اس کا خیال تھا کہ کندھے پر ہاتھ رکھنے والا ضرور بابا دنیا ہے لیکن وہ بابا دنیا نہ تھا، اس کا دوست وقار تھا۔ وقار کو دیکھ کر جہاں عابر حیران ہوا، وہاں اسے بےانتہا خوشی بھی ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور دیر تک لپٹے رہے۔
عابر تو یہاں کہاں؟ ۔۔۔ وقار نے الگ ہوتے ہوئے پوچھا۔
اور تو لاہور میں کیا کر رہا ہے؟ ۔۔۔ عابر نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
مجھے یہاں بینک میں ملازمت مل گئی ہے ۔۔۔ وقار نے بتایا۔
کب سے ہے یہاں؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
ابھی پچھلے مہینے آیا ہوں ۔۔۔ وقار نے کہا۔۔ لیکن تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ ۔۔
یار مت پوچھ کہ مجھ پر کیا گزری۔ میں اپنی جان بچا کر بھاگا ہوں۔ کتنا اچھا ہوا کہ تو مجھے مل گیا۔ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے ۔۔
چل پھر میرے ساتھ چل۔ وقار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں ۔۔ فاتحہ پڑھ لیں، پھر نکلتے ہیں یہاں سے ۔۔
فاتحہ پڑھنے کے بعد جب وہ داتا دربار کی سیڑھیاں اتر رہے تھے تو عابر نے پوچھا۔۔ تم یہاں کہاں ٹھہرے ہو ؟ ۔۔
فی الحال تو میں گڑھی شاہو میں چچا کے گھر مقیم ہوں۔ چچا چاہتے ہیں کہ میں مستقل ان کے ساتھ رہوں لیکن ابو کی ہدایت تھی کہ میں لاہور جا کر جلد از جلد کہیں اور اپنا مکان کر لوں۔ چچا کے گھر کے نزدیک ہی دو کمرے کا مکان مل گیا ہے۔ ایک دو دن میں وہاں شفٹ ہو جاؤں گا ۔۔
واو ۔ یہ تو بہت اچھا ہے۔ دو کمرے کا مکان ہے پھر تو میں تیرے ساتھ ہی ایڈ جسٹ ہو جاؤں گا ۔۔۔ عابر نے مستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے کہا۔
ہاں ۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ وقار ہنستے ہوئے بولا۔
پھر وقار، عابر کو اپنے ساتھ لے کر چچا سلمان کے ہاں پہنچا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ وقار کے چچا اور اس کے کزن وغیرہ سب گھر پر ہی تھے۔ وقار نے عابر کو ان سے ملایا اور بتایا کہ میرا یہ دوست کراچی سے ملازمت کی تلاش میں آیا ہے۔ اب یہ میرے ساتھ ہی رہے گا ۔۔
دوپہر کا کھانا کھا کر وقار نے اپنے گھر کی چابی لی اور عابر کو اپنے ساتھ لے آیا۔ کمرے میں ایک بیڈ موجود تھا۔ دونوں آرام سے لیٹ گئے۔ تب عابر نے وہاں سے سلسلہ جوڑا جس سے وقار واقف نہ تھا۔ اس نے آرزو سے ملاقات سے لے کر ڈاکٹر اعتبار کے خفیہ ٹھکانے ، اس کے تجربے اور فارم ہاؤس سے دبٸی کے لیے روانگی اور راستے سے فرار ہو کر داتا دربار تک پہنچنے تک ہر بات اس کے گوش گزار کر دی۔
اس کی روداد سن کر وقار سناٹے میں آ گیا۔۔ حیرت ہے یار تجھے جو ملا، وہ فراڈ ہی ملا ۔۔
وقار تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ؟ ۔۔
اب تو سب کے ساتھ فراڈ کرنا شروع کر دے۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔
او جانے دے یار ۔ اب میرے ساتھ دنیا بری ہے تو میں ان جیسا کیوں بن جاؤں ۔۔۔ عابر نے گہرا سانس لے کر کہا۔۔ بابا دنیا جب بھی ملتے، یہی کہتے کہ تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ھے۔ ان کا مطلب شاید یہی ہوگا کہ دنیا مجھے فریب دینے کے لئے ڈھونڈ رہی ہے۔ نہیں پتا کب تک یہ سلسلہ چلے گا ۔۔
عابر اب تم نے ایک کام کرنا ہے۔ اس گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے ۔۔
کیوں ۔۔ خیریت ؟ ۔۔ عابر نے پوچھا۔
ڈاکٹر اعتبار کے گرگے تمہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے۔ ڈاکٹر اعتبار یہ تصور بھی نہیں کر سکے گا کہ تم اس شہر میں موجود ہو۔ سمندر خان تمہیں ایئر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن اور بسوں کے اڈوں پر تلاش کر رہا ہو گا ۔ کچھ دن یہ لوگ جھک مار کر خاموشی سے بیٹھ جائیں گے۔ وہ تم سے ویسے ہی خوفزدہ ہے۔ اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ تم اس کے دبئی منصوبے سے آگاہ ہو چکے ہو تو پھر یقینا وہ تمہاری تلاش چھوڑ دے گا۔ تمہاری بلی نے جو اسے نقصان پہنچایا ہے، یہ وجہ آئندہ تم سے پنگا نہ لینے کے لیے کافی ہے۔ پر یار وہ بلی کہاں ہے؟ ذرا مجھے بھی تو دکھا ۔۔۔ وقار شرارت سے بولا۔
بلی تھیلے میں ہے ۔۔۔ عابر نے ہنس کر جواب دیا۔
تھیلے سے کب باہر آئے گی ۔۔۔ وقار نے پوچھا۔
پتا نہیں ۔۔۔ عابر نے کندھے اچکائے۔
بلی ہے یا تاشقند کا معاہدہ ۔۔۔ وقار نے بیڈ سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ اچھا۔ میں چچا کے گھر جا رہا ہوں تم یہیں رہو۔ میں باہر سے تالا لگا کر جا رہا ہوں ۔ اب تم میرے قیدی ہو ۔۔
اتنا کہہ کر وہ ہنستا ہوا چلا گیا۔
قیدی تو انارہ بھی تھی لیکن اب اس کی رہائی کے دن قریب تھے۔ اس سوال کے جواب میں کہ انارہ کون ہے؟ رانی پنکھی نے لب کھولے تو انارہ منہ کھولے رہ گئی ۔۔۔
ایک زمانے میں رانی پنکھی کو سانپوں سے بےحد دلچسپی تھی۔ ٹھٹھہ کے نواح سے ایک سپیرا بخشو خان اس کے پاس آیا کرتا تھا۔ وہ کالا جادو سیکھنے کے چکر میں اس کا چیلا بن گیا تھا۔ سانپوں کے بارے میں بخشو کا علم بہت گہرا تھا۔ رانی پنکھی کو اپنے ایک عمل کے لیے مخصوص سانپ درکار تھے۔ باہمی دلچسپی نے دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بنا دیا تھا۔ بخشو دو تین ماہ کے بعد ٹھٹھہ سے لاہور کے چکر لگاتا رہتا تھا۔ وہ اس کے لیے اندرون سندھ سے نایاب سانپ پکڑ کر لاتا ۔ رانی پنکھی ان انتہائی زہریلے سانپوں کو کھا کر چلے کاٹا کرتی۔ ایک بار بخشو آیا تو اس کے پاس نایاب سانپ تو تھا ہی، ساتھ ہی ایک پانچ چھ سال کی بچی بھی تھی۔ رانی پنکھی سانپ کو بھول کر اس بچی کو دیکھنے لگی۔ سانولی سلونی اس لڑکی میں اتنی کشش تھی کہ وہ اس پر سے نظریں نہ ہٹا سکی۔
رانی پنکھی کو اس قدر محویت سے اس لڑکی کو دیکھتے دیکھ کر بخشو بولا ۔۔ مائی، خیر تو ہے؟ ۔۔
بخشو تو نے اسے کہاں سے پکڑا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے پوچھا۔
مائی ۔۔ سانپ کے بارے میں پوچھتی ہو یا اس چھوکری کے؟ ۔۔ چھوکری کے بارے میں پوچھ رہی ہوں ۔۔۔ رانی پنکھی نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
یہ چند مہینے پہلے مجھے ایک گوٹھ کے باہر روتی ملی تھی۔ میں اسے اپنی جھولی میں ڈال لایا۔ اسے اپنے نام کے علاوہ کچھ اور معلوم نہیں۔ اپنا نام انارہ بتاتی ہے ۔۔
یہ ہلونگڑی مجھے اچھی لگی ہے۔ بول کیا دوں اس کا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔
مائی تمہیں اچھی طرح پتا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔۔۔ بخشو ہنس کر بولا ۔
نہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ تو کیا چاہتا ہے۔ ذرا پھر سے کہہ ۔۔۔ رانی لکھی نے کہا۔
مجھے سونا بنانے کی ترکیب بتا دے ۔۔۔ بخشو نے اپنی شدید خواہش فورا دھرا دی ۔
" اچھا۔ " ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کو دیکھا۔۔ تو نے اس کی کم قیمت لگائی۔ یہ سونے سے بھی مہنگی ہے۔ چل سودا طے ہوا۔ میں تجھے سونا بنانا سکھا دوں گی ۔۔
تمہاری بڑی مہربانی مائی ۔۔۔ بخشو نے رانی پنکھی کے پاؤں پکڑ کر کہا۔۔ انارہ پر اب میرا کوئی حق نہ رہا ۔۔
بخشو ۔۔ اس بات کو بھولنا نہیں ۔۔۔ رانی پنکھی نے تنبیہی انداز میں کہا۔
رانی پنکھی نے انارہ کے عوض بخشو کو سونا بنانے کی ترکیب سکھا دی لیکن وہ جانتی تھی کہ جو اس چمکتی چیز کے پھیر میں پڑ جاتا ہے، وہ برباد ہو کر رہتا ہے۔ بخشو نسخہ کیمیا لے کر گیا تو پھر واپس نہ پلٹا۔
رانی پنکھی نے انارہ کا نام تبدیل کر کے انجیلا کماری رکھ دیا۔ پھر وہ انجیلا سے انجو ہو گئی۔ رانی پنکھی میٹرک پاس تھی۔ اس نے انارہ کو گھر پر پڑھایا لکھایا۔ اس کی تربیت کی ۔ جب انارہ بارہ سال کی ہوئی تو بگا نے اسے قید کرنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہا ۔۔ دیکھ پنکھی۔ یہ بارہ برس کی ہو گئی ہے۔ اسے ہر بات کا شعور آ گیا ہے۔ یہ کسی بھی دن گھر سے نکل جائے گی اور خود نہ گئی تو تیرے پاس آنے والے لوگوں میں سے کوئی لے اڑے گا۔ یہ بہت قیمتی بالا ہے۔ اسے بلی بنا کر رکھ۔ اس طرح یہ محفوظ بھی ہو جائے گی اور وقت پر ہمارے کام بھی آ جائے گی ۔۔
بگا ۔۔ تو کیا چاہتا ہے؟ ۔۔
بتادوں گا ۔۔ پریشانی کیا ہے؟ ۔۔
تب بگا کے اصرار پر انارہ کو بلی کے روپ میں قید کر لیا گیا۔ قید کرنے کا عمل اتنا آسان نہ تھا لیکن رانی پنکھی کو اس عمل سے گزرنا پڑا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ انارہ جس سے اسے محبت ھو گٸی تھی۔ اس کے ہاتھ سے نکل جاٸے۔
بگا کیا کھیل، کھیل رہا تھا۔ اس بات کا اسے اندازہ نہ تھا۔
سولہواں سال مکمل ہوتے ہی بگا نے جو فرمائش کی ، اس نے رانی پنکھی کے چودہ طبق روشن کر دیے۔ اس نے بےاختیار ہو کر کہا ۔۔ نہیں بگا ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔
اس کی بات سن کر رانی پنکھی کو بہت تکلیف پہنچی تھی۔ انارہ پہلے ہی جنم جلی تھی۔ اس کی زندگی میں دُکھوں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں ۔ وہ ایک زمانے سے سسکتی تڑپتی مرتی چلی آ رہی تھی۔ رانی پنکھی نے طے کر لیا تھا کہ وہ اب اسے مرنے نہیں دے گی۔ وہ چھ بار مر چکی تھی۔ اب ساتویں بار پھر موت اس کے تعاقب میں تھی ۔ بگا منہ پھاڑے کسی مگر مچھ کی طرح اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
رانی پنکھی کے ساتھ اب وہ انارہ کا بھی دشمن ہو گیا تھا۔
عابر کو وقار کے گھر میں قیام پذیر ہوئے آٹھ روز ہو چکے تھے۔ وقار ، چچا کے گھر سے اس دو کمرے کے مکان میں منتقل ہو چکا تھا۔ وقار نے اب اس کی قید ختم کر کے گلی محلے میں نقل و حرکت کی اجازت دے دی تھی۔ ویسے بھی اسے اندازا تھا کہ یہ محلہ ڈاکٹر اعتبار کی رینج سے بہت دور تھا۔ لہذا خطرہ کوٸی نہ تھا بس احتیاط جاری تھی۔
اس گھر میں دونوں کمرے آگے پیچھے تھے۔ پچھلے کمرے میں عابر رہاٸش پذیر تھا۔ ایک رات وقار کی اچانک آنکھ کھلی تو اس نے عابر کے کمرے کی لائٹ روشن دیکھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ عابر اتنی رات گئے لائٹ جلا کر کیا کر رہا ہے۔ وہ اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔ ابھی وہ دروازے پر ہی پہنچا تھا کہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ سامنے عابر بیڈ پر دراز گہری نیند میں تھا اور اس کے پہلو میں ایک کالے منہ کی سفید بلی ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑے آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔
دروازے پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ بلی اُٹھ بیٹھی۔ اس نے ایک نظر وقار کو دیکھا اور بیڈ سے فرش پر چھلانگ لگائی اور تیزی سے دوڑتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ بلی کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وقار فورا ایک طرف ہو گیا تھا۔ اس نے بلی کو اپنے کمرے سے باہر صحن میں جاتے دیکھا۔ کالے منہ کی سفید بلی کو دیکھ کر وقار کو اب پختہ یقین ہو گیا کہ عابر نے جو کہا سچ کہا۔
اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر عابر کو جنجھوڑ ڈالا۔ عابر یکدم گھبرا کر اٹھا۔ وقار کو اپنے کمرے میں پا کر اسے گمان ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے۔
وقار کیا ہوا؟ ۔۔۔ عابر نے وقار کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتے دیکھ کر کہا۔ وقار نے جب کالے منہ کی بلی کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو عابر نے فورا پوچھا ۔۔
تجھے کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ وقار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔ یار۔ ایک بات میں تجھے بتا دوں کہ وہ بلی نہیں ہے ۔۔
ابے ۔۔ پھر کیا شیرنی ہے؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
نہیں ۔۔ وہ بلی نہیں بلا ہے ۔۔۔ وقار نے انکشاف فرمایا۔ یہ اندازہ اس نے اس وقت لگایا جب وہ بلا عابر کے ساتھ بے سدھ انداز میں لیٹا ہوا تھا۔
او۔ یار تیری ریسرچ کا شکریہ۔ میں یہ اندازہ نہیں لگا پایا۔ ویسے میں نے اسے ایک آدھ بار ہی دیکھا اور وہ بھی چھلانگیں مارتے ہوئے ۔۔
کیا اس وقت تم نے اسے نہیں دیکھا ؟ وقار نے سوال کیا۔
نہیں ۔ تم مجھے نہ اُٹھاتے تو میں صبح ہی اٹھتا ۔۔۔ عابر بولا ۔
میں بھی شاید اسے نہ دیکھ پاتا۔ تمہارے کمرے کی لائٹ کھلی ہونے پر میں کمرے میں آیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ تم اس وقت لائٹ جلا کر کیا کر رہے ہو؟ ۔۔
لیکن یار ۔ میں تو لائٹ جلا کر نہیں سویا تھا۔۔۔ عابر نے بتایا۔
پھر لائٹ کیسے جلی ؟ ۔۔
پتا نہیں ۔۔
یار یہ بلا تیرے پیچھے کیوں لگا۔ بلی لگتی تو کوئی بات بھی تھی ۔۔۔ وقار کی آنکھوں میں شرارت اتر آئی۔
یہ سارا کھیل ڈاکٹر اعتبار کی لیب سے شروع ہوا۔ پتا نہیں یہ کیا چیز ہے ۔۔
بہرحال، جو بھی ہے، تمہارا محافظ ہے ۔۔۔ وقار یہ کہہ کر اس کے کمرے سے نکل آیا۔ اس نے واش روم جانے کے لیے صحن کی لائٹ جلائی۔ صحن کے ایک طرف واش روم اور دوسری جانب کچن تھا۔ ابھی اس نے صحن میں قدم رکھا ہی تھا کہ کچن کے دروازے پر عجب نظارہ دیکھا۔
ابھی رانی پنکھی اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ بگا کی تکلیف دہ فرمائش کا کیا جواب دے کہ کالی آ پہنچی۔ رانی پنکھی سمجھی کہ وہ اس کا خون لینے آئی ہے لیکن اس کے ہاتھ میں پیالہ نہیں تھا۔
وہ اس وقت خون کی بھینٹ لینے نہیں، بگا کا پیغام لے کر آئی تھی۔
ہاں ۔۔ بول ۔۔ کیا کہنے آئی ہے؟ رانی پنکھی نے سوال کیا۔
بگا نے انجو کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ تو نے جواب نہیں دیا ۔۔۔کالی نے سوال کیا۔
میں جواب سوچ رہی ہوں ۔۔
اب جواب دینے کا وقت گزر گیا۔ بگا نے حکم دیا ہے کہ انجو کو فورا آزاد کر دے اور آج سے تیرہویں دن اماوس کی رات اس کی بلی چڑھانے کی تیاری کر لے۔ اور یہ بات اچھی طرح اپنے بھیجے میں بٹھائے کہ بگا انجو کی ہر صورت بھینٹ لے کر رہے گا۔ تجھے ہگا پر اسے قربان کرنا ہو گا۔ میری بات کیا تو نے اچھی طرح سمجھ لی ؟ ۔۔
اگر میں انجو کی بھینٹ دینے سے انکار کر دوں تو؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے سر اٹھایا۔
تو کیوں تباہ برباد ہونا چاہتی ہے۔ آخر تو چاہتی کیا ہے۔ تجھے ہر کام میں نہیں کہنے کی عادت کیوں ہے ۔۔۔ کالی نے اپنی منہ سے باہر نکلی سرخ زبان ہلائی۔
بگا سے پوچھنا کہ اسے غلط کام کرانے کی عادت کیوں ہے؟ ۔۔
بھینٹ لینا اس کا حق ہے۔ آخر اس نے انجو کا " بھینٹ بالا “ بننے کا اتنے برس انتظار جو کیا ہے ۔۔۔ کالی بولی۔
اس نے یہ بات مجھ سے چھپا کر رکھی ۔ اگر وہ اپنا ارادہ مجھ پر پہلے سے ظاہر کر دیتا تو میں انجو کو گھر میں رکھتی ہی نہیں۔ اسے کب کا آزاد کر دیتی ۔۔
اب کر دے آزاد ۔۔ بگا خود یہ چاہتا ہے ۔۔
ہاں میں اسے آزاد کر دوں گی لیکن اسے بھینٹ چڑھانے کے لیے نہیں۔ میں اپنی انجو کو کبھی قربان نہیں ہونے دوں گی ۔۔
تو پھر اپنی قربانی کی تیاری کر لے ۔۔۔ کالی نے ایک اور پتا پھینکا۔
ہاں۔ میں خود قربان ہو جاؤں گی لیکن اپنی انجو کو بلی چڑھنے سے بچا لوں گی ۔۔
تو پھر میں بگا کو تیری طرف سے یہ پیغام دے دوں کہ تو اس کی رانی بننے کے لیے تیار ہے ۔۔۔ کالی نے اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں، جا ۔۔ اب دفع ہو جا ۔۔۔ رانی پنکھی نے گلوگیر آواز میں کہا اور اس منحوس صورت کالی کی طرف سے منہ پھیر لیا۔
رانی پنکھی کے منہ پھرتے ہی کالی قہقہہ لگاتی ہوٸی غاٸب ہو گٸی ۔اتنے میں رانی پنکھی کو چیخ کی آواز سناٸی دی ۔۔۔
یہ چیخ یقیناً انارہ کی تھی ۔۔۔۔
رانی پنکھی گھبرا کر کمرے کی طرف بھاگی۔ جب وہ کمرے میں پہنچی تو انارہ کو چیخ چیخ کر روتے پایا۔ وہ بیڈ پر اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور اسے خود سے لپٹاتے ہوئے بولی ۔۔
" کیا ہوا۔ “
رانی پنکھی کو قریب پا کر وہ اور زور زور سے رونے لگی۔ رانی پنکھی نے اسے رونے دیا۔ وہ اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ جب انارہ کی سسکیاں کم ہوئیں تو رانی پنکھی نے اس کا چہرہ اٹھا کر اپنی طرف کیا اور بولی ۔۔
" میرے ہوتے ہوئے تجھے رونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے بتا کیا ہوا ؟"
اماں ۔۔ میں نے کالی کی ساری باتیں سن لی ہیں ۔۔۔ انارہ نے اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا ۔۔ اماں ۔ اگر بگا میری بھینٹ مانگ رہا ہے تو مجھے اس کی بھینٹ چڑھ جانے دے۔ میں تو یگ یگ سے قربان ہوتی آ رہی ہوں۔ اب ایک بلی اور سہی۔ تو اپنے آپ کو برباد نہ کر ۔ زبردستی اس کی رانی نہ بن ۔۔
نہیں میری انجو ۔۔ تو پریشان مت ہو ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔ میں نے تجھے پال پوس کر اس لیے سولہ سال کا نہیں کیا کہ تیری بھنٹ دے دوں۔ میں مٹ جاؤں گی لیکن تجھ پر آنچ نہیں آنے دوں گی۔ اب میں تیری آنکھ میں آنسو نہ دیکھوں ۔ مجھے وہ کرنے دے جو میں چاہتی ہوں۔ میں دیکھتی ہوں کہ وہ کہاں ہے؟
اماں کون کہاں ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
تیری زندگی کا ساتھی ۔۔۔ رانی پنکھی کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔ "مجھے لگتا ہے کہ وہ کہیں آس پاس ہی موجود ہے۔"
ہائے سچ ۔۔۔ انارہ یکدم کھل اٹھی ۔۔ اماں جلدی پتا کر میرے بھاگ جگانے والا کہاں ہے؟
پتا کرتی ہوں ۔۔۔ رانی پنکھی انارہ کے بیڈ سے اٹھتے ہوٸے بولی ۔۔ انجو، چل باہر آ جا۔ پہلے تجھے بلی کے روپ سے آزادی دلاؤں ۔۔
اماں ۔۔ تو کتنی اچھی ہے، جو فیصلہ تو نے مجھے بچانے کے لیے کیا ہے، شاید میری سگی ماں بھی ایسا نہ کرتی ۔۔
انجو۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ تیری سگی ماں کیا کرتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ بگا کی رانی بنے کا فیصلہ میں نے دل سے نہیں کیا۔ تجھ جنم جلی کو سکھ بھری زندگی مل جائے۔ اس احساس کے ساتھ میں نیا جیون کاٹ لوں گی ۔۔ چل باہر آ جا ۔۔۔ رانی پنکھی نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
انارہ اس کے ساتھ ہی باہر صحن میں آ گئی۔ رانی پنکھی نے باورچی خانے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔
میں ہون تیار کرتی ہوں۔ تب تک تو اشنان کر کے آجا ۔۔
اچھا اماں ۔۔۔ یہ کہہ کر انارہ غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔
رانی پنکھی نے باورچی خانے میں جا کر چولہا جلایا۔ پھر اس نے گرم راکھ چولہے سے نکال کر المونیم کے بڑے پیالے میں بھری اور باہر صحن میں آ گئی۔ اس نے صحن کے درمیان پیالے سے اس طرح راکھ گرائی کہ ایک حصار سا بن گیا۔ اس کے بعد اس نے راکھ اور جلتے کوٸلے اس حصار میں ڈالے اور پھر چار پانچ جلتی ہوئی لکڑیاں حصار میں رکھ دیں۔ اس طرح ہون تیار ہو گیا ۔۔
اتنے میں انارہ غسل کر کے باہر آ گئی۔ نہانے کے بعد اس کے حسن میں مزید نکھار آ گیا تھا۔ رانی پنکھی اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھتی رہی۔
یہی عمر تو تھی جب اُس پر جوانی ٹوٹ کر برسی تھی۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر غرور سے اس کی گردن تن جایا کرتی تھی۔ وہ کسی بھی مرد کو بغیر خنجر کے قتل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف اس کی بولی لگا دی گئی اور پھر بولی لگانے والی سچ مچ کے خنجر سے قتل ہو گئی اور وہ سچ مچ کی قاتلہ بن گئی۔
اماں ۔ کیا دیکھ رہی ہے؟ رانی پنکھی کی نظریں جب مسلسل اس پر مرکوز رہیں تو اُسے ٹوکنا پڑا۔
انجو ۔۔ اس وقت تجھے دیکھ کر بیتا زمانہ یاد آ گیا۔ کبھی مجھ پر بھی اسی طرح بہار آئی تھی ۔۔۔ رانی پنکھی نے مسکرا کر کہا۔۔ انجو ۔۔ ہون کے سامنے بیٹھ جا ۔۔
انجو زمین پر چلتے الاؤ کے سامنے بیٹھ گئی۔ رانی پنکھی نے ایک جلتی لکڑی الاؤ سے نکال کر اس کے چاروں طرف گھمائی اور پھر کچھ پڑھتے ہوئے لکڑی اپنی جگہ رکھ دی۔ جلتی لکڑی واپس رکھتے ہی انارہ کو اپنے اندر اک آگ سی لگتی محسوس ہوئی ۔۔
آ انجو آ ۔۔۔ رانی پنکھی نے آنکھیں بند کر کے زور سے آواز لگائی۔ اماں۔ میں تیرے سامنے بیٹھی تو ہوں ۔۔۔ انارہ فورا بولی۔
تو مجھے دکھائی دے رہی ہے۔ تو چپ بیٹھ ۔۔۔ رانی پنکھی نے اسے تنبیہہ کی ۔۔ یہ کہاں مر گئی۔ انجو آ ۔۔
وقار نے دیکھا کہ اس کالے منہ کے سفید بلے کے ساتھ ایک اُس جیسی ہی بلی موجود ہے۔ یہ ہم شکل بلی بلے کے مقابلے میں تھوڑی دبلی تھی۔ باقی دونوں کی شکلوں میں زرا فرق نہ تھا۔ دو ہم شکل بلیاں دیکھ کر وقار پریشان ہو گیا۔ وہ واش روم جانا بھول گیا ۔ واپس عابر کے کمرے میں آیا۔
وقار کو بدحواس دیکھ کر عابر فورا اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا ۔۔
اب ہوا یار ۔۔
تیرے ہوتے ہوئے جو ہو جائے کم ہے کیا ۔ زرا باہر چل کر دیکھ۔ ۔۔۔ وقار اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا ۔
دونوں نکل کر باہر آئے۔ وقار نے کچن کی طرف اشارہ کیا ۔۔
یہ دیکھو ۔۔
عابر نے کچن کے دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں اسے کچھ نظر نہ آیا ۔ وقار نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھا جتی کہ وہ واش روم میں بھی جھانک آیا لیکن وہ دونوں کہیں موجود نہ تھے ۔۔ یار یہ کیا چکر ہے؟
ہوا کیا ۔۔ کچھ بتاؤ تو ؟ ۔۔۔ عابر نے وقار کو کونے بچالوں میں کچھ ڈھونڈتے پا کر پوچھا۔
یار۔ یہاں۔ کچن کے دروازے پر دو ہم شکل بلا بلی ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں کے منہ کالے اور جسم سفید تھے۔ یار عابر میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ اتنی دیر میں جانے وہ کدھر چلے گئے؟ ۔۔۔ وقار پریشان ہو کر بولا ۔
اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے سے باہر آنے تک اتنی دیر میں وہ کہیں بھی چھلانگ مار کر جا سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے پلے نے ایک ہفتے میں اپنے جیسی بلی بھی ڈھونڈ لی۔ یار ، یہ اپنا بلا تو بڑا تیز نکلا ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے بات کا رخ پھیرا۔
بس پھر تو ڈوب مر چلو بھر پانی میں ۔۔۔
عابر تو یہاں کہاں؟ ۔۔۔ وقار نے الگ ہوتے ہوئے پوچھا۔
اور تو لاہور میں کیا کر رہا ہے؟ ۔۔۔ عابر نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
مجھے یہاں بینک میں ملازمت مل گئی ہے ۔۔۔ وقار نے بتایا۔
کب سے ہے یہاں؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
ابھی پچھلے مہینے آیا ہوں ۔۔۔ وقار نے کہا۔۔ لیکن تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ ۔۔
یار مت پوچھ کہ مجھ پر کیا گزری۔ میں اپنی جان بچا کر بھاگا ہوں۔ کتنا اچھا ہوا کہ تو مجھے مل گیا۔ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے ۔۔
چل پھر میرے ساتھ چل۔ وقار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں ۔۔ فاتحہ پڑھ لیں، پھر نکلتے ہیں یہاں سے ۔۔
فاتحہ پڑھنے کے بعد جب وہ داتا دربار کی سیڑھیاں اتر رہے تھے تو عابر نے پوچھا۔۔ تم یہاں کہاں ٹھہرے ہو ؟ ۔۔
فی الحال تو میں گڑھی شاہو میں چچا کے گھر مقیم ہوں۔ چچا چاہتے ہیں کہ میں مستقل ان کے ساتھ رہوں لیکن ابو کی ہدایت تھی کہ میں لاہور جا کر جلد از جلد کہیں اور اپنا مکان کر لوں۔ چچا کے گھر کے نزدیک ہی دو کمرے کا مکان مل گیا ہے۔ ایک دو دن میں وہاں شفٹ ہو جاؤں گا ۔۔
واو ۔ یہ تو بہت اچھا ہے۔ دو کمرے کا مکان ہے پھر تو میں تیرے ساتھ ہی ایڈ جسٹ ہو جاؤں گا ۔۔۔ عابر نے مستقبل کی پلاننگ کرتے ہوئے کہا۔
ہاں ۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ وقار ہنستے ہوئے بولا۔
پھر وقار، عابر کو اپنے ساتھ لے کر چچا سلمان کے ہاں پہنچا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ وقار کے چچا اور اس کے کزن وغیرہ سب گھر پر ہی تھے۔ وقار نے عابر کو ان سے ملایا اور بتایا کہ میرا یہ دوست کراچی سے ملازمت کی تلاش میں آیا ہے۔ اب یہ میرے ساتھ ہی رہے گا ۔۔
دوپہر کا کھانا کھا کر وقار نے اپنے گھر کی چابی لی اور عابر کو اپنے ساتھ لے آیا۔ کمرے میں ایک بیڈ موجود تھا۔ دونوں آرام سے لیٹ گئے۔ تب عابر نے وہاں سے سلسلہ جوڑا جس سے وقار واقف نہ تھا۔ اس نے آرزو سے ملاقات سے لے کر ڈاکٹر اعتبار کے خفیہ ٹھکانے ، اس کے تجربے اور فارم ہاؤس سے دبٸی کے لیے روانگی اور راستے سے فرار ہو کر داتا دربار تک پہنچنے تک ہر بات اس کے گوش گزار کر دی۔
اس کی روداد سن کر وقار سناٹے میں آ گیا۔۔ حیرت ہے یار تجھے جو ملا، وہ فراڈ ہی ملا ۔۔
وقار تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ؟ ۔۔
اب تو سب کے ساتھ فراڈ کرنا شروع کر دے۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔
او جانے دے یار ۔ اب میرے ساتھ دنیا بری ہے تو میں ان جیسا کیوں بن جاؤں ۔۔۔ عابر نے گہرا سانس لے کر کہا۔۔ بابا دنیا جب بھی ملتے، یہی کہتے کہ تجھے دنیا ڈھونڈ رہی ھے۔ ان کا مطلب شاید یہی ہوگا کہ دنیا مجھے فریب دینے کے لئے ڈھونڈ رہی ہے۔ نہیں پتا کب تک یہ سلسلہ چلے گا ۔۔
عابر اب تم نے ایک کام کرنا ہے۔ اس گھر سے باہر نہیں نکلنا ہے ۔۔
کیوں ۔۔ خیریت ؟ ۔۔ عابر نے پوچھا۔
ڈاکٹر اعتبار کے گرگے تمہیں ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے۔ ڈاکٹر اعتبار یہ تصور بھی نہیں کر سکے گا کہ تم اس شہر میں موجود ہو۔ سمندر خان تمہیں ایئر پورٹ ، ریلوے اسٹیشن اور بسوں کے اڈوں پر تلاش کر رہا ہو گا ۔ کچھ دن یہ لوگ جھک مار کر خاموشی سے بیٹھ جائیں گے۔ وہ تم سے ویسے ہی خوفزدہ ہے۔ اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ تم اس کے دبئی منصوبے سے آگاہ ہو چکے ہو تو پھر یقینا وہ تمہاری تلاش چھوڑ دے گا۔ تمہاری بلی نے جو اسے نقصان پہنچایا ہے، یہ وجہ آئندہ تم سے پنگا نہ لینے کے لیے کافی ہے۔ پر یار وہ بلی کہاں ہے؟ ذرا مجھے بھی تو دکھا ۔۔۔ وقار شرارت سے بولا۔
بلی تھیلے میں ہے ۔۔۔ عابر نے ہنس کر جواب دیا۔
تھیلے سے کب باہر آئے گی ۔۔۔ وقار نے پوچھا۔
پتا نہیں ۔۔۔ عابر نے کندھے اچکائے۔
بلی ہے یا تاشقند کا معاہدہ ۔۔۔ وقار نے بیڈ سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ اچھا۔ میں چچا کے گھر جا رہا ہوں تم یہیں رہو۔ میں باہر سے تالا لگا کر جا رہا ہوں ۔ اب تم میرے قیدی ہو ۔۔
اتنا کہہ کر وہ ہنستا ہوا چلا گیا۔
قیدی تو انارہ بھی تھی لیکن اب اس کی رہائی کے دن قریب تھے۔ اس سوال کے جواب میں کہ انارہ کون ہے؟ رانی پنکھی نے لب کھولے تو انارہ منہ کھولے رہ گئی ۔۔۔
ایک زمانے میں رانی پنکھی کو سانپوں سے بےحد دلچسپی تھی۔ ٹھٹھہ کے نواح سے ایک سپیرا بخشو خان اس کے پاس آیا کرتا تھا۔ وہ کالا جادو سیکھنے کے چکر میں اس کا چیلا بن گیا تھا۔ سانپوں کے بارے میں بخشو کا علم بہت گہرا تھا۔ رانی پنکھی کو اپنے ایک عمل کے لیے مخصوص سانپ درکار تھے۔ باہمی دلچسپی نے دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت بنا دیا تھا۔ بخشو دو تین ماہ کے بعد ٹھٹھہ سے لاہور کے چکر لگاتا رہتا تھا۔ وہ اس کے لیے اندرون سندھ سے نایاب سانپ پکڑ کر لاتا ۔ رانی پنکھی ان انتہائی زہریلے سانپوں کو کھا کر چلے کاٹا کرتی۔ ایک بار بخشو آیا تو اس کے پاس نایاب سانپ تو تھا ہی، ساتھ ہی ایک پانچ چھ سال کی بچی بھی تھی۔ رانی پنکھی سانپ کو بھول کر اس بچی کو دیکھنے لگی۔ سانولی سلونی اس لڑکی میں اتنی کشش تھی کہ وہ اس پر سے نظریں نہ ہٹا سکی۔
رانی پنکھی کو اس قدر محویت سے اس لڑکی کو دیکھتے دیکھ کر بخشو بولا ۔۔ مائی، خیر تو ہے؟ ۔۔
بخشو تو نے اسے کہاں سے پکڑا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے پوچھا۔
مائی ۔۔ سانپ کے بارے میں پوچھتی ہو یا اس چھوکری کے؟ ۔۔ چھوکری کے بارے میں پوچھ رہی ہوں ۔۔۔ رانی پنکھی نے گمبھیر لہجے میں کہا۔
یہ چند مہینے پہلے مجھے ایک گوٹھ کے باہر روتی ملی تھی۔ میں اسے اپنی جھولی میں ڈال لایا۔ اسے اپنے نام کے علاوہ کچھ اور معلوم نہیں۔ اپنا نام انارہ بتاتی ہے ۔۔
یہ ہلونگڑی مجھے اچھی لگی ہے۔ بول کیا دوں اس کا ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔
مائی تمہیں اچھی طرح پتا ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔۔۔ بخشو ہنس کر بولا ۔
نہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ تو کیا چاہتا ہے۔ ذرا پھر سے کہہ ۔۔۔ رانی لکھی نے کہا۔
مجھے سونا بنانے کی ترکیب بتا دے ۔۔۔ بخشو نے اپنی شدید خواہش فورا دھرا دی ۔
" اچھا۔ " ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کو دیکھا۔۔ تو نے اس کی کم قیمت لگائی۔ یہ سونے سے بھی مہنگی ہے۔ چل سودا طے ہوا۔ میں تجھے سونا بنانا سکھا دوں گی ۔۔
تمہاری بڑی مہربانی مائی ۔۔۔ بخشو نے رانی پنکھی کے پاؤں پکڑ کر کہا۔۔ انارہ پر اب میرا کوئی حق نہ رہا ۔۔
بخشو ۔۔ اس بات کو بھولنا نہیں ۔۔۔ رانی پنکھی نے تنبیہی انداز میں کہا۔
رانی پنکھی نے انارہ کے عوض بخشو کو سونا بنانے کی ترکیب سکھا دی لیکن وہ جانتی تھی کہ جو اس چمکتی چیز کے پھیر میں پڑ جاتا ہے، وہ برباد ہو کر رہتا ہے۔ بخشو نسخہ کیمیا لے کر گیا تو پھر واپس نہ پلٹا۔
رانی پنکھی نے انارہ کا نام تبدیل کر کے انجیلا کماری رکھ دیا۔ پھر وہ انجیلا سے انجو ہو گئی۔ رانی پنکھی میٹرک پاس تھی۔ اس نے انارہ کو گھر پر پڑھایا لکھایا۔ اس کی تربیت کی ۔ جب انارہ بارہ سال کی ہوئی تو بگا نے اسے قید کرنے کا مشورہ دیا۔ اس نے کہا ۔۔ دیکھ پنکھی۔ یہ بارہ برس کی ہو گئی ہے۔ اسے ہر بات کا شعور آ گیا ہے۔ یہ کسی بھی دن گھر سے نکل جائے گی اور خود نہ گئی تو تیرے پاس آنے والے لوگوں میں سے کوئی لے اڑے گا۔ یہ بہت قیمتی بالا ہے۔ اسے بلی بنا کر رکھ۔ اس طرح یہ محفوظ بھی ہو جائے گی اور وقت پر ہمارے کام بھی آ جائے گی ۔۔
بگا ۔۔ تو کیا چاہتا ہے؟ ۔۔
بتادوں گا ۔۔ پریشانی کیا ہے؟ ۔۔
تب بگا کے اصرار پر انارہ کو بلی کے روپ میں قید کر لیا گیا۔ قید کرنے کا عمل اتنا آسان نہ تھا لیکن رانی پنکھی کو اس عمل سے گزرنا پڑا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ انارہ جس سے اسے محبت ھو گٸی تھی۔ اس کے ہاتھ سے نکل جاٸے۔
بگا کیا کھیل، کھیل رہا تھا۔ اس بات کا اسے اندازہ نہ تھا۔
سولہواں سال مکمل ہوتے ہی بگا نے جو فرمائش کی ، اس نے رانی پنکھی کے چودہ طبق روشن کر دیے۔ اس نے بےاختیار ہو کر کہا ۔۔ نہیں بگا ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔
اس کی بات سن کر رانی پنکھی کو بہت تکلیف پہنچی تھی۔ انارہ پہلے ہی جنم جلی تھی۔ اس کی زندگی میں دُکھوں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں ۔ وہ ایک زمانے سے سسکتی تڑپتی مرتی چلی آ رہی تھی۔ رانی پنکھی نے طے کر لیا تھا کہ وہ اب اسے مرنے نہیں دے گی۔ وہ چھ بار مر چکی تھی۔ اب ساتویں بار پھر موت اس کے تعاقب میں تھی ۔ بگا منہ پھاڑے کسی مگر مچھ کی طرح اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
رانی پنکھی کے ساتھ اب وہ انارہ کا بھی دشمن ہو گیا تھا۔
عابر کو وقار کے گھر میں قیام پذیر ہوئے آٹھ روز ہو چکے تھے۔ وقار ، چچا کے گھر سے اس دو کمرے کے مکان میں منتقل ہو چکا تھا۔ وقار نے اب اس کی قید ختم کر کے گلی محلے میں نقل و حرکت کی اجازت دے دی تھی۔ ویسے بھی اسے اندازا تھا کہ یہ محلہ ڈاکٹر اعتبار کی رینج سے بہت دور تھا۔ لہذا خطرہ کوٸی نہ تھا بس احتیاط جاری تھی۔
اس گھر میں دونوں کمرے آگے پیچھے تھے۔ پچھلے کمرے میں عابر رہاٸش پذیر تھا۔ ایک رات وقار کی اچانک آنکھ کھلی تو اس نے عابر کے کمرے کی لائٹ روشن دیکھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ عابر اتنی رات گئے لائٹ جلا کر کیا کر رہا ہے۔ وہ اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔ ابھی وہ دروازے پر ہی پہنچا تھا کہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ سامنے عابر بیڈ پر دراز گہری نیند میں تھا اور اس کے پہلو میں ایک کالے منہ کی سفید بلی ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑے آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔
دروازے پر کسی کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ بلی اُٹھ بیٹھی۔ اس نے ایک نظر وقار کو دیکھا اور بیڈ سے فرش پر چھلانگ لگائی اور تیزی سے دوڑتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ بلی کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وقار فورا ایک طرف ہو گیا تھا۔ اس نے بلی کو اپنے کمرے سے باہر صحن میں جاتے دیکھا۔ کالے منہ کی سفید بلی کو دیکھ کر وقار کو اب پختہ یقین ہو گیا کہ عابر نے جو کہا سچ کہا۔
اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر عابر کو جنجھوڑ ڈالا۔ عابر یکدم گھبرا کر اٹھا۔ وقار کو اپنے کمرے میں پا کر اسے گمان ہوا کہ ضرور کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے۔
وقار کیا ہوا؟ ۔۔۔ عابر نے وقار کے چہرے پر ہوائیاں اُڑتے دیکھ کر کہا۔ وقار نے جب کالے منہ کی بلی کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو عابر نے فورا پوچھا ۔۔
تجھے کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا؟ ۔۔
نہیں ۔۔۔ وقار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔ یار۔ ایک بات میں تجھے بتا دوں کہ وہ بلی نہیں ہے ۔۔
ابے ۔۔ پھر کیا شیرنی ہے؟ ۔۔۔ عابر نے پوچھا۔
نہیں ۔۔ وہ بلی نہیں بلا ہے ۔۔۔ وقار نے انکشاف فرمایا۔ یہ اندازہ اس نے اس وقت لگایا جب وہ بلا عابر کے ساتھ بے سدھ انداز میں لیٹا ہوا تھا۔
او۔ یار تیری ریسرچ کا شکریہ۔ میں یہ اندازہ نہیں لگا پایا۔ ویسے میں نے اسے ایک آدھ بار ہی دیکھا اور وہ بھی چھلانگیں مارتے ہوئے ۔۔
کیا اس وقت تم نے اسے نہیں دیکھا ؟ وقار نے سوال کیا۔
نہیں ۔ تم مجھے نہ اُٹھاتے تو میں صبح ہی اٹھتا ۔۔۔ عابر بولا ۔
میں بھی شاید اسے نہ دیکھ پاتا۔ تمہارے کمرے کی لائٹ کھلی ہونے پر میں کمرے میں آیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ تم اس وقت لائٹ جلا کر کیا کر رہے ہو؟ ۔۔
لیکن یار ۔ میں تو لائٹ جلا کر نہیں سویا تھا۔۔۔ عابر نے بتایا۔
پھر لائٹ کیسے جلی ؟ ۔۔
پتا نہیں ۔۔
یار یہ بلا تیرے پیچھے کیوں لگا۔ بلی لگتی تو کوئی بات بھی تھی ۔۔۔ وقار کی آنکھوں میں شرارت اتر آئی۔
یہ سارا کھیل ڈاکٹر اعتبار کی لیب سے شروع ہوا۔ پتا نہیں یہ کیا چیز ہے ۔۔
بہرحال، جو بھی ہے، تمہارا محافظ ہے ۔۔۔ وقار یہ کہہ کر اس کے کمرے سے نکل آیا۔ اس نے واش روم جانے کے لیے صحن کی لائٹ جلائی۔ صحن کے ایک طرف واش روم اور دوسری جانب کچن تھا۔ ابھی اس نے صحن میں قدم رکھا ہی تھا کہ کچن کے دروازے پر عجب نظارہ دیکھا۔
ابھی رانی پنکھی اسی ادھیڑ بن میں تھی کہ بگا کی تکلیف دہ فرمائش کا کیا جواب دے کہ کالی آ پہنچی۔ رانی پنکھی سمجھی کہ وہ اس کا خون لینے آئی ہے لیکن اس کے ہاتھ میں پیالہ نہیں تھا۔
وہ اس وقت خون کی بھینٹ لینے نہیں، بگا کا پیغام لے کر آئی تھی۔
ہاں ۔۔ بول ۔۔ کیا کہنے آئی ہے؟ رانی پنکھی نے سوال کیا۔
بگا نے انجو کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ تو نے جواب نہیں دیا ۔۔۔کالی نے سوال کیا۔
میں جواب سوچ رہی ہوں ۔۔
اب جواب دینے کا وقت گزر گیا۔ بگا نے حکم دیا ہے کہ انجو کو فورا آزاد کر دے اور آج سے تیرہویں دن اماوس کی رات اس کی بلی چڑھانے کی تیاری کر لے۔ اور یہ بات اچھی طرح اپنے بھیجے میں بٹھائے کہ بگا انجو کی ہر صورت بھینٹ لے کر رہے گا۔ تجھے ہگا پر اسے قربان کرنا ہو گا۔ میری بات کیا تو نے اچھی طرح سمجھ لی ؟ ۔۔
اگر میں انجو کی بھینٹ دینے سے انکار کر دوں تو؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے سر اٹھایا۔
تو کیوں تباہ برباد ہونا چاہتی ہے۔ آخر تو چاہتی کیا ہے۔ تجھے ہر کام میں نہیں کہنے کی عادت کیوں ہے ۔۔۔ کالی نے اپنی منہ سے باہر نکلی سرخ زبان ہلائی۔
بگا سے پوچھنا کہ اسے غلط کام کرانے کی عادت کیوں ہے؟ ۔۔
بھینٹ لینا اس کا حق ہے۔ آخر اس نے انجو کا " بھینٹ بالا “ بننے کا اتنے برس انتظار جو کیا ہے ۔۔۔ کالی بولی۔
اس نے یہ بات مجھ سے چھپا کر رکھی ۔ اگر وہ اپنا ارادہ مجھ پر پہلے سے ظاہر کر دیتا تو میں انجو کو گھر میں رکھتی ہی نہیں۔ اسے کب کا آزاد کر دیتی ۔۔
اب کر دے آزاد ۔۔ بگا خود یہ چاہتا ہے ۔۔
ہاں میں اسے آزاد کر دوں گی لیکن اسے بھینٹ چڑھانے کے لیے نہیں۔ میں اپنی انجو کو کبھی قربان نہیں ہونے دوں گی ۔۔
تو پھر اپنی قربانی کی تیاری کر لے ۔۔۔ کالی نے ایک اور پتا پھینکا۔
ہاں۔ میں خود قربان ہو جاؤں گی لیکن اپنی انجو کو بلی چڑھنے سے بچا لوں گی ۔۔
تو پھر میں بگا کو تیری طرف سے یہ پیغام دے دوں کہ تو اس کی رانی بننے کے لیے تیار ہے ۔۔۔ کالی نے اپنی سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں، جا ۔۔ اب دفع ہو جا ۔۔۔ رانی پنکھی نے گلوگیر آواز میں کہا اور اس منحوس صورت کالی کی طرف سے منہ پھیر لیا۔
رانی پنکھی کے منہ پھرتے ہی کالی قہقہہ لگاتی ہوٸی غاٸب ہو گٸی ۔اتنے میں رانی پنکھی کو چیخ کی آواز سناٸی دی ۔۔۔
یہ چیخ یقیناً انارہ کی تھی ۔۔۔۔
رانی پنکھی گھبرا کر کمرے کی طرف بھاگی۔ جب وہ کمرے میں پہنچی تو انارہ کو چیخ چیخ کر روتے پایا۔ وہ بیڈ پر اس کے ساتھ بیٹھ گئی اور اسے خود سے لپٹاتے ہوئے بولی ۔۔
" کیا ہوا۔ “
رانی پنکھی کو قریب پا کر وہ اور زور زور سے رونے لگی۔ رانی پنکھی نے اسے رونے دیا۔ وہ اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ جب انارہ کی سسکیاں کم ہوئیں تو رانی پنکھی نے اس کا چہرہ اٹھا کر اپنی طرف کیا اور بولی ۔۔
" میرے ہوتے ہوئے تجھے رونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے بتا کیا ہوا ؟"
اماں ۔۔ میں نے کالی کی ساری باتیں سن لی ہیں ۔۔۔ انارہ نے اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا ۔۔ اماں ۔ اگر بگا میری بھینٹ مانگ رہا ہے تو مجھے اس کی بھینٹ چڑھ جانے دے۔ میں تو یگ یگ سے قربان ہوتی آ رہی ہوں۔ اب ایک بلی اور سہی۔ تو اپنے آپ کو برباد نہ کر ۔ زبردستی اس کی رانی نہ بن ۔۔
نہیں میری انجو ۔۔ تو پریشان مت ہو ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کا آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔ میں نے تجھے پال پوس کر اس لیے سولہ سال کا نہیں کیا کہ تیری بھنٹ دے دوں۔ میں مٹ جاؤں گی لیکن تجھ پر آنچ نہیں آنے دوں گی۔ اب میں تیری آنکھ میں آنسو نہ دیکھوں ۔ مجھے وہ کرنے دے جو میں چاہتی ہوں۔ میں دیکھتی ہوں کہ وہ کہاں ہے؟
اماں کون کہاں ہے؟ ۔۔۔ انارہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
تیری زندگی کا ساتھی ۔۔۔ رانی پنکھی کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔ "مجھے لگتا ہے کہ وہ کہیں آس پاس ہی موجود ہے۔"
ہائے سچ ۔۔۔ انارہ یکدم کھل اٹھی ۔۔ اماں جلدی پتا کر میرے بھاگ جگانے والا کہاں ہے؟
پتا کرتی ہوں ۔۔۔ رانی پنکھی انارہ کے بیڈ سے اٹھتے ہوٸے بولی ۔۔ انجو، چل باہر آ جا۔ پہلے تجھے بلی کے روپ سے آزادی دلاؤں ۔۔
اماں ۔۔ تو کتنی اچھی ہے، جو فیصلہ تو نے مجھے بچانے کے لیے کیا ہے، شاید میری سگی ماں بھی ایسا نہ کرتی ۔۔
انجو۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ تیری سگی ماں کیا کرتی لیکن اتنا ضرور ہے کہ بگا کی رانی بنے کا فیصلہ میں نے دل سے نہیں کیا۔ تجھ جنم جلی کو سکھ بھری زندگی مل جائے۔ اس احساس کے ساتھ میں نیا جیون کاٹ لوں گی ۔۔ چل باہر آ جا ۔۔۔ رانی پنکھی نے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
انارہ اس کے ساتھ ہی باہر صحن میں آ گئی۔ رانی پنکھی نے باورچی خانے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔
میں ہون تیار کرتی ہوں۔ تب تک تو اشنان کر کے آجا ۔۔
اچھا اماں ۔۔۔ یہ کہہ کر انارہ غسل خانے کی طرف بڑھ گئی۔
رانی پنکھی نے باورچی خانے میں جا کر چولہا جلایا۔ پھر اس نے گرم راکھ چولہے سے نکال کر المونیم کے بڑے پیالے میں بھری اور باہر صحن میں آ گئی۔ اس نے صحن کے درمیان پیالے سے اس طرح راکھ گرائی کہ ایک حصار سا بن گیا۔ اس کے بعد اس نے راکھ اور جلتے کوٸلے اس حصار میں ڈالے اور پھر چار پانچ جلتی ہوئی لکڑیاں حصار میں رکھ دیں۔ اس طرح ہون تیار ہو گیا ۔۔
اتنے میں انارہ غسل کر کے باہر آ گئی۔ نہانے کے بعد اس کے حسن میں مزید نکھار آ گیا تھا۔ رانی پنکھی اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھتی رہی۔
یہی عمر تو تھی جب اُس پر جوانی ٹوٹ کر برسی تھی۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر غرور سے اس کی گردن تن جایا کرتی تھی۔ وہ کسی بھی مرد کو بغیر خنجر کے قتل کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف اس کی بولی لگا دی گئی اور پھر بولی لگانے والی سچ مچ کے خنجر سے قتل ہو گئی اور وہ سچ مچ کی قاتلہ بن گئی۔
اماں ۔ کیا دیکھ رہی ہے؟ رانی پنکھی کی نظریں جب مسلسل اس پر مرکوز رہیں تو اُسے ٹوکنا پڑا۔
انجو ۔۔ اس وقت تجھے دیکھ کر بیتا زمانہ یاد آ گیا۔ کبھی مجھ پر بھی اسی طرح بہار آئی تھی ۔۔۔ رانی پنکھی نے مسکرا کر کہا۔۔ انجو ۔۔ ہون کے سامنے بیٹھ جا ۔۔
انجو زمین پر چلتے الاؤ کے سامنے بیٹھ گئی۔ رانی پنکھی نے ایک جلتی لکڑی الاؤ سے نکال کر اس کے چاروں طرف گھمائی اور پھر کچھ پڑھتے ہوئے لکڑی اپنی جگہ رکھ دی۔ جلتی لکڑی واپس رکھتے ہی انارہ کو اپنے اندر اک آگ سی لگتی محسوس ہوئی ۔۔
آ انجو آ ۔۔۔ رانی پنکھی نے آنکھیں بند کر کے زور سے آواز لگائی۔ اماں۔ میں تیرے سامنے بیٹھی تو ہوں ۔۔۔ انارہ فورا بولی۔
تو مجھے دکھائی دے رہی ہے۔ تو چپ بیٹھ ۔۔۔ رانی پنکھی نے اسے تنبیہہ کی ۔۔ یہ کہاں مر گئی۔ انجو آ ۔۔
وقار نے دیکھا کہ اس کالے منہ کے سفید بلے کے ساتھ ایک اُس جیسی ہی بلی موجود ہے۔ یہ ہم شکل بلی بلے کے مقابلے میں تھوڑی دبلی تھی۔ باقی دونوں کی شکلوں میں زرا فرق نہ تھا۔ دو ہم شکل بلیاں دیکھ کر وقار پریشان ہو گیا۔ وہ واش روم جانا بھول گیا ۔ واپس عابر کے کمرے میں آیا۔
وقار کو بدحواس دیکھ کر عابر فورا اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا ۔۔
اب ہوا یار ۔۔
تیرے ہوتے ہوئے جو ہو جائے کم ہے کیا ۔ زرا باہر چل کر دیکھ۔ ۔۔۔ وقار اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا ۔
دونوں نکل کر باہر آئے۔ وقار نے کچن کی طرف اشارہ کیا ۔۔
یہ دیکھو ۔۔
عابر نے کچن کے دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں اسے کچھ نظر نہ آیا ۔ وقار نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھا جتی کہ وہ واش روم میں بھی جھانک آیا لیکن وہ دونوں کہیں موجود نہ تھے ۔۔ یار یہ کیا چکر ہے؟
ہوا کیا ۔۔ کچھ بتاؤ تو ؟ ۔۔۔ عابر نے وقار کو کونے بچالوں میں کچھ ڈھونڈتے پا کر پوچھا۔
یار۔ یہاں۔ کچن کے دروازے پر دو ہم شکل بلا بلی ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دونوں کے منہ کالے اور جسم سفید تھے۔ یار عابر میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ اتنی دیر میں جانے وہ کدھر چلے گئے؟ ۔۔۔ وقار پریشان ہو کر بولا ۔
اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ میرے کمرے سے باہر آنے تک اتنی دیر میں وہ کہیں بھی چھلانگ مار کر جا سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے پلے نے ایک ہفتے میں اپنے جیسی بلی بھی ڈھونڈ لی۔ یار ، یہ اپنا بلا تو بڑا تیز نکلا ۔۔۔ عابر نے ہنستے ہوئے بات کا رخ پھیرا۔
بس پھر تو ڈوب مر چلو بھر پانی میں ۔۔۔
وقار یہ کہتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔
0 تبصرے