاس تھا۔
وہ اس شخص کو دیکھ کر مسکراتی ہوئی آگے بڑھی اور بولی ۔۔ سب ٹھیک ہو گیا۔ کسی نے دیکھا تو نہیں؟ ۔۔
نہیں ۔۔ کسی نے نہیں دیکھا ۔۔۔ اس نے بریف کیس میز پر رکھا۔۔ سنیتا ۔۔ یہ بریف کیس سنبھالو، اس میں تیس لاکھ موجود ہیں، میں چلتا ہوں ، دروازہ بند کر لو ۔۔
سر جی ۔۔ کوئی چائے شائے؟ ۔۔۔ آرزو نے بریف کیس پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
اوہ ۔۔ نہیں بابا ۔۔ پھر کبھی سہی ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ شخص واپس پلٹا ۔ اور جب تک آرزو دروازے تک آئی ، وہ شخص سیڑھیاں اتر چکا تھا۔ ، وہ چند لمحے کھلے دروازے سے خالی سیٹرھیاں تکتی رہی۔ پھر اس نے دروازہ بند کیا اور لاؤنج میں آ کر اس صوفے پر بیٹھ گئی جہاں کچھ دیر پہلے عابر بیٹھا تھا۔
مجھے معاف کر دینا عابر ۔۔۔ اس نے اداس لہجے میں خود کلامی کی اور گلاس منہ
سے لگا کر غٹاغٹ پیتی چلی گئی۔
***
اس کا اچھالا ہوا کوا ٹھک کر کے اس کے منہ پر پڑا اور پھر منہ سے پھسل کر صحن کے فرش پر گرا۔ یہ رانی پنکھی کی توقع کے خلاف ہوا تھا۔ ایسا وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ بگا اس کی بھینٹ کو اس کے منہ پر مار دے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بگا اس سے سخت ناراض ہو گیا ہے۔
اس نے کوے کو پونچھ سے پکڑ کر اٹھایا اور یہ سوچ کر دوبارہ آسمان کی طرف اچھال دیا، ہو سکتا ہے ایسا کسی غلطی کی وجہ سے ہو گیا ہو۔ لیکن ایسا نہ تھا۔ کوے کی واپسی کسی غلطی کا شاخسانہ نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آسمان کی طرف اچھالا جانے والا کوا آسمان پر تھوکے جانے والے تھوک کی طرح اس کے منہ پر گرا۔ اب کسی قسم کے شبہے کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی۔
رانی پنکھی نے زمین پر پڑے توے کو پھر اٹھایا اور اسے لے کر باورچی خانے میں آ گئی۔ اس نے کوے کو چولہے میں جھونک دیا اور چولہے کی آگ تیز کر دی ۔ کوا آگ پر چڑ چڑ کر کے جلنے لگا ۔ مائی پنکھی نے پیڑھی پر بیٹھ کر زمین پر رکھی ہنڈیا اٹھائی اور منہ سے لگا لی۔
کوے کی یخنی پیتے ہی وہ سارا غم بھول گئی، اس کی آنکھوں میں دُھند اترنے لگی اور دل پر ایک سرشاری سی چھانے لگی۔ رانی پنکھی باورچی خانے سے نکل کر صحن میں بچھی چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھا اور پھر بھول گئی کہ وہ کہاں ہے، اسے اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک گداز بستر پر پایا۔ یہ ایک آراستہ کمرا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے کمرے کا جائزہ لیا اور سوچا کہ وہ کہاں ہے؟ یہ اس کے گھر کا کمرہ نہ تھا، یہ آرزو کا بھی بیڈ روم نہ تھا، یہ کوئی اور ہی خوبصورتی سے سجا کمرا تھا، پھر اسے جلد ہی سب یاد آ گیا کہ وہ رات کو کہاں تھا۔
اگرچہ کمرے کی تمام روشنیاں بجھی ہوئی تھیں لیکن پردوں کے پیچھے سے جھلکتا اجالا اس بات کا خماز تھا کہ صبح ہو چکی ہے۔ اگر وہ اپنے گھر کے کمرے میں ہوتا تو یقین کر لیتا کہ رات گئی بات گئی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ بات ابھی شروع ہوئی تھی۔
عابر کو آرزو کے گھر سے اُٹھایا گیا تھا۔ نیچے ایک اونچی سی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اسے دھکیلا گیا ، وہ دونوں بندے اس کے دائیں بائیں بیٹھ گئے ، ریوالور بردار اگلی سیٹ پر براجمان ہوا اور اس نے ہاتھ پیچھے کر کے ریوالور عابر کی پیشانی سے لگا دیا۔
ڈرائیور کی سیٹ خالی تھی ، دو منٹ کے بعد ہی ایک شخص نے ڈراٸیونگ سیٹ سنبھال لی اور اپنے برابر بیٹھے ہوئے شخص سے بولا ۔۔ ” شاہ جی ۔۔ چلیں؟“
ہاں ۔۔۔ شاہ جی نے جواب دیا اور پھر پیچھے مڑ کر بائیں جانب بیٹھے شخص کو حکم دیا ۔۔ اسے سگریٹ پلاؤ ۔۔
اس سے پہلے کہ عابر کہتا کہ میں سگریٹ نہیں پیتا ۔۔ دائیں جانب بیٹھے شخص نے اس کے منہ پر رومال رکھ دیا۔ چند لمحوں کے بعد عامر کو اپنا ہوش نہ رہا۔
آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ایک آراستہ بیڈ روم میں پایا۔ اس کا ذہن بوجھل تھا، لگتا تھا جیسے کسی گہری نیند سے جاگا ہو۔ وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھا تو اس کے پاؤں نے دبیز قالین کو چھوا، اس نے جھک کر دیکھا تو اُسے پاس ہی چپل نظر آئے۔
ابھی وہ چپل پہن کر واش روم جانے کے لیے اُٹھ ہی رہا تھا کہ دروازے پر ہلکی کی دستک ہوئی اور ایک تیز خوشبو کا جھونکا آیا۔ وہ چاند چہرہ اور ستارہ آنکھوں والی دلکش عورت تھی۔ سیاہ لباس اور ملٹی کلر دوپٹے میں اس کا حسن مزید نکھر آیا تھا۔
آپ جاگ گئے؟ ۔۔۔ اس نے عابر کو بیڈ پر بیٹھ دیکھا تو اس کے قریب چلی آئی۔
میں کہاں ہوں؟ عابر نے خوشبو بھری عورت کو ایک نظر دیکھا۔
آپ ایک خوبصورت بیڈ روم میں ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنسی اور پھر اس نے کھڑکی سے پردے ہٹائے۔ یکدم روشنی اندر آئی۔ اس روشنی سے جہاں کمرا منور ہوا، اس دلکش عورت کے رنگ بھی روشن ہو گئے ۔
وہ ایک خاص انداز میں چلتی ہوئی اس کی جانب آئی۔ ساتھ وہ بول بھی رہی تھی ۔۔
آپ شاور وغیرہ لے لیں ، اتنی دیر میں میں ناشتہ بھجواتی ہوں، ناشتے میں کوئی خاص چیز پسند ہو تو بلا تکلف بتائیں، کچھ لوگ پراٹھا پسند کرتے ہیں، یہاں ہر وہ چیز مل جائے گی جس کی آپ فرمائش کریں گے ۔۔۔ وہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئی اور ہونٹ دبا کر دھیرے سے مسکرائی ۔۔ کیا آپ میرا نام جاننا چاہیں گے؟
جی ضرور ۔۔۔ عابر نے خوشدلی سے کہا۔
میرا نام سوہنی ہے ۔۔ سوہنی افتخار ۔۔ لیکن میں مہینوال کی سوہنی کی طرح نک چڑھی نہیں ہوں ۔ مجھے آپ خوش مزاج پائیں گے۔ میں اب چلتی ہوں، میرے باہر نکلتے ہی دروازہ لاک ہو جائے گا اور دروازے پر کھڑی سکیورٹی الرٹ ہو جائے گی، میرا خیال ہے کہ آپ نے میری بات سمجھ لی ہو گی ۔۔ میرا نمبر ٹرپل سکس ہے، مجھے آپ ہر مشکل میں یاد کر سکتے ہیں ۔۔
دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے پلٹ کر عابر کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ اس کے باہر نکلتے ہی دروازہ کھٹک سے بند ہو گیا۔ سوہنی کی خوشبو اب بھی کمرے میں موجود تھی ۔ وہ جو بھی پرفیوم استعمال کرتی تھی ، اس کی خوشبو بہرحال خوشگوار تھی۔ سوہنی کے نمبر بتانے پر اسے اپنا موبائل فون یاد آیا۔ اس نے اپنی جیبوں میں موبائل فون تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ البتہ سائیڈ ٹیبل پر ایک سرخ رنگ کا خوبصورت ٹیلیفون سیٹ ضرور موجود تھا، شاید اسی کے ذریعے سوہنی سے رابطہ کیا جا سکتا تھا۔
وہ واش روم سے نہا کر نکلا تو ٹیلیفون کی گھنٹی بج رہی تھی۔
یہ خطرے کی گھنتی تھی۔
انجو کئی بار باہر کا چکر لگا چکی تھی لیکن ہر بار رانی پنکھی کوسوتا پایا تھا، ایسا کبھی نہ ہوا تھا۔ وہ کوے کی یخنی پی کر دوپہر ڈھلنے کے بعد بیدار ہو جاتی تھی لیکن اس وقت تو رات ہو رہی تھی۔ صحن میں اندھیرا پھیلا ہواتھا اور رانی پنکھی آنکھوں پر ہاتھ رکھے بےسدھ پڑی تھی، اس نے کروٹ تک نہیں لی تھی۔ انجو فکر مند ہوئی تھی کہیں بڑھیا چل تو نہیں بسی۔
تب اس نے چار پائی پر چھلانگ لگائی اور آنکھوں پر رکھے ہاتھ سے اپنا جسم رگڑنے لگی۔ جسم کے دباؤ سے رانی پنکھی کا ہاتھ اس کے چہرے سے ھٹ گیا لیکن وہ اب بھی بیدار نہ ہوئی۔
تب وہ رانی پنکھی کے پیروں کی طرف پلٹی اور زور زور سے اس کے پاؤں سے اپنا جسم رگڑنے لگی، پھر بھی کوئی اثر نہ ہوا تو اس نے رانی پنکھی کے پاؤں کے تلوؤں سے اپنا منہ لگایا ۔ گیلی زبان لکھتے ہی رانی پنکھی کی آنکھ کھل گئی، وہ فورا اٹھ کر بیٹھ گئی۔
اس نے صحن میں اندھیرا اور انجو کو بےقرار دیکھا تو ساری صورتحال اس کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ انجو کو کمرے میں لے گئی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ دونوں باہر آئیں تو انجو اس کے ساتھ انسانی روپ میں تھی۔ رانی پنکھی نے چارپائی پر بٹھتے ہوئے کہا۔۔ او انجو ۔۔ تو نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں ؟
اماں پتا نہیں تو کیا بیچ کر سوئی تھی، میں نے کوشش تو کئی بارکی، پر تو ٹس سے مس نہیں ہوئی ۔۔۔ انجو نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا، پھر اچانک جیسے اسے کچھ یاد آیا۔ وہ پرشوق لہجے میں بولی ۔۔ اماں کیا تو مجھے میرا چوتھا گھر دکھائے گی؟
ہاں دکھاؤں گی میں چاہتی ہوں تو جلدی جلدی اپنے سارے گھر دیکھ لے ۔۔۔ رانی پنکھی کے انداز میں الجھن تھی۔
ٹھیک ہے اماں ۔۔۔ انارہ اٹھتے ہوئے بولی۔۔ " میں کوٸلہ لے آؤں؟"
ہاں لے آ ۔۔۔ رانی پنکھی بھی اُٹھ گئی۔
پھر اس نے انارہ سے کوئلہ لے کر سات گھر بنائے اور خود ساتویں گھر میں بیٹھ کر اس نے آواز لگائی ۔۔ چل انجو ۔۔ آ جا چوتھے گھر میں بیٹھ جا ۔۔
اتارہ اس کی آواز سنتے ہی چوتھے گھر میں بیٹھ گئی اور بولی ۔۔ اماں ۔ بیٹھ گئی ۔۔
رانی پنکھی نے گلے سے چاندی کا بھاری تعویذ اتار کر مٹھی میں لیا اور کہنا چاہا ۔۔ ہاں انجو! دیکھ سامنے کیا ہے؟ ۔۔
لیکن رانی پنکھی کے گلے سے آواز نہ نکلی ۔ اس نے گھبرا کر مٹھی کھولی اور تعویذ زمین پر پھینک دیا۔
انارہ جو اس کے حکم کی منتظر تھی ، پریشان ہو کر بولی ۔۔ اماں کیا ہوا ؟ ۔۔
وہ انارہ کو کیا بتاتی کہ کیا ہوا ہے۔ ایسا تو کبھی نہ ہوا تھا۔ آج یہ دوسرا واقعہ تھا جو غیر متوقع طور پر وقوع پذیر ہوا تھا۔ صبح بگا نے کوا قبول نہ کیا اور اس وقت چاندی کا تعویذ یکلخت اتنا ٹھنڈا ہو گیا تھا کہ اگر رانی پنکھی اسے زمین پر نہ پھینک دیتی تو یقینا اس کا ہاتھ جل جاتا۔
اماں ۔ کیا ہوا ؟ ۔۔ بول نا ۔۔۔ انارہ جواب نہ پا کر پریشان ہو گئی۔
اری بتاتی ہوں ذرا مجھے بات سمجھ تو لینے دے ۔۔۔ رانی پنکھی نے زمین پر پڑے تعویذ کو اس کی ڈوری سے پکڑ کر اٹھایا ، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے کیا، اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور پھر تیزی سے اسے گھمایا اور پھر اسے زمین پر ڈال کرچھوا۔ وہ اب اتنا ٹھنڈا نہ رہا تھا کہ ہاتھ جلتا لیکن اسے مٹھی میں بند کرنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رانی پنکھی کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ کارروائی بھی بگا کی طرف سے کی گئی ہے۔ اس کی ناراضی بڑھتی جا رہی تھی۔
اماں ۔۔ تو نے تعویذ زمین پر کیوں پھینکا ۔۔۔ انارہ نے اپنا سوال نئے انداز سے دہرایا۔
انجو ۔۔ یہ تعویذ اچانک اتنا ٹھنڈا ہو گیا تھا کہ اگر زمین پر نہ پھینکتی تو میرا ہاتھ جل جاتا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بتایا۔
اماں ۔۔ کیا بات کر رہی ہے؟ گرم چیز سے ہاتھ جلتے ہوئے ضرور سنا ہے لیکن تو ٹھنڈے تعویذ سے جل رہی ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوٸے کہا ۔
ہم شیطان پرستوں کو آگ بالکل نہیں جلاتی۔ تو دیکھتی نہیں کہ میں ابلتے پانی میں ہاتھ ڈال دیتی ہوں، اگر جلتی آگ پر بھی ہاتھ رکھ دوں تو میرا کچھ نہ بگڑے گا ۔۔۔ رانی پنکھی نے انکشاف کیا ۔۔ اسی لئے اس نے تعویذ کو انگارہ نہیں بنایا، برف بنا دیا ۔۔
اماں ۔ کس نے ایسا کیا؟ ۔۔۔ انارہ نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
بگا کے علاوہ یہ کام کون کر سکتا ہے ، انجو ۔۔ وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے فکر مند لہجے میں کہا۔
اماں ۔۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے، تو اسے منا لے ۔۔۔ انارہ نے مشورہ دیا۔
تو نہیں جانتی کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
مجھے تو بس اتنا ہی پتا ہے کہ وہ تیرا مجنوں ہے ۔۔۔ انارہ یہ کہہ کر ہنسی ۔
اور اب یہ جنون اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ بدلہ لینے پر اتر آیا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے بتایا۔
تو تو اس کی بات مان کیوں نہیں لیتی؟ ۔۔۔ انارہ بولی۔
اس کی بات ماننے کا مطلب ہے کہ جیتے جی مر جاؤں ، وہ مجھے اپنی رانی بنانا چاہتا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کے سامنے کسی سہیلی کی طرح راز اگل دیا۔
یہ کوئی پاپ تو نہیں ۔۔۔ انارہ بولی ۔۔ ویسے بھی وہ کالی دنیا کا بااثر شخص ہے، اس نے تجھے رانی کا خطاب دلوایا ، اسی نے تیرے سر پر تاج سجایا۔ پھر تو کیوں بھاگ رہی ہے؟ ۔۔
ہاں۔ انجو ۔۔ تیری یہ بات ٹھیک ہے کہ اس کے مجھ پر ان گشت احسانات ہیں، وہ بچپن سے میرے ساتھ ہے، اس اُگنی پتھ پر ایک طرح سے اس نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہے، ایک انسان شیطان عورت کو یہ اعزاز اسی کی بدولت ملا ہے، یہ سب اپنی جگہ درست ہے لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں اس کی رانی بن گئی تو یہ اگنی پتھ یہیں تمام ہو جائے گا، بگا کو رانیوں کی کمی نہیں لیکن میری پرواز رک جائے گی ، میرے پر کٹ جائیں گے۔ بگا میری منزل نہیں، مجھے بڑے شیطان تک پہنچتا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے بہت صاف لفظوں میں اسے سمجھایا۔
اگر اسے رانیوں کی کمی نہیں ہے تو پھر وہ تیرے انتظار میں کیوں ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے سوال اٹھایا۔
جیسا میں نے تجھے بتایا، وہ بچپن سے میرے ساتھ ہے، میں اس کی چاہت ہوں، پھر میرا انسان ہونا اس کے لیے باعث کشش ہے، وہ بیچارہ بھی کیا کرے، میری جوانی طوفان اٹھا دینے والی تھی ، انجو تجھ میں میری تھوڑی بہت جھلک ہے ۔۔۔ رانی پنکھی یہ کہہ کر ہنسی ۔
اماں میں جانتی ہوں ، تیری آنکھوں میں اب بھی بڑی کشش ہے۔ پر اماں اب تو بڑھیا ہوگئی ، بگا ابھی تک تیرا کیوں دیوانہ ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
انجو یہ شریر اس دنیا تک ہے، دنیا چھوڑتے ہی من پسند روپ مل جاتا ھے ۔ بگا یہی تو چاہتا ھے کہ میں اس دنیا کو چھوڑ دوں، جیتے جی مر جاؤں، دنیا چھوڑتے ہی ترقی رک جائے گی ۔ بگا میری منزل نہیں اس لئے اس کی رانی بننے سے انکاری ہوں ۔۔
اماں تیرے اس جھگڑے میں مجھے نہ نقصان پہنچ جائے ۔۔۔ انارہ فکر مند ہو کر بولی۔
نہیں تجھے کچھ نہیں ہوگا۔ میں بگا کو سنبھال لوں گی تو پریشان نہ ہو ۔۔۔ رانی پنکھی نے تعویذ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ دیکھتی ہوں گرم ہوا کہ نہیں ۔۔
رانی پنکھی نے احتیاط سے چاندی کے تعویذ کو چھوا تو وہ اسے ٹھنڈا نہ لگا۔ اس نے تعویذ اٹھا کر مٹھی میں لے لیا اور پھسکڑ مار کر بیٹھتی ہوئی بولی ۔۔
" چل انجو۔ تیار ہو جا۔"
اماں میں تیار ہوں ۔۔۔ انارہ فورا بولی۔
اچھا پھر سامنے دیکھے۔ بول کیا نظر آرہا ہے؟ رانی پنکھی نے پوچھا۔
اماں ! میرے سامنے ایک بس ہے جو مسافروں سے بھری ہوئی ہے اور سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی بس سے اتر رہی ہے، اچھی پیاری لڑکی ہے، اس نے نیلے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے ۔۔۔ انارہ نے بتایا۔
اس لڑکی کا نام روشنا ہے اور یہ تو ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے بتایا۔
اماں ۔ یہ بس سے اتر کر کہاں جارہی ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
اس کی قسمت پھوٹنے والی ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے جواب دیا۔
اماں پھر تو اسے روک نا ۔۔ اسے برباد ہونے سے بچا ۔۔۔ انارہ نے پریشان ہو کر کہا۔
اسے میں کیا ، کوئی بھی گڑھے میں گرنے سے نہیں بچا سکتا۔ گیا وقت ہاتھ آتا نہیں ، اب تو چپ چاپ دیکھتی جا اور سنتی جا ۔۔
انارہ نے دیکھا کہ روشنا بس سے اتر کر ٹھیلے والوں کی طرف بڑھی۔ بس میں اس کے ماں، باپ موجود تھے، وہ ان کے ساتھ اپنے گاؤں جا رہی تھی ، وہاں اس کے چچا کی بیٹی کی شادی تھی، چچازاد بہن کے ہونے ساتھ رئیسہ اس کی سہیلی بھی تھی۔ دونوں کا بچپن ساتھ گزرا تھا۔ اسلئے وہ خوشی خوشی شادی میں شرکت کے لیے جارہی تھی۔ یہ ایک غریب گھرانہ تھا جو گھریلو ملازماؤں کے طور پر کام کر کے زندگی کاٹتا تھا۔
روشنا کو بس سے بن کباب کا تھیلا نظر آیا تو اس نے اپنی ماں سے کہا ۔۔ اماں ! مجھے بھوک لگ رہی ، میں ٹھیلے سے بند کباب لے آؤں، کیا تیرے لئے لاؤں ؟
میرے لئے ہی نہیں، اپنے ابا کے لیے بھی لا ۔۔۔ روشنا کی ماں نے اپنی قمیض سے چھوٹا سا پرس نکال کر اسے پیسے دیتے ہوئے تاکید کی ۔۔ روشنا پر جلدی آ ۔۔ گاڑی چلنے والی ہے ۔۔
اچھا اماں ۔۔۔ روشنا پیسے لیتے ہی کھڑی ہو گئی۔ بس سے اتر کر اس نے ٹھیلے کی طرف نظر کی۔ ٹھیلے والا بن کو چھری سے کاٹ رہا تھا۔ ایک مسافر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس وقت دوپہر کا وقت تھا سخت گرمی تھی۔ روشنا تیزی سے ٹھیلے کی طرف بڑھی۔ بس سے اترتے ہی روشنا پر دو بد قماش بندوں کی نظر پڑی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھا۔ اس مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ ہی وہ دونوں ایکشن میں آ گئے ۔ ان کے کندھوں پر رومال پڑے ہوئے تھے اور سر پر ٹوپیاں تھیں۔ شلوار قمیض میں ملبوس ان مکروہ چہروں نے کندھوں سے رومال اتار کر اپنے ہاتھ میں لے لئے اور روشنا کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے ۔ کچھ اس طرح جیسے وہ اس کے ساتھ ہوں۔
روشنا کا آرڈر سن کر بن کباب والا اپنے کام میں مصروف ہوا۔ ان دونوں نے اپنے رومال ہوا میں لہرائے ۔ کچھ اس انداز سے جیسے رومال جھاڑ رہے ہوں۔ اچانک روشنا کو اپنے چہرے پر ہوا محسوس ہوئی اور پھر چند سیکنڈ کے بعد وہ اپنے حواسوں میں نہ رہی۔ اسے گرتے دیکھ کر ان دونوں بدقماشوں نے اسے سنبھالا ۔ اتنی دیر میں ایک ہائی روف گاڑی ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ دروازہ کھول کر دونوں نے روشنا کو گاڑی میں ڈالا اور گاڑی جیٹ کی رفتار سے وہاں سے روانہ ہو گئی۔ جتنی دیر میں ٹھیلے والا کچھ سمجھتا، وہ گاڑی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔
یہ مشکل سے دو تین منٹ کا آپریشن تھا۔
روشنا کی ماں بس میں بیٹھی اپنی بیٹی پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ اس نے روشنا کو ٹھیلے کی طرف بڑھتے ، ٹھیلے کے سامنے رکتے دیکھا۔ اتنی دیر میں ایک گاڑی روشنا کے اور اس کے بیچ آ گئی ، اسی وقت ڈرائیور نے بس کا ہارن بجا کر مسافروں کو الرٹ کیا۔ روشنا کی ماں نے ڈرائیور کو دیکھا اور سوچا کہ وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بتائے کہ وہ بس سے باہر ہے۔ پھر یہ سوچ کر رہ گئی کہ ابھی تو اس نے پہلا ہارن دیا ہے اور اس وقت کئی مسافر باہر ہیں ، اتنی دیر میں تو روشنا بن کباب لے کر آ جائے گی۔
جب اس نے پلٹ کر ٹھیلے والے کی طرف دیکھا تو ہائی روف گاڑی وہاں سے جا چکی تھی اور روشنا ٹھیلے پر موجود نہ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بس کی طرف چل پڑی ہے۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا اطمینان لٹ چکا ہے۔
اطمینان کا سانس ان دونوں بدقماشوں نے بھی لیا تھا۔ وہ بہت خوش تھے۔ انہیں امید نہیں تھی کہ اتنی آسانی سے ان کے جال میں مچھلی پھنس جائے گی اور مچھلی بھی سنہری ۔
روشنا کو انہوں نے ”فور کے“ کی چورنگی کے نزدیک ایک گوٹھ کے پختہ مکان میں پہنچایا ، اسے انہوں نے ادھیڑ عمر ملازمہ جنت بی بی کے حوالے کیا۔ اسے ہدایت کی کہ روشنا کے ہوش میں آنے کے بعد اس کا خاص خیال رکھے، اگر کوئی مسئلہ ہو تو وہ انہیں موبائل فون پر آگاہ کر دے اور یہ کہ وہ رات تک واپس آئیں گے۔
جنت بی بی جس کا نام اصل میں دوزخ بی بی ہونا چاہیے تھا، نے انہیں اطمینان دلایا کہ وہ پورے اطمینان سے جائیں، وہ لڑکی کے ہوش میں آنے کے بعد اسے سنبھال لے گی۔
ان کے جانے کے بعد جنت بی بی نے اندر سے تالا لگایا جبکہ وہ لوگ گھر کے باہر بھی تالا ڈال گئے تھے اور انہوں نے ہائی روف کے بجائے ایک اور چھوٹی گاڑی لے لی تھی۔ وہ ہائی روف کو دروازے کے نزدیک گلی میں کھڑی کر گئے تھے۔
جنت بی بی نے بیڈ پر لیٹی روشنا کے ہاتھ پاؤں سیدھے گئے اور اس کی چادر کھینچ کر ایک طرف ڈالی ، اس نے لڑکی کے وجود کا جائزہ لیا۔ وہ گوری چٹی ، اچھے نقوش والی لڑکی تھی ، اس کا منہ زور سراپا اس کی کم عمری کی دلیل تھا، اپنے لباس سے کسی چھوٹے گھرانے کی محسوس ہو رہی تھی۔
جنت بی بی کو اندازہ تھا کہ وہ کتنی دیر میں ہوش میں آئے گی اس لیے اس نے پنکھا مزید تیز کیا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے اسے مقفل کر دیا اور اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر لیٹ گئی۔ اس وقت کوئی کام نہ تھا، کھانا وہ کھا چکی تھی بس اب آرام ہی کرنا تھا۔ وہ کچھ دیر اس نئی مچھلی کے بارے میں سوچتی رہی۔ پتا نہیں یہ کون ہے؟ اسے کہاں سے اٹھایا گیا ہے، یہ سب اس کے ہوش میں آنے کے بعد ہی پتا چلے گا۔ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ گہری نیند میں چلی گئی۔
0 تبصرے