Subscribe Us

خاموش جذبے

urdu font stories

گیٹ پری نے کھولا تھا مجھے دیکھتے ہی وہ خوشی سے اچھل پڑی اور حلق کے بل چلا کر ماں کو آوازیں دینے لگی۔ مما مما ! دیکھیں تو کون آیا ہے؟ مما جلدی آئیں ۔ اتنی گرمجوشی سے استقبال ہونے پر میری سفر کی ساری تھکان دور ہو گئی۔ میں نے کپڑوں کا بھاری بیگ ایک طرف رکھا اور پری کو خود سے لپٹا کر خوب سارا پیار کیا اتنے میں متجس انداز سے چلتی ہادیہ بھابھی باہر آ گئیں ۔ 
👇👇
میں محبت سے آگے بڑھی لیکن بھابھی کا سرد سا رویہ دیکھ کر میرے جذبوں پر اوس سی پڑ گئی۔ خود کو خود میں سمیٹ کر بھاری بیگ گھسیٹ کر بھابھی کی تقلید میں آگے بڑھ گئی۔ ہادیہ بھا بھی ایک ٹرے میں دو کپ چائے ساتھ چھ سات بسکٹ لے آئیں۔ میرے برابر بیٹھ کر رسماً سا حال احوال پوچھا پھر میرے پلو سے چپکی پری کو گھورا ، وہ ماں کی تیوری سے ڈر کر بیگ اٹھائے اکیڈمی نکل گئی۔ مجھے تھکان تھی اور نیند کا غلبہ ، سونے کے لیے مناسب جگہ درکار تھی مگر یہ پوچھنا کہ میں کس کمرے میں سونے جاؤں۔ اس وقت دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا۔ بھابھی اٹھ کر کچن میں گئیں ۔ تو میں ادھر صوفے پر ہی براجمان ہو گئی۔

اگلی صبح عجیب ہنگامہ خیزی تھی کچن سے اٹھا پٹخ کی آوازیں تو کبھی بھائی بھابھی کی نوک جھونک میں حیران تھی کہ صبح صبح ہی ماحول سے بدمزا ہو گیا ہے ۔ میں سب کچھ کمرے میں بیٹھی سن رہی تھی نجانے کیوں باہر نکلتے ہوئے خوف سا محسوس ہورہا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا جو بھیا نے پری کو تھپڑ جڑ دیا، اور وہ کرنٹ کھا کے باہر کو بھاگی، پری کو جا کے اپنی بانہوں میں سمیٹا لیکن ہادیہ بھا بھی تن فن کرتی آئیں پری کو میری گرفت سے آزاد کیا کھینچ کر دوبارہ بھیا کے سامنے لا کھڑا کیا اور خود بھی اس پر چلانا شروع ہوئیں- کہاں سے آئیں گے پیسے، یہ تمہارا باپ اب کیا ڈاکے ڈالے؟ کچھ رحم کرو اپنے باپ پر اور زبان کا چسکا تھوڑا کم کرو ۔ شاید پری نے اسکول جانے کے لیے پیسے مانگے تھے۔

 میں بات سمجھ کے آگے بڑھی اسے ساتھ لگا یا اور پھر کمرے سے پیسے لا کر دیے۔ جو اس نے بلا حیل و حجت لے لیے، بھیا بھابھی بھی خاموش رہے لیکن بھیا کے چہرے کی ناگواری دیکھ کر میں واپس کمرے میں چلی گئی اور دو گھنٹے بعد بھابھی کی پکار پر باہر ائی- سامنے ٹیبل پر سوکھا سا پراٹھا اور فرائی انڈا میرا منتظر تھا۔ میں ناشتا کرنے بیٹھ گئی۔ بھابھی پھولے منہ کے ساتھ اپنے کاموں میں لگی رہیں اور میرا وہ سارا دن بھابھی کی سرگرمیاں ملاخطہ کرتے گزرا۔ 

جو برتن آرام سے رکھا اور اٹھایا جا سکتا تھا وہ پٹخا جاتا۔ کیبنٹ کے دروازے زور زور سے مار کر نجانے وہ کیا غصہ نکال رہی تھیں۔ میں نے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے پیش قدمی کی تو بھابھی نے صاف منع کر دیا۔ ماما! یہ کیا آپ نے دال روٹی بنالی ؟ رات کے کھانے پر پری منہ بسور کے بیٹھ گئی۔ چپ چاپ کھاؤ۔ بھابھی نے دھاڑ کر کہا لیکن پری دبکنے کی بجائے بپھر گئی۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو کل سے آپ مجھے بلاوجہ ڈانٹ رہی ہیں صبح پاپا نے مجھے آپ کے بھڑکانے پر مارا تھا نجانے کس بات کا غصہ آپ مجھ پر نکال رہی ہیں۔ ننھی سی پری تن کر ماں کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ پہلے تو ہمارے گھر کبھی دال نہیں بنی روز گوشت یا سبزی گوشت بنتا ہے۔

 جب بھی پاپا کا دال کا دل ہو تو آپ گوشت ڈال کے حلیم بناتی ہیں اور پھر جب باقی مہمان آتے ہیں تب تو کبھی دال نہیں بنی۔ بس بھابھی نے دھاڑ کر ایک تھپڑ اسے جڑا تو پری بل کھا کر کرسی سے ٹکرا گئی۔ اتنی ہمت تمہاری کہ تم بالشت بھر کی لڑکی مجھے سکھانے پڑھانے لگیں ۔ میں مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی رہی، نہ پری کو گلے لگایا نہ بھا بھی کو منع کیا مجھے لگا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب میری وجہ سے ہورہا ہے۔ وہ رات بھابھی نے پری کو اپنے پاس ہی سلایا اور میں نے رات ہی اپنا بیگ دوبارہ پیک کر لیا۔

ٹرین چل پڑی اور میرے ذہن کی سرزمین پربھی سوچوں کی ٹرین چلنے لگی بھوکے بسرے ماضی کی کچھ جھلکیاں اسکرین پر روشن ہوئیں۔ اف جتنی مہنگائی ہے جان کے لالے پڑ رہے ہیں۔ ایسے میں تو کسی کو ایک کپ چائے پلانا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ کلثوم پھوپھو نے امی کی کڑوی بات کو حلق سے اتار کر چائے کا گھونٹ بھرا میں سخت بدمزا ہوئی ، جب سے کلثوم پھوپھو آئی تھیں امی صبح صبح ہی مہنگائی نامہ کھول کے بیٹھ جاتیں اور پھر صبح سے شام ہو جاتی امی کو دکھڑے سناتے سناتے۔ جمعرات کو جو سوجی کا حلوہ اور سبزی کا پلاؤ بنتا تھا کلثوم پھوپھو کی آمد سے بند ہو گیا۔ 
ہفتے میں دو تین بار صبح ناشتا کبھی پراٹھے کبھی انڈوں کا حلوہ یا دیسی گھی سے بنا پراٹھا، اس سب کی جگہ سوکھے پراٹھے اور رات کا بچا سالن، غرض ہمارے گھر کا تمام مینیو بدل گیا اور ساتھ ساتھ سارا دن جو کچھ پھوپھو کوسنایا جاتا ، وہ جو مہینہ بھر رہنے آئی تھیں۔ پانچ، چھ دن بعد ہی رخصت ہوگئیں۔ پھوپھو کے جاتے ہی گھر کی فضا خوش گوار ہوگئی امی جان کا لہجہ پھر سے مٹھاس بھرا، وہی پکوان وہی خوشبویں نہ مہنگائی کا رونا نہ کاموں کی تھکن کا دکھڑا۔ وہ وقت کب کا گزر گیا امی ابو اور پھوپھو اپنے اصلی گھروں میں چلے گئے۔ ٹرین میری منزل تک پہنچ گئی اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔ باجی کہاں گم ہیں آپ کا ۔ اسٹیشن آ گیا۔ 

ساتھ بیٹھی عورت نے مجھے جھنجوڑا میں نے بھیگا چہرہ صاف کیا اور اپنا سامان اٹھا کر نیچے آئی۔ اس سارے سفر سے ایک بات واضح ہوگئی کہ کبھی کبھی آپ کی غلطیوں کی سزا آپ کے پیاروں کو بھگتنی پڑتی ہے۔ میں نے ایک بار پھر آنکھیں رگڑیں تھکان سے میرا برا حال تھا۔ اپنے ماں باپ کی بوئی فصل میں کاٹ کے آئی تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے