Subscribe Us

بد زبان - قسط نمبر 2

urdu font stories

جیسے داؤد کام پر جاتا نسرین بچوں کو بیٹی کے پاس گھر میں بند کرتی اور اسے سمجھا کر کام کرنے چلی جاتی
ایک دو کام کرکے 100 200 روپے مل جاتے تھے
ایک دن اسے ایک گھر سے نکلتے ہوئے پاروتی نے دیکھ لیا
ارے سنو
جی باجی.. گھروں میں کام کرتی ھو کیا.. پاروتی بولی
جی باجی
تو میرے گھر بھی کر جایا کر میں اکیلی جان ہوں زیادہ کام بھی نہیں اور مہینے کے 500 روپے سو دوں گی
نسرین کی تو باچھیں کھل گئی کہاں وہ تین گھروں میں کام کرتی تھی اور 200 روپے ملتے تھے کہاں ایک گھر سے 500 مل رہا تھا.. جی باجی کیوں نہیں کروں گی مگر پکا 500 ملے گے
ہاں ملینگے تو 500 مگر
ہم ہندو ہیں پہلے بتا دوں پھر نہ کہنا بتایا نہیں. نسرین کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا.. اچھی خاصی رقم مل رہی تھی مگر اب وہ چانس بھی گیا وہ سوچنے لگی.
کیا سوچ رہی ہو
کچھ نہیں باجی.. یہ اب اپنے مرد سے پوچھ کر بتاؤں گی اگر مان گیا تو پرسوں سے آ جاؤں گی.. اس نے جان بوجھ کر دو دن بعد کا بتایا کیونکہ وہ جانتی تھی داؤد نہیں مانے گا
چل ٹھیک ہے میں 4 دن انتظار کروں گی تیرا کیونکہ ہم زبان کے پکے لوگ ہیں.. اس کے بعد ہی کسی اور کو رکھوں گی
پاروتی اتراتی ہوئی بولی
ٹھیک ہے باجی.. کہہ کر نسرین گھر آ گئی
برا تو اسے بھی لگ رہا تھا ہندو کے گھر کام کرنا اور ان کے برتنوں میں کبھی کھانا بھی پڑ سکتا ہے سوچ کر.. مگر اس کے اندر چھپے ہوئے لالچ نے اسے ہوا دی کہ تو گھر سے کھا پی کر جانا کام کر کے گھر آ کر کھانا پینا
ہاں یہ ٹھیک ہے پھر بھی ایک بار داؤد سے بات کرتی ہوں وہ کیا کہتا ہے..
شام کو داؤد گھر آیا تو رات سونے سے پہلے
وہ میں کیا کہہ رہی تھی ایک گھر میں کام مل رہا ہے پورے 500 روپے دے رہے ہیں.. بچیاں بڑی هو رہی ہے انہیں سکول بھی بھیجنا ہے بیٹوں کا بھی کتناخرچہ ہے..
دیکھ نسرین میں تجھے پہلے بھی منع کر چکا ہوں اور یہ کون ہے جو اتنے سے کام کے 500 روپے دے رہے ہیں ضرور کوئی اور کام بھی کروانا هو گا.. داؤد غصے سے بولا
نہیں اور کوئی کام نہیں ہے بس صفائی اور کپڑے ہے اور گھر میں اکیلی عورت هے مرد دوسرے شہر کام کرتا ہے
اچھا کون ہے وہ
وہ دو گلی چھوڑ کر پاروتی باجی هے. نسرین نے اٹکتے ہوئے کہا ویسے تو وہ داؤد کو کسی خاطے میں نہیں لکھتی تھی مگر اس بار اس کی رائے لینا ضروری سمجھا. کرنی تو اس نے اپنی مرضی تھی
کیا مطلب ہے تمہارا وہ ہندو ہیں داؤد بلند آواز میں بولا.. ہاں ہیں تو اس میں اتنا واہ ویلا کیوں مچا رہے هو بچے اٹھ جائے گے.. نسرین نے بیچ میں ٹوکا.
داؤد جھاگ کی طرح بیٹھ گیا.. تبھی اتنے پیسے دے رہے ہیں کوئی مسلم عورت کام کرنے کو تیار نہیں هو گی
پتہ نہیں.. نسرین نے ناگواری سے
جو بھی ہو کوئی ضرورت نہیں میرے بچوں کو ہندوؤں کے گھر کی کھلانے کی.
ہمم آیا بڑا میاں حاجی.. خود تو جیسے مصلے سے اٹھتا نہیں نسرین نے منہ ٹیڑا کرکے سوچا
میں تو جاوں گی اب کل دوسروں کے گھر جواب دوں گی اور اسی کے گھر جاؤں گی
دوسری طرف پاروتی جس کالی ماتا کی بھگت تھی اس کے پجاری نے اسے بلا بھیجا
پاروتی دوسرے دن پاکستان میں موجود ہندوؤں کے گھر چلی گئی انہوں نے اپنے گھر کے تہہ خانے میں کالی ماتا تھا بہت بڑا مندر بنایا ہوا تھا جس کی خبر سوائے اس کے بھگتوں کے کسی کو نہیں تھی.. ہندو کا وہ گھر تھا بھی شہر سے تھوڑا دور ویرانے میں.. اوپر سے ایک شاندار کوٹھی لگتا تھا اور تھا بھی مگر تہہ خانے میں اتنا ہی گند بھرا ہوا تھا.. اس گھر کا ملک اور مندر کا پجاری.. آئے دن نئے نئے چلے کاٹ کر بد روحوں اور جنات کو اپنے واش میں کرتا رہتا تھا اور ان سے ناجائز کام کرواتا رہتا تھا
اس بار پجاری کے سر پر نیا بھوت سوار تھا ،، وہ امر ھونا چاہتا تھا ۔۔۔یعنی ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا تھا اور اس کے لیے مسلم عورت کے ساتھ بدفعلی کر کے اسے بچے کو پیدا کرنا تھا اور اس بچے کی بلی کالی ماتا کو چڑھانی تھی
پاروتی پنڈت کے پاس گئی تو اس نے اسے کسی مسلم عورت کو لانے کا کام سونپا..
پاروتی نے پوچھا کہ مسلم عورت کا آپ سے کیا کام ۔۔۔اس پر پنڈت غصہ میں آگیا اور بولا جتنا کہا ہے بس اتنا کرو زیادہ سوال جواب کرنے کی ضرورت نہی ۔۔۔۔
لیکن پنڈت جی میں مسلم عورت کہاں سے لاؤں گی اور کوئی بھی مسلم عورت یہاں مندر میں کیوں آئے گی.. پاروتی نے حیرت سے کہا
وہ سب سوچنا تمہارا کام ہے میرا نہیں. میرا یہ کام کرو گی تو مالا مال کرنے کے ساتھ ساتھ تجھے وہ منتر بھی سیکھاوں گا جس سے تو ہر چیز کو اپنے واش میں کر سکے گی
اور اگر میرا یہ کام نہیں کیا تو اگلی آماوس کی رات کالی ماتا کو تیری بلی چڑھے گی. سمجھی.. پنڈت بلرام دھاڑا
پاروتی کی روح تک کانپ گئی
لیکن سوآمی.. پاروتی مننائی
لیکن ویلکن کچھ نہیں جاؤ اور کام پہ لگ جاؤ تیرے پاس اگلی آماوس کی رات تک کا سمے ہے.. پنڈت بادل کی طرح گرجا
پاروتی سہمی ہوئی واپس آ گئی

گھر آ کر بھی ادھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی اسے پنڈت پہ غصہ آ رہا..
یہ پنڈت سمجھتا کیا ہے اپنے آپ کو چار سدھیاں کیا آ گئی ہیں
اس کے پاس چار بدروحیں قابو کیا کر لی ہیں.
خود کو بھگوان سمجھنے لگا هے.. وہ غصے میں بڑابڑا رہی تھی..
میں عورت کہاں سے لاؤں یہاں مجھے گھر میں کام کرنے والی نہیں ملتی. اور اسے اپنے عمل کے لیے چاہیے.
مگر مجھے کچھ نا کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ورنہ وہ خبیث کی شکل والا واقعی میری بلی چڑھا دے گا پاروتی نے خوف سے جھرجھری لی

دوسرے دن نسرین داؤد کے کام پہ جاتے ہی کام پہ نکل گئی پہلے تو جہاں پہلے کام کرتی تھی گئی اور اپنا حساب کرکے کام چھوڑ دیا.. یہ کہہ کر کے میرا شوہر نہیں مانتا
پھر 11 بجے کے قریب وہ پاروتی کے گھر پہنچ گئی
پاروتی اسے دیکھ کر کھل سی گئی اور شکر ادا کرنے لگی کہ کوئی تو آئی.
آؤ بیٹھو.. کیا نام ہے تمہارا پاروتی سے پاس بیٹھاتے ہوئے پوچھنے لگی.
نسرین ہے باجی نسرین نام ہے میرا.
ہمممم بہت پیارا نام ہے.. میرا پاروتی هے
جی باجی جانتی ہوں. نسرین شرماتے ہوئے بولی.
پارو ہنسنے لگی.
نسرین شادی شدہ ہو
جی باجی.. ماشاء الله سے 6 بچے ہیں میرے.
ہیں.. 6 بچے اتنی سی عمر میں.. کیا عمر هو گی تیری.. پاروتی نے آنکھیں پھیلائی.
باجی هو گی کوئی 24 25 یا اوپر نیچے.. 8 جماعت پڑھی ہوں باجی. نسرین نے فخریہ بتایا.
آہاں.. تو آگے کیوں نہیں پڑھا
آگے دل نہیں کیا. پھر سال بھی نہیں گزرا تھا پڑھائی چھوڑے کہ ماں باپ نے بیاہ دیا.. نسرین نے منہ بنایا
اچھا تو مرد کیا کرتا ہے تیرا.. پارو اس میں دلچسپی لینے لگی تھی اس لیے ساری معلومات لے رہی تھی
وہ جی فیکٹری میں چوکیدار هے.. نسرین نے چہرے پر ناگواری لاتے ہوئے کہا جو پارو نے اچھے سے محسوس کیا
کیوں تجھے تیرا مرد پسند نہیں.. اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھا.
پسند ناپسند کو کیا کرنا ہے باجی.. اب 6 بچوں کا باپ ہے اور زندگی بھر کا ساتھی.. جھیلنا تو پڑے گا.. نسرین نے مانو دکھی ھوتے کہا
کیوں اچھا انسان نہیں ہے کیا مارتا پیٹتا هے تجھے پارو نے پوچھا.
نہیں باجی اتنی پسلی نہیں ہے اس کی نسرین کو ہاتھ لگا سکے.. نسرین نے فخر سے کہا
مگر باجی بندہ جب گھر کی گاڑی صیح نہ چلا سکتا هو تو کس کام کا
کیوں ابھی تو تم نے کہا فیکٹری میں چوکیدار هے تو پھر
باجی 800 روپے ملتے ہیں 200 مکان کا کرایہ چلا جاتا ہے پھر بچوں کا خرچ گھر کا خرچ کہاں پوری پڑتی ہے مجھے کام کرنے نہیں دیتا چھپ کر کرتی ہوں اپنے بچوں کے لئے. نسرین دکھی هو کر بولی
اور تیرے ماں باپ کہاں ہے
میرا باپ تو 2 سال ہوا اللّٰهُ کو پیارا هو گیا. ماں ہے وہ لاہور میں بھائیوں کے ساتھ رہتی ہے.
اچھا تو ملنے آتے ہیں تو سمجھاتے نہیں تیرے مرد کو کے کوئی ڈھنگ کا کام کرے کوئی کاروبار کر لے.. پاروتی ہر معلومات لے رہی تھی تاکہ جب شکار کرے تو کون کون پیچھے آتا ہے.
کہاں باجی شروع شروع میں تو میں بھی چلی جاتی تھی اور وہ بھی آ جاتے تھے جب ہم سسرال میں اکٹھے رہتے تھے مگر جب سے اپنے گھر والی ہوئی ہوں مجھ سے تو نکلا ہی نہیں جاتا اور وہ بھی جیسے بھول گئے ہیں. نسرین کی آنکھیں میکے کی یاد میں نم ہو گئی.
اچھا چھوڑ یہ سب آج تیرا پہلا دن ہے اس لیے ابھی تم گھر جاؤ بچوں کے پاس میں کام کر چکی ہوں کل سے شروع کرتے ہیں یہ 50 روپے رکھو بچوں کے لئے کچھ لے جانا.. پاروتی نے دانہ ڈالا

نسرین کی باچھیں کھل گئی پیسے پکڑ کر ممنون هو گئی..
خوشی خوشی گھر واپس آ گئی سوچا شام میں بچوں کے لیے پھل خریدے گی جب ریڑھی والا آئے گا
گھر آ کر بچوں کو دودھ پلایا بڑوں کو نہلایا کپڑے بدلے وہ بہت خوش تھی آج.
کیونکہ پہلے گھروں سے بھی حساب کرکے پیسے لے کر آئی تھی اوپر سے پاروتی نے بھی 50 روپے دے دیے.. اس کی تو عید هو گئی تھی..
ابھی شام کے 4 بجے ہونگے کہ دروازہ کھٹکھٹایا

نسرین نے دروازہ کھولا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اسکی روح تک کانپ گئی ۔۔
نسرین نے دروازہ کھولا تو سامنے فیکٹری کے دو مزدور داؤد کو سہارا دیے اندر لائے
ہائے اللہ جی اسے کیا ہوا اسے یہ چوٹیں کیسے لگی.. نسرین کے تو جان پہ بن گئی داؤد کو اس حالت میں دیکھ کر.
دراصل داؤد فیکٹری کے گیٹ پہ اپنی ڈیوٹی کر رہا تھا کہ ایک گاڑی تیز رفتاری سے اندر کی جانب آئی داؤد نے روکنا چاہا مگر گاڑی کے بریک فیل ہو گئے تھے وہ اس کے اوپر چڑ گئی. شکر ہے یہ پیچھے کو سیدھا گر گیا گاڑی اوپر سے گزر گئی.. ایک آدمی نے بتایا.
تو پھر یہ بازو پر پالستر کیوں چڑھایا هے. نسرین داؤد کا ٹوٹا. بازو دیکھ کر بولی.
وہ بھابھی اس نےبازو کھولے ہوئے تھے گاڑی اوپر سے گزر گئی ایک نے شرمندہ ھوتے کہا.
کیااااااا مطلب بازو چکنا چور هو گیا ہے.. نسرین نے چیخ کر کہا.
ارے نہیں بھابھی ایک ہی ہڈی ٹوٹی ہے ڈاکٹر کہتا ہے ہفتہ دس دن میں ٹھیک هو جائے گا.. پہلے آدمی نے کہا.
ایسے کیسے ٹھیک هو جائے گا یہ ساری آفتیں میری ہی نصیب میں کیوں لگی ہے آااہاااہا
نسرین تو بین کرنے لگی..
ارے یہ کیا رونا دھونا شروع کر دیا ہے یہ نہیں کہ پانی پلا دے. داؤد نے نقاہت سے کہا..
نسرین کو اپنی غلطی کا احساس ہوا مگر دوسرے ہی پل.
ہاں تمہیں تو لگ رہا ھوگا ڈرامہ کر رہی ہوں مجھے تیری پرواہ نہیں..
ارے میں نے ایسا کب کہا.. میں تو پانی مانگ رہا ہوں..
کہا نہیں.. مطلب تو وہی تھا.. نسرین اٹھی نہیں. وہیں بیٹھی باتیں بناتی رہی.. اس کی 6 سال کی بیٹی ثناء بھاگ کر باپ کے لیے پانی لے آئی تو داؤد نے پیا..
داؤد کراہتے ہوئے وہیں چار پائی پر لیٹ گیا کیونکہ اسے چوٹیں کافی لگی تھی بازو کے ٹوٹنے کے علاوہ سر میں گہری چوٹ تھی کمر پہ خراشیں تھی اور ٹانگ زخمی تھی..
نسرین تو اسے دیکھ کر دکھی هو گئی تھی وجہ اس کو چوٹیں لگنا نہیں بلکہ اب مسلسل اس کا گھر رہنا تھا..
اوپر سے آج کی خوشی بھی مٹی هو گئی تھی....

دیکھو. اب میری بات تمہیں ماننی پڑے گی اب گھر کا گزارا مشکل ہے تم ہاں کہو یا نہ میں کل سے کام کرنے جا رہی ہوں.. نسرین نے فیصلہ سنایا
تجھے اتنی جلدی کام دے گا کون.. داؤد نے ہار مانتے ہوئے کہا..
میں نے پتہ کروا لیا ہے ایک گھر کو ضرورت ہے کام والی کی.
دیکھ نسرین بچے چھوٹے ہیں اور اب تو مجھے بھی ضرورت ہے تمہاری.. داؤد نے ایک بہانا اور بنایا.
بچوں کی تم فکر نہ کرو ثناء سمبھال لے گی اور میں نے بھی ایک گھنٹے میں کام ختم کر کے آ جانا ہے کون سا سارا دن رہوں گی وہاں.. نسرین نے لاپرواہی سے کہا.
اچھا تم فیصلہ کر ہی چکی هو تو میری بھی ایک شرط ہے..
داؤد نے کہا.
دیکھو یہ شرط ورط اپنے پاس رکھو.. مجھے پتہ ہے تمہاری شرط. نسرین چڑ کر بولی.
اچھا کیا شرط ہے میری..
یہ ہی نا کہ میں اس ہندو کے گھر کام نہ کروں.. تو پہلے بتا رہی ہوں نہیں کرتی.. اب خوش.
نسرین نے اپنا میدان صاف کیا.
داؤد کے پاس اب اسے روکنے کا کوئی بہانہ نہیں بچا تھا اس لیے منہ دوسری طرف کرکے لیٹ گیا..
نسرین فاتحانہ انداز میں اس کی پشت دیکھنے لگی..

دوسرے دن نسرین وقت پہ پاروتی کے گھر میں موجود تھی..
پاروتی نے اسے چائے دی تو اس نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ باجی ابھی پی کر آئی ہوں..
مجھے پتہ ہے تم مسلم ہندوؤں کے برتنوں میں کھانا پینا پسند نہیں کرتے.اسی لیے میں نے تمہارے لئے نیا ڈنر سیٹ نکالا هے.. پاروتی نے نسرین کو نیا ڈنر سیٹ دکھایا..
ارے نہیں باجی ایسی کوئی کوئی بات نہیں نسرین نے اٹکتے ہوئے کہا
ارے رہنے دے میں بھی اسی ملک میں رہتی ہوں اور اچھے سے جانتی ہوں.مسلم لوگوں کو . پاروتی نے کہا. نسرین خاموش ہو گئی.
اچھا دیکھ تو لے میں نے جو تیرے لیے ڈنر سیٹ نکالا ہے..
جی باجی.
ڈنر سیٹ واقعی بہت خوبصورت تھا پتھر کا ہلکے گلابی رنگ کا جس پہ گلاب کےبڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے..
نسرین برتن دیکھ کر دیکھتی راہ گئی. باجی یہ میرے لیے نکالے ہیں.
وہ سیٹ پارو کا فیورٹ سیٹ تھا مگر اس وقت اپنی زندگی زیادہ عزیز تھی اور نسرین کو شیشے میں اتارنا ضروری تھا..
ہاں تمہارے لیے پاروتی نے مسکراتے ہوئے کہا..
نسرین تو دیوانی هو گئی باجی پاروتی کی.. اب جب بھی کچھ کھانا هو ان میں کھا لینا.. اور ان کو ہمارے برتنوں سے الگ رکھ لینا.
جی باجی.. کہہ کر وہ برتن اٹھانے لگی..
پتہ هے باجی کل میرے مرد کے اوپر گاڑی چڑھ گئی. برتن اٹھاتے ہوئے نسرین نے کہا.
هے بھگوان بچ تو گیا ہے زیادہ چوٹ تو نہیں لگی.. پاروتی نے فورن ہمدردی سے کہا..
بازو ٹوٹ گیا اور سر میں گہری چوٹ هے مگر بچ گیا. شکر ہے.. اس نے کچن سے آواز لگائی..
مر جاتا تو میرا کام اور آسان هو جاتا.. پاروتی نے زیر لب کہا..
اب کیسا ہے اس نے بلند آواز میں پوچھا..
اب ٹھیک ہے گھر پہ ہے بچوں کے پاس.. نسرین نے کہا.
مطلب آج اس کی اجازت سے آئی هو کام پہ.. پاروتی نے حیرت سے پوچھا
اجازت کیا دینی اس نے میں نے فیصلہ سنا دیا جو اس نے مان لیا.. نسرین نے فخریہ کہا.
چل یہ تو اور بھی اچھی بات ہے اب تجھے بچوں کی فکر نہیں رہے گی آرام سے کام کر لے گی.. پاروتی بولی.
ہاں یہ تو ہے باجی..
دو گھنٹے میں نسرین نے سارا کام ختم کر دیا.. برتن صفائی استری وغیرہ..کپڑے
دھونے والا کام وہ ہفتے میں ایک دن کرتی ..
اچھا باجی میں چلتی ہوں داؤد کو دوائی دینی ہے..
ہاں ٹھیک ہے. جاؤ... وہ جانے لگی تو پاروتی کو کچھ یاد آ گیا.
ارے رکو نسرین.. وہ فریج میں سیب پڑے ہیں وہ لے جاؤ اپنے مرد کے لئے بچے بھی کھا لیں گے..
شکریہ باجی.. کہہ کر اس نے ایک کلو سیب جو پارو اپنے لیے کل لائی تھی لے لیے.آپ بہت اچھی ہے باجی رب لمبی زندگی دے.. اس نے دل سے دعا دی.
پاروتی ہنسنے لگی.
اچھا باجی رب رکھا.. نسرین نے کہا
گھر آ کر اس نے دیکھا تو ہر چیز بکھری پڑی تھی داؤد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا بچے بھی باپ کے ساتھ فل مستی کر رہے تھے.
کیا مصیبت ہے باہر کا کرکے آؤ تو یہاں یہ سب چلو اٹھاؤ یہ سب ثناء.. اس نے بےزاری سے کہا..
تو کس نے کہا ہے لوگوں کے گھروں میں کام کرو اپنے گھر کو سمیٹو. داؤد نے پھر آواز لگائی.
نسرین منہ بنا کر سب سمیٹنے لگی.
پھر اس کے پاس آکر بولی..تمہیں تو بہانہ چاہیے مجھے روکنے کا.. مگر یہ سوچو اس مہینے کرایہ کہاں سے دیں گے بچوں کا دودھ کہاں سے آئے گا اور راشن بلکل ختم ہو چکا ہے وہ کہاں سے آئے گا..نسرین نے سارے خرچے گنوا دیے.
یار نہ پریشان ہو میری فیکٹری والے تنخواہ نہیں کاٹیں گے انہوں نے وعدہ کیا ہے.. پھر میں بھی اگلے ہفتے سے کام پہ جایا کروں گا..
مجھے کہانیاں نہ سناؤ جب هو گا دیکھوں گی فلحال یہ سیب کھاؤ.. میری باجی نے تیرے لیے بھیجے ہیں. نسرین نے کہا.
نسرین روز پاروتی کے گھر جاتی اور ہر روز نئی سے نئی چیز اس کے گھر میں دیکھتی.. لالچ اور حسرت اس کی آنکھوں میں صاف صاف پاروتی کو نظر آتا..
باجی آپ کا مرد کیا کرتا ہے کہ روز نئی سے نئی چیزیں بھیجتا ہے. نسرین لالچ سے لارل ٹپکاتے ہوئے بولی.
نسرین یہ سب میرے مرد کا کمال نہیں یہ سب میری کالی ماتا کی دین ہے. اور میرے پنڈت کا چمتکار ہے.. پاروتی بولی.
کیا مطلب باجی.
مطلب یہ کہ میں جس ماتا کی بھگت ہوں یہ سب اس کی کریپا سے مل رہا ہے اور ہمارے پنڈت بہت پہنچے ہوئے سیدھ بابا ہے وہ جو منہ سے نکالتے ہیں پورا ھوتا هے..
اچھا باجی نسرین کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی راہ گئی.
ہاں نسرین.. ابھی تم نے دیکھا کیا ہے 3 دن تو ہوئے ہیں تمہیں میرے گھرمیں.. پاروتی اسے اندر تک جانتی ہوئی بولی..
جی باجی..
نسرین کام کرنے لگی..
کہاں تک پہنچی تیری کوشش.. پنڈت کی آواز پاروتی کے فون میں گونجی.
بس سمجھیں شکار ہاتھ لگ گیا ہے بس اسے شیشے میں اتارنا باقی ہے. پاروتی چہکی.
شاباش میں تجھے سونے چاندی اور موتیوں سے مالا مال کر دوں گا.. پنڈٹ نے قہقہہ لگایا..
سوامی جی اس بار انعام میں اپنی مرضی کا لونگی.. پاروتی اترائی.
چل ٹھیک ہے جو تو مانگے گی ملے گا.. بس بندی میرے کام کی ھونی چاہیے..پنڈٹ گرجا.
جی سوامی جی بلکل إپ کے کام کی هے پاروتی نے سرگوشی کی.
شاباش.. ویسے عمر کتنی بتائی تھی تم نے.. پنڈت سنجیدہ ھوتے ہوئے بولا..
ہو گی کوئی 24 یا 25 اس سے زیادہ نہیں هے بلکہ لگتی تو 22 کی هے.. 6 بچوں کی ماں ہے مگر ہے پٹاخہ. پاروتی ہنستے ہوئے بولی.
بہت اچھے بہت اچھے بس تم اسے لالچ دیتی رہو.. اور اس کے سامنے زیورات وغیرہ کی نمائش کرتی رہو.. پھنس جائے گی چڑیا جال میں.. پنڈٹ سمجھنے لگا..
آپ بے فکر رہیں سوامی جی.. مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی.. پاروتی کہنے لگی.
کون سی بات.. پنڈت گرجا.
جب آپ نے اس کی بلی ہی چڑھانی هے تو پھر اسے اتنا لالچ دینے کی کیا ضرورت ہے بے ہوش کرکے لے آتی میں.. پاروتی پرسوچ انداز میں بولی..
ہاہاہا ہاہاہاہا تجھے کس نے کہہ دیا میں نے اس کی بلی دینی ہے.. وہ تو سالہا سال زندہ رہے گی اور رہے گی بھی اپنے ہی گھر میں مجھے صرف اس سے ایک چیز چاہیے جو وہ لالچ میں آ کر ہی دے گی.. پنڈت مکروہ ہنسنی ہنستے ہوئے کہنے لگا..

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے