جب انجو کے ساتھ اس کے ہم شکل بلے نے بھی باورچی خانے کی چھت سے صحن میں چھلانگ لگائی تو انارہ پر حیرت انداز میں چیخی ۔۔ اماں ، یہ تو ایک سے
دو ہو گئیں ۔۔
رانی پنکھی نے ان دونوں کو بغور دیکھا اور پھر مسرت بھرے لہجے میں بولی ۔۔
" یہ ایک سے دو نہیں بلکہ دو سے ایک ہوئے ہیں۔"
ھائے اماں ۔۔ ذرا غور سے دیکھ ۔ تیری آنکھوں نے کام کرنا چھوڑ دیا کیا۔ مجھے تو یہ دو نظر آ رہی ہیں، بالکل ایک جیسی ۔۔
بےوقوف لڑکی ۔ یہ بات میں نے غور سے دیکھنے کے بعد ہی کہی ھے کہ یہ دو سے ایک ہوئے ہیں۔ اری ان میں سے ایک بلا ہے۔ اب مجھے کچھ پتا کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو کام مجھے کرنا تھا، وہ انجو کر کے آ گئی ۔۔ وہ آ گیا ہے اور یہیں پاس پڑوس میں ھے۔ اب تیرے بھاگ جاگنے کو ہیں ۔۔
اماں ۔ جلدی بتا اس کی شکل کیسی ھے ۔۔۔ انارہ بےچین ہو کر بولی۔
ایسی بےکل نہ ہو۔ مجھے اپنا کام کرنے دے۔ بہت جلد سب کچھ تیرے سامنے آ جائے گا۔ پہلے تو اس قید سے رہائی تو پا لے ۔۔۔ رانی پنکھی مسکراتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے بلی کو اشارہ کیا۔ وہ اشارہ پاتے ہی رانی پنکھی کے نزدیک آگئی جبکہ بلا اپنی جگہ بیٹھا رہا۔
رانی پنکھی نے ایک جلتی لکڑی الاؤ سے نکال کر بلی کے چاروں طرف گھمائی اور پھر کچھ پڑھتے ہوئے لکڑی الاؤ میں رکھ دی۔ اس کے بعد اس نے چاندی کا بھاری تعویذ گلے سے اتارا اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا۔ پھر اس نے وہ تعویذ انارہ کی پیشانی پر رکھا اور اسے انگھوٹھے سے دبایا۔
تعویذ کے پیشانی پر رکھتے ہی انارہ کو یوں لگا جیسے اس کے اندر الاؤ بھڑک اُٹھا ہو۔ وہ شعلوں میں گھر گئی ہو۔ یکدم اس کے جسم کو جھٹکا لگا اور وہ بےہوش ہو کر ایک طرف لڑھک گئی۔ پھر یہی عمل اس نے بلی کے ساتھ دہرایا۔ وہ چیخ مار کر یکدم فرش پر لیٹ گئی۔ تب بلے نے خوفزدہ ہو کر باورچی خانے کی چھت پر چھلانگ لگائی اور دروازے کی دیوار پر دوڑتا ہوا گلی میں کود گیا۔
رانی پنکھی نے اسے جاتے ہوئے دیکھا لیکن اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر اس نے چاندی کا بھاری تعویذ گلے میں ڈالا ۔ اپنے لہنگے میں ٹنگی سوئی نکال کر اپنی انگلی پر ماری۔ خون کے تین قطرے جلتے الاؤ پر ٹپکائے ۔ خون کے قطرے آگ پر گرتے ہی وہ یوں بجھ گئی جیسے اس پر سو لیٹر پانی ڈال دیا گیا ہو۔ الاو بجھا کر وہ انارہ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
انارہ آنکھیں بند کیے، اینٹوں کے فرش پر بےسدھ لیٹی ہوئی تھی۔ وہ اس وقت بلا کی حسین لگ رہی تھی۔ رانی پنکھی ایک ٹک اسے دیکھتی رہی اور اپنی گم شدہ جوانی اس میں ڈھونڈتی رہی۔ پھر اس نے صحن میں لگے نلکے سے اپنے چلو میں پانی لیا اور اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اس کی دونوں آنکھوں پر ڈال دیا۔
پانی پڑتے ہی انارہ کی آنکھوں میں جنبش ہوئی اور پھر اس نے پٹ سے دونوں آنکھیں کھول دیں۔ اس نے نظریں گھما کر اندازہ کیا کہ وہ کہاں ہے۔ رانی پنکھی پر اس کی نظر پڑتے ہی وہ اٹھ کر بیٹھ گٸی ۔ اسے اپنا جسم بہت ہلکا پھلکا لگا۔ پھر وہ شاداں و فرحاں اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
کالے منہ کی سفید بلی کی آنکھوں پر جیسے ہی پانی پڑا۔ وہ فورا ہی اچھل کر بیٹھ گٸی۔ رانی پنکھی نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اسے پیار کر کے انارہ کی طرف بڑھا دیا۔ انارہ نے اسے دونوں ہاتھوں میں اُٹھا کر پیار کیا۔ پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی ۔۔ کہاں ہے وہ ؟ ۔۔
یہ سن کر کالے منہ کی بلی اس کے ہاتھوں میں کسمسائی اور پھر پھسل کر فرش پر کودی۔ وہاں سے اس نے باورچی خانے کی چھت پر چھلانگ لگائی اور دروازے کی دیوار پر دوڑتی ہوئی گلی میں کود گئی۔
بلی کے جانے کے بعد رانی پنکھی، انارہ کی طرف بڑھی اور اسے گلے لگا کر بہت دیر تک کھڑی روتی رہی۔
عابر کو وہ خواب صبح صادق میں نظر آیا تھا۔
ایک مرتبہ پھر اس نے اپنے دادا نثار ایوب کو دیکھا تھا۔ یہ خواب بہت صاف اور واضح تھا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے دادا ابھی اس کے سرہانے سے اُٹھ کر گئے ہوں۔ اسے دادا کی کہی ہوئی ایک ایک بات اچھی طرح یاد تھی۔ دادا نے اسے جو کچھ بتایا، وہ عابر کو حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ دادا کی اسرار کھولتی باتیں، آنکھیں کھولتی ہدایتیں اور گرہیں کھولتے انکشافات ۔
اس خواب نے اس پر سکتہ طاری کر دیا تھا۔ اسے نہیں اندازہ تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ وقار کے دفتر جانے کے بعد جب وہ دروازہ بند کر کے پلٹا تو اس نے کچن کے دروازے پر دو ہم شکل بلیوں کو دیکھا۔ عابر کو یہ اندازہ کرتے دیر نہ لگی کہ ان میں ایک بلا تھا، و
قار نے جو دیکھا تھا ، اب وہ خود اس کے سامنے تھا۔ کسی قسم کی تردید یا شبہے کی گنجائش نہ رہی تھی۔
وہ ان دونوں کو بغور دیکھتا کمرے میں داخل ہو گیا۔ ان دونوں کی شکل وصورت میں کوئی فرق نہ تھا، سوائے جسامت کے، بلے کے مقابلے میں بلی اسمارٹ تھی۔
عابر کے بیڈ پر بیٹھتے ہیں وہ دونوں ہم شکل بلیاں بھی کمرے میں آگئیں اور بےتکلفی سے بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئیں۔ بلا ذرا فاصلے پر تھا لیکن بلی اس کے خاصا نزدیک تھی اور منہ اُٹھا کر اس کی طرف بڑے عجیب انداز میں دیکھ رہی تھی۔ عابر نے جونہی اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو بلی نے فورا بیڈ سے چھلانگ لگائی اور کمرے سے نکل گئی۔ بلی کو جاتے دیکھ کر بلے کے جسم میں بھی حرکت ہوئی اور وہ بھی بیڈ سے کود کر فرش پر آیا اور تیزی سے دوڑتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
عابر جب اُٹھ کر باہر آیا تو وہ دونوں گھر سے غائب ہو چکے تھے۔ عابر نے انہیں گھر میں ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ اسے پکا یقین تھا کہ وہ دونوں اب گھر میں نہیں ہیں۔
شام کو وقار دفتر سے آیا تو عابر نے ان دونوں کی آمد کی اطلاع بہم پہنچائی۔ وقار نے ان کی شکل وصورت کی تصدیق کی۔ پھر ہنس کر بولا ۔۔ تو نے یار ٹھیک کہا تھا کہ تیرا ہلا بڑا تیز نکلا۔ ایک ہفتے میں ایک زبردست حسینہ پھنسا لایا۔ ویسے یہ کیس کچھ سمجھ میں نہیں آیا ۔۔
اور ابھی میں تجھے جو بتانے والا ہوں، وہ سن کر تیری آنکھیں ضرور پھٹ جائیں گی ۔۔۔ عابر نے اس کی طرف مسکراتے ہوئے کہا۔۔ پھر تو کہے گا یار تیرا کیس بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔۔
مجھے لگتا ہے جیسے میری عقل گم ہونے کو ہے ۔۔۔ وقار اپنا سر پکڑ کر بولا ۔
سفید بلی اور بلا ایک ساتھ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ انارہ اور رانی پنکھی چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ وہ دونوں رانی پنکھی کے پیروں میں آکر بیٹھ گئے۔
انجو۔ کیا تجھے کچھ محسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کی طرف دیکھا۔
نہیں اماں ۔۔۔ انارہ فورا بولی۔
درو ازہ تو پورا کھلا ہے نا ۔۔۔ رانی پنکھی نے پوچھا۔
ہاں اماں۔ دروازہ پورا کھلا ہے۔ میں خود کھول کر آئی ہوں ۔۔
بس پھر وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے کہا۔
ہائے اماں ۔۔ میرا دل بڑے زور زور سے دھڑک رہا ہے ۔۔
اتنے میں کھلے دروازے کے ایک کواڑ کو کسی نے آہستہ سے بجایا۔
لے وہ آ گیا ۔۔۔ رانی پنکھی کی خوشی دیدنی تھی۔ پھر وہ اُٹھتے ہوئے بولی ۔۔ انجو، تو بیٹھ میں اسے لاتی ہوں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی۔
عابر کھلے دروازے کے درمیان کھڑا رانی پنکھی کو اپنی طرف آتے دیکھ رہا تھا۔ اس نے سفید قمیض اور کالی پینٹ پہنی ہوئی تھی۔ جیسے ہی رانی پنکھی کی نظر عابر پر پڑی ، ایک لمحے کو اسے اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے فورا اپنا شاہ زیب یاد آ گیا۔ نوجوانی میں وہ بالکل ایسا ہی رہا ہو گا۔
تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
میرا نام عابر ہے۔ میں آیا نہیں بھیجا گیا ہوں ۔۔۔ عابر نے اسی انداز میں جواب دیا۔
چارپائی پربیٹھی انارہ نے اس کی دلکش آواز سنی تو بےکل ہو اٹھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ فورا اٹھ کر اس کو دیکھ لے لیکن وہ اٹھ نہ سکی۔
کس نے بھیجا ہے اور کیوں ؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے اسے اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
مجھے میرے دادا نے بھیجا ھے۔ میں اپنی امانت لینے آیا ہوں ۔۔۔ عابر نے صحن میں قدم رکھتے ہوئے کہا ۔۔ معاف کیجئے گا۔ آپ کون ہیں ؟ ۔۔
میں ۔۔۔ رانی پنکھی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا۔۔ میں تمہاری امانت کی اماں ہوں ۔۔
پھر میرا آپ کو سلام ۔ اس کا مطلب ہے کہ میں صحیح جگہ پہنچا ہوں ۔۔۔ عابر آہستہ آہستہ رانی پنکھی کے ساتھ قدم اُٹھا رہا تھا اور ساتھ ہی وہ اس خزاں رسیدہ گھر کا جائزہ بھی لیتا جا رہا تھا۔
ہاں تم ٹھیک جگہ پہنچے ہو۔ مجھے تمہارا بےچینی سے انتظار تھا ۔۔۔ رانی پنکھی نے یہ کہہ کر اسے رکنے کا اشارہ کیا اور آواز لگائی ۔۔ انجو آؤ ۔۔
انجو تیزی سے اٹھی۔ وہ اس وقت کالے بلاؤوز اور سفید ساڑھی میں تھی۔ اس نے ساڑھی کا پلو سر پر رکھا اور نظریں جھکائے رانی پنکھی کے پیچھے آ کر کھڑی ہوگئی ۔۔ ” جی اماں “
اری ۔۔ میرے پیچھے کیوں چھپتی ہے ۔۔ سامنے آ ۔۔۔ رانی پنکھی نے انارہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے کیا اور بولی ۔۔
"اے لڑکے ۔۔ یہ ہے تمہاری امانت ۔۔ اسے اچھی طرح دیکھ لو ، پہچان لو ۔“
عابر کی جب انارہ پر نظر پڑی تو اسے یوں لگا جیسے سیاہ بادلوں میں کوئی بجلی سی کوندی ہو۔ ایسا سانولا سلونا قیامت خیز حسن اس نے پہلے بھلا کہاں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں۔ ایسی چکا چوند ہوئیں کہ ایک لمحے کو اس کی آنکھوں سے سب اوجھل ہو گیا۔ اندھیرا سا چھا گیا۔
رانی پنکھی نے انارہ کا ہاتھ دبایا اور کان میں سرگوشی کی ۔۔
میری انجو آنکھیں کھول ۔۔
انجو نے آنکھیں کھولیں تو اس کا سانس اوپر کا اوپر ور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ پلکیں جھپکانا بھول گئی۔ اس نے اپنی اس زندگی میں کوئی مرد کہاں دیکھا تھا۔ اس کی زندگی تو رانی پنکھی کا بوڑھا چہرہ دیکھتے گزری تھی۔ اب جو پہلا مرد دیکھا اور وہ بھی شاہکار تو اس کے دل پر جو گزری ٹھیک گزری۔
بولو ۔۔ کیا تم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ۔۔۔ رانی پنکھی نے سوال کیا۔
میں نے تو دیکھ لیا ۔۔۔ عابر ہنس کر بولا ۔
ہاں اماں ۔۔ میں نے بھی ۔۔۔ انارہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔
کیا تم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا؟ ۔۔۔ رانی پنکھی نے پھر سوال کیا۔
ہاں بہت اچھی۔ بہت پیاری ۔۔۔ عابر کے ہونٹوں پر شوخ مسکراہٹ تھی۔
ہاں اماں ۔۔۔ انارہ نے مختصر سا جواب دیا۔
آگے آؤ بیٹا ۔۔۔ رانی پنکھی نے عابر سے کہا۔
عابر دو قدم آگے آیا تو رانی پنکھی نے انارہ کا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔ تمہاری امانت میں نے تمہیں سونپی۔ اب اس پر میرا کوئی حق نہ رہا۔ آگے تمہاری مرضی۔ ابھی اپنے ساتھ لے جاؤ یا دو دن کے بعد ۔ یہ تمہاری ہوئی۔ اسے قبول کرو ۔۔
عابر نے بلاجھجک اس کا ریشم جیسا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لے لیا اور پُر اعتماد لہجے میں بولا ۔۔
میں نے قبول کیا ۔۔
اس کا سدا خیال رکھنا ۔۔۔ رانی پنکھی نے بھیگی آنکھوں سے کہا۔
میں انہیں اپنے دل سے لگا کر رکھوں گا ۔۔۔ عابر نے وعدہ کیا۔
میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ اپنی انجو کو پوری شان سے رخصت کروں۔ پر میری کچھ ذاتی مجبوریاں ہیں۔ شدید خواہش کے باوجود میں اسے باقاعدہ رخصت نہیں کر سکتی ۔۔۔ رانی پنکھی نے گلوگیر آواز میں کہا۔
آپ رنجیدہ نہ ہوں۔ میں کراچی جا کر بڑے پیمانے پر شادی کا جشن مناؤں گا ۔۔۔ عابر نے تسلی دی۔
ایشور تم دونوں کو خوش رکھے ۔۔۔ رانی پنکھی نے دونوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹتے ہوئے کہا۔
پھر عابر نے انارہ کے ساتھ رانی پنکھی کی کئی تصویریں اپنے موبائل فون سے اُتاریں۔ اس کے بعد اس نے رانی پنکھی سے کہا ۔۔ یوں تو اس وقت بھی میں انہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں ۔ لیکن دو دن مجھے مل جائیں تو میں انہیں یہاں سے سیدھا ایئرپورٹ لے جاؤں گا ۔۔
یہ تو بہت اچھا ہو گا ۔ اس طرح دو دن اور انجو میرے ساتھ رہ لے گی ۔۔۔ رانی پنکھی خوش ہوتے ہوئے بولی ۔
کراچی ایئر پورٹ سے جب عابر باہر آیا تو اس نے اپنی پوری فیلی کو اپنا منتظر پایا۔ صائمہ کے ساتھ اس کا شوہر اسلم اور بچے بھی موجود تھے۔ علی نثار اور نازنین غیر متوقع طور پر خوش تھے۔
عابر نے لاہور سے چلنے سے پہلے اپنی ماں کو ہر وہ بات بتا دی تھی جس کا بتایا جانا ضروری تھا۔ دادا کا نام سن کر ہر آدمی ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ اگر عابر اپنے طور پر انارہ کو اس طرح لے آتا تو یقینا اس پر گھر کا دروازہ بند ہوجاتا اور دروازہ بند کرنے والے پہلے شخص علی نثار ہوتے ۔ اب کیونکہ درمیان میں ان کے والد محترم آ گئے تھے لہذا نفرت دل میں نہ رہی تھی ، لیکن تجسس شدت اختیار کر گیا تھا۔ آخر ایسا اس لڑکی میں کیا تھا کہ نثار ایوب نے بہو بنانے کا عندیہ دے دیا تھا۔
سب سے پہلے اس پر صائمہ کی نظر پڑی۔ سفید ساڑھی کے اوپر انارہ نے کالی چادر لپیٹ رکھی تھی اور پیشانی پر پلو کھینچ لیا تھا جس سے اس کا چہرہ بڑی حد تک چھپ گیا تھا۔
امی ۔۔ یہ عابر کیا چیز اٹھا لایا ۔۔۔ صائمہ نے اسے سفید ساڑھی میں دیکھ کر ماں کے کان میں سرگوشی کی۔
صائمہ ۔۔ یہ مت بھولو کہ یہ تمہارے دادا کا انتخاب ہے ۔۔۔ نازنین نے ہلکی سی سرزنش کی۔
عابر، انارہ کو لے کر نازنین کے نزدیک آیا اور انارہ کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔۔ امی ، یہ آپ کی امانت ۔۔
آ جا میری بچی ۔۔۔ نازنین نے فورا انارہ کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
عابر پھر اپنے باپ علی نثار کی طرف بڑھا۔ سلام کر کے ان کے سامنے جھک گیا۔ علی نثار نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ صائمہ اس سے بےاختیار لپٹ گئی۔ اسلم نے اسے گلے لگایا۔ عابر نے صائمہ کے بچوں کو پیار کیا اور پھر یہ چھوٹا سا قافلہ اپنی منزل کی جانب بڑھا۔
صائمہ اور نازنین نے دن رات ایک کر کے چھ سات دن میں شادی کی تیاریاں مکمل کر لیں ۔ سب کی خواہش تھی کہ شادی خوب دھوم دھام سے ہو لیکن مسئلہ یہ تھا کہ خاندان کے لوگوں کو لڑکی کے بارے میں کیا بتایا جاتا۔ لڑکی کا تو آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ لوگ یہی سمجھتے کہ عابر، انارہ کو لاہور سے بھگا لایا ہے۔ کس سے کیا کہتے جبکہ انارہ کا گھریلو پس منتظر انتہائی پیچیدہ اور ناقابل یقین تھا۔ تب یہی سوچا گیا کہ شادی کی تقریب شادی ہال میں کرنے کے بجائے محدود پیمانے پر گھر پر ہی کر لی جائے۔ مار پیچھے پکار ہے۔
صائمہ پہلے دن ہی انارہ کو اپنے گھر لے گئی تھی اور عابر پر ملاقات کی پابندی لگا دی گئی تھی۔ انارہ بہت خوش تھی۔ البتہ رات کو وہ تنہا ہوتی تو بےاختیار رانی پنکھی یاد آ جاتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اس کے آس پاس ہی ہے۔ رخصت ہوتے وقت رانی پنکھی نے چاندی کا بھاری تعویذ اتار کر اس کے حوالے کر دیا تھا۔
رانی پنکھی نے کہا تھا ۔۔ انجو ۔۔ یہ تعویذ اپنے ساتھ لے جا۔ اسے سمندر میں پھینک دینا۔ یہ فساد کی جڑ ہے۔ اگر یہ میرے کسی چیلے کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اس کی شکتی کو برداشت نہیں کر سکے گا۔ وہ پاگل ہو جائے گا۔ طاقت کا استعمال بھی وہی شخص کر سکتا ہے جو خود طاقتور ہو۔ پی کر سب بہک جاتے ہیں۔ اصل وہ جو پی کر نہ بہکے۔ میرے شاگردوں میں ایک بھی اسے سنبھالنے والا نہیں۔ اس کا سمندر برد ہو جانا ہی اچھا ہے ۔۔
وہ تعویذ ابھی تک سمندر کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ عابر چاہتا تھا کہ شادی ہو جائے ۔ پھر وہ انارہ کو سمندر پر لے جائے گا اور اس تعویذ کو رانی پنکھی کی ہدایت کے مطابق سمندر برد کر دے گا۔ عابر نے اس تعویذ کو محفوظ کر کے اپنے کمرے میں رکھ لیا تھا۔
انارہ اور عابر کو آئے ہوئے ابھی ایک رات ہی گزری تھی کہ نثار ایوب، عابر کے خواب میں آئے ۔ انہوں نے عابر سختی سے ڈانٹ کر کہا ۔۔ یہ کیا نحوست تم نے اپنے کمرے میں رکھ چھوڑی ہے، اسے فورا سمندر برد کرو ۔۔
تب عابر صبح اٹھتے ہی صائمہ کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے وہاں سے انارہ کو لیا اور ہاکس بے پہنچا۔ صائمہ بھی ضد کر کے ان کے ساتھ آ گئی تھی۔ انارہ نے سمندر پہلی بار دیکھا تھا۔ سمندر کی وسعت اور اٹھتی ہوئی لہروں کے شور نے اسے گم سم سا کر دیا- ابھی وہ کنارے پر ہی تھے کہ سمندر کی ایک چھوٹی سی لہر نے انارہ کے حسین پاؤں چھوئے تو وہ بےاختیار عابر سے لپٹ گئی۔
صائمہ نے ہنستے ہوئے تنبیہہ کی ۔۔
"نا بھٸی نا ۔۔ ادھر سنسر موجود ہے۔ ذرا اس کا خیال رکھیں۔"
انارہ جس بےاختیار انداز میں عابر کے قریب ہوئی تھی، اس سے کہیں زیادہ تیزی سے وہ اس سے الگ ہوئی۔ اس کے سانولے سلونے چہرے پر شرم کی گھٹا چھا گئی تھی۔ تب عابر نے اپنی پینٹ کی جیب سے نکال کر چاندی کے اس تعویذ کو ایک نظر دیکھا۔ وہ خاصا بھاری تھا۔ پتا نہیں یہ وزن چاندی کا تھا یا اس کے اندر کوئی بھاری چیز موجود تھی۔
رانی پنکھی نے ہدایت دی تھی کہ اسے پوری طاقت سے سمندر میں پھینکا جائے۔ یہ سمندر میں جتنا دور جا کر گرے، اچھا ہے۔ سمندر کے حوالے کرنے کے بعد وہاں ٹھہرنا نہیں۔
عابر اسے مٹھی میں دبا کر سمندر کی طرف آگے بڑھا تو صائمہ نے پیچھے سے آواز لگائی ۔۔ عابر آگے جانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہیں سے پھینک دو ۔۔
آپی ۔۔ تھوڑا سا آگے جا کر پھینک دیتا ہوں۔ پریشان مت ہوں ۔۔۔ عابر نے کہا۔
ابھی وہ تھوڑا سا ہی آگے گیا تھا کہ اسے اپنی مٹھی گرم ہونے کا احساس ہوا۔ وہ تعویذ ٹھنڈا محسوس ہونے کے بجائے آہستہ آہستہ گرم ہوتا جا رہا تھا۔ عابر کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں تعویذ اچانک اتنا گرم نہ ہو جائے کہ اسے ہاتھ سے چھوڑنا پڑے۔ تب وہ دو قدم پیچھے ہٹا اور پھر پوری طاقت سے دو قدم آگے بڑھ کر کرکٹ کی بال کی طرح سمندر میں پھینک دیا اور اس پر نظریں جما دیں۔ چند سیکنڈ تک وہ فضا میں جاتا دکھائی دیا۔ پھر اچانک غائب ہو گیا۔ عابر دیکھتا رہا کہ وہ اب سمندر میں گرے ، تب گرے لیکن وہ تعویذ اسے پانی میں گرتا دکھائی نہ دیا۔ اس بات کی تاٸید صائمہ اور انارہ نے بھی کی۔ ان دونوں نے بھی تعویذ کو سمندر میں گرتے نہ دیکھا تھا۔
پھر وہ تینوں رانی پنکھی کی ہدایت کے مطابق سمندر پرنہ رکے فورا وہاں سے چلے آئے ۔۔۔
ساتویں دن شادی تھی ۔
صائمہ، انارہ کو بیوٹی پارلر سے تیار کروا کر گھر لے آئی تھی۔ گھر میں ہی نکاح کا انتظام کیا گیا تھا۔ علی نثار اور عابر نکاح خواں کا انتظار کر رہے تھے۔
نکاح خواں تھا کہ آئے نہیں دے رہا تھا۔ دادا نے کہا تھا کہ اس لڑکی کا نکاح بابا کاشف پڑھائیں گے اور انہی کے ہاتھوں یہ مسلمان ہو گی۔ یہ بابا کاشف کون تھے؟ کہاں سے آئیں گے؟ کب آئیں گے ؟ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔
لیکن عابر کو پکا یقین تھا کہ اگر دادا نے کہا ہے تو پھر بابا کاشف ضرور آئیں گے۔ اگرچہ دادا کی ہدایت مبہم تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ بابا کاشف کو نکاح کا دن ، وقت اور گھر کا پتا کیسے معلوم ہو گا۔ عابر سوچتا تھا کہ اسے انارہ کے بارے میں بھی تو کچھ پتا نہ تھا۔ دادا کی نشاندہی پر ہی وہ رانی پنکھی کے گھر گیا تھا اور وہاں سب کچھ اتنی آسانی سے ہو گیا تھا کہ وہ حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ اسے وہاں جا کر احساس ہوا تھا کہ رانی پنکھی جانے کب سے اس کی منتظر تھی ۔ ہو سکتا ہے جس طرح دادا نے اسے انارہ کی ایک جھلک دکھا دی تھی ، رانی پنکھی کو بھی انہوں نے اس کی شکل دکھا دی ہو۔
بہرحال جو بھی ہوا ہو، عابر کو انارہ کے حصول میں کوئی وقت پیش نہیں آئی تھی۔
اس وقت عابر دولہا بنا اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ علی نثار بےچینی سے ٹہل رہے تھے۔ وہ عابر سے کئی بار تصدیق کر چکے تھے کہ آخر نثار ایوب کے اصل الفاظ کیا تھے۔ اور عابر کئی بار انہیں بتا چکا تھا کہ دادا نے کن لفظوں میں بابا کاشف کا ذکر کیا تھا۔
انتظار جب حد سے بڑھا اور بابا کا شف کی آمد نہ ہوئی تو انہوں نے گھر کے لوگوں سے مشورہ کیا کہ کیوں نہ باہر سے کسی نکاح خواں کو لا کر نکاح پڑھوا دیا جائے۔ جب پورا گھر اس بات پر متفق ہو گیا اور صائمہ کا شوہر اسلم نکاح خواں کو لانے چل دیا تو اچانک کھلے دروازے سے بابا دنیا داخل ہوئے اور پھر وہ بغیر کہیں رکے ڈرائنگ روم میں آ گئے۔
انہوں نے بلند آواز میں سلام کیا ۔۔۔
عابر کی جب ان پر نظر پڑی تو وہ حیران رہ گیا ۔۔
" بابا۔ آپ ۔۔۔“
تو نے ایک دن ہم سے ہمارا نام پوچھا تھا، ہم نے نہیں بتایا تھا۔ ہم سے گھر چلنے کی فرمائش کی تھی، ہم نہیں آئے تھے ۔ آج تیری یہ دونوں خواہشیں پوری ہو گئیں ۔ بےچین کیوں ہوتا ہے، ہم اپنا نام بھی بتائے دیتے ہیں۔ ہمارا نام کاشف ہے ۔۔
بابا کاشف ۔۔۔ عابر یکدم خوشی سے چیخا۔
بابا کاشف کی آمد کے ساتھ ہی انتظار کی کوفت میں مبتلا گھرانہ خوشی میں سرشار ہو گیا۔ ہر شخص کا چہرہ مسرت سے کھل اُٹھا۔ یہاں تک کہ انارہ کا چہرہ بھی جگمگانے لگا۔ بس پھر آنا فانا نکاح کی تقریب کا آغاز ہوا۔ بابا کاشف نے انارہ کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ اس کا اسلامی نام دادا کی ہدایت کے مطابق انجم آرا رکھا گیا۔
پھر بابا کاشف نے انجم آرا عرف انجو کو عابر نثار کے عقد میں دے دیا۔ نکاح کے بعد علی نار نے ایک خوبصورت پلیٹ میں بہت ادب سے بابا کاشف کو چھوہارے پیش کیے۔ اُنہوں نے ایک چھوہارا اٹھایا۔ تھوڑا سا کھایا اور پھر اس چھوہارے کو عابر کو کھلاتے ہوئے بولے ۔۔
” ہم نا کہتے تھے کہ دنیا تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔ بالآخر دنیا نے تجھے ڈھونڈ ہی لیا۔ انجم آرا تیری دنیا ہے، اس کا خیال رکھنا ۔ اب ہم چلتے ہیں ۔۔"
ہاہا آپ کا بہت شکریہ ۔۔۔ عابر کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
بابا۔ آپ کا بڑا کرم ۔ آپ کی بڑی عنایت ۔۔۔ علی نثار نے ممنون لہجے میں کہا۔
بابا۔ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ یہ کیا دھرا مجاہد کا ہے، پروفیسر مجاہد کا۔ ہم تو اس کے حکم پر چلے آئے ۔ ورنہ ہم کہاں اور نکاح خوانی کہاں ۔۔۔ اتنا کہا اور یہ جا وہ جا ۔
بابا کا شف جس طرح اچانک آئے تھے، اسی تیزی سے واپس چلے گئے۔
آج مرن برت کا اکیسواں دن تھا ۔۔۔۔
انجو کے رخصت ہوتے ہی رانی پنکھی نے مرن برت رکھ لیا تھا۔ اکیس دن سے اس نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔ ایسا اس نے بگا کی ہدایت کے مطابق کیا تھا۔ زندگی کا خاتمہ تو کوئی مشکل کام نہ تھا لیکن آتم ہتھیا یا خودکشی سے بگا کو کچھ حاصل نہ ہوتا۔ بگا تک پہنچنے اور اس کی رانی بنے کے لیے مرن برت رکھنا ضروری تھا۔ ایسا روزہ جس میں کچھ کھائے پیئے بغیر موت سے ہمکنار ہوا جائے۔
یہ مرن برت رانی پنکھی نے انجو کی زندگی بچانے کے لیے رکھا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کی قربانی دے کر انجو کو بلی دینے سے بچا لیا تھا۔ زندگی دینا شاید اتنا مشکل نہ ہوتا لیکن اس موت کے پیچھے جس اذیت سے دوچار ہوتا تھا۔ اسے قبول کر کے رانی پنکھی نے واقعی انجو سے اپنی محبت کا ثبوت دیا تھا۔
عذرا ڈیوڈ جسے رانی پنکھی سریلی کہتی تھی ، برت کے پہلے دن سے ہی رانی پنکھی کے پاس موجود تھی۔ شروع کے چند دنوں تو رانی پنکھی چلتی پھرتی رہی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے چارپائی پکڑنا شروع کی تھی۔ جب تک اس کے جسم میں جان رہی ، وہ اٹھتی بیٹھتی رہی۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ اُٹھنے بیٹھنے سے معذور ہوگئی۔ اب اس کی پیٹھ مستقل چارپائی سے لگ گئی تھی لیکن اس کا دماغ کام کر رہا تھا۔ اس نے آخری دنوں میں بولنا کچھ کم کر دیا تھا۔ لیکن جب بھی بولتی تھی ، ماضی کا کوئی ورق کھولتی تھی۔
عذرا اس کا دل بہلانے کے لیے اسے گانے سناتی رہتی تھی۔ رانی پنکھی کو اس کی آواز بہت پسند تھی۔ آواز ہی نہیں، وہ ذاتی طور پر بھی اس کو پسند کرتی تھی۔ اسی لیے اس نے ڈھائی تین سو چیلے چانٹوں ، شاگردوں میں سے اپنے آخری دنوں کے لیے عذرا کا انتخاب کیا تھا۔
ان اکیس دنوں میں رانی پنکھی نے اپنا پورا ماضی کھول کر رکھ دیا تھا۔ عذرا نے محسوس کیا تھا کہ وہ شاہ زیب کو ذرہ بھر بھی نہیں بھولی تھی۔ یہ وہ شخص تھا جو قمر پروین کے عشق میں فنا ہو چکا تھا اور اس نے رانی پنکھی کو کبھی دھوکے میں نہ رکھا تھا۔ لیکن برا ہو اس محبت کا جس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ کوئی کہیں بھی کسی پر عاشق ہو سکتا ہے۔ سو رانی پنکھی اس پر مر مٹی تھی اور ایسی مٹی تھی کہ اب مٹی ہونے کو آئی تھی لیکن اس کی سانسوں میں اب بھی وہ بسا تھا۔ زبان پر اس کا نام تھا، آنکھوں میں اس کی تصویر تھی اور ہمہ وقت وہ اس کی راہ تکتی تھی۔
رانی پنکھی کو جب عذرا ایک نا معلوم کرب میں مبتلا دیکھتی تو بےاختیار اس کا جی چاہتا کہ وہ کہیں سے شاہ زیب کو پکڑ لائے اور رانی پنکھی کے سامنے لاکھڑا کرے۔ لیکن وہ ہےبس تھی۔ بس اپنا دل مسوس کر رہ جاتی ۔
ایک دن اس نے عذرا کا ہاتھ تھام کر عجب بات کی ۔ ایسی بات جس کی عذرا کو اُمید نہ تھی۔ اس نے کہا ۔۔
دیکھ عذرا جو زندگی میں نے گزاری، اس کی حیثیت کھیل تماشے سے زیادہ نہیں۔ آج پچھتاوے کے ناگ مجھے ڈستے ہیں لیکن اب میں اتنی آگے جا چکی ہوں کہ واپسی ممکن نہیں، تو ابھی جوان ہے۔ میری مان ، واپس پلٹ جا۔ کل کے پچھتاوے سے آج کا سنبھلنا اچھا۔ اپنے گاڈ کی انگلی تھام لے۔ اس کالی دنیا میں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔ اتنا کہہ کر رانی پنکھی نے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔
بہت دیر تک اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے تھے۔ شاید یہ پچھتاوے کے آنسو تھے۔
اسی لیے عذرا ڈیوڈ نے سوچ لیا تھا کہ وہ کالی دنیا کو چھوڑ دے گی۔ شیطان پرستی سے توبہ کر لے گی اور اپنے آل مائٹی گاڈ کی انگلی تھام لے گی۔
مرن برت کے اکیسویں دن رانی پنکھی نے وصیت کی ۔۔
سن عذرا ، میری سریلی، میری بات غور سے سن۔ میں جہاں اس وقت لیٹی ہوں ، یہیں گڑھا کھود کر مجھے دبا دینا۔ میں جلنا نہیں چاہتی۔ میرا تاج اور میرا لباس ، میرے ساتھ جائے گا ۔۔
ٹھیک ہے رانی ماں ۔۔۔ جیسا تم نے کہا، ویسا کروں گی ۔۔۔ عذرا نے یقین دلایا۔ وصیت کرنے کے بعد جیسے ہی اندھیرا گہرا ہوا ، رانی پنکھی کی لرزتی آواز ابھری ۔۔
عذرا دیکھ وہ آگیا ۔۔ میرا شاہ زیب آ گیا ۔۔
عذرا نے اس کی آنکھوں میں یکایک دیپ جلتے دیکھے۔ محبت کے دیں۔ چند لمحوں بعد اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ وہ چلی گئی جس نے اپنی زندگی مٹا کر انجم آرا عرف انجو کو نئی زندگی عطا کی تھی۔
کافی عرصے کے بعد جب عابر اور انجو، رانی پنکھی کے مسکن پر پہنچے تو انہیں ایک دھچکا سا لگا۔ گھر کا لکڑی کا دروازہ مع چوکھٹ غائب تھا۔ دروازے کی اینٹیں نکلی ہوئی تھیں۔ باورچی خانے کی چھت بیٹھ چکی تھی۔ صحن میں جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ نیم کا درخت موجود تھا اور اس پر بےشمار کوے بیٹھے ہوئے تھے۔ قبرستان والی دیوار کا ایک حصہ گر چکا تھا۔
ٹوٹی ہوئی دیوار کی اینٹیں رانی پنکھی کی قبر پر پڑی تھیں۔ گھر میں بے شمار کتے ، بلیاں لوٹ رہے تھے۔ انہی بلیوں میں کالے منہ کی سفید بلی اور بلا بھی شامل تھے جو عابر اور انجو کو دیکھ کر ان کے پاس آگئے اور میاؤں میاؤں کر کے ان کے پیروں سے لپٹنے لگے۔
جس رات رانی پنکھی کا انتقال ہوا، وہ اماوس کی رات تھی۔ ہر اماوس کی رات کو اس کے گھر میں چیلوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ آدھی رات کے بعد حسب معمول سب اکٹھا ہو گئے تو انہیں پتا چلا کہ کالی دنیا کی رانی چل بسی ہے۔ عذرا ڈیوڈ نے رانی پنکھی کی وصیت کے مطابق اس کی چار پائی والی جگہ پر گڑھا کھدوا کر مع تاج اسے گڑھے میں دفنا دیا۔
رانی پنکھی کو دفنانے کے بعد اس گھر سے خالی ہاتھ نکلنے والی پہلی عورت عذرا ڈیوڈ تھی۔
عذرا ڈیوڈ کے جانے کے بعد وہاں موجود لوگوں میں ہلچل سی مچ گئی۔ بس پھر جس کے جو ہاتھ لگا، وہ اپنے ساتھ لے گیا۔ یہاں تک کہ اس گھر میں چارپائی تک نہ رہی۔ جب قبرستان کی دیوار کے زیر سایہ بیٹھنے والے ہیرونچیوں، چرسیوں اور جواریوں کو بڑھیا کے چل بسنے کا علم ہوا تو انہوں نے تھوڑی سی دیوار توڑ کر گھر کے اندر راستہ بنا لیا۔
اس طرح رانی پنکھی کا مسکن ان بدقماشوں کی آماجگاہ بن گیا۔
ادھر گورکن بھی تاک میں تھے کہ اس لاوارث گھر کو قبرستان میں کیوں نہ شامل کر لیا جائے۔ اس کے لیے بس گھر کی دیوار گرانے کی دیر تھی۔
پہلے مرحلے کے طور پر اس گھر کے صحن میں دو چار قبریں کھود کر تیار کر لی گئی تھیں۔ آہستہ آہستہ دیوار گرانے کا عمل شروع ہوا۔ اس کے بعد پہلے سے کھدی قبروں میں مردے دفنائے جانے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ انجو تو اس گھر کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔ اندر کمروں میں کئی ہیرونچی مدہوش پڑے تھے۔ ان کے ساتھ بلیاں بھی لیٹی ہوئی تھیں، جو انجو کو دیکھتے ہی فورا اٹھ بیٹھیں اور کمرے سے نکل گئیں۔
انجو فورا کمرے سے باہر آ گئی۔ یہ وہ مسکن تھا جہاں انجو نے رانی پنکھی کے ساتھ اچھا برا وقت گزارا تھا۔ اسے اپنی قید کے دن یاد آئے ۔ رانی پنکھی کی محبتیں یاد آئیں۔ اس کی ذات پر رانی پنکھی نے کیسا احسان عظیم کیا تھا۔ وہ اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ اس کی آزادی کی خاطر رانی پنکھی نے بگا کی رانی بننے کا ناخوشگوار فیصلہ کر لیا تھا۔
رانی پنکھی نے اسے ہر بات بتا دی تھی۔ اسے یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس کے جانے کے بعد وہ مرن برت رکھے گی اور مرنے کے بعد اس گھر میں چارپائی والی جگہ پر دفن ہو گی۔
انجو نے صحن میں کھڑے ہو کر عابر کا ہاتھ تھام لیا۔ پھر اس نے چارپائی کی جگہ کا تعین کیا اور آنکھیں بند کر کے دل ہی دل میں بولی ۔۔
” اماں ، تو کہاں ہے؟"
میری انجو ۔۔ میں یہاں ہوں ۔۔۔ یکدم آواز آئی۔
انجو نے دیکھا کہ ایک بہت حسین عورت زرق برق لباس پہنے سر پر جگمگاتا تاج سجائے ایک مرصع تخت پر بیٹھی ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ وہ رانی پنکھی تھی۔ پھر آنسوؤں نے جیسے اس کے اندر آگ لگا دی۔ وہ شعلوں میں گھری نظر آئی۔
انجو نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو وہ منظر فورا غائب ہو گیا۔
کیا آپ نے اماں کو دیکھا ؟ ۔۔۔ انجو نے عابر سے پوچھا۔
نہیں ۔۔۔ عابر نے حیران ہو کر کہا ۔۔ کہاں ہیں وہ ؟
وہ رانی بن چکی ہیں۔ ایسی رانی جس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں ۔۔۔ یہ کہہ کر انجو خود بھی رو پڑی اور پھر روتے ہوئے بولی ۔۔
" آؤ۔ عابر چلیں ۔"
عابر نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا اور اس کھنڈر مسکن کے کھنڈر دروازے کی طرف بڑھا۔
تب پیچھے سے میاؤں کی آواز آئی ۔۔۔
دونوں نے بیک وقت پیچھے مڑ کر دیکھا۔
کالے منہ کی سفید بلی اور بلا دونوں پرشوق نگاہوں سے اُنہیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔
عابر نے بلی اور انجو نے بلے کو اٹھا لیا اور رانی پنکھی کے ویران مسکن سے باہر نکل آئے ۔
0 تبصرے