پنڈت فون بند کر کے بلند آواز میں قہقہ لگاتے ہوے خود سے ہی کہہ رہا تھا
اس بار مجھے امر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا. ہاہا ہا ہا ہا.. یہ بے وقوف کیا جانے میرا ارادہ کیا ہے..
یہ سمجھتی ہے یہ اسے لالچ دے کر میرے پاس لا رہی ہے.. مگر اس کو کیا معلوم کہ اسے میں یہاں بیٹھا مجبور کر رہا ہوں
ہاہا ہا.. بلرام نام ہے میرا. میں سب کچھ اپنے بَل پہ کرتا ہوں
ارے پاروتی تو میرے ہاتھ کی کٹھ پتلی ہے کٹھ پتلی .. تجھے کیا لگتا ہے تو مجھ سے کوئی بات چھپا سکتی ہے.. ہاہاہاہا... کبھی نہیں کیونکہ میں تیری آنکھوں سے سب کچھ دیکھتا ہوں جو تو دیکھتی ہے تیرے ہاتھوں سے سب کچھ کرتا ہوں جو تو سمجھتی ہے کہ تو کرتی ہے.. ہاہاہاہا.. پنڈت فخریہ انداز میں اپنی ٹنڈ کے درمیان میں کچھ بالوں کی لمبی چوٹی سے کھیلتے ہوئے کہہ رہا تھا
اچانک پنڈت کو کچھ یاد آیا تو اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ جلدی سے تہہ خانے میں گیا
وہاں مورتی کے پیروں میں رکھا لال رنگ جسے وہ گولال کہتا تھا اٹھا کر مٹھی بھری اور منہ کے سامنے کرکے آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھنے لگا.. پھر یک دم آنکھیں کھول دی اس کی آنکھیں لال انگارہ لگ رہی تھی. اس نے وہ گولال زور سے سامنے کی طرف پھنکا..
گولال دھوئیں کا گولہ سا بن گیا پھر وہ گولہ ایک آدمی میں تبدیل ہو.. دھواں جھٹا تو سامنے ایک بدھی سی شکل کا مکروہ چہرے والا جس کی آنکھیں ایسے لگ رہی تھی جسے جلد کے اندر نہیں اوپر رکھی هو اور ان سے خون ٹپک رہا هو.. اس کے دو دانت منہ سے بار نکلے ہوئے تھے اور دونوں دانتوں کے درمیان زبان لٹک رہی تھی. وہ پنڈت کے سامنے جھک گیا.
لگتا ہے تجھے اپنی آزادی پیاری نہیں بھوانی... پنڈت اسے دیکھ کر گرجا.
مجھ سے کیا آپرادھ ہوا ہے سوآمی.
وہ جسے پنڈت نے بھوانی کہا تھا سہم گیا..
آپرادھ... میں نے تجھے کہا تھا اس مُسلے کی ٹانگیں توڑ دینا.. اسے آدھ مرا بنا دینا.. اور تم نے صرف اس کا بازو توڑا.. پنڈت گرجا..
سوآمی شمااااابھوانی پنڈت کے پیروں میں بیٹھ گیا .. میں نے وہی کیا جو آپ نے حکم دیا.. مگر اب وہ ایک سائڈ کو گرنے کی نجائے سیدھا گرا اور گاڑی اس کے اوپر سے گزر گئ تو اس میں میرا کیا قصور.. بھوانی منمنایا..
اچھا اااا اب تو مجھے بتائے گا کہ کس کا قصور ہے.. یاد رکھ اگر میں چاہوں تو تجھے یہاں ابھی اسی وقت بھسم کر سکتا ہوں مگر تو میرا لاڈلا هے اس لیے اس بار معاف کر دیتا ہوں مگر اگلی بار ایسی غلطی نہیں ھونی چاہیے جتنا کام دوں ہر حال میں پورا کرو
جی سوآمی
اب دفع ہو جا.. پنڈت دھاڑا.. بھوانی غائب ہو گیا
سوچا تھا پتی کی ٹانگیں ٹوٹ جائیگی تو بچوں کو بھوکا دیکھ کر جلدی آ جائے گی میری طرف.. مگر لگتا ہے کالی ماتا میری پریکشا لے رہی ہے.. پنڈت مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا
. دوسری طرف پاروتی کنفیوز سی موبائل کو دیکھ رہی تھی کہ یہ مووا پنڈت کن چکروں میں ہے
اگر اس نے بلی نہیں دینی تو پھر اس نے اس کے ساتھ کرنا کیا ہے.. وہ سوچنے لگی. خیر مجھے کیا جو مرضی کرے مجھے اپنے مطلب سے مطلب ہے.. اس نے کندھےاچکائے.
باجی میں چلتی ہوں میرا کام ختم ہو گیا..نسرین کچن سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی نکلی اور گھر جانے کے لئے تیار کھڑی تھی
اچھا ٹھیک ہے جاؤ اور صبح زرا جلدی آ جانا. پاروتی کہنے لگی.
نسرین اپنا سا منہ بنا کر گھر سے نکل آئی. کیونکہ اس نے فریج میں انگور دیکھ لیے تھے اور دل میں سوچ چکی تھی کہ یہ باجی مجھے دے دے گی مگر پاروتی نے نہیں دئے
سچ میں انگور دیکھکر منہ میں پانی آ گیا تھا عرصہ ہی ہوا ہے کھائے ہوئے مگر پارو باجی نے بھی صلح نہیں ماری.. راستے میں نسرین بڑابڑاتی جا رہی تھی.
ہفتے بعد بھی داؤد کا بازو ٹھیک نہیں ہوا. مگر اب اس نے سوچا کہ کام پر جانا چاہیے کب تک چھٹیاں کرتا رہے گا.
اسی سوچ کے ساتھ وہ فیکٹری پہنچا.. اس نے دیکھا گیٹ پر وہ آدمی نہیں جس کو اس نے اپنی جگہ پر کھڑا کیا تھا.. وہاں تو کوئی اور ہی لمبا چوڑا پہلوان قسم کا آدمی ہاتھ میں بندوق لیے کھڑا تھا
داؤد سیدھا فیکٹری کے فورمین کے پاس گیا
صاحب آپ نے میری جگہ کسی اور کو رکھ لیا ہے
ہاں تو کیا تمہارے انتظار میں گیٹ خالی رہنے دیتے.. فورمین روکھے انداز میں بولا..
نہیں صاحب مگر آپ نے وعدہ کیا تھا میری نوکری نہیں جائے گی اور مجھے تنخواہ بھی ملے گی
دیکھو داؤد مجھے تمہارے ساتھ پوری ہمدردی هے مگر میرے اوپر بھی مالک لوگ ہیں ان کی میں کیسے ٹال سکتا ہوں میں بھی ملازم بندہ ہوں.. فورمین نے کہا.
داؤد سر ہلا گیا
فورمین نے جیب سے 400 روپے نکالے اور اسے دیتے ہوئے.
یہ میری طرف سے رکھو اپنی دوائی کے لیے اور میں وعدہ کرتا ہوں جب بھی ورکر کی ضرورت ہوگی میں تجھے بولا لونگا اس کے علاوہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا معاف کرنا
مگر صاحب میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں
جانتا ہوں میرے بھائی ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ہم بھی مالک لوگوں کی نہیں ٹال سکتے اس بندے کو مالکان نے رکھا ہے..
اب جاؤ مجھے بہت کام ہیں فور مین نے اسے نکالتے ہوئے کہا.
داؤد بیچارا اپنا سا منہ لے کر گھر کی طرف چل دیا.. اسے نوکری جانے سے زیادہ نسرین کے طعنوں سے ڈر لگ رہا تھا..
مجھے پہلے ہی پتہ تھا وہ بے غیرت لوگ ایسا ہی کریں گے.. کون کسی اپاہج کو نوکری دیتا ہے.. نسرین نے سنا تو آگ بگولہ هو گئی..
تو ناں پریشان ہو میں کہیں اور ڈھونڈ لونگا بہت جلد. داؤد نے کہا.
کہاں سے ڈھونڈ لوگے کوئی نہیں دیتا نوکری کسی ہاتھ ٹوٹے کو. نسرین پھر دھاڑی.
ہوا بھی وہی داؤد جہاں نوکری کی تلاش میں جاتا وہاں سے انکار ملتا..
کوئی ہنر تھا نہیں ہاتھ میں کے کام کر سکتا. اسی لیے جگہ جگہ نوکری ڈھونڈنے جا رہا تھا. اسی میں ایک ماہ گزر گیا
گھر میں جو پیسے تھے ختم ہو گئے. پاروتی کے گھر سے 500 روپے ملے وہ کرایہ وغیرہ راشن دودھ میں چلے گئے.
دوسری طرف پاروتی کو جب پتہ چلا کہ حالات خراب ہو گئے ہیں اس نے ہاتھ کھینچ لیا
کسی اور گھر میں کام مل نہیں رہا تھا وہ سب کہتے ہندو کے گھر سے کام چھوڑ کر ہمارے گھر کرنا ہے تو ملے گا ورنہ نہیں
نسرین بلکل پاگل ہو گئی تھی کام ڈھونڈ ڈھونڈ کر
مگر وہ پاروتی کے گھر کا کام چھوڑ نہیں سکتی تھی کیونکہ ہر کوئی 200 300 سے زیادہ نہیں دے رہے تھے جبکہ یہاں سے 500 مل رہے تھے کیسے چھوڑ دیتی..
داؤد بھی صبح کا بھوکا پیاسا نکلتا رات گئے لوٹتا مگر خالی ہاتھ..
مجھے سچ میں نسرین تیرے حال پہ ترس آتا ہے.. کاش تو ہم میں سے ھوتی تو میں تجھے اپنے سوامی کے پاس لے جاتی وہ دنوں میں تیری کایا پلٹ دیتا.. مگر کیا کہہ سکتی ہوں.. پاروتی اسے پریشان دیکھ کر کہتی..
اگلے دن نسرین کے چھوٹے دونوں بچے اکٹھے بیمار ہو گئے.. دونوں کو تیز بخار اور الٹیاں برا حال
بھاگی بھاگی گئی پاروتی کے پاس
باجی مجھے تھوڑے پیسے ادھار دے دو میرے بچے بیمار ہیں.. باجی میری تنخواہ سے کاٹ لینا.. نسرین رونے لگ گئی.
ارے ارے روتے نہیں ہے
مگر سچ پوچھو تو میں نے رات ہی سارے پیسے اپنے میکے بھیج دیے میری بہن کی شادی هے.
پاروتی نے کہا..
میں بہت مجبور ہوں باجی آپ سب جانتی ہے.. بچوں کی بھوک تو دیکھی جا سکتی ہے مگر بیماری نہیں مجھ پر رحم کرو.. نسرین نے اس کے پیر پکڑ لیے..
ارے ارے یوں نا کرو تم میری بہن جیسی هو.. مگر میں بھی کیا کروں ہمممممم. اچھا رک میں کچھ کرتی ہوں.
پاروتی نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا
اس نے اپنے پنڈت کو فون ملایا. تب موبائل فون نہیں ھوتے تھےلین لائن ھوتے تھے.
ہیلو سوآمی جی مجھے آپ سے بہت ضروری کام پڑ گیا ہے..
جی جی وہ میرے گھر میں جو عورت کام کرتی ہے اس کے لیے تھوڑے پیسوں کی ضرورت تھی.. جی جی سوآمی جی.
اس کے بچے بیمار ہیں بہت
ہاں.. اچھا.. پوچھتی ہوں... پاروتی اسے ہی بات کر رہی تھی.
سنو نسرین...... جی باجی.
میرے سوآمی کہہ رہے ہے اگر پیسوں کے ساتھ ایک پھکی بھی بھیج دیں تو اسے پانی میں حل کرکے بچوں کو دے گی بچے فورن بھلے چنگے هو جائیں گے..
ایک ماں کو کیا چاہیے کہ اس کی اولاد ٹھیک ہو.. ممتا کے ہاتھوں مجبور نسرین فورن مان گئی.
جی سوامی جی بھیج دیں.. کہہ کر پاروتی نے فون رکھ دیا.
بس 10 منٹ میں پیسے آ جائیں گے.. کہا تھا نا میرا سوامی بہت دیالو ہے..
پاروتی نے فخر سے مسکراتے ہوئے کہا.
جی باجی بہت بہت شکریہ نسرین نے روتے ہوئے پارو کے ہاتھ پکڑ کر کہا.
ارے تو بہن هے میری تیری پریشانی میری پریشانی ہے پارو نے تسلی دی.
اتنے میں دروازہ کھٹکا. تو پارو نے جاکر دروازہ کھولا.. ایک آدمی 200 اور دو پڑیا دے گیا
لے نسرین تیرا کام هو گیا.. اب جلدی جاکر بچوں کو دوائی پلا.
پاروتی نے پیسے اور پھکی نسرین کو دیتے ہوئے کہا
نسرین پکڑ کر شکریہ کہتی ہوئی جلدی سے گھر بھاگی
گھر پہنچی تو بچے تقریباً بےہوش پڑے ہوئے تھے 2 سال کے بچے دو دن سے بخار الٹیاں کرکر کے برا حال تو بےہوش ہی ھونگے..
اس نے جلدی سے وہ پھکی چمچ میں ڈالی. پہلی نظر میں اسے وہ آگ کی خاک لگی مگر اس وقت اسے صرف بچے نظر آ رہے تھے. جلدی سے پانی ملایا اور بچوں کو پلا دی.
ابھی پانچ منٹ نہیں گزرے تھے کہ بچوں نے آنکھیں کھول دی ہنسنے کھیلنے لگے.. ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے یہ کبھی بیمار ھوئے ہی نہیں تھے.
نسرین بچوں کو دیکھ کر گلاب کی طرح کھل گئی.
وہ تو دلوں جان سے گرویدہ هو گئی.. پنڈت کی
دراصل یہ پنڈت کی ہی چال تھی
وہ اپنے جنات اور بدروحوں کی مدد سے کر رہا تھا یہ سب
تبھی اس کی دی ہوئی خاک سے بچے ٹھیک هو گئے..
نسرین گھر اور بچوں میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ اسے دین دنیا کی ہوش نہیں تھی
اماں اماں یہ دیکھو ثناء کو کیا ہوا.. نسرین کچن میں تھی جب چھوٹی بیٹی چلائی.
نسرین بھاگ کر آئی تو دیکھا ثناء کا پاؤں خون و خون ہوا تھا
ہائے یہ سب کیا ہوا ہے.. نسرین چلائی. اماں شیشہ لگ گیا.. آپا کی جوتی ٹوٹ گئی تھی تو ننگے پاؤں باہر گئی. شیشہ لگ گیا. چھوٹی نے بتایا.. جبکہ ثناء کا رو رو برا حال تھا.
نسرین نے پاؤں دھویا. شیشہ نکال کر مٹی لگائی اور اپنے دوپٹے سے کپڑا پھاڑ کر باندھ دیا
آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے پھر کیچن میں آ گئی....
ساری زندگی اسی کشمکش میں گزاری ہے اور ہمیشہ امید رکھی ہے اللّٰهُ کبھی تو حالات بہتر کرے گا
مگر اب میرا صبر جواب دے گیا ہے... سوچا تھا شادی کے بعد عیش کروں گی مگر شوہر بھی ایمانداری کا مریض ملا..اوپر سے اب آپاہج هو گیا ہے اور
اوپر سے یہ 6 بچے میری جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں
ان کو اس طرح گھوٹ گھوٹ جیتا نہیں دیکھ سکتی
نسرین آٹا گوندھتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی
مجھے کچھ تو کرنا هو گا
بچوں کو دوپہر کا کھانا کھلا کر انہیں گھر میں کھیلے کا کہہ کر وہ پاروتی کے گھر گئی
نسرین نے دروازہ کھٹکھٹایا.. اندر سے پاروتی منہ میں پان دبائے اپنی ساڑھی کا پلو لپیٹے نکلی
آؤ نسرین .. آؤ بیٹھو.. بچے کیسے ہیں اب تیرے..
پارو باجی میں بیٹھنے نہیں آئی مجھے آپ سے ضروری کام ہے..
ہاں بولو.... باجی میں آپ کے پنڈت سے ملنا چاہتی ہوں.
پاروتی کا منہ کھل گیا.. ہیں. تو کیوں ملنا چاہتی ہے تو تو مسلم ہے نا.. تیرا وہاں کیا کام
بس باجی تنگ آ گئی ہوں اس غریبی سے آپ مجھے ان کے پاس لے چلیں..
نسرین اتنا آسان نہیں ہے یہ سب تجھے کڑا امتحان دینا پڑے گا..
باجی میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں بس آپ میرے اس راز کو راز رکھنا..
پاروتی کے چہرے پر مکروہ ہنسی آئی.
ارے تیرا راز میرا راز ہے.. مگر پھر سے سوچ لے.. کیونکہ ایک بار تم وہاں چلی گئی تو وہی کرنا پڑے گا جو سوامی جی کہیں گے ورنہ ان کے پاس جو جنات ہیں وہ بندے کی نسلیں تباہ کر دیتے ہیں.. پاروتی نے کہا.
جی باجی سب سوچ کر آئی ہوں اب جو ھوگا دیکھا جائے گا..نسرین نے پختہ ارادے سے کہا..
اچھا ٹھیک ہے جیسے تیری مرضی.. مگر ابھی نہیں کل چلیں گے کیونکہ وہاں وقت لگ سکتا ہے اور تیرے بچے ہیں.. کل صبح صبح چلیں گے تاکہ دوپہر تک واپس آ سکیں.. پاروتی نے کہا.
ٹھیک ہے باجی کل چلیں گے.. نسرین نے کہا..
سنو نسرین.. اب فیصلہ کیا ہے تو پیچھے مت مڑنا برا هو گا.. پاروتی نے ڈرایا....
بےفکر رہیں باجی.. میں پیچھے نہیں ہٹتی.. نسرین نے دکھی لہجے میں کہا..
شاباش.. پاروتی ہنسی
اب فیصلہ کیا ہے تو پیچھے مت مڑنا برا هو گا.. پاروتی نے ڈرایا....
بےفکر رہیں باجی.. میں پیچھے نہیں ہٹتی.. نسرین نے دکھی لہجے میں کہا..
شاباش.. پاروتی ہنسی..
مجھے تجھ سے یہ ہی امید تھی.. اور ایک بات جاتے جاتے فریج سے بچوں کے لئے دودھ لے جاؤ .. میں نے صبح ہی لیا تھا. اپنے دودھ والے سے.. پاورتی محبت میں کہنے لگی.
جی باجی بہت شکریہ.. نسرین مشکور ہوتے ہوئے بولی..
گھر آئی تو داؤد بھی آ گیا.. اسے روٹی وغیرہ دی اور بچوں کو لے کر لیٹ گئی.
داؤد نے محسوس کیا آج نسرین کچھ چپ چپ سی اداس سی اور پریشان سی هے...
نسرین کیا بات ہے طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری. داؤد نے پوچھا.. کیونکہ ہر وقت بولنے لڑنے والا اگر خاموش ہے تو ضرور کوئی بات هے..
ہاں ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا.. نسرین نے روکھے انداز میں کہا.
نہیں مجھے لگ رہا ہے تیری طبیعت خراب ہے..
نہیں میری طبیعت بلکل ٹھیک ہے.. بلکہ مجھے تجھ سے ضروری بات کرنی ہے نسرین نے بات بدلتے ہوئے کہا.
ہاں کرو کیا بات ہے.
وہ کل میری باجی بچوں کے کپڑے وغیرہ لینے جا رہی ہے اور اس نے کہا ہے میں اس کے ساتھ چلوں.. نسرین نے بہانہ بنایا.
ہاں تو چلی جانا. داؤد نے کہا..
چلی تو جاؤں مگر پتہ نہیں کتنا وقت لگے.. پیچھے بچے اکیلے ھونگے اس لیے تم کل گھر پہ رہنا بچوں کے پاس میں کھانا پکا کر رکھ جاؤں گی اور دودھ بھی گرم کر جاؤں گی اگر مجھے دیر لگے تو بچوں کو بوتل میں ڈال پلا دینا.. نسرین سوچ میں ڈوبی ہوئی کل کا سارا پلان بتا رہی تھی.
ہاں ٹھیک ہے مگر کوشش کرنا جلدی آنے کی. داؤد نے کہا
ہاں جلدی آؤں گی.. اب میرے سر میں درد ہے میں سونے لگی ہوں. اس نے داؤد سے نظریں چرا کر کہا.
داؤد بھی سونے کے لیے لیٹ گیا..
دوسرے دن نسرین نے جلدی جلدی سارے کام ختم کیے بچوں کو کھلا پلا کر کھیلنے کا کہہ کر ثناء کو ساری بات سمجھا کر ہر چیز داؤد کو بتا کر گھر سے نکلی.
دل میں عجیب سے وسوسے خوف لیے وہ پاروتی کے گھر کی طرف جا رہی تھی پاؤں 10 10 کلو کے بھاری هو رہے تھے اندر سے ضمیر ملامت کر رہا تھا.. آنکھیں نم ہو رہی تھی..
مگر یہ سب کچھ بھی اس کے ارادے کو کمزور نہیں کر پا رہا تھا.
اسنے اپنے بچوں کو ہر خوشی ہر آسائش دینے کا فیصلہ کر لیا تھا. سوچ لیا تھا کہ جیسی زندگی میں نے گزاری ہے میرے بچے نہیں گزاریں گے. اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرے گی..
پاروتی کے گھر پہنچی تو پاروتی پہلے سے تیار کھڑی تھی.. جیسے وہ پہنچی اسے لیے چل پڑی...
باجی مجھے کام تو کر لینے دیتی واپسی پر دیر هو گئی تو گھر جاؤں گی کہ کام کروں گی نسرین چلتے ہوئے کہنے لگی.
نہیں ضرورت نہیں میں کام کر لیے ہیں اور جو باقی ہیں آکر کر لونگی. تم گھر چلی جانا.. پاروتی کہنے لگی.
نسرین اسے دیکھنے لگی.
ارے مجھے پتا چلا تھا سوامی جی کہیں جانے والے ہے تو سوچا پہلے تمہارا کام کروایا جائے پھر سوامی چلے بھی جائیں گے تو پرواہ نہیں تمہیں اس وقت زیادہ ضرورت ہے.. پاروتی نے بات بنائی.
شکریہ باجی آپ واقعی بہنوں سے بڑھ کر میرے لیے. نسرین نے کہا.
انسان ہی انسان کے کام آتا ہے پاروتی مسکراتے ہوئے کہنے لگی.
نہیں سب انسان ایسا نہیں سوچتے آپ واقعی بہت اچھی ہے.. نسرین نے کہا.
پاروتی ہنسنے لگی.
آدھے گھنٹے بعد وہ ایک عالی شان کوٹھی کے باہر کھڑی تھیں..
پاروتی نے گیٹ کے چوکیدار سے بات کی تو اس نے دونوں کو اندر جانے دیا..
نسرین نے ڈرنے ڈرتے اندر قدم رکھا.. کوٹھی کے اندر 2 گاڑیاں کھڑی تھی بہت بہت بڑی ایک طرف باغ بنا ہوا. جس میں پھل اور پھول سبھی لگے تھے.
کوٹھی کے اندر گئے تو اندر سے تو یہ کوئی بادشاہ کا محل لگ رہا تھا نسرین کی آنکھوں پھٹی کی پھٹی راہ گئی.
اس نے بہت کوٹھیاں دیکھی تھی کام کیا تھا مگر ایسی کوٹھی کبھی نہیں دیکھتی تھی.. ہر چیز ایسے چمک رہی تھی جیسے ہر چیز سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کی بنی ہوئی ہے..
نسرین پہ جو خوف طاری تھا سب غائب ہو گیا اور اس کی جگہ بے شمار لالچ نے لے لی وہ یہ سب کچھ چاہنے لگی اسے اب یہ سب کچھ چاہیے تھا..
جو حقیقت میں صرف ایک مایا جال تھا.. کیونکہ جو کچھ نسرین کو نظر آ رہا تھا اصل میں سب کچھ اس کے الٹ تھا.. وہ بھی عام سی کوٹھی تھی بلکہ فرنیچر بھی بہت پرانے زمانے کا تھا اور زیادہ تر خالی خالی تھی ایک پنڈت ہی رہتا تھا جو زیادہ وقت تہہ خانے میں چلے کاٹنے میں گزارتا تھا ایک نوکر تھا جو خود 80 85 سے زیادہ عمر کا تھا وہ کیا دیکھ بھال کر پاتا هو گا..
جہاں نسرین کو عطر کی خوشبوئیں آ رہی تھی وہ گرد اور بوسیدہ چیزوں کی بو تھی.
پاروتی نے نسرین کو دیکھا جو کھڑی بڑے اشتیاق سے چاروں طرف دیکھنے میں مصروف تھی.. اس نے اسےکہنی ماری تو نسرین اسے دیکھنے لگی.
آؤ بیٹھو پنڈت جی آتے ہونگے.. اس نے صوفے کی طرف اشارہ کیا..جو لکڑی کے معمولی سے صوفے تھے.
نسرین کو وہ لال ویلوٹ میں جڑھے ہوئے اوپر موتی لگے ہوئے نرم ملائم جسے پانیوں میں تیر رہے ہو کوئی بادلوں میں لہراتا ہوا شاہی تخت لگ رہا تھا.
وہ اس پہ ہاتھ پھیر رہی تھی.. وہ دل میں ڈر رہی تھی کہیں خراب نہ ہو جائے مگر چھونے سے خود کو روک نہیں پا رہی تھی.
اتنے میں پنڈت آ گیا.
ہاں بھئی پاروتی کیسے آنا ہوا پنڈت کی آواز گرجی تو نسرین اپنے حال میں واپس آئی.
سامنے ایک کالا کلوٹا بدها سی شکل والا. ماتھے پر سفید رنگ سے 3 لکیرے بنائے کانوں میں موٹی موٹی لوہے کی بالیاں پہنے پورے سر پر ٹنڈ صرف درمیان میں ایک چوٹی جو کندھے سے آگے کو لٹکائے ہوئے کپڑوں کے نام پر ایک لونگی پہنے ہوئے گلے میں موٹے موٹے منکوں والی مالا ڈالے ہوئے انسان کم کوئی ڈراؤنا جن جس کی عمر بھی 50 55 کے قریب تھی کھڑا پاروتی سے پوچھ رہا تھا..
پاروتی منمناتے ہوئے. سوامی جی یہ نسرین هے میری بہنوں جیسی اسے آپ کی مدد چاہیے.
میری مدد میری مدد اتنی آسانی سے نہیں ملتی اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں. پنڈت گرجا.
جی سوامی سب سمجھا دیا ہے یہ وہی کرے گی جو آپ کہیں گے. پارو نے کہا.
اچھی بات ہے.. پھر نسرین کی طرف متوجہ ہوا.. ہاں لڑکی کیا چاہیے تجھے.
نسرین نے پہلے پاروتی کی طرف دیکھا جو صوفے سے ٹیک لگائے سو چکی تھی. اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کے ابھی دو سیکنڈ پہلے باتیں کر رہی تھی اور اب اسے سو رہی ہے جیسے برسوں سے سو رہی ھو
اس کی چنتا نہ کر وہ تیری باتیں نہیں سن رہی تیری ہر بات تیرے میرے درمیان رہے گی.. میں کبھی کسی کی عزت کم نہیں ھونے دیتا دوسرے کی نظر میں.. پنڈت اپنائیت سے کہنے لگا..
نسرین پہلے تو گھبرائی مگر پھر پاروتی کی بات یاد آئی کہ پیچھے نہیں مڑ سکتی ورنہ برا ہو گا اور اس کا ثبوت اس وقت پاروتی خود بنی ہوئی تھی. اس نے ہمت کرکے کہنا شروع کیا..
سوامی جی میں بہت غریب اور مجبور عورت ہوں.. مجھے اس غریبی سے نکال دیں..
اور بول پنڈت سامنے بیٹھتے ہوئے بولا.
اور سوامی جی آپ جو کہیں گے میں کروں گی مگر مجھے میرے بچوں سے دور مت کیجیے گا. نسرین نے ہاتھ جوڑے..
اچھاااااہمممم اور. پنڈت نے پیچھے ٹیک لگائی
اور سوامی جی میں اپنا مزہب نہیں چھوڑ سکتی..
پنڈت یک دم سیدھا ہوا..
دیکھ نسرین میں تجھ سے کچھ نہیں چھپاؤں گا.. تجھے سب کچھ ملے گا تو جو مانگے گی ملے گا عزت دولت شہرت. سب ملے گا بنگلہ گاڑی سب ملے گا مگر اس کے لیے تجھے میرے لیے بھی کچھ کرنا پڑے گا... اور اس کے بعد یہ دھرم بھی چھوڑنا پڑے گا.. کیونکہ میرا منتر ہر دھرم پہ چلتا ہے مگر اس دھرم پہ نہیں... میں سب کو غلام بنا سکتا ہوں مگر اس دھرم کو نہیں
اب تو سوچ تمہیں دھرم چاہیے کہ دولت عزت شہرت بنگلہ گاڑی.. پنڈت نے حقیقت کے ساتھ ساتھ لالچ بھی دیتے ہوئے کہا
شکرالحمداللہ کے ہم اس مزہب میں پیدا ہوئے اور ہم امت محمد ہیں
جس سے مشرک کیا شرک بھی دور بھاگتا ہے
نسرین خاموش ہو گئی
پھر اس نے پنڈت کی طرف دیکھ کر کچھ کہنے لگی کہ پنڈت نے اسے بھی اپنے واش میں کر لیا.. اب وہ وہی کہتی جو پنڈت چاہتا تھا
پنڈت نے اس سے ایک کاغذ پر انگوٹھے لگوا لیے.. اور دوسرے پل اسے نارمل کر دیا.. کیونکہ اسے مسلم عورت پورے ہوش وحواس میں اپنی مرضی کے ساتھ چاہیے تھی .. نسرین کو پتہ نہیں چلا اس کے ساتھ ہوا کیا ہے
0 تبصرے