مولا بخش اور اس کی بیوی ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے۔ ان کی زندگی سادگی اور قناعت کی مثال تھی۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ صبر و شکر کرتے ہوئے وقت گزارتے تھے، اور گاؤں کے تمام لوگ ان کی ایمانداری اور نیک دلی کے باعث ان کی عزت کرتے تھے۔
ایک دن مولا بخش کی بیوی نے اس سے کہا، "مولا بخش، میرے خیال میں ہمیں اپنی بیلوں کی جوڑی میں سے ایک بیل بیچ دینا چاہیے۔ ہمارے کام کاج کے لیے ایک بیل کافی ہے، اور ہم دونوں اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ زیادہ محنت ہم سے نہیں ہوگی۔"
مولا بخش نے جواب دیا، "ٹھیک ہے، کل میں منڈی جا کر بیل بیچ آتا ہوں۔"
اگلی صبح، سورج نکلنے سے پہلے ہی مولا بخش اپنے بیل کو لے کر منڈی کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں اسے ایک شخص ملا جو ایک مضبوط اور خوبصورت گھوڑے کے ساتھ جا رہا تھا۔ وہ شخص مولا بخش کے پاس رک کر بولا، "بھائی، اتنی صبح کہاں جا رہے ہو؟"
مولا بخش نے جواب دیا، "میں اپنا بیل منڈی میں بیچنے جا رہا ہوں۔"
اس شخص نے بیل کو غور سے دیکھا اور محبت بھرے لہجے میں بولا، "تم اس خوبصورت بیل کو کیوں بیچ رہے ہو؟ کیوں نہ ہم اپنے جانوروں کا تبادلہ کر لیں؟ تم مجھے بیل دو اور میں تمہیں اپنا گھوڑا دے دیتا ہوں۔"
مولا بخش نے کچھ دیر سوچا اور کہا، "گھوڑا رکھنا آسان ہوگا، اور بچے بھی اس پر سواری کر سکیں گے۔ ٹھیک ہے، یہ سودا منظور ہے۔"
مولا بخش گھوڑے پر سوار ہو کر خوشی خوشی گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔ مگر کچھ دور جانے کے بعد اسے اندازہ ہوا کہ گھوڑا اندھا ہے۔ مولا بخش کو بہت افسوس ہوا اور وہ واپس منڈی کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اسے ایک اور شخص ملا جو ایک موٹی تازی بھینس لے کر جا رہا تھا۔
اس شخص نے مولا بخش سے پوچھا، "کہاں جا رہے ہو؟"
مولا بخش نے ساری بات بتائی کہ وہ بیل بیچنے نکلا تھا اور راستے میں گھوڑے کے ساتھ تبادلہ کر لیا، لیکن گھوڑا اندھا نکلا۔
اس شخص نے کہا، "میرے پاس یہ بھینس ہے، یہ تمہارے گھوڑے سے بہتر ہے۔ اگر تم چاہو تو ہم دونوں جانور بدل سکتے ہیں۔"
مولا بخش نے سوچا کہ بھینس کے دودھ سے گھر کے بچوں کو فائدہ ہوگا، اور بھینس رکھنے میں زیادہ محنت بھی نہیں ہوگی۔ اس نے گھوڑے کے بدلے بھینس لے لی۔ لیکن کچھ فاصلے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ بھینس لنگڑی ہے۔
مولا بخش مایوس ہوا لیکن حوصلہ نہ ہارا۔ راستے میں اسے ایک اور شخص ملا جو ایک چست بکری لے کر جا رہا تھا۔ اس نے مولا بخش سے کہا، "میری بکری تمہاری بھینس سے بہتر ہے، اگر تم چاہو تو ہم تبادلہ کر سکتے ہیں۔"
مولا بخش نے یہ پیشکش قبول کر لی، لیکن جلد ہی اسے پتہ چلا کہ بکری بیمار ہے۔ مولا بخش اب تقریباً منڈی کے قریب پہنچ چکا تھا کہ اسے ایک شخص ملا جس کے پاس ایک مرغا تھا۔ بات چیت کے دوران دونوں نے مرغا اور بکری کا تبادلہ کر لیا۔
دوپہر کا وقت تھا، اور مولا بخش کو بہت بھوک لگی تھی۔ اس نے مرغا منڈی میں بیچ کر کچھ پیسے حاصل کیے اور کھانے کے لیے کچھ روٹیاں خریدیں۔ لیکن جیسے ہی وہ کھانے بیٹھا، ایک غریب شخص اس کے پاس آیا اور کہا، "کئی دنوں سے بھوکا ہوں، کچھ کھانے کو دے دو۔"
مولا بخش کا دل رحم سے بھر گیا۔ اس نے اپنا سارا کھانا اس شخص کو دے دیا اور خود بھوکا گاؤں کی طرف روانہ ہو گیا۔
جب وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے اس کا خیر مقدم کیا اور کہا، "منڈی میں آج دیر ہو گئی؟ میں نے تمہارے لیے کھانا تیار کر رکھا ہے۔"
مولا بخش نے سارا واقعہ سنایا، لیکن بیوی نے ہر بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ وہ نیک نیتی سے سب کچھ کر رہا تھا۔
اگلی صبح جب مولا بخش نے دروازہ کھولا تو حیرت اس کا انتظار کر رہی تھی۔ باہر ایک بیل، ایک مضبوط گھوڑا، ایک تندرست بھینس، ایک صحت مند بکری، اور ایک مرغا موجود تھا۔ ایک خط بھی پڑا تھا جس میں لکھا تھا:
"ہم تمہارے ملک کے بادشاہ کے کارندے تھے۔ تمہاری نیک نیتی اور رحم دلی کو دیکھ کر اللہ کے حکم سے یہ انعام تمہیں دیا گیا ہے۔ اسے قبول کرو اور ہمیشہ اسی طرح نیک رہو۔"
مولا بخش اور اس کی بیوی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ دونوں شکر ادا کرتے ہوئے اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
0 تبصرے