خوفناک مسکن - پارٹ 25

urdu font stories online 3

دو متضاد باتیں کر کے رانی پنکھی نے انارہ کو الجھا دیا تھا۔ جب بھی اسے کسی بات پر پختہ یقین ہونے لگتا اور وہ بار بار اس کے متعلق سوالات کرنے لگتی تو رانی پنکھی پینترا بدل لیتی کسی اور پٹڑی پر چل پڑتی۔ اب ساتواں گھر رہ گیا تھا اور رانی بھی چاہتی تھی کہ گھر دکھانے کا کام جلد از جلد نمٹ جائے۔ اس کی اس بات سے انارہ کو امید بندھی تھی کہ وہ عنقریب منزل پا لے گی۔ ساتواں گھر دیکھنے کے بعد کیا ہو گا، وہ نہیں جانتی تھی۔ لیکن اسے اتنا ضرور یقین تھا کہ اس کی ڈولتی کشتی کو کنارہ مل جائے گا۔
رات گہری ہوئی تو انارہ کمرے سے نکل آئی۔ اس نے رانی پنکھی کو صحن میں ٹہلتے ہوئے پایا۔ وہ دیوار کے سائے میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گٸی اور اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ۔۔
اماں تو پریشان ہے ؟ ۔۔
نہیں ری ۔۔ پریشانی کیسی؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے ٹہلتے ٹہلتے رک کر کہا اور پھر انارہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔ اس نے انارہ کا چہرہ اپنی طرف کیا اور اسے بغور دیکھنے لگی۔
تو مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہی ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا. کیا کچھ ہونے والا ہے؟ ۔۔۔ انارہ پریشان ہو کر بولی۔
دیکھ میری انجو ۔۔ یہ جو دنیا ہے یہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ کوئی چیز اپنی جگہ رکی ہوئی نہیں ہے۔ ہر شے حرکت میں ہے۔ کل میں ایک دن کی تھی ، آج میں اسی سے کچھ ماہ اوپر کی ہو چکی ہوں۔ کچھ ہی وقت رہتا ہے کہ تو سولہ سال کی ہو جائے گی۔ انجو لڑکی پر یہ سولہواں سال بڑی قیامت ڈھاتا ہے۔ اندر ہی اندر ایسے طوفان اُٹھاتا ہے کہ لڑکی لرز کر رہ جاتی ہے۔ وہ نہ خود کو چھپا پاتی ہے، نہ بچا پاتی ہے۔ میں تجھے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا قیامت خیز زمانہ یاد آ جاتا ہے ۔۔
انجو میں اس وقت کولکتہ میں تھی۔ میرا نام کاشی تھا۔ میں نے اپنے باپ کو بھی نہیں دیکھا۔ میری ماں ارادھنا اس بازار کی ایک قیمتی عورت تھی۔ دور دور سے لوگ میری ماں کا گانا سننے آتے تھے۔ رات کو محفل سجتی ۔ ہر طرح کے لوگ اس محفل میں ہوتے لیکن کیا مجال کہ محفل میں ذرہ بھر بھی بدمزگی ہوتی۔ گانا سننے والوں کو پہلے ہی بتا دیا جاتا کہ جسے گانا سننے کا واقعی ذوق ہے، وہ یہاں بیٹھے ورنہ شوق پورا کرنے کو اٹے بہتیرے۔
میری ماں ارادھنا کو ناچنا نہیں آتا تھا لیکن اس کے ایک اشارے پر اچھے سے اچھا مرد ناچنے لگتا تھا۔ میری ماں رہتی تو بالا خانے پر تھی لیکن اس کا دماغ آسمان پر ہوتا۔ وہ بالا خانہ کی لگتی ہی نہ تھی۔
تب اس کی زندگی میں ایک مجسمہ ساز آیا۔ اس سنگتراش کا نام تھا امرت رائے ۔ وہ بذات خود کسی مجسمے سے کم نہ تھا۔ میری ماں اس پر مر مٹی۔ اس کے پریم میں ایسی دیوانی ہوئی کہ اپنی سدھ بدھ بھولی، لے ، سر ، تال۔ اسے کچھ یاد نہ رہا۔ یاد رہ گیا تو امرت رائے ۔ وہ سنگتراش ایک آرٹ اسکول میں ٹیچر تھا۔ اس کی میری ماں کے جسم پر نظریں تھیں۔ اس کی نظروں میں میری ماں شاہکار جسم کی مالک تھی۔ وہ اس کا مجسمہ بنانا چاہتا تھاجبکہ میری ماں کی نظریں اس کی روح پر تھیں۔ وہ اس کا دل جیتنا چاہتی تھی۔
امرت رائے نے میری ماں کو اپنا مجسمہ بنوانے کے لیے راضی کر لیا۔ اس بازار کی عورت بالا خانے سے اتر کر اس کے آرٹ اسکول میں آ گئی۔ اس دن اسٹوڈیو میں ان دونوں کے سوا کوئی اور نہ تھا بلکہ اس وقت پورے اسکول میں کوئی موجود نہ تھا۔
امرت رائے نے کام کی ابتدا کی۔ مجسمہ بناتے بناتے صبح ہو گئی۔ میری ماں ایک ہی انداز میں بیٹھے بیٹھے تھک کر چور ہو گئی۔ وہ کمر لگانے کی خاطر اسٹوڈیو میں پڑی ایک بڑی سی میز پر لیٹ گئی۔ امرت رائے بھی تھک چکا تھا۔ وہ بھی اس میز پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
میری ماں ارادھنا آنکھوں میں خواب سجائے آنکھیں موندے لیٹی تھی کہ امرت رائے جو میری ماں کو شاہکار مجسمہ کہتا تھا ، اُس نے اس مجسمے پر ایسی کالک تھوپ دی کہ میری ماں کا دل کرچی کرچی ہو گیا۔ اس نے امرت رائے سے کچھ نہ کہا۔ بس ٹوٹے دل کے ساتھ اپنے ٹھکانے پر آ گئی۔ وہ اس بازار کی تھی لیکن اس کا دل بازاری نہ تھا۔ اس نے گانا چھوڑ دیا۔ امرت رائے جب اس سے ملنے آیا تو اس نے ملنے سے انکار کر دیا۔ سب سمجھا سمجھا کر تھک گئے لیکن اس نے کسی کی نہ سنی۔ اگر میں اس کی کوکھ میں نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ وہ خودکشی کر لیتی ۔ بس وہ اس وقت تک زندہ رہی، جب تک میں نے جنم نہ لے لیا ۔ انجو جان لے کہ میں کیسے باپ اور کیسی ماں کی بیٹی ہوں ۔۔۔ رانی پنکھی نے گہرا سانس لیا۔
ہاں اماں ۔۔ جان لیا۔ اب اپنی سنا ۔۔۔ انارہ اس کی آپ بیتی میں کھو گئی تھی۔ پھر اسے یاد آیا کہ اماں نے آج کی رات ساتواں گھر دکھانا تھا۔ اس نے فورا پوچھا ۔۔ اماں۔ وہ ساتواں گھر ؟ ۔۔
بےوقوف ساتواں گھر شروع ہو چکا ۔۔۔ رانی پنکھی نے انکشاف کیا ۔۔ تو دیکھتی نہیں تھی کہ میں ساتویں گھر میں خود بیٹھتی تھی ۔۔
ہاں اماں ۔۔ دیکھتی تھی۔ پھر اماں میرا ساتواں گھر کہاں گیا ؟ ۔۔
تیرا ساتواں گھر میرے ساتھ ہے۔ جہاں تو بیٹھی ہے، یہ تیرا ساتواں گھر ہے اور میرا بھی۔ تو مجھ سے اکثر سوال کیا کرتی تھی۔ اماں تو کون ہے؟ تو میری انجو ۔۔اب تو سنبھل کر بیٹھ جا۔ ویسے ہی جیسے تو اب تک چھ گھروں میں بیٹھی رہی۔ آج یہ چارپائی ہی تیرا ساتواں گھر بنے گی۔ پہلے مجھے جان لے، پھر میں تجھے تیرے آخری گھر کے بارے میں بتاؤں گی۔ کیا تو تیار ہے؟
ہاں ۔ اماں، میں تیار ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ چار پائی پر پھسکڑ مار کر بیٹھ گٸی اور آنکھیں موند لیں۔ رانی پنکھی بھی اس کے سامنے اس انداز میں براجمان ہو گئی۔ پھر اس نے اپنے گلے سے چاندی کا بھاری تعویذ اُتارا اور مٹھی میں لے کر زیر لب کچھ پڑھا اور انارہ پر پھونک ماری اور گویا ہوئی ۔۔
ہاں۔ انجو ۔۔ اب تو سنتی جا اور جو دکھائی دیتا ہے، وہ دیکھتی جا ۔ ہاں تو میں تجھے بتا رہی تھی کہ میں نے کسی ماحول میں اور کسی جگہ جنم لیا۔
میری ماں کی وہاں ایک منہ بولی بہن تھی۔ اس کا اصل نام تو پتا نہیں ۔ سب اسے بندو کہتے تھے۔ وہ میری ماں کی راز دار اور مزاج شناس تھی۔ میری پرورش اس نے کی۔ میں ایک انتہائی ضدی لڑکی تھی۔ جو بات کرنے کی ٹھان لیتی ، وہ کر کے چھوڑتی تھی۔ چاہے مجھے کوئی کاٹ کر ہی کیوں نہ پھینک دے۔ ماسی بندو جسے میں ماں جی کہتی تھی۔ میرا ہر طرح خیال رکھتی تھی۔
مجھے وہاں کے ماحول سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے پڑھنے کا شوق تھا۔ میری ضد پر میری ماں نے مجھے سکول داخل کرا دیا۔ میں نے میٹرک بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ میں کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی جب ماں جی نے میرے آگے ہاتھ جوڑ لیے۔ دراصل میٹرک کرنے کی اجازت ماں جی نے اس گھر کی نائیکا سرلا دیوی سے ٹکر لے کر لی تھی۔ سرلا نے کہہ دیا تھا کہ اگر آگے پڑھنے کی بات کی تو دونوں کو زھر دے کر مار دوں گی۔ اسی خوف کے پیش نظر ماں جی میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی ۔۔
بھگوان کے لیے کاشی ۔۔ اب تو پڑھائی کو بھول جا۔ میں نے سرلا دیوی سے ضد کر کے تجھے میٹرک کرنے کی اجازت دلوا دی۔ اب تو گھر میں بیٹھ ۔ اس گھر کے ریت رواج سیکھ۔ اپنی ماں کی طرح گا نہیں سکتی تو رقص سیکھ لے ۔۔
ماں جی ۔۔ وہ ہم دونوں کو زھر دینے کی بات کرتی ہے۔ وہ ہمیں کیا زہر دے گی ، اس سے پہلے ہی میں اسے مار دوں گی ۔۔۔ میں نے پر یقین لہجے میں کہا۔
میری یہ بات سن کر ماں بھی دہل گئی۔ وہ میری ہٹیلی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھی ، جو سوچ لیتی تھی ، وہ کر کے چھوڑتی تھی ۔۔ تجھے اپنی مری ماں کی قسم ، ایسا تو کچھ نہیں کرے گی ۔۔۔ ماں جی نے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
وہ مجھے گلے لگا کر بہت دیر تک روتی رہی۔
اچھا ماں جی تم پریشان مت ہو۔ میں سوچتی ہوں۔ ابھی کالج میں داخلے میں دو مہینے باقی ہیں ۔۔۔ میں نے ماں جی کو تسلی دی۔ لیکن پھر میری کالج میں داخلے کی نوبت نہ آئی ۔ میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔
نائیکا سرلا دیوی نے میرا ہالا ہی بالا سودا کر لیا۔ اس نے ماں جی کو بھی کچھ نہ بتایا۔ وہ جانتی تھی کہ میں ضد کی پکی ہوں ۔ کسی صورت یہاں کے ریت و رواج نہ اپناؤں گی، اس لیے اس نے اندر اندر ہی شہر کے ایک رئیس سے میرا معاملہ طے کر لیا۔ میں اس وقت سولہ سال کی تھی۔ میرے حسن کے چرچے پورے علاقے میں تھے۔ کئی عیش پرست میری بولیاں لگا رہے تھے۔ بس میری طرف سے سگنل کی دیر تھی لیکن میں نے ماں جی سے کہہ دیا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو میں جان دے دوں گی۔ لیکن اس چنڈال عورت نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور مجھے سیج پر بٹھا دیا۔ دروازے کے باہر مسلح پہرہ تھا۔ میں کمرے سے کسی صورت باہر نہیں نکل سکتی تھی اور یہ سب اچانک ہوا تھا۔
میں مسہری پر بیٹھی رو رہی تھی۔ مجھے شدت سے اپنی اصل ماں یاد آ رہی تھی جسے میں نے دیکھا نہ تھا لیکن ماں جی نے میری ماں ارادھنا کے بارے میں اتنی تفصیل سے بتایا تھا کہ وہ میرے سامنے مجسم ہو گئی تھیں۔ آج وہ زندہ ہوتیں تو مجھے یوں اکیلے رونا نہ پڑتا۔
تب ہی کسی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور ایک باریک سی آواز آئی ۔۔ " روتی کیوں ہے؟"
میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا۔ دروازے کی طرف دیکھا ۔ مگر کوئی نظر نہ آیا۔ اس آواز کو میں نے اپنا وہم سمجھا اور پھر ماں کی یاد میں کھو گئی۔
تب پھر آواز آئی ۔۔ تیرے تکیے کے نیچے چاقو ر کھ دیا ہے۔ موٹے سیٹھ کو اس کی چمک دکھا دینا۔ باقی میں دیکھ لوں گا ۔۔
تم کون ہو اور کہاں ہو؟ ۔۔
میں بگا ہوں اور تمہارے دل میں ہوں ۔۔
میری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے لیکن جب میں نے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا تو میرے ہاتھ میں ایک بڑا چاقو آ گیا۔ یہ ایک کھٹکے دار چاقو تھا۔ کھٹکا دہاتے ہی چھ انچ کا چمکدار پھل باہر آگیا۔ چاقو کو دیکھ کر میرے اندر یکایک جان پڑ گئی۔
اسی وقت بند دروازے پر آہٹ ہوئی۔ یوں لگا جیسے بند تالا کھولا جا رہا ہے۔ چند لمحوں بعد ایک سیاہ رو، موٹی توند والا سیٹھ اندر داخل ہوا۔
وہ موٹی توند والا سیٹھ اپنی آنکھوں میں جانے کتنے خواب سجائے اندر آیا تھا۔ جب اس نے اپنے نشہ آور خوابوں کی تعبیر خنجر بدست دوشیزہ کی شکل میں دیکھی تو یکدم اس کی آنکھوں میں اندھیرا بھر گیا۔
نا بابا نا ۔۔ مجھ پر حملہ مت کرنا۔ میں واپس چلا جاتا ہوں ۔۔۔ اس نے لرزتی آواز میں کہا اور فورازی واپس مڑ گیا۔
میں اس کی بزدلی پر مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔ اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ نہ کھلا ۔ وہ باہر سے منتقل ہو چکا تھا۔ اس کی پیٹھ دیکھ کر میرے اندر جنون سا اٹھا۔ میرا جی چاہا کہ اس ہوس پرست کی پسلیوں میں چاقو بھونک دوں اور اس وقت تک چاقو کے وار کرتی رہوں جب تک یہ مر نہ جاٸے۔ میں اس ارادے سے آگے بڑھی۔
سرلا ہائی دروازہ کھولو ۔۔ سریالا ہائی دروازہ کھولو ۔۔ وہ مسلسل دروازہ پیٹ رہا تھا۔
چند لمحوں بعد دروازہ کھلا اور نائیکہ سرلا دیوی بوکھلائی ہوئی اندر داخل ہوئی اور بولی ۔۔ سیٹھ راجندر کیا ہوا ؟ ۔۔
سیٹھ نے کوئی جواب دینے کے بجائے میری طرف اشارہ کیا اور بغیر کچھ بولے، حیران پریشان کمرے سے نکل گیا۔ میں جو اس پر وار کرنے لیے آگے بڑھ رہی تھی ، رک گئی۔ اب میری نظریں اس لومڑی پر تھیں، جو اس فساد کی جڑ تھی، جس نے میرا سودا کیا تھا۔
میرے ہاتھ میں چمکتا چاقو دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹکی ۔ اس نے یہ انداز لگانے کی کوشش کی کہ میرے پاس چاقو کہاں سے آیا۔ پھر اسے اپنی اہانت کا احساس ہوا۔ اس دو دن کی چھوکری نے اسے سیٹھ کے سامنے بےعزت کر دیا تھا۔ وہ کسی بھوکی شیرنی کی طرح مجھے کھانے دوڑی۔ میں پہلے سے ہی جنونی ہو رہی تھی، جب اس کے منہ سے طیش میں نکلا ۔۔
کنجری تیری یہ مجال ۔۔
تو میں اپنے حواسوں میں نہ رہی۔ اس وقت جانے میرے اندر کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ میں نے اس پر چاقو کے وار کر کے لمحوں میں اس موٹی تازی عورت کو لہولہان کر کے رکھ دیا۔
وہ اسپتال پہنچتے پہنچتے چل بسی۔ میں گرفتار ہوئی۔ مقدمہ چلا۔ مجھے عمر قید ہو گئی۔ میری زندگی کا دھارا بدل گیا۔ میں انسان سے شیطان ہو گئی۔ بگا جو میری نو عمری سے میرے اندر چھپا بیٹھا تھا، باہر آ گیا۔ اس نے مجھے آگ بھرے راستوں پر ڈال دیا۔ پھر یہی آگ میرے لیے پھول ہو گئی۔ کالا جادو، جنتر منتر سفلی عمل، شمشان گھاٹ، کھوپڑیاں، قبرستان، جنگل ویرانے۔ میری زندگی بن گئے۔ جیل میں ایک قیدی عورت تھی شوبھنا، وہ اپنی سوکن کو مار کر جیل آئی تھی۔ وہ کئی عملیات کی ماہر تھی۔ وہ مجھ پر فریفتہ ہو گئی تھی۔ اس سے میں نے کئی عمل سیکھے ۔۔۔
کاشی میں تمہیں بتاؤں جب کوئی عورت عامل کے پاس جاتی ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ تم پر زبردست جادو کرایا جا چکا ہے اور ثبوت کے طور پر وہ اس کے تکیے سے تعویذ گنڈے یا الماری سے سوئیوں لگا پتلا نکال دیتا ہے تو ایسا کسی جادو کے زیر اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ عامل اپنے عمل کے ذریعے اس طرح کی چیزوں کو اس کے گھر کی خفیہ جگہوں سے نکال کر اسے اپنا بےدام غلام بنا لیتا ہے۔ اسی طرح عورتیں اپنا گھر اور مرد اپنا سرمایہ گنوا بیٹھتے ہیں۔
خیر جب میں جیل سے رہا ہوئی تو میں بتیس سال کی تھی۔ اسسٹنٹ جیلر نے جب مجھے آزادی کی خبر سنائی تو میں سوچ میں پڑ گئی کہ کہاں جاؤں۔ واپس میں اس منڈی جانا نہیں چاہتی تھی۔ میرا دل وہاں سے سدا سے بیزار تھا کہ ماں جی وہاں ضرور تھیں جن سے مجھے شدید لگاؤ تھا لیکن نہیں پتا تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا شمشان گھاٹ پہنچ چکیں۔
اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ اسٹنٹ جیلر رام پال نے عجیب بات کی۔ وہ مسکراتا ہوا بولا ۔۔ تیرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے تو میرے گھر چل ۔۔
کتنے دن کے لیے؟ ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بےباکی سے پوچھا۔
جب تک تو رہنا چاہے ۔۔۔ وہ بولا ۔
مجھ سے شادی کرو گے؟ میں نے اسے حیرت میں ڈالنے والا سوال کیا۔
نہیں بھول کر بھی نہیں۔ میری بیوی روٹھ کر میکے بیٹھی ہے۔ مجھے کھانے پینے کی تنگی ہے۔ تو گھر سنبھال لے ۔۔۔ رام پال نے صاف گوئی سے اپنے دل کی بات کی۔
دیکھو۔ جیلر صاحب مجھے تمہارے گھر رہنا منظور ہے لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ تم نے صرف گھر سنبھالنے کی بات کی ہے۔ آگے پیچھے کچھ نہیں ۔۔۔ میں نے اسے تنبیہہ کی۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ رام پال خوش ہو کر بولا ۔
مجھے نہیں معلوم کہ اس نے میری بات سمجھی یا نہیں۔ اور اگر سمجھی تو مجھ کو صرف قیدی عورت سمجھا اور خود کو جیلر ۔
خیر میں نے اس کا گھر سنبھال لیا۔ اس کا پورا خیال رکھا۔ کپڑوں کی استری سے بھوجن پروسنے تک۔ کچھ دن وہ میرے ساتھ بالکل ٹھیک رہا۔ انسان کا بندہ بنا رہا۔ ایک دن صبح جب وہ ڈیوٹی پر جانے کی تیاری کر رہا تھا اور میں اس کے کپڑے استری کر رہی تھی تو اس نے مجھے اپنی استری سمجھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ ایک مضبوط جسم کا قدر آور شخص تھا۔ وہ اپنی مرضی کر سکتا تا لیکن میں صدا کی ضدی اور ہٹیلی ہوں۔ اپنی مرضی کی مالک۔ میں نے بھی ناپسندیدہ کو اپنا ہاتھ پکڑنے کی اجات نہیں دی۔ اس لیے میں اس کے گھر میں معاہدہ کر کے آئی تھی۔ آج وہ گھر کو سنبھالنے کے بجائے خود کو سنبھالنے کا آرزومند تھا۔ میں نے اسے اپنا عہد یاد دلایا۔ مگر اس نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور من مانی پر اتر آیا۔
مجھ پر جنون سوار ہو گیا۔ میں نے اس کے ہاتھ پر جلتی استری رکھ دی۔ اسے شاید مجھ سے اس طرح کے عمل کی توقع نہ تھی۔ وہ غصے سے پیچھے ہٹا اور الماری سے ریوالوار نکال کر مجھ پر تان لیا اور شدید غصے میں بولا ۔۔
دو ٹکے کی عورت تو نے خود کو سمجھا کیا ہے۔ میں تجھے قتل کر کے نالے میں پھنکوا دوں گا ۔۔
مجھے یقین تھا کہ وہ جو کہہ رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔ مجھے مار کر نالے میں پھینکوانا اس کے لیے قطعا مشکل کام نہ تھا۔ میں مشکل میں تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں؟
میں بگا کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتی کہ وہ اچانک ایک لحیم شحیم کالے کتے کے روپ میں نمودار ہوا۔ اس نے اس پر اس طرح چھلانگ لگائی کہ ریوالور اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا پڑا۔ وہ اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تھا۔ لڑکھڑا کر پیچھے گرا۔ بس اتنا موقع میرے لیے کافی تھا۔ میں نے ریوالور اٹھا کر اس پر کٸی گولیاں چلائیں اور دروازہ کھول کر اس کے گھر سے بھاگ نکلی۔ بس پھر جانے میں کب تک بھاگتی رہی۔ دربدری میرا مقدر ہوئی۔
اسٹنٹ جیلر رام پال کے شہر میں رہنا اب ناممکن تھا۔ بگا نے میری مدد کے لیے برجو کو بھیج دیا۔ وہ کولکتہ کالی دیوی کو بھینٹ چڑھانے آیا تھا۔ میں چند دن اس کے ساتھ کالی دیوی کے مندر میں رہی۔ وہاں کے کئی پجاری مجھ جیسی سرکش جوانی کو دیکھ کر اپنی پوجا پاٹ بھول گئے۔
برجو نے مجھے سمجھایا کہ کچھ حاصل کرنے کے لیے مندر کی داسی بننا ضروری تھا۔ پہلے برجو نے مجھے اپنی داسی بنایا۔ اس کے بعد مندر کے کئی بڑے پجاریوں نے میرے جسم کی بھینٹ مانگی۔
ادھر بگا کا اصرار کہ جو کہتے ہیں کرتی جاؤ۔ برجو نے یہاں تیرہ دن رہ کر بنارس چلے جانا تھا۔ میں واپس اب جیل جانا نہ چاہتی تھی۔ میں پولیس کے ہتھے چڑھ جاتی تو وہ جانے میرا کیا حشر کر دیتی۔ میں نے یہی غنیمت جانا کہ برجو کے ساتھ بنارس نکل جاؤں۔ برجو بڑا گیانی جوگی تھا۔ شیطان کا چیلا ۔ بگا کی اس پر خاص نظر تھی۔ اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس نے بھی مجھے کالا علم سکھانے میں کسی بخل سے کام نہ لیا۔ میں ہرجو کے ساتھ کئی سال بنارس رہی۔
پھر وہ مجھے الہ آباد میں ایک جینی سادھو کے حوالے کر گیا۔ اس سادھو کا نام تو دھرم داس تھا لیکن اس کا دھرم سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ شیطان کا خاص چیلا تھا۔ اس کے جسم پر کپڑے کے نام پر ایک لنگوٹ ہوتا۔ جب وہ بھبھوت مل لیتا تو لنگوٹ سے بھی بے نیاز ہو جاتا۔ اس کے ساتھ رہنا بڑا کٹھن تھا۔ لیکن میں رہی اور سچی بات یہ ہے کہ اس نے مجھے جو عمل سکھایا، وہ نایاب تھا۔ میری خدمت کے بدلے اس نے وہ سب کچھ سکھا دیا جو وہ جانتا تھا۔
دھرم داس ایک دن بڑی موج میں تھا۔ میں اس کے پیر دبا رہی تھی کہ وہ اچانک آنکھیں کھول کر بولا ۔۔ کاشی کیا تو چاہتی ہے کہ تو اڑی اڑی پھرے۔ تجھے پنکھ لگ جائیں ۔۔
ہاں کیوں نہیں۔ اس سے اچھی بات بھلا میرے لئے اور کیا ہو سکتی ہے ۔۔۔ میں فورا بولی ۔
اس شکتی کو حاصل کرنے کے لیے تجھے تین دن زمین میں دفن ہونا پڑے گا ۔۔
گروہ کیا مجھے اندر دفن کر کے مارنا چاہتے ہو؟ ۔۔۔ میں نے اپنا شبہ ظاہر کیا۔
نہیں۔ تو مرے گی نہیں۔ اگر تو نے میرے کہنے پر عمل کر لیا تو ایسی شکتی مل جائے گی کہ اپنے گرو دھرم داس کو سدا یاد کرے گی ۔۔
پھر جب دھرم داس نے مجھے اس عمل کی تفصیل بتائی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی آسان عمل نہیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی شکتی حاصل کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
اس کے یقین دلانے پر میں نے یہ جان لیوا عمل کرنے کی ٹھان لی۔ جب تین دن کے بعد میں بند قبر سے جیتی جاگتی برآمد ہو گئی تو مجھ سے زیادہ دھرم داس خوش تھا۔ خوشی اسے یہ تھی کہ کسی عورت نے اپنی جان پر کھیل کر یہ شکتی حاصل کی تھی۔ اسی دن اس نے میرا نام بدل دیا۔ آج سے تو کاشی نہیں، پنکھی کہلائے گی ۔ اب تجھے پنکھ لگ گئے ہیں، جہاں چاہے اُڑتی پھر ۔ بس اس دن سے میں پنکھی ہو گئی۔ عمر بڑھنے کے ساتھ لوگ مجھے مائی پنکھی کہنے لگے اور آج میں رانی پنکھی کہلاتی ہوں۔ لیکن سچ یہی ہے کہ مجھے پنکھ دینے والا دھرم داس ہی تھا۔ میں نے سات سال اس کے ساتھ گزارے۔
پھر ایک دن عجیب واقعہ ہوا۔ دھرم داس نے مجھے سورج نکلنے سے پہلے اٹھایا جبکہ اس کا معمول تھا کہ وہ بارہ بجے سے پہلے بھی نہ اٹھتا تھا۔ مجھے اٹھا کر بولا ۔۔ چل چکھی تیار ہو جا۔ تروینی چلتے ہیں ۔۔
تروینی ۔۔ گرو تمہارا وہاں کیا کام؟ ۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
پنکھی ہنس مت ۔ تو جانتی ہے نا کہ میرا نام دھرم داس ھے۔ میں اپنے وقت کے بڑے پنڈت شرما داس کا بیٹا ہوں۔ میں نے دھرم چھوڑ دیا۔ میں ناستک ھو گیا۔ پھر میں ایک ایسے راستے پر چل پڑا جس کا دھرم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مجھے کالا جادو سیکھنے کا شوق تھا۔ بس ایک بار پٹڑی سے اترا تو پھر سیدھے راستے پر نہ چل سکا۔ باپ نے میری سرگرمیاں دیکھ کر مجھے گھر سے نکال دیا۔ بس پھر بھٹکتا پھرا۔ کہاں کہاں کی خاک میں نے نہیں چھانی۔ تجھے میں نے اپنا سارا علم دے دیا ہے۔ میں نے تجھ جیسی عورت نہیں دیکھی۔ چل آج میں تجھے تروینی کی سیر کراتا ہوں ۔۔۔ دھرم داس جانے کیا کیا بولتا رہا۔
اسے اس طرح بولتے ہوئے میں نے کبھی نہیں سنا تھا۔ گنگا گھاٹ سے ہم ایک کشتی میں بیٹھ کر تروینی پہنچے۔ تروینی اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں تین دریا گنگا جمنا اور سرسوتی ایک ہوتے ہیں۔ اس مقام پر عجیب نظارہ ہوتا ہے۔ جہاں گنگا جمنا، سرسوتی ملتے ہیں، وہاں گنگا جمنا کو الگ الگ بہتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان دونوں دریاؤں کا رنگ الگ ہے اور یہ دونوں اس طرح ساتھ ساتھ بہتے ہیں، جیسے ان کے درمیان کوئی شیشے کی دیوار ہو۔
سورج نکلنے والا تھا۔ دھرم داس سر جھکائے کچھ پڑھنے میں مصروف تھا۔ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ وہ کشتی میں کھڑا ہوا۔ اس نے سورج کی طرف ہاتھ باندھ کر کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکی۔ اس کے بعد اس نے ایک ایسا عمل کیا جس کی مجھے ہرگز امید نہ تھی۔ اس نے گنگا جمنا کے سنگم پر پانی میں چھلانگ لگا دی۔ میں چیختی رہ گئی لیکن کوئی اسے نہ بچا سکا۔ تب میں نے الہ آباد چھوڑ دیا ۔
الہ آباد سے گھومتی گھامتی میں آگرہ پہنچی۔ تاج محل کے نزدیک ایک غریب بستی میں، میں نے اپنا مسکن بنایا۔ میرے پاس بہت کچھ تھا۔ میں نے آس پاس کے علاقے میں بہت جلد شہرت پا لی۔ میں اب چالیس برس کی ہو چکی تھی لیکن میرے حسن کی جوانی میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ میں اب کسی موجیں مارتی ندی کی طرح تھی۔
اس دن ہلکی بارش ہو رہی تھی کہ دروازے کی کسی نے کنڈی بجائی۔ میں ساڑھی سنبھالتی ہوئی دروازے پر آئی اور جب میں نے دروازہ کھولا تو مجھے امید نہ تھی کہ میرے گھر کے دروازے پر کوئی ایسا شخص آ جائے گا جسے میں دیکھتے ہی مر مٹوں گی۔ دوسری طرف اسے بھی اندازہ نہ تھا کہ جب دروازہ کھلے گا تو کوئی ایسی پرکشش عورت اس کے سامنے آ جائے گی جسے وہ دیکھتا رہ جائے گا۔ وہ شاید میرے پاس یہ سوچ کر آیا تھا کہ کوئی عمر رسیدہ، خبیث صورت عورت اس کے سامنے آئے گی۔
میں فوراً دروازہ کھول کر ایک طرف ہو گئی اور بولی ۔۔
" اندر آجائیں۔"
میرا لب و لہجہ میری آواز سن کر وہ مزید پریشان ہوا۔ اسے خیال ہوا کہ کہیں وہ غلط دروازے پر تو نہیں آ گیا ہے۔ اس نے کسی قدر جھجکتے ہوئے پوچھا ۔۔” کیا آپ پنکھی جی ہیں ؟“
میں پنکھی ہوں۔ پنکھی جی نہیں ۔۔۔ میں نے مسکرا کر اپنی جان لیوا آنکھوں سے ایک خاص ادا سے دیکھا تو وہ متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ وہ میرا ہم عمر ہی تھا۔ نام اس کا شاہ زیب تھا۔ میں نے زندگی میں بڑے مرد دیکھے تھے لیکن اس کی بات ہی اور تھی۔ کوئی ایسی بات کوئی ایسی کشش کہ اس نے میری روح تک کو اسیر کر لیا۔ پنکھی اڑنا بھول گئی تھی۔
میں نے شاہ زیب کو اپنے گھر کی سب سے اچھی جگہ پر بٹھایا۔ میرے بس میں ہوتا تو اپنے دل کے سنگھاسن پر اسے بٹھا لیتی۔ وہ ایک پڑھا لکھا سلجھا ہوا، کاروباری شخص تھا۔ فوٹو گرافی اس کا شوق تھا۔ ایک دن وہ تاج محل میں بیٹھا تصویر کھینچ رہا تھا کہ اچانک کیمرے کے فریم میں ایک حسینہ آ گئی۔ کیمرا کلک ہو چکا تھا۔ حسینہ کیمرے میں قید ہو چکی تھی۔ وہ برقع میں تھی۔ صرف اس کی آنکھیں کھلی تھیں ۔ شاہ زیب اس کی آنکھوں پر مر مٹا اور اس قدر بےچین ہوا کہ وہ اس لڑکی کے پیچھے گھر تک جا پہنچا۔
وہ کالج کی طالبہ تھی اور سائیکل رکشا ہر کالج جایا کرتی تھی۔ شاہ زیب کی والہانہ محبت نے اسے اپنا اسیر کر لیا۔ وہ اس سے شادی کرنے کا خواہشمند تھا۔ لڑکی بھی راضی تھی لیکن گھر والے راضی نہ تھے۔ ان کے ہاں خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج نہ تھا۔ دوسرے شاہ زیب اور قمر پروین کے درمیان عمروں کا فرق تھا۔ وہ میرے پاس اس مسئلے کے حل کے لیے آیا تھا۔ اس نے ساری تفصیل بتا کر بڑی بےتابی سے کہا تھا ۔ پنکھی جی، آپ قمر پروین سے میری شادی کروا دیں۔ میں آپ کا منہ موتیوں سے بھر دوں گا ۔۔
شاہ جی میں ہر ممکن کوشش کروں گی ۔۔۔ میں نے اسے جواب دیا اور واقعی میں نے کوشش بھی کی کہ اس کے گھر والے راضی ہو جائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ پروین اس کی قسمت میں نہ تھی۔ اس کی خاندان میں شادی طے کر دی گئی۔ لڑکا لاہور میں تھا۔ شادی کے تین ماہ بعد قمر پر وین لاہور چلی گئی۔ قمر پروین نے آگرہ چھوڑتے ہوئے شاہ زیب کو پیغام بھجوایا کہ وہ ہمیشہ کے لیے لاہور جا رہی ہے۔ چاہتی ہے کہ آخری بار اس کی جھلک دیکھ لے۔
اس نے مجھے قمر کے پیغام کے بارے میں آ کر بتایا۔ وہ اسٹیشن جانے کے لیے تیار نہ تھا، کہتا تھا کہ میں اسے رخصت ہوتے دیکھ نہ سکوں گا۔ خدا جانے کیا کر بیٹھوں۔ میں نے اس کی ہمت بندھائی۔ اس آخری ملاقات کے لیے اسے راضی کیا۔ میں خود اس کے ساتھ اسٹیشن گئی۔ قمر پروین لیڈیز کمپارٹمنٹ میں تھی۔ وہ برقع میں تھی۔ چہرے پر نقاب تھا لیکن آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس کی آنکھیں واقعی حسین تھیں۔ پلیٹ فارم پر رش تھا۔ شاہ زیب اس کی کھڑکی کے نزدیک کسی مسافر کی طرح کھڑا تھا۔ میں بھی وہیں تھی لیکن شاہ زیب سے منہ پھیرے کھڑی تھی ۔
میں رخصتی کا وہ منظر بھی نہیں بھلا پائی۔ ٹرین نے رینگنا شروع کیا تو قمر نے اپنا نقاب اتار دیا۔ جب میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں ہی نہیں، وہ خود بھی آنکھوں کی طرح حسین تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور وہ کھڑکی کی سلاخوں سے اپنا سر ٹکرا رہی تھی۔ گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم چھوڑ رہی تھی۔ سلاخوں سے سر ٹکراتے دیکھ کر شاہ زیب کی حالت خراب ہو گئی۔
جاتے ہوئے اس نے آخری بار شاہ زیب کی طرف پلٹ کر دیکھا۔ اپنا نازک ہاتھ باہر نکال کر ہلایا اور آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ شاہ زیب نے آگے بڑھ کر ریل گاڑی میں چڑھنا چاہا لیکن میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔۔ نہیں، شاہ زیب ۔۔
پتا نہیں، میرے لہجے میں کیا تھا کہ وہ ٹھہر گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے اپنی ساڑھی کے پلو سے اس کی آنسو بھری آنکھیں صاف کیں اور اسے اپنے گھر لے آئی۔ اسے کسی طور قرار نہ تھا۔ میرا خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا غم کم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا غم کم ہونے کی بجائے گہرا ہوتا گیا اور پھر ایک اس نے عجیب فیصلہ کیا۔ اس نے لاھور جانے کی ٹھان لی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ اس کا لاہور جانا ٹھیک نہ ہو گا۔ قمر کی شادی ہو چکی ہے۔ تم اگر وہاں جا کر اس سے ملو گے تو اس کی زندگی تباہ ہو جاٸے گی۔ اسے بھول جانا ہی بہتر ھے ۔
اس نے جواب میں کہ کہ وہ وہاں جا کر کوٸی ایسا کام نہ کرے گا کہ جس سے اس کی زندگی برباد ہو۔ بس اسے تسلی رہے گی کہ اس کی محبت اس شہر میں ھے ۔۔
یہ محبت کا عجیب روپ تھا۔ اس نے زندگی بھر شادی نہ کرنے اور اپنی پریمیکا کا نام لے لے کر جیے جانے کا عہد کر لیا تھا۔
میں پہلی نظر میں ہی اس پر مر مٹی تھی۔ ملاقاتوں کے بعد یہ محبت اور گہری ہوتی گئی۔ میں اس کے لیے بےکل ہو گئی تھی۔ مجھے اس وقت تک قرار نہ آتا جب تک میں اس کی صورت نہ دیکھ لیتی۔ میں نے اپنی محبت اپنے دل میں چھپا کر رکھی ہوئی تھی ، اظہار کرتی بھی تو اس کا کیا فائدہ ہوتا۔ وہ کسی اور کے عشق میں سر تا پا ڈوہا ہوا تھا۔ ڈر تھا کہ اظہار کے جواب میں وہ کہیں نفرت نہ کرنے لگے۔ میں کسی صورت اس کی نفرت برداشت نہ کر سکتی تھی۔
جب اس نے اپنی محبوبہ کے شہر لاہور جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا تو میں نے ایک دن اس کا ہاتھ تھام کر کہا ۔۔
شاہ زیب اکیلے مت جاتا۔ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی ۔۔ میری بات سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اسے توقع نہ تھی کہ میں اس کے ساتھ لاہور جانے کی فرمائش کروں گی۔ وہ چند لمحے میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر فیصلہ کن انداز میں بولا ۔۔
ٹھیک ہے چلو۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ میں نے زندگی بھر اس کی یاد میں جلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔۔
ہاں۔ میں جانتی ہوں ۔۔۔ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔۔ میں کبھی تم سے کوئی ایسی چیز نہ مانگوں گی جو تم مجھے دے نہ سکو۔ میں بس تمہارا ساتھ چاہتی ہوں۔ تمہاری داسی بن کر رہوں گی۔
شاہ زیب نے اپنا کاروبار سمیٹا۔ سرمایہ لاہور منتقل کیا اور میں اس کے ساتھ لاہور آ گئی۔ اس نے ماڈل ٹاؤن میں گھر خرید لیا۔ ایک سینما تعمیر کر لیا اور آسودگی سے زندگی گزارنے لگا۔ اسے معاشی کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن دل اس کا ٹھکانے پر نہ تھا۔ اسے یہ بات معلوم تھی کہ قمر پروین بیاہ کر ماڈل ٹاون میں آٸی ھے۔ لیکن اس نے کبھی اس کی کھوج لگانے کی کوشش نہ کی تھی۔ دل میں اس کی شکل دیکھنے کی حسرت تھی اور اسے یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور اسے کہیں نظر آٸے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ۔
اہک دن انارکلی میں اسے دکھائی دے گئی۔ وہ دو تین خواتین کے ساتھ تھی ، شاید اس کی نندیں وغیرہ تھیں۔ اگرچہ اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا لیکن آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ وہ ان آنکھوں کو لاکھوں آنکھوں کے درمیان پہچان سکتا تھا۔ لیکن آج ان آنکھوں میں پہچان نہ تھی۔ قمر پروین نے ایک نظر اسے دیکھا اور بس۔ اس نے چہرے پر نقاب ڈالا اور تیزی سے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گٸی ۔
شاہ زیب نے اسے اشارہ کیا نہ پکارنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کا تعاقب کیا۔ وہ جب گھر آیا تو ٹوٹا ہوا تھا۔ مجھے یہ اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ آج دیدار محبوب ہوا ہے۔
میں نے پوچھا تو اس نے ہر بات مجھے بتا دی۔ وہ بہت اداس تھا۔ وہ مجھے بہت دیر تک خالی نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر جانے اسے کیا خیال آیا۔ دھیرے سے بولا۔۔ پنکھی۔ کیا وہ مجھے بھول گئی ۔۔
میں نے بڑے یقین سے کہا ۔۔ نہیں۔ شاہزیب۔ وہ تمہیں بھولی نہیں۔ وہ تمہیں کبھی نہیں بھول سکتی۔ لیکن وہ یہ ضرور چاہتی ہے کہ تم اسے بھول جاؤ۔ اپنا گھر بسا لو ۔۔
میں ایک اجڑا دیار ہوں۔ اجزا دیار بھی کبھی بہتا ہے۔ وہ مجھے بے شک بھول جائے۔ میں اسے کبھی نہیں بھولوں گا ۔۔۔ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
سچی بات یہ تھی کہ میں چاہتی تھی کہ وہ قمر پروین کو بھول جائے، میرا ہو جائے۔ میں اس کے لیے مسلمان ہونے کو تیار تھی ۔ یہ جادو ٹونا عملیات سب تیاگ دینا چاہتی تھی۔ میں پھول بن کر اس کے قدموں میں نچھاور ہونا چاہتی تھی۔
جب میں اس سے اپنے دل کی بات کہتی تو وہ میری بات سن کر پھیکی سی ہنسی ہنس دیتا۔ اس محبت کے سو روپ ہیں۔ ایک وہ محبت تھی جو قمر اور شاہ زیب کے درمیان تھی۔ وہ ایک دوسرے کی چاہت میں گم تھے۔ یہ اور بات کہ ان کا ملاپ نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود وہ اسے بھولنے کو تیار نہ تھا۔ ایک طرف میری محبت تھی جو سو فیصد یک طرفہ تھی لیکن میں اسے بھولنے پر راضی نہ تھی۔ شاہ زیب کو اپنے دل پر اختیار تھا نہ مجھے اپنے من پر۔
پھر جانے کیا ہوا۔ ایسا میرے بڑھتے اصرار پر ہوا یا خود ہی اس کا دل اچاٹ ہو گیا۔ ایک دن اس نے لاہور چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کا مکان میرے نام کر دے لیکن میں نے منع کر دیا۔ میں چھوٹے علاقے میں رہنا چاہتی تھی۔ تب اس نے مجھے گڑھی شاہو میں گھر دلوا دیا۔ پھر وہ اپنا گھر اور سینما فروخت کر کے لاہور چھوڑ گیا۔ رخصت ہوتے وقت میں نے اس سے پوچھا ۔۔ کہاں جاؤ گے۔ شاہ زیب ؟ ۔۔
اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا ۔۔ " پتا نہیں۔"
کیا میں تمہیں یاد رہوں گی ؟ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس نے جواب دینے کے لیے اپنے ہونٹ وا کیے، پھر جانے کیا سوچ کر اس نے اپنے لب سی لیے اور وہ بغیر کچھ کہے، رخصت ہو گیا۔ میں اسے بھی نہیں بھول پائی۔ آج بھی وہ میرے دل میں کسی کسک کی طرح موجود ہے۔ وہ میری پہلی اور آخری محبت تھا۔ میں نے برسوں اس کی راہ دیکھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ کبھی پلٹ کر ضرور آئے گا۔ میں آج بھی اس کی راہ تکتی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر رانی پنکھی نے گہرا سانس لیا۔
اماں اتنے برس بیت جانے کے بعد اب کیا اس کی راہ دیکھنی ۔ دل سے نکال کر پھینک دے اسے ۔۔۔ انارہ نے مشورہ دیا۔
میری انجو ۔ دل بڑی عجیب چیز ہے۔ پر تو یہ بات ابھی سمجھے گی نہیں ۔۔
اچھا اماں ۔۔۔ انارہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ تیری کہانی ختم ہوئی۔ پر میرے ساتویں گھر کا کیا بنا؟
تیرا ساتواں گھر یہی ہے جہاں تو بیٹھی ہے۔ تجھے میں نے بتایا تو تھا ۔۔۔ رانی پنکھی بولی۔
اماں ۔۔ میں اس گھر میں آئی کیسے ؟ ۔۔۔ انارہ اپنی زندگی کے بارے میں بے چین تھی۔
میں اب تیرے بارے میں بتاتی ہوں کہ تو کون ہے اور آئی کہاں سے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے