Subscribe Us

دھوکہ - پہلا حصہ

urdu stories in hindi

میں اور شنکر بار میں بیٹھے مے نوشی سے شغل کر رہے تھے۔ ہماری بد قسمتی ہمیں یہاں لے آئی تھی۔ ہمیں وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا۔ ہم اس بار میں بیٹھنا تو درکنار اس کے سامنے سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں کا ماحول نہ صرف تیسرے درجے کا بلکہ پراگندہ بھی تھا۔ تیسرے درجے کے لڑکے لڑکیاں، عور تیں اور ہر عمر کے مرد بھی بار میں موجود تھے۔

مقامی چینل پر جور قص و موسیقی کا بولڈ پر وگرام دکھایا جا رہا تھا وہ نشہ تیز کر رہا تھا۔ بڑا آزادانہ، جذباتی اور فری قسم کا ماحول تھا۔ بار میں جو لڑکیاں تھیں ان کی عمریں سولہ سے بیس کے درمیان تھیں۔ ان میں ایک ویٹرس کملا، جو بیس برس کی تھی، وہ میرے محلے کی بہو تھی۔ اس کا شوہر شرابی تھا۔ میں اس کے پتی کو جانتا تھا اور وہ مجھے جانتی تھی۔ساس، پتی اور نندوں کا کہناتھا کہ پیسہ لائو کہیں سے بھی اور کیسے بھی تمہیں ہر بات کی آزادی اور کھلی چھوٹ ہے۔ وہ اس بار کی سب سے خوب صورت اور پرکشش عورت تھی۔ اس پر سولہ برس کی دوشیزہ کا اس لیے گمان ہوتا تھا وہ چھریرے اور متناسب بدن کی تھی۔ اگر اس کی اولاد نہ ہوتی تو جانے کب کی گھر چھوڑ کر کہیں روپوش ہو جاتی۔ جب کسی دن کسی وجہ سے وہ کم پیسے لاتی تو سب مل کر اس غریب کا بھرتا بنا دیتے تھے۔

یہ کہانی صرف ایک کملا کی نہیں، ہزاروں کملائوں کی تھی۔ اس نے دو ایک مرتبہ میری کوٹھری کا دروازہ بھی رات دس بجے کھٹکھٹایا تھا، لیکن صرف ایک مرتبہ میں نے اس کی مدد کی تھی۔ کملا کو سو روپے کی ضرورت تھی ورنہ اس کا سواگت لاتوں، جوتوں اور تیل چھڑک کر آگے لگانے کی دھمکیوں سے ہوتا۔ بیروزگاری کتنی بری لعنت اور اذیت ہے ۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے۔ ہماری خواہش ہوتی تھی کہ کوئی شکار نہ ہو جائے ، چاہے وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ اس شہر کی بلائیں ہر ایک کو نہ صرف لوٹ رہی تھیں بلکہ نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو غلاظت بھرے راستے پر چلنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ 

ہم یہاں شباب کے لیے نہیں بلکہ شراب سے غم غلط کرنے آئے تھے۔ میں کل کا اخبار لے آیا تھا جو ایک شناسا بک اسٹال والے نے مفت میں دے دیا تھا۔ کل اتوار تھا۔ اتوار کے اخبارات میں ضرورت ہے کے اشتہارات کی بھر مار ہوتی تھی۔ شنکر بھی وہی صفحہ دیکھ رہا تھا۔ دفعتاً بیس برس کی ایک لڑکی اندر آئی، اس میں ہر کسی کو متوجہ کرنے والی جاذبیت بھری تھی۔ وہ گہرے میک آپ میں تھی۔ حالاں کہ اسے اس کی قطعی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس کی نمکین اور روغنی جلد میں بڑا حسن اور نکھار تھا جو کسی میک آپ کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس نے ہال کا سرسری سا جائزہ لیا اور ہماری میز کی سمت بڑھی۔ اسے ہم دونوں شاید چربی دار مرغے دکھائی دیئے تھے۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ تھی کہ ہم دونوں ہال کے تمام گاہگوں میں قدرے صاف ستھرے اور خوش پوشاک دکھائی دے رہے تھے۔

اس نے میز کے قریب پہنچ کر دل کش انداز سے مسکرا کے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوب صورتی تھی اور چہرہ دل فریب, کیا میں آپ کی کوئی سیوا کر سکتی ہوں ؟ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ اس کی آواز بڑی مدھر تھی۔ کیوں نہیں کیوں نہیں میں نے اپنے برابر والی خالی کرسی کی طرف اشارہ کر کے شوخی سے کہا۔ شکریہ ۔ وہ یہ کہتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔ شریمتی جی ! میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ہم دو آدمی ہیں۔ دیکھ لیں ، سوچ لیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ قدرے شوخی سے بولی۔ میرا کام ہی سیوا کرنا ہے۔ کہنا بہت آسان ہے ۔ میں نے اس کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے کہا۔ شنکر مجھے احمقوں کی طرح دیکھ رہا تھا۔ موقع تو دیں۔ اس کے چہرے پر نکھار سا آگیا۔

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا میں نے سنجیدگی برقرار رکھی۔ ہم جو جام نچارہے ہیں اس کا بل چالیس روپے ہے اور ویٹرس کو ٹپ دینے کے لئے ہمارے پاس صرف پانچ روپے ہیں۔ لینچ کے لیے ہماری جیبوں میں دمڑی بھی نہیں ہے۔ آپ ہم دونوں کو کسی بھی ہوٹل میں دو لقے کھلا دیں تو ہم پر بڑا احسان ہو گا۔ آپ کی اس سیوا کو ہم کبھی بھی ۔ کیا..؟ وہ اک جھٹکے سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے کا رنگ ایسا بدلا کہ وہ کسی چڑیل کی مانند دکھائی دینے لگی۔ 

وہ سرعت سے مڑ کے جانے لگی تو میں نے فورا ہی اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے میرا ہاتھ اس بُری طرح جھٹکا جیسے ہاتھ میں کن کھجورا آگیا ہو پھر مجھے غضب ناک نظروں سے گھورتی ہوئی اس میز کی طرف بڑھ گئی جس پر ساٹھ برس کا بوڑھا سا شخص بھونڈی آواز میں گا رہا تھا اور نشے میں دُھت تھا۔ یہ دُنیا تیرے باپ کی نہیں میری بھی نہیں۔ میری پیتنی کی بھی نہیں ۔ ویٹرس بھی ہنس رہی تھیں۔ وہ اس کی میز پر بیٹھ گئی تو اس بوڑھے نے اپنا گانا موقوف کر دیا، پھر توقف کر کے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر دکھائی۔ نوٹوں کی گڈی کے جادو نے اس لڑکی کو رام کر دیا۔ بل ادا کرنے کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ تھامے ہماری میز کے سامنے سے گزرے تو اس عورت نے مجھے حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور پھبتی کسی بھکاری۔

اس نے غلط نہیں کہا تھا۔ ہم واقعی بھکاریوں سے بھی بدتر تھے ، ایسے بھکاری جنہیں کوئی ایک روپے کی بھیک دینے کو تیار نہ ہوتا، ورنہ کیا مجال تھی کہ یہ بوڑھا اس بلبل کو لے اڑتا اور ہم منہ دیکھتے رہ جاتے۔ میں اور شنکر کچھ دنوں پہلے تک نہ صرف بر سر روزگار تھے بلکہ کسی حد تک امیر کبیر تھے۔ بار اور ہوٹلوں اور شبینہ کلبوں میں بڑی عزت اور پذیرائی ملتی تھی۔ یہ سب اس لیے تھا کہ ہماری جیبیں ہر وقت بھری ہوتی تھیں۔ ہماری آمدنی بھی بہت اچھی تھی، بر سر روزگار تھے۔ پانچوں انگلیاں گھی میں سر کڑاہی میں تھا۔ ہم سپنوں جیسی سُندر زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہم دونوں کا پیشہ قابل تعریف، باعزت اور معزز ہر گز نہیں تھا، کیونکہ ہم دونوں پیشہ ور مجرم تھے۔ 

کون سا جرم ایسا تھا جس میں ہم ماہر نہ تھے۔ دنیا کی ایک زیر زمین مافیا سے ہمارا تعلق تھا۔ مختلف قسم کی مہمات کے دوران ہماری جیب میں پڑا ریوالور کسی فرشتہ اجل سے کم نہ ہوتا تھا۔ وہ ہماری ہر مشکل آسان کر دیتا تھا۔ عورت ہو ، خطر ناک مجرم ہو، اسمگلر یا کوئی دولت مند یا کوئی مسلح سپاہی ، سبھی سر نگوں ہو جاتے۔ اب یہ ہماری باتیں قصہ پارینہ معلوم ہوتی تھیں۔ کہاں ہم ایئر کنڈیشنڈ لگژری اپارٹمنٹ کے خواب ناک ماحول میں رہتے تھے۔ کہاں اب ہم گھٹیا ترین علاقے کی ایک گھٹیا ترین عمارت میں تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رہائش پذیر تھے۔ ان کوٹھریوں میں جتنا سکون اور آرام میسر تھا انہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ قبروں میں پڑے مردے بھی شاید اتنے بے چین نہ ہوتے ہوں گے جتنے ہم تھے۔

ہم روز ہی اخبار میں ضرورت ہے کا اشتہار بلکہ گم شدگی کے اشتہار بھی باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ اگر کسی عورت کے کتے یا بچے یا شوہر کی گم شدگی کا اشتہار نظر آتا ہم اس معرکے کے لیے مستعد ہو جاتے تھے۔ اس کے حصول کا جو معاوضہ ملتا تھا وہ ہماری گزر بسر کا ذریعہ ہوتا۔ سب سے مشکل ترین کام شوہر کی تلاش ہوتی تھی۔ شوہر اپنی شریمتی کے پاس کسی قیمت پر جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ بیس برس کے بعد تو زندان سے رہائی ملی ہے۔ ہم جشن آزادی منارہے ہیں۔ ہم اخبار پڑھتے پڑھتے اک دم چونک گئے۔ ٹی وی سے جو سانگ آئٹم دکھایا جا رہا تھا اسے اک دم روک دیا گیا۔ 

بریکنگ نیوز کی سلائیڈ آ گئی۔ پھر ٹی وی انائونسر نے نمودار ہو کر ایک سنسنی خیز خبر سُنائی جو ڈاکے سے متعلق تھی۔ ایک شاطر اور دلیر ڈاکو نے ایک عجیب و غریب اور دل چسپ ڈکیتی کی واردات کی تھی۔ اس نے شہر کی اسٹیل اور المونیم انڈسٹریز کے دو کارکنوں کو بے بس کر کے دو کروڑ کی رقم چھین لی تھی۔ انڈسٹریز کے یہ ملازمین جن میں ایک کیشیئر اور دوسرا اکائونٹینٹ تھا، ملازمین کی تنخواہیں اور سپلائرز کو دینے کے لیے رقم لے جارہے تھے۔ ڈاکو نے ایسا کوئی ثبوت نہیں چھوڑا جو اس کی گرفتاری میں پولیس کی مدد کر سکتا۔ وہ جس گاڑی سے فرار ہوا وہ بھی مسروقہ تھی اور وقوعہ کی جگہ سے کوئی تین میل کے فاصلے پر شہر کے بیچوں بیچ دستیاب ہوئی تھی۔ پولیس نے ڈاکو کی نشان دہی کے لیے ایک زبر دست انعام کا اعلان کیا تھا۔ نشان دہی کرنے والے کو مسروقہ رقم کا دس فیصد حصہ دینے کی پیش کش کی گئی تھی۔ پولیس کی اطلاع کے مطابق ڈاکو کا حلیہ یوں تھا۔ درمیانی قد ، دبلا پتلا جسم ، چہرے پر نقاب، نیلی جیکٹ، سفید قمیض اور کالی پتلون ..

اس خبر کو سُنانے کے بعد ٹی وی پر پھر بولڈ اور بے حجابانہ رقص کا پروگرام نشر ہونے لگا۔ ہماری باس کی نظروں میں بڑی وقعت ، عزت اور قدر دانی تھی۔ اسے جب کبھی ہماری خدمات کی ضرورت محسوس ہوتی ، وہ ہماری پسند کی نئی ماڈل کی گاڑی بھیج دیتا تھا۔ پیشگی معاوضے کی خطیر رقم کام کے آغاز سے پہلے ہی ہماری جیبوں کو بھر دیتی تھی۔ ہمارے شب و روز ممبئی شہر کے شبینہ کلبوں اور نگار خانوں میں گزرتے تھے جہاں چوٹی کی ہیروئنیں اور ہیرو بھی آتے تھے ، اس کے علاوہ شوبز کی رنگین تتلیاں ، ابھرتی اداکارائیں اور ٹی وی کی فن کارائیں بھی صرف پیسے کے لیے آتی تھیں۔ ہمیں ان کا قرب حاصل تھا۔ قمار خانوں میں ان دنوں لکشمی ہم پر مہربان رہتی تھی۔ مٹی میں ہاتھ ڈالو تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ پیسہ ہو تو دنیا کی ہر چیز خریدی جاسکتی ہے۔ ہم اس رقم سے خوب فائدہ اٹھاتے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے۔ ہم نے کبھی بھی بھولے سے کل کی کوئی پروا نہیں کی۔ شنکر نے ٹی وی پر بولڈ رقص دیکھتے ہوئے اخبار اُٹھا کر میز پر زور سے پٹخا۔ یہ اس خبر کا ردعمل تھا جو ٹی وی پر نشر ہوئی تھی۔

بار کا مالک کائونٹر سے چیخ کر بولا۔ اسے کہتے ہیں عظیم کارنامہ کاش ! وہ سامنے ہوتا میں اس کے چرن چھو لیتا۔ ہاں واقعی شنکر نے جلے بھنے لہجے میں کہا۔ دبلا پتلا جسم, گدھے کو ایک ہاتھ مارو دو دن تک بستر سے نہ ہلے… اس نے تنہا ہی کیسا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے چلو بھر پانی میں… ایک ہم ہیں کہ کتے تلاش کر کے پیٹ کا ٹرک سرد کرتے ہیں۔ یار ! لعنت ہے ہماری زندگی پر۔

میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے قریب ہو کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔ ” یار شنکر … ! کیوں نہ ہم مسز سادھنا گھوش کے کتے کی تلاش کے بجائے ، جس کی بازیابی پر صرف پانچ سو روپے ملیں گے لہذا، کیوں نہ ہم اس ڈاکو کا سراغ لگانے کی کوشش کریں۔ دو کروڑ کا دس فیصد کم نہیں ہوتا ہے۔ ہم پھر سے کئی دنوں تک شاہانہ زندگی بسر کریں گے۔ 

شنکر کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ خوش ہو کر میرے ہاتھ چوم لیتا، میری تجویز کی تائید کرتا۔ وہ قنوطی شخص ہے۔اسی دوران ویٹرس جو سولہ برس کی تھی ، خالی گلاس اٹھانے آئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ گہرا سانس لے کر مایوسی سے بولا۔ دیکھو شیخ چلی جیسی باتیں نہ کرو… کیا واردات کی تفصیلات سے اندازہ نہیں ہوتا کہ مجرم کس قدر شاطر اور چالاک ہے۔ وہ سپنے میں بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا بلکہ کہیں ہم اس کا شکار نہ ہو جائیں ؟ بار کے مالک کے کان بہت تیز تھے۔ اس نے ہماری بات سُن لی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا۔ ہماری پولیس نری احمق ہے۔ 

وہ پولیس کے انتظار میں ان کی سیوا کرنے تھوڑی بیٹھا ہو گا۔ اس نے فرار کا منصوبہ پہلے ہی بنالیا ہو گا۔ وہ ہوائی جہاز سے رقم لوٹتے ہی فرار ہو گیا ہوگا اور وہ اکیلا ہر گز نہیں گیا ہوگا۔ جانے کس کی بیوی، بہن، بہو اور بیٹی کو ساتھ لیتا گیا ہو گا تا کہ جشن منا سکے۔ وہ شاید مشروب خاص پی رہا تھا۔ اس نے اپنا پیگ خالی کر کے کہا۔ برا نہ مانو اپنے گھر جا کر دیکھو کہیں تمہارے گھر کی عورت غائب تو نہیں ہے ؟

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے