Subscribe Us

بد زبان - قسط نمبر 4

urdu stories online

بہت اچھی بات ہے اور بہت اچھا فیصلہ کیا ہے تم نے.. اور اب تو تم نے میرے ساتھ معاہدہ بھی طے کر لیا ہے.. پنڈت نے کاغذات اسے دیکھاتے ہوئے کہا.
معاہدہ.. نسرین حیران ہوئی
ہاں معاہدہ میں کوئی کام کچا نہیں کرتا.. کل کو تم نے کہہ دیا کہ میں نے زبردستی کی هے یا مجھ پر پولیس لے آئی تو میرے پاس ثبوت ھونے چاہیے اپنے بچاؤ کے لیے.. پنڈت ہنستے ہوئے کہنے لگا
نہیں سوامی جی میں ساری کشتیاں جلا کر آئی ہوں.. نسرین نے دکھ سے کہا..
بے فکر ہو جاؤ اب تم میری ہو میری پراپرٹی.. اب تجھے غریبی کیا اس کی ہوا بھی چھو نہیں سکتی.. پنڈت نے فخر سے کہا اور اٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا..
نسرین کچھ کَسمسائی
پنڈت پھر سامنے بیٹھ گیا.. چہرے پر فخریہ مسکراہٹ سجائے.
مجھے کرنا کیا هو گا سوامی جی.. نسرین نے گھبراتے ہوئے پوچھا..
تمہیں ایک دن کے لئے مجھے اپنا پتی بنانا هو گا.. پنڈت گرجا..
جی ی ی ی ی... نسرین نے حیرت سے کہا.
ہاں تمہیں صرف ایک دن یا کچھ گھنٹوں کے لیے مجھے اپنا پتی بنانا هو گا.. مجھے ایک بچہ چاہیے اپنا تجھ سے بس
پنڈت نے گرجتے ہوئے کہا
مگر سوآمی جی
اگر مگر کچھ نہیں جو کہا ہے کرنا ھوگا.. وہ بچہ بھی صرف 3 ماہ تیرے پیٹ میں رہے گا پھر میں لے لونگا اور تو آزاد هو جائے گی.. پنڈت نے حتمی فیصلہ سنایا..
3 مہینے کے بعد ہی آپ کیسے لے لیں گے.. نسرین نے حیرت سے کہا..
وہ تم مجھ پر چھوڑ دو وہ میرا کام ہے تجھے جو کہا ہے وہ کرو. پنڈت نے کہا..
اس کے بعد مجھے مزہب نہیں چھوڑنا پڑے گا.. نسرین کہا.
کہا تھا نا وہ چھوڑے گی تو ہی تجھے امیر بنا سکتا ہوں تجھے اپنا علم دے سکتا ہوں.. پنڈت نے سمجھایا
سوامی جی اگر میرے مرد کو پتہ چلا میں نے مزہب چھوڑ دیا ہے تو وہ مجھے چھوڑ دے گا اور بچے مجھ سے چھپن لے گا.. اور اگر میرے بچے میرے پاس نہیں رہیں گے تو میری ساری قربانی بے کار ہے پھر مجھے کچھ نہیں چاہیے..
نسرین رونے لگی
پنڈت کچھ سوچنے لگا پھر بولا
ایک کام اور هو سکتا ہے پھر
جی سوآمی
میں تجھے کچھ سدھیاں سیکھا دیتا ہوں تو وہ عمل کرکے لوگوں کا علاج کرنا لوگوں کی پیرنی بن جا
اندر سے کافر مگر دکھاوا حاجن.. ہاہاہاہا
انہیں تعویز دھاگے کرکے دیا کرنا..اس سے تیرے پاس دولت بھی آ جائے گی اور شہرت بھی.. تیری اسی دولت میں میں مزید دولت کا اضافہ کرتا رہوں گا.. اس طرح کسی کو تم پہ شک بھی نہیں ھوگا اور تیرے بچے اور مرد تیرے پاس رہے گا.. پنڈت نے گہرائی سے سمجھایا
نسرین کی آنکھیں چمکنے لگی جی سوآمی جی یہ ٹھیک رہے گا کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں مزہب تبدیل کر چکی ہوں.. اور کس علم سے علاج کر رہی ہوں..
ہاں بلکل.. پنڈت نے کہا
بہت شکریہ سوامی جی آپ نے میری مشکل آسان کر دی..
نسرین بولی
مشکل اتنی جلدی آسان نہیں ہوئی.. پنڈت ہنسا.
مطلب
مطلب یہ کہ جیسے تم نے دھرم چھوڑا تیرا نکاح ختم ہو جائے گا تجھے وہ بھی چھپانا هو گا اور میرے پاس سدھیاں سیکھنے آنا پڑے گا روز..پنڈت نے کہا
جانتی ہوں سوآمی جی وہ نہ رہے میرا مرد مجھے پرواہ نہیں بس میرے بچے میرے پاس رہیں بس ..نسرین نے کہا
اور روز کیسے آ سکتی ہوں سوآمی جی آپ مجھے بتا دینا میں پاروتی باجی کے گھر کرتی رہوں گی
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا میرے سامنے بیٹھ کر سیکھنی ہوگی.
چل تیرے لیے کچھ قربانی ہم بھی دے دیتے ہیں میں تین مہینے پاروتی کے گھر رہنے آ جاتا ہوں وہاں جتنی دیر تم کام کرتی هو اتنی دیر ہم دھیان کریں گے.. ٹھیک ہے.. پنڈت نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے کہا..
جی سوآمی جی ٹھیک ہے
اب پہلا کام کر لیں.. پنڈت بولا
پہلا کام نسرين نے حیرت سے دیکھا.
کہا تھا مجھے بچہ چاہیے.. پنڈت گرجا.
مگر سوامی جی ایک دن میں یا کچھ گھنٹوں میں بچہ آئے گا اس کی کیا گارنٹی ہے.. نسرین نے کہا
ہاہاہاہا تم میرے علم کو جانتی کہاں هو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں تجھے بس میری ہاں میں ہاں ملانی ہے..اور اٹھ کر تہہ خانے کی طرف چل پڑا.
نسرین ناچاہتے ہوئے بھی پیچھے چل پڑی
پنڈت ایک کمرے میں گیا وہاں ایک طرف بیڈ لگا ہوا تھا کپڑوں کی الماری ایک طرف کرسیاں رکھی ہوئی تھی دیکھنے میں بیڈروم لگ رہا تھا.
پنڈت نے بیڈ کے پیچھے رکھی مورتی کو گھمایا تو بیڈ کا بستر ایک طرف کو هو گیا اور وہاں نیچے کا دروازہ بن گیا پنڈت وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے بھی پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور اتر گیا
نسرین بھی سیڑھیاں اترنے لگی
سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا دل لرز رہا تھا وہ آہستہ آہستہ ایک ایک سیڑھی پہ رک رک کر اتر رہی تھی
پیدائشی مسلمان تھی اسے یہ دولت بن مانگے بن قربانیاں دئے ملی تھی ماں باپ بھی ان پڑھ تھے اسی لئے اس دین کی قیمت بتا نہیں سکے.. نفسانفسی کا دور جب سے ہوش سنبھالا تب سے دیکھ رہی تھی.. ماں باپ کو بھی کبھی کبھار نماز قرآن پڑھتے دیکھا تھا جب کسی کی موت هو جاتی یا پھر کوئی بڑی مشکل پیش آتی.. ایمان کی کمزوری اسے وراثت میں ملی تھی.. خود تو جب ہوش سمبھالا تو بچپن میں قرآن پاک پڑھا پھر کھول کر نہیں دیکھا اور نماز تو کبھی یاد ہی نہیں کے پڑھی هو.. نہ ہی شوہر کی طرف سے دباؤ تھا کہ چلو اس کے کہنے پر ہی دین کی اہمیت پتہ چلتی. وہ بھی بس نام کا مسلمان تھا
اسی لئے تو آج ضمیر کی تڑپ بھی اسے روک نہیں پا رہی تھی
پنڈت پہلے ہی نیچے اتر چکا تھا وہ جب درمیان میں پہنچی تو نیچے سوائے اندھیرے کے اسے کچھ دیکھائی نہیں دے رہا تھا وہ وہیں رک گئی
پنڈت نے ایک مشال لی اور مورتی کے سامنے رکھے دیے سے جلا کر دیوار میں لگی کئی مشالیں جلا دی.. پورے ہال میں ہلکی ہلکی روشنی بھر گئی
نسرین نے نیچے اترنا شروع کر دیا

سیڑھیوں کے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک دیو قدامت مورتی رکھی ہوئی تھی.. مورتی بلکل برہنہ تھی عورت کے جسم کے مطابق بنائی گئی یہ مورتی.. کوئی 8 ہاتھوں والی کالی کلوٹی لمبی عورت لگ رہی تھی جس کے بال کھولے اوپر والے بازوں پہ گرایے گئے تھے. 4 ہاتھ ایک طرف 4 ایک طرف تھے. موٹی موٹی آنکھیں جن سے لال رنگ کے انگارے نکل رہے تھے لمبے لمبے دانت منہ سے باہر نکل رہے تھے اور ان دانتوں کے درمیان سے کوئی ڈیڑھ فٹ لمبی زبان لٹک رہی تھی
مورتی کے سارے ہاتھوں میں ہتھیار دیے ہوئے تھے.. خنجر کلہاڑی نیزہ اور پتہ نہیں کیا کیا
اس کے پیروں میں بھی ایک مورتی تھی جس پہ وہ پیر رکھے کھڑی تھی ایک ہاتھ میں کسی شیطان کی کھوپڑی پکڑی ہوئی تھی.. َ
، اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ
اچھا خاصا انسان دیکھ کر بے ہوش ہو سکتا تھا
نسرین نے بھی دیکھ کر جھرجھری لی
آؤ نسرین آؤ اور نئی زندگی میں قدم رکھو.. پنڈت خوشی میں گرجا.
نسرین ہال کے درمیان بھی کھڑی ہو گئی اور چاروں طرف دیکھنے لگی چاروں طرف مورتیاں ہی مورتیاں تھیں
کوئی کیسی تو کوئی کیسی
کسی میں جسم انسانی کا منہ شیر کا.. کسی بھی منہ انسان کا اور دھڑ بندر کا تو کوئی 6 ہاتھوں والا ہاتھی جس کا منہ ہاتھی کا دھڑ انسان کا
ہال کے دوران میں زمین پر پنڈت نے آگ جلا رکھی تھی اس کے اردگرد تھالوں میں پتہ نہیں کیا کیا رکھا تھا پاس انسانی ہڈیاں کھوپڑیاں بھی پڑی تھی..
ہال میں بہت ہی گندی بدبو ا رہی تھی جیسے بہت سے مردے کئی سالوں سے رکھے هو اور گل سڑ گئے هو..
پنڈت پہلے اس آگ کے پاس بیٹھ گیا اور اس میں کوئی تیل یا گھی ڈال ڈال کر پڑھنے لگا وہ جیسے آگ میں کچھ ڈالتا آگ اور بھڑک اٹھتی اور کمرہ دھوئیں سے بھرنے لگتا
آدھا گھنٹہ پنڈت وہ عمل کرتا رہا. نسرین پاس کھڑی سب دیکھتی رہی
پھر پنڈت اٹھا اور نسرین کا ہاتھ پکڑ کر اسے بڑی مورتی کے پاس لے آیا..
کسی فرینڈ کو مکمل اسٹوری ایک ساتھ چاہیے تو میسینجر پے رابطہ کرلے
نسرین کا بھرا بھرا جسم دیکھ کر پنڈت کب سے رال ٹپکا رہا تھا ۔آخر اب اسے وہ لمحات میسر آہی چکے تھے جنکا وہ بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔
پنڈت نسرین کو بڑی مورتی کے سامنے لے گیا اور بوس و کنار کرنے لگا ۔۔
شاید پنڈت کو کافی سالوں بعد کسی عورت کا ساتھ نصیب ہو رہا تھا وہ حوس کا مآرا وحشیوں کی طرح نسرین کے جسم کو کاٹ رہا تھا۔۔
کافی دیر تک اپنے ہونٹوں اور دانتوں کی پیاس بجھانے کے بعد
پنڈت اسکے جسم کو اپنی مرضی سے بھمبوڑتا رہا اور پھر جب دونوں اس حوس بھرے کھیل سے فارغ ہوگئے تو پنڈت نے ننگی حالت میں ہی نسرین کو آگ کے پاس بیٹھا دیا اور اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کچھ منتر پڑھنے لگا..
پھر اٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھنے لگا..
پنڈت جو پڑھ رہا تھا وہ نسرین کے دماغ میں اتر رہا تھا.. یہ وہ کالا علم تھا جو آج کل بھی کئی جالی پیر اور ڈھونگی کرتے ہیں..
3 گھنٹے بعد پنڈت نے نسرین کو آزاد کر دیا اور اوپر پاروتی کے پاس لے آیا. جو ویسی سوئی پڑی تھی..
نسرین کے اندر جو تھوڑا بہت ضمیر بچا تھا وہ بھی مر گیا..
سنو نسرین میرے تمہارے درمیان جو بھی معاہدہ یا عمل طے پایا ہے اسے راز رکھنا تمہارا کام هے پنڈت سنجیدہ ھوتے کہنے لگا.
جی سوامی جی.. نسرین سر جھکائے بولی..
اور یہ سر جھکانا بند کر اب تو وہ نہیں جو پہلے تھی اب تو مالکن هے اب ہر چیز تیری غلام هے.. پنڈت گرجا..
اس نے پھر کچھ پڑھا اور سامنے پھونک ماری دو تین بد روحیں حاضر هو گئی..
پنڈت نے پھونک مار کر دو چڑیلوں کو حاضر کر لیا اور انھیں بولا کہ
سنو چمپا شیلہ.. آج سے نسرین کی دیکھ بھال تم دونوں کی زمےواری ہے اسے کسی چیز کی کمی نہ ہو اور اس کے عمل کو لوگوں تک مشہور کرو.. سمجھی.
جی سوآمی جی سمجھ گئیں. اور غائب ہو گئی..
اب یہ تینوں تیرے کام کو بڑھائیں گی.. تم بس جو عمل تجھے سیکھایا هے وہ پڑھ کر پھونکتی رہنا.. پنڈت نے نسرین کو سمجھایا..
اور ایک بات... بھول کر بھی اپنے دھرم کی طرف واپس مت جانا نہ اپنی کتاب کو ہاتھ لگانا.. ورنہ یہ علم تجھے اسی وقت بھسم کرکے رکھ دے گا.. پنڈت نے ڈرایا.
جی سوامی جی نہیں جاؤں گی بس آپ نظر رکھنا. نسرین بولی..
میری نظر 24 گھنٹے تم پہ ہیں خاص طور پر 3 4 ماہ.. اب تم دونوں جاؤ اور اسے بھی کچھ بتانے کی ضرورت نہیں.. پنڈت نے سرگوشی کی.
نسرین نے اثبات میں سر ہلا دیا اتنی دیر میں پاروتی اٹھ گئی..
میری پتہ نہیں کیسے آنکھ لگ گئی چلیں.. پاروتی بولی.
تو نسرین خاموشی سے آگے بڑھ گئی..
شام کے 4 بج گئے انہیں گھر پہنچتے..
داؤد نے بچوں کو اچھے سے سمبھالے رکھا.. نسرین گھر میں داخل ہوئی تو داؤد کے ساتھ ساتھ بچوں نے بھی ناک دبا لیے..
یہ تم کہاں سے آئی هو داؤد بولا.
نسرین گھبرا گئی. بتایا تو تھا بازار جا رہی ہوں..
بازار میں گئی تھی یا کسی گڑ میں گر کر آئی ہو.. اتنی بدبو آ رہی ہے تجھ سے..
نسرین نے خود کو سونگا مگر اسے کچھ محسوس نہیں ہوا.
لگتا ہے تمہارے دماغ میں رچ بس گئی ہے تبھی نہیں آ رہی جاؤ نہاو کپڑے بدلو.. داؤد نے کہا..
نسرین اٹھی اور نہانے چلی گئی..
وہ نہاتی جا رہی تھی اور اس کے دماغ میں ایک ایک چیز گھوم رہی تھی جو وہ کر کے آئی تھی..
نہا کر اس نے سفید رکھ کاسوٹ پہن لیا جو بلکل سفید کوئی داغ دھبہ نہیں تھا کپڑوں پہ..
بال خشک کرکے چادر بھی سفید ہی لپیٹ لی..
اس کی گندمی رنگت ان سفید کپڑوں میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی..
وہ بچوں کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگی..
دروازے پر دستک ہوئی تو داؤد نے دروازہ کھولا. تین عورتیں ساتھ ایک بچی لیے کھڑی تھی..
نسرین بی بی کا گھر یہ ہی ہے.. ایک نے پوچھا.
جی ہاں یہ ہی ہے داؤد حیرت سے بولا.
ہمیں ان سے ملنا ہے عورت نے ادب سے کہا.
جی آئیں داؤد انہیں اندر لے آیا...
ایک عورت بھاگ کر نسرین کے پیروں میں گر گئی..
واہ بی بی صاحب آپ نے کمال کر دیا.. میری بچی کے سر پر ہاتھ کیا رکھا میری بچی بھلی چنگی هو گئی.. وہ روتے ہوئے کہنے لگی.
داؤد کے ساتھ ساتھ نسرین اور بچے بھی حیران رہ گئے.
میں ےے نے.. نسرین منمنائی.
اج آپ بازار گئی تھی نا.. عورت نے کہا.
ہاں ااا نسرين نے داؤد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا.
تو ہم بھی وہاں تھے یہ میری بچی 4 سال سے چل پھر نہیں سکتی تھی ویل چیئر پر تھی ہم آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا جسم اور ٹانگ پر ہاتھ رکھا تھا نا..
اس عورت نے نسرین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تصدیق چاہی..
نسرین نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھ دبائی.. نسرین سمجھ گئی. کہ یہ وہی بد روحیں ہیں..
ہاں ہاں تو وہ میں نے محبت سے یوہی پھیرا تھا.. نسرین کہنے لگی.
بی بی صاحب آپ نے تو یونہی پھیرا میری بچی کی زندگی بدل گئی.. ہم نے کوئی ڈاکٹر کوئی حکیم دوا دارو نہیں چھوڑا مگر بچی ٹھیک نہیں ہوئی مگر آپ نے ہاتھ کیا رکھا میری بچی چلنے پھرنے لگی..
وہ عورت واری صدقے جا رہی تھی نسرین کے ہاتھ چوم رہی تھی.. اس نے دو نوٹوں کی گڈیاں نکالی اور نسرین کے پیروں میں رکھ دی..
بی بی صاحب قبول کرو.. منع مت کیجیے گا آپ کو آپ کے بچوں کی قسم..
نسرین نے داؤد کی طرف دیکھا جو ہاتھ باندھے یہ سب دیکھ سن رہا تھا..
نسرین نے پیسے اٹھا لیے.. اور ان کا شکریہ ادا کیا..
وہ دوسری عورتیں بھی نسرین کے پاس بیٹھ گئی اور زبردستی دم کروانے لگی..
نسرین بے یقینی کی کیفیت میں ہاتھ ان کے سر پر رکھ کر دم کرنے لگی..
کچھ دیر بعد وہ عورتیں چلی گئی اور جاتے جاتے دوسری بھی نوٹوں کی ایک گڈی دے گئی.
ایک دن میں نسرین کے پاس نہ ایمان رہا نہ عزت رہی نہ شوہر رہا اور آخرت کا تو اسے پتہ ہی نہیں تھا..
اور اب نوٹوں کی یہ گڈیاں شروعات تھی اس کی امیری کی..
ان عورتوں نے وہی کہانی بس اڈے پہ.
ریلوے اسٹیشن پر اور جہاں جہاں لوگوں کا ہجوم دیکھتی سنائی..
جو سنتا وہی اپنی پریشانی دیکھ کر وہاں جانے کی کوشش کرنے لگا..
پہلے پہل تو 5 10 لوگ آتے نسرین دم کرتی اور وہ جو ان کے پاس ھوتا دے کر چلے جاتے
دوسری طرف نسرین پاروتی کے گھر مزید علم سیکھنے لگی. پنڈت کو نسرین پہ نظر رکھنی تھی ساتھ بچے کی دیکھ بھال کرنی تھی اسی لئے وہ پاروتی کے گھر رہنے آ گیا تھا اور وہاں ہی نسرین کو کالے علم جادو ٹونے ٹوٹکے سیکھانے لگا..
پاروتی کے گھر میں پنڈت اور پاروتی سارا وقت سانپ کی طرح ایک دوسرے سے لپٹے رہتے تھے۔
جب پنڈت اپنی حوس پوری کر کر کے تھک جاتا تو اسی ناپاکی کی حالت میں ہی نسرین کو تنتر منتر سکھاتا ۔۔
بس یونہ سمجھ لو کہ نسرین پنڈت کی راکھیل بن چکی تھی۔
نسرین دن بدن ہر علم میں ماسٹر ھوتی جا رہی تھی اور پنڈت کو اپنا سب کچھ مانتی جا رہی تھی..
داؤد اب بچوں کی دیکھ بھال میں لگا رہتا کیونکہ نسرین کے پاس وقت کہاں تھا ان سب کے لیے.
صبح کے وقت وہ پاروتی کے گھر جاتی جب واپس آتی تو لوگوں کی لائنیں لگی ہوتی
پھر سر پہ سفید چادر اوڑھے اچھی طرح خود کو ڈھانپے ہاتھ میں تسبیح لیے جائے نماز بچھا کر بیٹھ جاتی اور لوگوں کو کالے علم کے تعویز دھاگے دم پانی کرتی جاتی..
ایک محلے سے دوسرے دوسرے سے شہر اور پھر دور دور اس کے چرچے ھونے لگے..
ہر کوئی اسے پہلے بی بی صاحب کہتا پھر کسی نے بیچ میں اٹھ کر بی بی حاجن کہہ دیا بس پھر وہ اسی نام سے مشہور هو گئی..
نسرین کے پاس بہت سے جن بدروحیں آ گئی جو اس نے پنڈت کے بتائے ہوئے چلے رات رات جاگ کر کیے اور ان کو قابو کیا..
نسرین نے ایک بہت عالی شان گھر تعمیر کروایا.. جس میں اس نے پنڈت کی طرح ہی تہہ خانہ اور مندر بنوایا..
گھر کے باہر اس کے نام کا بورڈ لگ گیا.. اسی سب میں 4 ماہ گزر گئے..
سوامی جی اب تو حمل 4 ماہ کا هو گیا ہے اور یہ نظر بھی آنے لگا ہے اگر میرے مرد کو شک هو گیا تو پھر. نسرین پنڈت کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی..
ہاں جانتا ہوں مجھے بھی اس کی بہت ضرورت ہے مگر آماوس کی رات سے پہلے میں اسے نہیں نکال سکتا.. اور آماوس 4 ماہ میں آئی کب هے.. پنڈت فکر مندی سے بولا..
تو کب هے آماوس. نسرین نے پوچھا..
اگلے ہفتے منگل کی رات کو ہے آماوس کی رات.. اس دن میں اپنی امانت تجھ سے لے لو گا.. پنڈت خوش ہوتے بولا..
اچھا شکر ہے نسرین نے سکھ کا سانس لیا.
َسن نسرین تجھے اس سے پہلے ایک کام کرنا ہوگا..
یہ منتر پوری رات ایک پاؤں پہ کھڑے ہو کر کرنا ھوگا..
کر پائے گی.. پنڈت نے ایک کاغذ پر منتر لکھا دیتے ہوئے کہا.
آج تک ایسا کون سا کام ہے جو آپ نے کہا اور میں نے نہیں کیا.. نسرین قریب ھوتے ہوئے بولی..
ہاہا ہا کیا ہے تو آج دولت میں کھیل رہی ہے پہلے تو لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی آج 2 عورتیں تیرے گھر میں کام کرتی ہیں.. پنڈت ہنسا.
جی سوآمی جی یہ تو سچ ہے.. اچھا میں چلتی ہوں لوگوں کا رش لگا ہوگا اور بچے بھی تنگ کرتے ھونگے باپ کو.. نسرین نے اٹھتے ہوئے کہا..
ٹھیک ہے مگر آج رات ہی وہ منتر کرنا ہے ٹھیک ہے.. پنڈت نے کہا..
جی.
داود کو نسرین پہ پہلے دن سے شک هو گیا تھا کیونکہ اسے وہ بدبو نہیں بھولی تھی. پھر اس کے بعد نسرین اس سے کھینچی کھینچی رہنے لگی.. اور پھر اچانک پیرنی بن جانا دولت کی ریل پیل اس کے باوجود اس کا کام کرنے جانا..
ایک گھر میں رہتے ہوئے ہفتہ ہفتہ بات نہیں هو رہی تھی.. داؤد اس گھر میں صرف اپنے بچوں کی وجہ سے تھا... کیونکہ اب بچے مکمل داؤد کی زمے داری بن گئے تھے..
نسرین وقفے وقفے سے ان کے کھانے پینے کا دھیان رکھ رہی تھی مگر ماں کی ممتا بچوں سے دور ہو گئی تھی..
بچے بھی آہستہ آہستہ ماں سے دور اور باپ کے قریب ھوتے جا رہے تھے..
نسرین جس کمرے میں تہہ خانے کا دروازہ تھا اسے موٹے سے تالے سے بند رکھتی تھی سب کو ہر جگہ جانے کی اجازت تھی سوائے نسرین کے کمرے کے سامنے بنے سٹور روم کے.. اس میں داؤد بھی نہیں جا سکتا تھا اور اب تو وہ رہتا بھی دوسرے کمرے میں تھا..
اس رات لوگوں سے فارغ ہو کر کھانا کھا کر اپنے کمرے میں آئی
تو داؤد نے فیصلہ کیا آج اس پہ نظر رکھوں گا یہ اکیلے کمرے میں کرتی کیا ہے..
جب نسرين کو لگا سب سو گئے ہیں وہ اٹھی اور باری باری سب کو چیک کیا سب کو سوتا دیکھ کر اس نے سٹور روم کا دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی داؤد بھی دبے پاؤں اس کے پیچھے گیا اس نے دیکھا
نسرین نے الماری کو دھکا دیا اور وہ پیچھے کو چلی گئی اور وہاں ایک دروازہ بن گیا جہاں سے سیڑھیاں نیچے کو جا رہی تھی نسرین آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی نیچے اتر گئی داؤد بھی اس کے پیچھے تہہ خانے میں آ گیا..
نیچے آیا تو جو منظر اس کے سامنے تھا دیکھ کر وہیں جم گیا داؤد کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی..
نیچے کمرے میں جگہ جگہ مورتیاں رکھی ہوئی تھی اور دیواروں پر مورتیوں کی تصاویر لگی ہوئی تھی ایک بہت بڑی مورتی جس کی زبان باہر کو لٹک رہی تھی..رکھی ہوئی تھی..
وہ نسرین جو اس کی بیوی تھی اور لوگوں کی بی بی صاحب اور بی بی حاجن تھی. برہنہ هو کر اس مورتی کی پوجا کر رہی تھی.
نسرین الف ننگی ہاتھ میں پلیٹ پکڑے ایک پاؤں پہ کھڑی کچھ پڑھ رہی تھی..
داؤد کے تو ہوش اڑ گئے..یہ سب دیکھ کر
دوسرے ہی پل غصے سے اس کی نسیں پھٹنے لگی وہ پیر پٹختا ہوا اوپر جانے لگا..
جیسے سب سے اوپر والی سیڑھی پر پہنچا.. نسرین کی بدروحوں نے ڈرا کر دھکا دے دیا..
داؤد پہلی سیڑھی سے لڑکھڑاتا ہوا نیچے نسرین کے پیروں میں آ گرا.
نسرین اسی حالت میں کچھ پڑھتی رہی اور اسے دیکھ کر مکروہ ہنسی ہنستی رہی..
داود کی ٹانگ بری طرح ٹوٹ چکی تھی اور وہ درد سے بلک رہا تھا مگر نسرین اپنے عمل میں مصروف رہی.
فجر کی اذان کے وقت اس کے پیر رکے اور وہ اس دائرے سے باہر نکلی.. کپڑے پہنے اور داؤد کے پاس بیٹھ گئی.
دور رہو مجھ سے بے غیرت عورت.. داؤد تکلیف میں بھی چلایا..
ہاہاہاہا مجھے بھی تیرے پاس آنے کا شوق نہیں تو ہی میرے پیچھے آیا تھا.. نسرین ہنستے ہوئے کہنے لگی..
میں صبح ہی سب کو تیرا یہ مکروہ چہرہ دیکھا دونگا. سب کو بتا دوں گا کہ تیری اصلیت کیا ہے..داؤد کراہتے ہوئے کہنے لگا..
تو ایسا کچھ نہیں کرے گا اور نا میں تجھے اس قابل چھوڑوں گی.. نسرین طنزیہ انداز میں کہنے لگی..
تو میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہندو عورت.. میں مسلمان ہوں.. داؤد دھاڑا..
ہاہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا مسلمان.. صرف نام کا مسلمان ہے تو کبھی مسلمان ھونے کا فرض بھی ادا کیا ہے.. کبھی اللّٰهُ کے آگے سر جھکایا هے.. کلمے کے علاوہ کیا پڑھتا ہے تو جو تو مسلمان هے.. نسرین نے اسے بالوں سے پکڑ کر کہا.
داؤد خاموش ہو گیا.
بس ایسے ہی خاموش رہے گا تو زندہ رہے گا ورنہ تجھے ختم کرنا میرے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے.. نسرین نے گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا..
اس سے تو اچھا ہے تو مجھے مار دے تیری شکل تو نہیں دیکھی پڑے گی روز روز. داؤد نے کہا..
 اب تجھے زندہ رکھنا پڑے گا کیونکہ اب تو روز یہ شکل دیکھے گا.. بس آج کے بعد نہ چل پائے گا نہ بول پائے گا..
نسرین نے نفرت سے کہا. اور وہیں مورتی کے پاس پڑے خنجر سے اس کی زبان کاٹ دی..
داؤد بلکتا رہا تڑپتا رہا مگر اسے اس پہ بلکل رحم نہیں آیا
اپنے جنات کی مدد سے اسے تہہ خانے سے باہر لائی اور چھت کی سیڑھیوں سے دوبارہ گرا دیا
داؤد سیڑھیوں سے گرتا ہوا آیا تو آواز سے نوکر اور بچے بھی اٹھ گئے. یہ دیکھ کر نسرین بھی بین کرنے لگی
دکھاوے کے لیے ڈاکٹر بلوا کر گھر پہ ہی پلاسٹر چھڑہا دئے داؤد اب بستر سے لگ گیا تھا نہ بول سکتا تھا نہ چل سکتا تھا اور نہ مر سکتا تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے