پہلوان اور مریدنی - پارٹ 5

urdu font stories

فیصلہ یہ ہوا کہ میں اور سب انسپکٹر راجندر دو کانسٹیبلوں کے ساتھ اندر جائیں گے اور شہباز پہلوان سے ہتھیار رکھوانے کی کوشش کریں گے۔ ابھی ہم اس منصوبہ بندی میں مصروف تھے کہ دائیں جانب جھاڑیوں میں آہٹ ہوئی۔ پھر ایک ساتھ کئی دھماکے ہوئے اور گولیاں سنسناتی ہوئی ہمارے سروں پر سے گزر گئیں۔ ایک گولی سب انسپکٹر درویش علی کے پیٹ میں لگی اور وہ تڑپ کر زمین پر جا گرا۔ ہم نے بھاگ کر درختوں کے پیچھے آڑ لینا چاہی تو پہلو کی طرف سے بھی گولیاں چلنے لگیں۔ چند لمحوں کے لئے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ 
 
گولیاں بستی کی طرف سے نہیں ڈیک نالے کی طرف سے آرہی تھیں، فائرنگ ایک دم شروع ہوئی تھی اور اتنی شدت سے ہوئی تھی کہ پولیس پارٹی تتر بتر ہوکر رہ گئی تھی ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بستی کی طرف سے بھی اکا دکا فائر ہونے لگے ۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون کس پر گولی چلا رہا ہے۔ ڈیک نالے کی طرف سے گاہے گاہے ست سری اکال کے نعرے بھی سنائی دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک عورت کے للکارے تھے جو چیخ چیخ کر کچھ کہہ رہی تھی۔ فائرنگ شروع ہوتے ہی میں اور بلال شاہ گیلی زمین پر اوندھے گر گئے تھے ۔ گولیاں ہمارے اوپر درختوں اور شاخوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ دھماکوں اور شور وغل سے سارا جنگل گونج رہا تھا، رہی سہی کسر خانہ بدوشوں کے کتوں نے پوری کر دی تھی۔ وہ بھونک بھونک کر آسمان سر پر اٹھا رہے تھے۔ 
 
صورت حال ابھی واضح نہیں تھی تاہم آثار سے یوں لگتا تھا کہ نشے میں مخمور سکھوں کے کسی جتھے نے خانہ بدوشوں کی بستی پر حملہ کیا ہے۔ دفعتا چند گز دور مجھے ایک ہیولا نظر آیا۔ میں نے ٹارچ روشن کی تو ایک ادھیڑ عمر سکھ روشنی میں نہا گیا۔ وہ اپنی دو نالی بندوق میں کارتوس بھر رہا تھا۔ میں اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ جالندھر کا سول جج ہری کرشن سنگھ تھا۔ یہ وہی کرشن سنگھ تھا جو جالندھر سے وچن سنگھ پہلوان کے ساتھ آیا تھا اور جب وچن سنگھ اکھاڑے میں شہباز کے ہاتھوں مارا گیا تو ہری کرشن سنگھ نے چلا چلا کر مجھے شہباز کو گرفتار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اب یہ جج صاحب قانون اپنے ہاتھ میں لئے ان تاریک درختوں میں کھڑے تھے اور میں انہیں دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔
 
خبر دار ۔ میں نے گرج کر کہا۔ میرا ریوالور ٹارچ کے آگے تھا اور حج ہری کرشن سنگھ اسے صاف دیکھ سکتا تھا وہ چونک کر سیدھا کھڑا ہوگیا ۔ اس دوران فائرنگ ایک دم رک گئی تھی۔ میں اُٹھ کر ہری کرشن سنگھ کے پاس پہنچا۔ جج صاحب، آپ یہاں؟“ اب وہ بھی مجھے پہچان چکا تھا۔ چندلمحوں کے لئے اس کے چہرے پر پریشانی کے سائے لہرائے لیکن پھر فورا ہی افسرانہ سج دھن واپس آگئی۔ وہ بارعب لہجے میں بولا ۔ ” یہی سوال میں تم سے بھی کر سکتا ہوں۔“میں نے کہا ۔ " ہم تو یہاں شہباز کی گرفتاری کے لئے آئے تھے۔" وہ بولا ۔ " ہم کو بھی یہی اطلاع ملی تھی۔"
لیکن پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا ہے۔ میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔ وہ قدرے حیرت سے بولا ۔ ” یہ میں تم سے ہی سن رہا ہوں کہ یہاں کوئی پولیس پارٹی بھی موجود ہے۔“ بستی کے اندر سے بلند ہونے والی گرج دار آوازوں نے ہماری گفتگو کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ٹارچ کی روشنی میں ہم بستی کی طرف بڑھے تو یہاں مسلح سکھوں کا جمگٹھا سا نظر آیا۔ ان کی تعداد بیس سے کم نہیں تھی۔ سب کے سب رائفلوں، کلہاڑیوں اور ریوالوروں سے مسلح تھے۔ 
 
ان میں ایک ہٹی کٹی عورت بھی تھی۔ اس نے مردوں کی طرح کمر سے گولیوں کی پیٹی باندھ رکھی تھی اور اکڑ اکڑ کر چل رہی تھی۔ جیسا کہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ہلاک ہونے والے پہلوان وچن سنگھ کی بڑی بھاوج تھی۔ اس نے سوگند کھا رکھی تھی کہ شہباز پہلوان سے اپنے دیور کی موت کا بدلہ ضرور لے گی۔ ان لوگوں کو بھی کل شام ہی پتہ چلا تھا کہ شہباز پہلوان اپنی ایک رشتے دار سے ملنے بدھ کی رات دیپالپور کے قریب خانہ بدوشوں کی بستی میں آئے گا۔ بجائے اس کے کہ اس بات کی اطلاع پولیس کو دی جاتی وچن سنگھ کے رشتے داروں نے خود ہی شہباز سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ پوری تیاری کے ساتھ یہ لوگ یہاں پہنچے اور بستی پر ہلہ بول دیا لیکن نشے میں چور ان حملہ آوروں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہاں پہلے سے پولیس پارٹی گھات لگائے بیٹھی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اندھیرے میں وہ پولیس پارٹی سے ہی ٹکرا گئے۔ یعنی ان سکھوں نے رات کے بارہ بجے کے قریب پورا پورا سکھوں والا کام کیا تھا۔ 
 
اس ہنگامے کا جو نتیجہ نکلا وہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ افراتفری کا فائدہ اُٹھا کر شہباز اور اس کے ساتھی با آسانی بستی سے فرار ہو گئے۔ یعنی دو مولویوں میں مرغی حرام ہو گئی۔ جب ہم بستی میں پہنچے تو وہاں شہباز تھا نہ اس کے ساتھی اور نہ نجمہ ۔ اس کے علاوہ ہنگامے میں سب انسپکٹر درویش علی اور وچن سنگھ پہلوان کے دو رشتے دار بھی زخمی ہوئے۔ بستی کے سانسی سردار تلکرام سے پوچھ گچھ کی گئی۔ وہ چرس اور تاڑی کا رسیا ایک بھیانک صورت والا شخص تھا۔ اس کی تین بیویاں تھیں۔ اس نے بتایا کہ ٹیک سنگھ علاقے کا خطرناک ترین شخص ہے۔ اس سے دشمنی مول لینا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ پولیس کی صورت تو یہاں کبھی کبھار ہی دیکھنے میں آتی ہے جب کہ ٹیک سنگھ ہر وقت پورن کچھ میں دندناتا رہتا ہے۔ سردار تلکو رام نے کہا۔ ” مائی باپ! پرسوں ٹیک سنگھ کا آرڈر آیا تھا۔ اس نے بستی سے دو جوان لڑکیاں منگوائی تھیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ بدھ کی رات کو میرے کچھ مہمان تمہارے پاس آئیں گے ان کی اچھی طرح خاطر تواضع کرنا اور مہمانوں میں جو لڑکی ہوگی اسے حفاجت سے دیپالپور تک چھوڑ آنا۔
 
سردار تلکرام بڑا مسکین بن رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا وہ جتنا مسکین بن رہا ہے اتنا ہے نہیں۔ اگر اس نے ٹیک سنگھ کے موج میلے کے لئے بستی کی لڑکیاں بھیجی تھیں تو ضرور ٹیک سنگھ سے کچھ لیا بھی ہوگا۔ یہاں کے سارے خانہ بدوش ، ڈاکو اور مفرور وغیرہ جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل کرتے تھے ۔ مل جل کر قانون کی دھجیاں اُڑاتے تھے اور جب کوئی ایک پکڑا جاتا تھا تو سارا الزام دوسرے پر دھر دیتا تھا۔ میں نے سردار سے پوچھا کہ جولڑکیاں پرسوں بھیجی گئی تھیں وہ اب کہاں ہیں؟ اس اچانک سوال پر سردار گڑ بڑا گیا۔ پہلے اس نے جھوٹ بولنے کے لئے منہ کھولا لیکن پھر ارادہ بدل دیا۔ مریل سی آواز میں بولا۔ ” وہ شہباز پہلوان کے ساتھ ہی واپس آئی ہیں۔ اس وقت دوسرے خیمے میں ہیں۔“ میں نے کہا۔ انہیں بلاؤ ایک شخص سردار کے اشارے پر لڑکیوں کو لینے چلا گیا۔ مجھے الجھن ہو رہی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے مخبر صلو نے اطلاع دی تھی کہ شہباز پہلوان بستی میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ چار گھڑ سوار تھے ۔ اب سردار بتا رہا تھا کہ دولڑکیاں بھی تھیں۔ میں نے اس سلسلے میں پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ شہباز کے ساتھ چار نہیں دو آدمی تھے۔ دوسرے دو گھوڑوں پر لڑکیاں تھیں ۔ 
 
تھوڑی ہی دیر میں لڑکیاں ہمارے سامنے آگئیں۔ ان کی عمریں اٹھارہ اور بائیس برس کے درمیان تھیں۔ رنگ سانولے اور صورتیں بھی واجبی سی تھیں ۔ شاید کسی وقت وہ خوبصورت رہی ہوں گی لیکن ٹیک سنگھ جیسے مردوں کے ساتھ راتیں کالی کر کے ان کا رنگ روپ اُڑ چکا تھا۔ انسپکٹر اروڑا نے ایک علیحدہ خیمے میں لے جا کر لڑکیوں سے پوچھ گچھ کی قریباً آدھ گھنٹے بعد وہ باہر نکلا ۔ اس دوران میں دوسرے لوگوں کے بیان لیتا رہا تھا۔ انسپکٹر اروڑا نے بتایا کہ لڑکیوں سے اس کے علاوہ اور کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوسکی کہ سردار تلکو رام نے دو راتوں کے بدلے ٹیک سنگھ سے آدھ سیر چرس اور ریشمی کپڑے کے دو تھان لئے تھے اور یہ چیزیں اس وقت بھی تلکو رام کے خیمے میں موجود ہوں گی ۔ لڑکیوں نے بتایا تھا کہ انہیں ٹیک سنگھ کے ڈیرے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہاں لے جایا گیا تھا اور واپسی کے وقت ویسے ہی اندھیری رات تھی۔ ڈیرے میں لڑکیوں کے ساتھ وہی کچھ ہوا تھا جو شرابی مردوں کے جمگھٹے میں دو اجنبی لڑکیوں کے ساتھ ہو سکتا تھا۔ وہ اڑتالیس گھنٹے " آن ڈیوٹی" رہی تھیں۔
 
لڑکیوں کے بیان کے بعد تلکو رام کے خیمے کی تلاشی لی گئی تو چٹائی کے نیچے سے ایک زمین دوز جستی ٹرنک برآمد ہوا۔ اس ٹرنک میں ریشمی کپڑے کے کم از کم پندرہ تھان ، دس سیر چرس اور دس تولے کے طلائی زیورات تھے۔ یہ ساری حرام کی کمائی تھی جو اس سانسی سردار نے بستی کی عورتوں کو شرابی مردوں کے آگے ڈال ڈال کر جمع کی تھی۔ اعانت جرم اور جسم فروشی کے الزام میں سردار تلکو رام کو گرفتار کر لیا گیا اور ہم زخمی درویش علی کو چار پائی پر ڈال کر دیپالپور کی طرف روانہ ہو گئے ۔ وچن سنگھ کے رشتے داروں نے بھی اپنے زخمیوں کو اُٹھایا اور دیپالپور چل دیئے۔

طبی امداد ملنے سے سب انسپکٹر درویش علی کی جان بچ گئی لیکن اس واقعے نے مجھے بہت بدل کر دیا۔ میں بالکل غیر جانبداری سے اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا اور قانون کا محافظ بن کر قانون کے مجرم کو ہتھکڑی لگانا چاہتا تھا لیکن دوسری طرف پہلوان وچن سنگھ کے لواحقین اسے سکھوں کا مسئلہ بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔ ان کے دماغ میں یہ بات گھسی ہوئی تھی کہ مسلمان پہلوان نے سکھ پہلوان کو قتل کیا ہے۔ اب مسلمان پہلوان کو انجام تک پہنچانا سکھوں کی ذمے داری ہے اور تو اور سول جج ہری کرشن جیسا شخص بھی بندوق ہاتھ میں لئے دندناتا پھر رہا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ پولیس کی مدد کرتا اس نے اپنی جلد بازی سے بنا بنایا کام بگاڑ دیا تھا۔ اب شہباز پہلوان پھر آزاد تھا اور ڈیک نالہ پار کر چکا تھا۔ سوچ بچار کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ خود کو اس کیس سے الگ کرلوں۔ مجھے شہباز سے کوئی ہمدردی تھی نہ وچن سنگھ کے رشتے داروں سے کوئی بیر ۔ اس معاملے میں الجھ کر میں خواہ مخواہ عذاب میں مبتلا ہو رہا تھا۔ جو کام میں کر رہا تھا وہ کوئی اور پولیس انسپکٹر بھی کر سکتا تھا۔ اور اگر کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا تو وچن سنگھ کے رشتے دار تو کرہی سکتے تھے۔
 
 
میں نے ایس پی صاحب کے نام ایک درخواست لکھ دی کہ تھانے میں کام کی زیادتی کے سبب میرا جیون میں رہنا ضروری ہے لہذا وچن سنگھ قتل کیس کے معاملے میں انسپکٹر اروڑا کے ساتھ کسی دوسرے انسپکٹر کو اٹیچ کر دیا جائے جس روز میں نے ایس پی کے دفتر یہ درخواست بھیجی اس سے اگلے روز ڈاک کے ذریعے مجھے ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط جیون تھانے کے ایڈریس پر تھا۔ میں نے لفافہ کھولا اور یہ جان کر حیران رہ گیا کہ خط لکھنے والا شہباز پہلوان ہے یعنی وہ اشتہاری ملزم جس کی خاطر ہم کئی ہفتے پورن کچھ کی خاک چھانتے رہے تھے ۔ یہ خط شہباز پہلوان نے اپنے کسی پڑھے لکھے ساتھی سے لکھوایا تھا۔ تاہم خط کے آخر میں اس نے اپنے انگوٹھے لگائے ہوئے تھے۔ خط کا مختصر مضمون اس طرح تھا۔ انسپکٹر نواز خان، میں مجرم نہیں تھا۔ سیدھا سادا پہلوان تھا۔ اگر آج میں قاتل ہوں تو اس میں سارا قصور تم پولیس والوں کا ہے۔ اب تم میری تلاش میں چھاپے مار رہے ہو، میری گرفتاری کے لئے بے گناہوں کو پکڑ رہے ہو اور تکلیفیں دے رہے ہو۔ یاد رکھو جو بو رہے ہو وہ کاٹنا پڑے گا۔ اسی طرح جیسے نہال سنگھ کو کاٹنا پڑا ہے میں نے اس مختصر خط کو کئی بار پڑھا۔
 
تحریر کچھ جانی پہچانی محسوس ہو رہی تھی ۔ بڑی نرمی کے ساتھ لمبے لمبے حرفوں میں لکھا گیا تھا۔ اچانک میں نے تحریر شناخت کرلی۔ یہ سو فیصد نرس نجمہ کی لکھائی تھی۔ (نرس نجمہ نے مقتول انسپکٹر نہال سنگھ کو لکھ کر دیا تھا کہ شہباز پہلوان سے اس کا کوئی نا جائز تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وچن سنگھ کی موت کے بعد اس سے ملا ہے۔ یہ اعتراف نامہ ابھی تک میرے پاس موجود تھا) میں نے دونوں تحریروں کا موازنہ کیا اور مجھے سو فیصد یقین ہو گیا کہ خط اصلی ہے اور شہباز نے نجمہ سے لکھوا کر بھیجا ہے جو اپنے بہنوئی کے ساتھ اب اس کے ڈیرے پر ہے۔ خط پر کپورتھلہ سے ایک ڈاک خانے کی مہر لگی ہوئی تھی۔ میں جانتا تھا اس ڈاک خانے میں جانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں نے خط کو لا پرواہی سے
دراز میں پھینک دیا۔
 
اسی شام میں گھومنے کے لئے باہر کھیتوں میں گیا تو شہباز پہلوان کے چھوٹے بھائی ایاز عرف ایازی سے ملاقات ہو گئی۔ وہ ان دنوں قصبے میں ہی تھا۔ اکھاڑے میں زور کر کے آ رہا تھا۔ سارا جسم مٹی میں لتھڑا ہوا تھا۔ بھائی کی طرح اس کا قد کاٹھ بھی اچھا تھا۔ دیکھنے میں دیو نظر آتا تھا۔ اس نے جھک کر سلام کیا۔ میں نے پوچھا۔ ” کہاں جا رہے ہو؟“ بولا ۔ آپ ہی کی طرف جا رہا تھا۔ ایک بڑی ضروری بات کرنی تھی آپ سے۔" میں نے کہا۔ " اس حالت میں میری طرف آ رہے تھے کیا بہت پسوڑی والی بات ہے۔
وہ شرمندہ ہو کر بولا ۔ " جی نہیں۔ ابھی تو کنویں پر جا رہا تھا۔ وہاں سے نہا کر سیدھا آپ ہی کی طرف آنا تھا۔“
میں نے کہا۔ " تو ٹھیک ہے نہا آؤ۔ میں بھی اتنی دیر میں چکر لگا کر واپس آ جاتا ہوں۔

میں تھوڑی سی ہوا خوری کر کے واپس آیا تو ایازی تھانے میں آیا بیٹھا تھا۔ کہنے لگا۔ تھانیدار جی ، مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ شہباز والے کیس سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔“ میں نے جواب دیا۔ ”ابھی ایسا ہوا تو نہیں لیکن ہو بھی جائے تو تمہیں اس میں کیا اعتراض ہے؟“ کہنے لگا۔ ” جناب ! مجھے اتنی جرات نہیں کہ اعتراض کر سکوں۔ میں تو صرف درخواست ہی کر سکتا ہوں اور میری درخواست یہ ہے کہ آپ اس معاملے سے پیچھے نہ ہٹیں ۔ آپ ہٹ گئے تو ہم سب کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی ۔"
 
میں نے کہا۔ پہیلیاں نہ بھواؤ۔ جو بات ہے کھل کر بیان کرو۔“
جواب میں ایازی نے کہا۔ لالہ شہباز اتنا بدل گیا ہے کہ اب اسے لالہ کہتے بھی شرم آتی ہے۔ غیر تو غیر اب وہ اپنوں کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے لگا ہے۔ ہمارا ایک ماماں بالکل سیدھا سادا اور بھلا مانس آدمی ہے۔ لالے نے ایک دفعہ اپنے ایک یار کے لئے مامے کی لڑکی کا رشتہ مانگا تھا۔ زبانی کلامی بات ہو گئی تھی لیکن پھر معاملہ خراب ہو گیا۔ یہ رشتہ جوڑ کا نہیں تھا اس لئے مامے نے انکار کر دیا۔ اب اس لڑکی کی شادی ہوئے بھی تین چار مہینے ہو چکے ہیں۔ لالے نے مامے کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ بیٹی کو طلاق دلا کر اس کا رشتہ پہلی جگہ پر کردے ورنہ بڑا فساد ہوگا۔ اسے بیٹی اور داماد دونوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اب وہ میاں بیوی چھپتے پھر رہے ہیں۔ مامے کو الگ اپنی فکر پڑی ہوئی ہے۔ وہ بیچارا پرانا مریض ہے۔ اب بالکل چارپائی سے لگ گیا ہے۔ لالے نے ماں کو بھی دھمکی دی ہے کہ وہ اس معاملے میں بالکل نہ آئے ورنہ اسے بھی پچھتانا پڑے گا۔“ ایاز احمد نے پوری تفصیل سے یہ بات بتائی پھر رو دینے والے لہجے میں بولا ۔ تھانیدار جی! آپ اس معاملے میں بالکل ڈھیل نہ ڈالیں۔ لالے اور اس کتے ٹیک سنگھ کو پکڑنا بس آپ ہی کے بس کا روگ ہے
 
میں نے ایازی کے خیالات پوری توجہ سے سنے ۔ وہ شہباز کے خلاف غم و غصے سے بھرا ہوا تھا۔ ظاہر ہے اس غم و غصے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ شہباز نے اس کی محبوبہ پر نہ صرف ناجائز قبضہ جمایا تھا بلکہ اسے بُری طرح مارا پیٹا بھی تھا۔ جہاں تک ماموں والی بات کا تعلق ہے مجھے اس میں زیادہ وزن محسوس نہیں ہوا۔ شاید ایازی مجھے ہوشیار کرنے کے لئے یہ واقعہ بیان کر رہا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ تھوڑی بہت بات ہو اور ایازی نے اسے بڑھا چڑھا کر میرے سامنے پیش کر دیا ہو۔ جب تک میں اس واقعے کے اصل کرداروں سے نہ ملتا کوئی معتبر رائے قائم نہیں کی جاسکتی تھی۔ میں نے ایازی کو سمجھایا کہ وہ اپنی عمر سے بڑی بات نہ کرے۔ میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ پھر میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کے ماموں سے ملوں گا اور اگر کوئی ڈر خطرے والی بات ہوئی تو اس کا سد باب کروں گا۔ میں نے ماموں سے ملنے کا ذکر کیا تو ایازی بوکھلا سا گیا۔ کہنے لگا۔ نہیں، جتنی بات تھی وہ میں نے بتادی ہے۔ مامے نے ہی مجھے آپ کی طرف بھیجا تھا۔ وہ کافی بیمار ہیں ، ہلنا جلنا بھی مشکل ہو رہا ہے ان کے لئے ۔“ میں فوراً سمجھ گیا کہ لڑکے نے بات کا بتنگڑ بنایا ہے۔ 
 
وہ چند الٹی سیدھی باتیں کر کے میرے پاس سے چلا گیا لیکن پھر صرف دو روز بعد ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ مجھے وہی کرنا پڑا جو ایازی چاہتا تھا۔ یہ واقعہ اتنا سنگین تھا کہ مجھے ایک بار پھر پوری تندہی کے ساتھ شہباز کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ اس دفعہ اس تلاش میں فرض شناسی کے ساتھ ذاتی غم و غصہ بھی شامل تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ شہباز سامنے ہو اور میں اسے گولی سے اُڑا دوں۔ اس روز مجھے تھانے میں ضروری کام تھا اس لئے عشاء کی اذان دفتر میں ہی ہو گئی ۔ آٹھ بجے کے قریب میں اُٹھنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ ایک سنتری ہانپتا ہوا اندر آیا۔ اس نے کہا۔ ” جناب ! سنا ہے آپ کے کوارٹر میں آگ لگ گئی ہے۔" پھر اس نے جلدی سے کمرے کی کھڑکی کھولی اور باہر جھانکنے لگا۔ یہ کھڑکی باہر کی گلی میں کھلتی تھی اور قصبے کے مکان کافی دور تک نظر آتے تھے۔ سنتری نے باہر نظر دوڑائی اور پکار کر بولا ۔ وہ دیکھئے جی۔ لالی نظر آرہی ہے، دھواں بھی اُٹھ رہا ہے۔ میں بھی لپک کر کھڑکی پر پہنچا۔ سنتری نے جو کہا حرف بہ حرف درست تھا۔ قصبے میں کسی مکان کو آگ لگی ہوئی تھی اور عین ممکن تھا کہ یہ میرا ہی رہائشی کوارٹر ہو۔ دماغ چکرا کر رہ گیا۔
 
میں اور عملے کے چند ارکان افراتفری کی حالت میں کوارٹر تک پہنچے۔ اس بات کی تصدیق راستے میں ہی ہوگئی کہ آگ میرے کوارٹر میں لگی ہے۔ تھوڑی دیر بعد یہ منظر میں نے آنکھوں سے بھی دیکھ لیا۔ مجھے سب سے زیادہ فکر بلال شاہ کی تھی ۔ وہ اس وقت میرے کوارٹر میں سو رہا تھا۔ پتہ نہیں اس پر کیا گزری تھی۔ پورا کوارٹر دھڑا دھڑ جل رہا تھا۔ لوگ قریبی جوہڑ سے برتنوں میں پانی بھر بھر کر آگ پر پھینک رہے تھے لیکن شعلوں کے تیور دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ آگ سب کچھ جلا کر ہی بجھے گی۔ میں نے پاس کھڑے لوگوں سے بلال شاہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ باہر نکل آیا ہے۔ چھت پر چڑھ کر اس نے کوارٹر کے پچھواڑے چارے کے ڈھیر پر چھلانگ لگا دی تھی۔ میں لوگوں کے ہجوم میں بلال شاہ کو ڈھونڈ نے لگا۔ جلد ہی وہ مجھے نظر آ گیا۔ وہ ایک قریبی گلی میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ اردگرد محلے والے موجود تھے۔ 
 
کوئی اس کی ہتھیلیوں پر مالش کر رہا تھا، کوئی پانی پلا رہا تھا۔ دھوئیں کی وجہ سے بلال شاہ کا دم بُری طرح اکھڑ گیا تھا۔ جلد ہی میرے تھانے کا عملہ بھی آگ بجھانے میں مصروف ہو گیا۔ دس پندرہ منٹ کی سخت کوشش کے بعد شعلے سرد پڑ گئے ۔کوارٹر کی صرف دو تین دیواریں ہی بچ سکی تھیں۔ باقی چھت اور ساز و سامان سمیت ہر چیز راکھ ہوگئی تھی۔ مجھے زیادہ افسوس ان کاغذات کا تھا جو میری الماری میں رکھے تھے۔ ان میں چند ضروری فائلوں کے علاوہ میری ذاتی ڈائری بھی موجود تھی۔ اس کے علاوہ میرے اہل خانہ کی نادر تصویروں کا ایک البم تھا جس کا نقصان مجھے تا زندگی نہ بھول سکے گا۔ بلال شاہ کی بھی قسمت اچھی تھی جو بچ گیا تھا اور نہ کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ وہ بڑی پکی بلکہ " لوہے تو ڑ نیند سوتا تھا۔ سرہانے چھوٹا موٹا بم بھی پھٹ جائے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
 
جب آگ لگی تو وہ گہری نیند سو رہا تھا۔ پھر کمرے میں دھواں بھر گیا اور دم گھٹنے سے بلال شاہ اُٹھ بیٹھا۔ اندھوں کی طرح ہاتھ پاؤں چلاتا وہ دروازے تک پہنچا۔ خوش قسمتی ہی تھی کہ اس کا ہاتھ سیدھا چیخنی پر پڑا اور وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ برآمدے کی چھت کا ایک جلتا ہوا حصہ اس کے بالکل قریب گرا۔ وہ سانس روکے رو کے سیڑھیوں تک پہنچا اور بھاگتا ہوا چھت پر آ گیا۔ کمرے کی چھت کسی بھی وقت گر سکتی تھی۔ اس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر پچھواڑے میں چارے کے ڈھیر پر چھلانگ لگا دی لیکن یہاں اس کی قسمت نے تھوڑا سا دغا دیا۔ چارے کے قریب ہی لکڑی کی کھرلی پڑی تھی۔ 
 
بلال شاہ کا ایک پاؤں چارے پر اور دوسرا کھرلی پر پڑا۔ کھرلی پر پڑنے والے پاؤں میں چوٹ آئی تھی۔ بیچارے کے بُرے دن آئے ہوئے تھے۔ ڈیڑھ ماہ پہلے وہ سائیکل سے گر گیا تھا۔ پھر امرتسر کی دیوالی میں جہاندیدہ پہلوان نے اسے ادھ مواء کیا۔ اب کھرلی میں گر کر بیچارے کا پاؤں زخمی ہو گیا تھا۔
 
کوارٹر میں آگ لگنے کی اطلاع سنتے ہی میرے ذہن میں جو سب سے پہلا نام آیا وہ شہباز کا تھا۔ صرف دو روز پہلے وہ خط کے ذریعے مجھے دھمکی دے چکا تھا کہ میں جو کچھ بو رہا ہوں وہ کاٹنا پڑے گا۔ موقعے کے گواہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ میرے کوارٹر کو آگ لگانے والا شہباز ہی ہے۔ میرے پڑوسیوں میں سے ایک نے آگ لگنے کے فورا بعد پٹرول کی بو سونگی تھی۔
 
 وہ بھاگ کر گلی میں آیا تو کوارٹر کے اندرونی دروازے دھڑا دھڑ جل رہے تھے۔ اس نے دو ڈھاٹا پوش گھڑ سواروں کو دیکھا جو تیزی سے گھوڑے بھگاتے ہوئے گلی کا موڑ مڑ گئے۔ ان کے کندھوں پر رائفلیں تھیں اور ایک اپنے جثے سے پہلوان نظر آ رہا تھا۔ قصبے کے پرچون فروش تایا پرشاد نے بھی تصدیق کی کہ دکان بند کرنے سے پہلے اس نے دو گھڑ سواروں کو دیکھا تھا۔ وہ کوارٹر کی طرف جا رہے تھے۔ ان میں سے ایک گھڑ سوار کا گھوڑا کافی بڑا تھا اور وہ خود بھی بہت صحت مند نظر آتا تھا۔ دونوں سواروں نے چہرے پگڑیوں میں چھپا رکھے تھے اور لگتا تھا دور سے سفر کرتے آئے ہیں۔ سب سے اہم بیان نائی کرم دین کا تھا۔ کرم دین آگ لگنے کے کوئی دو گھنٹے بعد قصبے میں پہنچا۔ میرے جلے ہوئے کوارٹر کو دیکھنے کے بعد اس نے کہا۔ مجھے یقین تھا قصے سے کوئی خیر کی خبر نہیں ملے گی ۔
 
وجہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ شام سے کچھ ہی دیر بعد اس کی مڈ بھیڑ مفرور ٹیک سنگھ اور شہباز سے ہوئی تھی۔ وہ تقریبا آٹھ گھڑ سواروں کے ساتھ روہی کی طرف جارہے تھے ۔ نائی کرم دین نے کہا۔ " مجھے دیکھ کر انہوں نے گھوڑے روک لئے۔ شہباز پہلوان نے پوچھا کدھر سے آرہا ہے کرموں؟ میں نے بتایا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک شادی کا شگن دینے جارہا ہوں ۔ شہباز پہلوان نے کہا۔ ایک شگن میں نے بھی دینا ہے جیون لیکن دل کرتا ہے کہ خود ہی جاؤں ۔ اس کے لہجے سے میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی خطرناک دھمکی دے رہا ہے۔ میں نے بات وہیں پر ٹھپ کردی۔ شہباز پہلوان نے ولایتی شراب کی ایک بوتل میری طرف اچھال دی اور نشے میں ہاتھ لہرا کر بولا ۔ دوسروں کی شادیاں کراتے مرجاؤ گے۔ تمہاری اپنی شادی تو ہونی نہیں کچھ اور نہیں تو اس لال پری کو ہی ہونٹوں سے لگا لیا کرو۔ پھر وہ سب گھوڑے بھگاتے جیون کی طرف چلے گئے ۔
 
اب یہ بات ثبوت کو پہنچ چکی تھی کہ آگ لگنے سے چند گھنٹے پہلے شہباز اور ٹیک سنگھ اس علاقے میں موجود تھے اور کسی خطرناک ارادے سے جیون کی طرف آرہے تھے۔ اب وہ ارادہ پورا ہو چکا تھا۔ میرا گھر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا اور راکھ کے اس ڈھیر میں سے بلال شاہ نے بمشکل اپنی جان بچائی تھی۔ اس واردات کی خبر بارہ گھنٹے کے اندر اندر امرتسر اور جالندھر تک پھیل گئی۔ اگلے روز ایک مقامی اخبار میں چھوٹی سی خبر بھی لگ گئی۔ 
 
سرخی تھی ۔ اشتہاری ملزم کی طرف سے پولیس انسپکٹر کو زندہ جلانے کی کوشش۔ سرکاری کوارٹر جل کر راکھ ہو گیا۔“ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ شہباز اور ٹیک سنگھ کی گرفتاری کے لئے ایک بار پھر تندہی سے کوشش شروع ہو گئی۔ انگریز ایس پی صاحب نے اسی روز مجھے امرتسر بلایا۔ تسلی تشفی دینے کے بعد کہا۔ " گاڈ جو کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔ ہم ملزم کے خلاف ڈھیلے پڑ گئے تھے۔ اب اس نے اوچھا وار کر کے ہمیں ہوش دلایا ہے۔ اب وہ گرفتار ہو کر رہے گا ۔ ہم اسے گرفتار کریں گے چاہے اس کے لئے کتنا بڑا قربانی بھی دینا پڑے۔ اٹ از انڈرسٹوڈ ناؤ تمہیں جس طرح کا ہیلپ چاہیے ملے گا۔ تم اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس لئے ہم تمہاری درخواست نامنظور کرتے ہوئے تمہیں اس جاب پر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

میں اب خود بھی اس جاب پر برقرار رہنا چاہتا تھا۔ اس شخص یعنی شہباز پہلوان کے ساتھ شروع شروع میں مجھے کچھ ہمدردی ضرور تھی لیکن پھر اس کا رویہ دیکھ دیکھ کر یہ ہمدردی کم ہوتی گئی اور اب بالکل ختم ہو چکی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ مسلمان تھا اور جالندھر کی ایک سکھ برادری اس کی دشمن ہو رہی تھی لیکن اس دشمنی کو ہوا دینے میں وہ برابر کا قصور وار نظر آ رہا تھا۔ دوست اور دشمن کی پہچان اس میں ختم ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ خونی رشتے بھی اس کے لئے بے کار ہو گئے تھے۔
✩============✩
وہ فروری کی ایک چمکیلی صبح تھی۔ میں ایک بار پھر پورن کچھ جانے کے لئے تیار ہو چکا تھا۔ محمود غزنوی کے سترہ حملوں کی طرح میرا بھی پورن کچھ پر یہ چوتھا حملہ تھا۔ جیون سے روانہ ہونے سے پہلے میں نے ایازی سے بات چیت کی۔ وہ پولیس پارٹی کے ساتھ پورن کچھ جانا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ شہباز کے خلاف کارروائی میں بھر پور حصہ لے۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ”دیکھو! تم یہاں رہ کر میری جتنی مدد کر سکتے ہو وہ پورن کچھ جا کر نہیں کر سکتے ۔ میں چاہتا ہوں تم یہاں رہو اور جو کام میں تمہارے ذمے لگاؤں اسے ٹھیک طریقے سے کرو۔" کون سا کام؟ اس نے نیم دلی سے پوچھا۔
 
میں نے کہا۔ یہ بات تو تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ شہباز کی کوئی محبوبہ ہے جو امرتسر میں رہتی ہے اور شہباز کو رقعے وغیرہ بھی لکھتی رہی ہے۔ ایازی اقرار میں سر ہلانے لگا۔ میں نے کہا ۔ اس لڑکی کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ مجھے یقین ہے وہ لڑکی ہاتھ آجائے تو شہباز زیادہ دیر آزادی کے مزے نہیں لوٹ سکے گا۔ تم کسی طرح اس لڑکی کا کھوج لگا لو تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہوگا اور مجھے یقین ہے تم یہ کام کر بھی سکتے ہو۔ شہباز تمہارے گھر کا بندہ تھا۔ اس کے ملنے جلنے والے سارے تمہاری نظر میں ہوں گے۔ پوچھ گچھ کرو گے تو کوئی تم پر شبہ بھی نہیں کرے گا۔“ بات کچھ کچھ ایازی کی سمجھ میں آرہی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ چہرے پر الجھن بھی تھی۔ کہنے لگا ۔ " تھانیدار جی! کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ نرس نجمہ ہی وہ لڑکی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے