خوفناک مسکن - پارٹ 21

urdu font stories 26

ابھی تک عابر کی ڈاکٹر اعتبار سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ بات سوہنی اور ڈاکٹر اعتبار اچھی طرح جانتے تھے کہ اس فارم ہاؤس سے عابر کا واپس جانا ممکن نہ تھا۔ اس لئے سوہنی نے یہاں کے بارے میں جو معلومات عابر کو دے دی تھیں، ان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر اعتبار نے سوہنی کی کوئی گرفت نہ کی تھی ، اسے بس عابر کے گھر والوں سے رابطہ کرائے جانے پر غصہ تھا۔ دراصل وہ اس جذباتی مسئلے کو ترپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا لہذا اس نے سوہنی 
کو تنبیہہ کر کے آئندہ اس طرح کی حرکت سے روک دیا تھا۔

لیکن اتنا ضرور ہوا تھا کہ عابر کو قید تنہائی سے نجات مل گئی تھی۔ اب وہ کمرے سے باہر نکل سکتا تھا۔ یہ ریسٹ ہاؤس چار کمروں پر مشتمل تھا ۔ برابر برابر ایک لائن میں چار کمرے تھے، ان کمروں کے سامنے برآمدہ تھا، برآمدے کے سامنے ھرا بھرا لان تھا اور اس لان کے اطراف میں باؤنڈری وال تھی ۔ عابر کو اجازت تھی کہ وہ کمرے سے نکل کر لان میں چہل قدمی کرنے یا وہاں موجود کرسیوں پر شام کی چائے پی لے لیکن اس باؤنڈری وال سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی ۔ گیٹ پر سیکورٹی گارڈز موجود تھیں ۔

ایک لیڈی گارڈ تو اب بھی اس کے کمرے کے دروازے پر ہمہ وقت موجود رہتی تھی۔ عابر کو اندازہ ہوا کہ ریسٹ ہاؤس کے بقیہ تین کمرے خالی تھے۔ ایک تو ان کمروں کے دروازوں پر کوئی لیڈی گارڈ موجود نہ تھی ، دوسرے عابر نے ان کمروں سے کسی کو باہر نکلتے نہ دیکھا تھا۔

عاہر کو اس ریسٹ ہاؤس میں کوئی تکلیف نہ تھی۔ لیکن وہ اپنے گھر والوں سے بات کرنا چاہتا تھا۔ سوہنی کو بھی اس معاملے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا تھا لیکن باس نے کیونکہ تنبیہہ کی تھی اس لئے وہ محتاط ہوگئی تھی۔ وہ عابر کو مختلف بہانوں سے ٹال دیا کرتی تھی لیکن جب عابر زیادہ ہی مصر ہوا تو اس نے ڈاکٹر اعتبار سے بات کی ۔۔

جیجا جی ۔۔ عابر اپنی ماں سے بات کرنے کے لئے بےچین ھے۔ میں اب بہانے بنا بنا کے تنگ آ چکی ہوں۔ آپ بتائیں کیا کروں ۔۔ ابھی اس کی بات نہ کرانا ہمارے پاس یہ ایک پاور فل ہتھیار ہے، جب تک میں تجربہ نہ کر لوں ، اس وقت تک روکو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے فیصلہ سنایا۔ پھر بولا ۔۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ وہ تجربے کے لئے آمادگی ظاہر کر دے، جب تک بندہ ذہنی طور پر آمادہ نہ ہو، ہمارا تجربہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تم نے میری بات سمجھ لی ؟ ۔۔
یس جیجاجی ۔۔۔ سوہنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ اب میں چلوں۔ اس نے کھڑے ہو کر ڈاکٹر اعتبار سے ہاتھ ملایا اور دروازے کی طرف بڑھی۔
سوہنی سنو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے آواز دی۔
یس جیجا جی ۔۔۔ سوہنی دروازے سے لوٹ آئی۔

میں آج اس سے ملاقات نہ کر لوں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ سوہنی نے فورا کہا۔۔ کہاں ملیں گے؟ ۔۔
ابھی تو میں غیر رسمی ملاقات چاہتا ہوں ۔ ریسٹ ہاؤس میں ہی ٹھیک رہے گی ۔۔
ٹھیک ہے میں ارینج کر دیتی ہوں ۔۔
یہ بتاؤ اسے دوا تو پابندی سے دی جا رہی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے پوچھا۔
یس جیجا جی ۔۔۔ سوہنی نے یقین سے کہا۔
گڈ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار خوش ہو کر بولا ۔ تم بڑے کام کی چیز ہو ۔۔
نہیں جیجا جی ۔۔ میں چیز ہوں نہ مکھن ۔۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں کون ہوں۔ بس جیسی بھی ہوں ، آپ کی ہوں ۔۔۔ سوہنی نے ایک خاص انداز سے کہا اور ایک خاص انداز سے چلتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔
بے وقوف ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار کے منہ سے بےاختیار نکلا۔ پھر اس نے کرسی گھمائی اور ٹیلیفون آپریٹر کا نمبر ملانے لگا۔
سوہنی نے ڈاکٹر اعتبار سے ملاقات کا وقت لے لیا تھا لیکن اس نے عابر کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ آدھا گھنٹہ قبل اس کے کمرے میں آگئی تھی اور حسب عادت اس کے بیڈ پر براجمان تھی جبکہ عابر سامنے صوفے پر بیٹھا تھا۔
سوہنی جی ۔۔ میں آخر کب تک مہمان بنا رہوں گا ۔۔۔ عابر نے مسکرا کر پوچھا۔
جب تک بلائے جان نہیں بن جاتے ۔۔۔ سوہنی فورا بولی ۔۔ ویسے آپ کو یہاں کوئی پریشانی ہے کیا ؟ ۔۔

مسئلہ یہی ہے کہ کوئی پریشانی نہیں ہے ۔۔۔ عابر نے کہا ۔۔ کھا لیا، پی لیا اور سو لیا زیادہ جی گھبرایا تو لان میں ٹہل لیا آخر کب تک ؟ ۔۔
چلیں پھر ایسا کرتے ہیں کہ آج آپ کی ملاقات ڈاکٹر اعتبار سے کرائے دیتے ہیں۔ ان سے اپنا مسئلہ ڈسکس کر لینا۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی حل بتا دیں اور یہ بھی ۔۔۔۔
ابھی وہ بات کر ہی رہی تھی کہ اس کا موبائل فون بجنا شروع ہو گیا۔ سوہنی نے بیڈ سے موبائل فون اٹھا کر اسکرین پر نظر ڈالی۔ موبائل فون کی رنگ بجنا بند ہو گئی ، یہ مس کال تھی جس کے ذریعے سوہنی کو الرٹ کیا گیا تھا . ڈاکٹر اعتبار ریسٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہو رہا تھا۔
آپ بڑے خوش قسمت ہیں ۔۔۔ سوہنی نے ہنستے ہوٸے کہا۔۔ ڈاکٹر صاحب تشریف لا رھے ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر سوہنی دروازے کی طرف بڑھی اور اس سے پہلے کہ دروازے پر دستک ہوتی ، اُس نے دروازہ کھول دیا۔ ڈاکٹر اعتبار برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، اس کے پیچھے چار لیڈی کمانڈوز تھیں۔
عابر صاحب ۔ دروازے پر آ جائیں ۔ سوہنی نے مڑ کر عابر کو مخاطب کیا۔
جی اچھا ۔۔۔ عابر تیز تیز چلتا کھلے دروازے پر پہنچا۔
اُس نے اپنے سامنے ایک معصوم صورت پرکشش شخصیت کو پایا۔ اسے ایک نظر میں وہ اچھا لگا۔ کسی تحقیقی ادارے کے سربراہ کو ایسا ہی ہونا چاہئے ۔۔ اس نے سوچا۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوہنی کے ساتھ کھڑے عابر پر ایک اچنٹی سی نظر ڈالی اور سوہنی سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔ میڈم میں اندر آ سکتا ہوں؟ ۔۔
سر موسٹ ویلکم ۔۔۔ سوہنی نے مودبانہ انداز میں کہا ۔۔ سر، یہ عابر ہیں۔۔
اوہ اچھا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے مسکرا کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔ کیسے ہیں آپ؟ یہاں آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں ۔۔
نہیں سر ۔۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں ۔ میڈم میرا بہت خیال رکھتی ہیں ۔۔۔ عابر نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
چاروں لیڈی کمانڈوز دروازے پر رک گئی تھیں۔ سوہنی دروازہ بند کر کے پلٹی تو ڈاکٹر اعتیار اور عابر صوفوں پر بیٹھ چکے تھے۔ سوہنی، ڈاکٹر اعتبار کے ساتھ کچھ فاصلہ دے کر براجمان ہو گئی۔
مسٹر عابر میرا خیال ہے کہ کافی آرام ہو گیا۔ ہمیں کچھ کام کرنا چاہئے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بات شروع کی۔
جی سر ضرور ۔۔۔ عابر نے کہا ۔۔ " میں حاضر ہوں۔"
ہمیں ایک تجربے کے سلسلے میں آپ کی خدمات درکار ہیں۔ یہاں ہم سب سے الگ تھلگ ایک کونے میں بیٹھے انسانی فلاح بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں، ہمیں آپ جیسے نوجوانوں کی سخت ضرورت ہے جو اس نیک کام میں ہمارا ساتھ دے سکیں، ہمیں امید ھے کہ آپ اس سلسلے میں ہمارے بہترین معاون ثابت ہوں گے۔ اگر آپ کی معاونت سے ہم اپنے تجربے میں کامیاب ہو گئے تو آپ پر ڈالرز کی بارش کر دی جائے گی ، ساتھ ہی پوری فیملی کے ساتھ غیر ملکی شہریت عطا ہو گی ، یوں سمجھ لیں آپ کی قسمت بدل جائے گی ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اپنی لچھے دار گفتگو سے ایسا اعتبار بٹھایا کہ عابر بےچین ہوا تھا۔
وہ پر جوش انداز میں بولا ۔۔ سر میں آپ کے ساتھ ہوں ۔۔
گڈ ۔۔ ہمیں آپ سے یہی امید تھی ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے کہا۔ پھر وہ سونی سے مخاطب ہو کر بولا ۔۔
" میڈم عابر کا کوئی مسئلہ تو نہیں ؟“
سر یہ اپنی فیملی سے بات کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ اجازت دیں تو ۔۔۔
ہاں ہاں ضرور کروائیے، ہماری طرف سے اجازت ھے لیکن انہیں اتنا ضرور بتا دیجئے کہ گفتگو حدود میں رہ کر کی جائے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے تنبیہہ کی۔
جی سر ۔۔ میں بتادوں گی ۔۔۔ سوہنی نے عابر کی طرف دیکھتے ہوٸے کہا۔ ویسے مسٹر عابر بہت سمجھدار ہیں، ہم سے پورا تعاون کرتے ہیں ۔۔
ویری گڈ ۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے کھڑے ہوتے ہوٸے کہا۔ پھر اس نے عابر سے ھاتھ ملایا اور سوہنی سے مخاطب ہو کر کہا۔۔ میڈم ۔۔ ایسا کریں انہیں ییلو کارڈ ایشو کروا دیں تاکہ یہ تھوڑا سا باہر نکلیں ، ریسٹ ہاؤس کی باؤنڈری وال میں گھوم گھوم کر تنگ آ گئے ہوں گے ۔۔
جی سر ۔۔ یہ آپ کا اچھا فیصلہ ہے ۔۔۔ سوہنی نے پر تحسین لہجے میں کہا اور عابر کو ابرو کے اشارے سے دروازہ کھولنے کو کہا۔
عابر نے تیزی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا اور ڈاکٹر اعتبار کی ان عنایات پر شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر اعتبار مسکراتا ہوا کمرے سے باہر نکلا۔ اس کے باہر نکلتے ہی لیڈی کمانڈوز نے اسے اپنے دائرہ حفاظت میں لے لیا۔
ڈاکٹر اعتبار کے جانے کے بعد سوہنی نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور پرجوش انداز میں اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولی ۔۔ آپ بڑے خوش قسمت ہیں عابر ۔۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی آؤٹ سائیڈر کو ییلو کارڈ دیا گیا ہو ۔۔
یہ ییلو کارڈ کیا ہے؟ عابر نے پرتجس لہجے میں پوچھا۔
اس کارڈ کے ذریعے آپ بلا روک ٹوک ریسٹ ہاؤس سے باہر جا سکیں گے، آپ کی رسائی کیفے اور زو تک ہو گی ۔۔
ڈاکٹر اعتبار کا حکم ملتے ہی عابر کا ییلو کارڈ بنا دیا گیا، دو گھنٹے کے اندر ییلو کارڈ عابر کو مہیا کر دیا گیا۔ سوہنی ابھی عابر کے پاس کمرے میں موجود تھی کہ سیکورٹی افسر سمندر خان کارڈ اس کے حوالے کر گیا۔ زرد رنگ کے اس کارڈ پر اس کی تصویر موجود تھی۔ یہ انہی تصویروں میں سے ایک تھی جو آرزو نے اُتاری تھیں۔ کارڈ پر تصویر کے علاوہ اور کچھ درج نہ تھا حتی کہ اس کا نام تک موجود نہ تھا۔ پلاسٹک کوٹیڈ اس کارڈ کی پشت پر چند خانے بنے ہوئے تھے لیکن وہ خالی تھے۔ عابر نے اس کارڈ کو روشنی کی طرف کر کے دیکھا، کچھ نظر نہ آیا۔ کارڈ ٹرانسپیرنٹ نہ تھا۔
سوہنی نے اس کے ہاتھ سے کارڈ لے کر کسی ورمالا کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا اور کھلے دل سے اسے مبارک باد دی۔
کارڈ آنے سے پہلے سوہنی نے عابر کے گھر اس کی بات کرا دی تھی۔ کال کرنے سے پہلے سوہنی نے ہدایت کی تھی کہ وہ بےشک جو چاہے بات کرے لیکن اصل حقائق کے بارے میں ایک لفظ نہ بولے۔ اس نے نازنین سے یہی کہا کہ وہ کسی دوست کے ساتھ ہے اور اسے جلد ہی کوئی اچھی نوکری ملنے والی ہے، وہ لوگ اس کی طرف سے بالکل فکر مند نہ ہوں، انشاء اللہ اچھی خبر سننے کو ملے گی۔ نیز یہ کہ وہ آئندہ خود ہی رابطہ کرے گا اور جلد کرے گا۔
کارڈ ملنے کے بعد سوہنی اسے لے کر باہر نکلی ۔ ریسٹ ہاؤس کے گیٹ سے نکلتے ہی عابر کو کم چوڑی پختہ سڑکیں نظر آئیں۔ راستے درختوں سے گھرے ہوئے تھے۔ یہ ایک سرسبز خوبصورت علاقہ تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد زو کا گیٹ نظر آ گیا۔ زو کی سیر کرنے کے بعد وہ دونوں باہر آئے ۔ اگرچہ یہ زو زیادہ بڑا نہ تھا لیکن نت نئے جانوروں سے بھرا پڑا تھا پھر زوکو اس قدر خوبصورت انداز میں ڈیزائن کیا گیا تھا کہ آدمی کو وہاں کی سیر بھاتی تھی۔
زو سے نکل کر دونوں گھومتے گھامتے کیفے کے سامنے جا نکلے ۔ سوہنی نے اُسے کافی کی پیش کش کی جو عابر نے بخوشی قبول کر لی۔ یہ کیفے اسٹاف کے لوگوں کے لئے تھا۔ ویسے بھی یہاں کسی باہر کے بندے کا گزر نہ تھا۔ کیفے کے اندر زیادہ رش نہ تھا۔ جو لڑکے لڑکیاں اور عورتیں ، مرد موجود تھے، سب یونی فارم میں تھے۔ وہ دونوں ایک میز منتخب کر کے بیٹھ گئے ۔ سوہنی نے اسے ایسی جگہ بٹھایا تھا کہ وہ بآسانی باہر کا نظارہ کر سکتا تھا۔
کافی پیتے ہوئے عابر کی نظریں باہر کی بجائے کیفے کے اندرونی منظر کی طرف تھیں۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ سامنے تھوڑے سے فاصلے پر شیشے کا دروازہ تھا۔ اس دروازے کے سامنے جا کر کوئی شخص کھڑا ہوتا تو وہ خود بخود کھل جاتا اور اندر جانے والا شخص بائیں جانب مڑ کر غائب ہو جاتا۔ اس نے کئی لوگوں کو اس طرح اندر جاتے ہوئے دیکھا۔
اگلے دن اُس نے دوپہر کا کھانا حسب معمول اپنے کمرے میں کھایا اور پھر اس کا جی چاہا کہ وہ کیفے میں کافی پیئے۔ اس نے گلے میں ییلو کارڈ ڈالا اور ریسٹ ہاؤس سے باہر نکل آیا۔
وہ درختوں کی چھاؤں میں چہل قدمی کر کے کیفے جا پہنچا۔ اگرچہ کیفے کے گیٹ پر سیکورٹی گارڈز موجود تھیں لیکن انہوں نے اس کے گلے میں جھولتا ییلو کارڈ دیکھ کر اسے روکنے ٹوکنے کی کوشش نہ کی۔ عابر ایک احساس فخر کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ کل وہ سوہنی کے ساتھ جس گوشے میں بیٹھا تھا ، وہ آج بھی خالی تھا۔ عابر وہاں ایک میز کے سامنے بیٹھ گیا۔ کیفے کی تزئین و آرائش اور اس کے فرنیچر سے حسن جھلکتا تھا۔
عابر نے اب تک یہاں کی جتنی چیزیں دیکھی تھیں، ان سے جدید طرز اور خوبصورتی کا احساس اجاگر ہوتا تھا۔ کافی بہت اچھی تھی۔ سرو کرنے والی ویٹریس بھی بری نہ تھی۔ کافی پیتے ہوئے آج پھر عابر کی نظر اس دروازے پر تھی جس سے اکا دکا لوگ اندر جا رہے تھے لیکن واپس کوئی نہیں آ رہا تھا۔ عابر نے سوچا کہ وہ اندر جا کر دیکھے کہ وہاں کیا ہے۔
کافی پینے کے بعد تجسس کے مارے عابر نے شیشے کے دروازے کی طرف رخ کیا۔ اس دروازے پر کوئی محافظ موجود نہ تھی۔ جب وہ شیشے کے دروازے کے نزدیک پہنچا تو اسے بائیں جانب ایک راستہ نظر آیا، بقیہ دو طرف دیواریں تھیں۔ عابر دروازے کے سامنے جا کھڑا ہوا اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا لیکن دروازہ نہ کھلا البتہ پیچھے سے نسوانی لیکن سخت آواز آئی ۔۔
آپ کون ہیں ؟
عابر نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تین لیڈی کمانڈوز اس کی طرف ہتھیار اُٹھائے ہوئے تھیں۔ دو لیڈی کمانڈوز نے بہت تیزی سے اسے اپنی تحویل میں لیا جبکہ تیسری کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے ہی دروازہ کھل گیا۔
چلیں اندر؟ ۔۔۔ ان میں سے ایک نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
عابر ان کے جدید ہتھیاروں کی زد پر تھا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان کے حکم کی تعمیل کرے۔
رانی پنکھی کے فرش پر گرتے ہی چارپائی اس کے سر پر آ رہی۔ اُس نے پٹی پکڑ کر چارپائی کو پرے دھکیلا اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی ۔ وہ شدید غصے میں آگئی تھی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا، کوئی نظر نہ آیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو اسے سفید چمکتے ہوئے دھویں کی ایک لکیر ی نظر آئی۔
بگا ۔۔ اس کے منہ سے بےاختیار نکلا ۔۔ یہ تو ہے ؟
جواب میں بھیانک قہقہہ سناٸی دیا اور خاموشی چھا گئی۔
رانی پنکھی نے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوٸے دوبارہ چارپاٸی بچھائی اور اس پر براجمان ہو گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس طرح وہ اسے پریشان کر دے گا۔ اگر وہ یونہی اسے پریشان کرتا اور کام میں رکاوٹ ڈالتا رہا تو وہ عاجز ہو جائے گی۔ بگا شاید چاہتا بھی یہی ہے کہ وہ مجبور ہو کر اس کی رانی بننے کے لئے راضی ہو جائے لیکن وہ بھی ایک پہیلی تھی۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے ، وہ اس کی رانی نہیں بنے گی ۔ وہ سوچتی رہی کہ اس سے نجات کے لئے کیا راستہ اختیار کیا جائے ۔ بالآخر اس نے بڑے شیطان تک رسائی کا فیصلہ کر لیا۔ بڑے شیطان تک رسائی اتنی آسان نہ تھی ، اس کے لئے اسے ایک جان لیوا عمل کرنا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس عمل سے پہلے وہ انارہ کو اس کے سارے گھر دکھا دے اور اس پر وہ راز بھی کھول دے جو وہ اب تک چھپائے ہوئے تھی۔ لہذا اُس نے وعدے کے مطابق اگلی رات کو پانچواں گھر دکھانے کی ٹھان لی۔
رات ہوتے ہی اس نے تیاریاں شروع کر دیں۔ اب تک تو اس کا کوئی دشمن نہ تھا۔ لہذا وہ پورے اطمینان سے انارہ کو اس کے گھر دکھا رہی تھی لیکن اب خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس لئے اس نے بھی کمر کس لی تھی۔ اب وہ غفلت میں شکار ہونے کے لئے راضی نہیں تھی۔ رات کو مقررہ وقت پر رانی پنکھی نے انارہ کو پانچویں گھر میں بٹھایا اور چاندی کا بھاری تعویذ گلے سے اُتار کر مٹھی میں دبایا اور بولی ۔۔
ہاں ، انجو کیا تو تیار ہے؟ ۔۔
ہاں اماں ۔۔ میں تیار ہوں ۔۔
رانی پنکھی نے جلدی جلدی کچھ پڑھا اور انارہ کی طرف پھونک مار کر کہا ۔۔ چل انجو د یکھ ، سامنے کیا ہے؟ ۔۔
اماں سامنے گھور اندھیرا ہے ۔۔۔ انارہ نے کہا۔
تیری آنکھیں کھلی ہیں کیا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے غصے سے پوچھا۔
نہیں اماں ۔۔ میری آنکھیں بند ہیں ۔۔
اب بتا کیا ہے سامنے؟ ۔۔
انارہ نے جب یہ بتایا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے تو یہ سن کر رانی پنکھی کی سٹی گم ہو گئی۔
بات ہی سٹی گم ہونے والی تھی ۔۔
انارہ نے کہا تھا ۔۔ اماں ، مجھے چمکیلے دھویں کا ایک ہیولا سا نظر آ رہا ہے ۔۔
رانی پنکھی نے یہ سن کر فورا ہدایت کی ۔۔
انجو اپنی آنکھیں کھول دے ۔۔
انارہ نے آنکھیں کھولنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔ وہ آنکھیں کھول کر بولی ۔۔
"اماں، میں نے آنکھیں کھول دیں۔"
اب تجھے کیا نظر آ رہا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے فکرمندی سے کہا
اماں ، اب تو نظر آ رہی ہے ۔ دھندلی سی ۔۔۔ انارہ نے سامنے بیٹھی رانی پنکھی کو بغور دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ اماں ، یہ کیا تھا جو میں نے دیکھا ۔۔
یہ بگا تھا ۔۔۔ رانی پنکھی نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
اماں یہ کیا چاہتا ہے ۔۔
پریشان کرنا چاہتا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی برہم ہو کر بولی۔۔ میرے کام میں رکاوٹ ڈال کر مجھے عاجز کرنا چاہتا ہے لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا کہ میں ہار ماننے والی نہیں۔ وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے مجھے جیت نہیں سکتا ۔۔
اماں میرے پانچویں گھر کا کیا ہو گا؟ ۔۔۔ انارہ فکر مند ہوئی۔
ذرا انتظار کر ۔۔۔ رانی پنکھی بولی۔۔ تو پانچویں گھر میں بیٹھی رہ۔ میں دیکھتی ہوں ۔۔
ٹھیک ہے اماں ۔۔۔ انارہ جو پانچویں گھر سے اٹھنے کی تیاری کر رہی تھی ، اطمینان سے بیٹھ گئی۔
رانی پنکھی نے چاندی کا تعویذ اپنے گلے میں ڈالا اور کچھ سوچ کر ساتویں گھر سے اٹھ گئی اور کمرے کے دروازے کی طرف بڑھی۔
رانی پنکھی کو کمرے کی طرف جاتے دیکھ کر انارہ بولی ۔۔
"اماں تو کہاں جا رہی ہے۔"
میں اندر جا رہی ہوں ۔۔ ابھی آئی ۔۔ تو آرام سے بیٹھ ۔۔۔ یہ کہہ کر رانی پنکھی کمرے کے دروازے میں داخل ہو گئی۔
اندر دو کمرے تھے۔ ایک کمرے میں انارہ کی رہائش تھی جبکہ دوسرے کمرے میں رانی پنکھی کا سامان پڑا تھا۔ وہ کمرے میں کسی ضرورت سے ہی آتی تھی ، ورنہ سارا دن صحن میں پڑی چار پائی پر گزارتی تھی۔ رات بھی اس کی صحن میں گزرتی تھی۔ کمرے میں الم غلم سامان بھرا تھا۔ دیوار میں بنی الماری میں اس کے کچھ کپڑے رکھے تھے۔
اسے معلوم تھا کہ سوئی کہاں رکھی ہے۔ اُس نے کالے دھاگے کی گٹی سے سوئی نکالی اور باہر آ گئی۔ پھر اس نے چارپائی پر کھڑے ہو کر نیم کے پتے توڑے اور واپس ساتویں گھر میں آگئی اور اپنے خاص انداز میں پھسکڑ مار کر بیٹھ گئی۔
اُس نے سوئی دائیں ہاتھ میں پکڑی اور بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی پر ماری۔ انگلی میں سوئی گھستے ہی رانی پنکھی کے منہ سے بےاختیار سی کی آواز نکلی۔ اس نے جلدی سے سوئی لہنگے میں ٹانک کر ہاتھ کی انگلی کو پکڑ کر دبایا۔
جب خون باہر آ گیا تو اس نے خون کی اس بوند کو نیم کی پتی پر منتقل کر لیا اور خون لگی پتی کو دوسری پتیوں کے اوپر رکھ دیا۔ اس کے بعد اس نے بڑبڑانے کے انداز میں بولنا شروع کیا۔
انارہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ رانی پنکھی کیا کر رہی ہے۔ اس کے منہ سے تکلیف زدہ آواز سن کر وہ چونکی ضرور تھی لیکن انارہ اس سے کچھ پوچھ نہ پائی ۔ اب وہ جانے کیا بڑبڑا رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ایک لفظ خاص انداز میں بار بار دہرا رہی ہو۔ بولتے بولتے اچانک رانی پنکھی کی نظر نیم کی پتیوں پر پڑی تو اُسے وہاں پتیاں نظر نہ آئیں۔ رانی پنکھی نے گہرا سانس لے کر جاپ بند کر دیا اور گلے سے چاندی کا تعویذ اتار کر مٹھی میں لے لیا اور مٹھی کو دبا کر بولی ۔۔ ہاں ، انجو چل تیار ہو جا ۔۔
اماں میں کب کی تیار بیٹھی ہوں ۔۔۔ انارہ نے کہا۔
چل پھر اپنی آنکھیں بند کر ۔۔۔ رانی پنکھی نے ہدایت کی۔
کر لیں اماں ۔۔۔ انارہ کی آواز آئی۔
اب دیکھ انجو ۔۔ سامنے کیا نظر آرہا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی انجو کی طرف پھونک مارتے ہوئے بولی۔
اماں میں دس بارہ سال کا لڑکا دیکھ رہی ہوں، جو دولہاؤں جیسے کپڑے پہنے ہوئے ہے۔ گول مٹول معصوم سا ہے ۔۔۔ انارہ نے بتایا۔
یہ اصل دولہا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے انکشاف کیا۔ وہ خوش تھی کہ انارہ پانچویں گھر میں جانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
ہیں ۔۔ اتنا چھوٹا سا ۔۔۔ انارہ حیرت زدہ ہوئی۔
جانتی ہے۔ یہ کس کا دولہا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی ہنس کر بولی۔
اماں ۔۔ کہیں یہ میرا تو نہیں ۔۔۔ انارہ پریشان ہو گئی۔
ہاں یہ تیرا دولہا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے پریقین لہجے میں کہا۔
ہائے نہیں ۔۔۔ انارہ سمٹ کر بولی۔
چل اب تو دیکھتی جا اور سنتی جا ۔۔۔ رانی پنکھی نے کہا۔
تب پھر منظر بدلا ۔ یہ دلہن کا گھر تھا۔ کمرا عورتوں اور لڑکیوں سے بھرا ہوا تھا۔ دلہن ایک خوبصورت مسہری پر بیٹھی تھی، بارات آ چکی تھی۔ نکاح کی تیاری ہو رہی تھی۔ وکیل دو گواہوں کے ساتھ حویلی کی راہداریوں میں چلتے ہوئے دلہن کے کمرے تک آ پہنچے تھے۔ آنے والے فیملی کے لوگ تھے، انہیں اندر بلا لیا گیا۔ وکیل نے دولہا کا نام، ولدیت اور مہر کی رقم بتا کر بارہ سالہ دولہا کو قبول کروا لیا تھا۔ دلہن روبینہ کے نکاح نامے پر دستخط لئے۔
روبی نے ہاں کرنے سے انکار کرنا چاہا تو اس کے برابر بیٹھی ماں نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔ "روبی میری شہزادی اس زہر کو قسمت کا لکھا سمجھ کر پی جا۔“
تب روبی نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ویسے بھی وہ جانتی تھی کہ اس زہر کو پیئے بغیر چارہ نہیں۔ وہ تنہا ان اندھے، بہرے لوگوں سے نہیں لڑ سکتی تھی۔
یہ انا پرست، روایت پرست، یہ برادریوں میں بٹے لوگ بیٹیوں پر جائداد کو ترجیح دینے والے زر پرست ان پتھر کی دیواروں سے وہ سر تو پھوڑ سکتی تھی لیکن ان دیواروں کو گرا نہیں سکتی۔ لہذا اس نے ماں کے کہنے پر اس زہر کو قسمت کا لکھا سمجھ کر پینے میں ہی عافیت جانی۔ وہ چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اس زمیندار گھرانے میں لڑکیوں کو پڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن روبی کا شوق دیکھتے ہوئے باپ نے اسے شہر کے کالج بھیج دیا۔ چھوٹی اور لاڈلی ہونے کی وجہ سے بھائیوں نے بھی مخالفت نہ کی۔ اسے کالج میں پڑھنے اور ہاسٹل میں رہنے کی اجازت مل گئی۔ گھر سے رخصت کرتے وقت البتہ بڑے بھائی رضوان نے اتنا ضرور کہا ۔۔
ہم تمہاری ضد اور شوق پر تمہیں شہر بھیج رہے ہیں، تنہا جا رہی ہو تو تنہا ہی واپس آنا ۔۔
روبی نے اس کی بات سمجھتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔۔
" جی بھائی ۔“
روبی ایک سمجھدار اور محتاط لڑکی تھی۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا کس گھرانے سے تعلق ہے اور اس کے باپ بھائی کسی مزاج کے لوگ ہیں۔ وہ حویلی سے شریک حیات منتخب کرنے نہیں نکلی تھی۔ اسے پڑھنے کا بےحد شوق تھا۔ وہ کالج سے ڈگری کے حصول کے لئے نکلی تھی لیکن قسمت کچھ اور ہی طے کئے بیٹھی تھی۔ روبی کی ساری احتیاط ، ساری سمجھداری اندھے کنویں میں جا گری۔ آنکھوں پر پٹی بندھ گئی۔ عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بھائی کی تنبیہہ یاد رہی، نہ باپ کی گھورتی آنکھیں۔
اسے اگر کچھ یاد رہ گیا تو وہ تھا ندیم بخاری۔
بی۔ اے کا آخری سال تھا۔ روبی نے اب تک خود کو بچائے رکھا تھا۔ بس ایک سہیلی بینش کی سالگرہ میں جانا غضب ہو گیا۔ ندیم بخاری اسے اس تقریب میں ملا۔ خوبصورت اور باوقار ندیم اس کے دل میں گھر کر گیا اور یوں یہ تقریب ملاقات کا بہانہ بن گئی یا یوں کہنا چاہئے کہ اس سالگرہ کو ملاقات کا بہانہ بنا دیا گیا۔ ندیم بخاری ، بینش کا بھائی تھا۔ بینش روبی کو بے انتہا پسند کرتی تھی۔ وہ اسے اپنی بھابھی بنانے کی آرزو رکھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے بھائی ندیم سے اس کا تذکرہ کرتی رہتی تھی۔ اس نے روبی کی اپنے موبائل فون پر کھینچی گئی تصویریں بھی ندیم کو دکھائی تھیں۔
ندیم کو یہ سادہ سی حسین لڑکی بھا گٸی تھی۔ بس تب ہی بینش نے دونوں کو ملوانے کی سازش تیار کی اور اپنی سالگرہ کے بہانے شدید اصرار کر کے اسے اپنے گھر بلوا لیا۔
بعض اوقات ایک ملاقات ہی خاصی بھاری پڑ جاتی ہے اور دو طرفہ پسندیدگی کے بعد اگر یہ ملاقاتیں جاری رہیں تو پتھر بن جاتی ہیں۔ بینش روبی کے مزاج سے واقف تھی ، لہذا اس نے کبھی اس سے اپنے بھائی کا ذکر نہ کیا۔ اور اس نے دونوں کی اس طرح ملاقاتیں کرائیں کہ ہر ملاقات اتفاقیہ معلوم ہو۔
مثلا ایک دن بینش نے شاپنگ کا پروگرام بنایا اور روبی کو اپنے ساتھ گھسیٹ لیا۔ اُدھر اس نے اپنے بھائی کو بتا دیا کہ وہ کس وقت کہاں پہنچے۔ اس طرح وہ اتفاقیہ ایک معروف شاپنگ پلازہ میں ان دونوں کو مل گیا اور پھر بینش نے اپنے بھائی پر زور دے کر اسے کھانا کھلانے پر مجبور کیا۔ روبی، بینش کو منع کرتی رہی لیکن بینش نے یہ کہہ کر کہ ارے یہ میرا بھائی بڑا کنجوس ہے۔ آج پتا نہیں یہ کیسے کھانا کھلانے پر راضی ہو گیا ہے ۔۔۔ روبی کو بصد اصرار اپنے ساتھ لے لیا۔
ان تین چار ملاقاتوں نے اپنا رنگ گہرا کرنا شروع کیا۔ بالآخر بینش نے روبی کو بڑے فطری انداز میں اس راہ پر ڈال دیا جس پر چلنے کی اس کے بھائی نے تنبیہہ کی تھی۔ ندیم بخاری پڑھا لکھا لڑکا تھا۔ برسر روزگار تھا اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ روبی سے شادی کے سلسلے میں بہت سنجید ہ تھا۔
روبی بھی اُسے دل و جان سے چاہنے لگی تھی۔ وہ اس کی ہونا چاہتی تھی لیکن اس میں ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے باپ خصوصاً اپنے بڑے بھائی رضوان کے سامنے سر اٹھا سکے۔ لہذا وہ فائنل امتحان کے بعد اس سے فائنل ملاقات کر کے چلی آئی۔ اس نے دل میں اُٹھتے محبت کے سونامی کو دل میں ہی دفن کر دیا۔
وقت رخصت اس نے بھیگی آنکھوں سے ندیم بخاری سے کہا۔۔ ندیم مجھے بھول جانا، میں ایک کمزور لڑکی ہوں۔ روایت شکنی میرے بس کی بات نہیں ۔۔
نہیں ۔۔ روبی ، میں تمہیں نہیں بھول سکتا۔ تم ہمت کرو۔ اپنے گھر والوں سے بات تو کرو ۔۔۔ ندیم بخاری نے اس کی ہمت بندھانے کی کوشش کی۔
ندیم بات انسانوں سے کی جاتی ہے، پتھر کی دیواروں سے نہیں۔ ان دیواروں سے سر پھوڑا جا سکتا ہے۔ اپنا آپ ختم کیا جاسکتا ہے تم کہو تو میں زہر کھا لوں ۔۔
نہیں ہم زہر نہیں کھائیں گے۔ میں ایک دن تمہارے گھر آؤں گا۔ تمہارے لوگوں سے تمہیں مانگوں گا۔ پھر چاہے جو ہو ۔۔۔ اس کی دیوانگی سر چڑھ کر بول رہی تھی۔
ایسی غلطی کبھی نہ کرنا ۔۔۔ روبی لرز کر بولی ۔۔ میں جانتی ہوں کہ کیا ہو گا ۔۔
کیا ہو گا ۔۔۔ ندیم بخاری نے پوچھا۔
تم وہاں سے اپنے پیروں پر واپس نہ آسکو گے ۔۔ میں آج پچھتاتی ہوں۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں یہاں آکر اتنی بےاختیار ہو جاؤں گی تو ہرگز شہر نہ آتی۔ محبت کرنا آسان ہے لیکن اسے نباہنا آسان نہیں۔ مجھ جیسے بزدلوں کو محبت کرنا ہی نہیں چاہئے ۔۔۔ یہ کہہ کر روبی بےاختیار رو پڑی۔
روبی ۔۔ یہ رونے کا وقت نہیں، کچھ کرنے کا وقت ہے ۔۔۔ ندیم بخاری نے ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔
"مجھے اتنا بتاؤ کہ اگر تمہارے گھر والے میرے بارے میں پوچھیں تو تم انکار تو نہ کر دو گی ۔
نہیں میں انکار تو نہیں کروں گی ۔۔۔ روبی نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔ لیکن میں یہ بات بہت اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے میری مرضی کسی صورت نہیں معلوم کریں گے ۔۔
روبی میں تمہارے گھر ضرور آؤں گا۔ میرا انتظار کرنا ۔۔۔ ندیم بخاری نے پر عزم لہجے میں کہا۔
اور پھر اس نے ایسا ہی کیا ؟
وہ جانے کیا سوچ کر حویلی آ پہنچا۔ اس نے روبی کے باپ اجمل سے ملاقات کی۔ سر پر کفن باندھے ندیم بخاری نے جیسے ہی روبینہ کا ذکر چھیڑا تو اجمل نے اُسے ہاتھ اٹھا کر ٹوکتے ہوئے کہا ۔۔ " کاکا ۔۔۔ ایک منٹ " ۔۔
ندیم بخاری فورا خاموش ہو گیا۔ تب اجمل نے پاس کھڑ ے اپنے ملازم خاص سے کہا۔ " ذرا رضوان کو بلاو ۔۔ جلدی۔"
ملازم دوڑتا ہوا اندر حویلی میں چلا گیا۔ دو منٹ کے بعد رضوان بیٹھک میں آپہنچا ۔۔ جی ابا ۔۔
اجمل نے ملازم خاص کو باہر جانے کا حکم دیا اور جب بیٹھک میں وہ تینوں رہ گئے تو اجمل نے ندیم بخاری کی طرف اشارہ کر کے کہا ۔۔
یہ کاکا شہر سے آیا ہے اور ہماری روبی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے۔ میں نے اس کی پوری بات نہیں سنی۔ میرا خیال ہے کہ یہ کوئی بیوقوف لڑکا ہے، اس نے شیر کی کچھار میں بلا سوچے سمجھے قدم رکھ دیا ہے۔ اب تو اسے یہ بات اپنی زبان میں سمجھا دے کہ ہم لوگ برادری سے باہر رشتہ نہیں کرتے ۔ ویسے بھی اس کا رشتہ پھوپھی زاد سے طے ہو چکا ہے۔ میں چلتا ہوں تو اس سے نمٹ ۔۔
ٹھیک ہے اہا ۔۔۔ رضوان نے مطمئن لہجے میں کہا۔
اجمل کے جانے کے بعد رضوان نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ پھر اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے سوال کیا۔ حویلی تک آنے کی جرات کیا تمہیں روبی نے دی ۔۔
نہیں سر میں خود آیا ہوں۔ انہوں نے تو مجھے سختی سے منع کیا تھا ۔۔۔ ندیم بولا ۔
پھر اس نے یہ بھی بتا دیا ہوگا کہ یہ رشتہ ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہو گا ۔۔۔ رضوان نے اسے گھورا۔
جی ۔۔ انہوں نے یہ بات بھی بتا دی تھی ۔۔
پھر تمہاری مت کیوں ماری گئی ۔
مجھے نہیں معلوم ۔ کیا چیز مجھے یہاں لے آئی ۔۔۔ ندیم بخاری دل کی بات کہہ نہ سکا۔
دراصل جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب کسی جنونی کی موت آتی ہے تو وہ حویلی کی طرف بھاگتا ہے۔ تمہیں تمہاری موت یہاں لے آئی ہے ۔۔۔ رضوان نے اپنی مونچھوں پر تاؤ دے کر کہا۔
سر میں موت سے نہیں ڈرتا ۔۔۔ ندیم بخاری بےخوفی سے بولا ۔
جو کام تم نے کیا ہے، اس کا انجام بالآخر موت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہیں کیوں چھوڑ رہا ہوں۔ میری گاڑی تمہیں تمہارے گھر تک چھوڑ آئے گی۔ جاؤ ۔۔۔ رضوان نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور بیٹھک سے نکل گیا۔
ندیم بخاری کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ اب وہ کبھی گھر نہیں پہنچ سکے گا۔ یہ گاڑی کا نہیں بلکہ موت کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ محبت کا انجام بالآخر یہی ہونا تھا۔ وہ مطمئن تھا کہ اس نے اپنی محبت کو آخری منزل تک پہنچا دیا تھا۔ اب گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اس کے دل میں شدید خواہش جاگی تھی کہ کاش، وہ روبینہ کو آخری بار دیکھ لیتا۔
وہ گاڑی سے اُتر کر حویلی کے بھاری دروازے پر کھڑے رضوان کے پاس آیا اور بڑے مودبانہ انداز میں بولا ۔۔
سر ایک درخواست ہے۔ اسے آپ میری آخری خواہش سمجھ لیں ۔۔
رضوان نے تیوریوں پر بل ڈال کر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا، بولا کچھ نہیں ۔
کیا میں روبینہ کو ایک نظر دیکھ ۔۔۔۔ ندیم بخاری اپنی بات پوری نہ کر پایا۔
رضوان کے تھپڑ نے اس کا منہ پھیر دیا۔ فورا دو مسلح ملازمین نے اسے اپنی گرفت میں لے کر گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی نے تیز رفتاری سے شہر کا رخ کیا۔ ندیم بخاری نے گاڑی میں بیٹھ کر کلمہ پڑھ لیا تھا۔ اس کی اس آخری خواہش نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ اب اس کی موت یقینی تھی لیکن حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ اسے بحفاظت گھر پہنچا دیا گیا۔
واپس جاتے ہوئے ملازم خاص نے کہا ۔۔ "ہم نے تمہارا گھر دیکھ لیا ہے۔ آئندہ حویلی کا رخ کرنے کی کوشش نہ کرنا ۔"
روبینہ کو ندیم بخاری کی حویلی آمد کا فوری طور پر تو پتا نہ چل سکا لیکن کچھ دنوں کے بعد گھر کی ایک ملازمہ نے اسے سارا حال سنا دیا اور یہ نوید بھی دے دی کہ اس گستاخی کے
باوجود اس کی جان بخشی گئی۔ روبی کو اس کے حویلی آنے سے زیادہ جان بخشی کی خوشی ہوئی۔
پڑھی لکھی حساس لڑکی روبینہ کے دس بارہ سالہ پھوپھی زاد رستم کو زبردستی اس کے سرمنڈھ دیا گیا۔ وہ روتی بلکتی اپنی پھوپھی کے گھر سدھار گئی۔
دس بارہ سال کے رستم کو اگرچہ گھر والوں نے خاصا سمجھا بجھا دیا تھا۔ اسے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ روبینہ اس کی دلہن ہے، بیوی ہے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ اس عمر میں ایک لڑکا کس قدر شوہر بننے کا ڈرامہ کر سکتا ہے، جتنی اس میں سمجھ تھی ، اتنا وہ کر رہا تھا اور اس کی اس اوور ایکٹنگ سے روبی کی جان عذاب میں تھی۔
آہستہ آہستہ وہ ڈپریشن کی مریضہ ہوتی گئی۔ ندیم کی یادیں اور رستم کی بچگانہ حرکتیں اس کی زندگی میں زہر گھول گئیں ۔۔۔
وقت نے کروٹ لی ۔ دس بارہ سالہ لڑکا چوہیں پچیس سال کا ہو گیا۔ روبی پچاس کے لپیٹے میں آ گئی۔ جوان رستم کو اب روبی ایک آنکھ نہ بھاتی۔ روبی کا حسن گہنا چکا تھا۔ بیماریوں نے اسے ہڈیوں کا ڈھانچا بنا دیا تھا۔
رستم کی حقارت بھری نظریں اس کے وجود میں سوئیوں کی طرح چبھتی تھیں۔ روبی نے اپنی جوانی اس گھر کی نذر کر دی تھی۔
اپنی ماں کی التجا پر قطرہ قطرہ روز زہر پیتی رہی تھی۔ مایوسیوں نے اس کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ اندیشے اسے ڈراتے تھے۔ اس کے دل میں شدت سے مر جانے کی خواہش ابھرتی تھی۔ وہ سنجیدگی سے خودکشی کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ پھر کچھ سوچ کر رک جاتی تھی۔
رستم کا اگرچہ اس کے وجود سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن اسے یہ احساس تھا کہ رستم اس کا شوہر ہے۔ پھر ایک دن یہ احساس بھی اپنی موت آپ مر گیا ۔۔
وہ حویلی میں بازار کی ایک عورت اُٹھا لایا اور جب اس نے اسے بیوی کہہ کر متعارف کروایا تو روبی پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔
اُس عورت کے انداز دیکھ کر روبی کو اپنا آپ بہت حقیر لگا۔ وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکی اس نے حویلی کے ایک گوشے میں موجود اندھے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ یہ اندھا کنواں حویلی کے ایک تاریک گوشے میں تھا۔ اس طرف کوئی نہ آتا تھا۔ اس گہرے کنویں کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ روبی اس کنویں میں چھلانگ لگانے کے بعد دو دن جان کنی کے عالم میں رہی۔ اس نے سسک سسک کر دم توڑا ۔۔۔۔
انارہ کے جب بےاختیار رونے کی آواز آئی تو رانی پنکھی نے چونک کر کہا ۔۔ " کیا ہوا انجو؟"
کچھ نہیں اماں ۔۔ کیا ہونا ہے ۔۔۔ انارہ سسکتے ہوئے بولی ۔۔
بند کر دے یہ دردناک کھیل ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے جلدی جلدی کچھ پڑھا اور پانچویں گھر میں بیٹھی انارہ پر پھونک ماری۔ پھونک مارتے ہی انارہ کی آنکھوں کے سامنے سے روبی کی موت کا منظر غائب ہو گیا۔
انارہ نے ساڑھی کے پلو سے اپنی خوبصورت آنکھیں پونچھیں اور پانچویں گھر سے نکل آئی۔ رانی پنکھی گلے میں تعویذ ڈال کر ساتواں گھر چھوڑ کر چارپائی پر لیٹ چکی تھی۔
انارہ نے اس کے پاؤں دبانے شروع کئے تو رانی پنکھی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے بولی ۔۔
" انجو ۔۔ بس اب تیرے دو گھر اور رہ گئے۔ یہ کسی طرح پورے ہو جائیں، پھر بات بنے ۔۔
اماں ۔۔ تجھے یاد ہے۔ تو نے کہا تھا کہ کوئی آ کر میرے بھاگ جگائے گا ۔۔۔ انارہ نے یاد دلایا۔
ہاں مجھے یاد ہے ۔۔ انجو وہ ضرور آئے گا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بڑے یقین سے کہا۔
آخر کب آئے گا وہ ۔۔۔ انارہ جھنجھلا کر بولی۔
لگتا ہے جیسے وہ اس شہر میں داخل ہو گیا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی کی آواز کہیں دور سے آ رہی تھی ۔ لگتا تھا جیسے وہ غنودگی میں بول رہی ہو۔
ہائے اماں ۔۔ سچ ۔۔۔ انارہ خوش ہو کر بولی۔
کیا سچ ۔۔۔ رانی پنکھی نے آنکھوں سے ہاتھ ہٹا کر انارہ کو گھورا۔
یہی کہ وہ یہاں آ گیا ہے۔ ہمارے شہر میں ۔۔۔ انارہ نے چہک کر کہا۔
یہ تجھے کس نے بتایا ۔۔۔ رانی پنکھی نے اسے ٹیڑھی نظروں سے دیکھا۔
اماں ابھی تو نے ہی تو بتایا ہے ۔۔۔ انارہ حیرت زدہ تھی۔
میں نے تو نہیں بتایا۔ ایسی بات میں کیسے بتا سکتی ہوں ۔۔۔ رانی پنکھی صاف مکر گئی۔
دیکھ اماں ، جھوٹ نہ بول ۔۔۔ انارہ نے التجا کی۔
اب ایک رات چھوڑ کر میں تجھے چھٹے گھر میں لے چلوں گی ۔ ٹھیک ہے۔ اب تو جا ۔۔۔ رانی پنکھی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ اتارہ نے اندازہ لگا لیا کہ رانی پنکھی اس بات کا اقرار نہیں کرنا چاہتی اور انارہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی لئے اس نے اس موضوع پر مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
رانی پنکھی کو یہ بات اچھی طرح یاد تھی۔ اس نے اس کے شہر میں ہونے کا اقرار کیا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیوں کر ہوا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے