پہلوان اور مریدنی - پارٹ 2

urdu font stories online 73

پہلوان نے میرے لئے اتنی بڑی مصیبت مول لی تھی میرا فرض تھا کہ سوکھے منہ سے اس کا شکریہ ادا کردوں۔ لاہور میں جب دفتری کام ختم ہوا تو امرتسر آنے سے پہلے میں دس پندرہ منٹ کے لئے پہلوان سے ملنے گئی تھی۔ میرا چھوٹا بھائی حسنین اس وقت بھی میرے ساتھ تھا۔

میں نے نجمہ سے مختلف سوالات کئے اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا رہا۔ پندرہ ہیں منٹ بعد نہال سنگھ ارنے بھینسے کی طرح دندناتا ہوا پھر اندر آ گیا۔ وہ بالکل بھینسے ہی کی طرح نتھنے پھلا پھلا کر لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔ میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے دوسرے کمرے میں لے آیا۔ ہاں کیا کہتی ہے؟ نہال سنگھ نے بے رخی سے پوچھا۔

میں نے کہا۔ ” وہ تو بھائی بہن کا رشتہ بتا رہی ہے۔" اس نے لڑکی کو ایک غلیظ گالی دی اور بولا ۔ ” بڑے رشتے دیکھے ہیں ایسے۔ چکر دے رہی ہے اُلو کی پٹھی ۔ یار ہے اس کا یار اور کچھ نہیں ہے۔“لیکن اس لڑکی میں مجھے تو کوئی خاص بات نظر نہیں آرہی ۔ عام سی شکل صورت ہے۔

پہلوان نے مرنا ہی تھا تو کسی چیز پر مرتا۔“ وہ تیکھے لہجے میں بولا ۔ عام سی شکل صورت ہے لیکن لڑکی تو ہے ناں۔ عورتوں والے سارے ہتھیار ہیں اس کے پاس اور جب ہتھیار پورے ہوں تو مرد کا ستیا ناس کر دیتی ہے یہ عورت ذات .... اس معاملے میں تمہارا تجربہ مجھ سے بہت کم ہے۔ میں نے دل میں کہا۔ اس میں شبے والی کون سی بات ہے۔ نہال سنگھ کھڑکی سے منہ نکال کر کسی ماتحت کو آوازیں دینے لگا۔ غلام بخشا او غلام بخشا اندر آ بات سن ذرا چند لمحے بعد ایک پکی عمر کا ہیڈ کانسٹیبل ڈھیلی ڈھالی وردی پہنے اندر داخل ہوا، کھٹاک سے سیلوٹ کرنے کے بعد بولا ۔ جی صاحب۔“ نہال سنگھ بولا۔ اس کا نام غلام بخش ہے۔ تمہارے ہی تھانے کے پاس پکی کا رہنے والا ہے۔ پکی کے اکھاڑے کی ساری خفیہ اور ظاہر باتیں اسے معلوم ہیں ۔" پھر وہ غلام بخش سے مخاطب ہوا۔ ”بتا اوئے غلام بخشا۔ کیا بات مشہور ہے اس چڑی پہلوان کے بارے میں ۔ چڑی پہلوان سے اس کی مراد شہباز پہلوان تھا۔ غلام بخش نے نیچے لٹکی ہوئی مونچھوں کو مروڑا دیا اور بولا ۔ "جناب! میں نے کئی بندوں سے سنا ہے کہ امرتسر میں شہباز پہلوان کی کوئی معشوق رہتی ہے۔ شہباز پہلوان اکثر اس سے ملنے امرتسر میں آتا رہتا ہے۔

بات اتنی ہی کہوں گا جی جتنی معلوم ہے۔ اپنی طرف سے کچھ نہیں لگاؤں گا۔ پتہ نہیں وہ لڑکی سکھ ہے یا مسلمان لیکن ہے ضرور ۔ تھوڑا بہت پڑھی لکھی بھی ہے۔ اس کا لکھا ہوا ایک خط پہلوان کی جیب سے گر گیا تھا اور گاؤں کی چوپال میں پرکاش مستری کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ پرکاش مستری نے ابھی ایک دو سطریں ہی پڑھی تھیں کہ پہلوان کو پتہ چل گیا۔ پہلوان نے خط چھین کر بڑے زور کا گھونسا پرکاش کو مارا تھا۔ وہ گھونسا کھا کر پرکاش کئی روز خون کی الٹیاں کرتا رہا تھا۔ ٹھیک ہوا تو گاؤں سے ایسا غائب ہوا کہ اب تک کسی کو نظر نہیں آیا ۔“

میں نے پوچھا۔ " تمہارا کیا خیال ہے، کیا یہ نجمہ نامی لڑکی اس کی معشوقہ ہو سکتی ہے؟" وہ بولا ۔ " جی غائب کا علم تو خدا ہی جانتا ہے۔ بہرحال یہ کڑی بھی پڑھی لکھی ہے۔ امرتسر کی رہنے والی ہے اور پہلوان سے لاہور جا جا کر ملتی بھی رہی ہے۔ یہ جس کالج میں پڑھتی ہے وہاں کی لڑکیاں بڑی تیز طرار ہیں۔ اللہ معافی دے جی، کچھ بھی کر سکتی ہیں۔" میں نے کہہ سن کر بڑی مشکل سے نجمہ نامی اس لڑکی کی جان انسپکٹر نہال سنگھ سے چھڑائی اور اسے واپس نرسنگ کالج کے ہاسٹل میں بھجوا دیا۔ تاہم انسپکٹر نہال سنگھ پہلوان کی والدہ اور بڑی بہن کو چھوڑنے پر رضامند نہیں ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ پہلوان مفرور ہے۔ ماں بہن کی مصیبت کا سن کر ہو سکتا ہے وہ اپنی گرفتاری دے دے۔ اس نے وعدہ کیا کہ پہلوان کی والدہ اور بہن کو پولیس ہیڈ کوارٹر میں کانٹا چبھنے کی تکلیف بھی نہیں ہوگی۔

میں پہلوان کی چھوٹی بہن کو لے کر گاؤں واپس آ گیا۔ لوگ کافی برہم تھے۔ میں نے گاؤں کے نمبردار ، ماسٹر، پٹواری سمیت چند معزز افراد کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ لوگوں کو پر امن رہنے کی تلقین کریں۔ مظاہرے کرنے یا شور شرابے سے معاملہ سدھرنے کی بجائے بگڑے گا۔ شہباز کی والدہ اور بڑی شادی شدہ بہن پولیس ہیڈ کوارٹر میں ایس پی صاحب کی زیر نگرانی میں ہیں اور ان سے کوئی ناروا سلوک نہیں کیا گیا۔

تیسرے چوتھے روز مجھے ایک اہم خبر ملی اور میری پریشانی نقطہ عروج پر پہنچ گئی ۔ امرتسر ہیڈ کوارٹر سے آنے والے ایک محرر کی زبانی مجھے پتہ چلا کہ انسپکٹر نہال سنگھ کو شہباز پہلوان کا کھوج ملا ہے۔ اس کے مخبروں نے اسے بتایا ہے کہ پہلوان اپنے ایک دوست کے پاس کپور تھلہ میں ٹھہرا ہوا ہے۔ اب انسپکٹر نہال ایک چھاپہ مار پارٹی کے ساتھ کپورتھلہ روانہ ہو رہا ہے اور پہلوان کی ماں بہن کو بھی ساتھ لے جا رہا ہے۔ بڑی خطرناک صورت حال تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ نہال سنگھ کی جلد بازی سے معاملہ بہت بگڑ جائے گا۔

نہال سنگھ ناک کی سیدھ میں چلنے والا شخص تھا۔ اس کی تفتیش کے طریقے وہی گھسے پٹے پرانے تھے۔ اس نے پہلوان کی فوری گرفتاری کو اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا تھا اور وہ کامیابی کے لئے ہر قانونی اور غیر قانونی ہتھکنڈا استعمال کرنے کے لیے تیار تھا۔ اب اس سے بڑھ کر غیر قانونی ہتھکنڈا اور کیا ہوگا کہ وہ پہلوان کو گرفتار کرنے کی مہم میں اس کی ماں اور بہن کو چارے کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ محرر واپس امرتسر جارہا تھا۔ میں نے جلدی جلدی نہال سنگھ کے لئے ایک خط لکھا اور محرر کے حوالے کر دیا۔ اس خط میں میں نے محتاط لفظوں میں نہال سنگھ کو سمجھانے کی کوشش کی تھی اور لکھا تھا کہ وہ اپنی اور ملزم کی جان خطرے میں نہ ڈالے۔ 

اگر پہلوان کا کھوج لگ گیا ہے تو ہم حکمت سے اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کوئی ہوشیار وارداتیا نہیں جو ہمیں جل دے کر نکل جائے ۔ سیدھا سادا بندہ ہے۔ اسے ایک گولی چلائے بغیر بھی قابو کیا جا سکتا ہے۔ میں نے خط میں یہ بھی لکھا کہ میں شام سے پہلے امرتسر پہنچ جاؤں گا اور ہم اکٹھے کپورتھلہ چلیں گے۔ میرا خط دو پہر کے فورا بعد انسپکٹر نہال کو مل گیا لیکن وہ بہت جلدی میں لگتا تھا۔ میرے خیال میں اسے خطرہ تھا کہ میں بھی چھاپہ مار پارٹی میں شامل ہو گیا تو کامیابی کا سہرا اکیلے اس کے سر پر نہیں بندھ سکے گا۔
میں شام کو امرتسر ہیڈ کوارٹر پہنچا۔ بلال شاہ بھی میرے ساتھ تھا۔ ہم ہیڈ کوارٹر پہنچے تو وہاں کچھ سراسیمگی کی حالت نظر آئی۔ 

سب چہرے دھواں دھواں تھے ۔ یہ خبر ایک دھماکے کی طرح ہمارے کانوں میں گونجی کہ کپورتھلہ میں انسپکٹر نہال سنگھ سمیت تین پولیس والے پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور ملزم شہباز پہلوان اپنے زخمی ساتھی سمیت فرار ہو گیا ہے۔ ہم سکتے کی کیفیت میں رہ گئے ۔ کتنی ہی دیر اس اطلاع پر یقین نہیں آیا ۔ قدرت بھی انسان کو کیا تماشے دکھاتی ہے۔ کبھی شکار کے لئے نکلنے والے خود شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی سازش کا تانا بانا بننے والے خود اپنی چالاکی سے مات کھا جاتے ہیں۔ اس اندوہناک حادثے کی تفصیلات جو ہمیں معلوم ہوئیں ان سے پتہ چلا کہ نہال سنگھ اور اس کی پارٹی پر ایک باڑے کے اندر سے فائرنگ کی گئی۔ مویشیوں کا یہ باڑا ایک ویران جگہ پر گھنے درختوں کے اندر تھا۔ انسپکٹر نہال سنگھ نے اس مقام کی ناکہ بندی کرلی اور ملزم شہباز پہلوان کو ہتھیار پھینکنے کا حکم دیا۔ اس حکم کے جواب میں اندر سے اندھا دھند گولیاں چلنے لگیں ۔

 ملزم باڑے کی چھت پر کھڑے تھے اور پولیس پارٹی ان کے عین نشانے پر تھی۔ فائرنگ ہوتے ہی پہلی دو گولیاں نہال سنگھ کی چھاتی پر لگیں اور وہ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ اس کے پاس ہی شہباز کی ماں اور بہن کھڑی تھیں۔
وہ چیختی ہوئی بھاگیں اور ایک بیل گاڑی کے پیچھے چھپ گئیں۔ پھر دونوں طرف سے تابڑ توڑ فائرنگ شروع ہوگئی۔ پولیس پارٹی نے ملزموں کو گھیرے میں لے لیا اور مزید کمک کا انتظار کرنے لگی۔ تاہم کمک پہنچنے سے پہلے پہلے پولیس کے دو اور جوان ہلاک ہو گئے ۔ افراتفری کا فائدہ اُٹھا کر ملزم موقعہ سے فرار ہو گئے ۔ بعد میں جائے واردات کے معائنے سے اندازہ ہوا کہ شہباز پہلوان کا ساتھی اس فائر جنگ میں زخمی ہوا ہے۔

چند ہی دنوں میں کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ وہ شہباز پہلوان جو بدمعاشی کے نام سے بھی نا آشنا تھا۔ جو کسرت کرتا تھا، خوراکیں کھاتا تھا، جسم بناتا تھا اور کشتیاں لڑتا تھا۔ جس کی زندگی اکھاڑے سے شروع ہو کر اکھاڑے پر ختم ہو جاتی تھی۔ ایک بالکل ہی نئے راستے پر چل نکلا تھا۔ وہ اب ایک ہر دلعزیز پہلوان نہیں مفرور قاتل تھا۔ دیکھا جائے تو یہ حادثہ ان گنت زمانوں سے گزرتا چلا آرہا تھا۔ ہر دور میں کسی شہباز پہلوان اور کسی نہال سنگھ کا ٹکراؤ ہو جاتا تھا۔ پھر شریف شہریوں میں ایک کی کمی واقع ہو جاتی ہے اور بدمعاشوں کی آبادی میں ایک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ کہانی اب تک لاتعداد مرتبہ دہرائی جاچکی ہے اور ابھی معلوم نہیں کتنی مرتبہ دہرائی جائے گی۔

تین پولیس اہلکاروں کا قتل ایک سنگین واقعہ تھا۔ اب ضروری ہو گیا تھا کہ شہباز پہلوان کو جلد از جلد آہنی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا جائے۔ ایس پی صاحب کی ہدایت پر فورا ایک چھاپہ مار پارٹی ترتیب دی گئی۔ اس میں میرے علاوہ ایک انسپکٹر سجیت سنگھ اروڑا اور ایک سب انسپکٹر بھی شامل تھا۔ ہمارے پاس دو بڑی جیپیں تھیں۔ پارٹی میں کل اٹھارہ افراد تھے ۔ یہ سب کے سب مسلح اور اپنے کام میں ماہر تھے۔ ہم رات آٹھ بجے امرتسر ہیڈ کوارٹر سے روانہ ہوئے اور دو بجے کے قریب اس ویران ڈیرے پر پہنچ گئے جہاں شام کو ایک خونی مقابلہ ہوا تھا۔ یہ ڈیرہ عام آبادی سے کافی ہٹ کر تھا۔ چاروں طرف گھنے درخت تھے۔ موقعہ پر پولیس کی دو گاڑیاں موجود تھیں اور سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ ہم اندر پہنچے تو گیس لیمپوں کی روشنی میں مقامی ایس ایچ او اپنی کارروائی مکمل کرنے میں مصروف تھا۔ جائے واردات کا نقشہ تیار کیا جارہا تھا اور گولیوں کے خول وغیرہ اکٹھے کئے جارہے تھے۔ ایس ایچ او نے ہمیں وہ کمرہ دکھایا جس کی چھت پر سے ملزموں نے اندھا دھند فائرنگ کی تھی اور وہ جگہ بھی دکھائی جہاں انسپکٹر نہال سنگھ کو گولیاں لگی تھیں۔ یہاں تین مربع فٹ کی جگہ میں خون پھیلا ہوا تھا۔ قریب ہی ایک دیوار پر گولیوں کے بے شمار نشان نظر آرہے تھے ۔

 ایس ایچ او نے ہمیں بتایا کہ ملزم جدید خود کار رائفل سے مسلح تھے جب کہ اس کے ساتھی کے پاس بارہ بور کی دو نالی رائفل تھی۔ میں نے وہ جگہ بھی دیکھی جہاں پہلوان کے ساتھی کو گولی لگی تھی۔ خون کی ایک لمبی لکیر چھت سے شروع ہو کر کھیتوں تک چلی گئی تھی۔ کھیتوں میں پہنچ کر پہلوان نے غالبا اپنے ساتھی کو کندھوں پر اُٹھالیا تھا۔ یہاں سے آگے خون کی لکیر نہیں تھی۔ بس کہیں کہیں خون کا کوئی دھبہ نظر آ جاتا تھا۔ ملزم کا خون جس تیزی سے بہا تھا صاف اندازہ ہوتا تھا کہ وہ شدید زخمی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دونوں زیادہ دور نہیں جا سکے ہوں گے۔

میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ وہ سب شش و پنج میں تھے۔ در حقیقت پولیس مقابلے کے بعد ملزم جس علاقے میں غائب ہوئے تھے وہ کسی چھوٹے موٹے جنگل سے کم نہیں تھا۔ اب کا تو پتہ نہیں لیکن ان دنوں کپورتھلہ کا یہ نواحی علاقہ بے حد غیر آباد تھا۔ نہ کوئی سڑک نہ راستہ، میلوں تک آبادی کا نشان نہیں تھا۔ مفرور ملزموں کے لئے یہ جگہ جنت سے کم نہیں تھی۔ وہ مہینوں تک یہاں حفاظت سے چھپے رہتے تھے اور موج میلہ بھی کر لیتے تھے۔ 

چرس، افیون، شراب اس علاقے میں عام مل جاتی تھی ۔ کہیں کہیں خانہ بدوشوں کی بستیاں بھی تھیں۔ ان خانہ بدوشوں کو حرام کی چاٹ لگ چکی تھی۔ وہ چھٹانک چرس یا ایک دیسی ریوالور کے بدلے اپنی عورت کو کسی بھی غیر مرد کے ساتھ رات بھر کے لئے بھیج دیتے تھے۔ اس علاقے میں رات کے وقت دو مفرور قاتلوں کو تلاش کرنا ایک خطر ناک کام تھا۔ تین اہلکاروں کو قتل کرنے کے بعد شہباز پہلوان اب کسی بھی شخص کو گولیوں کی باڑ پر رکھ سکتا تھا۔ مناسب تو یہ تھا کہ صبح کا انتظار کیا جائے لیکن یہ خطرہ بھی تھا کہ صبح تک ملزم دور نکل جائے گا۔ سوچ بچار کے بعد میں نے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا۔ میری تیاری دیکھ کر ساتھی انسپکٹر اور سب انسپکٹر بھی تیار ہو گئے ۔ ہم نے پارٹی میں سے چھ ہوشیار جوان منتخب کئے اور انہیں اپنے ساتھ اگلی صف میں رکھ لیا۔ باقی دس افراد کو نیم دائرے کی شکل میں اپنے پیچھے آنے کی ہدایت کی۔ ہمارے ہاتھوں میں طاقت ور ٹارچیں تھیں مگر ایک کے سوا تمام ٹارچیں بجھا کر رکھی گئیں۔

زخمی کے خونی دھبوں کو تلاش کرتے ہوئے ہم دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگے... ڈیرے سے قریباً تین فرلانگ آگے ہمیں ٹھٹک کر رک جانا پڑا ۔ کچھ فاصلے پر لالٹینوں کی روشنی اور لوگوں کا مدھم شور سنائی دے رہا تھا۔ رات کے اس پہر اس ویران مقام پر یہ شور کیا معنی رکھتا تھا۔ ہم ٹھٹک کر رک گئے ۔ تھوڑی دیر بعد لالٹین بردار لوگ ہمارے قریب پہنچ گئے ۔ ان کی تعداد پندرہ بیس سے کم نہیں تھی۔ ہاتھوں میں لاٹھیاں اور چھریاں تھیں ۔ پانچ چھ آدمیوں نے ایک چارپائی کندھوں پر اٹھا رکھی تھی اور اس پر ایک شخص بے ہوش پڑا تھا۔ یہ تمام افراد صورت اور لباس سے خانہ بدوش نظر آتے تھے۔ 

وہ سب بہت بھرے ہوئے اور جلدی میں تھے۔
ہمیں دیکھ کر انہوں نے چار پائی نیچے رکھ دی اور آپس میں تیز تیز لہجے میں باتیں کرنے لگے۔ ان میں ایک شخص عمر رسیدہ تھا اور سب سے معتبر بھی نظر آتا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس سے پوچھا۔ ” کیا بات ہے بابا ؟“ وہ اکھڑے ہوئے لہجے میں بولا۔ یہ بات آپ کے سامنے دھری ہے مائی باپ۔" اس کا اشارہ چارپائی کی طرف تھا۔ میں نے ٹارچ جلا کر غور سے دیکھا۔ چار پائی پر ایک عمر رسیده شخص تھا۔ اس کے سفید سر پر ایک بڑی پٹی بندھی ہوئی تھی اور خون رس رس کر اس کی داڑھی کے سفید بالوں کو رنگین کرتا چلا جار ہا تھا۔
میں نے پوچھا۔ " کہاں سے آئے ہو تم لوگ اور یہ زخمی کون ہے؟"

جواب میں معتبر شخص نے بتایا کہ وہ قریب ہی ایک خیمہ بستی میں رہتے ہیں اور یہ بوڑھا شخص رشتے میں اس کا بھائی ہے۔ آج شام دو ڈاکو اسے زخمی کر کے بھاگ گئے ہیں۔ میں نے اس واقعے کی تفصیل پوچھی تو مندرجہ ذیل بات کا پتہ چلا۔
زخمی ہونے والے کا نام سائیں رنگو تھا۔ وہ آج کپورتھلہ سے سودا سلف لے کر واپس آرہا تھا۔ وہ اپنے ریڑھے پر سوار تھا اور ساتھ میں اس کی بہو بھی تھی۔ بہو اور سسر بستی سے کوئی ایک میل دور تھے جب اچانک جھاڑیوں سے دو آدمی نکل آئے۔ ان میں ایک زخمی تھا اور دوسرا بہت بھاری تن و توش والا کوئی پہلوان نما شخص تھا۔ پہلوان کے ہاتھ میں ولایتی رائفل تھی۔ اس نے رائفل تان کر سائیں رنگو کا ریڑھا رکوا لیا اور بہو سسر کو نیچے اُترنے کا حکم دیا۔ سائیں کی بہو تو چیختی ہوئی فورا نیچے اُتر آئی لیکن رحمو ریڑھے پر کھڑا رہا۔ 

وہ سمجھ گیا کہ دونوں افراد اس سے ریڑھا چھیننا چاہتے ہیں اور یہی ریڑھا اس کی کل پونجی تھی ۔ پہلوان نے زخمی کو اُٹھا کر ریڑھے پر رکھا اور پھر خود بھی چھلانگ لگا کر سوار ہو گیا۔ اس نے گھوڑے کی راسیں سائیں رنگو سے چھینے کی کوشش کی تو سائیں مزاحمت کرنے لگا۔ اسی دوران گھوڑا تیزی سے بھاگنا شروع ہو گیا تھا۔ پہلوان نے سائیں رنگو کو چلتے ریڑھے سے اُٹھا کر نیچے پھینک دیا سائیں کا سر ایک درخت سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ اس کی بہو ننگے پاؤں بھاگتی بستی میں پہنچی اور اس واقعے کی اطلاع دی۔ وہاں سے آٹھ دس بندے آئے اور زخمی کو اُٹھا کر بستی میں لے گئے ان کا خیال تھا کہ سائیں رنگو جلد ہی ہوش میں آجائے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سائیں کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ اب اس کی جان لبوں پر آگئی تھی اور وہ اسے اُٹھا کر ہسپتال لے جارہے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ مقامی تھانے میں پرچہ بھی درج کرانا چاہتے تھے۔ بوڑھے نے پھر بپھرے ہوئے لہجے میں کہا۔

یہ کیسا انصاف ہے مائی باپ ! ہم لوگوں سے تو آپ چاقو چھریاں تک چھین لیتے ہو اور ان خونیوں ڈکیتوں کو ولایتی رائفلیں دے کر آزاد چھوڑ دیتے ہو۔ ہم کو بھی جندہ رہنے کا حق ہے۔ ہمارے ساتھ یہ ظلم مت کرو ۔ “میں نے خانہ بدوشوں کے اس جتھے کو سب انسپکٹر درویش علی کے ساتھ فورا ڈیرے کی طرف روانہ کر دیا۔ ڈیرے پر تین چار جیپیں موجود تھیں۔ ان میں سے کسی ایک جیپ پر زخمی رنگو کو ہسپتال پہنچایا جا سکتا تھا۔ میں نے درویش علی کو ہدایت کی کہ وہ ہیڈ کوارٹر والی دونوں جیپیں لے کر واپس یہاں پہنچ جائے ۔ 

سب انسپکٹر درویش علی نے میری ہدایات پر عمل کیا کوئی آدھ گھنٹے بعد وہ ایک حوالدار کے ساتھ تین جیپیں لے کر واپس آ گیا۔ خانہ بدوشوں سے جو معلومات حاصل ہوئی تھیں ان سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ پولیس مقابلے کے بعد پہلوان اپنے زخمی ساتھی کو لے کر شمال کی طرف گیا ہے۔ ظاہر ہے زخمی کو فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت تھی۔ یہ امداد اسے قریبی قصبے سے حاصل ہو سکتی تھی۔ کپورتھلہ کے اس نواحی قصبے کا نام اب میرے ذہن سے نکل گیا ہے۔ یہاں نہر پر ایک بڑا سائفن تھا۔ محکمہ آبپاشی کی چند عمارتوں کے علاوہ ایک ہسپتال بھی تھا۔ میں نے ساتھی انسپکٹر سجیت سنگھ اروڑا سے مشورہ کیا اور فیصلہ ہوا کہ فورا ہسپتال کا رخ کیا جائے۔ عین ممکن تھا کہ ساتھی کی جان خطرے میں دیکھ کر شہباز اسے کسی طرح ہسپتال پہنچا گیا ہو، یا ویسے ہی ہسپتال کے دروازے پر ریڑھا کھڑا کر کے غائب ہو گیا ہو۔

ہم جیپوں پر حتی الامکان رفتار سے ہسپتال کی طرف روانہ ہوئے۔ فاصلہ تقریباً پانچ میل کا تھا لیکن راستہ نا ہموار اور درختوں سے اٹا ہوا تھا۔ ایک جگہ ہماری جیب گیلی زمین میں پھنس گئی۔ سب نیچے اتر کر اسے دھکا لگانے لگے۔ انسپکٹر اروڑا دھکا لگانے کے ساتھ ساتھ جیپ کو ماں بہن کی گالیاں بھی دے رہا تھا۔ گالیاں دیتے دیتے اور دھکا لگاتے لگاتے اچانک اسے کچھ یاد آیا۔ مجھ سے کہنے لگا۔
یارا! ادھر پار ہی ایک ڈاکٹر کا دوا خانہ بھی تو ہے۔ کہیں وہ بد بخت اُدھر ہی نہ چلا گیا ہو۔

انسپکٹر سجیت سنگھ اروڑا اس علاقے میں دو تین سال تعینات رہا تھا۔ کافی کچھ جانتا تھا یہاں کے بارے میں۔ اگر وہ کہہ رہا تھا کہ یہاں قریب ہی کوئی دوا خانہ ہے تو یقیناً ہوگا۔ میں نے کہا۔ ٹھیک ہے، پہلے وہاں دیکھ لیتے ہیں۔“
ہم نے پھنسی ہوئی جیپ کو وہیں چھوڑا اور سات آٹھے جوانوں کے ساتھ دوسری جیپوں میں سوار ہو کر دوا خانے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ دواخانہ واقعی زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ یہ ایک نیم پختہ راستہ تھا جو دو تین برساتی نالوں کے اندر سے گزرتا ہوا کپورتھلہ پہنچتا تھا۔ اس راستے کے کنارے ایک چھوٹا سا بازار تھا۔ چالیس پچاس کچے مکانات تھے اور ایک گرجا تھا۔ 

گرجے کے قریب ہی ایک کریسچن ڈاکٹر نے کلینک کھول رکھا تھا۔ پوری بستی میں یہی واحد عمارت تھی جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھی۔ عمارت کی پیشانی پر داؤد کلینک کے الفاظ لکھے تھے ۔ بستی میں ہو کا عالم تھا۔ درو دیوار تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ ہماری جیپیں کلینک کے عین سامنے رکیں۔ میں نے نیچے اتر کر دروازے پر دستک دی۔ دستک دیتے ہوئے میری ٹارچ کی روشنی دروازے کے رنگ دار تختوں پر پڑی اور یک لخت رگوں میں خون کی گردش تیز ہوگئی ۔ ہم شاید صحیح جگہ پر پہنچ گئے تھے۔ دروازے کے تختے پر ایک جگہ مجھے خون کے نشانات نظر آئے۔ صاف اندازہ ہوتا تھا کہ کسی نے خون آلود ہاتھ سے دروازے پر دستک دی ہے۔ اتنے میں

اندر سے ایک ڈری سہمی آواز آئی ۔ کون ہے؟ یہ کسی ادھیڑ عمر مرد کی آواز تھی۔پولیس ہے. دروازہ کھولو ۔ میں نے بھاری بھرکم آواز میں کہا۔ چند لمحے اندر سناٹا طاری رہا۔ پھر کسی نے قریبی کھڑکی میں سے جھانک کر باہر کا جائزہ لیا۔ کھڑکی بند ہوتے ہی قدموں کی چاپ ابھری اور دروازہ کھول دیا گیا۔ ٹارچ کی روشنی میں میرے سامنے پینتیس برس عمر کا ایک دبلا پتلا شخص کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر کئی جگہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور گردن پر خراشیں تھیں۔ اس کے پیچھے ایک عورت کا چہرہ نظر آیا۔ وہ بھی درمیانی عمر کی تھی لیکن جسمانی بناوٹ کی وجہ سے جواں سال نظر آتی تھی۔ اس کے لمبے بالوں کا ڈھیلا ڈھالا جوڑا کندھے پر ٹکا ہوا تھا۔ عورت کی حالت مرد سے بھی بُری تھی۔ اس کا بیشتر لباس پھٹا ہوا تھا۔ ضروری مقامات اس نے چادر سے ڈھانپ رکھے تھے۔ اس کی ایک
آنکھ سوج کر نیلی ہو چکی تھی۔ نچلا ہونٹ بھی پھٹا ہوا تھا۔
ہم اندر داخل ہوئے تو دبلا پتلا مرد جو یقیناً اس کلینک کا ڈاکٹر تھا کچھ اور بھی ہراساں نظر آنے لگا۔ ” کیا ہوا ڈاکٹر صاحب؟" میں نے تیزی سے پوچھا۔

ڈاکٹر نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ یوں لگتا تھا اس کا حلق اتنا خشک ہے کہ وہ بول نہیں سکتا ۔ عورت تیزی سے آگے آئی اور بھڑک کر بولی۔ "یہ کیا بتائیں گے میں آپ کو بتاتی ہوں انسپکٹر صاحب۔ یہ دیکھئے میرا حال ۔ “ اس نے ایک لحظے کے لئے چادر اپنے بالائی جسم سے ہٹائی اور روتے ہوئے بولی۔ " ہمیں بہت بُری طرح مارا ہے اس ظالم نے ۔ وہ انسان نہیں تھا کوئی بے رحم وحشی تھا۔ اسے دیکھ کر دہشت آتی تھی۔ گاڈ کو ہماری زندگی منظور تھی ورنہ اس وقت ہماری لاشیں پڑی ہوتیں یہاں۔" وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ میں نے ٹارچ کی روشنی اندر برآمدے میں ڈالی۔ یہاں گھریلو استعمال کی کئی چیزیں ٹوٹی پھوٹی نظر آئیں۔ یوں لگتا تھا کافی دھینگا مشتی ہو چکی ہے یہاں۔ میں نے تفصیلات پوچھیں ۔ عورت آہوں اور سسکیوں کے ساتھ بتانے لگی۔

یہ ڈاکٹر داؤد میرے ہسبینڈ ہیں۔ گاڈ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی ہے۔ یہ کسی بھی بڑے سے بڑے شہر میں کلینک چلا سکتے ہیں لیکن لوگوں کی خدمت کا جذبہ ہے جس نے مجبور کر کے انہیں اس گاؤں میں رکھا ہوا ہے۔ ہر شخص ان کی عزت کرتا ہے۔ برے لوگ بھی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے لہذا وہ پسند چاہے نہ کریں لیکن ان کی عزت ضرور کرتے ہیں آخر ہم پیسہ کمانے کے لئے تو یہاں نہیں بیٹھے ہوئے ۔ لوگوں کے دکھ بانٹ رہے ہیں۔ پھر ہم سے ایسا سلوک کیوں؟ اب ہم کیوں رہیں گے یہاں۔ کیوں خواہ مخواہ اپنا سکھ تباہ کریں گے اور جان خطرے میں ڈالیں گے؟"

میں نے عورت سے کہا کہ وہ اصل بات بتائے۔ انہیں کس نے مارا ہے اور کیوں مارا ہے؟ جواب میں وہ بولی۔ " میرے دونوں بچے ماموں کے گھر لاہور گئے ہوئے ہیں۔ ہم میاں بیوی گھر میں اکیلے تھے ۔ کوئی ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا جب اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ دروازے پر دستک ہو رہی تھی۔ یہ بھی جاگ چکے تھے۔ انہوں نے دروازے پر جا کر پوچھا کہ کون ہے؟ جواب ملا مریض ہوں۔ سخت تکلیف میں ہوں یسوع مسیح کے نام پر دروازہ کھول دیں۔ انہوں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا اور دروازہ کھول دیا۔ ایک قوی ہیکل شخص اپنے کندھے پر ایک زخمی کو اُٹھائے ہوئے تھا۔ زخمی ایک درمیانی عمر کا شخص تھا۔ پہلوان نما شخص اسے بار بار بابو کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔

 بابو کی دائیں ران میں دو گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ پہلوان نے ان سے کہا کہ یہ گولیاں نکال دیں۔ میرے شوہر نے جواب دیا کہ یہ پولیس کیس ہے مریض کو ہسپتال پہنچانا ہوگا۔ ہسپتال کا نام سن کر پہلوان بدک گیا اور اصرار کرنے لگا کہ گولیاں کلینک میں ہی نکال دیں۔ میرے شوہر نے منع کر دیا۔ انہوں نے کہا میں فزیشن ہوں سرجن نہیں۔ نہ ہی میرے پاس سرجری کے اوزار ہیں اور اوزار ہوتے بھی تو میں یہ کام نہ کرتا کیونکہ غیر قانونی کام میں ملوث ہونا مجھے پسند نہیں۔ پہلوان طیش میں آگیا اور اس نے انہیں دھکے دیئے۔ میں برداشت نہ کر سکی اور اس کا ہاتھ روکنا چاہا۔ وہ تو جیسے پہلے سے ہی بھرا بیٹھا تھا۔ بھوکے بھیڑیے کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑا ۔ کپڑے پھاڑ دیئے اور گھونسے ٹھوکریں مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ اس میں کسی جن کی سی طاقت تھی ۔

حیران ہوں کہ اب تک زندہ کیسے ہوں۔ میرے شوہر نے مجھے بچانا چاہا تو انہیں بھی سخت چوٹیں سہنا پڑیں۔ ہم نے ہاتھ پاؤں جوڑ کر اس موذی سے اپنی جان بچائی۔ میرے شوہر نے خواب آور دوا کھلا کر زخمی کی ٹانگ میں سے دونوں گولیاں نکالیں اور مرہم پٹی کی۔ مرہم پٹی کے دوران پہلوان ہمیں مسلسل دھمکاتا اور گالیاں دیتا رہا۔ اس کے پاس دو بھری ہوئی رائفلیں تھیں۔ ایک دو نالی تھی اور دوسری فوجی گن کی طرح۔ وہ کہہ رہا تھا۔ میں قتل کر کے آیا ہوں اور میرے سر پر خون سوار ہے۔ مجھ سے الجھو گے تو بُری طرح پچھتاؤ گے ۔ مرہم پٹی کروانے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہے۔ میں نے کہا دودھ ہے۔ وہ بولا لے آؤ۔ تین چار سیر دودھ تھا۔ اس میں سے ایک ڈیڑھ پاؤ زخمی بابو نے پیا باقی سارا پہلوان نے ایک سانس میں چڑھا لیا۔ وہ بابو کو ایک ریڑھے پر لاد کر لایا تھا۔ اسی ریڑھے پر لاد کر وہ اسے واپس لے گیا۔

ڈاکٹر داؤد کی اہلیہ کا نام مریم تھا۔ اس کی کہی ہوئی روداد ہمارے لئے بے حد اہم تھی۔ ہم بالکل صحیح راستے پر جارہے تھے لیکن فرق یہ تھا کہ شہباز پہلوان ہم سے کچھ آگے تھا۔ ہم جہاں پہنچتے تھے وہ وہاں سے نکل چکا تھا۔ میرے پوچھنے پر ڈاکٹر کی اہلیہ نے بتایا کہ ملزمان کو وہاں سے نکلے قریباً ایک گھنٹہ ہو چکا ہے۔ ہماری اس تمام گفتگو کے دوران ڈاکٹر داؤد خاموش ہی رہا تھا۔ وہ کم گو شخص نظر آتا تھا اور پریشانی کے سبب کچھ اور کم گو ہو گیا تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر ترس آرہا تھا بلکہ دونوں میاں بیوی کی حالت قابل رحم تھی۔ پہلوان نے اپنی خداداد طاقت کا بہت غلط استعمال کیا تھا۔ واقعی میاں بیوی کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ایک منہ زور طوفان کی زد میں آکر بھی زندہ بچ گئے تھے۔

انسپکٹر سجیت اروڑا نے ڈاکٹر داؤد سے بھی چند سوالات پوچھے جن کے اس نے بجھے دل سے مختصر جوابات دئیے۔ وہ بہت اکھڑا ہوا نظر آتا تھا۔ وہ بہت حساس شخص تھا۔ کوئی اور ہوتا تو اس حادثے کی خبر پوری بستی کو ہو چکی ہوتی لیکن ڈاکٹر داؤد نے خود پر گزرنے والی قیامت کی خبر اپنے تک ہی محدود رکھی تھی۔ میں نے اپنی طرف سے میاں بیوی کو تسلی دینے کی کوشش کی اور ضروری کارروائی کر کے ان کے گھر سے نکل آیا۔ انسپکٹر اروڑا اور سب انسپکٹر درویش علی بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم جیپ میں بیٹھے اور واپس غیر آباد علاقے کی طرف روانہ ہو گئے ۔ میاں بیوی کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ پہلوان اپنے زخمی ساتھی کو لے کر واپس اُدھر ہی گیا ہے جدھر سے آیا تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے