کیا ہوا ؟ آپ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ ۔۔۔ سوہنی پریشان ہو کر بولی۔
وہ ادھر صوفے پر دیکھو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اشارہ کیا۔
کیا ہے صوفے پر؟ ۔۔۔ سوہنی افتخار جہاں بیٹھی تھی، صوفہ اس کے دائیں جانب تھوڑا سا پیچھے رکھا تھا۔ سوہنی نے اپنی گردن گھما کر صوفے کی طرف دیکھا۔ سوہنی کو صوفے پر کچھ نظر نہ آیا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
صوفے پر کالے منہ کی سفید بلی موجود تھی۔ وہ اپنی سرخ آنکھوں سے ڈاکٹر اعتبار کوگھور رہی تھی۔ سوہنی کے اٹھتے ہی ، وہ بھی صوفے پر کھڑی ہو گئی۔
جیجا جی ۔۔ صوفہ تو خالی ہے ۔۔۔ سوہنی صوفے کی طرف بڑھتی ہوئی ہولی ۔
اتنے میں کالے منہ کی سفید بلی اپنی دونوں ٹانگوں پر جھکی اور اس نے سوہنی کے اوپر چھلا تک لگائی۔
سوہنی بچنا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے گھبرا کر کہا۔
سوہنی پریشان ہو کر ایک طرف ہو گئی۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا تو وہ بچتی کسی چیز سے۔ اس نے پوچھا۔۔
" جیجا جی ۔۔ ہے کیا ؟ کچھ بتائیں تو۔"
سوہنی ۔۔ بلی ہے ۔۔ وہی لیب والی کالے منہ کی سفید بلی ۔۔
لیکن مجھے تو بلی کہیں نظر نہیں آ رہی ۔۔۔ سوہنی ہولی ۔
تمہیں نظر نہیں آ رہی۔ وہ تو تمہارے کندھے پر بیٹھی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بتایا۔
ھائے ۔۔ میں مر جاؤں ۔۔۔ وہ جلدی سے صوفے پر بیٹھ گئی اور اس نے نادیدہ بلی کو اپنے کندھے سے دھکیلنے کی تصوراتی کارروائی کی۔ ڈاکٹر اعتبار سفید بلی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ جیسے ہی سوہنی صوفے پر بیٹھی ، اس نے لمبی زقند بھری اور سیدھی ڈاکٹر اعتبار کے اوپر آئی۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور ہاتھ پھیلے ہوئے تھے ۔
کالے منہ کی سفید بلی کو اپنی طرف چھلانگ لگاتے دیکھ کر وہ فورا میز کی آڑ میں ہو گیا۔ بلی سامنے پردے سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی۔ سوہنی نے ڈاکٹر اعتبار کو میز کی آڑ میں بیٹھتے دیکھ لیاےھا۔ وہ جب اٹھ کر میز کے نزدیک آئی تو اس نے ڈاکٹر اعتبار کو میز کے اندر گھسا بیٹھا دیکھا۔
سوہنی ۔۔ وہ کدھر گئی ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوہنی کے پیر دیکھتے ہی پوچھا۔
جیجا جی ۔۔ یہاں تو کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔ سوہنی نے کمرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر اعتبار شرمندہ شرمندہ سا میز کے نیچے سے نکل آیا۔ دو تین گہرے سانس لے کر اس نے میز پر رکھا ہوا پانی پیا اور کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور خالی نظروں سے سوہنی کو دیکھنے لگا۔
آپ پریشان نہ ہوں ۔ یہاں اس کمرے میں کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔۔
اصل پریشانی میری یہی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار بولا ۔۔ جو میں دیکھتا ہوں ، وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔ افسوس سوہنی تمہیں بھی نہیں ۔۔
بائی گاڈ ۔۔ جیجا جی ۔۔ میں صحیح کہہ رہی ہوں ۔۔۔ سوہنی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔ لیکن آپ کی کیفیت بتا رہی ہے۔ واقعی کوئی چیز ہے جو آپ کو ستا رہی ہے۔ آپ زرا دوباره پوری تفصیل سے ساری بات دہرائیں ۔۔
ڈاکٹر اعتبار نے دوبارہ ساری بات پوری جزئیات کے ساتھ سنا دی۔ سوہنی افتخار نے ساری بات سن کر کہا ۔۔ کہیں اس بلی کا عابر سے تو کوئی تعلق نہیں ۔۔
سوہنی ایسا ہو سکتا ہے۔ وہ ایک غیر معمولی لڑکا ہے۔ یہ بات مجھے تجربے کے دوران محسوس ہوئی۔ یوں بھی بائی فیس وہ بہت چارمنگ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بلی کا اس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی تعلق ہے بھی تو وہ کالے منہ کی بلی صرف مجھ ہی کو کیوں نظر آ رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتی ہو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار الجھن کا شکار تھا۔
کیا اس واقعہ کا عابر کو علم ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے پوچھا۔
میرے خیال سے نہیں۔ اس وقت وہ ٹرانس میں تھا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بتایا۔
اس وقت عابر کہاں ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے سوال کیا۔
آئی سی یو میں ہو گا ۔۔ ٹھہرو، میں پوچھ کر بتاتا ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر دبا کر اس نے عابر کے بارے میں معلومات کی۔ ادھر سے بتایا گیا کہ وہ وقت سے پہلے ٹرانس سے نکل آئے۔ بس آدھے گھنٹے میں انہیں اپنے کمرے میں بھیج دیا جائے گا۔
ریسیور رکھ کر وہ سوہنی سے مخاطب ہوا ۔۔
" آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے روم میں چلا جائے گا۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس سے بات کر لوں ۔۔۔ سوہنی نے کہا۔
ہاں کر لینا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار بولا ۔۔ اس سے پوچھنا کہ کیا اس کے بچپن میں اس طرح کی کوئی بلی اس کے گھر میں رہی ہے؟ ۔۔
جی ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ میں نے آپ کی بات سمجھ لی ہے ۔۔۔ سوہنی نے اٹھنے کے لیے پر تولے ۔۔ جیجا جی ۔۔ میں چلوں ؟ ۔۔
نہیں بیٹھو ۔۔ میں چائے منگواتا ہوں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار جس اُلجھن کا شکار تھا ، وہ اس حال میں تنہا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ سوہنی سے اس کی بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی اور اور اس وقت اسے کسی ایسی ہی رفاقت کی ضرورت تھی ۔
آدھے گھنٹے کے بعد سوہنی اس کے کمرے سے نکلی۔ عابر کے اپنے کمرے میں جانے کی اسے اطلاع مل چکی تھی۔ وہ سیدھی عابر کے پاس پہنچی ۔ دستک دے کر جب وہ اندر داخل ہوئی تو اس نے اسے بڑے پرسکون انداز میں بیڈ پر لیٹا پایا۔
سوہنی کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور بولی ۔۔ " عابر صاحب۔ آپ لیٹے رہیں ۔"
سوہنی صاحبہ ۔۔۔ خدانخواستہ میں کوئی مریض تھوڑا ہی ہوں۔ وہاں لیب والے مجھے کچھ اسی طرح ٹریٹ کر رہے تھے۔ میں ان سے جان چھڑا کر چلا آیا ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے کہا۔
کہیے ۔۔ کیسا رہا ایکس پیریمنٹ ۔۔۔ سوہنی نے حسب معمول اس کے بیڈ پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا ۔ یہ بات تو ڈاکٹر اعتبار ہی بتا سکتے ہیں ۔۔۔ عابر بولا.
میری ان سے بات ہوئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ ایک غیر معمولی آدمی ہیں ۔۔۔ سوہنی نے عابر کی آنکھوں میں مسکرا کر دیکھا ۔۔ ویری سپیشل ۔۔
سوہنی صاحبہ ۔۔ آج کے معاشرے میں کسی معذور کو سپیشل کہا جاتا ہے ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنسا ۔
آپ ایسے سپیشل ہیں جس نے ہمیں مفلوج کر دیا ہے ۔۔۔ سوہنی نے اپنی ذہانت دکھائی۔
اللہ نہ کرے ۔۔۔ عابر بولا ۔
اچھا ۔۔ ایک بات بتائیں۔ آپ کو کبوتروں میں دلچسی ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے گرہ کھولنا شروع کی۔
نہیں ۔۔۔ عابر نے جواب دیا۔
بلیوں وغیرہ سے لگاؤ ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے دوسرا سوال کیا۔
نہیں ۔۔ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ ۔۔۔ عابر پریشان ہوا۔
گھر میں بھی کبھی کسی نے کوئی بلی نہیں پالی ۔۔۔ سوہنی نے ایک نیا سوال کیا۔
نہیں ۔۔ میرے گھر میں کسی کو ایسا شوق نہیں ۔۔۔ وہ بولا ۔
گھر میں اکثر بلیاں آ جاتی ہیں۔ کبھی آپ نے کالے منہ کی سفید بلی جس کی ذم اور پاؤں بھی کالے ہوں، اپنے گھر میں آتی جاتی دیکھی ؟؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ عابر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ سونی صاحبہ یہ آپ نے کس قسم کی تحقیق شروع کر دی ۔۔
دراصل بات یہ ہے کہ آپ پر جو تجربہ کیا گیا ہے، اس میں ایک بلی کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر اعتبار براہ راست آپ سے اس مسئلے پر بات کریں گے۔ میں تو یونہی پوچھ رہی تھی ۔۔
اس کا مطلب ہے کہ میرے لاشعور سے کوئی کالے منہ کی سفید بھی نکل آئی ہے ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے سوہنی کو دیکھا۔
ہاں ۔۔ شاید ۔۔۔ سوہنی نے اس کی تائید کی۔
ارے ۔۔۔ عابر بےاختیار چونکا۔ اس کی نظریں بند دروازے پر تھیں، جہاں ایک کالے منہ کی سفید بلی پاؤں پھیلائے بیٹھی تھی۔
خیریت کیا ہوا؟ ۔۔۔ سوہنی نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دروازے کی طرف دیکھا۔ اس کا دل دھاڑ دھاڑ کرنے لگا۔ لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔
اتنے میں وہ سفید پلی تیزی سے اٹھی۔ دوڑتی ہوئی آگے آئی۔ اس نے صوفے پر چھلانگ لگائی اور اس کی پشت پر چڑھ کر اپنی سرخ آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا اور وہیں سے ان کی طرف چھلانگ لگائی۔
عابر فورا نیچے جھک گیا۔ سوہنی کو یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ وہ نا دیدہ بلی کمرے میں داخل ہو گئی ہے اور اس نے عابر پر چھلانگ لگائی ہے۔ لیکن وہ یہ اندازہ نہ کر سکی کہ چھلانگ اس نے عابر پر نہیں ، خود اس پر لگائی ہے۔
کالے منہ کی سفید بلی چھلانگ لگا کر سوہنی کے کندھے پر سوار ہوگئی۔ اس بار اسے اپنے کندھے پر شدید بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بےساختہ نیچے جھک گئی۔
سوہنی صاحبہ ۔۔ بلی ۔۔۔ عابر نے اس کے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔
ہائے ۔۔ میں مر جاؤں ۔۔۔ سوہنی نے اپنے بائیں کندھے کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ نہ وہ بلی اسے دکھائی دی، نہ محسوس ہوئی۔ سفید بلی سوہنی کے کندھے سے نیچے اتری اور اپنے دو پنچے صابر کے گھٹنے پر رکھ کر منہ اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔ پھر اس نے عابر کے گرد دو تین چکر کاٹے۔ چھلانگ لگا کر بیڈ سے اتری اور دروازے کے پاس جا کر دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئی۔
سوہنی سہمی نظروں سے عابر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے کندھے سے بوجھ اتر گیا تھا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ بلی اب اس کے کندھے پر نہیں ہے۔ وہ عابر کو بغور دیکھ رہی تھی اور اس کی حرکات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بلی اسے نظر آ رہی ہے۔ بلی کی حرکت کے ساتھ اس کی نظریں بھی گھوم رہی تھیں ۔ بالآخر اس کی نظریں دروازے پر جم گئیں۔
گئی ۔۔۔ سونی نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے عابر سے پوچھا۔
ہاں گئی ۔۔ کیا وہ آپ کو نظر آئی؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ سوہنی نے فورا خود کو سنبھال لیا۔۔ لیکن وہ آپ کو نظر آ رہی تھی ۔۔
ہاں ۔۔ میں نے اسے اچھی طرح دیکھا۔ اس کا منہ، دم اور ٹانگیں کالی تھیں، بقیہ جسم سفید اور آنکھیں ایک دم سرخ تھیں۔ آپ اس بلی کے بارے میں مجھ سے دریافت کر رہی تھیں؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
جی ۔۔ اسی بلی کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ آپ دوسرے آدمی ہیں جسے یہ بلی نظر آئی ہے۔ آپ اسے دیکھ کر خوفزدہ تو نہیں ہوئے؟ ۔۔۔ سوہنی نے دریافت کیا۔
نہیں ۔۔ میرے ساتھ اس کا سلوک بہت دوستانہ تھا ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
لیکن ڈاکٹر اعتبار کے ساتھ اس کا سلوک بڑا جارحانہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ انہیں نقصان پہنچانا چاہتی ہو ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ فورا بیڈ سے اٹھ گئی۔۔ میں چلتی ہوں ۔۔
پھر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ باہر نکلتے ہی اس نے اپنا موبائل فون آن کر کے ڈاکٹر اعتبار سے رابطہ کیا۔ فون ریسیو ہوتے ہی سوئی بولی ۔۔ آپ اس وقت کہاں ہیں ؟ ۔۔
میں راستے میں ہوں۔ اسلام آباد جا رہا ہوں ۔ کل دوپہر تک واپس آجاؤں گا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بتایا۔
او کے ۔۔۔ سوہنی سفید بلی سے متعلق اطلاع دینے کے لیے بےچین تھی۔ وہ بیتابی سے بولی ۔۔
جیجا جی۔ میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا نا کہ اس کالے منہ کی بلی کا عابر سے تعلق نہ ہو ۔۔
تو کیا اس کا کوئی تعلق نکل آیا ہے؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے پوچھا۔ ارے ۔۔ جیجا جی ۔۔ میں اس کے کمرے میں بیٹھی بلی سے متعلق سوالات کر رہی تھی کہ وہ کمبخت نمودار ہوگئی ۔
کیا تم نے دیکھی؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوال کیا۔
نہیں ۔۔ مجھے تو نظر نہیں آئی لیکن اپنے کندھے پر اس کا بوجھ ضرور محسوس کیا۔ کلموہی ضرورت سے زیادہ وزنی ہے لیکن عابر نے اسے بہت اچھی طرح دیکھا۔ اس نے جو حلیہ بیان کیا، وہ وہی ہے جو آپ نے بتایا تھا ۔۔۔ سوہنی نے ایک گہرا سانس لیا۔ شکر ہے ۔۔ کسی اور نے بھی دیکھا۔ کوئی گواہ ملا۔ ورنہ میں تو ذہنی الجھن کا شکار ہو گیا تھا ۔۔۔ ڈاکثر اعتبار کے لہجے سے خوشی جھلک رہی تھی ۔۔ ایک بات بتاؤ سوہنی ۔ کیا وہ عابر پر جھپٹی تھی؟ ۔۔
نہیں ۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کا رویہ دوستانہ تھا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ پھر کل بعد دوپہر تم سے ملاقات ہوگی ۔ اوکے۔ ٹیک کیٹر ۔۔۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر اعتبار نے رابطہ منقطع کر دیا۔
سوہنی بات کرتی ہوئی ابھی ریسٹ ہاؤس کی باؤنڈری سے نکلی ہی تھی ، اس نے اپنے بڑھتے ہوئے قدم روک دیئے۔ ڈاکٹر اعتبار نے کہا تھا کہ وہ کل دوپہر تک آئے گا۔ اس کا مطلب تھا کہ آج کی رات وہ تمام پابندیوں سے آزاد تھی۔ کچھ سوچ کر وہ مسکرائی اور واپس عابر کے کمرے کی طرف چل دی۔
رانی پنکھی پر اب یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی تھی کہ بگا نے اس کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اسے سوئیاں چبھو رہا تھا۔ وہ اسے زچ کر دینا چاہتا تھا۔ اتنا ہےبس کہ وہ اس کے قدموں پر سر رکھنے پر مجبور ہو جائے۔ وہ انارہ کو محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ اس کا حل یہی تھا کہ وہ اسے اس کے سارے گھر جلد از جلد دکھا دے۔ اس وقت رات اپنے آخری پہر میں تھی۔ یہ وقت اس عمل کے لیے مناسب نہ تھا۔ اسے اگلی رات کا انتظار کرنا تھا۔
اگلی رات جیسے ہی آدھی ہوئی ، اس نے چارپائی پر بیٹھی انارہ کو اشارہ کیا۔ انارہ سمجھ نہ سکی کہ رانی پنکھی کیا چاہتی ہے۔ اس نے پوچھا ۔۔ ہاں ۔ اماں بول ۔۔
آ جا ۔۔ تجھے چھٹا گھر دکھاؤں ۔۔۔ رانی پنکھی کھڑے ہوتے ہوئے بولی ۔۔ لا۔ کوئلہ لا ۔۔
انارہ یہ سن کر تیزی سے باورچی خانے میں گئی اور وہاں سے ایک کوئلہ اٹھا کر رانی پنکھی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رانی پنکھی نئے سرے سے سات گھر بنانے لگی۔
اماں۔ ایک بات بتا۔ تو کچھ پریشان ہے ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
ہاں انجو ۔۔ تو نے ٹھیک انداز ہ لگایا ۔۔۔ رانی پنکھی نے لکیر کھنچتے ہوئے کہا۔
اماں تو تو پریشان ہونے والوں میں سے نہیں ہے۔ پریشان کرنے والوں میں سے ہے ۔۔۔ انارہ نے صاف گوئی سے کہا۔
میری انجو ۔۔ کبھی کبھی اونٹ بھی پہاڑ کے نیچے آ جاتا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے اپنا لہجہ شگفتہ بنانے کی کوشش کی۔
اماں ۔۔ تو پہاڑ کے نیچے سے نکل کیوں نہیں آتی ۔۔۔ انارہ نے جوش دلایا۔
مجھے اپنے سے زیادہ اب تیری فکر ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے کہا۔
اماں مجھ سے زیادہ اپنی فکر کر ۔ تجھے کچھ ہو گیا تو میں بن موت ماری جاؤں گی ۔۔
تو پریشان نہ ہو۔ میں تجھے مرنے نہ دوں گی ۔۔۔ رانی پنکھی نے بڑے یقین سے کہا ۔۔ چل آ جا ۔۔ چھٹے گھر میں بیٹھ جا ۔۔
انارہ نے چارپائی سے اٹھ کر پہلے گھر میں قدم رکھا۔ پھر اچھل اچھل کر چھٹے گھر میں پہنچی۔ رانی پنکھی نے اسے اچھلتے ہوئے دیکھا تو بولی ۔۔ بچپن یاد آ رہا ہے کیا ؟ ۔۔
ہاں اماں ۔ یونہی سمجھ لے ۔ ویسے پچپن بھی کوئی بھولنے والی چیز ہے ۔۔۔ انارہ یہ کہہ کر زور سے ہنسی ۔ پھر بولی ۔۔ اماں۔ میں تو خیر سے ابھی بچی ہوں ۔۔
تو کب تک بچی بنی رہے گی۔ تو سولہ سال کی ہونے والی ہے۔ رانی پنکھی بولی ۔۔ اچھا، چل اب جلدی سے تیار ہو جا ۔۔
انارہ چھٹے گھر میں رانی پنکھی کی طرح پھسکڑ مار کر بیٹھ گئی ۔۔ اماں میں تیار ہوں ۔۔
رانی پنکھی نے چاندی کا بھاری تعویذ گلے سے اتار کر ہاتھ میں پکڑا اور مٹھی بند کرتے ہوئے کچھ پڑھ کر اس نے انارہ کی طرف پھونک ماری اور بولی ۔۔ ہاں، بتا کیا نظر آ رہا ھے ۔۔
اماں ۔۔ کوئی لڑکی سنک کے سامنے کھڑی برتن دھو رہی ہے۔ میری طرف اس کی پشت ہے۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی لیکن جو بھی ہے، پرکشش جسم کی مالک ہے ۔۔۔ انارہ کی آواز آئی۔
اس لڑکی کا نام نورین ہے۔ انجو یہ تو ہے۔ اب تو دیکھتی جا ۔۔۔ رانی پنکھی بولی۔
اب انارہ کو ان کے دروازے پر ایک دبلا پتلا مرد نظر آیا۔ کوئی پچاس پچپن سال کا ہو گا ۔ انارہ کو اس کی آنکھوں میں شیطان ناچتا ہوا دکھائی دیا۔ اس خبیث شخص نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور دبے پاؤں اندر داخل ہو گیا۔
نورین دیگچی مانجھنے میں محو تھی۔ اس کے ہاتھ بہت تیزی سے چل رہے تھے۔ سنک میں دیگچی ٹکرانے کی وجہ سے کھٹ کھٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ اس بات سے بےخبر تھی کہ کوئی اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا ہے اور کسی بھی لمحے اسے اپنی گرفت میں لینے والا ہے۔
جیسے ہی اس نے اپنی شیطانی گرفت میں لیا تو نورین کو ایک دم غصہ آ گیا۔ یہ تو اس کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ اس کے پیچھے اس کے شوہر نعمان کے بجائے اس کا دوست ریحان ہو گا۔ اسے غصہ اپنے شوہر پر تھا۔ وہ اس سے ناراض تھی اور اس کو کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہ تھی۔
گرفت میں لینے کے بعد جب اس شیطان نے منہ کھولا ۔۔
کیسی ہو میری ۔۔۔۔۔
تو وہ تڑپ کر اس کی گرفت سے نکل گئی۔ اس نے ریحان کو دھکا دیا۔ نورین کم عمر اور صحت مند جسم کی مالک تھی۔ دبلا پتلا ریحان دھکا کھا کر پیچھے ہوا تو نورین کچن سے بھاگی۔
ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے حصار میں لینے کی کوشش کی تو وہ چکنی مچھلی طرح کی اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
وہ اب آگ بن چکی تھی۔ اس نے گھوم کر ایک زور دار تھپڑر اس کے منہ پر مارا اور بولی ۔۔
شیطان کے بچے۔ جا چلا جا ورنہ ابھی تجھے کاٹ کر پھینک دوں گی ۔۔۔ اس نے سنک پر پڑی ہوئی تیز چھری ہاتھ میں لے لی اور اس پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ تھپڑ کھانے کے بعد نورین کو شیرنی کی طرح بپھرا دیکھ کر ریحان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اس نے یہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔
اس کے جانے کے بعد نورین نے چھری سنک میں پھینکی اور کچن میں بیٹھ کر سسک سسک کر رونے لگی۔
نورین کی قسمت تو اسی دن آنسوؤں میں بھیگ گئی تھی جب وہ بیاہ کر اپنے سسرال پہنچی تھی۔ یہ وٹے سٹے کی شادی تھی۔ نورین کے بھائی کو ایک سلجھی لڑکی مل گٸی تھی لیکن اس کے نصیب میں ایک نکھٹو شوہر آیا تھا۔
نعمان چالیس سے اوپر کا تھا جبکہ نورین کی عمر میں بائیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ چلو وہ ادھیڑ عمر کے بندے کو برداشت کر لیتی ، بشرط کہ وہ کام والا ہوتا۔ نعمان کے گھر والوں نے جھوٹ بول کر نورین کے والدین کو پھنسایا تھا۔ نعمان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ پراپرٹی کا کام کرتا ہے۔ ایک پراپرٹی ڈیلر کے ہاں وہ ان دنوں بیٹھتا بھی تھا۔ اس کے بارے میں زیادہ چھان بین نہ کی گئ اور نعمان کی ماں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر انٹر پاس نورین کو ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا گیا جو نکھٹو تو تھا ہی ، ساتھ ہی وہ ان پڑھ بھی تھا۔
اس نے کسی اسکول کی شکل تک نہ دیکھی تھی جبکہ اسے میٹرک پاس بتایا گیا تھا۔ وہ ایک جگہ ٹک کر کام کرنے کا عادی نہ تھا۔ پانچ دن نوکری پر جاتا تو دس دن گھر میں پڑا اینڈھتا رہتا۔ ایسے نکھٹو شخص کی اصولی طور پر شادی ہونا ہی نہیں چاہیے لیکن ماں کی ممتا کو کیا کیجئے جو چاند سی دلہن لانے کو ہمہ وقت بےچین رہتی ہے۔
نعمان کے بھائی پریشان تھے۔ وہ اکیلا ہی ان پر کیا کم بوجھ تھا کہ کھانے والوں میں اس کی بیوی نورین کا بھی اضافہ ہو گیا۔ چند ماہ تو بھائیوں نے اسے گھر بٹھا کر کھلایا۔ جب شادی کے بعد بھی اس نے اپنی روش نہ بدلی تو انہوں نے اسے گھر چھوڑنے کا نوٹس دے دیا۔
نعمان نے یہ بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی۔ بھلا وہ اس گھر سے نکل کر کہاں جاتا۔ تب ایک بھائی نے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا مکان اسے کرائے پر دلوا دیا اور نورین کے جہیز کا سامان وہاں ڈلوا دیا۔ اگر چہ نعمان اب بھی دوسرے گھر میں منتقل ہونے کے لیے تیار نہ تھا لیکن نورین کے لیے یہ بات انتہائی ندامت کی تھی۔ وہ اپنے شوہر کو لے کر نٸے گھر میں آ گئی۔
اس نے اپنے شوہر کو سمجھایا۔ اس کی غیرت جگائی ۔ تب وہ ایک گارمنٹس کے کارخانے میں جانے لگا۔ وہ سلائی کا کام جانتا تھا۔ نورین نے ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت ڈھونڈ لی ، اگر چہ تنخواہ کم تھی لیکن کچھ نہ ہونے سے تو بہتر تھی۔
نعمان کا ایک دوست تھا ریحان ۔ وہ اس سے دس سال بڑا تھا۔ وہ اکثر گھر آجاتا تھا۔ نعمان نے اس سے اپنی شادی کے لیے ایک موٹی رقم ادھار لی ہوئی تھی۔ نعمان اس کا احسان مند تھا۔ قرض لیے ایک سال ہونے کو آیا تھا۔ قرض اتارنے کی سبیل نہ تھی۔ قرض اتارنا تو دور کی بات نعمان اس چکر میں تھا کہ مزید قرض مل جائے ۔ کھانے کے علاوہ اب تو مکان کا کرایہ بھی سر پر پڑ گیا تھا۔
نورین کو گھر میں ریحان کی آمد پسند نہ تھی۔ وہ آ کر بیٹھ جاتا تو جانے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایک کمرے کا مکان چھوٹا سا صحن۔ نورین اس کی خواہش بھری آنکھوں سے خود کو کہاں تک محفوظ رکھتی۔ وہ اس کے آتے ہی کچن میں پناہ لے لیتی۔ نعمان کو کھڑا دیکھ کر ریحان بھی کچن میں آ جاتا۔ نورین کو سخت کوفت ہوتی ۔ اس بندے سے اسے چڑ تھی ۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی کہ یہ تمہارا دوست ہے، اس سے باہر ملا کرو۔ گھر میں نہ لایا کرو۔ وہ اسے یاد دلاتا کہ یہ مت بھولو ہم اس کے مقروض ہیں اور یہ قرض میں نے تمہیں اپنے گھر لانے کے لیے لیا تھا۔ اگر وہ گھر آ جاتا ہے تو اس میں اعتراض کی بھلا کیا بات ہے۔ قرض کا ذکر سن کر نورین چپ ہو جاتی۔
نورین کی چھٹی حس پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ریحان کی گھر میں بڑھتی ہوئی آمد خالی از علت نہیں ۔ ایک دن نعمان نے اس سے کہا ۔۔ نورین، ریحان میرا دوست ہے۔ اس کا خیال رکھا کرو۔ وہ شکایت کر رہا تھا کہ بھابی مجھ سے بات نہیں کرتی ۔ اس نے قرض واپس کرنے کو کہا ہے۔ اس کا تقاضا بڑھتا جا رہا ہے ۔ بتاؤ۔ میں قرض اتارنے کے لیے رقم کہاں سے لاؤں۔ ذرا اسے ہاتھ میں رکھو۔ چائے وائے پلا دیا کرو اور ہاں کبھی وہ میری غیر موجودگی میں آجائے تو اسے بٹھا لینا۔ میں آس پاس ہی کہیں گیا ہوں گا۔ آ جاؤں گا ۔۔
یہ خطرے کی گھنٹی تھی جو اس کے عین سر پر بج رہی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی ۔۔
" دیکھو، نعمان۔ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔ وہ عجب انداز میں مجھے گھورتا ہے۔ اس لیے میں اس سے بھاگتی ہوں۔“
ارے۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔ نعمان نے بنستے ہوئے کہا ۔۔ وہ بہت شریف آدمی ہے۔ تم خواہ مخواہ اس میں عیب نہ نکالو ۔۔
نورین نے اندر ہی اندر اپنا سر پیٹ لیا۔ اس مکالمے کے بعد شوہر سے اور کیا کہا جا سکتا تھا ۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔۔ اچھا۔ میں کوشش کروں گی ۔۔
لیکن دل میں اس نے ٹھان لی تھی۔ وہ ہرگز اس سے راہ و رسم نہ بڑھائے گی۔
ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد نعمان گھر سے یہ کہہ کر نکلا کہ میں ذرا چائے کے لیے دودھ لے آؤں تم دروازے کی کنڈی نہ لگانا۔ میں پانچ منٹ میں آیا ۔۔
اچھا ۔۔۔ نورین نے کہا اور سنک میں پڑے برتن دھونے کھڑی ہو گئی۔ برتن دھوتے ہوئے وہ اپنی اذیت ناک زندگی کے بارے میں سوچنے لگی۔ نعمان کئی دن سے کام پر نہیں جار ہا تھا۔ آج صبح سے کئی بار اس سے لڑائی ہو چکی تھی۔ وہ سخت غصے میں تھی۔ دوپہر کو کھانے کے لیے گھر میں کچھ نہ تھا۔ نعمان جانے کہاں سے کچھ رقم لے کر آیا تھا۔ تب گھر کا چولہا جلا تھا۔ اس کی زندگی سسک سسک کر گزر رہی تھی۔
وہ ابھی انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ ریحان کھلے دروازے سے اندر آیا اور کسی عفریت کی طرح اس نے نورین پر چھانے کی کوشش کی لیکن تھیر کھانے اور چھری دیکھنے کے بعد ریحان کے چھکے چھوٹ گئے ۔ وہ بدحواس ہو کر گھر سے نکلا۔ وہ سیدھا اس ہوٹل میں پہنچا جہاں نعمان بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ ریحان نے گھر میں جو بیتی تھی ، وہ شدید غصے کے عالم میں سنا ڈالی۔
نعمان کو تھوڑی بہت مزاحمت کی ضرور توقع تھی لیکن وہ اس قدر جارحانہ انداز اختیار کرے گی ، اس کی اس کو ہرگز توقع نہ تھی۔ اس وقت اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس "ستی ساوتری" کو وہ مزہ چکھا کر رہے گا۔ ایسا انتقام لے گا کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گی۔
جب نعمان گھر واپس پہنچا تو نورین بیڈ پر پڑی زار زار رو رہی تھی۔ نعمان نے روتی ہوئی نورین کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ابھی جوتا اٹھا کر اس کی ٹھکائی شروع کر دے اور اس کی ساری پارسائی جوتے کے ذریعے جھاڑ دے لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔
بیڈ پر بیٹھ کر اس نے پریشانی کی اداکاری کرتے ہوئے رونے کی وجہ پوچھی۔ نورین نے رورو کر ریحان کی دست درازی کی کتھا حرف بہ حرف سنا دی۔ نعمان یہ سب سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے ریحان کو قتل کرنے کی دھمکی اور نورین کو شاباش دی کہ اس نے جو کیا کم کیا۔ اسے چھری مار دینی چاہیے تھی۔
شوہر کی بات سن کر نورین کو بہت خوشی ہوئی ۔ وہ آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ گئی اور اس نے نعمان کو قسم دی کہ وہ ریحان کو کچھ نہیں کہے گا، جو سزا اس نے دے دی وہ کافی ہے۔ اگلے دن نعمان صبح ہی صبح گھر سے چلا گیا۔ جاتے ہوئے اس نے کہا ۔۔ نورین ۔۔ میں کام پہ جا رہا ہوں۔ تم اندر سے دروازہ بند کر کے تالا ڈال لو۔ کوئی آئے دروازہ ہرگز مت کھولنا ۔۔
نعمان کو کام پر جاتے دیکھ کر وہ نہال ہو گئی۔ اسے یہ بھی خوشی تھی کہ اس کے شوہر کو اس کے تحفظ کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ دن بھر گھر میں مگن گھومتی رہی۔ اس نے اپنے گھر کو صفائی کر کے چمکا دیا۔
نعمان رات تک گھر لوٹا ۔ وہ بازار سے اس کے لیے نہاری روٹی لایا تھا۔ ساتھ میٹھے پان بھی تھے۔ یہ دونوں چیزیں اس کی پسندیدہ تھیں۔ اس نے اپنے شوہر کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور سوچا آج رات کو دہ ڈھیروں پیار اس پر نچھاور کر دے گی۔ اس کی ساری محرومی دور کر دے گی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد نعمان اس سے معافیاں مانگتا رہا۔ اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ نوکری پر جائے گا اور اس کے سارے دکھ دکھ دور کر دے گا۔ ریحان کے بارے میں اس نے بتایا کہ اب وہ کبھی گھر پر نہیں آئے گا۔ اس نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔
اس منحوس کے قرضے کا کیا ہو گا ۔۔۔ نورین نے فکر مند ہو کر کہا۔
میں نے اپنے بڑے بھائی سے بات کی ہے۔ اگر وہ کچھ رقم ادھار دے دیں تو وہ ریحان کو دے کر بقیہ رقم قسطوں میں ادا کر دوں گا ۔۔۔ نعمان نے بتایا۔
میں بھی اپنی کسی اسکول ٹیچر سے کمیٹی کی بات کرتی ہوں۔ اگر پہلی مل جائے تو اچھا ہو ۔۔۔ نورین بولی۔
اچھا چلو کر لینا ۔۔۔ نعمان تسلی آمیز لہجے میں بولا۔۔ کیا اب میں آپ کی خدمت میں میٹھا پان پیش کروں ۔۔
لو نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔۔ نورین ہنس کر بولی ۔۔ جلدی نکالو، کہاں چھپا کر رکھے ہیں ۔۔
نعمان نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پڑا نکالا اور بولا ۔۔ یہ ہیں ۔۔
پڑے میں دو بڑے پان تھے۔ اس کی طرف ایک پان بڑھاتے ہوئے نعمان نے کہا ۔۔ میں اپنے ہاتھ سے کھلاؤں گا ۔۔
نورین نے خوشی سے سرشار ہو کر کہا ۔۔ ہاں ۔ کیوں نہیں ۔۔
پھر نعمان نے دونوں پان ایک ایک کر کے اسے کھلا دیئے اور اس سے چکنی چپڑی باتیں کرتا رہا۔ وہ اس وقت تک اس سے باتیں کرتا رہا، جب تک اس کے جسم میں شدید تکلیف نہ شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔
انارہ کچھ دیر اسے تڑپتا دیکھتی رہی۔ پھر چیخی ۔۔
"اماں ۔۔ بس "
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی اس کی چیخ سن کر چونکی۔
اماں۔ وہ بری طرح تڑپ رہی ہے۔ خون کی الٹیاں کر رہی ہے اور اس کا کمینہ شوہر اسے دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ اماں بند کر دے ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا ۔۔۔ انارہ دُکھی لہجے میں بولی ۔
اچھا ۔۔ بند کرتی ہوں ۔ دھیرج رکھ ۔۔۔ رانی پنکھی نے اپنی بند مٹھی کھولی۔ جلدی جلدی کچھ پڑھا اور انارہ کی طرف پھونک ماری۔ پھونک مارتے ہی المناک منظر غائب ہو گیا۔ رانی پنکھی نے گلے میں چاندی کا بھاری تعویذ ڈالا اور ساتویں گھر سے نکل کر چارپائی پر آ بیٹھی جبکہ انارہ سکتے کے عالم میں چھٹے گھر میں بیٹھی رہی۔
انجو ۔۔ آ جا ۔۔ کب تک وہاں بیٹھی رہے گی ۔۔۔ رانی پنکھی چارپائی پر لیٹتے ہوئے بولی ۔
آتی ہوں اماں ۔۔۔ انارہ خود کو سنبھالتی، حواس بحال کرتی ، چھٹے گھر سے نکل آئی۔
اسے اٹھتا دیکھ کر رانی پنکھی نے اپنے پاؤں سکوڑ لیے۔ انارہ چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ گئی اور اس کے سوکھے پاؤں اپنی گود میں رکھ کر دبانے لگی۔
اماں ۔۔ وہ بری طرح تڑپ رہی تھی۔ خون کی الٹیاں کر رہی تھی۔ اسے کیا ہو گیا تھا؟ انارہ نے گہری سانس لے کر کہا ۔۔ اس کمینے نے نورین کو کیا کھلا دیا تھا ۔۔
اس نے پانوں کے ذریعے پارہ کھلا دیا تھا۔ جس نے اس کا معدہ کاٹ دیا۔ پارے کا یہ زہر اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ آدمی کسی صورت بچ نہیں سکتا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بتایا۔
اماں ۔۔ میں اپنی موتیں دیکھ دیکھ کر پاگل ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا اب یہ سب ۔۔۔ انارہ بھیگی آواز میں بولی۔
اس سنسار میں عورت کے لیے کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ ان چھ گھروں میں گھوم کر تجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہوگا کہ تو یعنی عورت کیا ہے؟
ہاں ۔۔ اماں ، بہت اچھی طرح ۔۔ اب ایک گھر اور رہ گیا۔ وہ بھی دکھا دے۔ جانے اس میں کیسی موت لکھی ہو ۔۔۔ انارہ خوفزدہ انداز میں بولی۔
ساتویں گھر میں ایسا کچھ نہیں۔ لیکن جو کچھ ہے، وہ کسی آگ کے دریا سے کم نہیں۔ اگر تو نے یہ آگ کا دریا پار کر لیا تو پھر تیری زندگی پھول بن جائے گی اور اگر نہ پار کر سکی تو پھر جلنا تیرا مقدر ٹھہرے گا ۔۔۔ رانی پنکھی نے اسے اگلی زندگی کا عکس دکھایا۔
اماں ۔۔ تیرا بھی کچھ ٹھیک نہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ کوئی آ کر تیرے بھاگ جگائے گا اور کبھی کہتی ہے کہ آگ کا دریا میرا مقدر ہوگا ۔ آخر میں تیری کسی بات پر یقین کروں؟
دونوں باتوں پر ۔۔۔ رانی پنکھی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔ جا اب تو اپنے کمرے میں جا ۔۔
وہ ادھر صوفے پر دیکھو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اشارہ کیا۔
کیا ہے صوفے پر؟ ۔۔۔ سوہنی افتخار جہاں بیٹھی تھی، صوفہ اس کے دائیں جانب تھوڑا سا پیچھے رکھا تھا۔ سوہنی نے اپنی گردن گھما کر صوفے کی طرف دیکھا۔ سوہنی کو صوفے پر کچھ نظر نہ آیا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
صوفے پر کالے منہ کی سفید بلی موجود تھی۔ وہ اپنی سرخ آنکھوں سے ڈاکٹر اعتبار کوگھور رہی تھی۔ سوہنی کے اٹھتے ہی ، وہ بھی صوفے پر کھڑی ہو گئی۔
جیجا جی ۔۔ صوفہ تو خالی ہے ۔۔۔ سوہنی صوفے کی طرف بڑھتی ہوئی ہولی ۔
اتنے میں کالے منہ کی سفید بلی اپنی دونوں ٹانگوں پر جھکی اور اس نے سوہنی کے اوپر چھلا تک لگائی۔
سوہنی بچنا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے گھبرا کر کہا۔
سوہنی پریشان ہو کر ایک طرف ہو گئی۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا تو وہ بچتی کسی چیز سے۔ اس نے پوچھا۔۔
" جیجا جی ۔۔ ہے کیا ؟ کچھ بتائیں تو۔"
سوہنی ۔۔ بلی ہے ۔۔ وہی لیب والی کالے منہ کی سفید بلی ۔۔
لیکن مجھے تو بلی کہیں نظر نہیں آ رہی ۔۔۔ سوہنی ہولی ۔
تمہیں نظر نہیں آ رہی۔ وہ تو تمہارے کندھے پر بیٹھی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بتایا۔
ھائے ۔۔ میں مر جاؤں ۔۔۔ وہ جلدی سے صوفے پر بیٹھ گئی اور اس نے نادیدہ بلی کو اپنے کندھے سے دھکیلنے کی تصوراتی کارروائی کی۔ ڈاکٹر اعتبار سفید بلی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ جیسے ہی سوہنی صوفے پر بیٹھی ، اس نے لمبی زقند بھری اور سیدھی ڈاکٹر اعتبار کے اوپر آئی۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور ہاتھ پھیلے ہوئے تھے ۔
کالے منہ کی سفید بلی کو اپنی طرف چھلانگ لگاتے دیکھ کر وہ فورا میز کی آڑ میں ہو گیا۔ بلی سامنے پردے سے ٹکرائی اور دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی۔ سوہنی نے ڈاکٹر اعتبار کو میز کی آڑ میں بیٹھتے دیکھ لیاےھا۔ وہ جب اٹھ کر میز کے نزدیک آئی تو اس نے ڈاکٹر اعتبار کو میز کے اندر گھسا بیٹھا دیکھا۔
سوہنی ۔۔ وہ کدھر گئی ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوہنی کے پیر دیکھتے ہی پوچھا۔
جیجا جی ۔۔ یہاں تو کوئی چیز نہیں ہے ۔۔۔ سوہنی نے کمرے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر اعتبار شرمندہ شرمندہ سا میز کے نیچے سے نکل آیا۔ دو تین گہرے سانس لے کر اس نے میز پر رکھا ہوا پانی پیا اور کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور خالی نظروں سے سوہنی کو دیکھنے لگا۔
آپ پریشان نہ ہوں ۔ یہاں اس کمرے میں کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔۔
اصل پریشانی میری یہی ہے ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار بولا ۔۔ جو میں دیکھتا ہوں ، وہ کسی کو نظر نہیں آتا۔ افسوس سوہنی تمہیں بھی نہیں ۔۔
بائی گاڈ ۔۔ جیجا جی ۔۔ میں صحیح کہہ رہی ہوں ۔۔۔ سوہنی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔ لیکن آپ کی کیفیت بتا رہی ہے۔ واقعی کوئی چیز ہے جو آپ کو ستا رہی ہے۔ آپ زرا دوباره پوری تفصیل سے ساری بات دہرائیں ۔۔
ڈاکٹر اعتبار نے دوبارہ ساری بات پوری جزئیات کے ساتھ سنا دی۔ سوہنی افتخار نے ساری بات سن کر کہا ۔۔ کہیں اس بلی کا عابر سے تو کوئی تعلق نہیں ۔۔
سوہنی ایسا ہو سکتا ہے۔ وہ ایک غیر معمولی لڑکا ہے۔ یہ بات مجھے تجربے کے دوران محسوس ہوئی۔ یوں بھی بائی فیس وہ بہت چارمنگ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بلی کا اس سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی تعلق ہے بھی تو وہ کالے منہ کی بلی صرف مجھ ہی کو کیوں نظر آ رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے وہ مجھے نقصان پہنچانا چاہتی ہو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار الجھن کا شکار تھا۔
کیا اس واقعہ کا عابر کو علم ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے پوچھا۔
میرے خیال سے نہیں۔ اس وقت وہ ٹرانس میں تھا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بتایا۔
اس وقت عابر کہاں ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے سوال کیا۔
آئی سی یو میں ہو گا ۔۔ ٹھہرو، میں پوچھ کر بتاتا ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر دبا کر اس نے عابر کے بارے میں معلومات کی۔ ادھر سے بتایا گیا کہ وہ وقت سے پہلے ٹرانس سے نکل آئے۔ بس آدھے گھنٹے میں انہیں اپنے کمرے میں بھیج دیا جائے گا۔
ریسیور رکھ کر وہ سوہنی سے مخاطب ہوا ۔۔
" آدھے گھنٹے کے بعد وہ اپنے روم میں چلا جائے گا۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اس سے بات کر لوں ۔۔۔ سوہنی نے کہا۔
ہاں کر لینا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار بولا ۔۔ اس سے پوچھنا کہ کیا اس کے بچپن میں اس طرح کی کوئی بلی اس کے گھر میں رہی ہے؟ ۔۔
جی ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ میں نے آپ کی بات سمجھ لی ہے ۔۔۔ سوہنی نے اٹھنے کے لیے پر تولے ۔۔ جیجا جی ۔۔ میں چلوں ؟ ۔۔
نہیں بیٹھو ۔۔ میں چائے منگواتا ہوں ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار جس اُلجھن کا شکار تھا ، وہ اس حال میں تنہا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ سوہنی سے اس کی بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی اور اور اس وقت اسے کسی ایسی ہی رفاقت کی ضرورت تھی ۔
آدھے گھنٹے کے بعد سوہنی اس کے کمرے سے نکلی۔ عابر کے اپنے کمرے میں جانے کی اسے اطلاع مل چکی تھی۔ وہ سیدھی عابر کے پاس پہنچی ۔ دستک دے کر جب وہ اندر داخل ہوئی تو اس نے اسے بڑے پرسکون انداز میں بیڈ پر لیٹا پایا۔
سوہنی کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھی اور بولی ۔۔ " عابر صاحب۔ آپ لیٹے رہیں ۔"
سوہنی صاحبہ ۔۔۔ خدانخواستہ میں کوئی مریض تھوڑا ہی ہوں۔ وہاں لیب والے مجھے کچھ اسی طرح ٹریٹ کر رہے تھے۔ میں ان سے جان چھڑا کر چلا آیا ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے کہا۔
کہیے ۔۔ کیسا رہا ایکس پیریمنٹ ۔۔۔ سوہنی نے حسب معمول اس کے بیڈ پر براجمان ہوتے ہوئے کہا۔
مجھے انہوں نے کچھ نہیں بتایا ۔ یہ بات تو ڈاکٹر اعتبار ہی بتا سکتے ہیں ۔۔۔ عابر بولا.
میری ان سے بات ہوئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ ایک غیر معمولی آدمی ہیں ۔۔۔ سوہنی نے عابر کی آنکھوں میں مسکرا کر دیکھا ۔۔ ویری سپیشل ۔۔
سوہنی صاحبہ ۔۔ آج کے معاشرے میں کسی معذور کو سپیشل کہا جاتا ہے ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ ہنسا ۔
آپ ایسے سپیشل ہیں جس نے ہمیں مفلوج کر دیا ہے ۔۔۔ سوہنی نے اپنی ذہانت دکھائی۔
اللہ نہ کرے ۔۔۔ عابر بولا ۔
اچھا ۔۔ ایک بات بتائیں۔ آپ کو کبوتروں میں دلچسی ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے گرہ کھولنا شروع کی۔
نہیں ۔۔۔ عابر نے جواب دیا۔
بلیوں وغیرہ سے لگاؤ ہے؟ ۔۔۔ سوہنی نے دوسرا سوال کیا۔
نہیں ۔۔ کیوں پوچھ رہی ہیں؟ ۔۔۔ عابر پریشان ہوا۔
گھر میں بھی کبھی کسی نے کوئی بلی نہیں پالی ۔۔۔ سوہنی نے ایک نیا سوال کیا۔
نہیں ۔۔ میرے گھر میں کسی کو ایسا شوق نہیں ۔۔۔ وہ بولا ۔
گھر میں اکثر بلیاں آ جاتی ہیں۔ کبھی آپ نے کالے منہ کی سفید بلی جس کی ذم اور پاؤں بھی کالے ہوں، اپنے گھر میں آتی جاتی دیکھی ؟؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ عابر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ سونی صاحبہ یہ آپ نے کس قسم کی تحقیق شروع کر دی ۔۔
دراصل بات یہ ہے کہ آپ پر جو تجربہ کیا گیا ہے، اس میں ایک بلی کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ ڈاکٹر اعتبار براہ راست آپ سے اس مسئلے پر بات کریں گے۔ میں تو یونہی پوچھ رہی تھی ۔۔
اس کا مطلب ہے کہ میرے لاشعور سے کوئی کالے منہ کی سفید بھی نکل آئی ہے ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے سوہنی کو دیکھا۔
ہاں ۔۔ شاید ۔۔۔ سوہنی نے اس کی تائید کی۔
ارے ۔۔۔ عابر بےاختیار چونکا۔ اس کی نظریں بند دروازے پر تھیں، جہاں ایک کالے منہ کی سفید بلی پاؤں پھیلائے بیٹھی تھی۔
خیریت کیا ہوا؟ ۔۔۔ سوہنی نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دروازے کی طرف دیکھا۔ اس کا دل دھاڑ دھاڑ کرنے لگا۔ لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔
اتنے میں وہ سفید پلی تیزی سے اٹھی۔ دوڑتی ہوئی آگے آئی۔ اس نے صوفے پر چھلانگ لگائی اور اس کی پشت پر چڑھ کر اپنی سرخ آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھا اور وہیں سے ان کی طرف چھلانگ لگائی۔
عابر فورا نیچے جھک گیا۔ سوہنی کو یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ وہ نا دیدہ بلی کمرے میں داخل ہو گئی ہے اور اس نے عابر پر چھلانگ لگائی ہے۔ لیکن وہ یہ اندازہ نہ کر سکی کہ چھلانگ اس نے عابر پر نہیں ، خود اس پر لگائی ہے۔
کالے منہ کی سفید بلی چھلانگ لگا کر سوہنی کے کندھے پر سوار ہوگئی۔ اس بار اسے اپنے کندھے پر شدید بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بےساختہ نیچے جھک گئی۔
سوہنی صاحبہ ۔۔ بلی ۔۔۔ عابر نے اس کے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔
ہائے ۔۔ میں مر جاؤں ۔۔۔ سوہنی نے اپنے بائیں کندھے کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے دھکیلنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ نہ وہ بلی اسے دکھائی دی، نہ محسوس ہوئی۔ سفید بلی سوہنی کے کندھے سے نیچے اتری اور اپنے دو پنچے صابر کے گھٹنے پر رکھ کر منہ اٹھائے اسے دیکھنے لگی۔ پھر اس نے عابر کے گرد دو تین چکر کاٹے۔ چھلانگ لگا کر بیڈ سے اتری اور دروازے کے پاس جا کر دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئی۔
سوہنی سہمی نظروں سے عابر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے کندھے سے بوجھ اتر گیا تھا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ بلی اب اس کے کندھے پر نہیں ہے۔ وہ عابر کو بغور دیکھ رہی تھی اور اس کی حرکات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بلی اسے نظر آ رہی ہے۔ بلی کی حرکت کے ساتھ اس کی نظریں بھی گھوم رہی تھیں ۔ بالآخر اس کی نظریں دروازے پر جم گئیں۔
گئی ۔۔۔ سونی نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے عابر سے پوچھا۔
ہاں گئی ۔۔ کیا وہ آپ کو نظر آئی؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ سوہنی نے فورا خود کو سنبھال لیا۔۔ لیکن وہ آپ کو نظر آ رہی تھی ۔۔
ہاں ۔۔ میں نے اسے اچھی طرح دیکھا۔ اس کا منہ، دم اور ٹانگیں کالی تھیں، بقیہ جسم سفید اور آنکھیں ایک دم سرخ تھیں۔ آپ اس بلی کے بارے میں مجھ سے دریافت کر رہی تھیں؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
جی ۔۔ اسی بلی کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ آپ دوسرے آدمی ہیں جسے یہ بلی نظر آئی ہے۔ آپ اسے دیکھ کر خوفزدہ تو نہیں ہوئے؟ ۔۔۔ سوہنی نے دریافت کیا۔
نہیں ۔۔ میرے ساتھ اس کا سلوک بہت دوستانہ تھا ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
لیکن ڈاکٹر اعتبار کے ساتھ اس کا سلوک بڑا جارحانہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ انہیں نقصان پہنچانا چاہتی ہو ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ فورا بیڈ سے اٹھ گئی۔۔ میں چلتی ہوں ۔۔
پھر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ باہر نکلتے ہی اس نے اپنا موبائل فون آن کر کے ڈاکٹر اعتبار سے رابطہ کیا۔ فون ریسیو ہوتے ہی سوئی بولی ۔۔ آپ اس وقت کہاں ہیں ؟ ۔۔
میں راستے میں ہوں۔ اسلام آباد جا رہا ہوں ۔ کل دوپہر تک واپس آجاؤں گا ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے بتایا۔
او کے ۔۔۔ سوہنی سفید بلی سے متعلق اطلاع دینے کے لیے بےچین تھی۔ وہ بیتابی سے بولی ۔۔
جیجا جی۔ میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا نا کہ اس کالے منہ کی بلی کا عابر سے تعلق نہ ہو ۔۔
تو کیا اس کا کوئی تعلق نکل آیا ہے؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے پوچھا۔ ارے ۔۔ جیجا جی ۔۔ میں اس کے کمرے میں بیٹھی بلی سے متعلق سوالات کر رہی تھی کہ وہ کمبخت نمودار ہوگئی ۔
کیا تم نے دیکھی؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے سوال کیا۔
نہیں ۔۔ مجھے تو نظر نہیں آئی لیکن اپنے کندھے پر اس کا بوجھ ضرور محسوس کیا۔ کلموہی ضرورت سے زیادہ وزنی ہے لیکن عابر نے اسے بہت اچھی طرح دیکھا۔ اس نے جو حلیہ بیان کیا، وہ وہی ہے جو آپ نے بتایا تھا ۔۔۔ سوہنی نے ایک گہرا سانس لیا۔ شکر ہے ۔۔ کسی اور نے بھی دیکھا۔ کوئی گواہ ملا۔ ورنہ میں تو ذہنی الجھن کا شکار ہو گیا تھا ۔۔۔ ڈاکثر اعتبار کے لہجے سے خوشی جھلک رہی تھی ۔۔ ایک بات بتاؤ سوہنی ۔ کیا وہ عابر پر جھپٹی تھی؟ ۔۔
نہیں ۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کا رویہ دوستانہ تھا ۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ پھر کل بعد دوپہر تم سے ملاقات ہوگی ۔ اوکے۔ ٹیک کیٹر ۔۔۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر اعتبار نے رابطہ منقطع کر دیا۔
سوہنی بات کرتی ہوئی ابھی ریسٹ ہاؤس کی باؤنڈری سے نکلی ہی تھی ، اس نے اپنے بڑھتے ہوئے قدم روک دیئے۔ ڈاکٹر اعتبار نے کہا تھا کہ وہ کل دوپہر تک آئے گا۔ اس کا مطلب تھا کہ آج کی رات وہ تمام پابندیوں سے آزاد تھی۔ کچھ سوچ کر وہ مسکرائی اور واپس عابر کے کمرے کی طرف چل دی۔
رانی پنکھی پر اب یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی تھی کہ بگا نے اس کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اسے سوئیاں چبھو رہا تھا۔ وہ اسے زچ کر دینا چاہتا تھا۔ اتنا ہےبس کہ وہ اس کے قدموں پر سر رکھنے پر مجبور ہو جائے۔ وہ انارہ کو محفوظ کرنا چاہتی تھی۔ اس کا حل یہی تھا کہ وہ اسے اس کے سارے گھر جلد از جلد دکھا دے۔ اس وقت رات اپنے آخری پہر میں تھی۔ یہ وقت اس عمل کے لیے مناسب نہ تھا۔ اسے اگلی رات کا انتظار کرنا تھا۔
اگلی رات جیسے ہی آدھی ہوئی ، اس نے چارپائی پر بیٹھی انارہ کو اشارہ کیا۔ انارہ سمجھ نہ سکی کہ رانی پنکھی کیا چاہتی ہے۔ اس نے پوچھا ۔۔ ہاں ۔ اماں بول ۔۔
آ جا ۔۔ تجھے چھٹا گھر دکھاؤں ۔۔۔ رانی پنکھی کھڑے ہوتے ہوئے بولی ۔۔ لا۔ کوئلہ لا ۔۔
انارہ یہ سن کر تیزی سے باورچی خانے میں گئی اور وہاں سے ایک کوئلہ اٹھا کر رانی پنکھی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رانی پنکھی نئے سرے سے سات گھر بنانے لگی۔
اماں۔ ایک بات بتا۔ تو کچھ پریشان ہے ۔۔۔ انارہ نے پوچھا۔
ہاں انجو ۔۔ تو نے ٹھیک انداز ہ لگایا ۔۔۔ رانی پنکھی نے لکیر کھنچتے ہوئے کہا۔
اماں تو تو پریشان ہونے والوں میں سے نہیں ہے۔ پریشان کرنے والوں میں سے ہے ۔۔۔ انارہ نے صاف گوئی سے کہا۔
میری انجو ۔۔ کبھی کبھی اونٹ بھی پہاڑ کے نیچے آ جاتا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے اپنا لہجہ شگفتہ بنانے کی کوشش کی۔
اماں ۔۔ تو پہاڑ کے نیچے سے نکل کیوں نہیں آتی ۔۔۔ انارہ نے جوش دلایا۔
مجھے اپنے سے زیادہ اب تیری فکر ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے کہا۔
اماں مجھ سے زیادہ اپنی فکر کر ۔ تجھے کچھ ہو گیا تو میں بن موت ماری جاؤں گی ۔۔
تو پریشان نہ ہو۔ میں تجھے مرنے نہ دوں گی ۔۔۔ رانی پنکھی نے بڑے یقین سے کہا ۔۔ چل آ جا ۔۔ چھٹے گھر میں بیٹھ جا ۔۔
انارہ نے چارپائی سے اٹھ کر پہلے گھر میں قدم رکھا۔ پھر اچھل اچھل کر چھٹے گھر میں پہنچی۔ رانی پنکھی نے اسے اچھلتے ہوئے دیکھا تو بولی ۔۔ بچپن یاد آ رہا ہے کیا ؟ ۔۔
ہاں اماں ۔ یونہی سمجھ لے ۔ ویسے پچپن بھی کوئی بھولنے والی چیز ہے ۔۔۔ انارہ یہ کہہ کر زور سے ہنسی ۔ پھر بولی ۔۔ اماں۔ میں تو خیر سے ابھی بچی ہوں ۔۔
تو کب تک بچی بنی رہے گی۔ تو سولہ سال کی ہونے والی ہے۔ رانی پنکھی بولی ۔۔ اچھا، چل اب جلدی سے تیار ہو جا ۔۔
انارہ چھٹے گھر میں رانی پنکھی کی طرح پھسکڑ مار کر بیٹھ گئی ۔۔ اماں میں تیار ہوں ۔۔
رانی پنکھی نے چاندی کا بھاری تعویذ گلے سے اتار کر ہاتھ میں پکڑا اور مٹھی بند کرتے ہوئے کچھ پڑھ کر اس نے انارہ کی طرف پھونک ماری اور بولی ۔۔ ہاں، بتا کیا نظر آ رہا ھے ۔۔
اماں ۔۔ کوئی لڑکی سنک کے سامنے کھڑی برتن دھو رہی ہے۔ میری طرف اس کی پشت ہے۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی لیکن جو بھی ہے، پرکشش جسم کی مالک ہے ۔۔۔ انارہ کی آواز آئی۔
اس لڑکی کا نام نورین ہے۔ انجو یہ تو ہے۔ اب تو دیکھتی جا ۔۔۔ رانی پنکھی بولی۔
اب انارہ کو ان کے دروازے پر ایک دبلا پتلا مرد نظر آیا۔ کوئی پچاس پچپن سال کا ہو گا ۔ انارہ کو اس کی آنکھوں میں شیطان ناچتا ہوا دکھائی دیا۔ اس خبیث شخص نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور دبے پاؤں اندر داخل ہو گیا۔
نورین دیگچی مانجھنے میں محو تھی۔ اس کے ہاتھ بہت تیزی سے چل رہے تھے۔ سنک میں دیگچی ٹکرانے کی وجہ سے کھٹ کھٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ اس بات سے بےخبر تھی کہ کوئی اس کے پیچھے آ کھڑا ہوا ہے اور کسی بھی لمحے اسے اپنی گرفت میں لینے والا ہے۔
جیسے ہی اس نے اپنی شیطانی گرفت میں لیا تو نورین کو ایک دم غصہ آ گیا۔ یہ تو اس کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ اس کے پیچھے اس کے شوہر نعمان کے بجائے اس کا دوست ریحان ہو گا۔ اسے غصہ اپنے شوہر پر تھا۔ وہ اس سے ناراض تھی اور اس کو کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہ تھی۔
گرفت میں لینے کے بعد جب اس شیطان نے منہ کھولا ۔۔
کیسی ہو میری ۔۔۔۔۔
تو وہ تڑپ کر اس کی گرفت سے نکل گئی۔ اس نے ریحان کو دھکا دیا۔ نورین کم عمر اور صحت مند جسم کی مالک تھی۔ دبلا پتلا ریحان دھکا کھا کر پیچھے ہوا تو نورین کچن سے بھاگی۔
ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے حصار میں لینے کی کوشش کی تو وہ چکنی مچھلی طرح کی اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
وہ اب آگ بن چکی تھی۔ اس نے گھوم کر ایک زور دار تھپڑر اس کے منہ پر مارا اور بولی ۔۔
شیطان کے بچے۔ جا چلا جا ورنہ ابھی تجھے کاٹ کر پھینک دوں گی ۔۔۔ اس نے سنک پر پڑی ہوئی تیز چھری ہاتھ میں لے لی اور اس پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ تھپڑ کھانے کے بعد نورین کو شیرنی کی طرح بپھرا دیکھ کر ریحان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اس نے یہاں سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔
اس کے جانے کے بعد نورین نے چھری سنک میں پھینکی اور کچن میں بیٹھ کر سسک سسک کر رونے لگی۔
نورین کی قسمت تو اسی دن آنسوؤں میں بھیگ گئی تھی جب وہ بیاہ کر اپنے سسرال پہنچی تھی۔ یہ وٹے سٹے کی شادی تھی۔ نورین کے بھائی کو ایک سلجھی لڑکی مل گٸی تھی لیکن اس کے نصیب میں ایک نکھٹو شوہر آیا تھا۔
نعمان چالیس سے اوپر کا تھا جبکہ نورین کی عمر میں بائیس سال سے زیادہ نہ تھی۔ چلو وہ ادھیڑ عمر کے بندے کو برداشت کر لیتی ، بشرط کہ وہ کام والا ہوتا۔ نعمان کے گھر والوں نے جھوٹ بول کر نورین کے والدین کو پھنسایا تھا۔ نعمان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ پراپرٹی کا کام کرتا ہے۔ ایک پراپرٹی ڈیلر کے ہاں وہ ان دنوں بیٹھتا بھی تھا۔ اس کے بارے میں زیادہ چھان بین نہ کی گئ اور نعمان کی ماں کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر انٹر پاس نورین کو ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا گیا جو نکھٹو تو تھا ہی ، ساتھ ہی وہ ان پڑھ بھی تھا۔
اس نے کسی اسکول کی شکل تک نہ دیکھی تھی جبکہ اسے میٹرک پاس بتایا گیا تھا۔ وہ ایک جگہ ٹک کر کام کرنے کا عادی نہ تھا۔ پانچ دن نوکری پر جاتا تو دس دن گھر میں پڑا اینڈھتا رہتا۔ ایسے نکھٹو شخص کی اصولی طور پر شادی ہونا ہی نہیں چاہیے لیکن ماں کی ممتا کو کیا کیجئے جو چاند سی دلہن لانے کو ہمہ وقت بےچین رہتی ہے۔
نعمان کے بھائی پریشان تھے۔ وہ اکیلا ہی ان پر کیا کم بوجھ تھا کہ کھانے والوں میں اس کی بیوی نورین کا بھی اضافہ ہو گیا۔ چند ماہ تو بھائیوں نے اسے گھر بٹھا کر کھلایا۔ جب شادی کے بعد بھی اس نے اپنی روش نہ بدلی تو انہوں نے اسے گھر چھوڑنے کا نوٹس دے دیا۔
نعمان نے یہ بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی۔ بھلا وہ اس گھر سے نکل کر کہاں جاتا۔ تب ایک بھائی نے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا مکان اسے کرائے پر دلوا دیا اور نورین کے جہیز کا سامان وہاں ڈلوا دیا۔ اگر چہ نعمان اب بھی دوسرے گھر میں منتقل ہونے کے لیے تیار نہ تھا لیکن نورین کے لیے یہ بات انتہائی ندامت کی تھی۔ وہ اپنے شوہر کو لے کر نٸے گھر میں آ گئی۔
اس نے اپنے شوہر کو سمجھایا۔ اس کی غیرت جگائی ۔ تب وہ ایک گارمنٹس کے کارخانے میں جانے لگا۔ وہ سلائی کا کام جانتا تھا۔ نورین نے ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت ڈھونڈ لی ، اگر چہ تنخواہ کم تھی لیکن کچھ نہ ہونے سے تو بہتر تھی۔
نعمان کا ایک دوست تھا ریحان ۔ وہ اس سے دس سال بڑا تھا۔ وہ اکثر گھر آجاتا تھا۔ نعمان نے اس سے اپنی شادی کے لیے ایک موٹی رقم ادھار لی ہوئی تھی۔ نعمان اس کا احسان مند تھا۔ قرض لیے ایک سال ہونے کو آیا تھا۔ قرض اتارنے کی سبیل نہ تھی۔ قرض اتارنا تو دور کی بات نعمان اس چکر میں تھا کہ مزید قرض مل جائے ۔ کھانے کے علاوہ اب تو مکان کا کرایہ بھی سر پر پڑ گیا تھا۔
نورین کو گھر میں ریحان کی آمد پسند نہ تھی۔ وہ آ کر بیٹھ جاتا تو جانے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایک کمرے کا مکان چھوٹا سا صحن۔ نورین اس کی خواہش بھری آنکھوں سے خود کو کہاں تک محفوظ رکھتی۔ وہ اس کے آتے ہی کچن میں پناہ لے لیتی۔ نعمان کو کھڑا دیکھ کر ریحان بھی کچن میں آ جاتا۔ نورین کو سخت کوفت ہوتی ۔ اس بندے سے اسے چڑ تھی ۔ وہ اپنے شوہر سے کہتی کہ یہ تمہارا دوست ہے، اس سے باہر ملا کرو۔ گھر میں نہ لایا کرو۔ وہ اسے یاد دلاتا کہ یہ مت بھولو ہم اس کے مقروض ہیں اور یہ قرض میں نے تمہیں اپنے گھر لانے کے لیے لیا تھا۔ اگر وہ گھر آ جاتا ہے تو اس میں اعتراض کی بھلا کیا بات ہے۔ قرض کا ذکر سن کر نورین چپ ہو جاتی۔
نورین کی چھٹی حس پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ ریحان کی گھر میں بڑھتی ہوئی آمد خالی از علت نہیں ۔ ایک دن نعمان نے اس سے کہا ۔۔ نورین، ریحان میرا دوست ہے۔ اس کا خیال رکھا کرو۔ وہ شکایت کر رہا تھا کہ بھابی مجھ سے بات نہیں کرتی ۔ اس نے قرض واپس کرنے کو کہا ہے۔ اس کا تقاضا بڑھتا جا رہا ہے ۔ بتاؤ۔ میں قرض اتارنے کے لیے رقم کہاں سے لاؤں۔ ذرا اسے ہاتھ میں رکھو۔ چائے وائے پلا دیا کرو اور ہاں کبھی وہ میری غیر موجودگی میں آجائے تو اسے بٹھا لینا۔ میں آس پاس ہی کہیں گیا ہوں گا۔ آ جاؤں گا ۔۔
یہ خطرے کی گھنٹی تھی جو اس کے عین سر پر بج رہی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی ۔۔
" دیکھو، نعمان۔ مجھے اس سے ڈر لگتا ہے۔ وہ عجب انداز میں مجھے گھورتا ہے۔ اس لیے میں اس سے بھاگتی ہوں۔“
ارے۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔ نعمان نے بنستے ہوئے کہا ۔۔ وہ بہت شریف آدمی ہے۔ تم خواہ مخواہ اس میں عیب نہ نکالو ۔۔
نورین نے اندر ہی اندر اپنا سر پیٹ لیا۔ اس مکالمے کے بعد شوہر سے اور کیا کہا جا سکتا تھا ۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔۔ اچھا۔ میں کوشش کروں گی ۔۔
لیکن دل میں اس نے ٹھان لی تھی۔ وہ ہرگز اس سے راہ و رسم نہ بڑھائے گی۔
ایک دن دوپہر کے کھانے کے بعد نعمان گھر سے یہ کہہ کر نکلا کہ میں ذرا چائے کے لیے دودھ لے آؤں تم دروازے کی کنڈی نہ لگانا۔ میں پانچ منٹ میں آیا ۔۔
اچھا ۔۔۔ نورین نے کہا اور سنک میں پڑے برتن دھونے کھڑی ہو گئی۔ برتن دھوتے ہوئے وہ اپنی اذیت ناک زندگی کے بارے میں سوچنے لگی۔ نعمان کئی دن سے کام پر نہیں جار ہا تھا۔ آج صبح سے کئی بار اس سے لڑائی ہو چکی تھی۔ وہ سخت غصے میں تھی۔ دوپہر کو کھانے کے لیے گھر میں کچھ نہ تھا۔ نعمان جانے کہاں سے کچھ رقم لے کر آیا تھا۔ تب گھر کا چولہا جلا تھا۔ اس کی زندگی سسک سسک کر گزر رہی تھی۔
وہ ابھی انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ ریحان کھلے دروازے سے اندر آیا اور کسی عفریت کی طرح اس نے نورین پر چھانے کی کوشش کی لیکن تھیر کھانے اور چھری دیکھنے کے بعد ریحان کے چھکے چھوٹ گئے ۔ وہ بدحواس ہو کر گھر سے نکلا۔ وہ سیدھا اس ہوٹل میں پہنچا جہاں نعمان بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ ریحان نے گھر میں جو بیتی تھی ، وہ شدید غصے کے عالم میں سنا ڈالی۔
نعمان کو تھوڑی بہت مزاحمت کی ضرور توقع تھی لیکن وہ اس قدر جارحانہ انداز اختیار کرے گی ، اس کی اس کو ہرگز توقع نہ تھی۔ اس وقت اس نے فیصلہ کر لیا کہ اس "ستی ساوتری" کو وہ مزہ چکھا کر رہے گا۔ ایسا انتقام لے گا کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گی۔
جب نعمان گھر واپس پہنچا تو نورین بیڈ پر پڑی زار زار رو رہی تھی۔ نعمان نے روتی ہوئی نورین کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ابھی جوتا اٹھا کر اس کی ٹھکائی شروع کر دے اور اس کی ساری پارسائی جوتے کے ذریعے جھاڑ دے لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔
بیڈ پر بیٹھ کر اس نے پریشانی کی اداکاری کرتے ہوئے رونے کی وجہ پوچھی۔ نورین نے رورو کر ریحان کی دست درازی کی کتھا حرف بہ حرف سنا دی۔ نعمان یہ سب سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے ریحان کو قتل کرنے کی دھمکی اور نورین کو شاباش دی کہ اس نے جو کیا کم کیا۔ اسے چھری مار دینی چاہیے تھی۔
شوہر کی بات سن کر نورین کو بہت خوشی ہوئی ۔ وہ آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ گئی اور اس نے نعمان کو قسم دی کہ وہ ریحان کو کچھ نہیں کہے گا، جو سزا اس نے دے دی وہ کافی ہے۔ اگلے دن نعمان صبح ہی صبح گھر سے چلا گیا۔ جاتے ہوئے اس نے کہا ۔۔ نورین ۔۔ میں کام پہ جا رہا ہوں۔ تم اندر سے دروازہ بند کر کے تالا ڈال لو۔ کوئی آئے دروازہ ہرگز مت کھولنا ۔۔
نعمان کو کام پر جاتے دیکھ کر وہ نہال ہو گئی۔ اسے یہ بھی خوشی تھی کہ اس کے شوہر کو اس کے تحفظ کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ دن بھر گھر میں مگن گھومتی رہی۔ اس نے اپنے گھر کو صفائی کر کے چمکا دیا۔
نعمان رات تک گھر لوٹا ۔ وہ بازار سے اس کے لیے نہاری روٹی لایا تھا۔ ساتھ میٹھے پان بھی تھے۔ یہ دونوں چیزیں اس کی پسندیدہ تھیں۔ اس نے اپنے شوہر کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور سوچا آج رات کو دہ ڈھیروں پیار اس پر نچھاور کر دے گی۔ اس کی ساری محرومی دور کر دے گی۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد نعمان اس سے معافیاں مانگتا رہا۔ اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ نوکری پر جائے گا اور اس کے سارے دکھ دکھ دور کر دے گا۔ ریحان کے بارے میں اس نے بتایا کہ اب وہ کبھی گھر پر نہیں آئے گا۔ اس نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔
اس منحوس کے قرضے کا کیا ہو گا ۔۔۔ نورین نے فکر مند ہو کر کہا۔
میں نے اپنے بڑے بھائی سے بات کی ہے۔ اگر وہ کچھ رقم ادھار دے دیں تو وہ ریحان کو دے کر بقیہ رقم قسطوں میں ادا کر دوں گا ۔۔۔ نعمان نے بتایا۔
میں بھی اپنی کسی اسکول ٹیچر سے کمیٹی کی بات کرتی ہوں۔ اگر پہلی مل جائے تو اچھا ہو ۔۔۔ نورین بولی۔
اچھا چلو کر لینا ۔۔۔ نعمان تسلی آمیز لہجے میں بولا۔۔ کیا اب میں آپ کی خدمت میں میٹھا پان پیش کروں ۔۔
لو نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔۔ نورین ہنس کر بولی ۔۔ جلدی نکالو، کہاں چھپا کر رکھے ہیں ۔۔
نعمان نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر پڑا نکالا اور بولا ۔۔ یہ ہیں ۔۔
پڑے میں دو بڑے پان تھے۔ اس کی طرف ایک پان بڑھاتے ہوئے نعمان نے کہا ۔۔ میں اپنے ہاتھ سے کھلاؤں گا ۔۔
نورین نے خوشی سے سرشار ہو کر کہا ۔۔ ہاں ۔ کیوں نہیں ۔۔
پھر نعمان نے دونوں پان ایک ایک کر کے اسے کھلا دیئے اور اس سے چکنی چپڑی باتیں کرتا رہا۔ وہ اس وقت تک اس سے باتیں کرتا رہا، جب تک اس کے جسم میں شدید تکلیف نہ شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔
انارہ کچھ دیر اسے تڑپتا دیکھتی رہی۔ پھر چیخی ۔۔
"اماں ۔۔ بس "
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی اس کی چیخ سن کر چونکی۔
اماں۔ وہ بری طرح تڑپ رہی ہے۔ خون کی الٹیاں کر رہی ہے اور اس کا کمینہ شوہر اسے دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔ اماں بند کر دے ورنہ مجھے کچھ ہو جائے گا ۔۔۔ انارہ دُکھی لہجے میں بولی ۔
اچھا ۔۔ بند کرتی ہوں ۔ دھیرج رکھ ۔۔۔ رانی پنکھی نے اپنی بند مٹھی کھولی۔ جلدی جلدی کچھ پڑھا اور انارہ کی طرف پھونک ماری۔ پھونک مارتے ہی المناک منظر غائب ہو گیا۔ رانی پنکھی نے گلے میں چاندی کا بھاری تعویذ ڈالا اور ساتویں گھر سے نکل کر چارپائی پر آ بیٹھی جبکہ انارہ سکتے کے عالم میں چھٹے گھر میں بیٹھی رہی۔
انجو ۔۔ آ جا ۔۔ کب تک وہاں بیٹھی رہے گی ۔۔۔ رانی پنکھی چارپائی پر لیٹتے ہوئے بولی ۔
آتی ہوں اماں ۔۔۔ انارہ خود کو سنبھالتی، حواس بحال کرتی ، چھٹے گھر سے نکل آئی۔
اسے اٹھتا دیکھ کر رانی پنکھی نے اپنے پاؤں سکوڑ لیے۔ انارہ چارپائی کی پائینتی پر بیٹھ گئی اور اس کے سوکھے پاؤں اپنی گود میں رکھ کر دبانے لگی۔
اماں ۔۔ وہ بری طرح تڑپ رہی تھی۔ خون کی الٹیاں کر رہی تھی۔ اسے کیا ہو گیا تھا؟ انارہ نے گہری سانس لے کر کہا ۔۔ اس کمینے نے نورین کو کیا کھلا دیا تھا ۔۔
اس نے پانوں کے ذریعے پارہ کھلا دیا تھا۔ جس نے اس کا معدہ کاٹ دیا۔ پارے کا یہ زہر اس قدر خطرناک ہوتا ہے کہ آدمی کسی صورت بچ نہیں سکتا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بتایا۔
اماں ۔۔ میں اپنی موتیں دیکھ دیکھ کر پاگل ہوتی جا رہی ہوں۔ مجھ سے نہیں دیکھا جاتا اب یہ سب ۔۔۔ انارہ بھیگی آواز میں بولی۔
اس سنسار میں عورت کے لیے کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ ان چھ گھروں میں گھوم کر تجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا ہوگا کہ تو یعنی عورت کیا ہے؟
ہاں ۔۔ اماں ، بہت اچھی طرح ۔۔ اب ایک گھر اور رہ گیا۔ وہ بھی دکھا دے۔ جانے اس میں کیسی موت لکھی ہو ۔۔۔ انارہ خوفزدہ انداز میں بولی۔
ساتویں گھر میں ایسا کچھ نہیں۔ لیکن جو کچھ ہے، وہ کسی آگ کے دریا سے کم نہیں۔ اگر تو نے یہ آگ کا دریا پار کر لیا تو پھر تیری زندگی پھول بن جائے گی اور اگر نہ پار کر سکی تو پھر جلنا تیرا مقدر ٹھہرے گا ۔۔۔ رانی پنکھی نے اسے اگلی زندگی کا عکس دکھایا۔
اماں ۔۔ تیرا بھی کچھ ٹھیک نہیں۔ کبھی کہتی ہے کہ کوئی آ کر تیرے بھاگ جگائے گا اور کبھی کہتی ہے کہ آگ کا دریا میرا مقدر ہوگا ۔ آخر میں تیری کسی بات پر یقین کروں؟
دونوں باتوں پر ۔۔۔ رانی پنکھی نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔ جا اب تو اپنے کمرے میں جا ۔۔
0 تبصرے