Subscribe Us

انوکھا فقیر

urdu font stories online 10
 
شادی کو دس سال بیت گئے لیکن والد صاحب اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ ڈاکٹر، حکیم، پیر، فقیر، دوا دارو اور تعویذ گنڈے سب آزما لیے گئے، لیکن ثمر مراد جھولی میں نہ آیا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ماں باپ صبر کر کے بیٹھ گئے کہ بہت سوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی، اور وہ بھی اس دنیا میں جی رہے ہیں۔ جینا لازم تھا کیونکہ جب تک زندگی کے دن پورے نہ ہوں، انسان کو اس جہان سے نجات نہیں ملتی۔ اپنی زندگی پر اختیار ہے اور نہ موت پر کوئی بس چلتا ہے۔ یہ اللہ کی مرضی ہے اور اسی کے اختیار میں ہے، جب تک چاہے چلائے اور جب چاہے حیات کا اختتام کر دے۔ دنیا عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے، اور ایسے میں ایک واقعہ میرے والدین کے ساتھ بھی پیش آیا۔

شادی کے گیارہویں برس ایک روز آدھی رات کو گھر کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ والد صاحب کی اس دن طبیعت کچھ ٹھیک نہ تھی، انہیں کھانسی ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے نیند بار بار ٹوٹ رہی تھی۔ ان کی کھانسی کے باعث والدہ بھی سو نہ پا رہی تھیں۔ غرض کہ اس رات دونوں ہی جاگ رہے تھے۔ جب دو تین بار دستک ہوئی تو والدہ نے کہا: “ذرا دیکھیں، آدھی رات کے وقت کون آیا ہے۔ خدا خیر کرے۔”

والد صاحب دروازے پر پہنچے اور پوچھا: “کون ہے؟” کوئی جواب نہ ملا۔ تب انہوں نے دروازہ کھولا اور باہر جھانکا تو ایک بے کس و غریب شخص سردی سے کانپ رہا تھا۔ وہ فالج زدہ تھا اور اس کا آدھا جسم کمزور تھا۔ وہ ایک ٹانگ گھسیٹ کر چلتا تھا اور زبان میں لکنت کے باعث صاف بات نہ کر سکتا تھا۔ والد صاحب نے پوچھا: “کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ اور کیا چاہتے ہو؟” بڑی مشکل سے وہ شخص اٹک اٹک کر بولا: “پردیسی ہوں، فیصل آباد سے آیا ہوں۔ غلط بس میں بیٹھ گیا تھا۔ یہاں اترا تو کسی کو نہیں جانتا۔ رات ہو گئی اور اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔ اب آوارہ کتے مجھے خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اس لیے آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ مجھے اندر آنے دیں۔ آج کی رات پناہ چاہیے۔ سخت سردی ہے۔ کل صبح چلا جاؤں گا۔”

اس کی حالت سے ظاہر تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ والد صاحب نے کچھ سوچ کر دروازہ کھول دیا اور اسے بازو سے تھام کر اندر لے آئے۔ گیراج میں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی، اس پر بٹھایا اور پھر والدہ سے کہا: “کچھ کھانے کو ہے تو دے دو۔ ایک غریب مسافر ہے، اسے کھلانا ہے۔” والدہ کچن میں گئیں اور کھانا گرم کر کے لے آئیں۔ والد صاحب نے اس شخص کو کھانا دیا، اور ڈرائیور کا بستر نکال کر چارپائی پر بچھا دیا۔ انہوں نے کہا: “یہ رضائی اوڑھ لو اور سو جاؤ۔” وہ شخص کھانے سے آسودہ ہو کر چارپائی پر لیٹ گیا اور سو گیا۔

صبح ہوئی تو والد نے اسے ناشتہ کرایا اور پوچھا: “اب کیا چاہتے ہو؟” اس نے اسی طرح بہت دشواری سے جواب دیا: “فیصل آباد جانے والی بس میں سوار کرا دیں۔” والد صاحب نے ڈرائیور کو بلایا، اسے ٹکٹ کے پیسے دیے اور کہا: “اس شخص کو مطلوبہ بس میں بٹھا دو۔” چلتے وقت اس شخص نے ہاتھ اٹھا کر دعا دی: “خدا تمہارے بچوں کو سلامت رکھے۔”

والد صاحب نے کہا: “تمہاری دعا اپنی جگہ لیکن میاں، افسوس کہ شادی کے گیارہ برسوں بعد بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد سے محروم رکھا ہے۔ یہ دعا میرے کام کی نہیں، کوئی اور دعا دو۔” اس شخص نے جیب سے ایک پڑیا نکالی اور کہا: “اللہ تمہیں ضرور اولاد کی نعمت سے نوازے گا۔ یہ پڑیا ہے، اس میں میرے پیر و مرشد کی عطا کردہ راکھ ہے۔ آدھی تم پانی سے پھانک لینا اور آدھی اپنی بیوی کو کھلا دینا۔ ان شاء اللہ جلد خوشخبری ملے گی۔”

والد صاحب اس معذور اور بے بس شخص کی اس ادا پر ہنس پڑے۔ جو خود بغیر سہارے چل نہیں سکتا تھا، وہ اولاد کے لیے مرشد کی عطا کردہ راکھ دے رہا تھا۔ بہرحال، اس کا دل رکھنے کے لیے انہوں نے وہ پڑیا لے لی۔ جب وہ چلا گیا تو پڑیا کو کھولا۔ واقعی اس میں راکھ تھی۔ والدہ کو سارا واقعہ بتایا تو وہ، جو پیروں اور فقیروں پر زیادہ یقین رکھتی تھیں، بولیں: “بسم اللہ پڑھ کر آدھی راکھ کھا لیتی ہوں اور آدھی آپ بھی کھا لیں۔ کیا خبر آدھی رات کو اللہ پاک نے ہمارے گھر رحمت کا فرشتہ بھیجا ہو، ہمیں آزمانے کے لیے۔”
 
والد صاحب نے راکھ کو ہوا میں اُڑا کر کہا کہ اگر ایسے لولے لنگڑے انسانوں کی دی ہوئی دوائیں تیر بہ ہدف ہو جائیں تو یہ خود نہ ان کو کھا کر صحیح و سالم ہو جائیں ، پھر لنگڑے لولے کیوں رہیں ۔ تم بھی کمال بات کرتی ہو۔ میں نے شخض ترس کھا کر اس کو گیراج میں پناہ دی کہ کہیں آوارہ کتے بھنبھوڑ نہ ڈالیں، بیچارہ فالج کا 
مارا دوڑ بھی نہ سکتا تھا۔
 خیر، "نیکی کر دریا میں ڈال" والی بات سمجھ کر والدین نے اس واقعے کو بھلا دیا، مگر قسمت نے ایک اور موڑ لیا۔ دو ماہ بعد والدہ کو احساس ہوا کہ وہ امید سے ہیں۔ پہلے تو کسی کو یقین نہ آیا، لیکن جب ڈاکٹر سے تصدیق ہوئی تو گویا خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ والدین کی دعائیں رنگ لے آئیں تھیں۔ یہ ربّ کی مہربانی تھی یا پھر اس مسافر کی دی ہوئی راکھ کی کرامت، اس بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، مگر ان کی جھولی بھر چکی تھی۔

کچھ مہینوں بعد والدہ نے دو جڑواں بیٹیوں کو جنم دیا۔ دونوں ہی بے حد حسین تھیں، لیکن قسمت نے اپنی آزمائش بھی ساتھ ہی رکھی۔ ایک بیٹی صحت مند پیدا ہوئی، جبکہ دوسری، شاکرہ، پیدائشی معذوری کے ساتھ دنیا میں آئی۔ اس کی ایک ٹانگ کمزور تھی اور ایک بازو بے جان۔ والدین نے یہ سمجھ کر اسے قبول کیا کہ یہ اللہ کا امتحان ہے۔ شاکرہ کو بہترین علاج اور توجہ دی گئی، مگر مکمل شفا نہ ہو سکی۔

ہم دونوں بہنیں ساتھ ساتھ بڑی ہوئیں۔ میں، جو جسمانی طور پر صحت مند تھی، اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، جبکہ شاکرہ گھر پر ہی محدود تھی۔ وہیل چیئر اس کا مستقل سہارا بن گئی، مگر وہ اپنی معصومیت اور دلکشی کی وجہ سے ہر کسی کا دل جیت لیتی۔ والدین کی زندگی ہم دونوں کے گرد گھومتی تھی، مگر ان کی سب سے بڑی فکر شاکرہ کا مستقبل تھا۔
جب میں نے یونیورسٹی سے ایم اے مکمل کیا، والدین نے میری شادی کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ انہی دنوں، میرے کلاس فیلو ریحان نے مجھے شادی کے لیے پرپوز کیا۔ میں بھی اسے پسند کرتی تھی، لہٰذا میں نے کہا کہ وہ اپنے والدین کو رشتے کے لیے بھیجے۔ ریحان کے والدین آئے، اور والد صاحب نے شرط رکھی کہ اگر ریحان کا بھائی شاکرہ سے شادی کرنے پر راضی ہو جائے، تو وہ میری شادی ریحان سے کر دیں گے۔ یہ شرط سب کے لیے حیران کن تھی، مگر والدین کی یہ خواہش شاکرہ کے بہتر مستقبل کے لیے تھی۔

ریحان کے والدین نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، لیکن اندرونی طور پر وہ اس بات سے خوش نہ تھے۔ ریحان کا بھائی فیضان، جو انجینئرنگ کا طالب علم تھا، اپنے بڑے بھائی کی خوشی کی خاطر شاکرہ کو دیکھنے پر راضی ہو گیا۔ جب اس نے شاکرہ سے ملاقات کی، تو حیرت انگیز طور پر اس نے اسے قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فیضان نے کہا کہ وہ شاکرہ کی معصومیت اور شخصیت سے متاثر ہوا ہے، اور اس کی معذوری کو کبھی رکاوٹ نہیں سمجھے گا۔

یوں دونوں بھائیوں نے ہم دونوں بہنوں سے شادی کی۔ پہلے شاکرہ کی رخصتی ہوئی، اور پھر میری۔ یہ ایک انہونی بات تھی، مگر خدا کی کرم نوازی تھی۔ شادی کے بعد معلوم ہوا کہ فیضان شاکرہ سے بے حد محبت کرتا ہے، اور اس نے نہایت خوبصورتی سے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ شاکرہ اور فیضان کو اللہ نے چار خوبصورت بچوں سے نوازا۔ معذوری کے باوجود شاکرہ ایک بہترین ماں ثابت ہوئی، لیکن ان بچوں کی پرورش میں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔
شاکرہ کی معذوری نے کبھی ہمارے تعلقات کو متاثر نہیں کیا، بلکہ ہماری بہنوں کی محبت اور مضبوط ہو گئی۔ آج بھی ہم سب ایک ہی گھر میں خوشی خوشی رہتے ہیں، اور یہ بچے ہمیں بڑی امی اور چھوٹی امی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں دکھایا کہ محبت اور قربانی سے زندگی کے ہر امتحان کو جیتا جا سکتا ہے۔ یہ کہانی صرف ہمارے خاندان کی نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کی حکمت کبھی کبھی انہونی کو ہونی میں بدل دیتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے