چودھری کفایت اللہ غصہ سے بے قابو تنفس لیکر ہاتھ میں بندوق لیے بانو کماری کی تلاش میں اس کہ کمرے تک آیا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ وہ دھڑا دھڑ دروازہ پیٹتا رھا لیکن جواب ندارد۔ کافی وقت یونہی گزر گیا۔ ڈاکٹر دوست نے تو کڑوی سچائی بتا کر اپنے گھر کا راستہ ناپا لیکن چودھری کفایت اللہ کہ تن من میں اٹھنے والا طوفان فقط بانو کماری کا طلبگار تھا کہ وہ ملے اور وہ اسے پل بھر میں فنا کر دے۔ تب کہیں جاکہ شاید اسے شانتی میسر آۓ۔ دروازہ پیٹ پیٹ جب اس کا ہاتھ دکھنے لگا تو ملازموں کو بلوا کر دروازہ توڑنے کا حکم صادر کیا۔ آن کی آن میں دروازہ توڑ ڈالا گیا۔ اور اندر کا منظر دیکھ کہ چودھری کہ رھے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اس کی لاڈلی اور حسین بیوی سب مال و متاع لوٹ کر کھڑکی کہ راستے سے بھاگ چکی تھی۔ کمرے میں وہ دھمکا چوکڑی مچی ہوئی تھی کہ پوچھیو ہی مت۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئی کھیت!
چودھری دونوں ہاتھ سر پہ باندھ کہ بیٹھ رھا۔ ملازموں میں چہمگوئیوں کی شروعات ہو چکی تھی۔ چودھری جیسا گھاگ آدمی ایک چھٹانک بھر کی عورت سے اتنا بڑا دھاکا کھا گیا۔ یہ تلخ حقیقت نگلنے کا نام ہی نہیں لے رھی تھی۔ اس میں کچھ ہاتھ تو چودھری کی دلربا طبیعت کا بھی تھا ، نہ وہ اُس محلے میں جاتا اور نہ یہ سب ہوتا۔ اپنے گناہ کی اتنی بڑی سزا اسے ملے گی ، اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اس سب میں قصور اس کا بھی برابر کا تھا، یہ سوچ کر اس نے بانو کو ڈھونڈنے یا اس کا پیچھا کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔ اس نے جو بویا وہ کاٹ لیا تھا۔ ایک انجان عورت کہ کہنے پہ اپنی وفا شعار بیویوں کو مارا پیٹا گھر سے نکال دیا، ایک معصوم و بے گناہ کو تو طلاق بھی دے دی۔ اس کہ ساتھ ایسا ہی ہونا چاھیے تھا یا اس سے بھی بدتر۔ وہ یہی سوچ سوچ کر پاگل ہو رھا تھا۔ ملازموں کہ سامنے جو بے عزتی ہوئی سو وہ الگ۔ لیکن اس نے بھی تو اپنی بیویوں کو یوں ہی بے عزت کیا تھا نا! وہ کیسے بھول گیا وہ دن جب اس نے دونوں کو دھکے مار کہ گھر سے نکالا تھا اور ایک بیوی نے جب بانو کماری کہ بچے کی حقیقت بتانا چاھی اور چودھری کو یہ سچ بتانے کی سعی کی کہ وہ تا حیات باپ بننے کہ قابل نہیں ہے تو چودھری نے تو اسے طلاق ہی دے دی۔
یہ بے عزتی تو اس کہ سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔ ابھی بھی وہ بہت کچھ کر سکتا تھا۔ طلاق یافتہ بیوی کو عدت و دیگر خرچہ دے سکتا تھا جبکہ دوسری کو عزت سے گھر واپس لا سکتا تھا۔ اپنے ہاتھوں سے کیے ہوئے گند کو اب اسے ہی صاف کرنا تھا۔ اور رھی بات بانو کماری کی تو، اس کہ لیے یہی سزا کافی تھی کہ وہ تا حیات اسے طلاق نہیں دے گا۔ اب وہ نکاح پر نکاح جیسا قبیع فعل کر کہ ساری زندگی ایک غیر مرد کہ ساتھ گزار دے گی۔ اس سے بڑھکر دنیا و آخرت میں اسکی سزا ہو بھی کیا سکتی تھی بھلا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اس نے دیکھا کہ وہ اونچی نیچی پہاڑیوں پہ دوڑی چلی جا رھی ہے۔ جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رھا ہو۔ اردگرد سبزہ ہے اور سامنے بہتا جھرنا۔ جس کا صاف شفاف پانی اونچی پہاڑی سے نکل کر نیچے بنی جھیل میں جمع ہو رھا ہے۔ وہ اس کہ بلکل سامنے بنی اونچی پہاڑی پہ سانس لینے کو رکی تھی۔ اب وہ آگے کہاں جائے گی؟ آگے تو گہری کھائی تھی۔ اس نے اتھل پتھل ہوتی سانسوں کو بمشکل قابو کیا اور آنکھیں سکیڑ کہ جھرنے کہ بلکل پاس بیٹھی خاتون کو دیکھنا چاھا۔ وہ سر تا پا سفید لباس میں ملبوس تھی۔ اس کہ چہرے کی سفیدی یہاں سے بھی صاف دکھائی دے رھی تھی۔ وہ ہاتھوں کا چھجا سا بنائے سامنے اونچی پہاڑی پہ موجود اسے ہی دیکھ رھی تھی، مسکراتے ہوئے۔ ہاتھ کہ اشارے سے اسے اپنے قریب بلا رھی تھی۔ جمیکا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔ اب وہ اتنی اونچائی سے کیسے اس تک جا سکتی تھی بھلا؟ تبھی اسے پیچھے سے کسی نے زوردار دھکا دیا اور وہ گہرائی میں گرتی چلی گئی۔ اس نے چیختے ہوئے آخری نگاہ سامنے موجود سفید لباس والی عورت پہ ڈالی تو وہ اب سر پیچھے پھینکتے ہوئے ہنسے چلی جا رھی تھی۔ ہنسے چلی جا رھی تھی۔”
جمیکا کو آج پھر ایستھما کا اٹیک آیا تھا۔ وہ پسینے میں شرابور تھر تھر کانپتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی۔ نگینہ بھی اس کہ چیخنے کی آواز سنکر اس کہ بستر پہ آچکی تھی۔ نگینہ نے بمشکل اسے سنبھالا تھا۔ اسے ویسے بھی اب جمیکا کو سنبھالنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ ابھی وہ دونوں عورتیں اسی میں مشغول تھیں کہ دو دن سے غائب یعقوب مسیح کی آواز باہر صحن سے سنائی دی۔ رات کا تیسرا پہر تھا جب وہ گھر میں داخل ہوا۔ اس کہ ساتھ مسلسل کسی شیر خوار بچے کہ رونے کی آواز بھی آرھی تھی، نہ صرف یہ بلکہ کسی عورت کی آواز بھی گاہے بگاہے ماحول کا سناٹا کم کرتی سنائی دے رھی تھی۔
یعقوب کہ عورتوں سے تعلقات تو ضرور تھے اور اسکی سب سے بڑی اور شاید اکلوتی وجہ نگینہ کا بیزار رویہ تھا۔ لیکن آج تک اس نے کسی عورت کو گھر کی دہلیز پار نہیں کرائی تھی۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی عورت اس کہ ساتھ ان کہ گھر تک آئی ہو۔ جمیکا اور نگینہ فوراً اٹھکر حالات کا جائزہ لینے کی غرض سے کمرے کا دروازہ کھولکر صحن تک آئیں تو یہ دیکھ کر دھک سے رہ گئیں کہ یعقوب مسیح کہ ساتھ ایک نہایت خوبصورت جوان عورت کھڑی تھی۔ جس کی بانہوں میں ایک چھوٹی سی دو دن کی بچی بری طرح بلک بلک کر رو رھی تھی۔ اس عورت کہ دوسری طرف ایک چھوٹا اٹیچی کیس بھی تھا۔ اور ایک پرس جسے اس نے بازؤں میں دبا رکھا تھا۔ وہ عورت واقعی حسین تھی۔ پہلی نگاہ میں مدِمقابل کو مبہوت کر دینے والی!
اسے دیکھ کر نگینہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا سو لگا اس پہ بم تب پھٹا جب اسے اس لڑکی کو دیکھکر یہ ادراک ہوا کہ ہو نہ ہو یہ لڑکی تو “مسلمان” ہے۔ یعقوب کیسے کسی مسلمان سے شادی رچا سکتا ہے؟ وہ بھی ایسی عورت سے جسکی ایک شیر خوار بیٹی ہو؟ کیا معلوم یہ بیٹی بھی یعقوب ہی کی ہو، اور ان دونوں کہ تعلقات نجانے کب سے استوار ہوں؟ ایسا اُس نے سوچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی راہداری میں نظر آنے والے کالے سایوں کاخوف ختم نہیں ہوا تھا کہ ایک نئی افتادہ امراؤ کہ سر پہ آن پڑی تھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ کمرے کا دروازہ پہلے بند تھا، اور دروازے کی اتری رنگت سے صاف لگ رھا تھا کہ دروازے کو کافی عرصے تک کھولا نہیں گیا ہے۔ اس کا سامان بھی وہ تو باہر ہی رکھ کر گئی تھی۔اب اسے نہ صرف دروازہ اتنی جلدی کھلا ہوا ملا تھا، بلکہ سامان بھی کمرے کہ اندر پڑا تھا اور کمرہ بھی اتنا صاف ستھرا اور سلیقے سے سجا ہوا تھا کہ امراؤ غش کھا کر گرنے والی ہو رھی تھی۔ سب سے بڑھکر سامنے موجود لٹھے کی مانند سفید پڑتی خوبصورت سی لڑکی۔ جس کی لال انگارہ آنکھیں امراؤ کا سر تا پا اس انداز سے جائزہ لے رھی تھیں کہ جیسے وہ ابھی اسے سالم نگل جائے گی۔ امراؤ نے بے اختیار تھوک نگلا۔ اسے اپنی کم ہمتی اور کمزوری کسی کہ سامنے ظاہر نہیں کرنی تھی۔ ایسا اس کہ بابا نے اسے سکھایا تھا۔ وہ بمشکل تھوک نگلتے اور گلا کھنکھارتے اس کی جانب متوجہ ہوئی۔ مدمقابل لڑکی ہنوز اسے گھور رھی تھی۔ اس نے اُسے کمرے میں پرسرار انداز میں Welcome کہا تھا۔
“السلام علیکم”
کہہ کر امراؤ نے اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے چند قدم اٹھائے، لیکن اس لڑکی نے ہاتھ کہ اشارے سے امراؤ کو وہیں جم جانے پہ مجبور کر دیا۔
“ و۔۔۔۔۔۔۔ علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام”
اس لڑکی کی آواز نہایت ٹھہری ہوئی اور پرسرار تھی۔ امراؤ نے اپنا بڑھا ہوا دائیاں ہاتھ پہلو میں گراتے ہوئے اس کہ اٹھے ہوئے ہاتھ پہ غور کیا تھا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ تو تھا لیکن ایک پرگوشت ہاتھ نہیں تھا۔ امراؤ کو ایک اور زوردار جھٹکا لگا تھا۔ کیونکہ اس لڑکی کہ بستر پر لکڑی کہ لمبے دستے والی ایک تیز دھار چھری چمک رھی تھی۔امراؤ یہ دیکھ کر دوسرے سفید چادر والے بستر پر گرتی چلی گئی۔ جب سے امراؤ یہاں آئی تھی اس کہ ساتھ ایسے ناقابلِ یقین واقعات روپزیر ہو رھے تھے کہ جن کا اس نے کبھی خواب میں بھی گمان نہیں کیا تھا۔ وہ کیا کچھ سوچ کر آئی تھی اور اس کہ ساتھ ہو کیا رھا تھا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر مفلوج ہو کر کام کرنا بند کر چکا تھا۔ وہ اب سر دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی۔
اپنے ساتھ ہونے والی انہونیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاھتی تھی۔ سب سے زیادہ اسے اس خوبصورت لڑکی کی آنکھیں پریشان کر رھی تھیں۔ جو ہنوز امراؤ کہ چہرے پہ نقش تھیں۔ امراؤ اب ان نظروں کی تپش کو مزید برداشت نہیں کر سکتی تھی لہذا وہ گڑبڑاتے ہوئے اٹھی اور وارڈن سے ملنے اور سب بتانے کا ارادہ باندھتے ہوئے باہر نکلنے کہ لیے قدم بڑھا دیے۔ دروازے کہ قریب پہنچ کر اس نے جوں ہی ناب پہ ہاتھ دھرا تو ایک جھٹکا کھا کہ پیچھے گری۔ ناب پہ کوئی گیلا چپچپا مائع لگا تھا ، جو اس کا ہاتھ بگھوتا چلا گیا۔ اس نے جھٹ سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا تو ہاتھ خون میں لت پت تھا۔ خون کہ علاوہ سفید رنگ کا کوئی دوسرا مائع بھی تھا، جو نجانے کیا تھا مگر بدبودار اور چپچپا تھا۔ یہاں اس کی برداشت و ہمت جواب دے چکی تھی، وہ لڑکھڑاتی ہوئی زمین بوس ہوئی۔
آخری آواز جو اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی وہ اس لڑکی کہ فلک شگاف قہقہوں کی تھی اور آخری منظر جو اس کی بصارتوں نے قید کیا تھا وہ اس پرسرار لڑکی کا ہاتھ میں وہی چھری پکڑے، قدم قدم چل کر اس کی سمت بڑھنے کا تھا۔ اس لڑکی کا لباس سفید رنگ کا تھا۔ عجیب سا لباس تھا۔ امراؤ نے بڑی ہلکے نیلے رنگ کی آنکھیں موندتے ہوئے سوچا تھا۔ ہھر ایک جھماکے سے اس پہ یہ انکشاف ہوا کہ اس عجیب سے لباس کو عرفِ عام میں“کفن” کہہ کر پکارا جاتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضر منان کا زیادہ تر وقت اب فارغ ہی گزرتا تھا۔ اکا دکا مریض ہی دن میں ہسپتال کا رخ کرتے تھے۔ وہ ان دنوں میں دو بار اپنی والدہ سے بھی مل آیا تھا۔ وہ پرسرار شخص اس دن کہ بعد کہیں دکھائی نہیں دیا تھا۔ جب خضر نے اسے یوں خلا میں معلق دیکھا تھا تو اس کہ کچھ ہی وقت بعد وہ اسی حالت میں وہاں سے کہیں غائب ہو گیا تھا۔ تب سے خضر اس کا کوئی سراغ نہیں لگا پایا تھا۔ اب خضر نے اس کی کھوج ترک کر دی تھی۔ اگلی صبح بھی سب معمول کہ مطابق چل رھا تھا کہ اچانک ہی ہسپتال کہ باہر ایمبولینس کہ ساتھ چند بڑی گاڑیاں آکر رکی۔
عجیب افراتفری مچ چکی تھی۔ شور و غل کی آواز سنکر خضر بھی اپنی سوچیں ترک کرتا ہوا ایمرجنسی وارڈ کی طرف بھاگا۔ خواتین و حضرات ماتم کر رھے تھے۔ ہسپتال یکدم ہی لوگوں سے بھر گیا تھا۔ ہسپتال کہ وارڈ بوائز نے اسٹریچر پہ مریض کو ڈالا اور تقریباً بھاگتے ہوئے ایمرجنسی روم کی طرف لپکے اور دروازہ مقفل کر دیا۔ اسٹریچر کہ ساتھ مریض کہ لواحقین بھی روتے چلاتے بھاگتے ہوئے آۓ لیکن جب ان کہ منہ پہ دروازہ بند کیا گیا تو بیچارے غم سے نڈھال انتظار گاہ میں رکھی کرسیوں پہ ڈھے سے گئے۔ اس کہ علاوہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ اور چارہ بھی کیا تھا بیچاروں کہ پاس انتظار کرنے کہ سوا؟
خضر منان نے جب مریض کہ اوپر دیا خون میں لت پت سفید کپڑا اٹھایا تو ایک لمحے کہ لیے اسے بھی ابکائی آگئی۔ یہ کسی لڑکی کا خون میں نہایا ہوا وجود تھا۔ حتیٰ کہ اس ہلکے بھورے پونی میں جھولتے بال بھی خون سے لال تھے۔ بہت بری طرح اس پہ تشدد کیا گیا تھا۔ سارے ہی جسم پر بڑے بڑے کٹ لگائے گئے تھے۔ پھر ان پہ نمک چھڑکا گیا تھا۔ جس سے زخم مزید خراب ہو چکے تھے۔ لڑکی کی سانسیں اٹک اٹک کر چل رھی تھیں۔ خضر جان چکا تھا کہ اس لڑکی کا بچنا محال ہے۔ پھر بھی اس نے اللہ کا پاک نام لیکر اپنی پوری کوشش کی۔
اس کہ ساتھ دو عدد فی میل نرسز بھی موجود تھیں۔ لڑکی کی ہارٹ بیٹ دھیرے دھیرے معدوم ہوتی چلی جا رھی تھی۔ جو عارضی زندگی کی کچی ڈور کٹنے کا واضح اشارہ تھا۔ خضر پسینے میں نہا چکا تھا۔ لڑکی بہت باہمت تھی۔ وہ اپنی طرف سے زندگی کی طرف لوٹ آنے کی پوری کوشش کر رھی تھی۔ لیکن جب اوپر سے ہی سانسوں کی مدت تمام ہونے کا پروانہ مل چکا ہو تو دنیا کی کوئی طاقت چاہ کر بھی اس مدت میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ دفعتاً خضر نے محسوس کیا کہ لڑکی کہ دائیں ہاتھ میں ہلکی ہلکی جنبش ہو رھی تھی۔ اس نے وہ ہاتھ تھاما تو لڑکی نے پپوٹوں کہ ہلکے اشارے سے اسے اپنے پاس بلایا، خضر جان گیا کہ یہ کچھ کہنا چاھتی ہے۔ خضر نے اپنا کان اس کہ ہونٹوں کہ ساتھ لگاتے ہوئے اسے تسلی آمیز گفتگو کی۔ اس کی ڈھارس بندھائی ۔ اس کہ ہونٹ مسلسل کپکپا رھے تھے۔ جیسے وہ کچھ بہت خاص بتانا چاھتی ہو لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رھے تھے۔ خضر کو اس کی بات بس اتنی ہی سمجھ آئی۔
“لڑکی۔۔۔۔۔ ہاسٹل۔۔۔۔۔۔۔ نیلی۔۔۔۔۔پونی۔۔۔۔۔9۔۔۔8۔۔۔۔9۔۔۔۔1”
موت کہ فرشتے نے اسے بس اتنی ہی مہلت دی۔ اور اس کی آنکھیں اپنی روح کی پرواز کو دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہ گئی۔ ہر ڈاکٹر کی طرح خضر کہ لیے بھی کسی مریض کہ لواحقین کو ان کہ بہت ہی پیارے کی موت کی اطلاع دینا سب سے کٹھن مرحلہ لگتا تھا۔ وہ کافی دیر وہاں کھڑا ہمت باندھتا رھا۔ بلآخر وہ باہر آگیا۔ جوں ہی اس نے دروازہ کھولا نجانے کتنے ہی مرد و خواتین اسکی جانب لپکے، ان کی نم آنکھوں میں فقط ایک ہی سوال تھا۔
جس کا جواب خضر کہ جھکے سر اور خاموشی نے دے دیا تھا۔ خضر ایک مرد کا کندھا تھپکتا ہجوم میں سے راستہ بناتا وہاں سے نکل گیا۔ اتنے میں وہاں پولیس بھی پہنچ چکی تھی۔ پولیس نے لاش کا معائنہ کر لیا تھا اب خضر منان کو ایک اور پوسٹ مارٹم کرنے کا پروانہ جاری کرنا تھا۔ ہسپتال کی راہداریاں اور در و دیوار فلک شگاف چیخوں سے گونج رھے تھے۔ نجانے کب تلک یہ سلسلہ چلتا رھا۔ اور خضر اس سے دور اپنے کمرے کہ باہر بنے ٹیرس پہ کھڑا سگریٹ پھونک رھا تھا۔ اس کہ ہاتھ کانپ رھے تھے۔
اسے جب بھی ایسی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تب سگریٹ اس کا بہترین دوست ہوتا تھا۔ اس نے آتےہی سب سے پہلے اپنی ڈائری پہ مرحومہ کہ حالتِ نزع میں بتائے گئے الفاظ درج کیے تھے۔ اب یہ نجانے کون سی افتادہ تھی۔ جو بیٹھے بٹھاۓ اس کہ سر پہ پہنچ گئی تھی۔ یہ بات تو واضح تھی کہ اس لڑکی کی لاش پہلے ملی دونوں لاشوں سے یکسر مختلف تھی۔ مطلب یہ کام اس قاتل کا نہیں تھا۔ تو پھر کس نے کیا تھا اس لڑکی کا اتنی بے دردی سے قتل؟ پہلے معائنے میں جو بات خضر منان نے نوٹ کی تھی وہ یہ تھی کہ آلۂ قتل ایک تیز دھار “چھری” ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وارڈن نے اگلی صبح تمام لڑکیوں کو ناشتے کہ بعد ڈائینگ ہال میں ہی اکھٹا رھنے کا حکم صادر کیا تھا۔ مقصد انھیں ہاسٹل میں رہائش رکھنے کہ چیدہ چیدہ قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا جانا تھا۔ اس کہ علاوہ کلاسز کہ باقاعدہ آغاز کہ بارے میں بھی رہنمائی فراہم کرنا تھی۔ وارڈن نے فرداً فرداً سب لڑکیوں سے ان کا نام پتہ بھی معلوم کیا تھا۔ ابتدائی سا تعارف کروایا جا رھا تھا۔ وارڈن کو رات والی لڑکی امراؤ کہیں دکھائی نہیں دی۔ ابھی تک پڑی سو رھی ہو گی، انھوں نے اندازہ لگایا تھا۔
اس کا نام بہت منفرد تھا اسی لیے شاید انھیں یاد رہ گیا۔ رات کو انھیں بتایا گیا تھا کہ اس لڑکی کی رہائش کا بندوبست ساتھ والے کمرے میں کیا گیا ہے، کیونکہ کمرہ نمبر گیارہ۔بارہ کا تالہ رات کہ وقت توڑنے کا بندوبست نہیں ہو سکا تھا۔ صبح وارڈن نے تالہ بھی تڑوا لیا تھا اور نوکرانی سے کہہ کر صفائی بھی کروا لی گئی تھی۔ آج سے امراؤ کو عارضی طور پر اپنے کمرے میں منتقل کیا جانا تھا۔ ایسا سب کچھ “وارڈن” کہ مطابق، انُ کی نظریے میں ہوا تھا۔ کیونکہ تب وہ نہیں جانتی تھیں کہ امراؤ کہ ساتھ حقیقتاً کیا کچھ ہو چکا ہے!
0 تبصرے