Subscribe Us

قبر کاساتھی

urdu stories online

ہمارا گھر کوٹ سردار کے قریب ایک چک میں واقع تھا۔ ان دنوں وہاں لڑکیوں کے لیے اسکول موجود نہیں تھا، جبکہ مجھے پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ میرے بھائی قیصر کی آواز بہت اچھی تھی۔ وہ خواجہ فرید صاحب کی کافیاں پڑھتے، اور مجھے بھی خواہش ہوتی کہ میں پڑھنا سیکھوں تاکہ خواجہ صاحب کا دیوان پڑھ سکوں۔

میرے شوق کو دیکھتے ہوئے بھائی نے مجھے قاعدہ لا کر دیا۔ جب بھی انہیں وقت ملتا، مجھے سبق یاد کراتے اور میں دھیان سے پڑھتی۔ شوق ہو تو کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ جلد ہی میں نے پڑھنا سیکھ لیا۔ ان دنوں دیہات میں تعلیم عام نہ تھی۔ قیصر بھائی نے اسی وجہ سے راجن پور کے بوائز اسکول سے میٹرک کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے گاؤں میں ان کی بہت عزت تھی۔ قریبی بستیوں سے بھی لوگ چھٹیاں لکھوانے یا پڑھوانے ان کے پاس آتے تھے۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ میں دھوپ میں بیٹھی سبق یاد کر رہی تھی کہ بھائی کے ساتھ ایک مہمان آ گیا۔ قیصر بھائی نے بتایا کہ یہ ہمارے چک کا نیا اسکول ماسٹر ہے۔ جب تک اس کی رہائش کا بندوبست نہیں ہو جاتا، یہ ہمارے ساتھ رہے گا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ ہماری بیٹھک میں قیام کرے گا اور کھانا بھی ہمارے گھر سے کھائے گا۔

چک والوں کے دلوں میں ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بہت عزت و احترام ہوتا تھا، اور وہ ان کی مہمان نوازی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ اس ماسٹر کا نام عبدالرشید تھا۔ رشید صاحب کی بھائی قیصر سے دوستی ہو گئی۔ ہماری بیٹھک خالی پڑی رہتی تھی، جہاں غسل خانہ اور صحن بھی الگ تھلگ تھے۔ یوں یہ جگہ ماسٹر رشید کے قیام کے لیے مناسب تھی۔ رشید صاحب ہمارے گھر کے فرد بن گئے۔ بھائی کے وہ دوست تھے مگر میرے لیے ایک آئیڈیل شخصیت۔ اسکول ماسٹر کا مقام میرے ذہن میں معزز اور اہم تھا۔ میری سہیلی کی شادی بھی ایک اسکول ماسٹر سے ہوئی تھی، اور اس کا تبادلہ بڑے شہر میں ہو گیا تھا۔ تبھی سے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کسی اسکول ماسٹر کی جیون ساتھی بنوں۔

رشید خوبرو، خوش لباس اور خوش گفتار تھے۔ جب وہ سفید کلف والا کرتا اور شلوار پہن کر اسکول جاتے، تو مجھے وہ کسی خواب کی تعبیر معلوم ہوتے۔ دل ان کے ساتھ ہی چلا جاتا، اور جب تک وہ واپس نہ آتے، میں بے دل اور بے کار گھر میں پھرتی رہتی۔ میں نے تیزی سے چوتھی جماعت کی اردو کی کتاب ختم کر لی اور پانچویں کا کورس شروع کر دیا۔ بورڈ کے امتحان کی تیاری کے لیے قیصر بھائی نے ابو سے اجازت لی کہ شام کے وقت رشید مجھے پڑھا دیا کریں گے۔ والد صاحب نے نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے دی، کیونکہ انہیں رشید پر بھروسا تھا۔

رفتہ رفتہ ہماری خاموش محبت گہری ہونے لگی۔ یہ محبت پاکیزہ تھی، جس میں بری نیت کو دخل نہ تھا۔ رشید مجھے نیک نیتی سے اپنانا چاہتے تھے اور میں بھی والدین کی رضا کے ساتھ ان کی بننا چاہتی تھی۔ مگر ہماری راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھائی قیصر تھے۔ وہ بے حد جذباتی تھے اور میری محبت کے معاملے میں ان کے جذبات نازک تھے۔ ان کی غیرت کا خوف مجھ پر ہمیشہ طاری رہتا۔ پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے چھٹی جماعت کی کتابیں منگوائیں۔ اسی دوران ایک دن انکشاف ہوا کہ بھائی میرے ماموں کے بیٹے کے ساتھ میری بات پکی کر آئے ہیں۔ یہ وہی ماموں تھے جن کی بیٹی قیصر بھائی کی منگیتر تھی۔

رشید کو یہ بات بتائی تو وہ پریشان ہو گئے۔ بھائی سے کچھ کہنے کی ان میں ہمت نہ تھی۔ انہی دنوں والد صاحب کو سانپ نے کاٹ لیا۔ قیصر بھائی اور رشید انہیں فوری طور پر اسپتال لے گئے، مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ والد کی وفات کے تین ماہ بعد میری شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ میرے ہونے والے شوہر عمر میں مجھ سے تیس سال بڑے اور پہلے سے شادی شدہ تھے۔ وہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کر رہے تھے۔ یہ رشتہ “وٹہ سٹہ” کے تحت طے ہوا تھا۔ ابا ہوتے تو شاید میری قسمت یوں نہ پھوٹتی۔ اماں بھی اس رشتے کے حق میں نہ تھیں، مگر بھائی قیصر کی محبت کے آگے بے بس تھیں۔

جوں جوں شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے، میرا دم گھٹتا جا رہا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح بیٹھک میں رشید کو پیغام بھجواؤں، کیونکہ اب میں نے اس سے پڑھنا بند کر دیا تھا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے ذہن میں ترکیب آئی، کیوں نہ بھاگے کو اپنا پیام رساں بنا لوں۔ بھاگا ہمارا پالتو کتا تھا اور رشید سے بھی مانوس تھا، کیونکہ رشید کی عادت تھی کہ کھانے کے وقت بھاگے کو بھی کچھ نوالے ڈال دیتا۔ آج دوپہر میں نے رشید کے کھانے کے ساتھ بھاگے کے گلے میں ایک پرچہ دھاگے سے باندھ دیا۔ ملازمہ نے رشید کو کھانا پہنچایا، اور بھاگے کی خوشبو نے اسے بھی وہاں پہنچا دیا۔ میں صحن میں ٹہلتے ہوئے کتے کی واپسی کا انتظار کرنے لگی۔

دل بری طرح دھڑک رہا تھا کہ اگر رشید کا دھیان کتے کے گلے میں بندھے دھاگے کی طرف نہ گیا تو یہ محبت کا قاتل خط کسی اور کے ہاتھ لگ جائے گا۔ تھوڑی دیر بعد بھاگا لوٹ آیا۔ اس کے گلے میں بندھا پرچہ سلامت تھا۔ میں نے جلدی سے دھاگے سے پرچہ نکالا اور پڑھا۔ رشید نے جواب دیا تھا: میں ضرور آؤں گا، انتظار کرنا۔

رات کا ایک بج گیا تو میں دبے قدموں صحن میں نکلی۔ میں نے گھڑے سے پانی پیا اور جانوروں کے باڑے کی طرف چل پڑی۔ بھاگے نے مجھے سونگھ کر پہچان لیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ بھاگے کے کان کھڑے ہو گئے، لیکن میں نے اشارہ کر کے اسے پرسکون کر دیا۔ رشید آگیا تھا۔

رشید نے فوراً کہا، کہو، کیا کہنا ہے؟
میں نے بنا وقت ضائع کیے کہا، رشید، کیا تم میرے اور اپنے لیے کچھ کر سکتے ہو یا میں اس پینتالیس سالہ شخص کی دلہن بن کر اس کے گاؤں چلی جاؤں؟
رشید نے جواب دیا، تمہارے بھائی کا لحاظ ہے، ورنہ میں تمہیں ضرور حاصل کر لیتا۔ میں نے تلخی سے کہا، تو پھر لحاظ کرتے رہو، میں تو برباد ہو جاؤں گی۔ میری بات پر رشید پریشان ہو گیا۔ کہنے لگا، اب واپس جاؤ، کل رات کو ملیں گے اور بات کریں گے۔ میں نے وعدہ لیا کہ کل وہ اپنا ارادہ پکا کر کے آئے گا۔

اگلی رات چاند کھجور کے درخت کے اوپر پہنچا تو میں دیوانگی کی حالت میں کھیتوں کی طرف نکل پڑی۔ رشید اسکول کی عقبی دیوار کے پاس میرا منتظر تھا۔ وہاں اینٹوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ رشید نے کہا، یہ جگہ ٹھیک نہیں، آگے چلتے ہیں۔  ہم ندی کی طرف چل پڑے، بنا کسی منزل کے۔ ہم ایک پہر چلتے رہے، یہاں تک کہ ایک پرانے قبرستان پہنچ گئے۔ سامنے ایک اور بستی تھی، لیکن وہاں جانے کا خطرہ تھا کیونکہ اجنبی کتوں کے بھونکنے سے بستی جاگ سکتی تھی۔ رشید نے کہا، یہاں ایک ٹوٹی ہوئی کوٹھری ہے، وہیں رک جاتے ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہ کوٹھری ایک قبر نکلی۔ رشید نے کہا، یہاں تھوڑی دیر آرام کر لیتے ہیں۔ میں نے لرزتے ہوئے کہا، یہ قبر ہے، آرام کی جگہ نہیں۔

ہم باہر ہی رہے۔ پو پھٹنے لگی تو رشید نے کہا، مجھے اسکول وقت پر پہنچنا ہے، ورنہ سب کو پتا چل جائے گا کہ ہم ساتھ غائب تھے۔ میں نے بے بسی سے کہا، اور میں؟ میں کیسے واپس جاؤں؟

تم اس گڑھے میں بیٹھ جاؤ۔ میں اسکول کی چھٹی کے بعد یہاں آ کر تم سے ملوں گا۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آ رہا تھا کہ رشید کیا کہہ رہا ہے، مگر وہ مصر تھا کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ میرے خوف کو دور کرنے کے لیے وہ خود اس پرانی قبر میں اترا۔ وہاں ایک گودڑی اور تکیہ پڑا تھا۔ پانی کا گلاس اور مٹکا بھی رکھا تھا، گویا یہ کسی مست موالی یا درویش کا ٹھکانہ تھا، جو کبھی یہاں آ کر آرام کرتا ہو گا۔

اس رات یہ ٹھکانہ خالی پڑا تھا۔ چھوٹے سے مٹکے میں پانی بس تھوڑا سا ہی تھا۔ صبح کی روشنی پھیلنے لگی تھی، اور رشید مجھے تسلیاں دے رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا، ذرا دلیری کا ثبوت دو، میں نے اس گڑھے میں اتر کر دیکھا ہے، اندر سے صاف ہے اور بیٹھنے کی جگہ ٹھیک ہے۔ تم شام تک اس میں رہ جاؤ، میں شام سے پہلے آ کر تم کو نکال لوں گا، اور تب تک تمہیں کہیں چھپانے کا بندوبست بھی کر لوں گا۔

میرے لئے اس کے سوا کیا چارہ تھا؟ زندہ، قبر میں اتر جانا۔ اس نے مجھے ٹارچ اور ماچس دے دی اور چلا گیا۔ چاندنی رخصت ہو چکی تھی، صبح صادق کا وقت تھا۔ اندر ایک دیار کی خوشبو تھی جس میں تیل بھی موجود تھا۔ اوپر سے قبر شکستہ تھی مگر اندر سے ٹھیک تھی۔ ممکن ہے یہ بستی کے بد معاشوں کا بسیرا ہو۔ میں نے سوچا، کیونکہ فرش صاف ستھرا تھا اور چٹائی کا ایک ٹکڑا بھی بچھا ہوا تھا۔

رشید نے مجھے تسلیاں اور ڈھارس دے کر چلا گیا۔ وہ پندرہ منٹ میرے ساتھ بیٹھا ہو گا تاکہ میرے دل سے خوف نکل جائے۔ قبر میں ابھی تک اندھیرا تھا اور میں بے حد خوف زدہ تھی۔ اگر کسی اور وقت میں ہوتا تو میں مر جانا پسند کرتی، لیکن یہاں ایک لمحہ بھی رہنا پسند نہیں کر رہی تھی۔ محبت کا یہ بھوت، جو انسان کو جیتے جی قبر میں اتار دیتا ہے، بہت عجیب تھا۔ رشید تو چلا گیا، اور میں حیران ہوں کہ میں کیسے اس وقت صبح صادق کے ملگجے اندھیرے میں اس گڑھے میں بیٹھی رہ گئی۔ اس ہولناک سناٹے میں، اتنے وحشت ناک ماحول میں، اتنے بھیانک قبر کے اندھیرے میں، روحوں کے اس شہرِ خموشاں میں، تنہا۔

میں اپنے خدا کو یاد کر کے، عاجزی سے دعا کرتی رہی۔ ڈر کی لہریں دل میں اُٹھ رہی تھیں، اور میں رشید کے تصور کی روشنی کو اپنے ارد گرد محسوس کر کے خوف کے بھوتوں کو خود سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ کیا قیامت کا دن تھا جو اللہ اللہ کر کے تمام ہوا۔

صبح سے شام تک اللہ تعالی نے سارے عالم پر سورج کا نور پھیلا دیا تھا، کچھ روشنی کی کرنیں مجھ تک بھی آئیں۔ تمام دن تنگ سی کوٹھری میں قید رہی، جس کا تین چوتھائی حصہ ایک بڑے پتھر سے رشید نے ڈھانپ کر رکھا تھا۔ تبھی سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ شام ہوئی تو پھر سے آنے والے اندھیرے کا تصور دل میں گزرنے لگا۔ جی چاہتا تھا کہ یہاں سے نکل کر بھاگوں، چاہے کسی بستی والے کے ہاتھ آ جاؤں۔ کوئی اچھا انسان مل جائے گا، جو مجھے اپنے گھر لے جائے گا اور پناہ دے دے گا، مگر رشید کے وعدے سے مجبور تھی، جس نے کہا تھا کہ وہ شام کو ضرور آ کر مجھے لے جائے گا۔

میری حالت اس پرندے کی مانند تھی جس کے قفس کا دروازہ کھلا ہو مگر وہ اڑنے سے معذور ہو۔ رات آئی اور گزر گئی، اور کیا بیان کروں کہ یہ بھیانک رات مجھ پر کیسے گزری۔ تمام شب خوف سے کشت و خون میں گزری، ایک لمحے کے لیے بھی آنکھ نہ لگی، صبح ہو گئی مگر رشید نہ آیا۔ دل بہت گھبرایا، سوچا شاید وہ کہیں لے جا کر چھپانے کا ٹھکانہ ڈھونڈنے میں مصروف ہو گا۔ پھر اپنے بھائی اور گھر والوں کے سامنے بھی تو اس کو یہ ثابت کرنا تھا کہ میرے گم ہو جانے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔

رشید کی غیر موجودگی اس بات کی گواہی دے سکتی تھی کہ کسی نے پیچھا کیا ہو تو راز کھل جائے گا۔ اب تک بھوک نے مجھ پر اثر نہیں ڈالا تھا، خوف کی شدت سے بھوک بھی مر چکی تھی۔ دوپہر سے سہ پہر ہو گئی، دم گھٹتا جا رہا تھا اور دل بہت گھبرایا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ خدایا، یہ کیا تھا؟ میں نے بیٹھے بیٹھے عشق کا سودا سمایا اور مردوں کی بستی میں بسیرا کر لیا۔

سہ پہر کو ایک سایہ قبر کے دھانے پر نظر آیا تو دل دھک دھک کرنے لگا۔ ہلکی سی قدموں کی آہٹ ہوئی، دل تھام لیا۔ رشید ہولے سے بولا، میں آگیا ہوں۔ وہ قبر میں اترا اور مجھے ہوش آیا۔ انتظار کا وقت ختم ہوا۔ رشید میرے لیے کھانا اور پانی لایا تھا۔ ہم نے ساتھ کھانا کھایا، پھر میں چلنے کو تیار ہو گئی۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا، خدارا، آج کا دن اور ٹھہر جاؤ۔ وہاں گھر اور چک میں تمہارے غائب ہونے سے کہرام برپا ہے۔ تیرے بھائی بہت غضب ناک ہیں۔ ابھی تک مجھ پر شک نہیں کیا کیونکہ میں وہاں موجود ہوں۔ اس کے دل میں میرا اعتبار بیٹھ جانے دو۔ اگلے ایک دو دن میں ہم نکل چلیں گے، ابھی تک تمہارے ٹھہرنے کا انتظام بھی نہیں کر پایا ہوں۔
مرتی کیا نہ کرتی، میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ سنتے تھے کہ قبروں میں سانپ بچھو ہوتے ہیں لیکن یہاں سانپ بچھو نہیں تھے۔ ہاں، مگر اس لمحے مجھ پر سانپ بچھو بن کر حملہ کر رہے تھے۔ اب اور کیا کہوں، قصہ مختصر اسی طرح دلاسوں پر پندرہ دن اس قبر میں زندہ دفن رہی۔ کسی رات موقع نکال کر وہ میرے پاس ٹھہر جاتا اور مجھ کو باہر ٹہلانے لے جاتا۔ تین وقت کا کھانا ایک وقت میں دے جاتا اور ساتھ تسلیاں بھی کہ بس آج کل میں مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں تمہاری بستی سے تبادلہ کرانے میں لگا ہوں۔ یہ تو شکر کہ اب تک کوئی اس ٹوٹی قبر کا وارث اور سابقہ مکین نہ آیا تھا۔ چھوٹی بستیوں میں قبرستان کے لیے زمین بھی تنگ نہیں ہوتی۔ لہٰذا لوگ نئی جگہ قبریں کھود لیتے ہیں اور اپنے مرنے والے پیاروں کو ٹوٹی ہوئی قبروں میں دفنانے 
کے بارے میں نہیں سوچتے، لہٰذا اس طرف جہاں میں تھی کسی کا دھیان نہیں گیا تھا۔

 رشید بزدل تو مجھ کو اس قبر سے نہ نکال سکا مگر ایک اور شخص وسیلہ بن گیا اس زندہ عذاب سے چھٹکارے کا۔ ایک روز رات کے وقت کسی ضرورت سے میں قبر سے نکلی تو گشت پر نکلے ایک چوکیدارکی مجھ پر نظر پڑ گئی۔ وہ ضروری کام سے جا رہا تھا۔ ادھر سے گزرا تو اس نے مجھ کو گڑھے سے نکلتے دیکھ لیا اور اپنی سائیکل کا رخ رستے سے میری جانب موڑ لیا اور آگھیرا۔ میری تو حالت بری تھی، کب سے نہائی نہ تھی، ہاتھ پاؤں بھی مٹی مٹی ہو رہے تھے۔ گرچہ رشید نے بالٹی، لوٹے اور پانی کا انتظام کر دیا تھا پھر بھی قبر تو قبر ہی ہوتی ہے۔ وہ بولا، تو عورت ہے کہ ڈائن جو قبروں میں گھستی پھرتی ہے؟ تب ہی میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سارا قصہ ہچکیوں میں کہہ سنایا۔ 

وہ بھلا مانس تھا، اس کو مجھ پر ترس آگیا۔ بولا، لعنت بھیج اس مردود پر۔ وہ مرد نہیں، کوئی مردہ ہے۔ عورت کے ساتھ شادی اس طرح نہیں کرتے۔ تو اب نکل ادھر سے اور چل میرے ساتھ۔ میں نے کہا، ہاں میں چلتی ہوں اور بھروسہ کرتی ہوں، لیکن مجھ کو تھانے مت لے جانا۔ بے شک یہاں ہی گولی مار کر اسی گڑھے میں پھینک دو۔ رسوائی کے ساتھ اپنوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔ میں نے کچھ ایسی بے بسی سے منت کی کہ اس نے مجھ پر ترس کھایا اور مجھے تھانے لے جانے کی بجائے گھر لے گیا۔
وہ اکیلا رہتا تھا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی اور دو چھوٹے بچے جن کو پالنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ یتیم خانے جیسے ایک ادارے میں تھے۔ بچوں کا وہ ادارے والوں کو خرچہ دیتا تھا مگر چاہتا تھا کہ ان بچوں کو کوئی ماں مل جائے جو ان کو پال لے۔ اس نے مجھ سے وعدہ لیا کہ تم میرے بچوں کو ماں کا پیار دینا۔ میں تم سے نکاح پر تیار ہوں۔ سو اس طرح دو بن ماں کے بچوں کو ماں مل گئی اور مجھ کو ایک شریف انسان کا ساتھ ملا۔ ایک گھر کی چھت اور عزت کی زندگی مل گئی۔ اس نے مجھ کو پناہ دی۔ مجھ سے نکاح کیا اور میں نے اس کے بچوں کو ممتا کا پیار دیا۔ اس کے بعد میں کبھی رشید کا خیال ذہن میں نہ لائی، جس نے مجھ کو زندہ قبر میں اتار دیا تھا۔ صد شکر کہ احسان مجھ کو ملا۔ وہ ایک پولیس والا ضرور ہے، مگر بُرا پولیس والا ہر گز نہیں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے