Subscribe Us

عاشق چڑیل

Urdu Font Stories

سن 2009 کا جون تھا، جب کراچی کی گرمی اپنے عروج پر تھی۔ عامر، ایک 28 سالہ خوش مزاج اور دلکش لڑکا، اپنے کزن کی شادی میں شرکت کے لیے سکھر جا رہا تھا۔ اس کی گہری بھوری آنکھیں اور مسحور کن مسکراہٹ ہر کسی کو اپنا دیوانہ بنا لیتی تھی۔ وہ ایک آزاد روح تھا، جو زندگی کے ہر لمحے سے لطف اٹھاتا تھا۔ جب اس کے کزن سہیل نے اسے شادی کی دعوت دی، عامر نے فوراً ہامی بھر لی۔ "چل یار، شادی میں خوب دھوم مچائیں گے!" اس نے ہنستے ہوئے فون پر کہا تھا۔

عامر ٹرین سے سکھر پہنچا۔ سکھر کا ریلوے اسٹیشن گرمی کی شدت سے جیسے سُلگ رہا تھا۔ پلیٹ فارم پر لوگوں کی بھیڑ، چائے والوں کی آوازیں، اور ٹرین کے ہارن نے ایک عجیب سا شور پیدا کیا تھا۔ عامر نے اپنا بیگ اٹھایا اور سہیل کو ڈھونڈنا شروع کیا، جو اسے لینے آیا تھا۔ سہیل، ایک 22 سالہ شرارتی لڑکا، اپنی موٹر بائیک پر ہاتھ ہلاتا نظر آیا۔ "عامر بھائی! ادھر!" اس نے چیخ کر بلایا۔ دونوں نے گرم جوشی سے گلے ملے، اور سہیل نے عامر کو شادی کے گھر لے جانے کے لیے بائیک پر بٹھایا۔

شادی کا گھر رنگ برنگے جھومروں، پھولوں کی مالاؤں، اور روشنیوں سے سجا ہوا تھا۔ مہندی کی تقریب پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ صحن میں بچھے قالینوں پر عورتیں رنگ برنگے جوڑوں میں مہندی کے گیت گا رہی تھیں۔ دولہا، سہیل کا بہنوئی، ایک سفید شیروانی میں مہندی لگواتے ہوئے شرما رہا تھا۔ عامر نے اپنی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ محفل میں قدم رکھا اور فوراً سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس نے دولہا سے مذاق کیا، "یار، تیری تو لگ گئی! اب بھاگنے کا وقت نہیں!" سب ہنس پڑے، اور محفل اور بھی رنگین ہو گئی۔

دوسری رات، بارات کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ گھر کے باہر ایک بڑا پنڈال لگایا گیا تھا، جہاں کھانے کے اسٹالز پر قورمہ، بریانی، اور کباب کی خوشبو فضا میں پھیل رہی تھی۔ عامر نے اپنے کزن کے ساتھ مل کر بارات کی گاڑیوں کو پھولوں سے سجایا۔ رات کے وقت، جب بارات روانہ ہوئی، ڈھول کی تھاپ اور شہنائی کی آواز نے پورے محلے کو جگا دیا۔ عامر نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ناچنا شروع کیا، اور اس کی ہنسی پورے پنڈال میں گونج رہی تھی۔ لیکن اسی دوران، اسے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ جیسے کوئی اسے دور سے گھور رہا ہو۔ اس نے مڑ کر دیکھا، لیکن ہجوم میں کچھ نظر نہ آیا۔

شادی کی تیسری رات، جب ولیمے کی تقریب ختم ہوئی، عامر گھر کے پچھلے صحن میں اکیلا بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ صحن کے ایک کونے میں ایک پرانا پیپل کا درخت تھا، جس کی شاخیں رات کے سناٹے میں عجیب سے سائے بناتی تھیں۔ ہوا میں ایک غیر معمولی ٹھنڈک تھی، حالانکہ گرمیوں کا موسم تھا۔ اچانک، پیپل کے درخت سے ایک ہلکی سی سرسراہٹ کی آواز آئی، جیسے کوئی پتے ہلا رہا ہو۔ عامر نے سگریٹ پھینکتے ہوئے گردن موڑ کر دیکھا۔ اندھیرے میں ایک عجیب سی جھلک نظر آئی—جیسے کوئی لمبے بالوں والی عورت سفید لباس میں کھڑی ہو۔ لیکن جب اس نے غور سے دیکھا، وہاں کچھ نہ تھا۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی نے جنم لے لیا۔
اس رات، جب وہ اپنے کمرے میں سویا، اسے ایک خوفناک خواب آیا۔ ایک لڑکی، جس کے بال لمبے اور سیاہ تھے، اس کے سرہانے کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ خوبصورت تھا، لیکن اس کی آنکھیں سرخ تھیں، جیسے خون سے بھری ہوں۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ تھی جو دل کو دہلا دینے والی تھی۔ وہ عامر کو دیکھ کر بولی، "تم میرے ہو، عامر۔" اس کی آواز سرد اور بھاری تھی، جیسے کوئی ہوا کانوں میں گھس رہی ہو۔ عامر کی آنکھ کھل گئی۔ اس کا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ کمرے میں ایک عجیب سی بدبو تھی، جیسے کوئی پھول سڑ رہا ہو۔ اس نے روشنی جلا کر چاروں طرف دیکھا، لیکن کمرہ خالی تھا۔ "بس ایک خواب تھا،" اس نے خود سے کہا، لیکن اس کی آواز میں یقین نہیں تھا۔

شادی کے بعد، عامر کراچی واپس جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوا۔ رات کا وقت تھا، اور ٹرین کی کھڑکی سے باہر اندھیرا گہرا تھا۔ عامر اپنی سیٹ پر بیٹھا اپنے فون پر گانے سن رہا تھا۔ ٹرین کی ہلکی سی جھٹکوں اور پٹریوں کی آواز نے اسے ایک عجیب سی نیند میں دھکیل دیا۔ لیکن اچانک، اسے لگا کہ کوئی اس کے قریب بیٹھا ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ اس کی سیٹ کے سامنے والی جگہ خالی تھی، لیکن اس کے کپڑوں سے ایک عجیب سی خوشبو آ رہی تھی—ایک ایسی خوشبو جو نہ تو اس نے کبھی استعمال کی تھی اور نہ ہی اسے پہچانتا تھا۔ یہ پھولوں اور کسی گہری، پراسرار چیز کا ملاپ تھا۔

اس نے اپنی شرٹ کو سونگھا۔ خوشبو اتنی شدید تھی کہ اس کا سر ہلکا سا چکرا گیا۔ اس نے سوچا کہ شاید شادی کے کھانوں کی خوشبو اس کے کپڑوں میں سمایا گئی ہو۔ لیکن جب وہ دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھا، اسے لگا کہ کوئی اسے گھور رہا ہے۔ اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، لیکن شیشے میں اس کی عکاسی کے پیچھے ایک عجیب سی جھلک نظر آئی—لمبے سیاہ بال اور سرخ آنکھیں۔ اس نے فوراً مڑ کر دیکھا، لیکن کمپارٹمنٹ خالی تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی۔ رات کے سناٹے میں، پلیٹ فارم پر ایک عجیب سی خاموشی تھی۔ عامر نے دیکھا کہ پلیٹ فارم کے ایک کونے میں ایک عورت کھڑی تھی، جس کے بال اس کے چہرے کو ڈھانپ رہے تھے۔ اس نے سفید لباس پہنا ہوا تھا، اور اس کے پاؤں عجیب سے لگ رہے تھے—جیسے الٹے ہوں۔ جب ٹرین دوبارہ چلی، وہ عورت غائب ہو گئی۔ عامر نے خود کو سمجھایا کہ یہ اس کی تھکاوٹ کا نتیجہ ہے، لیکن اس کے کپڑوں سے آنے والی خوشبو اب اسے خوفزدہ کر رہی تھی۔
کراچی واپسی اور عجیب تبدیلی

کراچی واپس آنے کے بعد، عامر کی زندگی اچانک بہتر ہونے لگی۔ اس کے وہ کاروباری منصوبے، جو مہینوں سے الجھے ہوئے تھے، اچانک کامیاب ہونے لگے۔ اس کے کلائنٹس اس کی تعریف کرنے لگے، اور اس کے دوست حیران تھے کہ عامر کی قسمت کیسے راتوں رات چمک اٹھی۔ اس کی مسکراہٹ اور بھی دلکش ہو گئی، اور اس کے کپڑوں سے وہی عجیب سی خوشبو آتی تھی جو ٹرین میں اس نے پہلی بار محسوس کی تھی۔ یہ خوشبو اتنی دلفریب تھی کہ ہر کوئی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔

ایک دن، اس کا دوست فیصل اس سے ملا اور ہنستے ہوئے بولا، "یار عامر، یہ کون سا پرفیوم ہے؟ ایسی خوشبو تو میں نے کبھی نہیں سونگھی! بتا، کہاں سے لیتا ہے؟" عامر نے ہنسی میں بات ٹال دی، "بس یار، کچھ نہیں۔ شاید نئی دھلائی کا صابن ہے!" لیکن وہ خود بھی حیران تھا۔ اس نے کوئی پرفیوم استعمال نہیں کیا تھا۔ اس کی بہن نادیہ، جو اس کے ساتھ رہتی تھی، نے بھی اس تبدیلی کو نوٹ کیا۔ "عامر، تمہارے ساتھ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔ تمہارا چہرہ چمک رہا ہے، لیکن یہ خوشبو... یہ کہاں سے آتی ہے؟" عامر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، "باجی، تم بھی بس فکر کرتی ہو۔ اچھا وقت آ رہا ہے، بس اسے انجوائے کرو!"

لیکن رات کے وقت، جب وہ اکیلا ہوتا، عجیب واقعات ہونے لگے۔ کبھی کمرے کی دیواروں پر سائے حرکت کرتے دکھائی دیتے۔ کبھی آئینے میں اس کی عکاسی کے پیچھے ایک جھلک نظر آتی۔ ایک رات، جب وہ اپنے بستر پر لیٹا تھا، اس نے ایک ہلکی سی سرگوشی سنی: "تم میرے ہو، عامر۔" اس نے فوراً روشنی جلا دی، لیکن کوئی نہ تھا۔ اس نے اپنی شرٹ اٹھائی اور اسے سونگھا۔ خوشبو اتنی شدید تھی کہ اس کا سر چکرا گیا۔ اس نے شرٹ کو غور سے دیکھا—اس کے کالر پر ایک ہلکا سا دھبہ تھا، جیسے خون کا نشان۔ اس نے جلدی سے شرٹ دھو دی، لیکن خوشبو اور بھی شدید ہو گئی۔

ایک شام، جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کافی ہاؤس میں بیٹھا تھا، ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ اس کی جیکٹ زمین پر گر گئی۔ جب اس نے اسے اٹھایا، اسے لگا کہ جیکٹ کے اندر سے کوئی چیز ہلکی سی ہلی۔ اس نے جیکٹ جھاڑی، تو اس میں سے ایک چھوٹا سا پھول گرا—ایک عجیب سا پھول، جو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے پتے سیاہ تھے، اور اس سے وہی خوشبو آ رہی تھی جو اس کے کپڑوں سے آتی تھی۔ اس کے دوستوں نے ہنستے ہوئے کہا، "یار، یہ تو کوئی گرل فرینڈ کا تحفہ لگتا ہے!" لیکن عامر کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اسے سکھر کا وہ پیپل کا درخت یاد آیا، اور وہ خواب جس میں وہ لڑکی، ، اسے اپنا کہہ رہی تھی۔

اس رات، جب عامر اپنے کمرے میں اکیلا تھا، وہ اپنے بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا۔ اس نے اپنی الماری کھولی اور اپنی شرٹ نکالی۔ وہی خون کا دھبہ اب اور گہرا ہو گیا تھا۔ اس نے شرٹ کو ہاتھ میں پکڑا، تو اسے لگا کہ کوئی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ رہا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا، لیکن کوئی نہ تھا۔ اچانک، کمرے کی روشنیاں ٹمٹمانے لگیں۔ اس نے آئینے کی طرف دیکھا، اور اس کی سانس رُک گئی۔ آئینے میں اس کی عکاسی کے پیچھے وہی لڑکی کھڑی تھی—۔ اس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے، حالانکہ کھڑکی بند تھی۔ اس کی سرخ آنکھیں عامر کو گھور رہی تھیں، اور اس کے ہونٹوں پر وہی خوفناک مسکراہٹ تھی۔

اس کی آواز کمرے میں گونجی: "تم کیوں مجھ سے دور بھاگتے ہو؟ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔" عامر کے منہ سے چیخ نکلنے والی تھی کہ اچانک اس نے اپنے کمرے کی چھت پر کچھ دیکھا۔ اس کی شرٹ، جو اس نے دھو کر الماری میں رکھی تھی، چھت سے لٹک رہی تھی۔ اس کے نیچے زمین پر الٹے پاؤں کے نشانات تھے، جیسے کوئی اس کے کمرے میں چل رہا ہو۔ اور اس خوشبو، جو پہلے دلفریب تھی، اب اس کے گلے میں اٹک گئی۔ کمرے کی روشنیاں اچانک بجھ گئیں، اور اندھیرے میں ایک سرگوشی گونجی: "میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔"

عامر، اپنی زندگی کے سب سے عجیب اور خوفناک لمحات سے گزر رہا تھا۔ اس رات کے بعد، جب اس کے فلیٹ میں دیوار پر خون سے لکھا پیغام نمودار ہوا اور اسے ایک ٹھنڈے، غیر انسانی ہاتھ کا لمس محسوس ہوا، اس کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گئی تھی۔ باہر سے دیکھنے والوں کے لیے، وہ اب بھی کامیابی کی بلندیوں پر تھا۔ اس کے کاروباری معاہدے بڑھ رہے تھے، اور اس کی مالی حالت اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ اس نے اپنے نئے فلیٹ کے علاوہ ایک مہنگی گاڑی بھی خرید لی تھی—ایک چمکدار سیاہ گاڑی جو محلے میں سب کی توجہ کا مرکز تھی۔ اس کا گھر اب ایک عالیشان خواب کی طرح لگتا تھا، جس کی دیواروں پر مہنگے آرٹ کے ٹکڑے لٹک رہے تھے، اور رات کے وقت سمندر کی لہروں کی آواز اس کے کمرے میں گونجتی تھی۔ لیکن اس چمک دمک کے پیچھے، ایک تاریک سایہ اس کے ہر لمحے پر حاوی ہو رہا تھا۔
نادیہ، اس کی بہن جو ایک اسکول میں پڑھاتی تھی، اب پوری طرح پریشان تھی۔ وہ عامر کے بدلتے رویے سے خوفزدہ ہو گئی تھی۔ "عامر، تم ٹھیک نہیں ہو،" اس نے ایک صبح کہا جب وہ ناشتے کی میز پر بیٹھے تھے۔ عامر کا چہرہ زرد پڑ رہا تھا، اور اس کے ہاتھوں میں ایک عجیب سی لرزش تھی۔ "باجی، بس کام کا دباؤ ہے،" اس نے جواب دیا، لیکن اس کی آواز میں وہ جوش غائب تھا جو کبھی اس کی پہچان تھا۔ نادیہ نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں سے اب بھی وہی عجیب مہک آ رہی تھی—ایک ایسی خوشبو جو اب تلخ اور بھاری ہو چکی تھی، جیسے کوئی پرانی قبر سے اٹھتی ہو۔ "یہ خوشبو... یہ کہاں سے آتی ہے؟" نادیہ نے پوچھا، لیکن عامر نے بات بدل دی۔
اس کے دوستوں کا حسد اب کھل کر سامنے آ رہا تھا۔ ایک شام، جب وہ اپنے پرانے دوستوں، فیصل اور عمران، کے ساتھ ایک مقامی ڈھابے پر بیٹھا تھا، فیصل نے طنزیہ انداز میں کہا، "عامر، تو نے تو زندگی کو سونا بنا دیا! ہم تو بس تیری گاڑی اور فلیٹ دیکھ کر جل رہے ہیں۔" عمران نے ہنستے ہوئے اضافہ کیا، "اور یہ خوشبو! یار، یہ تو کوئی جادو ہے۔ کوئی راز تو بتا!" عامر نے ہنسی میں بات ٹال دی، لیکن اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی کامیابی کے پیچھے کوئی غیر فطری چیز تھی۔ وہ خوشبو، جو پہلے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی، اب اسے خود خوفزدہ کر رہی تھی۔ رات کے وقت، جب وہ اکیلا ہوتا، وہ مہک اس کے فلیٹ کے ہر کونے سے اٹھتی، جیسے کوئی اس کے ساتھ ہر لمحہ موجود ہو۔

خوفناک واقعات اب زیادہ شدت سے ہو رہے تھے۔ ایک رات، جب عامر اپنے فلیٹ میں ایک کلائنٹ کے ساتھ فون پر بات کر رہا تھا، اسے لگا کہ کوئی اس کے کمرے کی الماری کے اندر سے کھٹکھٹا رہا ہے۔ اس نے فون بند کیا اور کان لگا کر سنا۔ آواز تیز ہوتی گئی، جیسے کوئی ناخنوں سے لکڑی کھرچ رہا ہو۔ اس نے ہمت کر کے الماری کھولی، لیکن اندر کچھ نہ تھا—صرف اس کے کپڑوں سے وہی تلخ مہک اٹھ رہی تھی۔ جب اس نے الماری بند کی، اسے اپنی پیٹھ پر ایک عجیب سی سنسناہٹ محسوس ہوئی، جیسے کوئی اسے ہلکا سا چھو رہا ہو۔ اس نے مڑ کر دیکھا، لیکن کمرہ خالی تھا۔ لیکن جب وہ اپنے بستر کی طرف بڑھا، اسے اپنے تکیے پر ایک عجیب سی چیز نظر آئی—ایک لمبا، سیاہ بال، جو اس کے اپنے بالوں سے بالکل مختلف تھا۔ اس نے بال کو اٹھایا، اور اسے چھوتے ہی اس کے ہاتھ میں ایک عجیب سی جلن ہوئی۔ اس نے بال کو جلدی سے کوڑے دان میں پھینک دیا، لیکن اس رات وہ سو نہ سکا۔

ایک اور دن، جب وہ اپنی نئی گاڑی میں شہر کے ایک مصروف علاقے سے گزر رہا تھا، اسے اپنی گاڑی کے رئیر ویو مرر میں ایک عجیب سی چیز نظر آئی۔ پیچھے کی سیٹ پر ایک ہلکا سا سایہ تھا، جیسے کوئی وہاں بیٹھا ہو۔ اس نے فوراً گاڑی روکی اور مڑ کر دیکھا، لیکن سیٹ خالی تھی۔ لیکن جب وہ دوبارہ مرر کی طرف دیکھنے لگا، اسے ایک عجیب سی ہنسی سنائی دی—ایک ایسی ہنسی جو انسانی نہیں تھی۔ اس کی گاڑی کے اندر وہی خوشبو پھیل گئی، اور اس کا سر گھومنے لگا۔ اس نے جلدی سے کھڑکی کھولی، لیکن ہوا میں بھی وہی مہک تھی۔ اس رات، جب وہ اپنے فلیٹ واپس آیا، اسے اپنی گاڑی کی چابی پر ایک عجیب سا نشان ملا—جیسے کوئی پنجوں سے اسے کھرچا گیا ہو۔

نادیہ اب پوری طرح یقین کر چکی تھی کہ عامر کے ساتھ کچھ غلط ہو رہا ہے۔ ایک شام، جب وہ گھر آئی، اس نے دیکھا کہ عامر اپنے کمرے میں بیٹھا ایک خالی دیوار کو گھور رہا ہے۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب سی خالی پن تھا، جیسے وہ کوئی ایسی چیز دیکھ رہا ہو جو نادیہ کو نظر نہ آتی۔ "عامر، تم کیا دیکھ رہے ہو؟" اس نے پوچھا، لیکن عامر نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ کسی اور دنیا میں ہو۔ نادیہ نے اس کے کندھے کو ہلایا، اور عامر چونک کر بولا، "باجی، کچھ نہیں... بس سوچ رہا تھا۔" لیکن نادیہ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر عجیب سے سرخ نشانات تھے، جیسے کوئی اسے زور سے پکڑ گیا ہو۔ اس رات، جب نادیہ اپنے کمرے میں تھی، اسے عامر کے کمرے سے ایک عجیب سی آواز سنی—جیسے کوئی شیشہ ٹوٹ رہا ہو۔ اس نے جلدی سے عامر کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن جب اس نے اندر جھانکا، وہ حیران رہ گئی۔ عامر کا بستر خالی تھا، اور کمرے کی زمین پر عجیب سے گہرے نشانات تھے، جیسے کوئی بھاری چیز وہاں سے گھسیٹی گئی ہو۔

عامر کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی تھی۔ اس کی کامیابی اب اس کے لیے ایک بوجھ بنتی جا رہی تھی۔ وہ خوشبو، جو پہلے اس کی کامیابی کا راز لگتی تھی، اب ہر جگہ اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ ایک دن، جب وہ اپنے فلیٹ کی بالکونی میں کھڑا تھا، اسے اپنے پاؤں کے قریب ایک عجیب سی چیز نظر آئی—ایک چھوٹا سا گھنٹی والا تعویذ، جو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اسے اٹھایا، اور اسے ہاتھ میں لیتے ہی اسے لگا کہ کوئی اس کے کان میں ہنس رہا ہے۔ اس نے تعویذ کو جلدی سے بالکونی سے نیچے پھینک دیا، لیکن جب وہ واپس مڑا، اسے اپنے کمرے کی دیوار پر ایک عجیب سی تصویر نظر آئی۔ یہ ایک سیاہ سایہ تھا، جو دیوار پر بنتا اور مٹتا تھا، جیسے کوئی اسے ہوا میں بنا رہا ہو۔ اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کیں، لیکن جب اس نے دوبارہ دیکھا، سایہ غائب تھا۔ لیکن اس کے کمرے کی ہوا اب اتنی ٹھنڈی ہو گئی تھی کہ اس کی سانس دھواں بن کر نکل رہی تھی۔

اس رات، جب عامر اپنے بستر پر لیٹنے کی کوشش کر رہا تھا، اسے لگا کہ اس کا بستر ہلکا سا ہل رہا ہے۔ اس نے روشنی جلا دی، لیکن کچھ نہ تھا۔ لیکن جب وہ دوبارہ لیٹا، اسے اپنے تکیے کے نیچے سے ایک عجیب سی آواز آئی—جیسے کوئی دھات زمین سے ٹکرا رہی ہو۔ اس نے تکیہ ہٹایا، اور اس کی سانس رُک گئی۔ وہ وہی گھنٹی والا تعویذ تھا، جو اس نے بالکونی سے پھینک دیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا کاغذ تھا، جس پر لکھا تھا، "تم میرے ہو، ہمیشہ کے لیے۔" اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتا، کمرے کی تمام روشنیاں بجھ گئیں، اور ایک ٹھنڈی، غیر انسانی آواز اس کے کان میں گونجی، "اب تم کہیں نہیں جا سکتے۔" اس کے گلے پر ایک سرد ہاتھ نے گرفت مضبوط کر دی، اور اس کے فلیٹ کی دیواریں جیسے اس کی طرف بڑھنے لگیں۔

عامر اب اپنی زندگی کے سب سے سیاہ دور سے گزر رہا تھا۔ وہ رات، جب اس کے گلے پر ایک سرد، غیر انسانی ہاتھ نے گرفت مضبوط کی تھی اور اس کے فلیٹ کی دیواریں اس کی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں، اس کے ذہن پر ایک خوفناک داغ کی طرح چھپ چکی تھی۔ وہ چڑیل، جو اس کی زندگی پر ایک سائے کی طرح چھائی ہوئی تھی، اب ہر لمحہ اسے اپنی گرفت میں جکڑتی جا رہی تھی۔ لیکن نادیہ، جو اپنے بھائی کی بگڑتی حالت سے پریشان تھی، اب کسی قیمت پر ہار ماننے کو تیار نہ تھی۔ اس نے عامر کو گھر والوں سے بات کرنے پر مجبور کیا۔ "عامر، اب بس! تمہیں ایک ساتھی کی ضرورت ہے جو تمہاری زندگی کو دوبارہ روشنی دے،" نادیہ نے سخت لہجے میں کہا۔ عامر، جو اب خود اپنی حالت سے عاجز آ چکا تھا، خاموشی سے سر جھکا لیا۔

چند ہفتوں بعد، عامر کی منگنی طے ہو گئی۔ اس کی منگیتر، اقرا، ایک سادہ مگر دلکش لڑکی تھی جو کراچی کے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اقرا کے والد، جاوید صاحب، ایک سرکاری ملازم تھے، اور ان کا خاندان اپنی نیک نامی کے لیے جانا جاتا تھا۔ منگنی کی تقریب سادگی سے اقرا کے گھر پر منعقد کی گئی۔ گھر کو ہلکی پھلکی سجاوٹ سے آراستہ کیا گیا تھا—ہلکی زرد روشنیوں سے چمکتے جھومر اور گلاب کی پتیوں سے سجا ایک چھوٹا سا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اقرا نے ہلکے گلابی رنگ کا جوڑا پہنا تھا، اور اس کی معصوم مسکراہٹ نے سب کا دل جیت لیا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں، اور اس کی ہلکی سی شرم اسے اور بھی خوبصورت بنا رہی تھی۔ عامر بھی اس دن ایک سادہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا، لیکن اس کا چہرہ اب زردی مائل ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں نے اس کی دلکش مسکراہٹ کو ماند کر دیا تھا۔

منگنی کے بعد، دونوں خاندانوں نے دعائیں مانگیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی۔ اقرا نے شرماتے ہوئے عامر کی طرف دیکھا اور کہا، "عامر، میں بہت خوش ہوں۔ اللہ ہمارے رشتے کو ہمیشہ سلامت رکھے۔" اس کی آواز میں ایک معصوم امید جھلک رہی تھی۔ عامر نے سر جھکا کر ہلکی سی مسکراہٹ دی، لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی موجزن تھی۔ جب وہ گھر واپس آیا، اسے اپنی جیب میں ایک عجیب سی چیز محسوس ہوئی۔ اس نے جیب سے ہاتھ ڈالا تو ایک چھوٹا سا سیاہ پتھر نکلا، جس پر عجیب سے نقش کندہ تھے—جیسے کوئی پرانا جادوئی طلسم ہو۔ اسے دیکھتے ہی اس کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ گئے، اور اسے سمجھ آ گئی کہ یہ سب اس چڑیل کا کیا دھرا ہے۔ اس نے اس پتھر کو فوراً کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا، لیکن اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔

منگنی کے چند دن بعد، عامر کے کاروبار میں مسائل شروع ہو گئے۔ اس کے بڑے کلائنٹس، جنہوں نے کبھی اس کی تعریفوں کے پل باندھے تھے، اب اچانک معاہدے توڑنے لگے۔ ایک بڑا پروجیکٹ، جس پر وہ مہینوں سے کام کر رہا تھا، اچانک منسوخ ہو گیا۔ اس کے دفتر کے عملے نے شکایت شروع کر دی کہ انہیں عجیب سی چیزیں نظر آتی ہیں—کبھی فائلوں پر خون کے دھبے نمودار ہو جاتے، کبھی رات کے وقت دفتر کے دروازوں سے کھٹکھٹاہٹ کی آوازیں آتیں، جیسے کوئی اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہو۔ عامر کا کاروبار، جو کبھی آسمانوں کو چھو رہا تھا، اب تیزی سے نیچے گر رہا تھا۔ اس کی چمکدار سیاہ گاڑی، جو کبھی محلے کی شان تھی، اب اس کے لیے ایک بوجھ بن گئی تھی، کیونکہ اسے اپنے عملے کی تنخواہیں دینے کے لیے اسے بیچنے پر غور کرنا پڑ رہا تھا۔

لیکن یہ سب تو ابھی شروعات تھی۔ اقرا، جو منگنی کے بعد خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھی، اچانک بیمار پڑ گئی۔ اسے تیز بخار ہو گیا، اور اس کا جسم کمزور ہوتا چلا گیا۔ ڈاکٹروں نے کئی ٹیسٹ کیے، لیکن کوئی وجہ نہ مل سکی۔ اس کی ماں، رخسانہ بیگم، پریشان ہو کر نادیہ سے ملنے آئی۔ "نادیہ، میری بیٹی کی حالت دن بہ دن بگڑتی جا رہی ہے۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں، اور وہ رات کے وقت چیخ چیخ کر اٹھتی ہے۔ کہتی ہے کہ کوئی اسے خواب میں گھور رہا ہوتا ہے—ایک عورت جس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ ہوتی ہیں، اور وہ اسے اپنی طرف کھینچتی ہے!" نادیہ نے یہ سنا تو اس کی سانس رُک گئی۔ اسے سمجھ آ گئی کہ یہ سب عامر کے ساتھ ہونے والے واقعات سے جڑا ہوا ہے۔

اقرا کے والد، جاوید صاحب، کی سرکاری نوکری بھی اچانک چھوٹ گئی۔ ان پر بدعنوانی کا جھوٹا الزام لگایا گیا، اور انہیں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ اقرا کا گھرانہ، جو پہلے ہی مالی مشکلات سے گزر رہا تھا، اب مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ جاوید صاحب، جو کبھی اپنے خاندان کے لیے مضبوط سہارا تھے، اب خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جگہ اب ایک خالی پن نے لے لی تھی، جیسے انہوں نے ہار مان لی ہو۔
اقرا کی حالت ایسی ہو گئی کہ وہ بستر سے اٹھ بھی نہ پاتی تھی۔ اس کی معصوم مسکراہٹ اب مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھیں ہر وقت خوف سے بھری رہتی تھیں، اور اس کا جسم اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ وہ اپنا سر بھی مشکل سے اٹھا پاتی تھی۔ ایک رات، جب وہ اپنے کمرے میں اکیلی تھی، اسے اپنے بستر کے پاس ایک عجیب سی آواز سنی—جیسے کوئی زنجیریں زمین پر گھسیٹ رہی ہوں۔ اس نے خوفزدہ ہو کر اپنی آنکھیں کھولیں، لیکن کمرے میں روشنی غائب تھی۔ اچانک اس کے بستر کے نیچے سے ایک ہاتھ نکلا—ایک لمبا، پتلا ہاتھ جس کی کھال جلی ہوئی تھی اور ناخن لمبے، کٹے ہوئے، اور سیاہ تھے، جیسے کسی نے انہیں کیچڑ میں ڈبو دیا ہو۔ اس ہاتھ نے اقرا کے پاؤں کو پکڑ لیا، اور وہ زور سے چیخ پڑی۔ اس کی چیخ سن کر اس کی ماں دوڑتی ہوئی آئی، لیکن جب وہ کمرے میں داخل ہوئی، وہ ہاتھ غائب ہو چکا تھا۔ اقرا کا پاؤں نیلا پڑ چکا تھا، اور اس پر عجیب سے گہرے نشانات تھے، جیسے کسی نے اسے زور سے دبایا ہو۔ اس کے پاؤں سے خون رِسنے لگا، اور اس کی ماں نے روتے ہوئے اسے پٹی باندھ دی، لیکن خون رکنے کا نام نہ لے رہا تھا۔

اقرا کے ساتھ ہونے والے واقعات اب خوفناک سے خوفناک تر ہوتے جا رہے تھے۔ ایک رات، جب وہ اپنے کمرے میں لیٹی تھی، اسے اپنی کھڑکی سے باہر ایک عجیب سی روشنی نظر آئی۔ وہ روشنی ہلکی ہلکی سرخ تھی، جیسے کوئی آگ جل رہی ہو۔ اس نے ہمت کر کے کھڑکی کی طرف دیکھا، تو اس کی سانس رُک گئی۔ کھڑکی کے باہر ایک عورت کھڑی تھی—اس کے بال لمبے اور سیاہ تھے، جو ہوا کے بغیر لہرا رہے تھے۔ اس کی آنکھیں خون کی طرح سرخ تھیں، اور اس کے ہونٹوں پر ایک خوفناک مسکراہٹ تھی جو اس کے چہرے کو اور بھی بھیانک بنا رہی تھی۔ اس عورت نے کھڑکی پر اپنا ہاتھ رکھا، اور شیشہ اچانک پگھلنے لگا، جیسے وہ اسے اپنے ہاتھوں سے دبا رہی ہو۔ پگھلتا ہوا شیشہ زمین پر گر رہا تھا، اور اس سے ایک عجیب سی آواز نکل رہی تھی—جیسے کوئی دھات پگھل کر چیخ رہی ہو۔ اقرا کے منہ سے چیخ نکل پڑی، لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں اٹک گئی۔ اچانک، وہ عورت کھڑکی کے شیشے سے گزر کر اندر آ گئی، اور اس کے جسم سے ایک ایسی بدبو اٹھی جو سڑے ہوئے پھولوں اور جلے ہوئے گوشت کی طرح تھی۔

اس چڑیل—کا چہرہ اب پگھلا ہوا تھا، جیسے کسی نے اسے آگ میں جھونک دیا ہو۔ اس کے چہرے سے خون بہہ رہا تھا، اور اس کی آنکھوں سے سرخ دھواں نکل رہا تھا۔ اس نے اقرا کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا، "وہ میرا ہے، اور تم اسے نہیں لے سکتیں۔" اس کی آواز ایسی تھی جیسے کوئی پتھر آپس میں رگڑ رہے ہوں، اور ہر لفظ کے ساتھ اقرا کا جسم کانپ اٹھتا تھا۔ چڑیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کے ناخنوں سے خون کے قطرے اقرا کے چہرے پر گرنے لگے۔ اقرا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن اس کے کانوں میں ایک عجیب سی آواز گونجنے لگی—جیسے کوئی اس کے دماغ کے اندر چیخ رہا ہو۔ اچانک، اس نے اپنے گلے پر ایک ٹھنڈی گرفت محسوس کی، اور اس کی سانس رکنے لگی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، تو چڑیل اس کے بالکل قریب تھی—اس کی سرخ آنکھیں اب اقرا کے چہرے سے چند انچ کے فاصلے پر تھیں۔ چڑیل کے منہ سے ایک سیاہ دھواں نکلا، جو اقرا کے چہرے پر پھیل گیا، اور اس کی آنکھوں میں شدید جلن ہونے لگی۔ اقرا کی چیخ اس کے گلے میں اٹک گئی، اور وہ بے ہوش ہو گئی۔

جب اقرا کو ہوش آیا، اس کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا، اور اس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے ان سے زندگی نکل گئی ہو۔ اس کی ماں نے دیکھا کہ اقرا کے گلے پر عجیب سے نیلے نشانات تھے، جیسے کسی نے اسے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔ اس کے بالوں میں ایک عجیب سی چیز پھنسی ہوئی تھی—ایک چھوٹا سا سیاہ پر، جو کسی مردہ پرندے کا لگتا تھا۔ اس پر سے وہی بدبو آ رہی تھی جو چڑیل کی تھی۔ رخسانہ بیگم روتے ہوئے اقرا کو گلے لگا کر بیٹھ گئیں، لیکن ان کا دل ڈوب رہا تھا۔ انہیں لگ رہا تھا کہ ان کی بیٹی اب ان کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔

اقرا کی حالت اب ایسی ہو گئی تھی کہ وہ رات کے وقت سونے سے ڈرتی تھی۔ ہر رات اسے عجیب سے خواب آتے—خوابوں میں وہ چڑیل اسے ایک تاریک جنگل میں کھینچ کر لے جاتی، جہاں زمین پر خون کے تالاب بنے ہوئے تھے۔ وہ چڑیل اقرا کے بالوں کو پکڑ کر اسے زمین پر گھسیٹتی، اور اس کے جسم پر اپنے ناخنوں سے گہرے نشان بناتی۔ ایک رات، جب اقرا خواب میں چیخ رہی تھی، اس کی ماں نے اسے جگایا، لیکن جب انہوں نے اس کی کمر دیکھی، تو وہ دہل گئیں۔ اقرا کی کمر پر گہرے سرخ نشانات تھے، جیسے کسی نے اسے پنجوں سے نوچا ہو۔ ان نشانات سے خون رِس رہا تھا، اور اقرا کا جسم ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔

ایک شام، جب اقرا اپنے کمرے میں بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی، اچانک اس کے کمرے کی روشنیاں ٹمٹمانے لگیں۔ اس نے تلاوت روک کر ادھر ادھر دیکھا، لیکن کمرہ خالی تھا۔ اچانک، اس کے کمرے کی الماری کا دروازہ خود بخود کھل گیا، اور اندر سے ایک عجیب سی چیز زمین پر گری—ایک چھوٹا سا کپڑے کا بنایا ہوا گڑیا نما تعویذ، جس کی آنکھوں کی جگہ سرخ دھاگے لگے تھے۔ اس تعویذ سے وہی بدبو آ رہی تھی جو چڑیل کی تھی۔ اقرا نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن اسے چھوتے ہی اس کے ہاتھ جلنے لگے، جیسے کوئی آگ اس کے ہاتھوں کو چھو رہی ہو۔ اچانک، اس کے کمرے کی کھڑکی زور سے کھل گئی، اور ایک سرد ہوا اندر آئی۔ ہوا کے ساتھ ایک سرگوشی گونجی، "تم نے میرا رشتہ توڑ دیا، اب تمہاری باری ہے۔"
دوسری طرف، عامر کے فلیٹ میں بھی حالات بد سے بدتر ہو رہے تھے۔ ایک رات، جب وہ اپنے کمرے میں لیٹا تھا، اسے اپنی چھت سے پانی ٹپکنے کی آواز سنی۔ اس نے روشنی جلائی، لیکن چھت سے جو ٹپک رہا تھا، وہ پانی نہیں، خون تھا۔ خون کے قطرے اس کے بستر پر گر رہے تھے، اور اچانک اس کے بستر کی چادر پر ایک عجیب سی تصویر بننے لگی—ایک عورت کی تصویر، جس کے بال لمبے تھے اور آنکھیں سرخ تھیں۔ عامر خوف سے اٹھ کر بھاگا، لیکن جب وہ دروازے تک پہنچا، دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ اس نے زور لگایا، لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ اچانک، اس کے کمرے کی دیواروں سے عجیب سی آوازیں آنے لگیں—جیسے کوئی دیواروں کے اندر سے ہنس رہا ہو، اور وہ ہنسی اس کے دماغ میں گونجنے لگی۔ اس نے اپنے کان بند کر لیے، لیکن آواز بند نہ ہوئی۔ اچانک، اس کے کمرے کی زمین ہلنے لگی، اور زمین سے ایک عجیب سا دھواں اٹھنے لگا، جس کی شکل ایک عورت کی ہو گئی۔ اس عورت نے عامر کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کے ہاتھ سے خون ٹپکنے لگا۔ عامر کے منہ سے چیخ نکل پڑی، اور وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔

جب عامر کو ہوش آیا، وہ اپنے بستر پر تھا، لیکن اس کے جسم پر عجیب سے نیلے نشانات تھے، جیسے کوئی اسے رات بھر دبائے رہا ہو۔ اسی دوران، نادیہ نے اقرا کے گھر والوں سے رابطہ کیا۔ جب اقرا کی ماں نے سارا واقعہ سنایا، نادیہ نے انہیں بتایا کہ یہ سب عامر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جاوید صاحب، جو پہلے ہی اپنی بیٹی کی حالت اور اپنی نوکری کے چھن جانے سے پریشان تھے، غصے سے بھر گئے۔ "ہم اپنی بیٹی کو اس مصیبت میں نہیں ڈال سکتے!" انہوں نے نادیہ سے کہا۔ انہوں نے فوراً رشتہ توڑنے کا فیصلہ کیا اور عامر کے گھر والوں سے کہا کہ وہ اب کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔

اقرا، جو اب بھی بستر پر تھی، اب اپنی زندگی کی بدترین رات سے گزر رہی تھی۔ رات کے گہرے سناٹے میں، جب وہ اپنے کمرے میں لیٹی اپنی آنکھیں بند کیے اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھی، اسے اپنے کمرے کی چھت سے ایک عجیب سی آواز سنی—جیسے کوئی لکڑی کو چبا رہا ہو۔ اس نے خوفزدہ ہو کر آنکھیں کھولیں، تو اس کی سانس رُک گئی۔ چھت پر ایک عجیب سی چیز لٹک رہی تھی—ایک بڑا، سیاہ مکڑا، جس کی آنکھیں سرخ تھیں اور اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس مکڑے کے پاؤں سے چھوٹے چھوٹے بال جھڑ رہے تھے، جو ہوا میں اڑ کر اقرا کے بستر پر گر رہے تھے۔ اچانک، وہ مکڑا چھت سے نیچے گرا اور اقرا کے بستر پر چڑھ گیا۔ اس کے پاؤں سے ایک عجیب سی بدبو آ رہی تھی، جو چڑیل کی بدبو سے ملتی جلتی تھی۔ اقرا نے چیخنے کی کوشش کی، لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں اٹک گئی۔

اچانک، وہ مکڑا ایک عجیب سی شکل میں بدلنے لگا—اس کی شکل چڑیل کی ہو گئی، لیکن اس بار اس کا جسم مکمل طور پر سیاہ تھا، جیسے کوئی سائے سے بنا ہو۔ اس کی آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا، اور اس کے ہاتھوں سے سیاہ، زہریلی رطوبت ٹپک رہی تھی۔ چڑیل نے اقرا کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کے ہاتھ سے نکلنے والی رطوبت اقرا کے بازو پر گر گئی۔ وہ رطوبت ایسی تھی جیسے تیزاب، اور اقرا کے بازو پر جلن شروع ہو گئی۔ اس کی جلد سیاہ پڑنے لگی، اور اس کے بازو سے ایک عجیب سی آواز نکلنے لگی—جیسے کوئی چیز جل کر چیخ رہی ہو۔ چڑیل نے اپنی زبان باہر نکالی، جو لمبی اور سیاہ تھی، اور اس نے اقرا کے چہرے کو چھونا شروع کیا۔ اس کی زبان سے ایک گاڑھا، سیاہ مادہ نکل رہا تھا، جو اقرا کے چہرے پر پھیل گیا۔ اقرا کی آنکھوں میں شدید جلن ہونے لگی، اور اس کی آنکھوں سے خون بہہ نکلا۔

چڑیل نے اقرا کے کان کے قریب اپنا منہ لایا اور سرگوشی کی، "تم نے میرا رشتہ توڑ دیا، لیکن میں تمہیں آسانی سے نہیں چھوڑوں گی۔ تمہاری ہر سانس اب میری ہے۔" اس کی آواز ایسی تھی جیسے کوئی قبر سے چیخ رہا ہو، اور ہر لفظ کے ساتھ اقرا کا جسم کانپ اٹھتا تھا۔ اچانک، چڑیل غائب ہو گئی، لیکن اقرا کے کمرے کی ہوا اب اتنی ٹھنڈی ہو گئی تھی کہ اس کی سانس دھواں بن کر نکل رہی تھی۔ اقرا کے بازو پر اب ایک گہرا زخم بن چکا تھا، جو سیاہ ہو گیا تھا اور اس سے بدبو آ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا، اور اس کا چہرہ درد سے بھر گیا تھا۔ وہ اپنی ماں کو آواز دینے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن اس کی آواز اب مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ اس کے کمرے کی دیواروں پر اب عجیب سے سائے بن رہے تھے—سائے جو ایک عورت کی شکل میں تھے، اور ان کے ہاتھوں سے خون ٹپک رہا تھا۔ اقرا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اور وہ بے ہوش ہو کر اپنے بستر پر گر گئی، اس کے جسم پر چڑیل کے زہریلے نشانات اب اس کی زندگی کو نگل رہے تھے۔
اقرا کی زندگی ایک ایسی تاریک کھائی میں گر چکی تھی جہاں ہر طرف خوف کی گہری چھایا تھی۔ اس رات، جب چڑیل نے اس کے جسم پر زہریلی دھوپ سے ایک گہرا زخم چھوڑا تھا، اس کی آنکھوں سے خون بہہ نکلا تھا، اور اس کے دماغ میں ایک ایسی آگ بھڑک اٹھی تھی جو اس کی عقل کو کھا رہی تھی۔ اس کی چیخیں اب گھر کے ہر کونے سے گونجتی تھیں، اور اس کی ماں، رخسانہ بیگم، اپنی بیٹی کی اس تباہی کو دیکھ کر راتوں کو آنسوؤں کے سمندر میں ڈوب جاتی تھیں۔ اقرا راتوں کو اپنے بستر سے اٹھتی، دیواروں سے سر ٹکراتی، اپنے بال نوچتی، اور کبھی اپنا چہرہ نوختے ہوئے چیختی، جیسے کوئی اندرونی عفریت اسے نگل رہا ہو۔ رخسانہ بیگم ہر رات اس کے سرہانے بیٹھ کر دعائیں مانگتیں، لیکن اقرا کی آنکھوں میں اب کوئی روشنی نہ تھی—وہ ایک خوفزدہ روح بن کر رہ گئی تھی۔

رخسانہ بیگم نے اقرا کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اسے شہر کے ہر عالم، ہر ڈاکٹر، اور ہر روحانی معالج کے پاس لے گئیں۔ لیکن اکثر عالم جعلی نکلے، جنہوں نے پیسوں کے عوض جھوٹے تعویذات اور جھوٹی دعائیں دیں۔ ان جعلی عالموں کی وجہ سے چڑیل کا سایہ اقرا پر اور بھی مضبوط ہو گیا۔ ایک جعلی عالم نے دعویٰ کیا کہ وہ اقرا کو ٹھیک کر دے گا۔ اس نے ایک عجیب سی رسم کی، جس میں اس نے اقرا کے سر پر ایک کالا تیل ڈالا اور عجیب سے منتر پڑھے۔ لیکن رسم کے بعد اقرا کی چیخیں اور بلند ہو گئیں، اور اس کے جسم سے ایک عجیب سی بو اٹھنے لگی، جیسے کوئی چیز جل رہی ہو۔ رخسانہ بیگم نے اس عالم کو گھر سے نکال دیا، لیکن تب تک نقصان ہو چکا تھا—چڑیل کا سایہ اقرا کے وجود میں گہرائی تک سمایا ہوا تھا۔

کئی مہینوں کی ناکامیوں کے بعد، رخسانہ بیگم کو ایک سچے عالم، بابا خیرالدین، کا پتہ ملا، جو شہر سے دور ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ اپنی سادگی اور ایمانداری کے لیے مشہور تھے۔ رخسانہ بیگم اقرا کو لے کر ان کے پاس پہنچیں۔ بابا خیرالدین نے اقرا کو دیکھتے ہی کہا، "یہ کوئی معمولی سایہ نہیں، بچی۔ یہ ایک پرانی اور طاقتور چڑیل ہے، جو اس لڑکی کی روح سے جڑ چکی ہے۔ جعلی عالموں نے اس کے تعویذات سے اس کی طاقت کو اور بڑھا دیا ہے۔" انہوں نے کئی راتوں تک دعائیں پڑھیں، قرآن کی آیات سے اقرا کے گرد ایک روحانی حفاظتی دائرہ بنایا، اور اسے پاک کرنے کی کوشش کی۔ لیکن چڑیل کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ بابا خیرالدین بھی اسے مکمل طور پر آزاد نہ کر سکے۔ انہوں نے رخسانہ بیگم سے کہا، "اب صرف اللہ کی رحمت اور صبر ہی اسے بچا سکتا ہے۔ اسے وقت دو، اور اس کی روح کو مضبوط کرنے کے لیے اسے قرآن سے جوڑو۔"

دوسری طرف، عامر کی زندگی ایک ایسی ویرانی میں ڈوب چکی تھی جہاں ہر لمحہ خوف سے بھاری تھا۔ اس کے فلیٹ میں ہونے والے خوفناک واقعات نے اسے ایک زندہ لاش بنا دیا تھا۔ اس کا چہرہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا، آنکھیں گہرے سیاہ گڑھوں میں دھنس گئی تھیں، اور اس کی ہر سانس خوف سے لرزتی تھی۔ اس کا کاروبار تباہ ہو چکا تھا، اور اس کی زندگی اب ایک نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب کی طرح تھی۔ نادیہ، اس کی بہن، جو اس کی بے بسی کو دیکھ کر اپنی نیند کھو چکی تھی، ہر وقت اس کے قریب رہنے کی کوشش کرتی، لیکن اس کے دل میں ایک گہرا خوف تھا کہ وہ اس لڑائی میں ہار جائے گی۔
ایک رات، جب شہر پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی، نادیہ اپنے کمرے میں ایک عجیب سی آواز سے جاگ اٹھی۔ یہ آواز ایسی تھی جیسے کوئی بھاری زنجیریں زمین پر گھسیٹ رہی ہوں، اور اس کے ساتھ ایک دھیمی، خوفناک ہنسی کی آواز تھی۔ نادیہ نے فوراً عامر کے کمرے کی طرف دوڑ لگائی۔ دروازہ کھولتے ہی اس کا دل دہل گیا۔ عامر اپنے بستر پر بیٹھا تھا، لیکن اس کی آنکھیں مکمل طور پر سفید ہو چکی تھیں، اور اس کے ہاتھوں میں ایک سیاہ پتھر تھا، جس سے ایک ہری روشنی نکل رہی تھی۔ اس روشنی کے ساتھ کمرے کی دیواروں پر عجیب سے سائے ناچ رہے تھے—ایک عورت کی شکل کے سائے، جن کے چہرے پر کوئی ناک یا منہ نہ تھا، صرف دو چمکتی ہوئی سرخ آنکھیں۔ نادیہ نے چیخ کر عامر کو ہلایا، "عامر! یہ کیا ہو رہا ہے؟" لیکن عامر نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی مسکراہٹ ایسی تھی جیسے وہ کسی اور دنیا میں ہو۔ اچانک، وہ پتھر اس کے ہاتھ سے گرا، اور اس سے ایک خوفناک آواز بلند ہوئی—جیسے ہزاروں درندوں کے پاؤں زمین پر پڑ رہے ہوں۔

اس سے پہلے کہ نادیہ کچھ کر پاتی، کمرے کی کھڑکی اچانک کھل گئی، اور ایک گہرا سرخ دھواں اندر آیا۔ اس دھوئیں سے چڑیل کی شکل نمودار ہوئی—اس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے، اور اس کی سرخ آنکھیں جیسے عامر کی روح کو چھید رہی تھیں۔ چڑیل نے ایک خوفناک ہنسی ہنسی اور کہا، "وہ میرا ہے!" اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کے ہاتھ سے ایک سیاہ دھوپ نکل کر عامر کے سینے پر لگی۔ عامر کی چیخ کمرے میں گونج اٹھی، اور اس کے جسم سے ایک عجیب سی روشنی نکلنے لگی۔ نادیہ نے اسے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی، چڑیل نے عامر کا ہاتھ پکڑا اور اسے دھوئیں کے ساتھ کھڑکی سے باہر کھینچ لیا۔ نادیہ دروازے کی طرف بھاگی، لیکن جب وہ باہر پہنچی، تو نہ عامر تھا نہ چڑیل—صرف ہوا میں ایک عجیب سی بو تھی، ۔ عامر اس رات غائب ہو گیا، اور اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

اسی رات، اقرا کے گھر میں بھی ایک خوفناک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اقرا اپنے بستر پر لیٹی تھی، لیکن اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی—لفظ جو نہ کوئی معنی رکھتے تھے نہ کوئی ترتیب۔ اچانک، اس کی چھت سے ایک عجیب سی چیز نکلنے لگی—ایک گاڑھا، سرخ دھواں، جو جیسے جیسے نیچے آتا، اس سے ایک عجیب سی بو اٹھتی تھی، وہ دھواں زمین پر پہنچا اور ایک عورت کی شکل اختیار کر لی—اس کی آنکھیں سرخ تھیں، اور اس کے ہاتھوں سے خون کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ یہ چڑیل تھی، جو اب اقرا کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا، اور اس کے ہاتھ سے ایک گہری سیاہ روشنی نکل کر اقرا کی پیشانی پر پڑی۔ اس دھوپ نے اقرا کے دماغ میں ایک ایسی آگ بھڑکا دی کہ اس کی چیخ اس کے گھر کے ہر کونے میں گونج اٹھی۔ اس کے ذہن میں عجیب سے مناظر چلنے لگے—ایک بے پایاں کھائی، جہاں دیواروں سے خون رِستا تھا، اور چڑیل اسے اندر دھکیل رہی تھی۔ وہ مناظر اس کے دماغ میں بار بار دہرائے جانے لگے، اور اقرا کے ہاتھ پاؤں پھول پھول کر ہلنے لگے۔ اس کی آنکھیں اب خالی ہو گئیں، اور وہ ہر وقت بڑبڑاتی رہی، "وہ میری روح چاہیے... وہ میری روح چاہیے..." اس کی ماں نے اسے روک کر گلے لگایا، لیکن اقرا اسے دھکیل کر دور ہو گئی اور اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا کر چیخنے لگی۔

چڑیل نے ایک خوفناک ہنسی ہنسی اور کہا، "تم میری راہ میں آئیں، لیکن اب تمہارا ذہن میرا ہے۔ وہ میرا ہے، اور اسے میں لے جاؤں گی۔" اس کی آواز جیسے زمین کے اندر سے آ رہی تھی، اور ہر لفظ کے ساتھ اقرا کا جسم لرزتا رہا۔ اچانک، چڑیل غائب ہو گئی، لیکن اقرا کا دماغ اب اس کے قبضے میں تھا۔ وہ ہر رات اپنے کمرے میں چیختی، اپنے بالوں کو نوچتی، اور کبھی کبھار ایسی باتیں بولتی کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ رخسانہ بیگم نے ڈاکٹروں سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے بتایا کہ اقرا کا دماغ اب ٹوٹ چکا ہے۔ اسے کراچی کے ایک دور دراز پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا، جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری دن گزارنے لگی

عامر کی کہانی ایک سیاہ راز بن کر رہ گئی۔ اس کے غائب ہونے کے بعد نادیہ نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا، لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے عامر کو آخری بار شہر کے کنارے ایک ویران گلی میں دیکھا تھا، جہاں وہ ایک عجیب سی عورت کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ عورت اس کے قریب آئی، اس کا ہاتھ پکڑا، اور اسے اندھیرے میں کھینچ کر لے گئی۔ جب لوگ وہاں پہنچے، تو نہ عامر تھا نہ وہ عورت— نادیہ نے اس فلیٹ کو چھوڑ دیا اور اپنے پرانے کے گھر منتقل ہو گئی، لیکن وہ راتوں کو اب بھی عامر کی آخری مسکراہٹ کو یاد کر کے سہم جاتی تھی۔
لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ دو سال بعد، بابا خیرالدین کی دعاؤں اور رخسانہ بیگم کی مسلسل کوششوں سے اقرا کی حالت میں حیرت انگیز بہتری آنے لگی۔ اس کی چیخیں کم ہوئیں، اور اس کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک لوٹنے لگی۔ ڈاکٹروں نے حیرت سے بتایا کہ اس کا دماغ اب ٹھیک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ رخسانہ بیگم نے اقرا کو گھر واپس لایا، اور اس کی زندگی کو دوبارہ سنوارنے کے لیے اس کا رشتہ ایک نیک دل حافظ قرآن سے طے کیا گیا۔ وہ شخص نہ صرف قرآن کی تلاوت سے اقرا کو سکون دیتا تھا بلکہ اس کے دل کے زخموں کو بھی بھرتا تھا۔ شادی کے چند سال بعد، اقرا کے گھر دو معصوم بچوں کی ہنسی گونجنے لگی۔ اس کی زندگی اب ایک نئی امید سے روشن تھی، لیکن اس کے دل میں چڑیل کا وہ خوفناک سایہ اب بھی کہیں گہرائی میں موجود تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے