پہلوان اور مریدنی - پارٹ 4

urdu font stories

داؤ بتاتے بتاتے اسے نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے اکھاڑے میں پاؤں رکھ دیا۔ اس بات پر مخالف پہلوان کا خلیفہ بھڑک اُٹھا۔ اس نے چلا کر بلال شاہ سے کہا کہ وہ اتنا ہی سانڈ ہے تو خود میدان میں آجائے ۔ بلال شاہ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دے دیا ۔ مخالف پہلوان کے خلیفے نے اسی وقت بھڑک کر قمیص اُتار پھینکی پھر دھوتی اتار کر ایک طرف رکھ دی اور ران پر ہاتھ مار کر بولا ۔ میں تجھ سے دس پندرہ سال بڑا ہوں لیکن ابھی ان ہڈیوں میں اتنی طاقت ہے کہ تجھ جیسے بند گوبھی کا عرق نکال سکوں ۔ 
 
باپ کا ہے تو ابھی آ میدان میں ۔" بلال شاہ کے چودہ طبق روشن ہو گئے لیکن باپ کی گالی درمیان میں آگئی تھی وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔ بہت سے لوگ بلال کی طرف دیکھ کر شور مچانے لگے۔ اُٹھ جاؤ خلیفہ جی اتار دیو کپڑے ہو جائے ہتھ جوڑی۔ بلال شاہ کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے پاس جا کر کہا۔ ”دودھ جلیبیاں اور ادھ رڑکے حرام مت کرو۔ خلیفہ بنے ہو تو بن کے دکھا دو ۔ ہو جانے دو جو ہوتا ہے۔ لوگ دائیں بائیں سے بلال شاہ کو دھکیلنے لگے اور عمر رسیدہ افراد نے ہمت افزائی کے لئے تھپکیاں دینا شروع کر دیں۔ اس دوران بلال شاہ کے پٹھا صاحب بھی اکھاڑے میں چاروں شانے چت ہو گئے۔ لوگوں نے شور مچا دیا۔ سب انسپکٹر درویش علی نے بلال شاہ کے کان میں کہا۔ ” شاہ جی ہن تے تہاڈی کشتی بن دی اے۔ تخت تے بیٹھ جاؤ یا تختہ ہو جاؤ۔

مخالف خلیفے نے اکھاڑے میں داخل ہو کر ایک ٹانگ پر رقص کیا اور بلبلی مار دی۔ اب معاملہ بلال شاہ کی برداشت سے باہر ہو چکا تھا۔ اس نے بھی قمیص اتار پھینکی ۔ مخالف خلیفے کی طرح دھوتی بھی اتار پھینکی لیکن سب سے نیچے اس نے جانگیہ نہیں پہن رکھا تھا۔ ایک پہلوان نے اپنا سرخ جانگیہ یعنی لنگوٹ بلال شاہ کو پیش کیا۔ ہم سب نے مل ملا کر لنگوٹ بلال شاہ کو کسایا۔ بس کچھ نہ پوچھیں لنگوٹ میں بلال شاہ کیسا لگ رہا تھا۔ اب بھی منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ لنگوٹ نہ اسے باندھنا آتا تھا نہ ہمیں۔ بس یوں لگ رہا تھا کہ ابھی کھلا ابھی کھلا۔ تھل تھل کرتی خمیرے آٹے جیسی توند نے سامنے سے لنگوٹ کو مکمل طور پر چھپارکھا تھا۔ چھاتی ڈھلکی ہوئی تھی اور کندھے آگے کو جھکے ہوئے تھے ۔ 
 
اکھاڑے میں پہنچ کر بلال شاہ نے اپنے حریف کی طرح پنجوں پر اچھلنے کی کوشش کی لیکن ایسا کرنے سے اس کی توند اور چھاتیاں ایسے بے ڈھنگے طریقے سے ہلیں کہ وہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ بلال شاہ کا حریف عمر میں بڑا ضرور تھا لیکن تھا پہلوان - بلال شاہ کی طرح جعلی خلیفہ نہیں تھا۔ وہ خاصا با اعتماد دکھائی دیتا تھا اب بلال شاہ کولنگوٹے میں جلوہ گر دیکھ کر اس کا اعتماد کچھ اور بڑھ گیا تھا۔
 
منصف نے کشتی شروع کرائی۔ حریف پہلوان اکو نے کس کر بلال شاہ کی گردن پر کسوٹا مارا۔ بلال شاہ چکر کھا کر اکھاڑے سے باہر گرا لیکن گرتے ساتھ ہی تیزی سے کھڑا ہو گیا۔ بلال شاہ کوئی کمزور شخص نہیں تھا۔ لڑائی بھڑائی کرنا جانتا تھا۔ بندے کو ایسا جن جھپا مارتا تھا کہ وہ ہل نہیں سکتا تھا۔ مگر یہ کشتی تھی لڑائی نہیں تھی اور کشتی بھی ایک تجربہ کار پہلوان سے۔ اس نے بلال شاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا اور ایسا کھینچا مارا کہ وہ بیچارہ دو تین قلابازیاں کھا گیا۔ لوگوں نے شور کر کے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ اس سے پہلے کہ بلال شاہ اُٹھتا اکو نے اسے جا دبوچا۔ بس پھر کچھ نہ پوچھیں ۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ وہاں جو کچھ بلال شاہ سے ہوا یاد گار تھا۔ اس کم بخت نے بلال شاہ کو اُٹھا اُٹھا کر پٹخا اور چیخ چیخ کر اُٹھایا۔ ہوش ہی نہیں آنے دی اس نے ۔ ہمیں ہر گھڑی یہ فکر لگی ہوئی تھی کہ کہیں بلال شاہ کا لنگوٹ بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑ دے ۔ 
 
یہ آخری کسر بھی نکل جاتی تو وہ یقیناً خودکشی کے بارے میں سنجیدہ ہو جاتا۔ مخالف پہلوان واقعی استاد تھا۔ وہ بلال شاہ کو رگید تو رہا تھا لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ کہیں وہ چت نہ ہو جائے کیونکہ وہ چت ہو جاتا تو کھیل ختم ہو جاتا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ بلال شاہ خود چت ہونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ چت نہیں ہونے دیتا تھا۔ پھر اچانک وہی بات ہوئی جس کا مجھے خطرہ تھا۔ بلال شاہ کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑ نکلی اور یہ کشتی سیدھی سادی لڑائی میں بدل گئی۔ خود کو حریف پہلوان سے چھڑا کر بلال شاہ اکھاڑے سے باہر لپکا۔ اندر سے صاف ظاہر تھا کہ پختہ اینٹ یا ایسی ہی کوئی اور چیز ڈھونڈ نے نکلا ہے. بلال شاہ کو قابو کرنے کے لئے میں اور درویش علی اس کی طرف بھاگے اور اس وقت میری نگاہ شہباز پہلوان پر پڑی شہباز پہلوان جو اب پہلوان نہیں تھا۔ ایک خونی قاتل اور ڈکیت تھا۔
 
پہلوان نے پگڑی باندھ رکھی تھی۔ پگڑی کا چلو ٹھوڑی کے نیچے سے گزار کر بائیں کان میں اڑسا ہوا تھا۔ اس طرح ڈھاٹا سا بن گیا تھا اور شہباز پہلوان کی صورت آدھے سے زیادہ چھپ گئی تھی۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس کے ارد گرد سفید کپڑوں میں پولیس والے موجود ہیں ۔ جب بلال شاہ اپنے مخالف پہلوان کو گالیاں دیتا اکھاڑے سے باہر بھاگا تو شہباز پہلوان نے اسے دبوچ لیا۔ ایک ہاتھ بلال شاہ کی بغلوں کے نیچے سے گزار کر اسے نے بلال شاہ کو یوں اُٹھا لیا جیسے چیل چوزے کو اُٹھاتی ہے۔ بلال شاہ شہباز پہلوان کی گرفت میں بُری طرح مچل رہا تھا۔ شہباز پہلوان نے مزاحیہ انداز میں ہنسنا شروع کر دیا۔ ساتھ ساتھ وہ بلال شاہ کو پکار رہا تھا۔ 
 
بس جانے دو خلیفہ جی ۔ کشتی میں غصہ اچھا نہیں ہوتا۔ ویسے بھی تمہارا لنگوٹ ڈھیلا ہو گیا ہے۔ کہیں گر ہی نہ جائے ۔“ بلال شاہ تو جیسے غصے میں اندھا ہو رہا تھا۔ اگر اسے شہباز پہلوان نے نہ پکڑا ہوتا تو یقیناً وہ اب تک خود کو چھڑا چکا ہوتا اور اپنے حریف پہلوان سے اس کی کھلم کھلا جنگ ہو گئی ہوتی۔ ایک دم ہی شہباز پہلوان اور بلال شاہ کے گرد لوگوں کا ہجوم ہو گیا۔ بلال شاہ کی ناک سے مسلسل خون بہہ رہا تھا اور طیش کے عالم میں جو اس کی زبان پر آرہا تھا کہتا چلا جا رہا تھا۔ اکھاڑے میں تو وہ مخالف پہلوان سے مات کھا گیا تھا لیکن زبانی کلامی اس نے اپنے حریف کی سات پشتوں کو وہ رگڑے دیئے کہ خدا کی پناہ۔ ایک دو بزرگ پہلوانوں نے پوچھا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ وہ کیوں اتنا سیخ پا ہورہا ہے۔
 
بلال شاہ گرج کر بولا ۔ " اس حرامی نے مجھے ماں بہن کی گالیاں دی ہیں۔" یہ سرا سر الزام تھا۔ اصل بات میں اچھی طرح جانتا تھا، یقینا دوسرے لوگ بھی جان گئے ہوں گے۔ در اصل حریف پہلوان نے بلال شاہ کو جان بوجھ کر خوار کیا تھا۔ بلال شاہ پر حاوی ہونے کے باوجود وہ کشتی کو طول دیتا رہا۔ پھر ایک موقع ایسا آیا تھا کہ بلال شاہ خود چت ہو جانا چاہتا تھا تاکہ اس کی جان چھوٹے لیکن وہ اسے چت بھی نہیں ہونے دیتا تھا۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ بلال شاہ زور لگا کر اپنے دونوں کندھے زمین سے لگانے کی کوشش کر رہا تھا اور حریف پہلوان اسے اوندھا کرنے کی فکر میں ہے۔ بڑی دلچسپ کشتی ہوئی تھی یہ اب کشتی سے بھی بڑھ کر دلچسپ لڑائی ہو رہی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو یقیناً ہم اس لڑائی بھڑائی سے بہت لطف اندوز ہوتے لیکن اب شہباز پہلوان ہمیں نظر آچکا تھا اور اس خونی پر قابو پانے کا چیلنج ہمارے سامنے تھا۔ میں نے قمیص کے نیچے ہاتھ ڈال کر اپنا سرکاری ریوالور نکال لیا اور لوگوں کے درمیان راستہ بناتا شہباز پہلوان کی طرف بڑھنے لگا۔ سامنے سے انسپکٹر اروڑا بھی آہستہ آہستہ شہباز کی طرف آرہا تھا۔ میری نگاہیں شہباز پہلوان کے ارد گرد ٹیک سنگھ کو تلاش کر رہی تھیں۔ 
 
یقینی بات تھی کہ شہباز یہاں ہے تو ٹیک سنگھ بھی آس پاس موجود ہوگا ۔ اور پھر میں نے ٹیک سنگھ کو دیکھ لیا۔ وہ شہباز کی بائیں جانب کھڑا تھا۔ اس نے ایک گرم چادر پگڑی کے اوپر سے گزار کر گردن کے گرد لپیٹ رکھی تھی۔ رنگ سانولا اور آنکھیں انگاروں کی طرح سرخ نظر آتی تھیں۔ ابھی میں اور انسپکٹر اروڑا شہباز سے آٹھ دس فٹ دور ہی تھے کہ اچانک بجلی سی لپک گئی۔ شہباز کے پیچھے سے سب انسپکٹر راجندر برآمد ہوا اور ست سری اکال کا نعرہ لگا کر اس نے شہباز کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا۔ سب انسپکٹر راجندر کافی لحیم شحیم نوجوان تھا۔ کبڈی کھیلتا تھا اور اس کی گرفت بڑی مشہور تھی لیکن اس نے جسے پکڑا تھا وہ شہباز پہلوان تھا اور شہباز پہلوان کو جپھا ڈالنے کی کوشش کو "غلطی" کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا تھا۔ میں نے شہباز پہلوان کو تیزی سے گھومتے دیکھا، چند لمحوں کے لئے راجندر نے شہباز پر گرفت قائم رکھنے کی کوشش کی پھر پسلیوں میں ایک زور دار کہنی کھائی اور اچھل کر دور جا گرا۔ اتنے میں سب انسپکٹر درویش علی بھی شہباز پر جا پڑا ۔
 
اس نے پیچھے سے آکر بڑی پھرتی سے اپنی پگڑی شہباز کے گلے میں ڈال دی اور کھینچا مار کر اسے کمر کے بل گرانے کی کوشش کی۔ شہباز تھوڑا سا لڑ کھڑا کر ایک بار پھر سنبھل گیا۔ شاید درویش علی کا دوسرا جھٹکا اسے گرا ہی دیتا لیکن اس دوران ٹیک سنگھ حرکت میں آگیا۔ درویش علی ٹیک سنگھ کی موجودگی سے بالکل بے خبر تھا۔ ٹیک سنگھ نے اپنی چادر کے نیچے سے کارپین نکالی اور اس کا دستہ بڑے زور سے درویش علی کی گردن پر مارا۔
 
 درویش علی کے ہاتھ سے پگڑی چھوٹ گئی اور وہ لہرا کر اوندھے منہ اکھاڑے میں جا گرا۔ ایک دم شہباز نے بھی اپنے لباس کے اندر سے ولایتی ریوالور نکال لیا۔ ٹیک سنگھ اور شہباز اندھا دھند ہوائی فائرنگ کرتے مخالف سمت میں بھاگے۔ ریوالور میرے ہاتھ میں تھا لیکن میں فائر نہیں کر سکتا تھا۔ چاروں طرف بھگدڑ مچی ہوئی تھی اور گولی کسی کو بھی لگ سکتی تھی ۔ انسپکٹر اروڑا نے چند ہوائی فائر کئے اور چلا چلا کر شہباز کو رکنے کا حکم دینے لگا۔ اس چیخ و پکار کا بھلا کیا اثر ہونا تھا۔ ہم آگے پیچھے بھاگتے اکھاڑے سے کوئی ایک فرلانگ آگے نکل آئے۔ یہ دربار صاحب کا پچھواڑا تھا۔ یہاں ایک چھوٹے چوک سے تین گلیاں مختلف سمتوں میں نکلتی تھیں۔ درمیان والی گلی میں خاکی رنگ کی ایک کھٹارہ جیپ کھڑی ہوئی تھی ۔ شہباز ، ٹیک سنگھ اور ان کا ایک ساتھی بھاگتے ہوئے جیب میں سوار ہو گئے۔
 
 جیپ کا رخ ہماری طرف تھا۔ اس کے اندر ڈرائیور پہلے سے موجود تھا۔ ڈرائیور نے پھرتی سے جیپ ریورس کی۔ وہ اسے واپس موڑنا چاہتا تھا لیکن گلی تنگ تھی۔ جیپ کا رخ مڑتے مڑتے ہم بھاگنے والوں کے سر پر پہنچ سکتے تھے۔ میرے دل میں امید کی کرن روشن ہوئی کہ شاید ہم شہباز اور ٹیک سنگھ کو گھیر لیں لیکن پھر ہماری آنکھوں نے طاقت کا ایک زبردست مظاہرہ دیکھا ۔ شہباز پہلوان جست لگا کر جیپ سے اُترا۔ جیپ کے پچھلے بمپر پر ہاتھ ڈالا اور اُٹھا کر جیپ کو گھما ڈالا۔ رخ مڑتے اُن کی جیپ کمان سے نکلے تیر کی طرح بڑی سڑک کی طرف گئی ۔ میں نے شہباز پہلوان کو بھاگ کر جیب میں کودتے اور اوجھل ہوتے دیکھا۔ اس وقت جیپ سے میرا فاصلہ بیس گز کے قریب تھا۔ اس موقع پر میں نے بڑی احتیاط سے جیپ کے ٹائروں پر تین گولیاں چلائیں لیکن نشانہ خطا گیا ۔ جیپ شور مچاتی اور دھول اُڑاتی بڑی سڑک کی طرف نکل گئی۔
✩============✩
سری امرتسر کی دیوالی سے شہباز اور ٹیک سنگھ کا نکل بھاگنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ یہ واقعہ یوں کچھ اور سنگین ہو گیا تھا کہ جیپ میں فرار ہوتے وقت ملزموں نے بڑی سڑک کے موڑ پر ایک سائیکل سوار کو بھی روند ڈالا تھا۔ سائیکل سوار بُری طرح زخمی ہوا تھا اور سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھی ہوئی ایک گڑیا سی لڑکی موقع پر جاں بحق ہو گئی تھی ۔ دربار صاحب سے فرار ہو کر شہباز ایک بار پھر اپنی کمین گاہ یعنی پورن کچھ میں گھس چکا تھا۔ ہم اس کا تعاقب کرتے ہوئے دوبارہ زمیندار دھنی رام کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچ گئے ۔ 
 
جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ یہ ریسٹ ہاؤس کپور تھلہ سے چالیس میل دور دریائے ستلج کی جانب ایک دشوار گزار علاقے میں واقع تھا۔ پہلے بھی ہم شہباز کے تعاقب میں اس ریسٹ ہاؤس سے آگے نہیں جا سکے تھے ، اب پھر وہی مسئلہ در پیش تھا۔ ریسٹ ہاؤس سے آگے ڈیک نالہ تھا اور نالے سے آگے گھنا جنگل تھا جہاں قدم رکھنا موت کو دعوت دینا تھا۔ ایک برس پہلے اسی علاقے میں انگریز کپتان کی کمپنی تباہ و برباد ہوئی تھی۔ دھنی رام سنگھ ابھی تک ریسٹ ہاؤس میں موجود تھا۔ وہ سارا دن شکار کھیلتا، شام کو مے نوشی کرتا اور رات کو اپنی عمر سے آدھی بیوی کے ساتھ خواب گاہ میں گھس جاتا۔ پچھلی دفعہ بلال شاہ بھی ہمارے ساتھ تھا اور وہ ادھیڑ عمر دھنی رام کی نوعمر بیوی پر بڑے چٹ پٹے تبصرے کیا کرتا تھا مگر اس دفعہ بیچارا امرتسر میں تھا اور اپنی ناک کی چوٹ کا علاج کرا رہا تھا۔ یہ چوٹ اسے کشتی کے دوران ہی آئی تھی اور کافی خون بہا تھا۔ پھر سوجن اس کی آنکھوں کو چڑھ گئی تھی اور دو گھنٹوں میں چہرہ نیلا کچ ہو گیا تھا۔
 
ریسٹ ہاؤس میں ہمیں چھٹا ساتواں دن تھا جب ایک ضروری کام سے مجھے واپس اپنے تھانے جیون جانا پڑا۔ میں نے اپنے عملے کو ضروری ہدایات دیں اور دو دن میں واپس آنے کا کہہ کر پورن کچھ سے براستہ امرتسر جیون پہنچ گیا۔ تھانے پہنچا ہی تھا کہ بلال شاہ آ دھمکا۔ اس کی سوجن اُتر چکی تھی اور چہرے کا رنگ بھی قریباً ٹھیک تھا۔ اس نے آتے ساتھ ہی بتایا کہ میرے لئے اس کے پاس ایک اہم خبر ہے۔ میں نے کہا۔ ” سناؤ ۔“ وہ بولا ۔ " مجھے یقین ہے خان صاحب، نجمہ کا اب بھی شہباز پہلوان سے رابطہ ہے ۔ نجمہ کا نام میرے ذہن سے اُتر چکا تھا۔ میں سوالیہ نظروں سے بلال شاہ کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ بولا ۔ وہی نرس نجمہ جناب ، جو شہباز کو بھائی کہتی ہے اور اس سے ملنے لاہور جاتی رہی ہے۔“ میں نے کہا۔ " کیا شک ہوا ہے تمہیں اس پر ؟" وہ بولا ۔ ” شک نہیں جناب، یقین ہوا ہے۔ میں نے خود نجمہ کے پاس ایک خط دیکھا ہے اس پر شہباز احمد کا نام لکھا ہوا ہے۔“ میں نے پوچھا۔ لیکن تم اس نرس سے کہاں ملے تھے؟

وہ اپنی زخمی ناک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ۔ " امرتسر ہسپتال میں اس سے مرہم پٹی جو کرواتا رہا ہوں میں ۔ اب پوری بات میری سمجھ میں آگئی۔ میں نے بلال شاہ سے تفصیل پوچھی کہ وہ پہلوان اور نجمہ کے رابطے میں کیا جانتا ہے۔ اس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے کہا۔ پرسوں کی بات ہے ڈریسنگ روم میں نجمہ میری پٹی اتار رہی تھی کہ ایک ڈاکٹر گھبرایا ہوا اندر آیا۔ اس نے نجمہ سے کوئی ٹیکہ مانگا جو کسی بے ہوش مریض کو لگایا جاتا تھا۔ یہ ٹیکہ ڈریسنگ روم کی الماری میں رکھا تھا۔ الماری کی چابی نجمہ کے پاس تھی۔ اس نے اپنے سفید کوٹ کی جیبوں میں چابی ڈھونڈی لیکن وہ ملی نہیں۔ ڈاکٹر اسے جھڑکنے لگا۔ نجمہ پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی اور گھبرا گئی۔ وہ جلدی جلدی اپنی جیبیں اور میز کے دراز وغیرہ دیکھنے لگی۔ گھبراہٹ میں اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس نے اپنی جیب سے کچھ چیزیں نکال کر سامنے میز پر رکھ دی ہیں۔ ان میں رومال، روپے اور کاغذات وغیرہ تھے۔ انہی کاغذات میں مجھے ڈاک کا ایک لفافہ نظر آگیا۔ اس پر امرتسر کے گر والی دروازے کا پتہ لکھا تھا اور نیچے لکھنے والے کا نام شہباز احمد لکھا ہوا تھا۔ میرا جی چاہا کہ نظر بچا کر یہ لفافہ اٹھا لوں مگر موقع نہیں ملا۔ اسی دوران نجمہ کو چابی مل گئی اور اس نے سارے کاغذات وغیرہ اُٹھا کر واپس جیپ میں رکھ لئے۔
 
مجھے بلال شاہ کی اطلاع میں کوئی چونکا دینے والی بات نظر نہیں آئی۔ ڈاک کے لفافے پر شہباز احمد لکھا ہوا تھا ممکن تھا یہ کوئی دوسرا شہباز ہو، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ بلال شاہ کو نام پڑھنے میں غلطی ہو گئی ہو۔ وہ جتنا پڑھا لکھا تھا مجھے اچھی طرح معلوم تھا ۔ سوائے چھٹی کی عرضی کے وہ کوئی خط خود نہیں لکھ سکتا تھا۔ چھٹی کی عرضی میں بھی وہ بخدمت کو ” بخدمط“ اور عرض ہے کو ارض ہے لکھنا اس کا پرانا مشغلہ ہے۔ میں نے کہا۔ ” شاہ جی! ہو سکتا ہے یہ کوئی اور شہباز احمد ہو یا پھر ..
 
بلال شاہ کی آنکھوں میں چمک نظر آنے لگی۔ میری بات کاٹ کر بولا ۔ آپ تو خواہ خواہ ٹھنڈے دودھ پر پھونکیں مار رہے ہیں۔ اتنی اہم اطلاع آپ کو دے رہا ہوں اور آپ کو قدر ہی کوئی نہیں ہے، اس خط والی بات کی تو اب پوری تصدیق ہوگئی ہے۔ ایک فیصد بھی شک نہیں رہا ہے اس میں ۔"
"کیا مطلب؟" میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
وہ بولا ۔ دیکھیں خان صاحب۔ ذرا غور کریں بات پر۔ پرسوں میں نے نمجمہ کے پاس وہ خط دیکھا ہے اور آج صبح مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ اپنے بھائی حسنین کے ساتھ دیپالپور جارہی ہے۔
 
دیپالپور کا نام سن کر میری دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کپورتھلہ سے قریباً پینتیس میل دور پورن کچھ کی سرحد پر واقع تھا۔ یہاں ایک پولیس چوکی اور سکھوں کی ایک چھوٹی سی زیارت بھی تھی۔ اس دور دراز قصبے میں نرس نجمہ کا جانا کیا معنی رکھتا تھا۔ اگر نجمہ واقعی جارہی تھی تو یہ معاملہ اہم ہو جاتا تھا۔ میں نے بلال شاہ سے پوچھا کہ نجمہ کب روانہ ہورہی ہے۔ وہ بولا ۔ کل صبح "
میں نے پوچھا۔ " صرف چھوٹے بھائی کے ساتھ جا رہی ہے؟“ نہیں۔ بلال شاہ نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔ نجمہ کا بہنوئی بھی اس کے ساتھ ہے۔ اس کا نام عاقل ہے۔ وہ ہائیکورٹ میں پیش کار ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ بڑا ہوشیار بندہ ہے۔ نجمہ نے میرے سامنے دو تین مرتبہ اس کا ذکر کیا ہے۔“ میرے اور بلال شاہ کے درمیان کافی دیر یہ گفتگو ہوتی رہی۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ دو ہوشیار مخبر نجمہ کے پیچھے لگا دیئے جائیں اور وہ چوبیس گھنٹے اس پر نگاہ رکھیں ۔ 
 
جیون تھانے میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد میں پھر پورن کچھ روانہ ہو گیا۔ اس دفعہ بلال شاہ بھی میرے ساتھ تھا۔ کپورتھلہ سے قریباً تیس میل آگے بڑی سڑک سے ایک چھوٹی سڑک اس قصبے کی طرف جاتی تھی جہاں نجمہ کو جانا تھا۔ دیپالپور نامی یہ قصبہ صرف چار میل کے فاصلے پر تھا لیکن ہمارا وہاں جانا ٹھیک نہیں تھا۔ ویسے بھی دو مخبر سائے کی طرح نجمہ اور اس کے بہنوئی کے ساتھ چپکے ہوئے تھے ۔ ہم وہاں جا کر اور کیا تیر مار لیتے ۔ ان دونوں مخبروں کے پاس دھنی رام سنگھ کے ریسٹ ہاؤس کا مکمل پتہ موجود تھا ۔ کوئی اہم اطلاع ہوتی تو وہ فوراً ہم سے رابطہ قائم کر سکتے تھے شام سے تھوڑی دیر پہلے ہم واپس ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ 
 
ریسٹ ہاؤس کی رات بڑی افسانوی قسم کی ہوتی تھی۔ ہوا ویران درختوں میں خراٹے بھرتی ہوئی گزرتی اور رات کے سنانے میں میلوں دور سے جنگلی جانوروں کی آوازیں سنائی دے جاتیں۔ کبھی کبھی کوئی گیدڑ ریسٹ ہاؤس کے بالکل نزدیک چلا آتا اور اچانک چیخ کر سونے والوں کا سکون درہم برہم کر دیتا ۔ جب بھی ایسا ہوتا تو چوکیداری کرنے والے کتے زور زور سے بھونکنے لگتے اور اصطبل کی پختہ دیوار میں گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے گونج اُٹھتیں ۔ گھوڑوں کا انگریز سائیں رابرٹ انہیں چپ کرانے کے لئے زور زور سے آوازیں نکالتا اور اس کی آواز اصطبل کے روشن دانوں سے نکل کر ریسٹ ہاؤس کے ہر کمرے میں پہنچ جاتی ۔ وہ رات بھی کچھ اسی طرح کی تھی۔ ہلکی بوندا باندی نے سردی میں کچھ اور اضافہ کر رکھا تھا۔
 
میں، بلال شاہ ، انسپکٹر اروڑا اور سب انسپکٹر راجندر ریسٹ ہاؤس کے ایک کشادہ کمرے میں موجود تھے ۔ انسپکٹر اروڑا اور راجندر تو بالترتیب چھ اور چار پیگ پی کر سر شام ہی سو گئے تھے۔ صرف میں اور بلال شاہ جاگ رہے تھے ۔ بلال شاہ آج کافی ہلکے پھلکے موڈ میں تھا۔ اس میں ایک بڑی اچھی عادت تھی۔ چھوٹی موٹی غلطیاں وہ تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن جب کوئی بڑی غلطی ہو جاتی تھی تو فورا تسلیم کر لیتا تھا۔ امرتسر کی دیوالی میں جو غلطی ہو گئی تھی اسے بھی اس نے تسلیم کر لیا تھا۔ دنگل کے آدھ پون گھنٹے بعد جب اس کا غصہ اُتر گیا تھا تو وہ خود مخالف پہلوان کے پاس گیا تھا اور اس سے بغل گیر ہو کر صلح صفائی کی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے یہ بھی تسلیم کر لیا تھا کہ وہ شغل شغل میں اکھاڑے میں اُتر آیا تھا ورنہ اسے پہلوانی کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے۔ ہم اپنے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے دیوالی کی باتیں ہی کر رہے تھے کہ اچانک کسی گھوڑے کی تیز ٹاپیں سنائی دیں۔
 
 پھر کوئی مین گیٹ کے سامنے رک کر اونچی آواز میں چوکیدار سے باتیں کرنے لگا۔ میں نے لحاف میں سے ہاتھ نکال کر کمرے کی کھڑکی ذراسی کھولی اور باہر جھانکنے کی کوشش کی۔ مجھے دکھائی تو کچھ نہیں دیا مگر سنائی دے گیا۔ اس ٹھٹھرتی ہوئی شب میں دس بجے کے قریب جو شخص چوکیدار سے باتیں کر رہا تھا وہ میرے مخبر صلاح الدین عرف صلو کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ صلو ان دو افراد میں سے ایک تھا جنہیں صرف ایک روز پہلے ہم نے نرس نجمہ پروین کے پیچھے لگایا تھا۔ اگر وہ دیپالپور سے دس میل کا فاصلہ طے کر کے ریسٹ ہاؤس ڈھونڈتا ہوا یہاں پہنچا تھا تو یقیناً کوئی خاص بات تھی اتنی دیر میں بلال شاہ بھی صلو کی آواز پہچان چکا تھا۔ میرے ساتھ ساتھ وہ بھی اچھل کر لحاف سے باہر آیا۔ ہم دروازہ کھول کر برآمدے میں نکلے اور وہاں سے صحن میں پہنچ گئے۔
 
چوکیدار ! یہ اپنا آدمی ہے ۔ میں نے بلند آواز میں کہا۔ چوکیدار نے مڑ کر میری طرف دیکھا پھر صلو کو راستہ دے دیا۔ صلو گھوڑے کو کھینچتا ہوا ہمارے قریب لے آیا۔ وہ اور گھوڑا دونوں ہانپ رہے تھے۔ میں نے ایک شیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلو سے کہا کہ وہ گھوڑا وہاں باندھ دے۔ صلو بے قراری سے نفی میں سر ہلانے لگا۔
 
نہیں ہجور اتنا وقت نہیں ہے۔“ اس نے میواتی لہجے میں سرگوشی کی۔ "آپ بس کھڑے کھڑے نکل چلیں میرے ساتھ ۔ اس سالے کا کھوج لگا لیا ہے ہم نے " کس کی بات کر رہے ہو؟ میں نے پریشانی سے پوچھا۔
 
"شہباج پہلوان کا ہجور ۔ وہ خانہ بدوشوں کی ایک بستی میں ہے، وہ کیا نام ہے اس حرامجادی کا نجمہ اور اس کا بہنوئی بھی اسی بستی میں ہے۔ آپ جتنی بھی جلدی ہو سکے پولیس فورس ساتھ لے لیں اور گھیر لیویں بستی کو ۔ چھوٹی سی بستی ہے۔ جیادہ سے جیادہ پچیس چھبیس گھرہوویں گے۔" صلو کی بات پر یقین کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ ہوش مند مخبر تھا۔ نشہ وغیرہ بھی نہیں کرتا تھا۔ اسے کیا ضرورت تھی غلط اطلاع دینے کی۔ میں نے پوچھا۔ بستی کتنی دور ہے یہاں سے؟“
وہ بولا ” یہی کوئی چھ میل کا راستہ ہووے گا۔ میں ایک گھنٹے میں یہاں پہنچ گیا ہوں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے