جمیکا اور نگینہ کہ جانے کہ بعد یعقوب مسیح کا جینا بھی دوبھر ہو چکا تھا۔ وجہ اس کی نئی بیوی تھی۔ اور اس کہ ساتھ مفت میں ملی بیٹی۔
بانو کماری پورا دن بستر توڑتی رھتی اسے نہ یعقوب کی پرواہ تھی اور نہ ہی گھر کی۔ اور تو اور وہ تو اپنی بیٹی سے بھی یکسر بیگانہ و لاتعلق سی رھتی تھی۔ ہر وقت موبائل پہ گانے سنتی رھتی یا ناچتی رھتی۔ اس کا دل جلد ہی یعقوب سے اُوب گیا۔ نجانے اس نے یعقوب میں کیا دیکھا تھا؟ وہ اب ہر روز یہی سوچتی رھتی۔ نتیجتاً وہ مزاج کی چڑچڑی ہو گئی۔
یعقوب کچھ دن تو یہ سب نئی دلہن کہ نخرے سمجھ کہ برداشت کرتا رھا، لیکن بعد میں جب کھانے کو کچھ نہ ملا تو وہ بھی اپنی پہ آگیا۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ یہ نگینہ نہیں بلکہ بانو کماری ہے۔ وہ نگینہ پہ تو ظلم و ستم کہ پہاڑ توڑ سکتا تھا لیکن بانو کو چھو بھی نہیں سکتا تھا۔ اور سب سے بڑھکر جس لالچ میں آکر اس نے بانو سے نکاح کیا تھا وہ لالچ بھی پورا نہ ہو سکا۔ کیونکہ بانو نے کمال مہارت سے ہسپتال میں ہی اپنی بیٹی کی پیدائش والے دن سارا مال اپنی ماں کہ حوالے کر دیا تھا۔ اور اٹیچی کیس میں اپنے چند کپڑے ہی بھر کر لائی۔ یعقوب کا کام بھی مندا چل رھا تھا۔ لہذا جلد ہی انھیں کھانے کہ لالے پڑ گئے۔ یعقوب کو سب سے زیادہ چڑ اس چھوٹی بچی سے ہوتی تھی۔ جو ہر وقت بس روتی رھتی تھی۔
یا کوئی نہ کوئی انوکھی شرارت کرنے میں مگن رھتی۔ بانو کماری اور یعقوب میں چلتی نوک جھونک بڑھکر کر شدید نوعیت کہ جھگڑوں میں بدل گئی۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ بانو اپنی بیٹی کولیکر اپنی ماں کہ پاس آگئی۔ ماں کہ ہاتھ بھی فی الحال کافی مال آیا ہوا تھا لہذا اس نے بصدِ شوق دونوں کو خوش آمدید کہا۔ دن یونہی گزرتے رھے۔ یعقوب بہت بار بانو کو منانے آیا لیکن بانو کا جی اس سے بھر چکا تھا۔ لہذا وہ اُس کہ ساتھ واپس نہیں گئی۔ اُس کہ پاس ایسا تھا بھی کیا جو بانو جیسی عورت اس کہ ساتھ زندگی گزارتی؟ وہ تو نگینہ ہی تھی جس نے اُس جیسے انسان کہ ساتھ اتنا وقت گزار دیا۔ اب یعقوب کو نگینہ اور جمیکا کی یاد ستانے لگی۔ اپنے کیے پہ شدید ندامت ہونے لگی۔ اس نے اپنے تئیں ان دونوں کو ہر جگہ تلاشا لیکن نہ انھوں نے ملنا تھا اور نہ وہ ملیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پہلا قتل”؟
امراؤ کہ دل و دماغ میں بار بار یہی بازگشت گردش کر رھی تھی۔ وہ گل رخ کی آدھی کہانی سننے کہ بعد وہاں سے بہانہ کر کہ باہر نکل آئی تھی۔ اسے کچھ وقت کہ لیے تنہائی درکار تھی۔ وہ حالیہ ہوئے واقعات پہ سوچنا چاھتی تھی۔ وہ وہاں سے نکل کر ہاسٹل کہ وسط میں بنے باغیچے کی طرف نکل آئی۔ اور وہاں لگے بینچ پر بیٹھ گئی۔ ہاتھ گالوں تلے رکھ لیے اور کچھ وقت کہ لیے اپنے ماضی میں کھو سی گئی۔
اس کی کہانی بھی گل رخ سے کچھ مختلف تو نہیں تھی۔ اسے بھی گل رخ کی طرح ساری زندگی اپنے بابا کا انتظار کرنا پڑا۔ اور ابھی بھی وہ اپنے بابا کا انتظار ہی تو کر رھی تھی۔ گل رخ کی ماں اگر بے وفا نکلی تو وفادار تو اس کی ماں بھی نہیں تھی۔ نجانے اس کا باپ کون تھا؟ اسے تو ابھی تک یہی نہیں بتایا گیا تھا۔ نانی کہ منہ سے بھی اس نے ہمیشہ اپنے باپ کہ بارے میں گالیاں ہی سنی تھیں۔ اور بانو، بانو نے کبھی اس بارے میں لب نہیں کھولے تھے۔ گل رخ کی طرح امراؤ بھی تو اپنے بچپن سے لڑ جھگڑ کر جوان ہوئی تھی۔
دونوں کہ پاس کوئی بھی نہیں تھا ایسا جس سے اپنے من کی باتیں کر سکتیں یا اپنا غم بانٹ سکتیں۔ اپنا دل ہلکا کر سکتیں۔ یہ سب سوچتے ہوئے امراؤ کو معلوم ہی نہ ہو سکا اور گرم گرم آنسو اس کہ لال ہوتے پھولے گال بگھونے لگے۔ گل رخ کہ چاچا نے اگر اس کی عزت پہ حملہ کرنا چاھا تھا تو امراؤ کہ گھر میں آنے جانے والے ہر برے مرد نے اس کی طرف بری ہی نگاہ سے دیکھا تھا۔ اور سب سے بڑھکر اس کی ماں کا حالیہ شوہر!
اس نے بھی تو امراؤ سے زبردستی کرنے کی کوشش کی تھی۔ تبھی تو امراؤ نے وہاں سے بھاگ نکلنے کی سوچی۔ وہ تو اب مر کر بھی وہاں قدم نہیں رکھ سکتی تھی؟ گل رخ کی طرح وہاں اس کا تھا بھی کون؟ سگی ماں ابھی تک اپنی شادیاں منا رھی تھی، امراؤ کا دھیان کون رکھتا؟ فقط اس کہ بابا ہی تھے جو اس میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کی چھوٹی بڑی خوشی کو مناتے تھے۔ اسے تحائف و رقوم بھیجتے تھے۔ نجانے ان کی کونسی مجبوری تھی کہ وہ اس سے مل نہیں سکتے تھے؟ نجانے انھوں نے اس کی ماں کو کیوں چھوڑ دیا تھا؟ کیوں طلاق دی تھی؟ شاید اس کی ماں کی عادتوں کی وجہ سے۔ وہ ہمیشہ یہی سوچ کر دل کو بہلا لیتی تھی۔ یہ سب اس کہ دل میں ماں کو لیکر موجود نفرت کہ پودے کو تناور درخت بنانے میں سازگار ماحول فراہم کرتا تھا۔ اس کی ماں ہی کی وجہ سے اس کا باپ ان دونوں کو چھوڑ گیا ہوگا، ہاں ایسا ہی ہوا ہوگا۔ ہر بار اس کی تان یہیں آکر ٹوٹتی تھی۔
“کیا معلوم ایسا نہ ہوا ہو؟”
اسے اپنے عقب میں کسی کی پرسرار آواز گونجتی محسوس ہوئی تو اس نے فوراً گھوم کر دیکھا۔ گل رخ وہاں کالے لانگ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ٹھنڈ کی وجہ سے لال ہوتی بہتی ناک کو صاف کرتے کہہ رھی تھی۔
“تت تت تم یہاں کیسے؟”
مارے خوف کہ امراؤ نے ہکلاتے ہوئے کہا تھا۔
“میں ہر اس جگہ پائی جاؤں گی جہاں تم مجھ سے جان چھڑا کہ پہنچو گی۔ تم یہ بات اپنے نھنھے سے دماغ میں کیوں نہیں بٹھا لیتی کہ ہم دونوں ایک دوسرے کہ لیے ناگزیر ہیں۔ تمھیں میری ضرورت ہے اور مجھے تمھاری۔ ہم دونوں ایک دوجے کہ بنا ادھورے ہیں میری امراؤ جان!”
اس نے امراؤ کی سفید اونی ٹوپی کہ اوپر لگے اونُ کہ گولے کہ ساتھ کھیلتے ہوئے پیار سے کہا تھا۔
لیکن ا سکی نگاہوں میں جو کاٹ تھی وہ امراؤ کو اندر تک کھا گئی تھی۔ وہ لرز کہ یکدم پیچھے ہٹی۔
“دیکھو تمھیں بھی اپنی ماں سے نفرت ہے اور مجھے بھی۔ ہم دونوں کی کہانی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ لیکن ابھی انجام نہیں ہوا۔ نہ میری کہانی کا اور نہ ہی تمھاری کہانی کا۔ میں چاھتی ہوں تم میری کہانی کو انجام دینے میں میری مدد کرو۔ ایسے مجھے سکون آجاۓ گا۔ اور میں وعدہ کرتی ہوں میں تمھاری وہ حسرت پوری کروں گی جو تم، نجانے کب سے اپنے سینے میں دبائے بیٹھی ہو۔”
وہ اب امراؤ کہ سامنے دائیں بائیں ٹہل رھی تھی۔ دونوں ہاتھ لانگ کوٹ کہ جیبوں میں مقید تھے۔
“کک کون سی حسرت؟”
امراؤ ابھی بھی اس سے خوف کھا رھی تھی۔
“وہی اپنے بابا کہ ساتھ ایک گھر میں، ایک فیملی کی طرح رھنے کی حسرت۔ تبھی تم اپنی ماں کو معاف کر سکو گی۔ میں جانتی ہوں۔”
یہ باتیں تو امراؤ نے امراؤ سے کی تھیں۔ گل رخ کی رسائی امراؤ کہ معصوم دل میں مدفن حسرتوں تک کیسے ممکن ہوئی؟
“ایک تو تم سوچتی بہت ہو امراؤ۔”
گل رخ نے اب جھنجھلاتے ہوئے کہا تھا۔
“تم اگر وارڈن کہ پاس جاکر میری شکایت کرنے کا ارادہ رکھتی ہو تو شوق سے جاؤ۔ لیکن میری ایک بات یاد رکھنا، تمھارے بابا یہیں اسی علاقے میں ہیں۔ اسی لیے انھوں نے تمھیں یہاں موجود کالج و ہاسٹل میں داخلے لینے کا کہا۔ اور صرف میں تمھیں ان سے ملوا سکتی ہو۔ آگے فیصلہ تمھارا ہے۔ اگر میرا ساتھ دینا ہوا تو چپ چاپ یہاں سے اٹھکر کمرہ نمبر گیارہ۔بارہ میں آجانا۔ اگر میرا ساتھ نہیں دینا تو جاکر وارڈن سے بات کرلو۔ کمرہ نمبر سات۔آٹھ سے ایک لڑکی گھر واپس لوٹ گئی ہے۔ تم وہاں رہائش رکھ سکتی ہو۔ تمھارا سامان تمھیں میرے کمرے کہ باہر پڑا مل جائے گا۔”
گل رخ نے امراؤ کہ سامنے اپنے پتے پھینکتے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا تھا۔ وہ اپنی سنا کر رکی نہیں تھی بلکہ ناک سے بہتا پانی صاف کرتی نکل گئی۔ امراؤ اس کی پشت دیکھتی رھی۔ گل رخ نے ایسی بھی کوئی عجیب بات نہیں کی تھی۔ یہی تو وہ بھی چاھتی تھی کہ گل رخ جیسی عجیب طبیعت کی لڑکی سے جان چھڑائی جائے اور اس سے دور علیحدہ کمرے میں رہ کر اپنی پڑھائی پہ دھیان دے سکے۔ جلد ہی باقاعدہ کلاسوں کا بھی آغاز ہو جاتا۔ وہ جانتی تھی کہ اگر وہ گل رخ کہ ساتھ رھے گی تو ایک لفظ بھی نہیں پڑھ پائے گی۔ اور اگر اس نے مارکس اچھے نہ لیے تو اس کہ بابا کا تو دل ہی ٹوٹ جائے گا نا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خضر منان اور نیا پولیس آفیسر چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر اب پوسٹ مارٹم رپورٹ کا جائزہ لے رھے تھے۔ پولیس آفیسر نے پچھلی ساری پوسٹ مارٹم رپورٹس کو بھی اپنے سامنے پھیلا رکھا تھا۔ وہ فی الوقت خضر کہ آفس میں ہی موجود تھے۔ آفیسر تھانے میں تحقیقات کرنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا کیونکہ ابھی وہ نہیں جانتا تھا کہ کون اس کہ ساتھ مخلص و وفادار ہے اور کون درِ پردہ اس کی مخبری کرتا ہے؟ نیا ہونے والا دوشیزہ کا قتل پچھلے ہونے والی تمام اموات سے یکسر مختلف تھا۔ نہ صرف آلۂ قتل کا فرق تھا بلکہ طریقۂ قتل میں بھی زمین آسمان کا فرق تھا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ قتل کسی اور نے کیا ہے۔ اس کہ علاوہ ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ اس لڑکی کا تعلق بھی بھوربھن گرلز کالج و ہاسٹل سے تھا۔ ابتدائی تحقیقات سے جو باتیں معلوم پڑی تھیں وہ یہ تھیں کہ اس لڑکی نے بارھویں کہ امتحانات دیے تھے اور آگے اسی کالج سے تیرھویں کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ پہلے اس کی فیملی بھوربھن سے دور ایک علاقے میں رہائش پذیر تھی۔
لیکن لڑکی کہ امتحانات کہ بعد مستقل طور پر یہیں بھوربھن منتقل ہو گئی تھی۔ لہذا اب لڑکی کو ہاسٹل میں رھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کی ماں پیشے کہ اعتبار سے جج تھیں۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ انھوں نے بھی چار سال اسی کالج سے تعلیم حاصل کی تھی نہ فقط یہ بلکہ وہ تو چار سال ہاسٹل میں بھی رھی تھیں۔ مقتولہ کا تعلیمی رکارڈ بہت اچھا تھا۔ وہ پوزیشن ہولڈر تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ قتل کہ وقت وہ باہر سے اپنے پالتو کتے کہ ساتھ گھر داخل ہو رھی تھی۔ وہ روزانہ کی طرح کتے کو شام کہ وقت ٹہلانے نکلی تھی۔ لیکن واپسی پہ شاید دیر ہوگئی ہوگی۔ تبھی وہ مقررہ وقت سے بعد گھر پہنچی تھی۔ گھر کہ کچھ ہی فاصلے پر اس کا قتل کیا گیا تھا۔ اور قتل کا واحد گواہ اس کا پالتو کتا تھا۔ اس کی والدہ کہ مطابق وہ اسی وقت کچہری سے گھر واپس لوٹی تھیں جب انھیں کتے کہ زور زور سے بھونکنے کی آوازیں آئیں۔ انھوں نے پہلے تو خاطر خواہ اثر نہ لیا لیکن جب اپنی بیٹی کو بھی گھر سے غائب پایا تو بھاگ کہ اس احاطے میں آئیں جہاں سے کتے کی آوازیں آرھی تھیں تو اپنی بیٹی کو ناقابلِ برداشت مردہ حالت میں پایا۔ اس کی رہائش گاؤں بھوربھن سے تھوڑا فاصلے پر بنے سرکاری کوارٹرز میں تھی۔ کوارٹر اس کی والدہ کو الاٹ ہوا تھا۔
سرکاری کوارٹرز سے سو میٹر دور ہی پارک سا بنا تھا۔ وہ بھی کوارٹرز میں بسنے والی فیملیز کہ لیے بنایا گیا تھا۔ وہ شاید وہی گئی تھی۔ لیکن واپس زندہ نہ آسکی۔ اس کی والدہ ساجدہ بیگم کا تو اپنی بیٹی کو خون میں لت پت دیکھر تب سے برا حال تھا۔ ظاہر ہے وہ انکی اکلوتی اولاد تھی۔ انھوں نے اسے لیکر نجانے کیا کیا سپنے سجائے تھے۔ اور اس کا یوں اتنی بے دردی سے قتل ہو جائے گا، وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ وہ خود چونکہ جج تھیں لہذا پولیس انتظامیہ یہ سوچ سکتی تھی کہ وہ قتل کا سراغ لگانے کہ لیے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ مطلب پولیس انتظامیہ کو حد سے زیادہ پھرتی اور چالاکی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
فی الوقت تو انھوں نے سوگ کی وجہ سے چپ سادھی ہوئی تھی، لیکن یہ سب جانتے تھی کہ یہ چپ یقیناً کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
پولیس آفیسر کی سوئی ایک ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی اور اپنے اس خیال کا ذکر اس نے خضر سے بھی کیا کہ پالتو کتے کہ سامنے اس کی مالکہ کا قتل ہو جاتا ہے اور وہ فقط بھونکنے پر ہی کیوں اکتفا کرتا ہے، ظاہر ہے اس نے قاتل کو کاٹا ہوگا یا قاتل کو کاٹنے کی کوشش تو کی ہی ہوگی۔ جس سے قاتل کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو گا۔ اور اگر قاتل اسی گاؤں کا ہوا تو وہ ضرور یہاں موجود واحد ہسپتال میں کتے کہ کاٹے کا انجکشن لگوانے آۓ گا۔
فی الحال یہ سب ہوا میں تیر چلانے کہ مترادف تھا۔ اب حقیقت میں کیا ہوا تھا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن فی الوقت ایک سرا تو ہاتھ آیا تھا نا کہ جسے پکڑ کر تحقیقات کا آغاز کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امراؤ بہت کچھ سوچ کر اپنی جگہ سے اٹھی اور وارڈن سے کمرہ بدلنے کی بات کرنے کی غرض سے اس کہ دفتر کا رخ کرنے کی ٹھانی۔ تبھی اسے اپنے دائیں پاؤں میں درد کا شدید احساس ہوا۔ اسے یہ درد صبح اٹھتے بھی ہوا تھا۔ اور جب بھی وہ چلتی تھی اس کا پاؤں بری طرح دکھتا تھا۔ لیکن وہ اور معاملات میں اتنا الجھ چکی تھی کہ اس نے اس بات کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ دی۔ لیکن اب درد کی لہر اتنی شدید تھی کہ اسے مجبوراً واپس بینچ پر بیٹھ کر پاؤں کا جائزہ لینا پڑا۔ اس نے جینز اوپر کی تو دیکھ کہ دھک سے رہ گئی کہ اس کہ پاؤں پہ کھرونچوں کہ نشانات تھے۔ اور پاؤں لال سرخ ہورھا تھا۔ اس کہ علاوہ جینز میں بھی چھوٹے چھوٹی تین سوراخ تھے۔ جیسے اسے کسی جانور یا کیڑے نے کاٹا ہو اور جینز کی وجہ سے اسکی بچت ہو گئی ہو۔
جانور یا کیڑے کہ دانت اس کی اسکن کو چھو کر گزر گئے۔ لیکن یہ سب کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ اس کی آنکھ ہسپتال میں کھلی تھی اور اس کہ بعد وہ روم نمبر گیارہ بارہ میں گل رخ کہ ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رھی۔ اور پھر وہ یہاں آگئی۔ اس دوران اس کا سامنا تو کسی کیڑے یا جانور سے نہیں ہوا تھا۔ ہاں اسے اتنا یاد تھا کہ رات میں اسے کسی کتے کہ بھونکنے کی آواز بار بار تنگ کر رھی تھی۔ شاید وہ خواب دیکھ رھی تھی۔ لیکن خواب میں دیکھا گیا جانور کیا حقیقت میں کاٹ سکتا ہے؟ اور اس کا تو کسی کتے سے سامنا ہوا ہی نہیں تھا، پھر؟
“اف اللہ ! یہ کہاں آکہ پھنس گئی ہوں میں؟ ابھی اور کیا کیا ہونا باقی ہے میرے ساتھ؟”
وہ روہانسی ہو گئی تھی۔ فی الوقت اسے ساری حقیقت جس شخص سے پتہ لگ سکتی تھی وہ تھا ڈاکٹر خضر منان۔ کیونکہ اس کی بے ہوشی کہ وقفے میں وہ ہی تھے جنہوں نے اسکا معائنہ کیا تھا۔ ان سے پوچھنا پڑے گا کہ کیا انھوں نے بھی اس کہ پاؤں پہ ایسی کھرونچیں نوٹ کی تھیں؟ اسے ابھی اور اسی وقت ڈاکٹر خضر منان سے ملنا تھا۔ یہ سوچتے ہی وہ ہاسٹل کہ دروازے پہ ہسپتال جانے کی درخواست دیکر کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالکر نکل آئی تھی۔ جلد ہی وہ ہسپتال پہنچ گئی تھی۔ عملے سے ڈاکٹر خضر منان کا پتہ کر وہ سیدھا ان کہ آفس ہی آگئی۔
جہاں خضر منان پولیس آفیسر کہ ساتھ بیٹھے حالیہ ہوئے قتل کی بابت سراغ لگانے میں مصروف تھے۔ چائے کا ایک اور دور چل رھا تھا۔ وہ دروازہ ناک کر کہ اندر آئی ہی تھی کہ پولیس آفیسر پہ نظر پڑتے ہی یکدم بدک کہ پیچھے ہٹی۔ تب تک ڈاکٹر خضر کی نگاہ بھی اس پر پڑ چکی تھی۔ وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے اندر آنے کہ لیے کہہ ڈالا۔ پولیس آفیسر نے تو کافی ناک بھوں چڑھایا لیکن خضر نے ہاتھ کہ اشارے سے اسے پرسکون رھنے کا کہا۔ پولیس آفیسر جو اپنے محکمہ میں حد سے زیادہ سنجیدہ اور کھڑوس مشہور تھا اپنی کاروائی میں ایک لڑکی کی مداخلت برداشت نہیں کر سکا۔ وہ خضر سے اجازت لیکر اپنے کاغذات سمیٹتا اٹھ کھڑا ہوا۔ کیونکہ خضر پیشے کہ اعتبار سے ایک ڈاکٹر تھا اور ظاہر ہے اسے تو مریض چیک کرنے ہی تھے نا۔ ابھی وہ کاغذات ہی سنبھال رھا تھا کہ ایک خوبصورت سی سرخ پھولے ہوئے گالوں اور نیلی آنکھوں والی لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اس کی اونی ٹوپی کہ اوپر لگا اون کا بڑا سا گولہ اس کی اونچی پونی کہ ساتھ ہی دائیں بائیں جھول رھا تھا۔ وہ بہت معصوم بہت نازک سی تھی۔
بلکل کانچ کی گڑیا جیسی۔ پولیس آفیسر کو اپنی بندریا بیوی کی یاد آئی تو مسکرا کہ نگائیں جھکا لیں۔ اب وہ خضر کہ ساتھ رکھے پیشنٹس کہ لیے مختص چھوٹے اسٹول پر بیٹھ چکی تھی۔ آفیسر جانے ہی لگا تھا جب خضر نے اسٹوڈنٹ کا تعارف اُس سے کروایا تھا۔
“اسٹوڈنٹ! یہ میرے دوست اور یہاں پوسٹڈ نئے پولیس آفیسر ہیں۔ آفیسر “سفیان تبریز”!
سفیان نے سر کہ خم سے سلام کیا تھا۔ اور کاغذات سمیٹتا وہاں سے جانے لگا۔ ابھی وہ دروازے کہ پاس ہی پہنچا تھا کہ اسٹوڈنٹ کی بات نے اس کہ پاؤں میں جیسے زنجیریں ڈال دی تھیں۔
“ڈاکٹر! میرے ٹخنے کہ پاس یہ عجیب سے کھرونچوں کہ نشان ہیں۔ میری جینز بھی وہاں سے پھٹی ہوئی ہے۔ اور یہ نشان اب درد بھی کر رھے ہیں اور یہاں خارش بھی ہو رھی ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ کسی جانور مثلاً کتے وغیرہ یا کسی کیڑے کہ کاٹنے کہ نشان ہیں۔ آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ جب میں ہسپتال آئی تھی بے ہوشی کی حالت میں آج صبح تو کیا آپ نے بھی ایسا کچھ نوٹس کیا تھا؟”
اس کی بات سنتے ہی خضر منان نے سفیان تبریز کی جانب دیکھا اور دونوں کو لگا کہ کسی نے بیک وقت ان کی سانسیں ضبط کر لی ہوں!
0 تبصرے