شادی کہ ایک ماہ بعد ہی بانو کماری نے چودھری کفایت اللہ کو وہ خوشخبری سنا دی کہ جس کو سننے کہ لیے اس کہ کان کئی سالوں سے ترس رھے تھے۔ اسی لیے اس نے تین تین شادیاں کیں۔ پہلی بیویاں اسے یہ خوشخبری نہ سنا سکیں۔ لیکن بانو کماری وہ خوشںصیب خاتون تھی جس کہ حصے میں یہ خوش بختی آئی تھی۔ چودھری کفایت اللہ کو تو اپنی سماعتوں پہ یقین ہی نہیں آیا۔
وہ مارے خوشی کہ پگلا سا گیا تھا۔ بانو کماری کا رتبہ اس گھر اور اس کہ دل میں اس خبر کہ بعد فلک کو چھو رھا تھا۔ بانو پہلے بھی غرور و تکبر سے منہ پھلائے رھتی تھی اتنی عزت و توقیر ملنے کہ بعد تو مانو بلندیوں پہ پرواز کر رھی تھی۔ اس کی سوتنوں کا رویہ پہلے دن سے ہی اس سے بہت مخلص اور شاندار تھا۔ وہ اس کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا دھیان رکھتی تھیں۔ اسے بلکل چھوٹی بہنوں والا مان اور عزت دیتی تھیں۔ یہ الگ بات تھی کہ اب تک بانو نے ان سے سیدھے منہ بات تک کرنا گوارا نہیں کیا تھا۔ لیکن جوں ہی یہ خبر ان کہ کانوں میں پڑی نجانے کیوں ان کی رنگت زرد ہو گئی؟ وہ اس دن سے بانو سے کھینچی کھینچی رھنے لگیں۔ ان کہ رویے سے نفرت اور حقارت کی بو آتی تھی۔
بانو کہ جس کہ دل میں پہلے دن سے ہی چور تھا ، ان کہ رویے کو روایتی سوتنوں والی جیلسی اور حسد سمجھ بیٹھی۔ تب وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ ڈاکٹرز کہ مطابق چودھری کفایت اللہ باپ بننے کہ قابل نہیں تھا۔ اور یہ بات اس کی بیویوں نے چودھری کو ابھی تک نہیں بتائی تھی۔ اور جب بانو نے ایک مہینے میں ہی یہ خوشخبری سنا دی تو سوتنوں کا ماتھا ٹھنکا۔ اسی لیے ان کا رویہ بانو سے یکدم بدل گیا۔ چودھری بیچارا بے خبری میں مارا گیا۔ وہ بانو کو ہاتھ کا چھالا بنائے رکھتا تھا۔ اسے بستر سے نیچے قدم تک نہ دھرنے دیتا۔ اس کی سوتنے یہ دیکھ دیکھ کہ جی ہی جی میں کڑھتی رھتیں لیکن خاوند کہ سامنے زبان نہیں کھول سکتی تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ اگر انھوں نے اس موقعہ پہ یہ بات بتائی تو چودھری یہی سمجھے گا کہ وہ دونوں بانو سے حسد کرتی ہیں اسی لیے اُسے، اس کی بیوی سے متنفر کر رھی ہیں۔
لیکن سوتنوں کا برا رویہ دیکھتے ہوئے بانو نے ضرور اپنے شوہر کہ کان ان کہ خلاف بھرنے شروع کر دیے تھے۔ اور یوں اس ہنستے بستے گھر میں آۓ روز ہی کسی نہ کسی معمولی بات پہ تلخ کلامی ہونے لگی۔ چودھری اپنی بیویوں کو بیکار مال سمجھنے لگا۔ کبھی کبھار بات تلخ کلامی سے بڑھکر مار کٹائی تک جا پہنچتی۔ اور ایک دن چودھری نے بانو کہ مگرمچھ کہ آنسوؤں پہ یقین کرتے ہوئے ایک بیوی کو طلاق دی، اور دوسری کو ناراض کر کہ اس کہ میکے روانہ کر دیا۔ بانو نے اس دن سکھ کا سانس لیا۔ اس نے چودھری کو باتوں میں الجھا کہ کافی جائیداد پہلے ہی اپنے نام لگوا لی تھی اور طلائی زیورات بھی بنوا لیے تھے۔
جب کافی پیسہ لوٹ چکی تو اسے چودھری سے وہشت سی ہونے لگی۔ اسے شروع دن سے ہی اپنی باپ کی عمر کا شوہر ناپسند تھا۔ وہ تو اپنی مجبوریوں کہ ہاتھوں زچ ہو کر اس نے یہ کڑوا گھونٹ پیا تھا۔ اب جبکہ بچہ بھی دنیا میں آنے والا تھا، اور اس نے اچھا خاصہ مال بھی مار لیا تو اس کا دل اس گھر اور چودھری سے مکمل اچاٹ ہو گیا۔ اور وہ کڑوا گھونٹ اُگلنے کا وقت آگیا تھا۔ وہ چودھری کو منہ تک نہیں لگاتی تھی۔ اور چودھری اسے طبیعت کی خرابی سمجھ کر ٹالتا رھا۔ اور بانو کو جب کوئی اور مطلب کا مرد دکھائی نہ دیا تو اس نے چودھری کہ خاص ڈرائیور سے دل لگا لیا۔ ڈرائیور بھی اپنے گھر اور بیوی سے بیزار تھا ، اس نے بھی بانو کو غنیمت کا مال سمجھتے ہوئے اس کہ جذبات کو خوب خوب ہوا دی۔
نوبت یہاں تک آپہنچی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے بھاگ کر شادی کرنے کا سوچنے لگے۔ بانو نے کمال مہارت و ہوشیاری سے چودھری کو اس بات کہ بھنک تک نہ پڑنے دی۔ اسی لیے اس نے پہلے ہی اہنی سوتنوں کا مستقل بندوبست کر دیا تھا تاکہ کوئی بھی اسے روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔بانو اور ڈرائیور کا پیار بانو کہ بچے کی طرح دن بدن پروان چڑھتا گیا۔ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی گئیں۔ پیار کہ قول اقرار کیے گئے۔ بانو بیچاری اس بے خبری میں ماری گئی کہ ڈرائیور اس سے سچا پیار کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس جواری کو، جو اپنے گھر اور بیوی بچی سے سخت بیزار تھا، ایک مالدار آسامی کی تلاش تھی۔ اور بانو اس کہ لیے کسی پکے پھل کی مانند جھولی میں آن گری۔ اسے بانو کو شیشے میں اتارنے کہ لیے ذرا بھی محنت نہیں کرنی پڑی۔
دن یوں ہی گزرتے رھے، خیر سے بانو کا نواں مہینہ چل رھا تھا جب چودھری کا ایک جگری ڈاکٹر دوست ان کہ گھر کھانے پہ آیا۔ کھانے وغیرہ سے فراغت کہ بعد جب وہ دونوں چائے پی رھے تھے تو چودھری نے اسے اپنے آنے والے بچے کی خوشخبری سنائی۔ جسے سنتے ہی اطمینان سے چائے پیتے ڈاکٹر کو اتنا برا اچھوکا لگا کہ اگلا سانس لینا دشوار ہو گیا۔ کافی وقت بعد جب وہ سنھبلا تو اس نے ہمت باندھتے ہوئے چودھری کہ گوشگزار وہ تلخ حقیقت کی کہ جس پہ اس کی وفادار بیویوں نے نجانے کتنے سالوں سے پردہ ڈالا ہوا تھا۔ اور زمانے کی جلی کٹی باتوں سے اپنا سینہ چھلنی کرتی رھیں لیکن اپنے مجازی خدا کی عزت پہ حرف نہ آنے دیا۔ چودھری کو اس وقت ایسے لگا جیسے اس کہ سر پر سے سائبان اور پاؤں تلے سے زمین سلب کر لی گئی ہو۔ وہ ابھی اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کا مخلص ڈرائیور اس کی بیوی کو اس کہ قیمتی مال و متاع سمیت وہاں سے بھگا کہ لے گیا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر خضر منان نے دو دن اس پرسرار آدمی کا انتظار کیا تھا۔ اور اس دوران اس نے اپنی ریسرچ کافی حد تک مکمل کر لی تھی۔ دونوں لاشوں کا بغور معائنہ کرنے کہ بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچا تھا کہ آلۂ قتل لوہے ، اسٹیل یا تانبے سے بنا کوئی تیز دھار خنجر نہیں ہے۔ بلکہ کسی انوکھی تیز دھار چیز کہ اوپر زہریلا سفوف لگا کر رگوں کو کاٹا گیا ہے۔ اس زہریلے سفوف سے جہاں مقتول کو حد درجۂ اذیت ملتی تھی وہیں اس کی نسوں کو کٹنے میں سیکنڈوں سے بھی کم وقت لگتا تھا۔ لیکن اگر وہ خنجر یا کوئی چھری چاقو نہیں ہے تو کیا چیز ہے جو پل بھر میں انسان کو ادھیڑ کہ رکھ دیتی ہے؟
“لمبے ۔۔۔ اور نوکیلے ۔۔۔۔ ناخن۔۔۔!!!!!”
ڈیوڈ نجانے کب وہاں آیا تھا، اور اپنی مخصوص کرسی پہ براجمان خلا میں گھورتے ہوئے تبصرہ داغا تھا۔ خضر منان کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ اس نے اس نہج پہ کیوں نہیں سوچا تھا؟ بلاشبہ یہ ایک ناقابلِ یقین بات تھی لیکن وہ اس وقت بھوربھن میں تھا جہاں کچھ بھی ممکن تھا۔ خضر نے اسے کریدنا مناسب نہیں سمجھا۔ اور جلدی جلدی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو مکمل کرنے لگا۔ اسے صورتحال کچھ کچھ سمجھ آرھی تھی۔ لیکن اس بات کو ہضم کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ “کیا کوئی انسان اپنی زہر میں ڈوبے ناخنوں سے کسی دوسرے انسان کا اتنی بے دردی سے خون کر سکتا ہے؟ “
اس نے ڈیوڈ کو مخاطب کرتے ہوئے، سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ڈیوڈ کو خلا اس حالت میں دیکھ کہ خضر کہ جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔ وہ دوزانو بیٹھا ہوا خلا میں معلق تھا۔ جیسے وہ یوگا کر رھا ہو۔ اس کہ چہرے پہ عجیب سا سناٹا تھا۔ اس نے پرسرار آنکھیں موند رکھی تھیں اور نجانے کس دنیا سے، کس سے رابطے میں تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار گرلز ےہاسٹل میں کئی دنوں سے معدوم چہل پہل پھر سے زور و شور سے شروع ہو چکی تھی۔ لڑکی کہ قتل والی بات کئی گرد سے اٹی فائلوں تلے دب کہ بوسیدہ ہو چکی تھی۔ زندگی پھر سے پرانی ڈگر پہ لوٹ آئی تھی۔ ہاسٹل میں نئے داخلے شروع ہو چکے تھے۔ اس بار میٹرک سے فارغ التحصیل طالبات نے کثیر تعداد میں بھوربھن گرلز کالج و ہاسٹل میں داخلہ لیا تھا۔ انھی طالبات میں قریبی شہر سے آئی امراؤ جان بھی تھی۔ جو اپنے مختصر سے سازو سامان کہ ساتھ ہاسٹل کی دوسری منزل کی راہداری میں کھڑی اپنا کمرہ ڈھونڈ رھی تھی۔ دھیرے دھیرے شام بھی اپنے پر پھیلا رھی تھی۔ تقریباً تمام ہی لڑکیوں کو کمرے مل چکے تھے۔ بلکہ وہ تو اپنے کمرے سیٹ کر کہ ہاسٹل کہ میس میں ملنے والے شام کہ کھانے کہ لیے نیچے بنے بڑے ڈائنگ حال میں جمع بھی ہو چکی تھیں۔ امراؤ اب رونے والی ہو رھی تھی۔ اسے رہ رہ کر اپنی ماں پہ غصہ آرھا تھا۔
اسی کی وجہ سے وہ اتنی لیٹ ہوئی تھی۔ اس کی ماں ہاسٹل جانے سے پہلے امراؤ سے ملنا چاھتی تھی۔ بس اسی کہ انتظار میں امراؤ یہاں پہنچتے پہنچتے لیٹ ہو گئی۔ اور سارے کمرے بُک ہو گئے۔ ہر تعلیمی سال کہ لیے ہاسٹل کی ایک مکمل طور پر علیحدہ عمارت تھی۔ اس کا اپنا نام اور پہچان تھی۔ وہ چونکہ فرسٹ ائیر کہ طالبہ تھی لہذا اس کی عمارت کا نام “رابعہ ہاسٹل” تھا۔ یہ دو منزلہ عمارت تھی۔ نیچے والے کمرے آرٹس میں داخلہ لینے والوں کہ لیے تھے جبکہ اوپر بنے کمرے میڈیکل یا انجینئیرنگ کہ شعبہ سے منسلک طالبات کہ لیے مختص کیے گئے تھے۔ اس نے چونکہ پری میڈیکل میں داخلہ لیا تھا لہذا وہ اوپر بنی راہداری میں کمرے کہ انتظار میں کھڑی سوکھ رھی تھی۔ ہر کمرے میں بیک وقت چار لڑکیاں رہائش رکھ سکتی تھیں۔ اور یہاں سارے کمروں میں لڑکیاں پوری تھی۔
ایک کونے والا کمرہ بند تھا۔ جس پہ بڑا سا تالہ لگا تھا۔ اس نے سوچا شاید یہاں پرانی اسٹوڈنٹس کا سامان وغیرہ پڑا ہوگا۔ یہ سوچتے ہوئے اسے امید بھی جاگی کہ کیا پتہ سامان نکالا جائے تو یہ کمرہ اسے مل جائے۔ اسے بس ہاسٹل کی وارڈن کا انتظار تھا۔ تاکہ اس سے ملکر اپنا مسئلہ حل کروایا جا سکے۔ وارڈن بھی یہاں پر نئی نئی بھرتی ہوئی تھیں۔ فی الحال وہ کھانے کھا رھی تھیں۔ اسی لیے امراؤ نے انکا انتظار راہداری میں کرنا مناسب سمجھا، کیونکہ ان کا کمرہ بھی اوپری منزل پر ہی راہداری کہ شروع میں واقع تھا۔ وہیں ایک چھوٹا سا کچن بھی بنا تھا اور لڑکیوں کی سہولت کہ لیے استری اسٹینڈ بمع استری کہ موجود تھا۔ جبکہ وارڈن کا دفتر نیچے تھا۔ امراؤ راہداری کہ بلکل آخر میں واقع اس بند کمرے کہ دروازے پہ ہی کھڑی تھی کہ اسے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ آہٹ دھیرے دھیرے قریب آرھی تھی۔ اس نے سوچا شاید کوئی لڑکی ہو۔ وہ اس وقت شدید بے زار تھی۔
لہذا مڑ کہ دیکھنے کا تکلف نہیں کیا۔ ابھی قدموں کی آہٹ اس کہ سر پہ پہنچی ہی تھی کہ اچانک سے لائیٹ چلی گئی۔ لمبی راہداری جس میں آمنے سامنے قطار میں کمرے بنے ہوئے تھے یکدم اندھیرے میں نہا گئی۔ امراؤ ہڑبڑا کہ بدک کہ پیچھے ہٹی تو وہ کسی بھاری اور برف کی مانند سرد وجود سے ٹکرا گئی۔ اس کہ منہ سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی۔ ٹکرانے کہ بعد وہ پھر اچھل کہ اپنی جگہ واپس آگئی ۔ اور گھپ اندھیرے میں دیدے پھاڑے سامنےموجود شاید سیاہ کالے لباس میں ملبوس دو نفوس کو دیکھنے کی لاحاصل سعی کرتے ہوئے، خوف کہ زیرِ اثر ہکلاتے ہوئے گویا ہوئی:
“کک ۔۔۔۔ کک ۔۔۔۔۔ کون ہے یہاں؟؟؟؟”
“تمھاری۔۔۔۔ موت۔۔۔!!!!!”
سرد وجود سے سرد ہی لہجے میں جواب آیا تھا۔
اور امراؤ کو لگا تھا کہ اسکا حلق اندر تک خشک ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی یکدم جنریٹر کی مرہونِ منت لائیٹ واپس آئی۔ اس نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے سامنے دیکھا تو دھک سے رہ گئی، سامنے ہلکے گلابی رنگ کہ لباس میں ملبوس ایک درمیانی عمر کی قدرے رعب دار اور وضع دار سے خاتون کھڑی تھیں۔ انھوںنے موسمی اثرات کی وجہ سے گرے رنگ کا لانگ کوٹ پہن رکھا تھا۔ آنکھوں پہ نظر کا چشمہ لگا تھا۔ دوپٹہ سلیقے سے سر پہ دھرا تھا۔ ان کا ایک ہاتھ کوٹ کہ جیب میں تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں چند کاغذات اور ایک عدد پن اٹھا رکھا تھا۔ جہاں امراؤ منہ کھولے حیرت سے سر تا پا ان کا جائزہ لے رھی تھی وہیں وہ بھی اسے گھوررھی تھیں۔
“فرسٹ ائیر! اس وقت یہاں کھڑی آپ کیا کررھی ہیں؟ آپ کو تو نیچے ڈائینگ حال میں ہونا چاھیے۔”
انھوں نے اب قدرے تحکم سے امراؤ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ نجانے کچھ دیر پہلے پیش آئے واقعے کی وجہ سے خوف کا اثر تھا یا مدِمقابل خاتون کہ رعب کا۔ امراؤ جیسی ہر وقت چٹر پٹر کرتی لڑکی کی گھگھی بندھ چکی تھی۔ منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو پارھے تھے۔
“محترمہ! میں آپ سے مخاطب ہوں؟”
سامنے موجود خاتون نے اب کی بار قدرے جھنجھلاتے ہوئے ہاتھ میں موقجد کاغذات سے امراؤ کہ سفید فر والے کوٹ پہ دستک دیتے ہوئے کہا۔
“وہ ۔۔۔۔۔ میم۔۔۔۔۔ مم مجھے روم نہیں مل رھا؟”
امراؤ نے ٹرانس سے باہر آنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
“کیا مطلب روم نہیں مل رھا؟ کونسا روم الاٹ ہوا ہے آپکو؟ ذرا مجھے ہاسٹل کا رجسٹریشن فارم دکھائیے۔”
اب کی بار خاتون نے امراؤ کو کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے قدرے عجلت سے کہا۔
“کک کون سا رجسٹریشن فارم؟”
امراؤ اب بری طرح گھبرا چکی تھی۔
“مطلب ابھی تک آپ نے نیچے موجود ہاسٹل کہ آفس میں اپنی رجسٹریشن نہیں کروائی؟ تو یہاں کھڑی کیا کر رھی ہیں؟ حد ہوتی ہے لاپروائی کی۔ رجسٹریشن کروائی نہیں اور محترمہ کمرہ ڈھونڈنے کہ محاذ پہ کمر بستہ ہو کر نکل آئی ہیں۔”
خاتون نے زچ ہوتے ہوئے ، امراؤ کہ دونوں کندھوں سے لگا بیگ دیکھتے ہوئے کہا۔
امراؤ نے دونوں کندھوں پہ اپنا کالج بیگ پہن رکھا تھا۔ ایک کپڑوں و دیگر سامان سے لیس بیگ زمین پہ بھی رکھا ہوا تھا۔ سفید گھٹنوں کو چھوتے فر کوٹ کہ ساتھ نیلے رنگ کی جینز زیب تن کر رکھی تھی۔ بالوں کی اونچی پونی تھی اور سر پر سفید رنگ کی اونی گرم ٹوپی تھی۔ جس کہ پیچھے موجود گول دائرے کی شکل والے سوراخ سے پونی نکال کر کمر پہ جھولنے کہ لیے چھوڑ رکھی تھی۔ اس کی چھوٹی سے ناک اور سفید پھولے ہوئے گال گال شدتِ برداشت سے لال ہو رھے تھے۔ اسے چاھا کہ کاش زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے۔ پہلے ہی دن ہاسٹل کی وارڈن سے اتنی بے عزتی ہو چکی تھی۔ آگے نجانے کیا کیا ہونے والا تھا؟ (اس نے خاتون کہ لانگ کوٹ پہ لگے بیج پر “ہاسٹل وارڈن” لکھا ہوا پڑھ لیا تھا)
وارڈن اسے یہ کہہ کر رکی نہیں بلکہ کالے رنگ کہ کوٹ شوز کی ہیل سے زمین پہ ٹک ٹک کی آواز سے ارتعاش پیدا کرتیں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب چلی گئیں۔
راہداری کہ آخر میں پہنچ کر انھوں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو امراؤ کو اپنی جگہ فریز ہوا پایا۔ اس کی ہلکی نیلی بڑی آنکھوں سے آنسو نکل کر لال ہوتے گولوں کو بگھو رھے تھے۔
“اب کیا آپ کہ لیے الگ سے انویٹیشن بھیجنا پڑے گا ۔۔۔۔ محترمہ۔۔۔۔؟؟؟”
وارڈن نے حتی المقدور اپنے لہجے کی کاٹ پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔
یہ سنتے ہی امراؤ اپنا زمین پہ پڑا بیگ وہیں چھوڑ کر کندھے پہ جمے بیگ کہ ساتھ بھاگتی ہوئی وہاں پہنچ گئی۔ وارڈن تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی اپنے آفس میں داخل ہو گئیں۔ پیچھے پیچھے امراؤ بھی اجازت لیکر ان کہ آفس میں داخل ہوئی۔
وارڈن کا آفس چھوٹا مگر پر تعیش تھا۔ باہر موجود خنکی کہ باعث دیوار پہ لگا انورٹر چلا کہ کمرے کو حدت پہنچانے کا معقول انتظام کیا گیا تھا۔ وارڈن اب اپنی مخصوص کرسی پہ براجمان تھیں۔ امراؤ کہ تعلیمی کاغذات کی جانچ پڑتال کرنے کہ بعد اسکی قابلیت اور ذہانت نے انھیں اپنا لہجہ نرم کرنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ کاغذی کاروائی مکملُ کرنے اور ایک دو بار فون پہ کسی سے بات کرنے کہ بعد وہ کچھ اس طرح گویا ہوئیں:
“دیکھیے ، آپ کا داخلہ یہاں اسکالرشپ پہ ہوا ہے۔ اتنی قابل بچی کا ہمارے ادارے میں تعلیم حاصل کرنا ہمارے لیے باعثِ فخر و اعزاز ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے آپ کی ذرا سے نادانی اور کم علمی کہ باعث سارے کمرے بُک ہو چکے ہیں۔ اگر آپ پہلے میرے پاس تشریف لاتیں تو آپ کو سب سے اچھا کمرہ ملتا۔ لیکن اب کسی بھی بچی کو الاٹ شدہ کمرے سے باہر نکالنا ہاسٹل کہ اصولوں کہ خلاف ہے۔ “
وہ سانس لینے کو رکیں۔ ساتھ ہی امراؤ کہ معصوم چہرے کہ اتار چڑہاؤ کا جائزہ بھی لے رھی تھیں۔ جو اب بلکل رونے والی ہو رھی تھی۔
“آپ کو کسی دوسرے ہاسٹل بھی نہیں بھیجا جا سکتا، کیونکہ فرسٹ ائیر کہ لیے فقط یہی ہاسٹل مختص ہے۔ “
انھوں نے پھر بات کا آغاز کیا۔
“لیکن میم وہ جو لاسٹ روم ہے، جسے شاید لاک لگا ہے۔ کیا میں وہاں نہیں رک سکتی؟”
امراؤ نے امید اور بے بسی کہ ملے جلے جذبات سے کہا تھا۔
“کونسا کمرہ، وہ کمرہ نمبر گیارہ۔بارہ؟”
کمرے کا نمبر بولتے ہوئے وارڈن کہ چہرے پہ ایک رنگ آکر گزر گیا۔
“جی جی ، میم! وہی والا کمرہ۔”
امراؤ نے پرامید چمکتی نیلی آنکھیں پھیلاتے ہوئے کہا تھا۔
“اصل میں اس کمرے میں ایک لڑکی کا۔۔۔!!!!”
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتیں ٹیبل پہ رکھا آفس فون بج اٹھا۔ فون پہ بات کرنے کہ بعد وہ امراؤ کی جانب متوجہ ہوئیں۔
“کوئی بات نہیں میم، میں وہاں ایڈجسٹ کر لوں گی۔”
امراؤ نے نجانے وارڈن کی بات سے کیا مطلب نکالا تھا۔ وارڈن بھی اسے پوری حقیقت بتا کر ہاسٹل کا نام بدنام نہیں کروانا چاھتی تھیں اور دوسری جانب وہ اتنی باصلاحیت اور روشن مستقبل والی بچی کو اپنے کالج سے کسی دوسرے کالج بجھوانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ انھوں نے تیزی سے جمع تفریق کیا اور ایک نتیجے پہ پہنچتے ہوئے، لہجے میں جہاں بھر کی مٹھاس گھولتے گویا ہوئیں:
“ٹھیک ہے، آپ وہاں اپنا سامان سیٹ کر لیں۔ جیسے ہی کسی دوسرے روم میں جگہ بنتی ہے میں آپکو وہاں منتقل کروا دوں گی۔”
وارڈن کو اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ امراؤ نے اپنی خوشی میں وارڈن کہ بدلے لہجے کو نوٹس نہیں کیا تھا۔ اور وہاں سے شکریہ بول کر بھاگتے ہوئے نکل گئی۔
“میں میڈ کو بول کر وہاں کی صفائی کروا دیتی ہوں۔ نجانے کب سے بند پڑا ہوا ہے وہ کمرہ۔”
وارڈن نے پیچھے سے آواز لگا کر کہا تھا۔ جب کہ تب تک امراؤ سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپر بھاگ چکی تھی۔ ابھی تک لڑکیاں میس سے واپس نہیں آئی تھیں۔ تبھی وہاں راہداری میں ویسا ہی سناٹا تھا۔ امراؤ اب اچھلتی کودتی آخری کمرے کی جانب بڑھی جہاں اس کا سامان رکھا ہوا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اسے کسی کا انتظار کرنا پڑے گا کہ کوئی تالہ توڑے۔ تبھی وہ اندر جا سکتی تھی۔ کمرے کہ باہر پہنچ کر وہ دھک سے رہ گئی، کیونکہ اس کہ سامان والا بیگ وہاں کہیں نہیں تھا۔ ابھی تو اس نے یہیں چھوڑا تھا۔ ایک اور مصیبت گلے پڑ گئی تھی۔ امراؤ پریشانی کہ عالم میں دائیں بائیں دیکھ رھی تھی کہ اسے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ دروازہ ہلکا سا کھلا اور پھر بند ہو گیا۔ امراؤ نے دھیان سے دیکھا تو کمرے کہ باہر موجود تختی پہ سرخ رنگ سے 12-11 لکھا ہوا تھا ۔ مطلب یہ کمرہ گیارہ۔بارہ ہے۔ لیکن ابھی تو یہاں اتنا بڑا زنگ آلود تاکہ لگا ہوا تھا ابھی یہ کھل کیسے گیا؟ اس نے سوچتے ہوئے دروازے کو دھکا دیا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ اندر قدم رکھتے ہی اسے اتنی زور کا چکر آیا کہ وہ بمشکل لڑکھڑا کہ سیدھی ہوئی۔ اس نے دیوار کا سہارا لیا۔ اور یہ دیکھ کہ دھک سے رہ گئی کہ اسکا سامان والا بیگ کمرے کہ اندر پڑا ہوا ہے۔
ابھی وہ چند قدم ہی آگے بڑھی ہوگی کہ اس کہ پیچھے کمرے کا دروازہ زور کی آواز سے بند ہو گیا۔ امراؤ نے گھبرا کہ پیچھے دیکھا، دروازہ مکمل بند تھا۔ پھر آگے دیکھا تو وہ حیران رہ گئی، سامنے موجود دو بیڈ میں سے ایک بیڈ پر ایک سفید لباس میں ملبوس لڑکی سر گھٹنوں میں دیے بیٹھی تھی۔ اس نے امراؤ کو دیکھتے ہی سر اوپر اٹھایا اور اپنی لال سرخ ہوتی آنکھیں امراؤ کی آنکھوں میں گاڑتے ویران سے لہجے میں گویا ہوئی:
“Welcome to the room number 11-12”
0 تبصرے