امرتسر سے جالندھر کی طرف جائیں تو مین روڈ سے پندرہ بیس میل ہٹ کر " جیون" نامی گاؤں ہے۔ خالص دیہاتی علاقہ ہے۔ بجلی پانی تو دور کی بات ہے اُس زمانے میں وہاں سڑک کا بھی نام ونشان نہیں تھا۔ ایک نیم پختہ راستہ جسے ” پکی“ کہا جاتا تھا گاؤں سے قریباً چھ میل کے فاصلے پر تھا۔ یوں تو یہ ایک عام سا گاؤں تھا لیکن وہاں ایک خاص وجہ سے اردگرد کے علاقے میں اس کی بہت مشہوری ہو چکی تھی۔ یہ خاص وجہ دینو پہلوان تھا .... دینو پہلوان جس شخص کا نام تھا وہ کوئی ساڑھے چھ فٹ اونچا تھا۔ شانوں کی چوڑائی تین فٹ سے کچھ ہی کم ہوگی۔
رانوں جیسے بازو اور ستونوں جیسی رانیں، رنگ گندمی ، گردن موٹی اور آنکھیں بے حد روشن ۔ بڑا شاندار جسم تھا۔ دینو پہلوان کی عمر بتیس برس کے قریب ہو چکی تھی لیکن اس کی چمک دمک اب بھی چڑھتے سورج کی طرح تھی ۔ " پکی" کے قریب ایک بہت بڑا اکھاڑہ تھا۔ ہر دو ڈھائی مہینے بعد یہاں ایک بڑا دنگل ہوتا تھا۔ اردگرد کے دیہات سے چھوٹے بڑے پہلوان پہنچتے تھے ۔ ڈگا بجتا تھا اور خوب زور آزمائی ہوتی تھی۔ مجھے جیون کے تھانے میں تعینات ہوئے چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوئے تھے اور اس دوران میں " پکی " پر ہونے والے تین دنگل دیکھ چکا تھا۔ پہلا دنگل تو میں اپنی مرضی سے دیکھنے چلا گیا تھا۔ پھر مجھے مجبوراً جانا پڑا تھا۔ علاقے کے ڈی سی صاحب کشتیوں کے شوقین تھے اور اکثر دنگل ملاحظہ کرنے آتے رہتے تھے۔ وہ بتائے بغیر چپکے سے آجاتے تھے لہذا ڈی ایس پی نے مجھے ہدایت کی تھی کہ میں دنگل کے موقع پر" پکی " پہنچ جایا کروں ۔
تین دنگل دیکھنے کے بعد اب مجھے بھی کشتیوں میں مزہ آنے لگا تھا اور چیدہ چیدہ پہلوانوں کے نام مجھے یاد ہو گئے تھے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ کون کس کا پٹھا ہے۔ کس پہلوان کا تعلق کس دف سے ہے اور کون کون سے خلیفے اس اکھاڑے میں معتبر سمجھے جاتے ہیں . اب یہ بات مجھ پر واضح ہو چکی تھی کہ دنیو نہ صرف اس اکھاڑے کا بلکہ اردگرد کے کئی اکھاڑوں کا مانا ہوا پہلوان ہے اور چھوٹے بڑے تمام پہلوان اسے استاد کا درجہ دیتے ہیں۔ یوں تو دینو پہلوان کے کئی پٹھے تھے لیکن ان میں شہباز بجلی نام کا ایک نوجوان زیادہ مشہور تھا۔
میں اسے دیکھنا چاہتا تھا لیکن اتفاقا ابھی تک اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ انہی دنوں جیون کے گلی کوچوں میں ایک گرما گرم خبر گشت کرنے لگی۔ جدھر دیکھو یہی بات ہو رہی ہے جس وقت دیکھو یہی موضوع چھڑا ہوا ہے۔
معلوم ہوا کہ ضلع جالندھر کے ایک اُٹھتے ہوئے پہلوان وچن سنگھ نے دینو کو مقابلے کی دعوت دی ہے۔ پہلوانی زبان میں اسے مانگنا" کہتے ہیں یعنی وچن سنگھ نے دینو پہلوان کو مانگا ہے۔ دینو نے بھی یہ دعوت قبول کرلی تھی اور اب فروری کے دوسرے ہفتے میں یہ کشتی پکی کے اکھاڑے میں ہونا تھی ۔ کشتی ہونے میں ابھی دو ماہ باقی تھے لیکن دونوں پہلوانوں نے زور و شور سے تیاریاں شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ عام لوگوں میں بھی جوش و خروش کی لہر دوڑ نے لگی۔ دینو پہلوان ہر صبح گاؤں کے اکھاڑے میں زور کرتا۔ ایک دن صبح سویرے میں سیر کو نکلا تو اسے دیکھنے گیا۔ وہ اکیلا تین پہلوانوں سے کشتی لڑ رہا تھا۔ تینوں بُری طرح ہانپ چکے تھے لیکن دینو تازہ دم دکھائی دے رہا تھا۔ بڑا شاندار جسم تھا اس کا ۔ آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ بھرپور جوانی میں وہ کیسا ہوگا۔
دینو کے مقابلے میں وچن سنگھ کم عمر تھا۔ اس کی عمر بائیس تئیس سال بتائی جاتی تھی۔ یعنی وہ دینو سے قریباً دس سال چھوٹا تھا۔ ایک طرح سے یہ تجربے اور شبہ زوری کا مقابلہ تھا۔ وچن سنگھ کو دیکھنے والے بتاتے تھے کہ وہ فولادی بازوؤں والا ایک بے انتہا پھرتیلا پہلوان ہے۔ پھرتی اور طاقت نے مل کر اسے ناقابل شکست بنا دیا ہے اور ابھی تک اس نے اکھاڑے میں ایک بھی شکست نہیں کھائی۔ وچن سنگھ کے ایک دو داؤ بڑے مشہور تھے۔ ان میں ایک داؤ یہ تھا کہ وہ حریف کی گردن اپنے داہنے بازو میں کس لیتا تھا اور اس وقت تک نہیں چھوڑتا تھا جب تک حریف بے دم نہیں ہو جاتا تھا۔
دھیرے دھیرے دونوں پہلوانوں کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کا جوش و خروش بھی انتہا کو چھونے لگا۔ دونوں پہلوانوں کے حمایتی بڑے بڑے دعوے کرنے میں مصروف تھے۔ آخر خدا خدا کر کے مقابلے کا دن آپہنچا۔ یہ اوپن ایئر مقابلہ تھا۔ نہ سٹیڈیم نہ کوئی ٹکٹ ، کھلا اکھاڑہ تھا اور تماشائیوں کا جم غفیر سینکڑوں ہی تماشائی تھے۔ لوگوں نے چھوٹے بچوں کو کندھوں پر چڑھا رکھا تھا۔ قریبی درختوں پر بے شمار افراد چڑھے ہوئے تھے ۔ بڑے بڑے ڈھولوں پر ڈگا لگایا جا رہا تھا اور اکھاڑے کے منتظمین لوگوں کو بڑی بڑی قسمیں دے کر گھیرا کھلا کرنے کی تلقین کر رہے تھے۔
پہلے چھوٹے جوڑ ہوئے ۔ لڑکوں اور نوخیز پہلوان نے اپنی طاقت کے جوہر دکھائے۔ پھر چند بڑے جوڑ ہوئے اور آخر میں دونوں نامی گرامی پہلوان میدان میں اتر آئے۔ دیکھنے میں دونوں پیارے نظر آتے تھے۔ ایک تجربے اور فن کا نچوڑ ، دوسرا طاقت اور ہوشیاری کا نمونہ ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہ نفس نفیس تماشائیوں میں موجود تھے۔
کشتی کا آغاز ہوا۔ دونوں پہلوانوں نے ایک دوسرے کے جسم پر مٹی ملی۔ پھر ایک دوسرے کی گردن پر زور دار ہاتھ مارے۔ اسے کسوٹا مارنا کہتے ہیں ۔ کسوٹے کا مقصد مقابل پہلوان کی طاقت کا اندازہ لگانا ہوتا تھا۔ کسوٹے کے بعد داؤ پیچ شروع ہوئے۔ پہلے دونوں پہلوان پھونک پھونک کر قدم رکھتے رہے۔ پھر انہوں نے دلیرانہ حملے کئے۔ ایک مرتبہ وچن سنگھ نے دینو کو اٹھا کر پٹخا۔ دو مرتبہ دینو نے اسے منہ کے بل گرایا۔ ہر بار تماشائیوں نے فلک شگاف نعرے لگائے۔ وچن سنگھ نے ابھی تک کسی اکھاڑے میں شکست نہیں کھائی تھی۔
لہذا بہت سے تماشائیوں کے دل میں یہ خواہش دبی ہوئی تھی کہ وہ وچن سنگھ کو کشتی ہارتے دیکھیں۔ خاص طور پر مسلمان تماشائی تو دل و جان سے دینو کی فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کشتی شروع ہونے کے دس منٹ بعد دنیو نے اچانک وچن سنگھ کو آگے رکھ لیا اور اسے سینے کے زور سے زبردست رگڑے دینے لگا۔ دینو کے حمایتی " شاؤوا جواناں“ اور یاعلی کے نعرے بلند کرنے لگے۔ دینو نے مسلسل دس منٹ تک وچن کو نیچے رکھا لیکن اسے چت نہ کر سکا اور پھر اچانک وہ بات ہو گئی جس کی کسی نے توقع بھی نہیں کی تھی ۔ اپنا دفاع کرتے کرتے وچن سنگھ اچانک بجلی کی طرح تڑپا۔ دینو اس کے اوپر سے ہوتا ہوا عین اکھاڑے کے وسط میں گرا اور اس کے ساتھ ہی اس کی گردن وچن کے آہنی شکنجے میں آگئی۔ یہ وچن کی سب سے خطرناک پکڑ تھی۔ اکھاڑے کے کنارے بیٹھے تجربہ کار خلیفوں نے واہ واہ کے نعرے بلند کئے اور ان میں سے کچھ کے چہرے بُری طرح لٹک گئے ۔ گردن قابو میں آتے ہی دینو نے خود کو چھڑانے کے لئے زبردست کوشش کی۔
وہ وچن کو اٹھا کر کئی گز آگے لے گیا لیکن پھر نڈھال سا ہو کر گھٹنوں کے بل گر گیا اگلے آدھ گھنٹے میں اس نے سرتوڑ جد وجہد کی لیکن گردن چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس کی حالت بڑی پتلی تھی ۔ آنکھیں حلقوں سے باہر نکل رہی تھیں اور ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑتے جارہے تھے ۔ آخر وچن سنگھ نے بڑی پھرتی کے ساتھ دھوبی پٹکے جیسا ایک داؤ مارا اور دینو کو عین ڈی سی صاحب کے قدموں میں چت کر دیا۔ ذرا ہی دیر بعد وہ دینو کی چھاتی پر بیٹھا ست سری اکال کے نعرے لگا رہا تھا۔ اکھاڑے میں جیسے طوفان آگیا۔ وچن کے حمایتیوں نے ناچ ناچ کر آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ وچن کو پھولوں کے ہاروں سے لاد کر کندھوں پر چڑھایا گیا اور اکھاڑے کے چکر لگائے گئے۔
اس جیت پر مختلف زمینداروں کی طرف سے وچن سنگھ کو انعامات بھی دیئے گئے جن میں ڈی سی صاحب کا انعام مبلغ پانچ سو روپیہ بھی شامل تھا۔ دنیو کے لئے یہ دہرا صدمہ تھا ایک تو وہ کشتی ہارا دوسرے اس کی گردن بھی ناکارہ ہو گئی۔ اس کی گردن پر زبردست چوٹ آئی تھی نیم بے ہوشی کی حالت میں اسے امرتسر ہسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا فریکچر ہو گیا ہے۔ بروقت طبی امداد سے دینو پہلوان کی جان تو بچ گئی لیکن گردن دوبارہ سیدھی نہ ہوسکی پورے ایک ماہ بعد جب وہ ہسپتال سے گاؤں
واپس آیا تو اس وقت بھی اس کی گردن اک طرف کو جھکی ہوئی تھی۔
✩============✩
انہی دنوں گاؤں میں ایک تازہ خبر گشت کرنے لگی۔ یہ خبر اتنی تیزی سے ابھری اور پھیلی کہ اگلے پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ میں تھانے میں بیٹھا تھا کہ بلال شاہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا میرے کمرے میں آیا۔ چہرہ جوش سے تمتما رہا تھا۔ کہنے لگا۔ " کچھ سنا ہے آپ نے کیا ہوا۔ دینو پہلوان کا پٹھا شہباز پہلوان گاؤں واپس آگیا ہے اور آتے ساتھ ہی اس نے وچن سنگھ کو چیلنج کر دیا ہے۔ بلال شاہ یہ خبر ایسی دلچسپی سے سنا رہا تھا جیسے وہ خود بھی کوئی خلیفہ رہا ہو اور وچن سنگھ کو ہرانا اس کی زندگی کا نصب العین ہو۔ میں نے کہا۔ شاہ صاحب! ہم یہاں کشتیاں کرانے نہیں امن و امان قائم رکھنے آئے ہیں۔
لہذا آپ اس طرف اتنا زیادہ دھیان نہ دیں۔ وہ بولا ۔ خان صاحب! ماحول کا اثر تو بندے پر ہوتا ہی ہے ناں۔ خود آپ پر بھی اثر ہوا ہے۔ کتنے دنگل دیکھ چکے ہیں آپ؟ میں نے کہا۔ 'دنگل دیکھنا میری ڈیوٹی میں آ گیا ہے۔ اس لئے چلا جاتا ہوں لیکن تمہاری کون سی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے وہاں ۔ میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ تم ایک نوجوان پہلوان کو اپنا پٹھا بتا رہے ہو اور کہتے پھرتے ہو کہ تم اسے دنگل لڑاؤ گے۔“
وہ شرمسار سا ہو گیا۔ ہنس کر کہنے لگا۔ ”جی نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں خلیفہ بن کر کیا کروں گا۔ وہ تو ویسے ہی کرموں جٹ کے لڑکے کے ساتھ ہنسی مذاق ہے۔ میں اسے مذاق میں اپنا پٹھا کہتا ہوں۔“ میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ " یہ شہباز پہلوان وہی ہے ناں جسے دینو کا سب سے لائق شاگرد کہا جاتا ہے۔" ”ہاں جی ۔ بلال شاہ نے اقرار میں سر ہلایا۔ ” بڑا سوہنا جوان ہے جی ۔ قد کاٹھ بھی بالکل اپنے استاد جیسا ہے۔ رتی بھر فرق نہیں۔ ساڑھے چھ فٹ سے کم قد نہیں ہوگا اور چھاتی تو جیسے لاہور قلعے کی دیوار ہے۔ اس وقت بڑے غصے میں ہے وہ کہتا ہے جب تک استاد کی شکست کا بدلہ نہیں لوں گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ آج صبح میں نے اسے گاؤں کے اکھاڑے میں زور کرتے دیکھا ہے۔ بندے کو یوں اچھال کر پھینک دیتا ہے جیسے سنگترے کا چھلکا ہو ۔ میرے سامنے اس نے چار پہلوانوں سے کشتی لڑی ہے مگر مجال ہے کہ پیروں کے علاوہ کہیں اکھاڑے کی مٹی لگی ہو اسے ۔"
بلال شاہ شہباز پہلوان کی تعریفوں کے پل باندھ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ یہ شہباز اب تک تھا کہاں؟“ بلال شاہ بولا ۔’ کچھ پتہ نہیں جی۔ سنا ہے کہ استاد دینو پہلوان کسی بات سے اس پر ناراض تھا۔ ان میں تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔ پھر شہباز گاؤں سے غائب ہو گیا۔ پچھلے چھ سات ماہ میں اس نے کوئی خاص کشتی بھی نہیں لڑی ۔ بلال شاہ نے جو اطلاع دی تھی وہ حرف بہ حرف درست نکلی ۔ شہباز پہلوان نہ صرف گاؤں واپس آچکا تھا بلکہ آتے ساتھ ہی اس نے وچن سنگھ جالندھر والے کو مقابلے کی دعوت بھی دے دی تھی۔ وچن سنگھ نے دعوت قبول کر لی تھی اور ٹھیک ایک ماہ بعد پکی“ کے اکھاڑے میں کشتی ہونا طے پائی تھی۔ کشتی کی تاریخ طے ہوتے ہی دونوں پہلوان تیاریوں میں جت گئے ۔
لوگوں کا جوش و خروش اس دفعہ دو گنا تھا۔ ہر طرف یہ خبر پھیل گئی کہ شہباز پہلوان اپنے استاد دینو کی گردن توڑنے والے وچن سنگھ سے مقابلہ کرے گا۔ دونوں پہلوان ہر طرح جوڑ کے تھے۔ وچن سنگھ کی عمر تیس سال اور شہباز کی عمر قریبا چوبیس سال تھی۔ وزن بھی قریباً برابر ہی تھا۔ ہاں شہباز نکلتے قد اور توازن جسم کا مالک تھا جبکہ وچن سنگھ گٹھے ہوئے جسم کا اور چوڑا چکلا تھا۔ وچن کے بازوؤں میں فولاد کی سی قوت تھی اور اس کے شکنجے میں آئی ہوئی گردن لیموں کی طرح نچڑ جاتی بھی۔ دوسری طرف شہباز بھی حو صلے کا پہاڑ تھا۔ اسے شہباز بجلی بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے حریف کے نیچے ہو یا اوپر ایک ہی مہارت سے داؤ استعمال کرتا ہے۔
ایک دم اپنے حریف کو یوں اچھال کر دور پھینک دیتا ہے جیسے سچ مچ کرنٹ مار دیا ہو۔ میں نے ایک دو مشہور خلیفوں سے اس کے بارے میں سنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پہلوان لنگوٹ کا پکا رہے اور اپنا ریاض جاری رکھے تو عنقریب پورے پنجاب میں اس کی ٹکر کا پہلوان نہیں ملے گا۔
مقابلے کے روز اکھاڑے میں دور دور تک لوگ نظر آرہے تھے ۔ حسب معمول شروع میں چھوٹے جوڑ ہوئے پھر بڑے جوڑوں نے طاقت کے جوہر دکھائے .... دل دھڑک رہے تھے اور شدت سے بڑی کشتی کا انتظار تھا لیکن ڈی سی صاحب ابھی تک نہیں پہنچے تھے اور ان کی آمد سے پہلے بڑی کشتی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کشمکش میں ساڑھے پانچ بج گئے ۔ آخر خدا خدا کر کے ڈی سی کی سیاہ جیپ نظر آئی۔ ان کے ساتھ ایک ایس پی صاحب اور ایک سول جج بھی تھے۔ راستے میں جیپ خراب ہونے سے انہیں تاخیر ہو گئی تھی ۔ بہر طور ان کے پہنچتے ہی بڑی کشتی شروع کرا دی گئی ۔
میں نے پہلی بار شہباز پہلوان کو جانگیے میں دیکھا۔ اس کا جسم جیسے فولاد میں تراشا ہوا تھا۔ چھاتی ، کندھوں اور بازوؤں پر بے تحاشا بال تھے۔ چہرے سے سخت گیر نظر آتا تھا لیکن جب بولتا تھا تو پتہ چلتا تھا کہ اس کے اندر ایک خوبصورتی یا کشش موجود ہے۔ اس وقت اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور آنکھوں میں جیسے ایک خاموش طوفان پل رہا تھا۔ دونوں پہلوان آمنے سامنے ہو کر قہر ناک نظروں سے ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔
جسموں پر مٹی ملی گئی اور پھر کشتی کا آغاز ہوا۔ یہ دو جوان پہلوانوں کی کشتی تھی لہذا بڑی تیزی سے شروع ہوئی۔ چند لمحوں کے لئے کچھ پتہ نہیں چلا کیا ہو رہا ہے۔ پھر نظروں نے کام کیا تو تماشائیوں نے شہباز کو وچن سنگھ کے نیچے پایا۔ وہ اوندھا پڑا تھا اور اپنی گردن و چن سنگھ کی خونی گرفت سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کنارے پر بیٹھے خلیفہ حضرات چیخ چیخ کر اپنے اپنے پہلوان کو ہدایت دے رہے تھے ۔ بازو پکڑو، ٹانگ کھینچو، پشتک، نونددر قلع جنگ، پتہ نہیں وہ کیا کیا الفاظ استعمال کر رہے تھے کشتی طول پکڑ رہی تھی اور اندھیرا گہرا ہوتا جارہا تھا۔ دفعتا شہباز نے یا علی کا نعرہ لگایا اور ایک جھٹکے کے ساتھ وچن سنگھ کے نیچے سے نکل آیا۔ بڑی پھرتی کے ساتھ اس نے وچن کو اوندھا کیا اور اس کی کمر پر یوں بیٹھ گیا کہ اس کا چہرہ وچن کے پیروں کی طرف تھا۔ وچن کی دونوں ٹانگیں شہباز کے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی تھیں۔ وہ ٹانگیں اوپر اُٹھا کر کمر پر دباؤ ڈال رہا تھا۔
یہ بڑا خطرناک داؤ تھا۔ وچن سنگھ کی کمر ٹوٹ سکتی تھی۔ ایک سول جج صاحب چلاتے ہوئے اکھاڑے میں داخل ہو گئے اور وچن کو شہباز کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگے لیکن شہباز فیصلہ کن داؤ لگا چکا تھا اور اب حریف کو چت کر دینا چاہتا تھا۔ شاید وچن سنگھ ہار مان لیتا اور اس موقع پر زیادہ مزاحمت نہ کرتا تو وہ حادثہ پیش نہ آتا جو آیا اور اکھاڑے کی مٹی کو انسانی خون سے رنگین کر گیا۔ وچن سنگھ نے خطرناک داؤ میں پھنس کر بھی اندھا دھند زور لگایا نتیجے میں اس کی کمر درمیان سے گنے کی طرح ٹوٹ گئی اور وہ اکھاڑے کے عین وسط میں گر کر تڑپنے لگا۔ وہ بازی ہار چکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی بازی بھی ہار چکا تھا۔ تاہم فوری طور پر کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ یہ چوٹ اتنی خطرناک ثابت ہوگی ۔ شہباز کی جیت کے فلک شگاف نعروں کے دوران آزمودہ کار استاد آگے بڑھے اور انہوں نے لحیم شحیم وچن سنگھ کو اُٹھا کر بٹھانے کی کوشش کی ۔
تکلیف کی شدت سے وچن سنگھ بے ہوش ہو گیا اور اس کا جسم بُری طرح جھٹکے کھانے لگا ٹھیک دو ماہ پہلے جو شخص اسی اکھاڑے میں اپنے حریف کی گردن بازو میں دبوچے بڑھکیں مار رہا تھا اب زندگی اور موت کی دہلیز پر تڑپ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وچن سنگھ کی آنکھیں تارے لگ گئیں وہ مر چکا تھا لیکن بہت سے لوگ ابھی اس بات سے بے خبر تھے۔ وہ وچن سنگھ کو ہسپتال لے جانے کی باتیں کر رہے تھے۔ ڈی سی صاحب کی جیپ اکھاڑے کے اندر لائی گئی لیکن کئی من وزنی لاش کو اٹھا کر جیپ میں ڈالنا بھی آسان کام نہیں تھا۔ اسی دوران اکھاڑے میں داخل ہونے والا سول جج ہری کرشن سنگھ زور زور سے چلانے لگا۔ یہ قتل ہے۔ گرفتار کرو اس حرامی کو کہاں ہے وہ ؟ پھر جج صاحب کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ وہ ڈانٹ کر بولے ۔ ” تم ادھر کھڑے کیا منہ دیکھ رہے ہو۔ اس کو پکڑو یہ پولیس کیس ہے... پکڑو اسے۔“
جیسا کہ بعد میں پتہ چلا یہ جج صاحب جالندھر سے ہی آئے تھے اور ان کا شمار وچن سنگھ کے خاص چاہنے والوں میں ہوتا تھا۔ اس دوران ایس پی نے بھی مجھے اشارہ کر دیا کہ میں مخالف پہلوان کو غائب نہ ہونے دوں۔ میں نے تیزی سے ادھر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ شہباز کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے اپنے سب انسپکٹر اور حوالدار سے کہا کہ وہ شہباز پہلوان کو دیکھیں۔ ہم نے جلدی جلدی مجمع کو کھنگالا لیکن شہباز وہاں نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ ہمیں حرکت میں آتے دیکھ کر ہی وہاں سے نکل گیا ہے۔
اکھاڑے میں وچن سنگھ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ میری نگاہوں میں اب بھی کبھی کبھی وہ منظر گھوم جاتا ہے۔ جب میں نے دیوہیکل وچن کومٹی میں ہاتھ پاؤں پھینکتے اور دم توڑتے دیکھا تھا۔ بڑا دہشت ناک نظارہ تھا۔ وچن سنگھ کی جان پہچان جالندھر کے اعلیٰ پولیس افسروں میں تھی۔ وہ خود بھی کچھ عرصہ پولیس کی نوکری کر چکا تھا۔ اس کی موت پر جالندھر کے کئی تھانوں کی پولیس حرکت میں آگئی ۔ وچن سنگھ کی موت کے تین روز بعد نہال سنگھ نامی ایک انسپکٹر میرے پاس پہنچا۔ وہ جالندھر سے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اسے شہباز پہلوان کی گرفتاری پر مامور کیا گیا ہے۔ (شہباز پہلوان پر قتل کا پرچہ پہلے روز ہی میرے تھانے میں کٹایا جا چکا تھا ) میں نے انسپکٹر نہال سنگھ کو پورے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ میں اور میرا عملہ ہر طرح اس کی مدد کریں گے مگر نہال سنگھ کا رویہ پہلے دن سے ہی مخالفانہ تھا۔
وہ ایک اکھڑ مزاج تھانیدار تھا۔ ہاتھ پاؤں بہت چوڑے چوڑے تھے اور مقابلے میں سر مختصر تھا۔ وہ پنجابی مثال اس پر صادق آتی تھی " سر وڈے سرداراں دے تے پیر وڈے گنواراں دے۔ غصہ اس میں بے پناہ تھا۔ تفتیش کے پہلے روز ہی وہ شہباز پہلوان کے گھر والوں کو پکڑ کر امرتسر ہیڈ کوارٹر لے گیا۔ گھر والوں میں شہباز کی ماں کے علاوہ اس کی دو جوان بہنیں بھی تھیں۔ مردوں کی غیر موجودگی میں عورتوں کو پکڑ کر تھانے لے جانا ایک نہایت گھٹیا حربہ تصور کیا جاتا تھا لیکن نہال سنگھ جیسے تھانیدار اکثر اس بات کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اس واقعے سے گاؤں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
گاؤں کے معزز افراد نے فیصلہ کیا کہ اگر ایک دو روز تک گاؤں کی عورتوں کو چھوڑا نہیں گیا تو انگریز ایس پی کی رہائش گاہ پر جلوس لے جایا جائے گا۔ حالات خراب ہو سکتے تھے لہذا اگلے ہی روز میں امرتسر پہنچا اور ہیڈ کوارٹر میں نہال سنگھ سے ملاقات کی۔ شہباز پہلوان کی والدہ اور بہنوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ رو رو کر ہلکان ہو رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ کل سے انہیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ تھانیدار نہال سنگھ ان سے فحش زبان میں باتیں کرتا ہے اور اس نے انہیں تھپڑ بھی مارے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کل رات دس بجے کے قریب نہال سنگھ گروالی دروازے سے ایک نوجوان لڑکی پکڑ کر لایا ہے۔ اس لڑکی کا نام نجمہ ہے۔
نہال سنگھ کا خیال ہے کہ یہ لڑکی چوری چھپے شہباز سے ملتی تھی ۔ مجھے نہال سنگھ کی تیز رفتاری پر حیرانی ہو رہی تھی۔ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اس نے نہ صرف شہباز کی محبوبہ کا سراغ لگایا تھا بلکہ اسے تفتیش میں بھی بٹھا لیا تھا۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ وہ واقعی کوئی ایسا کارنامہ انجام دے چکا ہے۔ میں اس سے ملا تو وہ بدستور لڑکی سے پوچھ گچھ کر رہا تھا۔ لڑکی کی عمر بائیس سال کے لگ بھگ تھی۔ وہ کوئی ایسی خوبصورت بھی نہیں تھی۔ درمیانه سا قد ، رنگ البتہ گورا تھا۔ وہ ایک نرسنگ کالج میں پڑھتی تھی اور کالج ہی کے ہاسٹل میں رہتی تھی۔ نہال سنگھ کا خیال تھا کہ وہ شہباز پہلوان سے ملتی ہے اور دونوں میں ناجائز تعلقات قائم ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکی شہباز پہلوان سے ملنے دو مرتبہ سپیشل لاہور جاچکی ہے۔
اس کے علاوہ یہ ایک مرتبہ گاؤں بھی گئی تھی اور اس بات کی گواہی شہباز کی ماں اور بہن بھی دے سکتی ہیں۔ اس لڑکی کی خاطر شہباز پہلوان نے تین ماہ پہلے لاہور میں ایک شہری غنڈے کو تھپڑ مار کر اس کا جبڑا توڑ ڈالا تھا اور یہ کیس ابھی تک عدالت میں ہے۔ میں نے حیرت سے لڑکی کی طرف دیکھا۔ وہ شکل وصورت ، قد کاٹھ ، بول چال غرض ہر لحاظ سے ایک معمولی لڑکی تھی۔ اس کی خاطر شہباز پہلوان جیسا آدمی لوگوں کے جبڑے توڑے گا مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ میں نے لڑکی کا موقف سننا بھی ضروری سمجھا۔ نہال سنگھ کو آنکھ مار کر میں نے تھوڑی دیر کے لئے باہر بھیج دیا اور بڑے نرم ملائم لہجے میں لڑکی سے باتیں کرنے لگا۔ وہ نہال سنگھ سے بہت ڈری ہوئی تھی۔ بار بار قسمیں کھا رہی تھی کہ اس کا شہباز پہلوان سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اسی طرح اس کی عزت کرتی ہے جس طرح دوسرے لوگ کرتے ہیں۔ میں نے اس سے پوری تفصیل پوچھی تو وہ بتانے لگی۔
شہباز پہلوان کو میں نے سب سے پہلے امرتسر کے ہسپتال میں دیکھا تھا۔ یہ کوئی ایک سال پہلے کی بات ہے۔ گجرات کے ایک موجہ پہلوان سے اس کی کشتی ہوئی تھی ۔ شہباز کی دو انگلیاں چیری گئی تھیں۔ وہ مرہم پٹی کرانے ہسپتال آیا تھا۔ میں نے ہی اس کی مرہم پٹی کی تھی۔ اس کے بعد چار پانچ دفعہ اس سے ہسپتال میں ہی ملاقات ہوئی۔ میں اس کی عزت کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی بات میرے دماغ میں آہی نہیں سکتی اور نہ شہباز پہلوان کے دماغ میں ہے۔ وہ اکثر مجھے بہن" کہہ کر بلاتا ہے۔"
میں نے پوچھا۔ یہ لاہور جانے والا کیا معاملہ ہے؟“ وہ بولی۔ " میں خاص طور پر شہباز پہلوان سے ملنے لاہور نہیں گئی تھی۔ مجھے وہاں ایک دفتری کام تھا۔ اچھرے کی طرف جانا ہوا۔ مجھے معلوم تھا آج کل پہلوان بھی اُدھر ہی ہوتا ہے۔ میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی تھا۔ میں یونہی اس کی طرف چلی گئی۔ وہ وہاں چوہدری کریم نامی شخص کے ڈیرے پر رہتا تھا۔ ڈیرے پر دو تین آدمی اور بھی موجود تھے ۔ ان کے سامنے ہی شہباز پہلوان سے سلام دعا ہوئی۔ میرا چھوٹا بھائی بھی ساتھ تھا۔ پہلوان نے ہمیں چائے وغیرہ پلوائی ۔ ہم جب ڈیرے سے واپس آرہے تھے تو ایک تنگ سی گلی میں دولڑکوں نے مجھے چھیڑا۔ وہ صورت سے ہی چھٹے ہوئے غنڈے لگتے تھے ۔ میں نے ایک لڑکے کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ وہ دونوں مجھ پر پل پڑے اور کپڑے پھاڑنے لگے۔ اتنے میں پہلوان بھی وہاں پہنچ گیا۔ پہلوان یہاں نیا نیا آیا تھا اور کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا۔ لڑکوں نے بھی نہیں پہچانا ۔ ورنہ وہ اس کو گریبان سے کیوں پکڑتے ۔ پہلوان غصے میں آ گیا۔ اس نے ایک لڑکے کو سر سے بلند کر کے گندی نالی میں پھینک دیا اور دوسرے کے منہ پر ایسا تھپڑ مارا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔
0 تبصرے