تینوں لیڈی کمانڈوز جب اُسے تیزی سے اپنی گرفت میں لئے بائیں جانب مڑیں تو عابر کو ڈھلانی راستہ نظر آیا۔ جب ڈھلائی راستہ ختم ہوا تو ان کے سامنے لفٹ کا دروازہ تھا۔ لفٹ کھلتے ہی ایک لیڈی کمانڈو نے اسے لفٹ میں داخل ہونے کا اشارہ کیا۔ جب لفٹ چلی تو دو لیڈی کمانڈوز باہر ہی رک گئیں۔ بس ایک لیڈی کمانڈ ساتھ رہی، جس نے اس کے دل کا نشانہ لے رکھا تھا اور لفٹ اوپر جانے کے بجائے نیچے کی جانب
جا رہی تھی۔
عابر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کس جرم میں پکڑا گیا تھا۔ اس نے کئی لوگوں کو اندر جاتے دیکھا تھا۔ اگر اس نے بھی اندر جانے کی کوشش کی تھی تو کیا گناہ کیا تھا۔ اس کے پاس ییلو کارڈ تھا جو اس کے گلے میں موجود تھا۔ ییلو کارڈ کے ہوتے ہوئے اسے آخر کیوں گرفت میں لیا گیا تھا۔ ایک بات اور اس کی الجھن کا باعث تھی کہ جب ہر شخص کے لئے یہ دروازہ کھل رہا تھا تو پھر اس کے لئے کیوں نہیں کھلا تھا۔
چند سیکنڈ کے بعد جب اس تیز رفتار لفٹ کا دروازہ کھلا تو عابر حیران رہ گیا۔ یہ دروازہ براہ راست کسی آفس میں کھلا تھا۔
جب وہ لیڈی کمانڈو کے ساتھ تھ باہر آیا تو یہ دیکھ کر مزید حیران ہوا کہ سامنے ڈاکٹر اعتبار ایک شاندار کرسی پر براجمان تھا اور کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔ ڈاکٹر اعتبار نے فون رکھ کر مڑ کر دیکھا تو عابر کو ایک لیڈی کمانڈو کے ساتھ پایا۔ اس نے فورا لفٹ کی طرف دیکھا۔ تب اُسے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ عابر کیوں گرفتار ہوا۔ پھر بھی اس نے جاننا چاہا ۔۔
" کیا ہوا ؟"
سر یہ ایکس زون میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔ لیڈی کمانڈو نے بتایا۔
اوکے آپ جائیں، میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے کہا۔
وہ لیڈی کمانڈو واپس مڑی اور پھر لفٹ میں غائب ہو گئی۔
ڈاکٹر اعتبار نے اُسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولا ۔۔
مسٹر عابر آپ کہاں جانا چاہ رہے تھے ۔۔
سر میں تو کہیں نہیں جانا چاہ رہا تھا۔ بس کئی لوگوں کو اندر جاتے دیکھ کر میں نے سوچا۔ ذرا جا کر دیکھوں کہ اندر کیا ہے لیکن میرے لئے دروازہ نہ کھلا اور جانے کہاں سے نکل کر لیڈی کمانڈوز نے مجھے گھیر لیا۔ سوال یہ ہے کہ میرے لئے دروازہ کیوں نہیں کھلا ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ کا مشاہدہ اس قدر تیز ہے کہ آتے جاتے لوگوں کو فوکس کر لیں گے۔ اگر معلوم ہوتا تو تنبیہہ کر دیتا۔ خیر کوئی بات نہیں۔ رہ گئی بات کہ دروازہ آپ پر کیوں نہیں کھلا۔ میں بتاتا ہوں۔ آپ نے یہ تو دیکھ لیا کہ دروازے کے سامنے کھڑے ہونے والے شخص کے لئے چند لمحوں میں دروازہ کھل جاتا لیکن ان لوگوں کی پشت ہونے کی وجہ سے آپ یہ نہیں دیکھ پائے کہ وہ دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے ہی اپنے گلے میں پڑے کارڈ کو پلٹ کر دکھاتے جس پر کوڈ نمبر لکھا ہوتا۔ کوڈ کے سامنے آتے ہی دروازہ کھل جاتا ۔۔
اچھا یہ راز تھا دروازہ کھلنے کا ۔۔۔ یہ کہہ کر عابر نے اپنے گلے میں پڑے ییلو کارڈ کو پلٹ کر دیکھا۔ اس پر سادہ خانوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ بولا ۔۔
میرے کارڈ پر تو کوئی کوڈ نمبر درج نہیں ۔۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم ایک اجنبی کو کوڈ دے کر اپنے خفیہ دروازے اس پر کھول دیں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے ہنس کر کہا۔۔ آپ نے ہمیں اتنا بے وقوف سمجھا ہے کیا؟ ۔۔
نہیں سر جو شخص اتنا بڑا نیٹ ورک چلا رہا ہو، وہ بھلا کم عقل ہو سکتا ہے ۔۔۔ عابر بولا۔
ڈاکٹر اعتبار نے کوئی جواب دینے کے بجائے اسے مسکرا کر دیکھا۔ چند لمحوں میں اس نے کوئی فیصلہ کیا اور پھر تھوڑا گھوم کر لائن سے رکھے ہوئے ٹیلی فون سیٹس سے ایک سفید رنگ کے ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا اور ایک بٹن دبایا۔
دوسری طرف سے سوہنی نے ریسیور اٹھا کر انتہائی مؤدبانہ لہجے میں کہا ۔۔ "سر"
میڈم یہ عابر صاحب میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے ایکس زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے نرم لہجے میں انکشاف کیا۔
یہ تو انہوں نے بڑا غلط کام کیا ۔۔۔ سوہنی نے فورا غیر جانبداری برتی ۔
اصل میں یہ اپنے تجس کے ہاتھوں مارے گئے۔ خیر کوئی مسئلہ نہیں۔ اس طرح ہماری سیکورٹی بھی چیک ہوگئی ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار کی نظریں عابر پر جمی ہوئی تھیں۔ ہم انہیں اپنی تحویل میں لے رہے ہیں۔ یہ چوبیس گھنٹے تک تجربے گاہ میں رہیں گے ۔۔ رائٹ سوہنی ۔۔
جی سر ۔۔۔ سوہنی مؤدبانہ انداز میں بولی ۔۔ بالکل ٹھیک ۔۔
ڈاکٹر اعتبار نے ریسیور زور سے پٹخا اور پھر میز پر رکھے ہوئے ریموٹ کو اٹھا کر اس کا بٹن دبایا۔ بٹن دبتے ہی ہلکی سی سرسراہٹ کی آواز آئی ۔ لفٹ کا درواز کھلا لیکن یہ وہ لفٹ نہ تھی جس سے عابر کو لایا گیا تھا۔
ڈاکٹر اعتبار نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔ آئیے چلیں ۔۔
عابر فورا اس کے ساتھ چل دیا۔ ڈاکٹر اعتبار نے عابر کے لفٹ میں داخل ہونے کے بعد ڈسپلے کے واحد بٹن پر انگلی رکھی۔ اس پر نمبر کے بجائے "لیب" لکھا ہوا تھا۔
تیز رفتار لفٹ کا چاند لمحوں بعد ہی دروازہ کھلا۔ یوں لگا جیسے لفٹ چلی ہی نہیں ۔ ڈاکٹر اعتبار نے اسے نکلنے کا اشارہ کیا۔ اس کے بعد وہ خود باہر آیا۔
یہ ایک لمبی سی راہداری تھی۔ یہاں سفید کپڑوں پر کوٹ پہنے لوگ آ جا رہے تھے۔ ان میں خواتین بھی تھیں۔ ڈاکٹر اعتبار پر نظر پڑتے ہی ہر شخص مؤدبانہ انداز میں سلام کرتا اور سر جھکا کر آگے بڑھ جاتا ۔ ڈاکٹر اعتبار محض سر کی جنبش سے ان کے سلام کا جواب دے رہا تھا۔
تھوڑا سا آگے جا کے دائیں طرف مڑتے ہی ایک بڑا دروازہ نظر آیا۔ جس کی پیشانی پر روشن لفظوں میں لکھا تھا " لیبارٹری “ ۔
لیب کے دروازے پر پہنچتے ہی لیڈی سیکورٹی گارڈ نے دروازہ کھول دیا۔ عابر کو لے کر ڈاکٹر اعتبار لیب میں داخل ہوا تو سفید کوٹ میں ملبوس ایک شخص آگے بڑھا۔ وہ اس لیب کا انچارج تھا۔ ڈاکٹر اعتبار نے اس سے ہاتھ ملایا اور پھر وہ تینوں ایک آفس میں داخل ہو گئے۔
ڈاکٹر اعتبار نے اپنی نشست سنبھالتے ہوٸے ساتھ آنے والے ڈاکٹر سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔
ڈاکٹر ساجد یہ ہمارے نئے ساتھی ہیں۔ یہ ایس ون والے تجربے میں ہماری معاونت کریں گے۔ آپ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور تجربے کی تیاری کریں ۔۔
ڈاکٹر ساجد نے فوراً کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔ آئیے ۔۔
جب وہ دونوں جانے لگے تو ڈاکٹر اعتبار بولا ۔۔
ڈاکٹر ساجد یہ بہت سمجھ دار نوجوان ہیں۔ ہمارے ساتھ پورا تعاون کریں گے۔ ان کا نام عابر ہے، ذرا ان کا خیال رکھئے گا ۔۔
کی بہتر ۔۔۔ ڈاکٹر ساجد یہ کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
ڈاکٹر ساجد نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر مختلف احکامات جاری کئے۔ ایک پرکشش نرس نے اسے ایک چھوٹے مگر ارام دہ کمرے میں پہنچایا۔ اس کے کپڑے تبدیل کروائے گئے۔ ایک ڈھیلا ڈھالا لباس اُسے پہننے کو دیا گیا۔ اس کمرے میں ٹیلی ویژن موجود تھا۔ ایک کونے میں چھوٹا فریج بھی رکھا تھا جس میں ہر طرح کے مشروبات موجود تھے۔ ایک بھاری بیڈ کے ساتھ کمرے میں صوفہ بھی پڑا تھا۔
نرس نے تھوڑی دیر کے بعد آ کر بازو میں ایک انجکشن لگایا۔ اس انجکشن کے لگتے ہیں عابر کو ایک انوکھے سکون کا احساس ہوا۔ نرس نے اس کے ہاتھ میں ریموٹ دیا اور بولی ۔۔
آپ چاہیں تو ٹی وی دیکھیں ۔ اگر فلم دیکھنے کا موڈ ہو تو ایک نئی فلم پلیئر میں موجود ہے۔ وہ دیکھ لیجئے گا۔ ریموٹ ٹیبل پر موجود ہے۔ کوئی مسئلہ ہو تو کال بیل کا بٹن دبا دیجئے گا، میں آجاؤں گی ۔۔ اوکے۔۔
نرس کے جانے کے بعد اس نے ریموٹ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اُسے ٹی وی یا فلم سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ وہ آنکھیں بند کر کے کچھ سوچنا چاہتا تھا۔
اسے تجربے کے بارے میں کوئی بات نہیں بتائی گئی۔ بالکل اندھیرے میں رکھا گیا تھا ۔
اسے اپنا گھر یاد آیا۔ امی ابو اور صائمہ اس کے لئے کتنے پریشان ہوں گے۔ اگرچہ ان سے فون پر کئی مرتبہ بات ہو چکی تھی۔ لیکن اس نے انہیں جس انداز میں جو کچھ بتایا تھا، اس سے یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا تھا کہ وہ جہاں ہے، خیریت سے ہے۔ لیکن جو کچھ وہ کہہ رہا ہے، اس پر یقین کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ وہ اس وقت کو کوستا تھا جب وہ آرزو کے چنگل میں پھنسا تھا۔ بھلا اسے کیا ضرورت تھی اس کے گھر جانے کی ۔ وہ چلتے پھرتے اسے اپنا کارڈ تھما گئی اور وہ کچے دھاگے سے بندھا، اس کے گھر جا پہنچا تھا۔ یہ ایک غیر دانش مندانہ قدم تھا جو اس نے بلا سوچے سمجھے اُٹھا لیا تھا۔
آرزو ایک فراڈ لڑکی تھی ۔ ایسی عیار اور شاطر لڑکی کہ اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ تو بھلا ہو سوہنی افتخار کا، جس نے اس کی شخصیت کا پردہ چاک کر دیا ورنہ اسے زندگی بھر اس کے فراڈ ہونے کا پتا نہ چلتا۔
اُس وقت وہ جہاں موجود تھا۔ اس جگہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گیا۔ یہ کون لوگ تھے، کیا چاہتے تھے۔ کچھ پتا نہیں چل رھا تھا۔ ڈاکٹر اعتبار بظاہر ایک معصوم صورت شخص نظر آتا تھا، اندر سے وہ کیا نکلے، کیا کہا جا سکتا تھا۔
بہرحال اب صبر کے سوا کیا چارہ تھا۔ وہ بری طرح جکڑا ہوا تھا۔ اس قدر سخت پہروں میں تھا کہ یہاں سے نکلنا آسان نہ تھا۔
ابھی وہ منتشر خیالی کا شکار تھا کہ نرس دستک دے کر اندر آ گئی اور بولی ۔۔ بلڈ چاہئے ۔۔
خون ۔۔۔ کس لئے؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
بلڈ ٹیسٹ کرنا ہے ۔۔۔ اس نے کہا۔
میرا خون بہت اچھا ہے۔ کسی قسم کی ٹیسٹنگ کی ضرورت نہیں ۔۔۔ عابر مسکرا کر بولا ۔
اچھا ۔۔۔ نرس خوشدلی سے مسکرائی اور پھر اس نے سرنج کے ذریعے خاصا خون نکال لیا ۔
سسٹر ایک بات بتائیں ۔۔۔ عابر نے خون سے بھری سرنج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ میرا اتنا سارا خون نکال لیا۔ آپ کہیں خون پیتی تو نہیں ۔۔
تب اسے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ وہاں اسے ایک بیڈ نما سٹریچر پر لٹایا گیا۔ عابر کو سامنے ایک بڑا مانیٹر لگا دکھائی دیا۔ اس کے اسٹریچر پر لیٹتے ہی کئی ڈاکٹروں نے اُسے گھیر لیا۔ اُس کے سر پر مختلف آلات فٹ کر دیے گٸے. پاوں اور ہاتھوں کو بھی مختلف تاروں سے منسلک کر دیا۔
جب تجربے کی تیاری مکمل ہوگئی تو ڈاکٹر اعتبار کو بلایا گیا ڈاکٹر اعتبار نے ہر چیز کا معائنہ کرنے کے بعد آنکھ اور کان کے درمیان انجکشن لگانے کا حکم دیا۔ انجکشن لگتے ہی عابر پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی لیکن وہ بڑی حد تک ہوش میں تھا۔ اسے اپنے ارد گرد ہونے والی گفتگو صاف سنائی دے رہی تھی۔
جی عابر صاحب ۔۔ اب ہم اپنا کام شروع کرتے ہیں۔ اجازت ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار کی آواز آئی۔
جی سر ۔۔۔ عابر بولا۔
اس وقت آپ کی عمر کیا ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوال کیا۔۔ ہم آپ کو آہستہ آہستہ مرحلے وار ماضی میں لے جائیں گے۔ آپ تیار ہیں ۔۔
میں تیار ہوں ۔۔۔ غنودگی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ عابر کو اپنی آواز دور سے آتی ہوئی سنائی دی۔ سوال و جواب جاری تھے۔ ڈاکٹر اعتبار سجیشن کے ذریعے اسے ماضی کے دھندلکوں میں لے جارہا تھا، آہستہ آہستہ وہ بچپن کی حدود میں داخل ہو گئے تھے۔ پانچ سالہ عابر اپنی بچپن کی یادوں کو دہرا رہا تھا۔ ڈاکٹر اعتبار کی نظریں مانیٹر پر جمی تھیں۔ اسکرین پر کچھ اشکال ابھر رہی تھیں لیکن یہ واضح نہیں تھیں۔ ڈاکٹر اعتبار کی کوشش تھی کہ یہ یادیں، یہ باتیں کسی طرح تصویری شکل اختیار کر لیں۔ عابر جو دیکھ رہا ہے وہ صاف اور واضح طور پر نظر آنے لگے۔
اچانک مانیٹر کی اسکرین پر ایک ایسی چیز نظر آئی کہ ڈاکٹر اعتبار کے ہوش اُڑ گئے ۔۔۔۔
انارہ کے جانے کے بعد رانی پنکھی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس وقت رات کے دو ڈھائی بجے تھے۔ دیوار کے اس طرف سے کچھ مردوں کے تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ یہ جواری تھے جنہوں نے قبرستان کو جوئے کا اڈا بنایا ہوا تھا۔ یہاں روز ہی جوا ہوتا اور روز ہی جھگڑا ہو جاتا تھا۔ کچھ دیر زور زور سے آوازیں آتیں پھر خاموشی چھا جاتی ۔ اس کے بعد کتے بھونکنا شروع ہو جاتے ۔ انسان اگر پیسوں پر لڑتے تو کتے ہڈیوں پر جھگڑتے۔
رانی پنکھی نے اٹھ کر صحن میں ٹہلنا شروع کر دیا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے کی بات اس کے گلے سے نہیں اتر رہی تھی کہ آخر ایسا کیوں کر ہوا تھا۔ اسے اتنا ضرور یاد تھا کہ چند لمحوں کے لئے اس پر غنودگی چھائی تھی اور اس غنودگی کے دوران اس نے اس کے شہر میں داخل ہونے کی اطلاع دی تھی۔ رانی پنکھی نے ایسا شعوری کوشش کے تحت نہ کیا تھا بلکہ لاشعوری طور پر اس سے یہ الفاظ کہلوائے گئے تھے۔
آخر ایسا کس نے کیا تھا۔ کیا بگا نے؟
اگر بگا نے کیا تو اس نے ایسا کیوں کیا ؟ ایسی اطلاع دے کر کیا وہ انجو کو اس کے پیچھے لگانا چاہتا تھا۔ ممکن ہے کہ اس کی اس حرکت کا مقصد انجو کو اس سے برگشتہ کرنا ہو۔ وہ اب دشمنی پر اتر آیا تھا۔ اسی لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیئے تھے۔ رانی پنکھی چاہتی تھی کہ کسی طرح تھوڑا وقت گزر جائے ۔ وہ انجو کے معاملے کو کسی طور انجام تک پہنچا دے۔ بس اب دو گھر رہ گئے تھے۔ گویا پلکوں کی سوئیاں نکالنا باقی تھیں۔ یہ سوئیاں نکل جائیں تو پھر وہ بگا سے نمٹے ۔ بڑے شیطان تک رسائی کا کٹھن مرحلہ طے کرے۔ یہ ایک جان لیوا عمل تھا۔ اس عمل کے لئے چالیس روز درکار تھے۔ ان چالیس دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ ٹہلتی رہی اور سوچتی رہی۔
پھر ایک خیال اس کے ذہن میں آیا۔ اس نے سوچا کہ ایک مرتبہ وہ بگا سے بات کیوں نہ کر لے، اسے سمجھائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ناراضی ختم کر دے۔ یہ بات ذہن میں آتے ہی اس نے ملاقات کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے چارپائی گھسیٹ کر صحن کے وسط میں کی اور پھر اسے الٹ دی۔ وہ الٹی کھاٹ کا جاپ کرنا چاہتی تھی۔ الٹی چارپائی کے گرد اس نے سات چکر کاٹے اور پھر وہ پاٸنتی کی طرف اس طرح بیٹھی کہ دونوں پاٸے اس کے ہاتھوں میں تھے۔ دونوں پائے پکڑنے کے بعد اس نے زور زور سے جھومنا شروع کیا۔
وہ ایک خاص انداز سے جھومتی جاتی تھی اور کچھ بولتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے ایک پاٸے کو پکڑتی اور زور دار آواز میں پکارتی ۔۔ آ ۔۔ بگا ۔۔
گیارہویں بار جب عمل دہرانے کے بعد اس نے زور سے پکارا ۔۔
آ ۔۔ بگا ۔۔
تب بگا تو نہ آیا، جو چیز اس کے سامنے آئی اسے دیکھ کر رانی پنکھی پریشان ہو گئی۔ وہ گھبرا کر بولی ۔۔ کالی تو ۔۔
ہاں ۔ میں ۔۔۔ خون میں ڈوبی آنکھیں ، سیاہ رنگت، باہر نکلی ہوئی سرخ زبان والی عورت نے اپنی آمد کا کرخت آواز میں اقرار کیا۔
تو کیوں آئی ہے ۔۔ بگا کہاں ہے؟‘ ۔۔۔ رانی پنکھی سیدھی ہو کر بیٹھتی ہوئی بولی۔
مجھے بگا نے بھیجا ہے، اس لیے آئی ہوں ۔ بگا کہاں ہے مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ جواب میں بے اعتنائی تھی۔
” وہ کیوں نہیں آیا ؟“‘ رانی پنکھی نے پوچھا۔
یہ سوال پوچھنے کا تجھے حق نہیں۔ وہ تیرا غلام نہیں ۔۔۔ کالی نے اپنی سرخ آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔
میں جانتی ہوں کہ وہ کیا ہے؟ رانی پنکھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔ بتا تو کیوں آئی ہے؟
بگا نے کہا ہے کہ اگر زندگی چاہتی ہے تو بھینٹ دینا ہوگی ۔۔۔ انکشاف ہوا ۔
کیسی بھینٹ؟ رانی پنکھی نے پوچھا۔
تجھے اپنا خون دینا ہو گا ۔۔۔ کالی نے اپنی لمبی زبان ہلائی ۔
وہ اب میرے خون کا پیاسا ہو گیا ۔۔۔ رانی پنکھی کے لہجے میں دکھ تھا۔
بگا کی رانی بن جا۔ تیرے سارے دکھ دور ہو جائیں گے ۔۔۔ راستہ بتایا گیا۔
کالی تو اپنی حد میں رہ ۔ مجھے تیرے مشورے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ رانی پنکھی غصے میں آ گئی۔
پنکھی ۔۔ یاد رکھ تیری یہ اکڑ ایک دن تجھے لے ڈوبے گی ۔۔۔ تنبیہہ کی گئی۔
تو میری فکر چھوڑ ۔ وہ بات کر جو بگا نے کہی ہے ۔۔
کہا نا ۔۔ تجھے خون دینا ہو گا ۔۔۔ کالی نے جواب دیا۔
میرے خون کی ایک بوند چکھ کر اسے نشہ چڑھ گیا۔ جا اس سے کہنا کہ پنکھی اپنے خون کی آخری بوند تک بھینٹ چڑھا دے گی لیکن وہ جو چاہتا ہے، اس کے لیے راضی نہ ہو گی ۔۔۔ رانی پر عزم لہجے میں بولی۔
چھل ٹھیک ہے ۔۔ پھر بھینٹ دے ۔۔۔ کالی نے مٹی کا پیالہ اس کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
رانی پنکھی ایک جھٹکے سے غصے سے اٹھی۔ اس نے چارپائی سیدھی کر کے دیوار کے ساتھ لگائی اور کچن میں جا کر ایک تیز دھار کی چھری اٹھا کر باہر آ گئی۔
لا ۔۔ پیالہ ادھر کر ۔۔۔ اس نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنی بائیں کلائی پر چھری سے کٹ لگایا۔ نس کٹتے ہی خون تیزی سے نکلنے لگا۔ کالی نے پیالہ اس کی کلائی کے نیچے کر دیا۔
جب آدھے سے زیادہ پیالہ بھر گیا تو رانی پنکھی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ پھر اپنی کلائی کی نس کو دباتے ہوئے بولی ۔۔
جا دفع ہو جا ۔۔
کالی نے یہ سن کر بھیانک قہقہہ لگایا اور پیالے سمیت غائب ہو گئی۔ اس کے جانے کے بعد رانی پنکھی باورچی خانے میں گئی۔ اس نے ایک چٹکی راکھ نس پر ڈالی اور اسے انگوٹھے سے دبا دیا۔ بہتا خون یکدم منجمد ہو گیا۔ رانی پنکھی نے چند لمحوں بعد اپنا انگوٹھا زخم سے ہٹا لیا اور ایک گہرا سانس لے کر چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ تھی۔
ڈاکٹر اعتبار نے اسکرین پر جو دیکھا، وہ اس کے ہوش اُڑا دینے کے لئے کافی تھا۔ وہ پورے اطمینان سے عابر کی بچپن کی یادوں کو کرید رہا تھا۔ اسکرین پر کچھ غیر واضح اشکال ابھر رہی تھیں کہ اچانک ایک بلی نمودار ہوئی۔
وہ کالے منہ کی سفید بلی تھی۔ پہلے وہ ایک ہیولے کی شکل میں دھندلی نظر آئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک واضح شکل اختیار کر لی اور اتنی واضح ہو گئی کہ اس کا ایک ایک بال صاف نظر آنے لگا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں ۔ منہ کالا جسم سفید اور پنجے کالے تھے۔
ابھی ڈاکٹر اعتبار اس کے بارے میں تجزیہ ہی کر رہا تھا کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے آئی۔ اتنے میں وہ کالے منہ کی سفید بلی ایکشن میں آ گئی۔ اس نے اسکرین سے سیدھی ڈاکٹر اعتبار پر جست لگائی ۔ اگر وہ غیر ارادی طور پر جھک نہ گیا ہوتا تو وہ یقینا اس کے چہرے سے ٹکراتی ۔ ڈاکٹر اعتبار نے جب پلٹ کر دیکھا کہ بلی کہاں گئی تو وہ اسے پورے کمرے میں کہیں نظر نہ آئی۔ ڈاکٹر اعتبار کو اس طرح اچانک جھکتے دیکھ کر وہاں موجود ڈاکٹروں کو بڑی حیرت ہوئی۔
سر کیا ہوا ؟ ۔۔۔ انچارج ڈاکٹر ساجد نے فکرمندی سے پوچھا۔
کیا آپ نے وہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
سر آپ نے کیا دیکھا ؟ ۔۔۔ ڈاکٹر ساجد بولا ۔
میں نے سرخ آنکھوں اور کالے منہ کی سفید بلی دیکھی، جو اچانک اسکرین پر نظر آئی۔ پھر اس نے اسکرین سے نکل کر مجھ پر چھلانگ لگائی تو میں اس سے بچنے کے لیے نیچے جھکا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے ساری بات تفصیل سے بتائی۔
یہ سن کر وہاں موجود سارے اسٹاف کے منہ حیرت سے کھل گئے۔ انہیں ڈاکٹر اعتبار کے بیان پر سخت حیرت ہوئی۔ اس لیے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہوتا تو اس بند لیب سے وہ بلی کہاں غائب ہو گئی۔ اول تو اسکرین سے کسی بلی کا مجسم ہو کر نکلنا ہی بعید از قیاس تھا۔ بالفرض اگر ایسا ہوا بھی تھا تو وہ بلی آخر کہاں گئی۔
ڈاکٹر اعتبار کا اصرار تھا کہ اس نے جو دیکھا ہے وہ بہ چشم خود دیکھا ہے۔ دیگر اسٹاف پریشان تھا کہ آخر یہ کیوں کر ممکن ہے۔ لیکن کیونکہ یہ باس کا فرمان ہے، اس لیے کیسے جھٹلایا جاتا۔ سب نے مان لیا کہ آپ جو کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔
ڈاکٹر اعتبار کیونکہ آپ سیٹ ہو چکا تھا، اس لیے تجربے کو فوری طور پر ملتوی کر دیا گیا۔ عابر نیم غنودگی کے عالم میں تھا۔ دو گھنٹے آئی سی یو میں رکھ کر اسے اپنے کمرے میں بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹر اعتبار نے وہاں اس مسئلے پر مزید کوئی بات نہ کی۔ وہ لیب سے نکل کر اپنے مین آفس پہنچ گیا۔ وہ ذہنی طور پر پریشان تھا۔ اس نے سوہنی افتخار کو بلا بھیجا۔
وہ اس کی کال کی منتظر ہی تھی۔ جیسے ہی اسے پیغام ملا وہ سر کے بل دوڑتی چلی آئی۔ وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ ڈاکٹر اعتبار اپنے دونوں ہاتھ سے سر پکڑے بیٹھا تھا۔ سوہنی کے مخصوص پرفیوم کی خوشبو پا کر اس نے اپنا سر اٹھایا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔۔ آؤ۔ سوہنی ۔۔
کیا ہوا جیجا جی ۔۔ خیر تو ہے؟ ۔۔۔ سوہنی یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ ڈاکٹر اعتبار سے کس وقت کس انداز میں بات کرنی ہے۔ اور یہ اندازہ ڈاکٹر اعتبار کے طرز مخاطب سے لگا لیتی تھی۔ ڈاکٹر اعتبار کو سر پکڑے دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی تھی۔ اس نے آج تک اسے اس انداز میں نہیں دیکھا تھا۔ وہ سیٹ پر بیٹھنے کے بجائے اس کے قریب آ کھڑی ہوئی اور بولی ۔۔
سر میں درد ہو رہا ہے کیا ؟ دبا دوں ۔۔
ارے نہیں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار مسکراتا ہوا بولا ۔ سر میں درد نہیں ہو رہا۔ میں ایک الجھن کا شکار ہوں ۔۔
جیجا جی ۔۔ آپ اور الجھن کا شکار ۔۔ یہ نا قابل یقین بات ہے ۔۔
کبھی کبھی نا قابل یقین باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی ابھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔۔
آپ تو لیب میں تھے۔ کیا کوئی تجربے میں گڑ بڑ ہو گئی ۔۔۔ سوہنی نے کرسی سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
عابر تو بخیر ہے۔ وہ ایک دو گھنٹے میں اپنے کمرے میں پہنچ جائے گا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوہنی کا خدشہ دور کرتے ہوئے کہا ۔۔ مسئلہ میرے ساتھ ہوا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں موجود اسٹاف کا ہر شخص اس بات سے انکاری ہے ۔۔
آخر ہوا کیا؟ سوہنی افتخار نے فکرمندی سے کہا۔
تجربہ اپنی منزلیں طے کر رہا تھا۔ میری نظریں مانیٹر پر جمی تھیں۔ میں پوری توجہ سے اسکرین پر بنتی بگڑتی شکلوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک کالے منہ کی سفید بلی اسکرین پر نمودار ہوئی اور اس سے پہلے کہ اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کروں، بلی نے اسکرین سے سیدھی میرے اوپر چھلانگ لگائی۔ اگر میں غیر ارادی طور پر جھک نہ جاتا تو یقینا اس کا پنجہ میرے منہ پر پڑتا ۔۔
ہائے نہیں ۔۔۔ سوہنی درمیان میں مداخلت کیے بنا رہ نہ سکی۔
سنو آگے کیا ہوا؟ ڈاکٹر اعتبار نے اسے مداخلت کرنے سے روکا ۔۔ ہوا یہ کہ اس بلی کا پتا نہ چلا کہ وہ کدھر گئی۔ بند کمرے سے اس کا نکل جانا ناممکن تھا۔ لیکن وہ کمرے میں کہیں نہ ملی اور جب ڈاکٹروں کے پوچھنے پر میں نے انہیں بتایا کہ ایک بلی نے کس طرح میرے اوپر چھلانگ لگائی تھی ، تو وہ سارے کے سارے حیرت زدہ رہ گئے ۔ انہوں نے بلی کو چھلانگ لگاتے دیکھا ہی نہ تھا۔ سوہنی میں کیا بتاؤں کہ ان کے انکار پر مجھے کس قدر شرمندگی ہوئی۔ میں سوچتا رہ گیا کہ آخر یہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے ۔۔
"پھر کیا ہوا ؟" ۔۔
بس پھر میں نے تجربہ ملتوی کر دیا اور لیب سے یہاں چلا آیا ۔۔
یہ آپ نے بہت اچھا کیا ۔۔۔ سوہنی نے اس کے فیصلے کو سراہا۔
میں کیا کرتا ۔ ذہنی طور پر اس قابل نہیں رہا تھا کہ تجربہ جاری رکھتا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار بولا ۔
یہ واقعی بڑی انوکھی بات ہے ۔۔۔ سوہنی بولی۔
سوہنی ۔۔ کیا تم اس بات پر یقین رکھتی ہو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔
جی ۔۔ مجھے پکا یقین ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں ۔۔۔ سوہنی نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ پھر اچانک اس کے چہرے پر حیرت پھیل گئی۔ اس کی نظریں ڈاکٹر اعتبار کے چہرے پر تھیں۔ وہ پریشان کن انداز میں صوفے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔
0 تبصرے