پہلوان اور مریدنی - پارٹ 3

urdu font stories online 77

انسپکٹر اروڑا والی جیپ آگے تھی۔ ہم پیچھے آرہے تھے ۔ ڈاکٹر داؤد کے کلینک سے بمشکل دو فرلانگ دور آئے تھے کہ قریب بیٹھے بلال شاہ نے میرا کندھا دبایا۔ خان صاحب، جیپ رکوائیں ۔ اس نے تیزی سے کہا میں نے ڈرائیور کو جیب ٹھہرانے کی ہدایت کی۔
 
ڈرائیور نے جیپ کا انجن بند کر دیا۔ چند لمحے بعد سناٹے میں گھوڑے کی مدھم ہنہناہٹ ابھری۔ بلال شاہ کی آنکھیں چمک اُٹھیں ۔ یقیناً اس کے کان اسی آواز پر لگے ہوئے تھے۔ ہم سب کے لئے یہ آواز دلچسپی کا باعث تھی۔ یہاں قرب و جوار میں جھاڑیوں کے سوا اور کچھ نہیں تھا نہ ہی کوئی کھیت کھلیان دکھائی دے رہا تھا۔ گھوڑے کی آواز دائیں جانب ایک گھنے جھنڈ کے اندر سے آئی تھی۔ میں اور بلال شاہ جیپ سے اتر کر درختوں کی طرف بڑھے۔ 
 
بلال شاہ کے ہاتھ میں ٹارچ اور میرے ہاتھ میں 38 بور کا ریوالور تھا۔ جنتر اور کیکر کی شاخوں میں سے راستہ بناتے ہم جھنڈ کے اندر پہنچے تو ٹارچ کی روشنی ایک ریڑھے پر پڑی۔ ریڑھے کا گھوڑا ایک درخت سے بندھا ہوا تھا اور اس کے منہ پر خشک چارے والا تھیلہ چڑھا ہوا تھا۔ ریڑھے اور گھوڑے کو دیکھتے ہی ہمیں اندازہ ہو گیا که یه خانه بدوش رحمو سائیں کا ریڑھا ہے. میں نے بلال شاہ کی طرف دیکھا اور اس نے میری طرف ... ایک سنسنی سی ہمارے جسموں میں دوڑ گئی۔ ریڑھے کی موجودگی ظاہر کر رہی تھی کہ دونوں مفرور یہیں کہیں موجود ہیں۔ میں نے ریوالور کا سیفٹی پن ہٹا کر اسے بالکل تیار حالت میں کر لیا۔ محتاط قدموں سے ہم ریڑھیے کی طرف بڑھے۔ اس میں سائیں رنگو کا سامان ابھی تک لدا ہوا تھا۔ آٹے دال کی دو بوریاں تھیں ۔ چاولوں کا تھیلا تھا۔ ایک نئی لالٹین تھی اور مٹی کے تیل کا کنستر تھا۔ ان میں کئی چیزیں خون سے رنگین نظر آتی تھیں ۔
 
 یقیناً اس خون کا تعلق پہلوان کے زخمی ساتھی بابو سے تھا۔ آثار بتا رہے تھے کہ پہلوان اور بابو قرب و جوار میں موجود نہیں۔ تو پھر وہ کہاں گئے ؟ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ کلینک سے واپس آنے کے بعد پہلوان نے اتنی جلدی ریڑھا کیوں چھوڑ دیا۔ کیا اسے کوئی اور سواری مل گئی تھی ۔ اگر سواری ملی تھی تو اردگرد کی زمین پر ٹائروں اور پہیوں کے نشان ہونے چاہئیں تھے لیکن ایسا کوئی نشان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اچانک ایک نیا خیال میرے ذہن میں آیا اور میں بُری طرح چونک گیا۔ کلینک میں ہونے والی گفتگو کے دوران ڈاکٹر داؤد بے حد خاموش رہا تھا کہیں اس کی خاموشی کا کوئی خاص سبب تو نہیں تھا۔
میں نے بلال شاہ نے کہا۔ " شاہ جی! ہمیں واپس کلینک جانا ہوگا ۔" لیکن کیوں؟ بلال شاہ نے کہا۔ "میرا خیال ہے کہ پہلوان اور بابو ابھی کلینک میں ہی ہیں۔“
بلال شاہ حیرت سے اچھل پڑا۔ میں اسے بازو سے پکڑ کر جیپ تک لے آیا۔ ایک ہوشیار ہیڈ کانسٹیبل کو میں نے حکم دیا کہ وہ چوکسی سے ریڑھے کا پہرہ دے اور خود جیپ میں بیٹھ کر واپس کلینک روانہ ہو گیا۔ 
 
سب انسپکٹر درویش علی بھی ہمارے ساتھ تھا۔ میں نے جیپ کلینک سے کچھ فاصلے پر رکوائی۔ میرے ساتھ کل چار سپاہی تھے۔ ان میں سے دو کے پاس رائفلیں تھیں۔ میرے اور سب انسپکٹر کے پاس ریوالور تھے ۔ میں نے عملے کو ہدایت کی کہ وہ بڑی خاموشی کے ساتھ کلینک کی ناکہ بندی کرلیں اور اگر کوئی حملہ آور ہو یا فرار ہونے کی کوشش کرے تو بے دریغ گولی مار دیں۔ بلال شاہ کے پاس اس کا اپنا دیسی پستول تھا۔ میں نے اسے کلینک کی عقبی دیوار کے پاس ایک تناور درخت کی اوٹ میں کھڑا کیا اور باقی عملے کی طرح اسے بھی شوٹ کرنے کی ہدایت کردی۔ 
 
عقبی دیوار پر چڑھائی کر کے میں اندر صحن میں اُترا اور تاریکی میں رینگتا ہوا برآمدے تک پہنچ گیا۔ ایک مفرور قاتل کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو اس تجربے سے گزر چکا ہو۔ قاتل کے سر پر خون سوار ہوتا ہے اور پھانسی کا پھندا اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنی گردن بچانے کے لئے کسی کی جان بھی لے سکتا ہے۔ میں برآمدے میں پہنچا تو میرا یہ شک پختہ یقین میں بدل گیا کہ شہباز پہلوان اور بابو اندر موجود ہیں۔ ایک قریبی کمرے سے باتوں کی مدھم آواز آ رہی تھی۔
 
میں کھڑکی سے قریب تر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر داؤدا اپنی اہلیہ سے کہہ رہا تھا۔
" تم بے فکر ہو کر سو جاؤ ۔ اب کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی نہیں آئے گا یہاں ۔ یہ لو گولی پانی کے ساتھ کھا لو " ڈاکٹر کے لہجے میں لرزش تھی۔ صاف اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سخت گھبرایا ہوا ہے اور بیوی سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جیسا کہ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر کی اہلیہ کو واقعی معلوم نہیں تھا کہ مجرم ابھی تک گھر میں ہیں۔ ڈاکٹر نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بات اس سے چھپا رکھی تھی۔
نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ ڈاکٹر کی اہلیہ منمنائی ۔ " میں تو آپ کو دیکھ دیکھ کر نروس ہو رہی ہوں ۔ آپ بھی لیٹ جائیے ناں۔“ اچھا اچھا لیٹتا ہوں تم تو لیٹو "میں کھڑکی کے قریب سے گزر کر راہداری میں آیا۔ یہاں ایک استری اسٹینڈ الٹا پڑا تھا۔ پاس ہی کچھ کراکری ٹوٹی ہوئی تھی۔ یہاں ایک کمرے میں لالٹین روشن تھی اور اس کی مدھم روشنی کھڑکی کی ایک جھری میں سے پھوٹ رہی تھی۔ 
 
میں نے جھری سے آنکھ لگا کر اندر جھانکنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ عین اس وقت " چین" کی نہایت باریک آواز کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا اور شہباز پہلوان مجھے صرف دس فٹ کے فاصلے پر کھڑا نظر آیا۔ ہم دونوں کی نظریں ٹکرائیں۔ میں وردی میں تھا۔ پہلوان کی آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔ اس کی رائفل کندھے سے لٹکی تھی لیکن میرا ریوالور ہاتھ میں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ رائفل سیدھی کرتا میں نے ریوالور اس پر تان لیا۔ خبردار" میں نے غرا کر کہا۔ " حرکت کی تو شوٹ کر دوں گا۔ 
 
میری انگلی لبلبی پر تھی اور ایک ذرا سا دباؤ پہلوان کے چوڑے چکلے سینے میں سوراخ کر سکتا تھا۔ پہلوان کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ بے حرکت کھڑا رہتا لیکن اس نے ہٹ دھرمی دکھائی اور تیر کی طرح میری طرف آیا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو پہلوان کی لاش دروازے کی دہلیز پر تڑپتی نظر آتی لیکن پورا اختیار ہونے کے باوجود میں اس پر گولی نہ چلا سکا۔ شاید ابھی اس کے لئے ہمدردی کا تھوڑا بہت جذبہ میرے اندر موجود تھا۔ پہلوان کسی مست ہاتھی کی طرح مجھ سے ٹکرایا اور میں اس کی ٹکر سے اچھل کر دور جا گرا۔ میرے گرنے سے ایک کونے میں رکھی ہوئی لالٹین بھی گرگئی اور ایک دم برآمدے میں گہری تاریکی چھا گئی۔ ریوالور ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے اندازے سے ایک فائر کیا نشانہ خطا گیا۔ قدموں کی آواز سے اندازہ ہو رہا تھا کہ پہلوان بھاگ رہا ہے۔ سامنے والے کمرے سے ڈاکٹر اور اس کی بیوی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ 
 
میں صحن میں پہنچا تو پہلوان کہیں نظر نہیں آیا۔ میں بھاگ کر بیرونی دروازے پر پہنچا۔ سب انسپکٹر درویش علی بھاگتا ہوا مجھ سے آ ٹکرایا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ریوالور تھا۔ درویش علی کے اندر آنے سے ظاہر ہوتا تھا کہ پہلوان بیرونی دروازے سے باہر نہیں نکلا ۔ میں نے صحن کے اندر سے پکار کر کہا۔ ” بلال شاہ ہوشیار ۔“ اس نے چلا کر جواب دیا۔ ہاں جی ہوشیار ۔ ٹارچیں روشن کر کے ہم نے بڑی سرعت کے ساتھ مکان کی تلاشی لی۔ ایک کمرے میں نیم بے ہوش بابو کے سوا اور کوئی نظر نہیں آیا ۔ تب میری نگاہ برآمدے کے ایک کھڑکی نما دروازے پر پڑی۔ یہ دروازہ کھلا پڑا تھا۔ شہباز پہلوان یہاں سے نکل چکا تھا۔ اس طرف گرجے کی دیوار تھی۔ پہلوان باہر نکلتے ہی دیوار کی اوٹ میں ہو گیا تھا۔ یوں کچھ فاصلے پر کھڑا بلال شاہ اسے دیکھ نہیں سکا تھا۔ یہ زبردست ٹریجڈی ہوئی تھی۔ اس دروازے کا علم پہلے سے ہوتا تو پہلوان بھاگ نہیں سکتا تھا۔ ہم جیپ لے کر فوراً اس کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ یہ رات کا آخری پہر تھا۔ مشرق سے سپیدہ سحر نمودار ہو رہا تھا
 
درخت اور جنتر کے پودے یخ بستہ ہوا میں جھوم رہے تھے۔ ہم نے قریباً ایک گھنٹے میں دس میل جیپ چلائی لیکن پہلوان کا سراغ کہیں نہیں ملا طلوع آفتاب کے وقت ہم بستی میں واپس لوٹے۔ یہاں ڈاکٹر کے مکان کے سامنے لوگوں کا جم غفیر تھا۔ خانہ بدوش سائیں رنگو کا چوری شدہ ریڑھا بھی مکان کے سامنے کھڑا تھا۔ لوگوں کے چہروں پر گہری دلچپسی کے آثار تھے۔ انہیں دو گھنٹے پہلے ہی اس واقعے کی خبر ہو چکی تھی۔ جب میں نے اندھیرے میں گولی چلائی تو اس کی آواز پوری بستی میں گونجی تھی اور کئی افراد ڈاکٹر داؤد کی خیریت دریافت کرنے اس کے مکان پر آ موجود ہوئے تھے۔ انسپکٹر اروڑا بھی راستے میں میرا انتظار کرنے کے بعد کلینک واپس آچکا تھا اور میرے آنے تک اس نے آٹھ دس افراد کے بیان بھی قلم بند کر لئے
تھے۔
 
میں نے سب سے پہلے شہباز کے ساتھی بابو سے ملاقات کی ۔اسے ہتھکڑی لگ چکی تھی اور وہ ہتھکڑی سمیت بستر پر لیٹا تھا۔ اس کی ران پر بندھی پٹی سے مسلسل خون رس رہا تھا۔ اس کی عمر اٹھائیس برس کے لگ بھگ تھی۔ نیلی شلوار قمیص پہنے ہوئے تھا۔ خالص دیہاتی بندہ نظر آتا تھا معلوم نہیں اس کا نام "بابو کس نے ڈال دیا تھا۔ بابو کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ مشہور بدمعاش اور مفرور ٹیک سنگھ کا بندہ ہے۔ ٹیک سنگھ کا گروہ اس علاقے میں اچھی طرح جانا پہچانا جاتا تھا۔ یہ لوگ مانے ہوئے قانون شکن تھے ۔ 
 
ہر بُرے سے بُرا کام یہ لوگ کر چکے تھے اور کر رہے تھے ۔ بابو کی شناخت ہونے کے بعد میرے لئے یہ جاننا مشکل نہیں رہا تھا کہ پہلوان یہاں سے فرار ہونے کے بعد کہاں گیا ہوگا۔ یقینا اس کی منزل ٹیک سنگھ کا ڈیرہ تھی اور ٹیک سنگھ کا ڈیرہ کوئی ایک نہیں تھا۔ شہر، گاؤں اور ویرانے میں اس کے کئی ایک ٹھکانے تھے۔ اس کے اپنے خاص کارندوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ٹیک سنگھ آج کی رات کہاں گزارے گا۔ میں نے بابو کے ساتھ کئی گھنٹے تک مغزماری کی۔ وہ صرف اتنا بتا سکا کہ ٹیک سنگھ ان دنوں پورن کچھ کے علاقے میں بڑے ڈیک نالے کے اس پار ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ پہلوان کے ساتھ مل کر اس نے پولیس مقابلہ کیا تھا اور یہ بھی مانا کہ وہ اس وقت پہلوان کو لے کر پورن کچھ جا رہا تھا۔ میں نے کہا۔ پھر تمہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ ٹیک سنگھ پورن کچھ میں کہاں ٹھہرا ہوا ہے۔
 
وہ بولا ۔ ” معلوم تو ہے لیکن میں آپ کو وہاں پہنچا نہیں سکتا ۔ اب تک ٹیک سنگھ کو میری گرفتاری کی اطلاع ہو چکی ہوگی اور اگر نہیں ہوئی تو آج شام تک ہو جائے گی۔ ہمیں پورن کچھ تک پہنچتے پہنچتے رات تو ہو ہی جائے گی۔ ہم جتنے آدمی وہاں پہنچیں گے ان میں سے کوئی ایک بھی واپس آجائے تو وہ بڑا بھاگوان ہوگا ہم سے کیا پوچھتے ہو آپ جانتے ہی ہو صاحب پچھلے برس انگریز کپتان، فوج کی پوری کمپنی لے کر گیا تھا۔ ان میں سے کتنے بچے تھے اور جو بچے تھے ان میں کتنوں کے ہاتھ پاؤں سلامت تھے۔

بابو کچھ ایسا غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کی جنت تھا۔ یہاں گھس کر کسی بھی شخص کو گرفتار کر لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ اب تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس طرف سے ویسے ہی آنکھیں بند کرلی تھیں۔ ہر طور شہباز پہلوان جو کچھ کر چکا تھا اس کے بعد لازمی ہو گیا تھا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔ کیسے کیا جائے ؟ یہ سوچنا ہمارا کام تھا۔ اعلیٰ افسران کو تو بس حکم دینا تھا اور لائن حاضری کی دھمکیاں دینی تھیں۔ ہمارے اگلے آٹھ ہفتے سخت بھاگ دوڑ میں گزرے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اس دوران بقر عید بھی آئی مگر نہ تو ہم گھر جا سکے اور نہ عید پڑھ سکے۔ 
 
ہم کپورتھلہ سے قریباً چالیس میل دور دریائے ستلج کی طرف ایک دشوار گزار علاقے میں تھے۔ اس علاقے کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جن میں سے ایک پورن کچھ بھی ہے۔ یہاں امرتسر کے ایک بڑے زمیندار کا ریسٹ ہاؤس تھا۔ اس ریسٹ ہاؤس میں بجلی پانی کا اپنا انتظام تھا اور چاروں طرف باڑ لگا کر اسے جنگلی جانوروں سے ہر طرح محفوظ کیا گیا تھا۔ زمیندار دھنی رام سنگھ ان دنوں ریسٹ ہاؤس میں ہی تھا۔ وہ پچھلے ایک ماہ سے شکار پر نکلا ہوا تھا۔ ساتھ نوکروں کی فوج تھی۔ آٹھ دس عربی گھوڑے تھے اور تازی کتوں کا غول تھا۔ اس کے علاوہ ایک بڑی خوبصورت چیز بھی دھنی رام کے پاس تھی اور یہ ایک سولہ سترہ سالہ گجراتی لڑکی تھی۔ 
 
عمر کے لحاظ سے یہ لڑکی دھنی رام کی بیٹیوں سے بھی چھوٹی تھی مگر رشتے کے لحاظ سے بیوی تھی۔ بہترین نسل کے گھوڑوں کے ساتھ ساتھ دھنی رام سنگھ کو حسین عورتوں کا بھی شوق تھا۔ شکاری تو وہ تھا ہی اس لئے شکار تک پہنچنا اس کے لئے قطعی مشکل نہیں تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ یہ اس کی چوتھی بیوی ہے۔ بہر حال یہ تذکرہ یوں ہی درمیان میں آگیا۔ میں شہباز پہلوان کی روپوشی اور اپنی در بدری کا ذکر کر رہا تھا۔ دھنی رام سنگھ نے پولیس پارٹی کو اپنے ریسٹ ہاؤس میں ہی ٹھہرا رکھا تھا۔اس کے علاوہ شہباز کی گرفتاری کے سلسلے میں بھی پولیس کی مدد کر رہا تھا۔ اسے شہباز سے کوئی دشمنی تھی اور نہ قانون سے کوئی ہمدردی وہ ہم سے تعاون صرف اس لئے کر رہا تھا کہ وہ ایک بڑا زمیندار تھا اور ایسے زمیندار اپنی رعایا " پر اثر ڈالنے کے لئے پولیس سے تعلقات رکھا ہی کرتے ہیں۔ ریسٹ ہاؤس میں پولیس پارٹی کی خوب ٹہل سیوا ہورہی تھی اس کے علاوہ چنی رام سنگھ کا ملازم خاص بجرنگ مختلف ایسے لوگوں کو ہمارے پاس لاتا رہتا تھا جن سے پہلوان یا ٹیک سنگھ کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکتی تھیں۔
 
اب تک کی تفتیش سے ہمیں اندازہ ہوا تھا کہ نہ صرف شہباز پہلوان ٹیک سنگھ کے پاس پہنچ چکا ہے بلکہ اس کا چھوٹا بھائی ایاز عرف ایازی بھی جو شہباز کے ساتھ ہی مفرور ہوا تھا ٹیک سنگھ کے ٹھکانے پر موجود ہے. ٹیک سنگھ کا ٹھکانہ بھی ہماری نظر میں آگیا تھا مگر وہاں چھاپہ مار کر شہباز کو گرفتار کرنا درندے کی کچھار میں اس کا شکار چھیننے کے برابر تھا۔ جوں جوں اعلیٰ افسران کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا تھا ہماری بھاگ دوڑ بھی شدت پکڑ رہی تھی لیکن فوری طور پر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ کسی وقت بیٹھے بٹھائے مجھے انسپکٹر نہال سنگھ پر سخت غصہ آنے لگتا۔ وہ خود تو دو گولیاں کھا کر سورگ" پدھار گیا تھا اور ہماری جان مصیبت میں ڈال گیا تھا۔ اس نے اناڑی شکاری جیسا کردار ادا کیا تھا جو اپنے غلط نشانے سے شیر کو آدم خور بنا دیتا ہے اور ان گنت زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
 
وہ ایک چمکیلی دوپہر تھی۔ نیم گرم ہوا خودرو پودوں سے اٹھکیلیاں کرتی گزر رہی تھی۔ انسپکٹر اروڑا اندر کمرے میں سو رہا تھا۔ میں لان میں کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ بلال شاہ کے علاوہ دو سپاہی بھی وہاں موجود تھے۔ وہ تینوں ایک تین دن پرانے اخبار پر جھکے ہوئے اپنے اپنے مطلب کی خبر ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اچانک مین گیٹ کی طرف گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی۔ میں نے سمجھا دھنی رام سنگھ کا کوئی شکاری ہوگا۔ یہ لوگ صبح سویرے اکثر مرغابی کے شکار سے واپس آتے تھے ۔ خون آلود تھیلوں میں مرغابیاں یا جنگلی خرگوش بھرے ہوتے تھے یا پھر کوئی فربہ اندام سور گھوڑے پر لدا ہوتا تھا لیکن اس وقت جو گھڑ سوار مین گیٹ پر نظر آیا وہ شکاری نہیں تھا نہ ہی میں نے پہلے اسے دیکھا تھا۔ وہ چوڑے چکلے سینے اور بے حد مضبوط جسم والا ایک سترہ اٹھارہ سالہ نوجوان تھا۔ رنگ گورا چٹا تھا۔ ڈاڑھی ابھی بھر کر نہیں آئی تھی۔ نوجوان کی ریشمی قمیص گریبان سے پھٹی ہوئی تھی اور چہرے پر بائیں آنکھ کے عین نیچے چوٹ کا تازہ نشان تھا۔ وہ گھوڑے سے اتر کر سیدھا ہماری طرف آیا۔ اس کی چال میں پہلوانوں کی سی شان و شوکت تھی۔
 
السلام علیکم ۔ اس نے دونوں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر سلام کیا۔و علیکم السلام بیٹھو۔“ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں بھانپ چکا تھا کہ نوجوان کے لباس میں پستول، ریوالور وغیرہ موجود ہے۔
 
نوجوان نے اپنا تعارف کراتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ شہباز پہلوان کا بھائی ایاز عرف ایازی ہے۔ میں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔ بلاشبہ وہ شہباز کا بھائی تھا۔ سخت حیرت کی بات تھی کہ وہ اس وقت یہاں میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اس کی حالت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی سے مارا ماری کر کے آیا ہے۔ اس نے اپنی قمیص کے نیچے ہاتھ ڈالا اور تہبند کی ڈب میں سے ایک ریوالور اور پندرہ بیس گولیاں نکال کر میرے سامنے تپائی پر رکھ دیں۔ وہ بولا۔ تھانیدار صاحب! میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ اگر کوئی جرم ہے تو صرف یہ کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آٹھ دس ہفتے ٹیک سنگھ کے ڈیرے پر رہا ہوں . اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں جناب مجھے اچھے بُرے کی پہچان ہو گئی ہے۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ کون کیا ہے؟‘ آخری الفاظ کہتے کہتے ایازی کا گلا رندھ گیا۔
 
میں سمجھ گیا کہ ایاز عرف ایازی چوٹ کھا کر آیا ہے۔ میں نے اس کا اسلحہ قبضے میں لیا منہ ہاتھ دھلوایا اور لسی پانی کا انتظام کیا۔ ساتھ ساتھ ایازی سے باتیں بھی ہوتی رہیں۔ وہ شہباز پہلوان کے خلاف غم و غصے سے بھرا ہوا تھا۔ شہباز کے علاوہ اسے ٹیک سنگھ سے بھی شدید رنج پہنچا تھا۔ اس دوران انسپکٹر اروڑا بھی آنکھیں ملتا ہوا باہر لان میں آگیا۔ میں نے اس کی نیند پوری طرح بھگانے کے لئے ایازی کا تعارف اس سے کرایا ۔ اس کی نیند سچ مچ بھاگ گئی اور وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ایازی کو دیکھنے لگا۔ ایازی کی آمد ہمارے لئے بہت خوش کن تھی تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چوکس رہنے کی بھی ضرورت تھی ۔ یہ کسی سازش کا تانا بانا بھی ہوسکتا تھا۔ جس علاقے میں ہم گھسے ہوئے تھے یہاں ہر قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت تھی۔ ایازی سے طویل گفتگو اور پوچھ گچھ کے بعد ہمیں جو کچھ معلوم ہوا اس کا لب لباب یہ ہے۔
 
ایازی کل دو ماہ ٹیک سنگھ کے ڈیرے پر رہا تھا۔ گھنے جنگل میں یہ بالکل عارضی سا ڈیرہ تھا۔ کچے کوٹھے بنے ہوئے تھے۔ وہاں ٹیک سنگھ کے علاوہ پندرہ بیس بندے اور بھی تھے۔ وہ سب مفرور، ڈکیت اور قاتل تھے ۔ ڈیرے میں شراب نوشی کی محفلیں جمتی تھیں اور جواء کھیلا جاتا تھا۔ وہاں ایک خوبصورت لڑکی بھی تھی۔ اس کا نام صفیہ تھا۔ صفیہ کے بارے میں ایازی کو پتہ چلا تھا کہ وہ امرتسر کی رہنے والی ہے۔ اس کے والدین ایک حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہ بے آسرا ہے اور علاقے کا ایک خانوں نامی بدنام بندہ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ کسی میں جرات نہیں تھی کہ وہ اس غنڈے کے خلاف لڑکی کی مدد کرتا۔ ٹیک سنگھ نے اس کی مدد کی اور پناہ کا وعدہ کر کے اپنے ساتھ لے آیا۔ اب وہ لڑکی ٹیک سنگھ کے ساتھ رہتی ہے اور اسے بھائی کہتی ہے

نوجوان ایازی کی باتوں سے پتہ چلا کہ وہ پہلی نگاہ میں ہی لڑکی کے تیر نظر کا شکار ہو گیا تھا۔ لڑکی بھی اس کی طرف مائل تھی اور اس خطرناک ماحول سے نکل جانا چاہتی تھی۔ علاقے کے بدنام ترین بدمعاش جب اکٹھے ہو کر شراب پیتے تھے، فخش گالیاں دیتے تھے اور برہنہ ڈانس کرتے تھے تو وہ بیچاری ڈر سہم کر کسی کونے میں دبکی رہتی تھی۔ اگر پورن کچھ سے باہر اسے شہری غنڈے خانوں کا خوف نہ ہوتا تو وہ ایک پل بھی یہاں رکنا پسند نہ کرتی۔ ایازی کو بھی یہ ماحول ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ وہ بھائی کی محبت میں سب کچھ چھوڑ کر اس ویرانے میں چلا آیا تھا لیکن یہاں آکر وہ دیکھ رہا تھا کہ بھائی دن بدن بدلتا جا رہا ہے۔ وہ جو سگریٹ کو بھی ہاتھ نہیں لگاتا تھا اب شراب پیتا تھا۔ گالیاں بکتا تھا اور بازیاں لگاتا تھا اور ایک روز پہلے تو حد ہی ہوگئی ۔ ایازی نے اپنے بھائی کو صفیہ کے ساتھ غیر حالت میں دیکھ لیا۔ اس کا خون کھول اُٹھا۔ وہ بھائی جسے وہ باپ کی جگہ سمجھتا تھا کتنی بے دردی سے اس کے دل کا خون کر رہا تھا۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ وہ صفیہ کو چاہتا ہے اور اس سے شادی کا خواہش مند ہے۔ 
 
شہباز اس کو اپنی بانہوں میں بھر رہا تھا۔ یہ نظارہ کسی طور ایازی کے لئے قابل برداشت نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں چنگاریاں بھر گئیں۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر وہ کمرے میں گھس گیا۔ اس کی آمد نے شہباز کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ وہ خجل نظروں سے ایازی کی طرف دیکھنے لگا لیکن پھر اس نے سنبھالا لیا۔ اس کے چہرے پر ہراس کی جگہ غصے کی سرخی نظر آنے لگی۔ یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والا معاملہ ہو گیا۔ شہباز غصے سے بولا کہ وہ بغیر پوچھے اندر کیوں گھس آیا ہے۔
 
 ایازی بھی آتش فشاں کی طرح کھول رہا تھا۔ معلوم نہیں اس کے منہ سے کیا بات نکلی کہ شہباز آپے سے باہر ہو گیا۔ وہ خون آشام جانور کی طرح ایازی پر جھپٹا اور اسے مارنے لگا۔ ایازی نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی لیکن کچھ بھی تھا شہباز طاقت میں اس سے کہیں بڑھ کر تھا۔ وہ ایک بھرپور جوان تھا جب کہ ایازی کا جسم ابھی بھر رہا تھا اور زور پکڑ رہا تھا۔ شہباز نے لمحوں میں اسے دھنک کر رکھ دیا۔
 
بھائی کے سلوک نے ایازی کا دل چھلنی کر دیا تھا۔ کل رات ہی اس نے ٹیک سنگھ کا ڈیرہ چھوڑ دیا اور ڈیک نالہ پار کر کے کھلے علاقے میں آگیا۔ یہیں پر اسے معلوم ہوا کہ شہباز پہلوان کی تلاش میں آنے والی پولیس پارٹی نے پچھلے کئی ہفتوں سے دھنی رام سنگھ کے ریسٹ ہاؤس میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اس نے سیدھا ریسٹ ہاؤس کا رخ کیا اور ہمارے پاس پہنچ گیا۔
 
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ایاز کی آمد ہمارے لئے نہایت نیک شگون تھی ۔ اب یہ ہمارا کام تھا کہ اس شگون کو زیادہ سے زیادہ نیک" کیسے بنایا جائے۔ شہباز کی گرفتاری کے سلسلے میں ایازی ہمیں بہت مفید مشورے دے سکتا تھا۔ وہ دو ماہ ٹیک سنگھ کے ڈیرے پر رہا تھا اور وہاں کی ہر اونچ نیچ سے واقف تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ دل و جان سے بھائی کے خلاف ہو چکا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے اپنے کئے کی قرار واقعی سزا ملے۔
 
اگلے چوبیس گھنٹے میں ایازی نے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی بھائی سے سارے ناتے توڑ چکا ہے اور پوری نیک نیتی کے ساتھ پولیس سے تعاون پر آمادہ ہے۔ (ایازی کی مایوسی دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ پچھلے دو تین ماہ میں شہباز پہلوان گمراہی کے راستے پر بڑی تیزی سے آگے بڑھا ہے) ایازی نے ہمیں ایک نہایت کارآمد بات بتائی۔ اس نے کہا۔ ” دو ہفتے بعد دیوالی ہے اور ٹیک سنگھ کا ارادہ ہے کہ دیوالی امرتسر جا کر دیکھی جائے۔ ایک روز رات کو وہ اپنے ایک ساتھی ہاشو خان سے یہ بات کر رہا تھا۔ میں نے کسی طرح یہ باتیں سن لی تھیں ۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ اگر وہ لوگ دیوالی پر گئے تو شہباز بھی ان کے ساتھ جائے گا اور وہاں وہ اسے " پہلی دھاڑ کی خاص شراب پلائیں گے ۔ مجھے امید کی کرن دکھائی دینے لگی ۔ مجھے کسی ایسے ہی موقع کی تلاش تھی۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہم دس پندرہ روز تو کیا دس پندرہ ہفتے بھی انتظار کر سکتے تھے ۔ 
 
شام کو دھنی رام سنگھ سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی۔ اس نے بھی یہی مشورہ دیا کہ خطرناک علاقے میں گھس کر جانیں مصیبت میں ڈالنے کی بجائے دس پندرہ روز انتظار کر لینا مناسب ہے۔ امرتسر کی دیوالی دیکھنے کے لائق ہوتی تھی۔ قرب وجوار کے دیہات سے لوگ جوق در جوق یہاں پہنچتے تھے۔ دربار صاحب کے اندر اور باہر میلہ سا لگ جاتا تھا۔ کئی شوقین مزاج دو روز پہلے یہاں ڈیرے ڈال لیتے تھے اور خوب موج میلہ کرتے تھے ۔ دربار صاحب کے باہر والے بازاروں میں بڑی دھوم ہوتی تھی۔ کھلی جگہوں پر کھیل تماشوں کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ ہم امرتسر پہنچے تو دیوالی میں ابھی ایک روز باقی تھا لیکن رش دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ آج ہی دیوالی ہے۔
 
 دربار صاحب کے اندر باہر روشنیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ اکالی تخت میں ہتھیاروں کی نمائش تھی اور ہر مندر میں ماتھا ٹیکنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پولیس پارٹی میں بلال شاہ، انسپکٹر اروڑا، انسپکٹر درویش علی، سب انسپکٹر راجندر اور دو کانسٹیبل شامل تھے۔ ہم سب دیہاتیوں کے بھیس میں تھے۔ امرتسر پہنچتے ہی ہم سیدھے دربار صاحب آئے تھے اور دربار صاحب آتے ہی ہجوم میں تتر بتر ہو گئے تھے۔ تاکہ ملزمان کو شناخت کیا جائے۔
 
پہلوان شہباز ڈیل ڈول کے لحاظ سے ایسا آدمی تھا کہ سینکڑوں کے مجمعے میں بھی نظر پر چڑھ سکتا تھا۔ مجھے پوری امید تھی کہ اگر وہ دربار صاحب کی دیوالی میں پہنچا ہے تو بچ کر نہیں جاسکے گا۔
 
دربار صاحب میں گھومتے ہوئے ہی مجھے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کل ایک قریبی احاطے میں کشتیوں کے مقابلے بھی ہوں گے۔ ارد گرد کے کئی نامور پہلوان ان مقابلوں میں حصہ لے رہے تھے ۔ ہمارے تھانے جیون کے دو پہلوان بھی اس دنگل میں اُتر رہے تھے۔ میرا دل گواہی دینے لگا کہ اگر شہباز پہلوان یہاں موجود ہے تو وہ کل کی کشتی دیکھنے ضرور آئے گا۔ چاہے تھوڑی دیر کے لئے ہی آئے۔ کشتی کا سن کر بلال شاہ بھی بڑے جوش و خروش کا اظہار کرنے لگا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ گاؤں میں اس نے اپنا ایک پٹھا تیار کر رکھا تھا۔
 
 یہ پٹھا بھی دیوالی میلے پر آیا ہوا تھا اور بلال شاہ سے اس کی ملاقات ہو چکی تھی ۔ بلال شاہ نے اس کی تیاری دیکھ کر اعلان کر دیا تھا کہ وہ بھی اپنے پٹھے کا جوڑ کرائے گا۔ غالباً اس نے سوچا تھا کہ گاؤں سے دور امرتسر کے میلے میں پٹھا ہار بھی گیا تو کون سی قیامت آجائے گی۔ زیادہ سے زیادہ پولیس پارٹی کو پتہ چلے گا یا چند گنے چنے افراد اس ہار سے باخبر ہوں گے اور پھر اس نے کون سا خود کشتی لڑنی تھی اپنے پٹھے کو ہی لڑانی 
تھی اسے پتہ نہیں تھا کہ کیا مصیبت اس کے گلے پڑنے والی ہے۔
 
اگلے روز دوپہر کو کشتیوں کا آغاز ہوا۔ دھیرے دھیرے دنگل میں گرمی پیدا ہوتی گئی ۔ ڈھول زور و شور سے بج رہے تھے ۔ بھنگڑے ڈالے جا رہے تھے اور جیتنے والے پہلوانوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں۔ اس تماشے کے ارد گرد پولیس پارٹی کے ارکان سادہ کپڑوں میں موجود تھے اور ہر مشکوک شخص پر نظر رکھے ہوئے تھے کشتیاں ہوتی رہیں اور تھوڑی دیر بعد بلال شاہ کے پٹھے کی باری بھی آگئی۔ اس نوجوان کا نام اسد تھا۔ یہ ایک سابقہ نمبردار کرموں جٹ کا بیٹا تھا۔ اچھے جسم کا مالک تھا لیکن قد کچھ چھوٹا تھا۔ اوپر سے اسے بلال شاہ جیسا پیر استاد ملا ہوا تھا ۔ کشتی شروع ہوئی تو مخالف پہلوان نے اسے پہلا داؤ ہی ایسا مارا کہ وہ پانچ فٹ ہوا میں اچھل کر بلال شاہ کے قدموں میں جا گرا۔
 
 چت ہونے میں بس تھوڑی سی کسر رہ گئی تھی۔ حریف پہلوان نے اسے دبوچ لیا اور سینے کے زور سے رگید رگید کر چاروں شانے چت کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پٹھے سے زیادہ بلال شاہ کا اپنا زور لگ رہا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر اسے داو بتا رہا تھا۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے