خوفناک مسکن - پارٹ 24

urdu font stories online 2

لیکن وہ عابر کے کمرے میں نہ گئی۔
سوہنی نے ریسٹ ہاؤس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنا ارادہ بدل دیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس وقت ریسٹ ہاؤس کے تین کمرے خالی ہیں۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ ان بند کمروں کا جاسوسی کا خفیہ نظام معطل ہے۔ لہذا بہتر یہی تھا کہ ایسے کمرے میں قیام کیا جائے جو ہر لحاظ سے محفوظ ہو۔
یہ خیال آتے ہیں اس کا چہرہ گلنار ہو گیا۔ اس نے بہت تیزی سے روم نمبر چار کھلوانے کا انتظام کیا۔ کمرے میں پہنچ کر وہ پورے اطمینان سے بیڈ پر لیٹ گئی اور کچھ دیر بعد ہونے والے ناٹک کا ایک ایک منظر ذہن میں سوچنے لگی ۔ جب اس نے ہر بات ذہن کے اسکرین پر لکھ لی تو وہ باہر آئی۔ اس نے عابر کے کمرے پر متعین لیڈی گارڈ کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔
جی میڈم ۔۔۔ وہ قریب آکر مودبانہ انداز میں بولی۔
دیکھو ۔۔ صاحب سے کہنا کہ آپ کو میڈم بلا رہی ہیں۔ اس پیغام دینے کے بعد تم ڈیوٹی آف کر کے چلی جانا۔ مجھے یہاں لیڈی کمانڈوز کو تعینات کرنا ہے ۔۔۔ سوہنی افتخار نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
جی بہتر ۔۔۔ لیڈی گارڈ واپس عابر کے کمرے کی طرف چل دی۔
چند لمحے وہ لیڈی گارڈ کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی، پھر وہ کمرے میں داخل ہو گئی۔
لیڈی گارڈ نے دروازے پر دستک دی اور چند لمحوں کے توقف کے بعد درواز کھول کر اندر داخل ہو گئی۔ عابر بیڈ پر لیٹا اس کالے منہ کی سفید بلی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ آخر وہ کیا چیز تھی جو صرف اسے نظر آئی ۔ کمرے میں اچانک نمودار ہوئی اور پھر جیسے آئی تھی ویسے چلی گئی۔ وہ بلی اس سے کچھ مانوس سی محسوس ہوئی، جس انداز سے اس نے دیکھا اور پھر اس کے گرد چکر لگائے ، وہ اس بات کے غماز تھے کہ بلی کو اس سے خصوصی دلچسپی ہے۔ دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے چونکایا۔ وہ فورا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس وقت کون آ گیا۔ سوہنی کچھ دیر قبل ہی یہاں سے گئی تھی۔ اتنی جلد اس کی واپسی کا امکان نہ تھا۔
لیڈی گارڈ کو اندر آتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں سوال آیا۔ لیڈی گارڈ نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا اور مودبانہ انداز میں بولی ۔۔ سر میں اندر آ سکتی ہوں ؟ ۔۔
ہاں ۔۔ آئیے ۔۔۔ عابر بولا۔
بیڈ کے قریب آ کر لیڈی گارڈ نے ایک نظر عابر کو دیکھا۔ پھر بولی ۔۔ سر۔ آپ کو میڈم بلا رہی ہیں ۔۔
میڈم ۔۔ کہاں ہیں وہ ؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
سر ۔۔ وہ روم نمبر فور میں موجود ہیں ۔۔
اچھا ۔۔۔ عابر نے کہا اور بیڈ سے اتر کر اس کے ساتھ چل دیا۔
عابر نے باہر آ کر لیڈی گارڈ سے پوچھا ۔ " روم نمبر فور کہاں ہے؟"
سر ۔۔ آپ سیدھے چلے جائیے ۔ آخری کمرہ چار نمبر ہے ۔۔۔ لیڈی گارڈ نے بتایا۔
او کے ۔۔۔ عابر سوچنے لگا۔ آخر سوہنی اس کے کمرے میں کیوں نہیں آٸی۔ وہاں چار نمبر کمرے میں کیا ہے۔ کیا وہاں ڈاکٹر اعتبار موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بلی کے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا ہو۔ اس پراسرار بلی نے سب کو نچا کر رکھ دیا تھا۔ جانے یہ اچانک کہاں سے نمودار ہو گئی۔ یہ سوچتا ہوا وہ روم نمبر چار کے دروازے پر پہنچا۔ اس نے آہستہ سے دستک دی اور پھر ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا لیکن خلاف توقع دروازہ نہ کھلا ۔ عابر نے پھر دستک دی۔
جواب میں فورا ہی دروازہ کھلا لیکن تھوڑا سا۔ اندر سے سوہنی کی آواز آئی۔۔ دومنٹ کے بعد بغیر دستک دیئے اندر آ جائیے گا ۔۔
جی اچھا ۔۔۔ عابر نے کہا۔
سوہنی دروازہ بند کر کے واپس پلٹی ۔ پھر وہ تیزی سے واش روم میں گئی۔ ایک منٹ کے بعد وہاں سے نکلی تو شرم و حیا نام کی کوئی چیز اس کے بدن پر نہ تھی۔ اس نے کمرے کی تمام لائٹس روشن کر دیں اور کسی اندھیرے کی طرح بیڈ پر لیٹ گئی اور آنکھوں میں خواہشوں کی بارات سجائے دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔
اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ سر کے پیچھے کالے منہ کی سفید بلی نمودار ہو چکی ہے اور کسی لمحے بھی وہ اس پر حملہ آور ہونے کو ہے۔
دو منٹ کے بعد عابر پورے اعتماد سے دروازہ کھول کر اندر آیا۔ سوہنی نے اسے دیکھ کر بڑے والہانہ انداز میں کہا ۔۔
آؤ ، میرے مہینوال ۔۔
عابر کی اس پر نظر پڑی تو رات میں سورج نظر آ گیا ۔ وہ فورا پلٹ کر دروازے کی طرف بھاگا۔
اسے واپس جاتے دیکھ کر سوہنی تڑپ کر اٹھی ۔۔
پلیز عابر ۔ واپس مت جانا ۔۔
اس سے پہلے کہ وہ عابر کو جانے سے روکتی، کالے منہ کی سفید بلی ایکشن میں آ گئی۔ اس نے اس کی بےلباس پیٹھ پر پنچہ مارا۔ خون کی چار لکیریں اس کے کورے بدن پر بنتی چلی گئیں۔
وہ شدت تکلیف سے چیخی۔
عابر نے اس کی چیخ باہر نکل کر دروازہ بند کرتے ہوئے سنی لیکن اس نے پرواہ نہ کی۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کیا۔ سوہنی نے جب پلٹ کر دیکھا تو اسے کوئی نظر نہ آیا۔ لیکن اسے اپنے چہرے کی کھال ادھڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کالے منہ کی سفید بلی نے نہ صرف اس کا چہرہ زخمی کر دیا بلکہ پورا جسم اپنے پنجوں سے لہولہان کر دیا اور پھر پورے اطمینان سے چلتی ہوئی دروازے تک آئی اور باہر نکل گئی۔
سوہنی افتخار یہ جاننے سے قاصر رہی کہ اسے لہولہان کرنے کی کارروائی کس نے کی۔ لیکن اسے اتنا اندازہ ضرور ہو گیا تھا کہ عابر کے ساتھ کوئی ایسی چیز ہے جو اسے بچا رہی ہے۔ اس کی حفاظت کر رہی ہے۔ دوسری طرف عابر کو زہنی جھٹکا لگا تھا۔ اسے ہرگز اُمید نہ تھی کہ سوہنی اس قدر پست ہو جائے گی۔ اس کی نظر میں سوہنی ایک کھلے دل کی سلجھی ہوئی باوقار عورت تھی۔ جانے اسے کیا ہوا تھا کہ وہ اپنا مقام چھوڑ کر مٹی بن گئی تھی ۔ کہتے ہیں کہ نیکی بدی کے درمیان بس ایک لمحے کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اب جو بھی لمحہ فیصلہ کن بن جائے ۔ یہ بندے کا مقدر ۔
سوہنی اپنے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ اس نے فون کر کے لیڈی ڈاکٹر کو بلوا لیا تھا۔ وہ دو نرسوں کے ساتھ آ کر اس کی مرہم پٹی کر رہی تھی۔ لیڈی ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ یہ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات ہیں۔ سوہنی کو اب اچھی طرح یقین آ گیا تھا کہ یہ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات ہیں۔ سوہنی نے ڈاکٹر کو الٹی سیدھی کہانیاں سنا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی لیکن لیڈی ڈاکٹر بےیقینی کی کیفیت میں مبتلا رہی تھی۔ لیڈی ڈاکٹر کے جانے کے بعد سوہنی چاہتی تھی کہ ڈاکٹر اعتبار کو فون کر کے حالات سے آگاہ کرے لیکن اس کے فون کرنے سے پہلے ہی ڈاکٹر اعتبار کا فون آ گیا۔ اس نے بعد دوپہر اسلام آباد سے واپس آنے کی بات دہرائی اور ساتھ ہی اس نے عابر کے سلسلے میں چند ضروری ہدایات دیں۔
جب سوہنی نے اسے بتایا کہ نادیدہ ہلی نے اسے زخمی کیا ہے۔ اسے یہ نہ بتایا کہ ایسا کیوں ہوا۔ بہرحال اسے یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ ڈاکٹر اعتبار نے ایک غیر ملکی ایجنسی سے تیس لاکھ ڈالر میں عابر کا سودا کر لیا تھا۔ اب اس کو جلد از جلد دبئی روانہ کیا جانا تھا۔ وہاں کسی ایجنٹ کے حوالے کیا جاتا اور رقم وصول کر کے واپس لاہور آ جانا تھا۔
ڈاکٹر اعتبار چاہتا تھا کہ سوہنی، عابر کو لے کر دبٸی جائے تا کہ اسے کسی قسم کا شک و شبہ نہ ہو۔ اب سوہبی نے اپنے زخمی ہونے کی خبر سنا دی تھی تو ڈاکٹر اعتبار نے کہا کہ اچھا میں آکر دیکھتا ہوں کہ اس کے ساتھ کس کو بھیجا جاٸے ۔ بہرحال اس اثنا میں اس کا پاسپورٹ اور ویزا کا بندوبست کیا جائے۔
لاہور ایئر پورٹ پر ڈاکٹر اعتبار کو لانے کے لئے گاڑی بمع گارڈ موجود تھی۔ وہ پورے اطمینان کے ساتھ گاڑی میں براجمان ہوا اور گاڑی چل دی۔ ڈاکٹر اعتبار کے ساتھ تین لیڈی کمانڈوز پچھلی سیٹ پر موجود تھیں اور اس گاڑی کے پیچھے ایک اور گاڑی تھی جن میں ڈاکٹر اعتبار کے منتخب کردہ کمانڈوز موجود تھے۔ ڈاکٹر اعتبار کی گاڑی لاہور شہر سے نکل کر فراٹے بھرتی لاہور کے نواح میں موجود فارم ہاؤس کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں اس کا خفیہ نیٹ ورک موجود تھا۔
گاڑی مین روڈ سے ذیلی سڑک پر ٹرن لے چکی تھی۔ دو تین کلو میٹر کے بعد ڈاکٹر اعتبار کا خفیہ ٹھکانہ تھا۔ یہ ایک کم چوڑی سڑک تھی۔ اس وقت سنسان تھی اور سڑک پر وہی گاڑیاں آتی تھیں جن کا تعلق ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے ہوتا تھا۔
اچانک ڈرائیور کو تیز رفتار گاڑی کے بریک لگانے پڑے۔ اسے اُمید نہ تھی کہ اس سڑک پر اس کے سامنے دو ڈرم آجائیں گے۔ یہ ڈرم سڑک پر اس طرح پڑے تھے کہ گاڑی کا ان کے درمیان سے نکلنا ممکن نہ تھا۔ ایمرجنسی بریک لگانے پر ڈاکٹر اعتبار جو پُرسکون انداز میں بیٹھا تھا ، ھل گیا۔
یہ کیا ہے؟ ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے ڈرموں کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔
میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ ڈرائیور یہ کہہ کر اترنے لگا۔
تم بیٹھو ۔۔۔ ڈاکٹر اعتبار نے اسے روکا۔ اتنے میں پچھلی گاڑی آگے آئی۔ اس سے کمانڈوز نیچے اترے۔ لیڈی کمانڈوز بھی گاڑی سے نکل چکی تھیں۔ گاڑی میں اس وقت ڈرائیور اور ڈاکٹر اعتبار موجود تھے۔ لیڈی کمانڈوز کے اترتے ہی کالے منہ کی سفید بلی پچھلی سیٹ پر نمودار ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اس کی گردن پر پنجہ مارا۔
جیسے ہی ڈاکٹر اعتبار نے مڑ کر دیکھا تو بلی نے بہت پھرتی سے اس کی آنکھوں پر حملہ کیا ۔ آنا فانا اس نے ڈاکٹر اعتبار کی دونوں آنکھیں لہولہان کر دیں اور پورے اطمینان کے ساتھ وہ گاڑی سے معدوم ہو گئی۔ یہ خونی کارروائی ڈرائیور نے اپنی آنکھوں سے دیکھی لیکن اسے زخمی کرنے والا شخص نظر نہ آیا۔ وہ چیختا ہوا گاڑی سے اترا۔
کمانڈوز سڑک سے ڈرم ہٹا کر واپس پلٹ رہے تھے کہ انہوں نے ڈرائیور کو چخیتے ہوئے اپنی طرف آتا دیکھا۔
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ ایک کمانڈو نے پوچھا۔ ڈرائیور کے حواس گم تھے۔ وہ کچھ نہ بتا سکا۔ بس گاڑی کی طرف اشارہ کر کے رہ گیا۔ لیڈی کمانڈوز ڈرائیور کا اشارہ دیکھتے ہی گاڑی کی طرف لپکیں تو کمانڈوز بھی اس جانب بھاگے۔
گاڑی میں ڈاکٹر اعتبار اپنی دونوں آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے بیٹھا تھا۔ اس کی انگلیوں کے درمیان سے خون باہر آ رہا تھا۔ یہ وقت کسی سے سوال جواب کا نہ تھا۔ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ یہ بعد کی با تیں تھیں۔ فی الحال جو نظر آ رہا تھا اسے سنبھالنا تھا۔ کمانڈوز نے بہت تیز رفتاری سے ڈاکٹر اعتبار کو اسپتال پہنچایا۔
پہلے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹروں نے سنبھالا ۔ پھر لاہور سے آنا فانا ڈاکٹروں کی ٹیم پہنچ گئی۔ ڈاکٹر اعتبار کی بائیں آنکھ بچائی گئی کہ اس کو زیادہ گزند نہ پہنچا تھا لیکن دائیں آنکھ مکمل طور پر ضائع ہو چکی تھی ۔
ڈاکٹر اعتبار نے جو بیان دیا، اس پر کسی ڈاکٹر کو اعتبار نہ آیا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی گاڑی میں اچانک نمودار ہو، جملہ کرے اور پھر بغیر کسی کو دکھائی دیئے غائب ہو جائے ۔ بلی صرف ڈاکٹر اعتبار کو کیوں دکھائی دی۔ اس ڈرائیور کو کیوں نظر نہ آئی جو اس کی بغل میں موجود تھا۔
پھر سونی افتخار بھی زخمی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے اور جسم پر کسی بلی کے پنجوں کے نشانات تھے لیکن اسے کوئی چیز نظر نہ آئی تھی۔ ڈاکٹر اعتبار نے بلی کو دیکھا تھا جبکہ سوہنی کو کچھ نہ دکھائی دیا تھا۔ بہرحال زخمی دونوں ہوئے تھے۔
اور اب یہ بات دونوں کے دلوں میں اچھی طرح بیٹھے گٸی تھی کہ اس بلی کا تعلق عابر سے ضرور ہے۔ ڈاکٹر اعتبار اور سونی اپنی اپنی جگہ غصے میں تھے۔ سوہنی اس لیے ناراض تھی کہ عابر نے اس کی بات نہ مان کر اس کی انا کو ٹھیس پہنچائی تھی اور ڈاکٹر اعتبار اس لیے جلا بیٹھا تھا کہ اس نے اسے سخت نقصان پہنچایا تھا۔ دونوں کا غصہ اپنی جگہ لیکن دونوں اس سے براہ راست انتقام لینے کی پوزیشن میں نہ تھے۔
ڈاکٹر اعتبار کے لیے عابر کو قتل کروا کے فارم ہاؤس کے کسی گوشے میں دفن کروا دینا کوئی مشکل کام نہ تھا لیکن اس کی موت کے بعد اگر اس بلی نے انتقامی کارروائی کی تو پھر اس سے کسی طرح بچا جا سکے گا۔ ڈاکٹر اعتبار کے پاس اس کا آسان حل یہی تھا کہ وہ اس کو دبئی بھجوا کر ایک پنتھ دو کاج کرے۔ غیر ملکی ایجنسی سے اس کے عوض تیس لاکھ ڈالر وصول کرے اور اپنی جان چھڑا لے۔ دبٸی سے اسے امریکا منتقل کیا جانا تھا اور وہاں سے واپسی کسی طور ممکن نہ تھی۔
عابر کو جب یہ خوش خبری سنائی گئی کہ اسے دبٸی ایک اچھی ملازمت پر بھیجا جا رہا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ڈاکٹر اعتبار اور سوہنی جب سے زخمی ہوئے تھے، اس کے سامنے نہیں آئے تھے اور اسے معلوم نہ تھا کہ کالے منہ کی سفید بلی نے ان دونوں کی کیا درگت بنائی ہے۔ وہ اپنی ذھن میں مگن دینی کے خواب دیکھے جاتا تھا۔
ایک رات اس نے خواب میں "بابا دنیا“ کو دیکھا۔ وہ سڑک پر ایسے ہی چلا جاتا تھا کہ عقب سے اچانک آواز آئی ۔۔
کہاں جاتا ہے؟ ۔۔
عابر نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو بابا کو فٹ پاتھ پر بیٹھا پایا۔ وہ بابا کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ بابا کو دبئی جانے کی خبر سنائے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے لب کھولتا ۔ ہاہا نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔
بے وقوف تو دبٸی ملازمت پر نہیں، جال میں پھنسنے جا رہا ہے ۔۔
عابر کو بڑی حیرت ہوئی کہ بابا نے اس کے دل میں چھپی بات کیسے جان لی۔ وہ مودبانہ لہجے میں بولا ۔۔ " ہاہا ۔۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں دبٸی جا رہا ہوں ؟“
یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ تو اللہ کا ہو جا۔ تجھ پر بھی سب آشکار ہو جائے گا ۔۔
بابا ۔۔ پھر میں چلا جاؤں؟ ۔۔
بے وقوف تو نے سنا نہیں کہ میں نے کیا کہا۔ تو وہاں جال میں پھنسنے جا رہا ہے۔ کھائی میں گرنے جا رہا ہے۔ تجھے مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے ۔۔
بابا۔ میں پھر کیا کروں؟ ۔۔۔ عابر یکدم پریشان ہو گیا۔
تو کچھ نہ کر۔ بس اللہ پر بھروسا کر ۔۔
ابھی وہ کوئی اور بات کرنا چاہتا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ بہت دیر تک اس خواب کے بارے میں غور کرتا رہا مگر اس کے ہاتھ کوئی سرا نہ آیا۔ صبح ہی صبح اسے اٹھا دیا گیا۔ ناشتے کے بعد اس سے ایئر پورٹ چلنے کو کہا گیا۔ ریسٹ ہاؤس کے سامنے گاڑی کھڑی تھی۔ سیکورٹی افسر سمندر خان اسے اپنے ساتھ لے کر پچھلی نشست پر بیٹھ گیا۔ اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ ایک سیکورٹی گارڈ موجود تھا۔ گاڑی چل پڑی۔
سمندر خان نے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ دبٸی جائے گا۔ اس نے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا ۔۔ دراصل سر چاہتے ہیں کہ آپ کو وہاں کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ عابر صاحب ہمارے خاص آدمی ہیں۔ میں وہاں آپ کی رہائش وغیرہ دیکھوں گا کہ کیا انتظام کیا ہے ان لوگوں نے۔ پھر جب ہم اچھی طرح مطمئن ہو جائیں گے تو میں وہاں سے واپس آ جاؤں گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس دوران سر بھی وہاں کا چکر لگائیں ۔۔
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات نہ ہو سکی، اس کا مجھے افسوس رہے گا ۔۔۔ عابر بولا ۔
سر آج مصروف تھے۔ کچھ غیر ملکی مہمان آئے ہوئے ہیں۔ وہ صبح سے ان کے ساتھ مصروف تھے ۔۔۔ سمندر خان نے بتایا۔
گاڑی اب ذیلی سڑک سے نکل کر مین روڈ پر آچکی تھی اور کالے منہ کی سفید بلی ڈرائیور کے پیروں کے پاس ظاہر ہو چکی تھی۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی کارروائی کرتی سمندرخان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔
سمندر خان نے موبائل اپنے کان سے لگا کر کہا ۔۔ " جی میڈم ۔"
میری عابر صاحب سے بات کرائیں ۔۔۔ دوسری طرف سونی افتخار تھی۔
جی اچھا ۔۔۔ کہہ کر سمندر خان نے موبائل عابر کی طرف بڑھایا ۔۔ " میڈم سوئی آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔"
عابر نے موبائل فون اپنے ہاتھ میں لے کر کان سے لگایا۔ سوہنی کے نام نے اسے چونکایا تھا۔ وہ اپنے لہجے پر کنٹرول کر کے خوشدلی سے بولا ۔ " جی سونی صاحبہ ۔"
میں جو بات کرنے والی ہوں، اسے بس خاموشی سے سن لینا ۔ سوال جواب مت کرنا ۔۔
او کے ۔۔۔ عابر نے کسی قدر فکرمند ہو کر کہا۔
عابر تم جتنے دن بھی یہاں رہے، میری آنکھ کا تارا بن کر رہے۔ میں بہت صاف گو عورت ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ میں تم پر فریفتہ ہو گئی تھی۔ تم ہو ہی اتنے دلکش ۔ خیر اس بات کو چھوڑو۔ اب میری بات غور سے سنو۔ تم دبٸی کسی نوکری پر نہیں جا رہے۔ تمہیں تیس لاکھ ڈالر کے عوض بیچ دیا گیا ہے۔ دبٸی میں سمندر خان تمہیں ایک غیر ملکی ایجنٹ کے حوالے کر کے واپس آجائے گا۔ پھر تمہارے ساتھ کیا ھو گا کوٸی نہیں جانتا۔ ابھی وقت ہے ۔ فرار ہو سکتے ہو، تو ہو جاؤ ۔ دبٸی پہنچ گئے تو پھر اس جال سے نکلنا ممکن نہ رہے گا۔ میں نہیں جانتی کہ اچانک کسی جذبے کے تحت میں نے یہ راز کھول دیا۔ اب میرے ساتھ جو گزرے سو گزرے۔ تمہیں اللہ محفوظ رکھے ۔۔ بائی ۔۔۔ اس کے بعد فون بند ہو گیا۔
عابر نے موبائل فون کان سے ہٹا کر ایک گہرا اور ٹھنڈا سانس لیا اور موبائل سمندر خان کو دے دیا۔
عابر صاحب ۔۔ خیر ہے ۔۔۔ سمندر خان نے رسما پوچھا۔
جی سب خیر ہے۔ چلتے وقت میڈم سے ملاقات نہ ہو سکی۔ وہ وش کر رہی تھیں ۔۔۔ عابر نے بتایا۔
اس میڈم کو میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔ پتا نہیں کیا چیز ہے یہ ۔۔۔ سمندر خان نے ایک طرح سے خود کلامی کی۔ عابر ، اس کے اس تبصرے پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔ سونی افتخار کے اس انکشاف پر کہ اسے تیس لاکھ ڈالر میں بیچ دیا گیا اور وہ دبٸی کسی ملازمت پر نہیں بلکہ غیر ملکی ایجنسی کے جال میں پھنسنے جا رہا ہے، اسے فورا ہی " بابا دنیا “ یاد آئے تھے۔ انہوں نے بھی خواب میں یہی کچھ کہا تھا۔ سونی کا یہ انکشاف کسی شک و شبہے سے بالاتر تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ وہ اس جال سے نکلے کیسے؟
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کالے منہ کی سفید بلی ایکشن میں آ گئی۔ اس نے ڈرائیور کے بریک والے پیر پر زبردست وزن ڈال دیا۔ تیز رفتار گاڑی کو اچانک بریک لگے تو سب سے پہلے ایک موٹر سائیکل والا گاڑی سے ٹکرایا۔ اس کے بعد پیچھے آنے والی گاڑی اس پر چڑھی۔ اس طرح کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں۔ موٹر سائیکل والے کا سر پیچھے سے آنے والی گاڑی کے پہیے کے نیچے آگیا۔ وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ چلتی روڈ پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کو بریک لگتے ہی۔ سمندر خان اور عابر کا سر اگلی نشست سے ٹکرایا۔ آگے بیٹھے گارڈ کا سر ڈیش بورڈ سے لگا۔ اس کا سر پھٹ گیا۔
کیا ہوا ؟ ۔۔۔ سمندر خان سنبھلتے ہوئے چیخا ۔
سر کچھ نہیں معلوم کیا ہوا؟ ۔۔۔ ڈرائیور گھبرا کر بولا ۔
بریک میں نے لگایا یا تم نے ۔۔۔ سمندر خان نے آنکھیں نکال کر کہا۔
سر جی ۔۔ مجھے نہیں معلوم بریک کیسے لگا ۔۔۔ ڈرائیور حیران پریشان تھا۔
بکواس کرتے ہو ۔۔۔ سمندر خان کا غصہ کسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔ اتنے میں لوگوں نے گاڑی کو گھیر لیا۔ یہ چاروں گاڑی سے اُتر آئے۔ عابر نے عقل مندی کی کہ برابر رکھے سفری بیگ کو کندھے پر ڈال کر باہر نکلا۔ اس بیگ میں سفری دستاویزات کے علاوہ چند کپڑے اور کچھ رقم موجود تھی۔
سمندر خان گاڑی سے اتر کر جب پیچھے آیا تو اس کے ہوش اُڑ گئے ۔ موٹر سائیکل والے جوان کا سر پہیے کے نیچے تھا اور وہاں خون ہی خون تھا۔ لوگوں نے ڈرائیور کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا تھا۔ گارڈ کی پیشانی زخمی تھی ، اسے اپنا ہوش نہ تھا۔ سب غافل تھے۔
بس یہی موقع تھا کہ عابر یہاں سے با آسانی فرار ہو سکتا تھا۔ وہ بہت تیزی سے بچتا بچاتا باہر آیا۔ اس نے آنا فانا سڑک کراس کی۔ یہ ایک چوڑی ڈبل روڈ تھی۔ اس نے مخالف سڑک کے کنارے پہنچ کر ایک رکشا روکا۔
ڈرائیور نے پوچھا ۔۔ ” کہاں جانا ہے؟“
عابر کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔۔
” داتا دربار "
آؤ ۔ بیٹھ جاؤ ۔۔۔ رکشا ڈرائیور نے خوشدلی سے کہا ۔۔ کراچی سے آئے ہو ؟
ہاں جی ۔۔۔ عابر نے رکشا میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
میں نے تین سال کراچی میں رکشا چلایا ہے۔ میں ملیر میں رہتا تھا ۔۔۔ رکشا ڈرائیور نے رکشا اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔
بھائی ذرا جلدی چلو ۔۔۔ عابر پریشان ہو کر بولا۔
بادشاہو ۔۔ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے ۔۔۔ رکشا والے نے مسکراتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی رکشا کی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔ چلو خیر ہے ۔۔
عابر نے شکر ادا کیا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سے پہلے کہ سمندر خان کو اس کے گم ہونے کا احساس ہو، وہ اس کی رینج سے نکل جائے ۔۔
عابر جب اس جگہ سے دو کلومیٹر دور نکل آیا تو اس نے سکون کا سانس لیا۔ رکشا والا باتونی معلوم ہوتا تھا۔ پھر " کراچی پلٹ“ تھا۔ کراچی والے کو دیکھ کر اس کی زبان کا تالا کھلنا فطری بات تھی۔
رکشا والا راستے بھر اس سے کراچی کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتا رہا۔ ان بے لاگ تبصروں میں ایک تبصرہ یہ بھی تھا ۔۔ باؤ ۔ برا نہ ماننا۔ ویسے کراچی والے ہوتے بڑے روکھے ہیں ۔۔
کیوں ۔۔ ان میں مرچیں کم ہوتی ہیں؟ عابر تفریحا بولا ۔
مرچیں کم نہیں۔ بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ رکشے والے نے ہنستے ہوئے کہا۔
داتا دربار پر اتر کر جب عابر نے اس سے کرایہ پوچھا تو وہ بڑی محبت سے بولا ۔۔ او نہیں باؤ جی۔ تسی ساڈھے مہمان ہو۔ کیسا کرایہ ؟ ۔۔
ارے نہیں یار ۔۔۔ عابر نے بمشکل اسے کرایہ لینے پر مجبور کیا اور پھر وہ بیگ کندھے پر لٹکا کر دربار کی طرف چل دیا۔
اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے جال میں پھنسنے سے رہ گیا تھا۔ اسے بار بار سونی یاد آ رہی تھی۔ یہ اس کا بڑا احسان تھا کہ اس نے گمشدہ ہونے سے بچا دیا تھا۔
وہ جیسی بھی تھی، اس نے اپنے تئیں جو بھی کھیل کھیلنا چاہا، اس کی اس نے سزا پائی۔ غصے کے باوجود سونی نے اسے خبردار کر دیا۔ یہ اس کا ایسا احسان تھا جسے عابر زندگی بھر نہیں بھول سکتا تھا۔ عابر نے اس کی غلطی معاف کر دی تھی اور اب اس کا رواں رواں اس کے لیے دعاگو تھا۔ یہ انسان بھی عجیب چیز ہے، اسے بنتے دیر لگتی ہے نہ بگڑتے۔
عابر کو پھر بابا دنیا یاد آئے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ان کا اصل نام کیا تھا۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا بھی نہ تھا۔ بابا دنیا عابر نے اپنی سہولت کے لیے رکھ لیا تھا۔ وہ جب بھی ملتے تھے، عابر کو نوید دیتے تھے۔ دنیا تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔ اس حوالے سے وہ انہیں بابا دنیا کہنے لگا تھا۔ بابا دنیا کون تھے۔ وہ ان کے بارے میں رتی بھر نہیں جانتا تھا لیکن ان کی وجہ سے اسے فائدہ پہنچا تھا۔ ملکہ کو جب وہ طلاق دے کر نکلا تھا تو اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جائے گا۔ جب بابا نے ہی اسے ماں کی شدید بیماری کی اطلاع دے کر اسے گھر جانے کی تلقین کی تھی اور اب بھی یہ بابا دنیا ہی تھے جنہوں نے خواب میں آ کر اسے دبٸی جانے کی حقیقت آشکار کی تھی اور اللہ پر بھروسا رکھنے کی تلقین کی تھی۔ شاید اللہ پر بھروسا ہی تھا کہ سونی جیسی حسین قاتلہ نے اسے کھائی میں گرنے سے بچا لیا تھا۔
ابھی وہ بابا دنیا کے بارے میں سوچتا ہوا مزار کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو حیران رہ گیا ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے