لاہور کے شہرشاہدرہ کا ملک اللہ رکھا ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والا عزت دار آدمی تھا اللہ رب العزت نے اسے 5 بیٹیوں اور 4 بیٹوں سے نوازا.. پڑھا لکھا تھا نہیں اس لئے نوکری بھی خاص نہیں ملی.. اس لیے محنت مزدوری کر کے گھر کی گاڑی دھکیل رہا تھا... ایک دن اس کی بیوی کہنے لگی.. مجھے ایک دو کوٹھیوں میں کام مل رہا ہے اور بڑی بچی بھی سیانی هو گئی ہے گھر سمبھال لے گی کیوں نا میں وہ کام کر لوں.. گزر بسر بھی اچھا هو جائے گا اور بچوں کو کچھ تعلیم بھی دلوا لیں گے
پہلے تو اللہ رکھا انکار کرتا رہا مگر جب بیوی نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم محنت کرے گے اور کوئی بھی کام چھوٹا بڑا نہیں ھوتا وغیرہ وغیرہ تو اسے ماننا پڑا..
خیر اس کی بیوی کوٹھیوں میں کام کرنے لگی رفتہ رفتہ گھر کی گاڑی صحیح چلنے لگی اور چھوٹے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھنے لگے..دوسرے نمبر والی بچی تھوڑی جوان ہوئی تو بڑی بھی ماں کے ساتھ جانے لگی.. اسی طرح 3 بیٹیاں اور ماں کوٹھیوں میں کام کرنے لگی. اور اللہ رکھا باہر کام کرتا.. اب اسے ان کا کام کرنا بھی برا نہیں لگتا تھا
پانچویں نمبر والی بیٹھی تھی نسرین..
جو پہلے ماں کے ساتھ کوٹھی جاتی تھی اسے وہاں جانا اچھا لگنے لگا امیروں کے صوفے پہ بیٹھا چھپ کر ان کے برتنوں میں کھانا جب کوئی گھر نا ہوتا تو ٹی وی دیکھنا فریج کا ٹھنڈا پانی پینا اس کے پسندیدہ کام تھے....
پھر وہ سکول جانے لگی تو اس سب چیزوں کو یاد کرتی اور پڑھائی میں بلکل دل نہ لگاتی اسے چھٹی والے دن کا انتظار ھوتا تاکہ اس دن بہنوں کے ساتھ کوٹھی جا سکے
اسے اپنے گھر اور گھر کے ماحول سے نفرت ھونے لگی تھی مگر کر کچھ نہیں سکتی تھی اس لیے کڑھتی رہتی
آٹھویں جماعت کے بعد اس نے سکول جانا چھوڑ دیا
ماں باپ نے دو دو بیٹوں کی اکھٹے شادی کرکے اپنے سر کا بوجھ ہلکا کیا.. نسرین کی غربت سے نفرت اور کھر والوں سے بےزاری نے اسے بد زبان کے ساتھ ساتھ منہ پھٹ بھی بنا دیا تھا
اسی لئے ماں باپ جلدی سے اسے اس کے گھر بھیجنے کی کوشش میں تھے... اللہ رکھا کے دور کے رشتے دار بھائی کا بیٹا داؤد انہیں پسند آ گیا. داؤد نہایت ہی شریف اور خاموش طبیعت کا بندہ تھا وہ قناعت پسند تھا تھوڑی میں خوش رہنے والا.. عزت کی کھانے اور کھلانے والا
الله رکھا کو داؤد اپنے جیسا لگا. اور دل میں سوچنے لگا کہ جتنی نسرین منہ پھٹ ہے داؤد جیسا خاموش طبع انسان ہی اس کے لیے مناسب رہے گا..
اس نے اپنے ایک دوسرے چچا زاد بھائی کے زریعے بات چلائی.
داؤد کے ماں باپ نے نسرین کو دیکھا تو ہاں کر دی
کیونکہ نسرین تھی تو خوش شکل.. گندمی رنگ پہ تیکھے تیکھے نقوش اور موٹی موٹی آنکھیں دیکھنے والے کو دوسری بار دیکھنے پر مجبور کرتے تھے..
اوپر سے آٹھ جماعتیں پڑھی لکھی لڑکی ان پڑھ بیٹے کے لیے مل رہی تھی انہیں اور کیا چاہیے تھا
نسرین کو پتہ چلا تو اس نے گھر سر پر اٹھا لیا... اماں صاف کہتی ہوں مجھے نہیں کرنی اس داؤد سے شادی
کیوں نہیں کرنی زرا بتائے گی. اماں چڑ کر بولی..
ایک تو رنگ کا کالا هے دوسرا کماتا کیا ہے ایک فیکٹری میں. چپڑاسی ہے بس.. نسرین نے منہ بنایا
دیکھ پتر دھیاں ایسے نخرے نہیں کرتی تیرے ابا نے سن لیا تو غصہ کرے گا.. اماں بولی.
ابا کو غصہ کرنے کے علاوہ آتا کیا ہے.. اگر آتا ہوتا تو ہم یوں گھوٹ گھوٹ کر جی رہے ھوتے.. نسرین دھاڑی
رک زرا تو بدتمیز.. ہماری جوتیاں گس گئی ہے تم لوگوں کے پیٹ بھرتے ہوئے اور تو کہتی ہے تم لوگ گھوٹ گھوٹ کے جی رہے هو اماں نے جوتی اتار کر چلائی جو اس کی کمر میں لگی.
وہ کمر سہلاتی ہوئی. بس کہہ دیا مجھے نہیں کرتی اس سے شادی.
شادی ہم نے تجھ سے پوچھ کے نہیں کرنی.. ناں کرے گی تو اپنے ہاتھوں سے تیرا گلا گھونٹ دوں گی.. پیدا کرنا آتا ہے تو تجھ جیسی اولاد کو مارنا بھی آتا ہے.. اماں غصے سے چلائی. ہاں تو مار دے اس سے شادی سے اچھا ہے مر جاؤں
نسرین ڈر کر منہ میں بڑابڑانے لگی
کیا بڑبڑ کر رہی ہے زرا اونچا بول میں تیری مراد پوری کروں.. اماں سبزی کاٹتے ہوئے چھری لہرا کر بولی..
نسرین کمرے میں بھاگ گئی..
الله رکھا اور اس کی بیوی بھی جاکر داؤد کو 1000 روپے دے آئے اور بات پکی کر آئے..
دو تین دن داؤد کے گھر والے بھی آئے منگنی کرنے اور بات پکی کرنے..
ایک سوٹ نسرین کا ایک جوتے کا جوڑا ایک سرخی ایک نیل پینٹ. ایک َسرما.. ایک چوڑیوں کا سیٹ ایک میٹھائی کا ڈبہ اور 1000 روپیہ نسرین کو دے گئے یہ سب سامان دیکھ کر آس پاس کی عورتیں بھی رشک کرنے لگی کیوں کہ اس وقت کے دور میں یہ سب سامان بھی بہت اہمیت رکھتا تھا. کپڑے جوتا میک اپ کا سامان اور ہزار روپے.. واہ بھئی واہ..
مگر نسرین کے ناک پہ کچھ بھی نہیں بھایا.. وہ تو منہ میں ہزار ہزار گالیاں دے رہی تھی داؤد کی ماں بہن کو..
نسرین کی ماں نے جو بن پڑی ان کی خدمت کی اور رخصت کیا
اماں تیرے منہ کو چپ رہی ہوں ورنہ دل تو کر رہا تھا ساری چیزیں ان کی جھولی میں ڈال کر واپس بھیج دوں.. یہ بھی کوئی چیزیں ھوتی هے منگنی میں دینے والی.. مہمانوں کے گھر سے نکلتے ہی نسرین تلملاتی ہوئی ماں کے سر پر پہنچی..
ہاں تو اور کیا گھوڑے لاد کر لاتے تجھ مہارانی کے لیے غریب گھرانوں میں اتنا کچھ کرنا بھی بڑی بات ہے.. اماں برتن دھوتی ہوئی بولی.
تو یہ ہی تو میں کہہ رہی ہوں کیا ضرورت ہے ایسے غریب گھر میں میری شادی کرنے کی نسرین نے کہا..
اچھا تو کہاں کی مہارانی هے جو تجھے کسی بادشاہ کے گھر بیاہ کر بھیجا جائے.. جیسا ہمارا گھر ویسا ان کا.. اس گھر کی عزت اس گھر میں عزت سے رہے گی. ماں نے پرسوچ انداز میں کہا..
نسرین پیر پٹختے ہوئے اندر چلی گئی.
پتہ نہیں اس لڑکی کے خواب کیوں اتنے بڑے بڑے ہیں باقی بھی چار بیاہی ہیں بے چاریاں ماں باپ کے گھر میں نوکروں کی طرح کام بھی کرتی رہیں تھیں مگر آف نہیں کیا آج اپنے اپنے گھروں میں سکھی بس رہیں ہیں...
ایک یہ ہے نہ کام کی نہ کاج کی اوپر سے نخرے شہزادیوں والے.. مجھے تو ڈر ہے کہیں ہمارا منہ نہ کالا کروا دے.. توبہ توبہ یہ میں کیا کہہ رہی ہوں.. اللّٰهُ عزت رکھی! اماں برتن دھوتی بڑبڑا رہی تھی.
نسرین کی ماں جن کوٹھیوں میں کام کرتی تھی بڑے نیک لوگ تھے جو اپنے ملازمین کا بڑا دھیان رکھتے تھے انہوں نے پہلے بھی نسرین کی بہنوں کو جہیز بنا کر دیا تھا کسی نے فرنیچر تو کسی نے پیسوں سے اور کسی نے مکمل کھانے کا خرچہ اٹھا لیا تھا..
نسرین کی باری بھی یہ ہی سب ہوا. ایک مالک نے فرنیچر. تو دوسرے نے واشنگ مشین استری پنکھے اور الیکٹرانکس کی چیزیں دی.. ایک نے کھانے کا خرچہ اٹھا لیا جب کے کسی نے کپڑے وغیرہ لے دئیے.
نسیرین کی اماں تو سب کی دیندار هو گئی تھی پہلے سر جھکا رہتا تھا اب تو مزید غلام هو گئی تھی.. مگر نسرین.. الله الله.
دو ماہ اسی بھاگ دوڑ میں گزر گئے اور شادی سر پر پہنچ گئی... نسرین نے کئی بار فیصلہ کیا وہ گھر سے بھاگ جائے.. مگر اندر سے ڈرپوک ھونے کی وجہ سے دروازے سے واپس آ جاتی کیونکہ ایک تو اسے ڈر تھا کہ بھاگ کر جائے کہاں اور اگر کسی ڈاکو لٹیرے کے ہاتھ چڑ گئی تو کیا هو گا.
دوسرا اتنا جہیز دیکھ کر بھی منہ میں پانی آ گیا تھا کہ پھر اس چیزوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا..
جمعرات کے دن اس کی مہندی تھی.. سارے رشتہ دار گھر میں جمع تھے. رات کو اس کی مہندی تھی..
نسرین کو پیلا جوڑا پہنایا گیا تھا پچھلے پانچ دن سے مایئوں کے نام پر لمبے بالوں کی چٹیا بنائی گئی تھی اوپر سے تین دن سے گھر محلے کی عورتیں روز رات کو تیل لگا جاتی تھی.. آج مہندی بھی اسی حالت میں کی جا رہی تھی.. نسرین کے سر سے تیل اب گردن پہ ٹپکنے لگا تھا اور اس کے نہانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ شادی والے دن ہی نہایا جائے گا اور بال کھولے جائیں گے تاکہ دولہن کو روپ چڑھے

مہندی کی رات ایک پیڑی پہ لال دھاگا باندھ کر صحن کے درمیان میں رکھا.. اس پہ نسرین کو بیٹھا دیا.. ایک 10 روپے کے نوٹ کو اس کی ہتھیلی پہ رکھا پاس ایک کٹوری میں تیل بھر کر رکھا.. ایک برفی کی پلیٹ رکھی..
اب رشتے دار اور محلے کی سبھی عورتیں بولیاں گا رہیں تھیں ٹپے گا گا کر اسے چھیڑ رہی تھیں ساتھ ساتھ تھوڑی سی مہندی اٹھا کر نوٹ پر رکھتی منہ میں برفی ڈالتی اور تیل سے ہاتھ بھر کر اس کے سر میں لگا دیتی..
ہر کوئی ایسا ہی کر رہا تھا کئی کئی تو پہلے مہندی لگاتی پھر تیل اور پھر اسی ہاتھ سے منہ میں میٹھائی ٹھوس دیتی 
جیسے کھا کر نسرین کو ابکائی آ جاتی.. مگر مجال ہے جو رسم سے پہلے وہ پیڑے سے اٹھ جائے..


شادی اس نے پہلے نہیں کرنی تھی آج تو مانو نفرت هو گئی تھی شادی کے نام پہ..
مگر مرتی کیا نہ کرتی والی مثال.. نسرین بھی ماں باپ کی وجہ سے چپ تھی... جمعہ کے دن اللّٰهُ اللّٰهُ کرکے بارات آ گئی
داؤد سفید شلوار قمیض میں گلے میں نوٹوں کے ہار ڈالے پاؤں میں کڑھائی والا کھوسہ پہنے ماتھے پر چم چم کرتی لڑیوں والا سہرا باندھے منہ تو چھپا ہوا تھا مگر پیارا لگ رہا تھا..
نسرین کو آج اس کی نام نہاد سہیلیوں نے نہلایا.. رگڑ رگڑ کر سر میں کوئی 15 بار صابن لگایا تب جاکر تیل نکلا. جسم پر بھی ایسے ہی صابن لگایا.. دو گھنٹے بعد غسل خانے سے نکلی تو واقعی گوری چٹی لگ رہی تھی اسے لال گوٹے والا شلوار قمیض پہنایا گیا.. بالوں کی ڈھیلی ڈھالی چوٹی کی گئی چہرے پر کریم لگا کر سرخی سرما زیور پہنائے گئے.. ماتھے پر ماں باپ کی طرف سے دیا گیا ٹکہ پہنایا گیا..
لال گوٹے والا دوپٹہ پہنے نسرین بہت خوبصورت لگ رہی تھی..
محلے کے نکاح خواں نے نکاح پڑھوایا.. حق مہر شریع تھا جو اسی وقت گھر والوں کے کہنے پر معاف کر دیا گیا.. جیب خرچ 2 ہزار مہینہ طے پایا گیا.. جو نسرین کو بتانا ضروری نہیں تھا..
رات کے وقت رخصتی تھی. نسرین شاہدرہ سے رخصت ہو کر حیدرآباد آ گئی...
داؤد کے ماں باپ کا گھر اپنا تھا مگر بہت چھوٹا سا تھا دو کمرے ایک برآمدہ اور صحن میں دو چارپائی مشکل سے آتی تھیں.. اس چھوٹے سے گھر میں پہلے سے 8 افراد تھے اب 1 اور آ گیا تھا.. دو کمروں میں پہلے ایک میں داؤد کی تین بہنیں اور دادی سوتی تھیں. ایک میں ماں باپ.. اور یہ 2 بھائی باہر برآمدے میں سردی هو یا گرمی سوتے تھے. صحن میں ہی ایک طرف چار آنٹیں لگا کر جگہ اونچی کی ہوئی تھی جس پہ چولہا رکھا گیا تھا دیوار پہ دو لکڑی کے تحتے لگا کر مصالحہ جات رکھے ہوئے تھے یہ باورچی خانہ تھا
اس کے ساتھ ہی چھوٹا سا غسل خانہ جس کی بدبو کھانا پکاتے اور کھاتے وقت سب کو آتی اگر اس وقت کو رفع حاجت کو جاتا
اب لڑکیوں اور دادی کو بھی برآمدے میں شفٹ کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ کمرہ نسرین اور داؤد کو دیا گیا.. کمرہ اتنا چھوٹا تھا کہ نسرین کا بیڈ رکھ کر دروازے کے پاس صرف جوتے اتر سکتے تھے.. ماں باپ کے کمرے میں باقی سامان اوپر نیچے کر کے بڑی مشکل سے گھسایا گیا تھا.. پہلے جو دو چار پائیاں الگ الگ رکھی تھی اب وہ بھی بیڈ کی طرح جوڑ دی گئی تھی.. نسرین کے گھر بیشک افراد زیادہ تھے مگر ان کا گھر بڑا تھا.. پہلے دن تو نسرین دلہن بنی ہوئی تھی اس لیے اسے محسوس نہیں ہوا.. مگر...
رخصتی کے بعد اکثر دلہنیں کار میں جاتی ہے مگر کیونکہ داؤد کا شہر بہت دور تھا اس لیے ایک ہی بس میں بارات آئی تھی.. اس زمانے میں بس کروا لینا بھی بڑی بات تھی..
نسرین کو بس میں داؤد کے پاس بیٹھا دیا..
سارا رستہ خاموشی کی مورت بنی سجی سنوری نسرین داؤد کے دل میں گھر کر گئی.
بس راستے میں جگہ جگہ رکتی کھانے اور چائے کے لیے.. داؤد بھاگ بھاگ کر اس کے لیے کبھی کچھ تو کبھی کچھ لا رہا تھا جسے دلہن بن کر شرماتی نسرین نے تھوڑا تھوڑا کھا کر داؤد کو دے دیتی..
وہ اسے اس کی محبت سمجھ کر کھا لیتا..اور نسرین دل میں کڑھتی کے بندہ منع ہی کر دیتا ہے کہ نہیں تم کھاؤ.
ہر چیز لیتا میرے نام سے ہے اور ٹھونس خود جاتا ہے..
آدھے راستے میں داؤد کو نیند آ گئی اور وہ سیٹ پہ سر رکھے خراٹے لینے لگا..
نسرین نے نفرت سے اپنے ہاتھ کانوں پہ رکھ کر اسے حقارت سے دیکھتی رہی..
نیند تو اسے بھی آ رہی تھی مگر اتنے خراٹوں میں کون سو پاتا ہے تقریباً 14 گھنٹے کا راستہ اس نے بے زاری اور جاگتے ہوئے گزارا..
صبح کے 9 بجے گھر پہنچے پوری رات سفر میں.. بارات کی بس تھی اس لیے ڈرائیور بھی مزے میں چلا رہا تھا.. اسے کیا معلوم جس کی نئی زندگی کی پہلی رات ہے اس کے لیے قیامت سے کم نہیں.. اللہ اللہ کرکے گھر پہنچے تو ہر بندہ تھکاوٹ میں چور ہوا پڑا تھا داؤد کی بہنیں تو پہنچتے ہی ماں باپ کی چارپائی پر تینوں آڑی ترچھی لیٹ کر سو گئیں کسی کو یاد نہیں تھا کہ ان کے ساتھ دلہن بھی ہے.. داؤد کی ماں بھی پہلے گھر آئی پانی پیا اورچارپائی پہ بیٹھتے ہوئے ہانک لگائی آف اتنا لمبا سفر ہے میرے تو جوڑ جوڑ ٹوٹ گئے ہیں.. پتر داؤد ہر ماہ دلہن کو میکے مت لے. کر جانا 6 8 ماہ بعد ہی جانا اگر زندگی پیاری ہے تو.. ہاے اللہ دلہن تو باہر ہی راہ گئی.
وہ اونچی آواز میں داؤد کو نصیحت کر رہی تھی جب دلہن یاد آئی.
بھاگ کر باہر گئی اور گلی میں جہاں بس والا اتار کر گیا تھا بت بنی کھڑی نسرین کے پاس آئی.
معاف کرنا بیٹا سفر نے بلکل پاگل کر دیا ہے دماغ سے نکل گیا..
نسرین غصہ پیتی دانت پیستی ہـوئی خاموش رہی اسے سب سے زیادہ غصہ داؤد پر تھا کہ بس میں تو بڑا واری صدقے جا رہا تھا اور یہاں آ کر بھول ہی گیا.. قصور داؤد کا بھی نہیں تھا اسے 1 نمبر بڑا زور کا لگا تھا بے چارے سے کنٹرول مشکل تھا اسی لیے وہ سب سے پہلے نیچے کو بھاگا تھا.
نسرین ساس کے ساتھ چلتی ہوئی گھر آ گئی صحن میں کھڑے کھڑے پورے گھر کا جائزہ لینے لگی مگر یہ کیا یہ تو شروع ھوتے ہی ختم ہو گیا.. کیچن کی طرف دیکھا جہاں کل کے برتنوں کا ڈھیر پڑا تھا اور اب مکھیاں بن بنہا رہی تھی..
نسرین نے اچانک ہاتھ ناک پہ رکھ لیا کیونکہ داؤد باتھ روم سے نکلا تھا..
داؤد کی ماں تھوڑی شرمندہ ھوتے ہوئے.. بیٹا گھر چھوٹا ہے تو کیا ہوا ہم سب کے دل بہت بڑے ہیں میری دھی راج کرے گی.. اس نے سر پر ہاتھ پھیرا.
نسرین پھر خاموش رہی مگر دل میں ارادہ کر چکی تھی اسے اس گھر میں زیادہ دن نہیں رہنا..
اس کی ساس اسے اس کے کمرے میں بیٹھا گئی. اور جاکر دودھ منگوا کر گرم کرنے لگی دولہا دلہن کے لیے.
تھوڑی دیر بعد داؤد کمرے میں آیا تو اس نے دیکھا نسرین کا منہ بنا ہوا ہے وہ سمجھ گیا کہ وہ پہلے اتر آیا تھا اس لیے ناراض ہے.. پاس بیٹھ کر محبت سے کہنے لگا.. وہ میں اس لیے جلدی آ گیا مجھے پیشاب نے تنگ کیا ہوا تھا..
پیشاب ہی لگا تھا کوئی گولی تو نہیں لگی تھی کہ مر رہے تھے.. مجھے گلی میں اکیلا پاگلوں کی طرح چھوڑ دیا..
داؤد کی حیرت سے آنکھیں کھل گئی.. یہ وہی نسرین هے..
سارا راستہ میں بھی ساتھ تھی میں نہیں تھکی کیا.. خود تو گدھے بیچ کر سو رہے تھے خراٹے لے کر اور میں سارا راستہ جاگتی رہی ہوں..
گدھے نہیں گھوڑے کہتے ہیں.. داؤد نے معصومیت سے کہا..
نسرین کو اور غصہ آ گیا.. تمہاری اوقات هے گھوڑوں والی تمہارے لیے تو گدھے بھی مہنگے ہیں..
داؤد نے منہ لٹکا لیا. وہ کیا کیا سوچ کر آیا تھا مگر یہ کیا هو گیا اس کے ارمانوں پہ پانی نہیں آگ لگا دی گئی تھی..
کیا بوتھا سجا کر بیٹھے هو مجھے بھوک لگی ہے اس گھر میں کچھ کھانے کو ملے گا.. نسرین دھاڑی.
کیوں نہیں ملے گا میری دھی.. لے پہلے گرم گرم دودھ پی لے تیری تھکاوٹ اتر جائے گی.. اس کی ساس نے اس کی بات سن کر لہجے میں مٹھاس گھولتے ہوئے کہا..
نسرین اسے دیکھ کر چپ ہو گئی مگر ایک نظر نفرت والی داؤد پہ ڈالنا نہیں بھولی.. دودھ پی کر اسے واقعی جسم میں حرارت محسوس ہوئی اور وہ تروتازہ هو گئی.. مجھے غسل خانے جانا ہے.. خاموش بیٹھے داؤد کو دیکھ کر بولی..
وہ چپ کر کے باہر گیا اور ماں کو بھیجا.
وہ اسے ساتھ لیے باتھ روم لے آئی. جہاں پرانی ٹوٹی پھوٹی سیٹ لگی ہوئی تھی جس پر صفائی نہ کرنے کی وجہ سے کائی جمی ہوئی تھی سفید سیٹ مٹی لگ رہی تھی..
پتر پورے گاؤں میں صرف 3 گھر ہیں جن کے گھر لیٹرین بنی ہوئی ہے.. ایک ہمارا هے.. اس کی ساس نے فخر سے کہا..
اس سے تو اچھا تھا ھوتی نا.. نسرین بڑبڑائی.
کمرے میں آ کر اس نے بنا کپڑے تبدیل کیے بیڈ پر لیٹی اور سو گئی. داؤد حسرت سے اسے دیکھتا راہ گیا.. اسے لگا تھکاوٹ کی وجہ سے چڑچڑی هو گئی هو گی سفر بھی تو اتنا هے اور وہ نازک سی کہاں اتنا سفر برداشت کر سکتی هو گی.. وہ اسے سوتا دیکھ کر سوچ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا مگر
یہ تو شروعات تھی نسرین کے تیور تو بد سے بد ترین ھوتے جا رہے تھے
سب سے پہلے تو اسے اپنے سامان کو اس حالت میں دیکھ کر غصہ آیا اور وہ پہلی لڑائی تھی جو اس نے داؤد کی ماں بہن سے کی تھی..
پھر تو اسے ہر بات پر اعتراض ھونے لگا اپنے بیڈ پر کسی کو ہاتھ تک نہ رکھنے دیتی نہ کسی اور سامان کو.. داؤد کی بہنیں تو اسے آفت کی ماسی کہنے لگی..
گھر کا ماحول مانو ہر وقت جنگ کا میدان لگنے لگا تھا.. ابھی شادی کو 4 ماہ ہی ھوئے تھے کہ داؤد کی ماں نے اسے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اسے چھوڑ دے ہمیں نہیں چاپیے ایسی بدزبان.. مگر داود اپنی بہنوں کو دیکھ کر برداشت کر رہا تھا کہ آخر انہیں بھی پرائے گھر جانا ہے اور اگر ان کے ساتھ کوئی ایسا کرے گا تو کیا هو گا اسی خوف سے وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا جیسے نسرین خوش رہے اسے رکھے.. اسی ماہ اسے اللہ نے اولاد کی خوشخبری سنائی اب تو وہ کسی قیمت پر نسرین کو نہیں چھوڑ سکتا تھا..
بچے کا سننا تھا کہ نسرین نے الگ گھر میں رہنے کی ضد شروع کر دی..
مجھے نہیں رہنا اس چڑیاگھر میں کیا سیکھے گا میرا بچہ یہاں مجھے شہر گھر لے کر دو..
مجبور ہو کر داؤد نے حیدرآباد شہر میں ایک گھر کرائے پر لی .. اس کی تنخواہ 800 روپے تھی 200 روپے میں اچھا گھر مل گیا تھا.. نسرین وہاں آ کر بہت خوش تھی..
اپنا سامان سیٹ کرکے گھر کو صاف ستھرا رکھتی... ہنستے مسکراتے 9 ماہ بیت گے اور اللّٰهُ نے پہلی اولاد بھی بیٹی دی دوسری بھی بیٹی.. اور پھر اوپر تلے جڑواں 4 بیٹے 6 بچوں کی زمے داری بھی بڑی.
نسرین بچوں کو دیکھ کر اپنے بچپن کو یاد کرنے لگتی..
اس نے اپنی ماں کی طرح داؤد کو کہنا شروع کر دیا کہ وہ کوٹھی میں کام کرے گی..
ارے اللّٰهُ لوک کس چیز کی کمی رکھی ہے اللّٰهُ نے روکھی سوکھی کھا کر سوتے ہیں.. بچے اللّٰهُ کی امانت ہے وہ ان کا رزق بھی ان کے ساتھ دے رہا ہے پھر کیوں..
ہاں بڑا رزق دے رہا ہے سال سال بھر گوشت کا منہ نہیں دیکھتے.. عید کے عید ایک ایک جوڑا کپڑے لے کر دیتے هو وہ بھی ایک ایک روپیہ جوڑ کر.. میں نے تو 3 سال سے کبھی لیے نہیں گرمی سردی ایک ہی پہنتی ہوں.. نسرین نے چڑ کر کہا..
مگر داود نہ مانا..
تین چار گلی چھوڑ کر اچھے گھر بنے ہوئے تھے اور لوگ بھی کھاتے پیتے تھے انہی میں ایک ہندو گھرا نہ بھی تھا
0 تبصرے