میری بہن زارا ایک نیک لڑکی تھی۔ صورت پر معصومیت اور پاکیزگی کا روپ تھا۔ خاندان سے رشتے آرہے تھے۔ خالہ ، تائی، پھپھو سبھی اسے بہو بنانے کی آرزومند تھیں لیکن والد صاحب چاہتے. تھے وہ تعلیم مکمل کرلے ۔
ان دنوں ہم گاؤں میں رہتے تھے جبکہ خالہ پنڈی میں تھیں، تبھی والدین نے زارا کو پڑھنے کی خاطر ان کے پاس بھجوادیا۔ چھٹیوں میں بھائی کی شادی پر وہ گجرات آئی تو محلے کے ایک لڑکے اشعر نے زارا کو شادی کی تقریب میں دیکھ لیا اور وہ اس پر فریفتہ ہو گیا۔ زارا کیلئے رشتوں کی کمی نہیں تھی۔ ہمارے یہاں ناتے غیروں میں نہیں کرتے تھے۔ خاندان میں کافی اچھے رشتے موجود تھے لیکن اشعر کی لگن سچی تھی۔ اس نے اپنے گھر والوں کو منا کر ہمارے یہاں زارا کا ہاتھ مانگنے کو بھجوایا۔ کچھ پس و پیش کے بعد والدہ راضی ہو گئیں کیونکہ اشعر اچھا لڑکا تھا، میرے بھائی کا دوست تھا اور اچھے عہدے پر تھا۔ وہ خوبصورت بھی تھا۔ اس میں کوئی کمی نہ تھی۔ امی نے والد کو کسی طرح رضامند کر لیا، یوں زارا کی شادی اشعر سے ہو گئی۔ اس بات کا اشعر کی اکلوتی بھابی روبینہ کو قلق ہوا۔
وہ دیور کی شادی اپنی بہن سبینہ سے کرانا چاہتی تھی تاکہ دونوں بہنیں ایک گھر میں ہو جائیں لیکن اس کا یہ خواب مٹی میں مل گیا جب زارا اشعر کی دلہن بن کر ان کے گھر آگئی۔ یہ چاند ، سورج کی جوڑی تھی۔ جو دیکھتا، ماشاء اللہ کہتا، سوائے روبینہ کے جس کے دل پر سانپ لوٹ رہے تھے۔ سبینہ عرصے سے اشعر کو چاہتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہی اس کی دلہن بنے گی۔ بہن کا دیور اس کے خوابوں اور خیالوں میں بس گیا تھا تا ہم یہ فیصلے تقدیر کے ہوتے ہیں کہ کون کس کا جیون ساتھی ہو گا۔ زارا خوش تھی،اشعر بہت اچھا تھا، وہ اسے پھولوں کی طرح رکھتا۔ ساس بھی پیار کرتی تھی۔
بڑی بہو رشتے داروں سے تھی، توقع پر پوری نہ اتری۔ روبینہ نے ساس کو کوئی سکھ نہ دیا، تبھی ساس نے ناخوشی میں سبینہ کار شتہ نہ لیا اور زارا کو بیاہ لے گئیں۔ رخصتی کے وقت امی نے زارا کو سمجھا دیا تھا کہ بیٹی، سسرال والوں کی عزت اور خدمت میں کوتاہی نہ کرنا خاص طور پر ساس کا خیال رکھنا اور ان کو ماں جیسا سمجھنا۔ کسی کو شکایت کا موقع نہ دینا۔ میری بہن نیک نیت تھی۔ سسرال والوں سے حسن سلوک روارکھا اور کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا سبھی اس سے خوش تھے سوائے اکلوتی جٹھانی کے … ایک وہی نہیں اس کا سارا خاندان ہی اس رشتے سے ناخوش تھا اور سبینہ کو تو اتنا غم لگا کہ اشعر کی شادی میں بھی نہیں آئی۔ یکطرفہ عشق کی آگ میں جل رہی تھی سو بیمار ہو گئی اور اسے دورے پڑنے لگے ۔ روبینہ بہن کو دیکھنے گئی تو وہ اس کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کے روئی تب روبی نے اسے چپ کرایا۔ تسلی دی کہ خاطر جمع رکھو۔ وعدہ کیا میں زارا کو طلاق دلوا کر تم سے اشعر کی شادی کروادوں گی، اگر تم کچھ دن صبر سے کام لو۔
اس عہد کو نبھانے کی خاطر شروع دنوں میں اس نے زارا کی طرف سے اشعر کا دل برا کرنے کی سعی کی مگر وہ بہت سمجھدار تھا، بھاوج کی باتوں پر کان نہ دھرے۔ کلی طور پر بیوی کا ہو گیا۔ روبینہ کا وار خالی گیا۔ اس نے چپ سادھ لی اور اندر ہی اندر منصوبہ بندی کرنے لگی کہ کیسے زارا کے قدم اس گھر سے اکھاڑ دے۔ بہت سوچنے کے بعد بالآخر اس نے اپنے بھائی کو اس گیم میں شامل کر لیا۔ فاخر وقتا فوقتا بہن سے ملنے آیا کرتا تھا۔ یہ اس کے ماموں کا گھر تھا تبھی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ دراصل سبینہ ، اشعر کو بہت چاہتی تھی۔
اس عہد کو نبھانے کی خاطر شروع دنوں میں اس نے زارا کی طرف سے اشعر کا دل برا کرنے کی سعی کی مگر وہ بہت سمجھدار تھا، بھاوج کی باتوں پر کان نہ دھرے۔ کلی طور پر بیوی کا ہو گیا۔ روبینہ کا وار خالی گیا۔ اس نے چپ سادھ لی اور اندر ہی اندر منصوبہ بندی کرنے لگی کہ کیسے زارا کے قدم اس گھر سے اکھاڑ دے۔ بہت سوچنے کے بعد بالآخر اس نے اپنے بھائی کو اس گیم میں شامل کر لیا۔ فاخر وقتا فوقتا بہن سے ملنے آیا کرتا تھا۔ یہ اس کے ماموں کا گھر تھا تبھی کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ دراصل سبینہ ، اشعر کو بہت چاہتی تھی۔
اس کی شادی سے مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گئی۔ وہ بیمار پڑی تھی اور گھر والے اس کی حالت پر بہت دکھی ہو رہے تھے۔ ہر صورت اسے مایوسی کے اندھیروں سے نکالنا چاہتے تھے۔ ایک روز روبینہ اپنے بھائی کو گھر لے آئی اور ساس سے استدعا کی کہ میں ماجد کو مستقل ساتھ رکھنا چاہتی ہوں۔ آپ لوگ نچلی منزل پر ہوتے ہیں ، میں اوپر اکیلی ہوتی ہوں۔ اکبر ڈیوٹی پر چلے جاتے ہیں۔ جن دنوں رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے، مجھے ڈر لگتا ہے۔ اوپر کی منزل پر دو کمرے خالی پڑے ہیں، اگر آپ اجازت دیں تو میر ابھائی ہمارے ساتھ وہاں رہ لے گا۔ ساس، بہو کو ناراض کرنانہ چاہتی تھی۔ بادل ناخواستہ اجازت دے دی۔ روبینہ شوہر کو بھی اکثر کہتی تھی کہ جس ماہ آپ کی رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے ، مجھے اکیلے سونے سے ڈر لگتا ہے۔ ماجد ہمارے ساتھ رہے تو میں سکون کی نیند سو پاؤں گی۔ یوں اس نے بھائی کو ساتھ رکھ لیا۔ ماجد بھی ملازمت کرتا تھا۔ وہ صبح دفتر جاتا اور شام کو لوٹتا۔
وہ بہت کم نچلی منزل میں آتا تھا جب ضروری کام ہوتا، تبھی کسی کو بھی اس کے رہنے پر اعتراض نہ ہوا۔ پہلے روبینہ ، زارا سے لئے دیئے رہتی تھی۔ اب اس نے قربت بڑھالی۔ پیار و محبت سے پیش آنے لگی۔ جو پکواتی ، اسے بھجواتی ۔ کہتی اکیلی بور ہوتی ہوں، ضروری نہیں کہ میں ہی تمہارے پاس آؤں۔ تم بھی دن میں ایک بار میرے پاس چکر لگا لیا کرو، ذرا گپ شپ سے جی بہل جاتا ہے۔ زارا کو جٹھانی کی طرف سے محبت ملی تو وہ اس کے ساتھ گھل مل گئی۔ وہ یوں بھی بہت با مروت تھی۔ روبینہ کے ساتھ اور زیادہ عزت سے پیش آنے لگی۔ جو حکم کرتی، یہ پورا کرنے کی کوشش کرتی۔ اشعر کام پر چلے جاتے اور وہ فارغ ہوتی تو اوپر کی منزل میں روبینہ کے پاس جا بیٹھتی۔ دونوں اکٹھے چائے نوش کر تیں اور گپ شپ کر تیں۔
زارا کو خوشی تھی کہ اس کی جٹھانی نے اسے دل سے قبول کر لیا ہے جبکہ علم نہ تھا کہ اس کی چھوٹی بہن اشعر کے عشق میں مبتلا ہو گئی ہے۔ ساس کے علاوہ یہ گھر میں دو ہی خواتین تھیں۔ ایک دوسرے سے مل جل کر رہنے میں ہی سکون تھا۔ ساس بھی خوش ہوتی کہ دونوں بہوئوں میں سلوک محبت بھرا ہے۔ ان دنوں روبینہ امید سے تھی۔ چند ماہ اور جب اس نے بچے کو جنم دیا تو میکے چلی گئی۔ ایک ماہ بعد لوٹی تو اسے نوزائیدہ کو سنبھالنے میں دقت محسوس ہوتی۔ وہ اس بہانے زارا کو اپنے پاس بلا لیتی کہ بچے کی دیکھ بھال میں معاونت ہو جائے ۔ زارا بھی اسے خوش کرنے کو اپنا زیادہ وقت دینے لگی۔ ساس کا بڑھا پا تھا، زیادہ تر اپنے کمرے میں رہتی، بہوئوں کے معاملات سے الگ تھلگ تھی۔ زارا کھانے کمرے میں پہنچادیتی اور جو کام کہتیں، کر دیا کرتی۔ وہ ساس کا از خود خیال رکھتی تھی۔ دوپہر کے بعد روبینہ کے پاس جاتی جب ساس کھانا کھا کر سو جاتی۔ یہ وقت وہ بے فکری سے جٹھانی کے کمرے میں گزارتی۔
میری بہن فطرت انسان دوست تھی۔ اسے علم نہ تھا کہ سبینہ ، اشعر سے محبت کرتی ہے اور اس کے ساتھ ابھی تک شادی کی آرزو رکھتی ہے۔ کچھ دنوں سے ماجد کے ہمراہ اکثر اس کا چچازاد فاخر بھی آجاتا۔ یہ ایک خوبصورت ، دراز قد اور خوش لباس نوجوان تھا جو ماجد کے ہی دفتر میں کام کرتا تھا۔ اس لئے ماجد اسے ساتھ لے آتا کہ دونوں دو پہر کا کھانا اکٹھے کھاتے۔
میری بہن فطرت انسان دوست تھی۔ اسے علم نہ تھا کہ سبینہ ، اشعر سے محبت کرتی ہے اور اس کے ساتھ ابھی تک شادی کی آرزو رکھتی ہے۔ کچھ دنوں سے ماجد کے ہمراہ اکثر اس کا چچازاد فاخر بھی آجاتا۔ یہ ایک خوبصورت ، دراز قد اور خوش لباس نوجوان تھا جو ماجد کے ہی دفتر میں کام کرتا تھا۔ اس لئے ماجد اسے ساتھ لے آتا کہ دونوں دو پہر کا کھانا اکٹھے کھاتے۔
روبینہ ، زارا کواب جان بوجھ کر اس وقت بلانے لگی جب اس کا یہ خوبروکزن آیا ہو تا تا کہ ان کی مڈ بھیڑ ہوتی رہے مگر زارا نظریں نیچی رکھتی اور جیسے وہ ماجد کو بھائی جان کہہ کر بلاتی، ویسے ہی فاخر کو بھی بھائی کہتی تھی۔ جب یہ دونوں کمرے میں بیٹھے ہوتے جان بوجھ کر روبینہ ، زارا کو ان کے کمرے میں بھیج دیتی۔ کہتی، بہنا ان کو چائے تو بنا کر دے آؤ۔ دیکھو منا میری گود میں سو رہا ہے ، اسے لٹاؤں گی تو جاگ جائے گا اور رورو کر ہلکان ہو جائے گا۔ سادہ لوح زارا سوچتی۔ جٹھانی بیچاری مجبور ہے۔ ایسے ہی دنوں میں تو انسان کسی کے کام آتا ہے جب سے ضرورت ہوتی ہے۔ وہ چائے کی ٹرے اور کبھی کھانا ماجد کے کمرے میں لے جا کر رکھ آتی۔ ایک روز روبینہ نے فاخر کو ماجد کے کمرے کے غسل خانے میں چھپادیا اور پھر زارا کو آواز دے کر کہا۔ ذرا اوپر آؤ منے کو بخار ہو گیا ہے ، اسے دوا پلانی ہے۔ بخار کا سن کر یہ دوڑی گئی۔ اس وقت تک اشعر ، ماجد اور اکبر تینوں دفتر سے نہیں آئے تھے۔ دواؤں کا شاپر ماجد کے کمرے میں پڑا ہے ، پلیز اٹھالا کو تو منے کو دوا پلا دیتے ہیں۔ بے خبر زاراما جد کے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں کہیں اسے وہ شاپر نظر نہ آیا جس میں دوائیں تھیں۔ وہ کمرے میں ادھر اُدھر تلاش کرنے لگی۔
اتنے میں کسی نے باہر کا دروازہ بند کر دیا، تبھی فوراَ وبینہ نچلی منزل پر گئی اور سسر کو جگا کر کہا۔ اوپر آیئے آپ کا پوتا بیمار ہے۔ یہ سن کر بوڑھا آدمی حواس باختہ اوپر پہنچا۔ خدا خیر کرے کہیں طبیعت زیادہ تو خراب نہیں ہے ؟ آج تک بہونے اسے اس طرح عجلت میں نہ جگایا تھا۔ گھبراؤ نہیں بیٹی ، ابھی منے کو ڈاکٹر کے پاس لئے چلتے ہیں۔ آپ کیسے لے جائیں گے ، آپ تو گاڑی نہیں چلا سکتے ۔ میں نے ماجد کو فون کر دیا ہے ، وہ آتا ہی ہو گا۔ میں نے آپ کو کسی اور وجہ سے بلایا ہے۔ آپ کی بہوزارا، فاخر کے ساتھ کمرے میں تھی، جب میں نے جھانکا، دروازہ اندر سے بند کر دیا تو میں نے باہر سے کنڈی لگادی ہے تا کہ آپ کو اس افسوسناک بات سے آگاہ کروں۔ مجھے کئی دنوں سے شک ہو رہا تھا کہ منے کو دیکھنے کے بہانے یہ اوپر آتی ہے اور ماجد کے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ فاخر کے ساتھ کافی دیر کمرہ بند کر کے نجانے کیا باتیں کرتے ہیں۔ میں تو منے کی وجہ سے اپنے کمرے میں محصور ہو کر رہ گئی ہوں۔ اس کا فاخر کے ہمراہ اکیلے کمرے میں گھنٹوں وقت گزارنے کا کیا کام … اب آپ ہی اس سے پوچھئے۔
یہ کہہ کر روبینہ نے دروازہ کھولا تو زارا کو صوفے پر پریشان بیٹھے پایا جبکہ فاخر بنیان پہنے بستر پر دراز تھا۔ روز ہی ان کی سر گوشیاں سنتی تھی ، آج میں نے کمرہ ہی لاک کر دیا تا کہ آپ کو خبر دار کر سکوں کہ گھر میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔ پھر فاخر کو مخاطب کیا۔ اچھا تو اب تم تو نکلو ادھر سے اگر اپنی خیر چاہتے ہو اور پھر ادھر کا رخ بھی مت کرنا اگر جان پیاری ہے تو … فاخر نے جلدی سے شرٹ پہنی اور وہ دوڑا ہوا گھر سے باہر نکل گیا کیونکہ اس وقت اشعر اور اکبر دونوں ہی دفتر سے آگئے تھے۔ فاخر کو اپنے گھر سے باہر بھاگتے دیکھ کر دونوں بھائی ٹھٹک گئے۔ وہ اوپر آگئے اور پوچھا۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ سسر خاموش تھے جیسے سکتہ ہوا ہو۔ زارا حیران پریشان اور روبینہ غصے میں کہہ رہی تھی۔ تف ہے ایسے رشتے داروں پر ہمارے ہی کزن سے ہمارے گھر میں نقب لگائی ہے۔ بھئی کیا ہوا؟ اکبر نے زارا کو روتے پا کر پوچھا۔ اپنے اباجی سے پوچھئے جنہوں نے دونوں کو ایک ہی کمرے میں بند پایا۔ اب یہ روئیں یا اپنی صفائی دیں۔
یہ کہہ کر روبینہ نے دروازہ کھولا تو زارا کو صوفے پر پریشان بیٹھے پایا جبکہ فاخر بنیان پہنے بستر پر دراز تھا۔ روز ہی ان کی سر گوشیاں سنتی تھی ، آج میں نے کمرہ ہی لاک کر دیا تا کہ آپ کو خبر دار کر سکوں کہ گھر میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا۔ پھر فاخر کو مخاطب کیا۔ اچھا تو اب تم تو نکلو ادھر سے اگر اپنی خیر چاہتے ہو اور پھر ادھر کا رخ بھی مت کرنا اگر جان پیاری ہے تو … فاخر نے جلدی سے شرٹ پہنی اور وہ دوڑا ہوا گھر سے باہر نکل گیا کیونکہ اس وقت اشعر اور اکبر دونوں ہی دفتر سے آگئے تھے۔ فاخر کو اپنے گھر سے باہر بھاگتے دیکھ کر دونوں بھائی ٹھٹک گئے۔ وہ اوپر آگئے اور پوچھا۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ سسر خاموش تھے جیسے سکتہ ہوا ہو۔ زارا حیران پریشان اور روبینہ غصے میں کہہ رہی تھی۔ تف ہے ایسے رشتے داروں پر ہمارے ہی کزن سے ہمارے گھر میں نقب لگائی ہے۔ بھئی کیا ہوا؟ اکبر نے زارا کو روتے پا کر پوچھا۔ اپنے اباجی سے پوچھئے جنہوں نے دونوں کو ایک ہی کمرے میں بند پایا۔ اب یہ روئیں یا اپنی صفائی دیں۔
روبینہ نے زارا کی طرف اشارہ کیا۔ ہونے والی بات تو ہو گئی۔ کیا بات ہو گئی بھئی ؟ یہ فاخر کے ساتھ بند کمرے میں رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑی گئی ہیں ۔ پوچھ لیجئے ابا جان سے ، انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ اشعر کار نگ اڑ گیا۔ ساس بھی جاگ گئیں۔ اکبر بولے ۔ ایسی عورت کا گھر میں کیا کام اشعر ان کو طلاق دے کر رخصت کرو، ابھی اور اسی وقت …. اور فاخر سے تو میں جا کر نمٹتا ہوں ! زارا نے لاکھ کہنا چاہا کہ وہ بے قصور ہے ، اس کو کمرے میں بند خودروبینہ نے کیا۔ اسے تو خبر بھی نہ تھی کہ فاخر کمرے میں موجود ہے۔ وہ کہتی رہ گئی کہ یہ جھوٹ ہے۔ کسی نے اس کی نہ سنی۔ بوڑھے سسر کی بھی مت ماری گئی ۔ اس کی عقل نے کچھ کام نہ کیا۔ بڑی بہو کے کہنے کو صحیح سمجھ لیا۔ دوسرا کوئی زارا کی بے گناہی کو ثابت کرنے والا تھا ہی نہیں۔ روبینہ اور سسر ہی چشم دید گواہ بن گئے اور اشعر نے ان کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اصل میں تو سسر صاحب پتھر کا بت بنے کھڑے تھے اور ان کو روبینہ کی کوئی بات ہی پلے نہ پڑرہی تھی۔ وہ بس ہاں ہاں کئے جارے تھے۔
کسی کو کیا خبر یہ سازش روبینہ کی تھی اور اس سازش میں ماجد کے ساتھ ساتھ فاخر بھی ایک مہرہ تھا اور اشعر نے بھی عقل سے کام نہ لیا۔ بیوی کو وضاحت کا موقع دیئے بغیر کھڑے کھڑے فوراً تین طلاقیں اکٹھی دے کر اسے بازو سے پکڑ کر گھر سے نکال دیا۔ بیچاری زارا روتی ہوئی پڑوس میں گئی اور وہاں سے میکے فون کیا۔ والد گھر پر نہ تھے ۔ محلہ تو ایک ہی تھا، والدہ پیدل وہاں گئیں اور زارا کو گھر لے آئیں۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اشعر جو کہتا تھا کہ تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ جس کے کہنے کے مطابق خود سے زیادہ اعتبار سے زار پر تھا، بنا کچھ پوچھے ، بنا کچھ جانے اسے آناً فاناً زندگی سے نکال دیا۔ اپنے والد کی ہاں ہاں اور بھاوج کی گواہی پر … زارا کی خاموشی کو اس کا گناہ سمجھ لیا گیا۔ زارا کارورو کر برا حال تھا۔ سب نے اسے حوصلہ دیا مگر اس کے آنسو تھمتے نہ تھے۔ والد سمجھا رہے تھے۔ بیٹی، جس انسان کو تم پر اعتبار ہی نہ تھا، اس کے ساتھ وفا کا کیا فائدہ اور اس لئے رونا کیسا۔
اب زارا کو اس آزمائش میں صبر کرنا تھا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ وہ صرف چھ ماہ ہی رہ پائی، اس عجلت باز آدمی کے ساتھ جس نے محض شک کی بنیاد پر اسے طلاق دے دی۔ بغیر کسی تحقیق کے دوسروں کے بہتان لگانے پر ! وہ بی ایس سی اچھے نمبروں سے پاس کر چکی تھی۔ شادی ہو گئی تو اس نے ایم ایس سی کیلئے داخلہ فارم جمع کرادیا تھا۔ سائیکالوجی جیسے مضمون کا انتخاب کیا اور اسلام آباد کی ایک مشہور یونیورسٹی میں پڑھنے چلی گئی، بعد میں ہاسٹل میں رہنے لگی۔ کبھی کبھار چھٹی کے دنوں خالہ سے ملنے پنڈی چلی جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ سے ہی پڑھا کو قسم کی لڑکی تھی۔ سال بعد پتا چلا کہ اشعر کا نکاح اس کی بھابی کی بہن سبینہ سے ہو گیا ہے۔ محلے کی بات تھی اور محلے داری میں باتیں چھپی نہیں رہتیں۔ پتا چلا کہ سبینہ اور اشعر کی زندگی کے چند دن خوشیوں بھرے تھے ، پھر دونوں میں ان بن رہنے لگی کیونکہ سبینہ بہت آرام طلب اور نکمی لڑکی تھی۔ اشعر تو پہلے بھی اسے ناپسند کرتا تھا لیکن بھائی اور بھابی کے اصرار پر شادی کا بندھن باندھ لیا۔ زارا نے ایم ایس سی کر لیا اور ایک اسپتال میں جاب کر لی جہاں اس کی ملاقات ایک قابل پروفیسر سے ہوئی۔ اس نے شادی کیلئے پر پوز کیا۔
والدین کو یہ رشتہ بہتر لگا اور ہماری بہن کی شادی پر وفیسر رضا صاحب سے ہو گئی جو بہت مہذب، تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔ وہ زیادہ عمر کے بھی نہیں تھے ، زارا سے صرف سات برس بڑے تھے۔ دونوں ہی اعلیٰ تعلیم کے دلدادہ اور ہم مزاج تھے۔ کچھ عرصے بعد اسکالر شپ پر یورپ پڑھنے کیلئے چلے گئے جہاں زارا کو اللہ تعالی نے ایک بیٹی سے نوازا اور اس کی زندگی پر مسرت، خوشیوں بھری ہو گئی جبکہ اشعر اور سبینہ کی نہ بن سکی۔ ان کے اولاد بھی نہ ہو سکی۔ چیک آپ اور علاج کے بعد پتا چلا کہ سبینہ بانجھ ہے۔ وہ اولاد پیدا نہیں کر سکتی کہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم تھی۔ اس بات پر ساس، سسر نے صبر نہ کیا اور اشعر کی دوسری شادی کرانے کے درپے ہو گئے۔ سبینہ روٹھ کر میکے چلی گئی تو انہوں نے اشعر کی تیسری شادی کرادی۔
بہتان لگانے والوں کو کڑی سزا ملتی ہی ہے، تبھی اشعر کے دل اور گھر سے خوشیاں روٹھ گئیں، اولاد سے ؟ محرومی بھی ملی۔ زارا کی یہ عادت تھی کہ اس نے کبھی رب سے شکوہ نہیں کیا۔ کہ ہمیشہ اس کی بے پناہ نعمتوں کا شکر ہی ادا کیا۔ وہ ہمیشہ اپنی ڈائری میں کہ لکھی اس کہاوت کو پڑھتی رہتی تھی کہ ” قدرت نے مجھے بہت کچھ عطا کیا ہے اور میرے پاس یہ سوچنے کیلئے وقت نہیں ہے کہ مجھے کیا
کچھ نہیں ملا۔
0 تبصرے