پریشان نہ ہوں ۔۔۔ سوہنی نے عابر کو چونکتے دیکھ کر کہا۔۔ کافی آئی ہے ۔۔
پھر اس نے موبائل فون اٹھا کر یس کہا اور موبائل بیڈ پر ڈال دیا۔ چند لمحوں بعد دراز قد ویٹریس ٹرے اٹھائے اندر آئی۔ اس نے سلیقے سے کافی کے برتن سجائے ، سیدھے کھڑے ہو کر اس نے سوہنی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
تم جاؤ ۔۔۔ سوہنی بولی۔۔ میں خود نکالوں گی ۔۔
ویٹریس کے جانے کے بعد سوہنی بیڈ سے اٹھی۔ اس نے نفیس مگوں میں کیتلی سے کافی انڈیلی اور بولی ۔۔
ادھر صوفے پر آئیں گے یا وہیں لاؤں ؟ ۔۔
ارے آپ کیوں مجھے شرمندہ کر رہی ہیں ۔۔ عابر بیڈ سے اٹھتے ہوئے بولا ۔۔ " میں وہیں آیا جاتا ہوں ۔"
تب سوہنی صوفے پر ہی بیٹھ گئی اور اس نے کافی کا مگ عابر کے سامنے رکھا۔
سونی صاحبہ، میرا موبائل فون کہاں ہے؟ عابر نے پوچھا۔
آپ کہیں فون کرنا چاہتے ہیں ؟ ۔۔۔ سوہنی بولی۔
جی میرے گھر والے سخت پریشان ہوں گے، میں چاہتا ہوں ان سے بات کر لوں ۔۔
آپ کو نمبر یاد ہے؟ سوہنی نے پوچھا۔
جی ۔۔۔ عابر نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
سوہنی نے بیڈ پر پڑا ہوا اپنا موبائل فون اٹھایا اور کسی کو حکم دیا ۔۔ موبائل فون ۔۔
چند منٹ کے بعد دروازے پر دستک ہوئی اور ایک دوسری لڑکی ہاتھ میں موبائل فون لئے اندر آئی۔ اس نے موبائل سوہنی کے حوالے کیا اور خاموشی سے واپس چلی گئی ۔
عابر صاحب ۔۔ آپ گھر کے لوگوں سے کیا کہیں گے؟ ۔۔
یہی کہ مجھے اغوا کیا گیا ہے اور اغوا کرنے والے لوگ بڑے پیارے ہیں ، تاوان لینے کے بجائے میرا تاوان دیا گیا ہے اور مجھے ایک وی آئی پی روم میں رکھا گیا ہے ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے کہا۔
اس کا مطلب ہے کہ ہمیں رسوا کر کے چھوڑیں گے؟ ۔۔۔ سوہنی ہنسی ۔۔
پھر کیا کہوں ؟ ۔۔۔ وہ بولا ۔
آپ کہیں ۔۔ کسی دوست کے ساتھ لاہور آ گئے ہیں، گھوم گھام کر ایک دو دن میں واپس آ جائیں گے ۔۔۔ سوہنی نے مشورہ دیا ۔۔ انہیں یہ باور کرانا ہے کہ آپ جہاں ہیں، بخیر ہیں۔ چلیں نمبر بولیں ۔۔
عابر نے اس کی بات سمجھ کر نمبر بتایا۔ سوہنی نے نمبر پنچ کر کے موبائل فون اس کے حوالے کر دیا۔
کان سے لگاتے ہی ادھر سے صائمہ کی آواز آئی ۔۔ "ہیلو" ۔۔
آپی ۔۔ میں عابر بول رہا ہوں ۔۔
عابر تم تین دن سے کہاں ہو؟ امی ابو سخت پریشان ہیں ۔۔
آپی ۔۔ میں اس وقت ایک دوست کے ساتھ لاہور میں ہوں ، ایک دو دن بعد واپس آ جاؤں گا پھر آ کر تفصیل بتاؤں گا۔ امی ابو سے کہنا کہ میں بخیر ہوں، پریشان نہ ہوں ۔ ٹھیک ہے؟ ۔۔۔ عابر نے بتایا ۔۔
ٹھیک ہے ۔۔
اس سے قبل کہ وہ کوئی اور بات کرتا سوہنی نے اس کے ہاتھ سے موبائل فون لے لیا۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور کوئی شخص بغیر دستک دیئے اندر آیا۔ اُس شخص کو دیکھتے ہیں سوہنی کی پیشانی پر سلوٹیں پڑ گئیں۔ پھر فورا ہی اس نے اپنے چہرے کا تاثر بدل لیا۔ وہ سنجیدہ ہو کر شاہانہ انداز میں بیٹھ گئی۔
آنے والا شخص سیکورٹی افسر سمندر خان تھا۔ وہ ایک لحیم شحیم جثے کا چاق و چوبند خوبرو شخص تھا۔ وہ سوہنی کے بارعب ہو کر بیٹھنے سے قطعا متاثر نہ ہوا اور قریب آکر بولا ۔۔
آپ کو صاحب نے بلایا ہے ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ سوہنی نے یہ بات کچھ اس انداز میں کہی جیسے کہا ہو میں نے سن لیا، اب دفع ہو جاؤ۔ سمندر خان فورا واپسی کے لیے مڑا اور بے تاثر چہرے کے ساتھ کمرے سے نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد سوہنی بھی کھڑی ہو گئی۔ اس نے عابر کی طرف مسکرا کر دیکھا، دونوں موبائل فونز اٹھائے اور بغیر کچھ کہے کمرے سے نکل گئی۔
باہر نکل کر سونی نے اپنا موبائل فون آن کیا اور بولی ۔۔
آپ کہاں ہیں ؟ ۔۔
اپنے کمرے میں ۔۔۔ ادھر سے جواب آیا لیکن روکھے انداز میں ۔
ٹھیک ہے، میں دو منٹ میں پہنچ رہی ہوں ۔۔۔ سوہنی نے کہا اور تیز تیز چلنے لگی۔
ڈاکٹر اعتبار کے جواب سے اسے اندازہ ہو گیا کہ کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ اُسے یہ بات اچھی طرح پتا تھی کہ عابر کے کمرے میں جدید ترین کیمرا نصب تھا۔ تصویر کے ساتھ سرگوشی میں کی جانے والی گفتگو بھی صاف اور واضح انداز میں ریکارڈ کی جا سکتی تھی ۔ سوہنی نے عابر سے کی گئی گفتگو کو اپنے ذہن میں ری وائنڈ کر کے دیکھا اور سنا۔ جب اسے احساس ہوا کہ کئی جگہ اس نے غیر محتاط گفتگو کی ہے لیکن وہ ایسی نہ تھی کہ اسے فوری طور پر طلب کیا جاتا۔
ڈاکٹر اعتبار رات کو کیونکہ دیر سے سوتا تھا، لہذا وہ دو بجے کے بعد ہی آفس آتا تھا اور ابھی بارہ بجے تھے۔ وہ سوچنے لگی کیا سمندر خان نے کوئی ہاتھ دکھایا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح وہ سوچ رہی ہے، اس طرح کی کوئی بات نہ ہو، کوئی اور ہی ارجنٹ معاملہ ہو۔
دروازے پر کھڑے گارڈ نے اسے دیکھتے ہی دروازہ کھول دیا۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ بکھیر کر ڈاکٹر اعتبار کے شاندار کمرے میں داخل ہوئی ۔ ڈاکٹر اعتبار دائیں جانب اپنی آرام دہ کرسی پر پیچھے کی طرف جھکا نیم دراز تھا۔ وہ بغیر کچھ کہے سوہنی کو اپنی جہاندیدہ نگاہوں سے دیکھتا رہا، یہاں تک کہ سوہنی اس کے سامنے کرسی پر براجمان ہوگئی۔ ڈاکٹر اعتبار چالیس پینتالیس سال کا وجیہہ شخص تھا۔ اس کے چہرے پر معصومیت تھی جو اس کے چہرے کی نمایاں خوبی تھی۔ وہ ایک پھرتیلا شخص تھا، اس کے بائیں جانب کئی ٹیلیفون رکھے تھے۔ میز پر تین موبائل فون قرینے سے بچے تھے۔
سر آپ نے بلایا ۔۔۔ سوہنی نے مودبانہ انداز میں کہا۔
سوہنی افتخار، آپ کو کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار کا لہجہ اکھڑا ہوا تھا۔
کوئی غلطی ہو گئی سر ۔۔۔ سوہنی فکرمند ہوئی۔
میں نے ابھی روم ٹو کو اسکرین پر دیکھا، یہ آپ نے کیا کیا ، اس لڑکے کی گھر والوں سے کیوں بات کرا دی؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اس پر فرد جرم عائد کی۔
سر میں نے نئی سم سے بات کرائی ہے اور وہ سم موبائل سے نکال دی ۔۔۔ سونی نے وضاحت کی۔
جانتا ہوں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اسے دیکھا۔۔ لیکن بات کرائی کیوں ؟
سر وہ بہت پریشان تھا۔ آپ نے اس کا خیال رکھنے کو کہا تھا۔ یہ مشکل سے ایک منٹ کی گفتگو تھی اور اس نے وہ کہا جو میں نے اسے بتایا ۔ سوہنی نے مزید وضاحت کی۔
آپ کو مجھ سے اجازت لینا چاہتے تھی۔ آپ نہیں جانتیں کہ ہمارے ہاتھ سے ترپ کا ایک پتا نکل گیا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سرزنش کے انداز میں کہا۔
سر جانے اس لڑکے میں ایسا کیا ہے کہ مہربان ہونے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔ سوہنی نڈر انداز میں بولی۔
مہربان یا فریفتہ؟ ۔۔۔ ڈاکثر اعتبار نے اسے تیز نگاہوں سے دیکھا۔
پتا نہیں ۔۔۔ سوہنی نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
لیکن مجھے سب پتا چل گیا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اپنے لہجے کو معنی خیز بنایا ۔۔ میں نے اس پر تیس لاکھ روپے انویسٹ کئے ہیں، جب تک تیس لاکھ ڈالر نہ بنا لوں، مجھے چین نہیں آئے گا۔ میں آپ سے اس کی فائل واپس لے رہا ہوں ۔۔
سر ایسا مت کیجئے میرے علاوہ اسے کوئی ڈیل نہ کر سکے گا ۔۔۔ سونی یقین سے بولی۔
اچھا چلو ٹھیک ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار کو اچانک کچھ یاد آیا، اس لئے فوراً اس نے اپنا موڈ بدلا۔۔ لیکن آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ ہو ۔۔
نہیں ہو گی ۔۔۔ سوہنی نے بغیر کسی ندامت کے کہا۔
آج وہ لڑکیوں کے انٹرویو ہونے والے تھے۔ ان کا کیا ہوا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
انٹرویو چار بجے رکھا ہے، آپ کے لئے پندرہ لڑکیاں منتخب کی ہیں ۔۔۔ سوہنی نے اسے مسکراتی نظروں سے دیکھا۔
انہیں میرے کمرے میں بھیجنے سے پہلے اچھی طرح سمجھا تو دو گی نا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار ہنسا ۔
جی جیجا جی ۔۔ بہت اچھی طرح ۔۔۔ سوہنی نے اس کی طرف خاص انداز سے دیکھ کر کہا۔
لیب اسٹنٹ کی دو آسامیاں خالی تھیں۔ بی ایس سی لڑکیاں مانگی گئی تھیں ۔ پچاس لڑکیوں نے درخواستیں بھجوائی تھیں، جن میں سے سوہنی نے تصویریں دیکھ کر پندرہ لڑکیاں کال کی تھیں۔ اس وقت لڑکیاں بڑے کمرے میں موجود تھیں اور سوہنی ایک ایک کر کے لڑکیوں کو اچھی طرح سمجھا کر بھیجتی جا رہی تھی۔ وہ انہیں سمجھا رہی تھی۔۔۔
دیکھئے۔ انٹرویو کرنے کے بعد اگر سر نے آپ کو سلیکٹ کر لیا تو وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر دیکھیں گے، سر بہت اچھے پامسٹ ہیں، وہ ہاتھ دیکھ کر یہ اندازہ لگائیں گے کہ آپ کو کس برانچ میں بھیجا جائے ، ٹھیک ہے ؟ ۔۔
اب گھر سے ملازمت کے لئے آنے والی مجبور لڑکی ٹھیک ہے" کے جواب میں جی اچھا نہ کہتی تو کیا کہتی۔ یہ ڈاکٹر اعتبار عجب فطرت کا آدمی تھا۔ نام اس کا اعتبار تھا لیکن انتہائی نا قابل اعتبار تھا۔ وہ بس پیسے کا دیوانہ تھا، زر پرست تھا، منٹوں میں بندے کو شیشے میں اُتارنے والا ۔ کسی کو بیٹا، کسی کو بہن اور کسی کو باپ بنانے والا وہ انسان کو خرید نا جانتا تھا اور کسی کو سستے داموں نہیں خریدتا تھا۔ اگر بندہ پانچ لاکھ کا ہے تو وہ پچیس لاکھ ادا کرتا۔ اگر کوئی دو سو گز کے مکان پر راضی ہو سکتا تھا، وہ اسے ہزار گز کا بنگلہ عطا کرتا اگر کوئی بکنے کو راضی نہ ہوتا تو اس کے گرد ایسا جال ہوتا کہ وہ شخص نکلنے کے لئے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا۔ اس کے نزدیک ہر شخص کی کوئی نہ کوئی قیمت تھی اور وہ اس کی قیمت سے پانچ گنا زیادہ دینے کا عادی تھا۔ وہ اسے اپنی انویسٹمنٹ سمجھتا تھا۔ ایک پر پانچ دے کر دس کمانے کا عادی تھا۔
ایک زمانے میں اسے سائیکل بھی میسر نہ تھی ، اب اس کے پاس ذاتی ہیلی کاپٹر اور پلین موجود تھا۔ وہ خود کیونکہ زر پرست تھا، لہذا اس کی زر والوں سے دوستی تھی۔
سیاستدانوں کو وہ مٹھی میں رکھتا تھا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کئی بڑے اس کے زرخرید تھے۔ بنیادی طور پر وہ ایک ساٸنسدان تھا۔ اس نے انسانی دماغ پر خاصا کام کیا تھا ۔ یہ کام اس نے انسانی بہبود کے لئے نہیں بلکہ انسان کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا تھا۔ اس کی اس منفی ریسرچ کے لئے ایک بڑا ملک اس پر ہمہ وقت ڈالر کی بارش کرنے کیلیے تیار رہتا تھا ۔
ڈاکٹر اعتبار نے پورے ملک میں لیبس قاٸم کر رکھی تھیں۔ کٸی اسپتال کھول رکھے تھے ۔ لاہور کے نواح میں اس نے ایک بڑے فارم ہاؤس پر اپنی خفیہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں۔ منفی تحقیق کے علاوہ زر والوں کے لئے ایک گوشہ عیش مختص کر رکھا تھا۔ یہاں وہ لوگ آتے ، پر سکون وقت گزارتے اور چلے جاتے ، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔
ڈاکٹر اعتبار نے آرزو کے گھر کی ویڈیو کلپس دیکھ کر عابر کو اپنے کام کے لئے منتخب کر لیا تھا۔ ڈاکٹر اعتبار نے یادوں کے حوالے سے خاصا کام کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ انسان جب چاہے اپنی یادوں کو ری وائنڈ کر کے دیکھ سکتا ہے۔ وہ ایک ایسی چیز ایجاد کرنا چاہتا تھا جس کے ذریعے انسانی ذہن میں محفوظ یادوں کو ریکارڈ کر سکے اور ان مجرمانہ یادوں کے ذریعے اسے بلیک میل کر کے اپنا کام نکالا جا سکے۔ ڈاکٹر اعتبار کے اس پراجیکٹ میں ایک طاقتور ملک ضرورت سے زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ اگر ڈاکٹر اعتبار کسی طرح ان مجرمانہ یادوں کی مائیکرو فلم بنانے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ اس ٹیکنالوجی کے منہ مانگے دام وصول کر سکتا تھا۔ گزرے وقت کی مائیکرو فلم بنا کر کسی بھی شریف انسان کی غلطیوں کے ذریعے اسے بے دام غلام بنایا جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر اعتبار کا یہ تجربہ ابھی ابتدائی اسٹیج میں تھا لیکن وہ پُر اُمید تھا کہ بہت جلد اپنے تجربے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس تجربے کے لئے انسانوں کی ضرورت تھی اور ڈاکٹر اعتبار کئی انسانوں کو اس تجربے کی بھینٹ چڑھا چکا تھا ، کئی نوجوان اپنی یادداشت کھو چکے تھے۔
اب عابر کی باری تھی ۔۔آنکھ کھلنے کے بعد روشنا کو دم گھٹنے کا احساس ہوا۔ ذرا ہوش بحال ہوئے تو اس نے خود کو کسی کی وحشیانہ گرفت میں پایا۔ کوئی اژدھا اس کے وجود سے لپٹا اسے ڈس رہا تھا۔ کمرے میں مکمل تاریکی تھی، اتنی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔
کون ہو تم؟ روشنا نے مزاحمت کرنا چاہی۔
لیکن سوال یہ تھا کہ اگر اسے اپنی پہچان کرانا ہوتی تو اس کے مقدر کی طرح اس کمرے کو تاریک کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ وہ کالا چور تھا اور کالے چور کبھی ہاتھ آتے ہیں اور نہ ان کو کوئی شناخت کر سکتا ہے۔ سماج میں ان کی حیثیت بڑی مقتدر ہوتی ہے۔
بس پھر یہ اندھیرا کمرا روشنا کا مقدر بن گیا۔ کتنے دن گزرے کہ کتنے ماہ بیتے ، روشنا کو اندازہ نہ ہو سکا۔ اس کا ذہن ہر وقت ماؤف رہتا۔ وہ بےحس سی ہو گئی تھی شاید اسے نشہ آور انجکشن دیئے جا رہے تھے۔ اُسے سوال کرنے کی عادت تھی لیکن اب وہ سوال کرنا بھول گئی تھی۔ اس مقتدر شخص کی اس خفیہ رہائش گاہ میں جو لوگ موجود تھے، وہ سب روبوٹ تھے۔ کسی کو کسی سے غرض نہ تھی ، دلچسپی نہ تھی یا پھر ایک دوسرے سے خوف زدہ تھے۔
روشنا ان کی شکلیں دیکھتی رہتی تھی۔ وہاں ایک عورت تھی رقیہ نامی ۔۔ اس کا روشنا سے زیادہ واسطہ رہتا تھا۔ کھانا، پینا، ہہننا، اوڑھنا اور اس تاریک کمرے تک پہنچانا، سب کام رقیہ ہی کرتی تھی لیکن کیا مجال کہ وہ اس سے کام کے علاوہ کوئی اور بات کرتی ہو۔
روشنا چاہتی تھی کہ اس کی زخمی روح کی کوئی فریاد سنے، وہ کسی کے سامنے چیخ چیخ کر روئے، اپنا دکھ بیان کرے لیکن رقیہ اس کے دُکھ سننا تو دور کی بات ، اس سے بات تک نہ کرتی تھی۔
ایک دن جب روشنا کے دل پر بہت بوجھ تھا۔ اس کا دماغ پھٹا جار ہا تھا تو وہ ہاتھ جوڑ کر رقیہ کے قدموں میں بیٹھ گئی اور انتہائی دکھ سے بولی۔۔ کیا تمہارے پاس زہر ہے، مجھے دے دو۔ میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔
ایسی بات کر جو سمجھ میں آئے ۔۔۔ رقیہ نے دو قدم پیچھے ہٹتے ہوئے بیزاری سے کہا۔
تم کیا نہیں جانتیں ۔۔ زہر کا مطلب نہیں سمجھتیں ۔۔۔ روشنا نے سوال کیا۔
تجھے یہاں کیا پریشانی ہے، تو اس گھر کی رانی ہے ۔۔۔ رقیہ بولی۔
میں رانی نہیں بننا چاہتی مجھے ملازمہ بنوا دو، اپنے ساتھ کام پر لگا لو، خدا کے واسطے اس دوزخ بھری زندگی سے نجات دلا دو ۔۔۔ روشنا نے فریاد کی ۔
تو ایک بے وقوف لڑکی ہے، تو جیل میں ضرور ہے لیکن یاد رکھ تو اے کلاس میں ہے ۔۔
رقیہ باجی ۔۔ ایسی اے کلاس سے موت بھلی ۔۔ تم مجھے زہر لا دو ۔۔
رقیہ نے بیٹھی ہوئی روشنا کو اٹھایا اور اس کے منہ پر زور دار تھپڑ مار کر بولی ۔۔
آئندہ مجھے باجی نہ کہنا ۔۔
تھپڑ پڑتے ہی روشنا کواپنی اوقات یاد آ گئی۔ وہ ایسی رانی تھی جسے ایک ملازمہ، بہن مانے کو تیار نہ تھی ، وہ اسے باجی نہیں کہہ سکتی تھی۔
رقیہ اسے تھپڑ مار کر آرام سے کمرے سے چلی گئی۔ جب دروازہ بند ہو گیا تو وہ بیڈ پر کسی شہتیر کی طرح گری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔۔ وہ جو زندگی گزار رہی تھی ، اس میں اس کی مرضی کا کوئی دخل نہ تھا، وہ بے بس تھی لیکن اس زندگی سے اسے گھن آنے لگی تھی۔ اسے اپنا وجود سڑی ہوئی لاش لگتا تھا، اس کے ضمیر سے تعفن اٹھتا تھا۔ اب وہ مر جانا چاہتی تھی۔ رقیہ نے تھپڑ مار کر اس کے دُکھ کو مزید گہرا کر دیا تھا۔ وہ چاہتی تو کالے چور سے کہہ کر اسے تھپڑ کا مزہ چکھا دیتی لیکن اسے وہ سچی لگی ۔ وہ کسی رکھیل کی آخر باجی کیوں بنتی۔
اس تلخ زندگی کا زہر اس پر چڑھتا ہی جا رہا تھا۔ اسے اپنے ماں ، باپ یاد آئے۔ اپنا گھر ، عزیز ، رشتے دار ، سہیلیاں ، بچپن ۔ سب اس کی نگاہوں میں گھوم گیا۔ وہ روتی رہی اور گزرے وقت کو یاد کرتی رہی۔
وہ اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اُسے کہیں سے زہر نہ ملے گا، اس کا اسے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا۔ اسے ہر وقت قید رکھا جاتا تھا۔ اس وقت بھی رقیہ اس کی روح پر تھپڑ مار کر اسے کمرے میں بند کر گئی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ دو تین گھنٹے سے پہلے کمرے کا تالا نہ کھولے گی لہذا جو کچھ کرنا تھا، انہی اوقات میں کرنا تھا۔ اُس نے تکیے پر پڑے دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے اور ایک عزم کے ساتھ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ کیا کرتا ہے۔ وہ بیڈ سے اٹھی۔ اس کمرے میں ایک الماری موجود تھی جس میں اس کے کپڑے رکھے تھے۔ اس نے الماری کھول کر کئی شلواروں سے کمر بند کھینچے اور انہیں گرہ باندھ کر ایک کر لیا اور جھٹکے دے کر اس کی مضبوطی کا اندازہ کیا اور پھر بیڈ کی طرف بڑھی۔
اس نے بیڈ کے ساتھ کھڑے ہو کر پنکھے کو دیکھا جو پوری رفتار سے چل رہا تھا۔ اس نے پنکھا بند کیا ۔ کرسی اٹھا کر بیڈ پر رکھی اور اس پر چڑھ کر کمر بندوں سے تیار ہونے والی رسی پنکھے پر ڈالی ، رسی کے دونوں سرے جب اس کے ہاتھ میں آگئے تو اس نے بل دے کر اپنی گردن میں پھندا کسا اور پھر پنجوں کے بل کھڑے ہو کر دونوں ہاتھوں سے رسی تھامی اور کرسی کو لات مار کر بیڈ سے نیچے گرا دیا اور ہاتھوں سے رسی چھوڑ دی ۔۔۔۔
پنکھے سے جھولتی روشنا کو تڑپتے دیکھ کر انارہ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور تڑپ کر چیخی ۔۔
"اماں بس کر "
رانی پنکھی نے اس کی چیخ سن کر اپنی مٹھی کھولی ، جلدی جلدی کچھ پڑھا اور چوتھے گھر میں بیٹھی انارہ پر پھونک ماری۔ پھونک مارتے ہیں انارہ کے سامنے سے روشنا کی خودکشی کا دلخراش منظر غاٸب ہو گیا۔ اس منظر نے اس کے حواس معطل کر دیئے تھے۔ اس نے گہرے سانس لے کر اپنے حواس بحال کئے۔
چل انجو ۔۔ نکل آ چوتھے گھر سے ۔۔۔ رانی پنکھی نے چاندی کا بھاری تعویذ اپنے گلے میں ڈالا اور ساتویں گھر سے نکل آئی۔ وہ حسب معمول تھکن کی وجہ سے چارپائی پر جا لیٹی ۔ انارہ چارپائی پر بیٹھ کر رانی پنکھی کی ٹانگیں دبانے لگی۔ رانی پنکھی نے اپنی آنکھوں پر ایک ہاتھ رکھ لیا اور بولی ۔۔
انجو ۔۔ دیکھ لیا تو نے اپنا چوتھا گھر ؟
ہاں ۔ اماں دیکھ لیا ۔۔۔ انارہ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ۔۔ پھر وہی المناک انجام اماں ۔۔ کیا بنانے والے نے ہمیں آنسوؤں سے بنایا ہے؟
ہاں انجو، یونہی سمجھ لے ۔۔۔ رانی پنکھی بولی۔
اماں یہ بتا وہ اندھیرے میں اپنا منہ چھپا کر آنے والا شخص کون تھا ؟ انارہ نے پوچھا۔
وہ کالا چور تھا اور کالے چور کا کوئی نام نہیں ہوتا ۔۔۔ رانی پنکھی نے حقیقت بیان کی۔
ہاں اماں تو ٹھیک کہتی ہے ۔۔۔ انارہ بولی۔
انجو، میں چاہتی ہوں کہ تیرے بقیہ گھر جلدی جلدی تجھے دکھا دوں۔ مجھے اب بگا کی طرف سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے، وہ جانے کب کیا کر بیٹھے۔ یہ تیرے گھروں کا چکر جتنی جلد ہو سکے، پورا ہو جائے ، اگرچہ مجھے گھر دکھانے میں خاصی تھکن ہو جاتی ہے لیکن اب یہ کام جلد کرنا ہو گا اب میں تجھے کل رات ہی پانچواں گھر دکھاؤں گی، تیار رہنا ۔۔
اماں میں ہر وقت تیار ہوں، تو چاہے تو ابھی مجھے پانچویں گھر لے چل ۔۔۔ انارہ پرجوش ہو کر بولی ۔
اب اتنی بھی اتاولی نہ ہو میں کل رات تجھے ضرور پانچواں گھر دکھاؤں گی ۔
چل ٹھیک ہے اماں ۔۔۔ انارہ نے کہا اور اس سے پہلے کہ رانی پنکھی اسے کمرے میں جانے کی ہدایت کرتی ، انارہ خود اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ " اماں میں کمرے میں جاتی ہوں۔"
رانی پنکھی کی حالت اب بحال ہو چکی تھی ۔ وہ اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ تب کسی نے اس کی چارپائی اُلٹ دی اور وہ دھم سے اینٹوں کے فرش پر آ گری۔
0 تبصرے