وہ ٹیک سنگھ کے ڈیرے پر ہے اور مزے سے وہاں رہ رہی ہے۔“
میں نے کہا۔ یہ تمہاری سوچ ہے لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ مجھے یقین ہے شہباز کی محبوبہ کوئی عام شکل صورت والی لڑکی نہیں ہوگی اور تم نے دیکھا ہی ہے نرس نجمہ بالکل معمولی لڑکی ہے۔ وہ بڑے دعوے سے شہباز کو بھائی بھی کہتی رہی ہے ۔ ایازی جزبز نظر آنے لگا۔ میں نے اس کی خاموشی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ” تم اپنے دماغ سے یہ بات نکال دو کہ نرس نجمہ ہی وہ لڑکی ہے۔
میں نے کہا۔ یہ تمہاری سوچ ہے لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ مجھے یقین ہے شہباز کی محبوبہ کوئی عام شکل صورت والی لڑکی نہیں ہوگی اور تم نے دیکھا ہی ہے نرس نجمہ بالکل معمولی لڑکی ہے۔ وہ بڑے دعوے سے شہباز کو بھائی بھی کہتی رہی ہے ۔ ایازی جزبز نظر آنے لگا۔ میں نے اس کی خاموشی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا۔ ” تم اپنے دماغ سے یہ بات نکال دو کہ نرس نجمہ ہی وہ لڑکی ہے۔
بس یہ سمجھو کہ وہ لڑکی اس وقت امرتسر میں ہے اور تمہیں اسے ڈھونڈ کر سامنے لانا ہے۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد میں نے ایاز کو اس کام کے لئے تیار کر لیا اور وہ مجھ سے رخصت ہو کر اسی وقت امرتسر روانہ ہو گیا۔ وہ ابھی تھانے سے نکل کر چند گز دور ہی گیا ہوگا کہ ميري نگاہ اس کرسی پر پڑی جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں سرخ رنگ کا ایک بٹوہ پڑا تھا۔ یقینی بات تھی کہ یہ بٹوہ ایازی کی جیب سے گرا ہے۔ میلوں ٹھیلوں سے ملنے والا یہ ایک سستا سا بٹوہ تھا۔
شوقین لڑکے ایسے بٹووں میں ایکٹرسوں کی تصویریں بھی لگا لیتے تھے۔ ایازی نے کھلے بازوؤں والی ریشمی قمیض پہن رکھی تھی۔ ایسی قمیضوں کے پہلو میں جیب ہوتی ہے۔ غالبا جیب سے کوئی چیز نکالتے ہوئے غلطی سے اس نے بٹوہ کرسی پر گرا دیا تھا۔ میں نے بٹوہ پکڑ کر کھولا اور سنتری کو پکارنے کے ارادے سے دروازے کی طرف دیکھا۔ مقصد یہ تھا کہ سنتری بٹوہ ایازی کو دے آئے لیکن پھر ارادہ بدل دیا۔ بٹوہ کھولتے ہی میری نظر ایک تصویر پر پڑی تھی۔ یہ تصویر کسی ایکٹرس کی نہیں تھی۔
ایک نوجوان لڑکی تھی جو کسی دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی۔
ایک نوجوان لڑکی تھی جو کسی دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی۔
اس کا ایک ہاتھ دوپٹے پر تھا۔ لگتا تھا لڑکی کو بتائے بغیر تصویر اتار لی گئی ہے۔ بڑی مدھم سی تصویر تھی ۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ لڑکی کے پیچھے ایک گھوڑے کی گردن اور لکڑیوں کا گٹھا بھی نظر آ رہا ہے۔ تصویر کے پیچھے دل بنا کر اس میں سے تیر گزارا گیا تھا اور بڑے دردناک شعر لکھے تھے۔ مجھے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی کہ یہی لڑکی ایاز کی محبوبہ صفیہ ہے اور اسی کی وجہ سے بڑے بھائی کے ساتھ اس کی لڑائی ہوئی تھی ۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ تصویر ٹیک سنگھ کے ڈیرے پر ہی کہیں اتاری گئی ہے۔ میں کچھ دیر لڑکی کے خدوخال پہنچانے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر شعر پڑھنے لگا۔ ان شعروں میں جہاں محبوب کی جدائی کا رونا تھا وہاں اس خونی رشتے سے گلہ بھی تھا جس نے پیار کرنے والوں کے دلوں پر آرے چلائے تھے اور ہوس میں اندھا ہو کر مہکتی کلیوں کو بے رحمی کے کانٹوں میں پرو دیا تھا۔ اس تصویر اور تصویر پر لکھے شعروں سے اندازہ ہوتا تھا کہ صفیہ نام کی وہ لڑکی ایازی کے دل پر گہری لگی ہوئی ہے۔
وہ رات دن اس کی جدائی میں تڑپتا ہے اور بڑے بھائی کے سلوک کا ماتم کرتا ہے۔ بٹوے میں اور کوئی چیز میرے کام کی نہیں تھی۔ میں نے سنتری کو بلا کر بٹوہ اسے دے دیا اور کہا کہ وہ اسے ایازی کے گھر پہنچا دے۔ اسی شام ہم براستہ کپورتھلہ پورن کچھ پہنچ گئے ۔ ایک بار پھر وہی ریسٹ ہاؤس ہمارا مورچہ تھا جہاں ہم اس سے پہلے کئی ہفتے گزار چکے تھے ۔ ایک طرح سے اس ریسٹ ہاؤس تک پہنچ کر ہماری دوڑ ختم ہو جاتی تھی۔ اس سے آگے ڈیک نالہ تھا اور خطرناک جنگل میلوں تک پھیلا ہوا تھا جہاں داخل ہونا موت کو دعوت دینا تھا۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ پچھلے دو ماہ میں شہباز تین چار دفعہ اس جنگل سے باہر آیا تھا لیکن ہم اسے گھیر نہیں سکے تھے ۔ اب ہمیں خود اس جنگل میں گھسنا تھا یا پہلے کی طرح ایک بار پھر منہ لٹکا کر اس کا انتظار کرنا تھا۔ گھوم پھر کر میری سوچ ہر مرتبہ شہباز کی گمنام محبوبہ کی طرف چلی جاتی تھی ۔
اس لڑکی کا کھوج لگ جاتا تو شہباز کو کسی نہ کسی بہانے اس پناہ گاہ سے باہر نکالا جاسکتا تھا۔ مگر وہ گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب تھی اور کوئی ایسا قریبی رشتے دار بھی نہیں تھا جس کے ذریعے شہباز پر دباؤ ڈالا جا سکتا تھا۔ دو ہفتے پہلے شہباز کی والدہ بھی اپنی دونوں بیٹیوں کو لے کر کہیں روپوش ہو چکی تھی ۔ غالباً وہ پولیس کی کھینچا تانی سے بچنا چاہتی تھی۔ ویسے وہ رُوپوش نہ بھی ہوتی تو مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یہ میرا طریقہ کار ہی نہیں تھا۔ کسی بے گناہ سے زیادتی کر کے یا اس کی زندگی خطرے میں ڈال کر ایک ملزم کو پکڑنا میرے نزدیک فرض شناسی نہیں ہے۔
شہباز کے چھوٹے بھائی ایازی نے ہاتھ سے لکیریں کھینچ کر ہمیں ایک نقشہ بنا دیا تھا۔ اس نقشے میں ٹیک سنگھ کے مرکزی ڈیرے تک پہنچنے کے مختلف راستے دکھائے گئے تھے۔ ساتھ ساتھ ان ٹھکانوں کی نشاندہی بھی کی تھی جہاں مسلح آدمیوں سے مڈ بھیٹر ہو سکتی تھی۔ ایسا ہی ایک نقشہ ہمارے پاس بھی موجود تھا۔ میں اور انسپکٹر اروڑا یہ دونوں نقشے سامنے پھیلا کر بیٹھ گئے اور دو روز مسلسل سوچ بچار کرتے رہے۔ ہم کوئی ایسا منصوبہ بنانا چاہتے تھے جس میں جانی نقصان کا خطرہ کم سے کم ہو اور ڈاکو پولیس پارٹی کو چکمہ بھی نہ دے سکیں ۔ ہماری منصوبہ بندی کے دوران ہی بارشیں شروع ہو گئیں۔
تمام راستے بند ہو گئے اور ہمیں ریسٹ ہاؤس کی چار دیواری میں بند ہونا پڑا ان دنوں پولیس پارٹی کے لئے ریڈیو سننے سونے اور تاش کھیلنے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ چند روز بعد جب بلال شاہ وہاں پہنچ گیا تو ماحول میں قدرے خوشگواری آگئی۔ انسپکٹر اروڑا کے سوا تمام عملے سے بلال شاہ کی چھیڑ چھاڑ تھی ۔ صبح سے شام تک یہ ہلا گلا جاری رہتا۔ ریسٹ ہاؤس کے مالک دھنی رام سنگھ کی نوخیز بیوی سے بلال شاہ کو خاصی چڑ تھی۔ وہ اس کی چال ڈھال کی نقل اتارتا اور اسے دلچسپ گالیاں دے کر عملے کے سینے میں ٹھنڈ ڈالتا ۔
ایک ہفتے بعد بارشوں کا سلسلہ رکا اور ہم نئے سرے سے کمر کسنے لگے، لیکن اسی دوران جالندھر کے سول جج ہری کرشن صاحب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں آدھمکے۔ ان کے لشکر میں ایک ڈی ایس پی، ایک انسپکٹر اور عملے کے کوئی پچیس ارکان تھے۔ ان کے پاس جدید اسلحے کے علاوہ دو وائرلیس سیٹ بھی تھے۔ اس کے علاوہ ایک جیپ کو بھی کسی طرح کھینچ تان کر ریسٹ ہاؤس تک لے آئے تھے۔ سول جج صاحب پرائیویٹ طور پر ساتھ آئے تھے بظاہر پولیس پارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن یہ بات ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ اس پولیس پارٹی کو ترتیب دینے والے اور یہاں لانے والے جناب ہری کرشن صاحب ہی ہیں ۔ پہلوان وچن سنگھ کی موت نے ان کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی اور وہ سارے کام چھوڑ چھاڑ کر شہباز کو پکڑنے کی فکر میں خوار ہو رہے تھے۔ دھنی رام سنگھ نے ہماری طرح دوسری پولیس پارٹی کو بھی ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرا لیا۔ اس کے لئے دونوں پارٹیوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ رات کو میں نے ڈی ایس پی راجپال سے بات چیت کی۔ وہ چوبیس گھنٹے نشے میں غرق رہنے والا ایک سست الوجود اور ڈھیلا ڈھالا افسر تھا۔ تجربہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ معلوم نہیں وہ کیسے ڈی ایس پی بنا تھا اور جج ہری کرشن اسے کیا سمجھ کر اس پر خطر مہم پر لے آیا تھا۔
میں اندر ہی اندر کھول کر رہ گیا۔ میرے پوچھنے پر ڈی ایس پی نے گردن تان کر کہا۔ ”کل شام آٹھ بجے وہ اپنی چھاپہ مار ٹیم کے ساتھ ڈیک نالہ پار کر جائے گا اور رات بارہ بجے سے پہلے پہلے ٹیک سنگھ اور شہباز کا ڈیرہ پولیس کے گھیرے میں ہوگا ۔ اس نے مجھے ایک بہت پرانا نقشہ بھی دکھایا جس پر جگہ جگہ سرخ پنسل سے نشان لگے ہوئے تھے۔ ڈی ایس پی کا خیال تھا کہ یہ نادر نقشہ پولیس پارٹی کے لئے خضر راہ ثابت ہوگا اور چھاپہ مار عملہ مزے سے ٹہلتا ڈاکوؤں کے ڈیرے پر جاپہنچے گا۔ ڈی ایس پی جالندھر جیل سے ایک قیدی کو بھی ساتھ لایا تھا۔ ڈی ایس پی نے دعویٰ کیا کہ یہ قیدی ٹیک سنگھ کا ساتھی رہا ہے اور علاقے کے ہر نشیب و فراز سے واقف ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی وجہ ہی نہیں کہ پولیس پارٹی راستے میں کسی مصیبت کا شکارہو۔
میں نے کہا۔ راج پال صاحب! میں بڑی عاجزی سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ اس علاقے کے بارے میں میری معلومات آپ سے اور جج صاحب سے زیادہ ہیں۔ یہ نقشہ جو آپ مجھے دکھا رہے ہیں اس سے بہتر نقشہ پچھلے دو مہینے سے میرے پاس موجود ہے لیکن صرف ایک نقشے کے زور پر آپ کامیاب چھاپہ نہیں مار سکتے۔ نقشہ تو انگریز کپتان کے پاس بھی موجود تھا۔ آپ کے پاس چھبیس آدمی ہیں تو اس کے پاس پوری کمپنی تھی۔ اسلحہ، وائرلیس مخبر سب کچھ موجود تھا لیکن پھر کیا ہوا ۔ کتنے بندے بچ کر آئے تھے واپس؟“
ڈی ایس پی کو تو جیسے کسی بہانے کی ضرورت تھی ۔ بھڑک کر بولا ۔ یہ تم نہیں تمہارے اندر کی بد نیتی بول رہی ہے۔ مجھے پتہ ہے یہ سارا جنگل صاف کر دیا جائے تو تب بھی تم ڈیک نالہ پار نہیں کرو گے ۔ بس یہیں بیٹھے منصوبے بناتے رہو گے۔ اگر جان اتنی پیاری ہے تو استعفی دے دو نوکری سے۔ کوئی جنرل سٹور کھول کر بیٹھ جاؤ۔
"
میں نے کہا۔ ” جان کس کو کتنی پیاری ہے اس کا پتہ تو وقت آنے پر چلتا ہے۔ میں آپ سے الجھنا نہیں چاہتا۔ صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے ایک دفعہ اس علاقے کو دیکھ بھال لیں۔“ اتنے میں جج ہری کرشن بھی وہاں چلا آیا۔ اس کے چہرے کی سلوٹوں سے لگتا تھا کہ کونین کی گولی کھا رکھی ہے۔ بڑی سرد مہری سے بولا ۔ نواز خان! تم اس معاملے میں دخل مت دو۔ ڈی ایس پی صاحب پورے اختیار کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ وہ اس معاملے کو جس طرح ہینڈل کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔“ میں نے کہا۔ " ہری صاحب! میں سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ یقین کریں میری آپ سے کوئی ضد نہیں ہے لیکن میں اس معاملے میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ اگر پولیس پارٹی نے کھلے عام ڈیک نالہ پار کیا تو سب کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔“ "کچھ خطرے میں نہیں پڑے گا ۔ جج دھاڑا۔ صرف تم لوگوں کی ہڈ حرامی کا پول کھل جائے گا۔
میں نے کہا۔ ” جان کس کو کتنی پیاری ہے اس کا پتہ تو وقت آنے پر چلتا ہے۔ میں آپ سے الجھنا نہیں چاہتا۔ صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے ایک دفعہ اس علاقے کو دیکھ بھال لیں۔“ اتنے میں جج ہری کرشن بھی وہاں چلا آیا۔ اس کے چہرے کی سلوٹوں سے لگتا تھا کہ کونین کی گولی کھا رکھی ہے۔ بڑی سرد مہری سے بولا ۔ نواز خان! تم اس معاملے میں دخل مت دو۔ ڈی ایس پی صاحب پورے اختیار کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ وہ اس معاملے کو جس طرح ہینڈل کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔“ میں نے کہا۔ " ہری صاحب! میں سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ یقین کریں میری آپ سے کوئی ضد نہیں ہے لیکن میں اس معاملے میں خاموش نہیں رہ سکتا۔ اگر پولیس پارٹی نے کھلے عام ڈیک نالہ پار کیا تو سب کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔“ "کچھ خطرے میں نہیں پڑے گا ۔ جج دھاڑا۔ صرف تم لوگوں کی ہڈ حرامی کا پول کھل جائے گا۔
"
میرا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میرے منہ سے بھی کوئی سخت بات نکل جاتی۔ انسپکٹر اروڑا درمیان میں آگیا اور اس نے بات رفع دفع کرانے کی کوشش کی۔ میں اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں آ گیا۔ ذہن میں کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جج ہری کشن اور اس کے ہمنواؤں سے میری کوئی دشمنی نہیں تھی۔ نہ ہی ایک سنگھ اور شہباز سے کوئی ہمدردی تھی لیکن جو بات غلط تھی اسے غلط کہنا میرا سرکاری اور اخلاقی فرض تھا۔ یہ شرابی ڈی ایس پی عملے کے جوانوں کی جان کا دشمن ہو رہا تھا۔ ڈیک نالے کے ہر درخت کے پیچھے گھات تھی اور اندھی گولیاں کسی بھی وقت موت تقسیم کر سکتی تھیں ۔ پولیس اہلکار ہندو تھے ، سکھ تھے یا مسلمان۔ امرتسر سے تھے یا جالندھر سے، تھے تو جیتے جاگتے انسان۔ ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتے تھے۔ دلوں میں خواہشیں تھیں، آرزوئیں اور امیدیں تھیں۔
میرا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میرے منہ سے بھی کوئی سخت بات نکل جاتی۔ انسپکٹر اروڑا درمیان میں آگیا اور اس نے بات رفع دفع کرانے کی کوشش کی۔ میں اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں آ گیا۔ ذہن میں کھلبلی سی مچی ہوئی تھی۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جج ہری کشن اور اس کے ہمنواؤں سے میری کوئی دشمنی نہیں تھی۔ نہ ہی ایک سنگھ اور شہباز سے کوئی ہمدردی تھی لیکن جو بات غلط تھی اسے غلط کہنا میرا سرکاری اور اخلاقی فرض تھا۔ یہ شرابی ڈی ایس پی عملے کے جوانوں کی جان کا دشمن ہو رہا تھا۔ ڈیک نالے کے ہر درخت کے پیچھے گھات تھی اور اندھی گولیاں کسی بھی وقت موت تقسیم کر سکتی تھیں ۔ پولیس اہلکار ہندو تھے ، سکھ تھے یا مسلمان۔ امرتسر سے تھے یا جالندھر سے، تھے تو جیتے جاگتے انسان۔ ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتے تھے۔ دلوں میں خواہشیں تھیں، آرزوئیں اور امیدیں تھیں۔
روزگار کی خاطر وہ گھر سے سینکڑوں میل دور مارے مارے پھر رہے تھے ۔ کسی ہری کرشن اور کسی راجپال کو کیا حق پہنچتا تھا کہ اپنے انتقام کی خاطر انہیں موت کے منہ میں دھکیل دیتا۔ ان لمحوں میں مجھے محسوس ہوا جیسے راجپال کے ساتھ آنے والے اہلکاروں کی زندگی خطرے میں نہیں میری اپنی زندگی خطرے میں ہے۔ کل کوئی اور نہیں میں ڈیک نالہ پار کر کے اندھی گولیوں کی زد میں آنے والا ہوں۔ میرا سینہ غم و غصے سے لبریز ہو گیا۔ میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے جج ہری کرشن اور ڈی ایس پی راجپال کو من مانی نہیں کرنے دوں گا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انہیں کیسے روکا جائے ۔ ڈی ایس پی راجپال میرا ماتحت نہیں تھا ، نہ ہی جج ہری کرشن پر میرا کوئی زور چل سکتا تھا۔ زبردستی کی جاتی تو یہ ڈسپلن کی خلاف ورزی تھی۔ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ فساد ہی ہو جاتا۔ آجا کے ایک ہی راستہ تھا کہ میں کپورتھلہ پہنچ کر انگریز ایس پی سے رابطہ کر دوں اور انہیں ساری صورت حال بتاؤں ۔
میں علی اصبح تین بجے کے قریب جاگا اور نہایت خاموشی سے کپورتھلہ جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس دوران بلال شاہ اصطبل میں جا کر میرے گھوڑے پر زین وغیرہ کس چکا تھا۔ میں سادہ لباس میں تھا۔ اپنی گرم چادر تو ملی نہیں ایک کانسٹیبل کی چادر سے بکل ماری تھی۔ اعشاریہ 38 کا بھرا ریوالور میری قمیص کے نیچے موجود تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے مین گیٹ سے نکل کر جونہی میں اصطبل کی طرف بڑھا۔ قریبی برآمدے میں آہٹ ہوئی اور ڈی ایس پی راج پال کا ایک ہیڈ کانسٹیبل میرے پیچھے لپکا۔ " کہاں جارہے ہیں جناب؟" اس نے مجھے پہچان کر اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
کسی کام سے جا رہا ہوں ۔ میں نے بھی سرد مہری سے جواب دیا۔ لیکن ڈی ایس پی صاحب نے کہا ہے، کوئی آدمی بتائے بغیر ریسٹ ہاؤس
سے باہر نہیں جائے گا۔
میں تمہارے ڈی ایس پی کا آدمی نہیں ہوں اور نہ اس کا حکم ماننا ضروری سمجھتا ہوں۔“
میرے لہجے میں بھی تلخی عود کر آئی۔
میں آگے بڑھا تو ہیڈ کانسٹیبل نے کمال جرات سے میرا شانہ تھام لیا۔ جناب پہلے آپ سرجی سے بات کر لیں ۔"
پیچھے ہٹو ۔ میں نے پھنکار کر کہا۔ میں نہیں جانتا تمہارے سر جی کو “اس بحثا بحثی میں ڈی ایس پی خود بھی باہر نکل آیا۔ اس کے پیچھے ہی پیچھے جج ہری کرشن بھی سلیپنگ گاؤن سنبھالتا چلا آرہا تھا۔ ” کیا کہتا ہے یہ ؟ “ ڈی ایس پی نے بڑی بد تمیزی سے اپنے ماتحت سے پوچھا۔
میں نے کہا۔ راجپال صاحب، زبان سنبھال کر بات کرو۔ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔“
تو تو بے عزتی کرے گا میری " راجپال خم ٹھونک کر میرے سامنے آ گیا۔ اس کے منہ سے شراب کے پھپھکے اُڑ رہے تھے۔ اتنے میں راجپال کا ایک چمچہ سب انسپکٹر پہلو سے آیا اور مجھے دھکا دے کر کہنے لگا۔ ” کیا بات ہے؟ میرا پیمانہ صبر جو بہت دیر سے ہلکورے لے رہا تھا ایک دم چھلک گیا۔ میرا داہنا ہاتھ گھوما اور سب انسپکٹر تھپڑ کھا کر دور جا گرا۔ ڈی ایس پی نے جوابا مجھے تھپڑ مارنا چاہا لیکن وار خالی گیا۔ اس وقت میں نے دیکھا، ڈی ایس پی کے قریب کھڑا اے ایس آئی اپنے ریوالور کی طرف ہاتھ بڑھا رہا تھا۔
میری بھر پور ٹانگ اس کے سینے پر پڑی اور وہ بھاری بھر کم ڈی ایس پی کو اپنے ساتھ لیتا ہوا زمین بوس ہو گیا۔ بات ایک دم بڑھ گئی تھی اور اس میں سارا قصور ڈی ایس پی اینڈ کمپنی کا تھا۔ یوں لگتا تھا ڈی ایس پی کی ساری نفری میری گھات میں بیٹھی ہے۔ ڈی ایس پی کے زمین بوس ہوتے ہی سب انسپکٹر نے اپنے ساتھیوں کو آوازیں دیں اور پانچ چھ اہلکار باہر نکل کر چیلوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑے۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک اہلکار نے ریسٹ ہاؤس کا گیٹ باہر سے بند کر دیا تھا تاکہ میرے ساتھیوں میں سے کوئی باہر نہ آسکے۔ صرف بلال شاہ باہر تھا۔ وہ اصطبل کی طرف سے بھاگتا ہوا آیا۔ دو تین ہٹے کٹے اہلکاروں نے اسے بھی دبوچ لیا۔ ڈی ایس پی نے ہاتھ بڑھا کر ریوالور میرے لباس سے نکال لیا۔ پھر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے بولا ۔ " لے جاؤ دونوں کو اور کمرے میں بند کر دو۔ میں دیکھتا ہوں کیسے ان کی نوکریاں باقی رہتی ہیں۔“ وہ بلال شاہ کو بھی پولیس ملازم ہی سمجھ رہا تھا۔
میں نے جج ہری کرشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ہری کرشن ! یہاں قانون کا جو احترام ہورہا ہے تم دیکھ رہے ہو ناں ۔ یاد رکھو میں عدالت میں تم سے اس بارے میں پوچھوں گا ۔ جواب میں ہری کرشن بڑبڑا کر رہ گیا۔ میں چاہتا تو اب بھی مزاحمت کر سکتا تھا اور یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ خود کو چھڑانے میں کامیاب ہو جاتا لیکن بات جتنی بڑھ گئی تھی میں اس سے زیادہ بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ جالندھر کے پولیس اہلکار مجھے اصطبل کی طرف لے گئے اور چوکیدار کے کمرے میں بند کر دیا۔ بلال شاہ کو بھی میرے ساتھ ہی دھکیل دیا گیا تھا۔ بلال شاہ مسلسل میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
مجھے معلوم تھا اس کی قمیص کے نیچے اب بھی بھرا ہوا ریوالور موجود ہے۔ لڑائی بھڑائی کے دوران میں اشارہ بھی کر دیتا تو بلال شاہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر ریوالور نکال لیتا اور دھائیں دھائیں گولیاں چلانا شروع کر دیتا۔ میں فخر سے کہتا ہوں کہ میرے اشارے پر بلال شاہ کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن اگر میں ریسٹ ہاؤس کے دروازے کے سامنے کوئی ایسی حرکت کرتا تو یہ بڑی بے وقوفی ہوتی۔ بلال شاہ کے ریوالور سے انہی اہلکاروں کو نقصان پہنچنا تھا جنہیں نقصان سے بچانے کے لئے میں نے ڈی ایس پی سے متھا لگایا تھا۔
مجھے معلوم تھا اس کی قمیص کے نیچے اب بھی بھرا ہوا ریوالور موجود ہے۔ لڑائی بھڑائی کے دوران میں اشارہ بھی کر دیتا تو بلال شاہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر ریوالور نکال لیتا اور دھائیں دھائیں گولیاں چلانا شروع کر دیتا۔ میں فخر سے کہتا ہوں کہ میرے اشارے پر بلال شاہ کچھ بھی کر سکتا تھا لیکن اگر میں ریسٹ ہاؤس کے دروازے کے سامنے کوئی ایسی حرکت کرتا تو یہ بڑی بے وقوفی ہوتی۔ بلال شاہ کے ریوالور سے انہی اہلکاروں کو نقصان پہنچنا تھا جنہیں نقصان سے بچانے کے لئے میں نے ڈی ایس پی سے متھا لگایا تھا۔
میں تو یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ جالندھر کی پارٹی سے میری ہاتھا پائی ہو لیکن جو کچھ ہوا اتنا اچانک تھا کہ خواہش کے باوجود میں اسے روک نہ سکا۔ کبھی کبھی حالات اتنے تیز رفتار ہو جاتے ہیں کہ ان پر نظر ٹکانا مشکل ہو جاتی ہے۔ کہاں تو یہ عالم تھا کہ ہم ریسٹ ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے کسی ہنگا مے کو ترس گئے تھے اور کہاں یہ حال ہو گیا کہ ہنگامے پر ہنگامہ کھڑا ہونے لگا۔ ابھی مجھے اور بلال شاہ کو کمرے میں بمشکل دس پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ اصطبل کے ارد گرد ہلچل محسوس ہوئی ۔ یوں لگا کہ بھونچال سا آگیا ہے۔ پھر یکبارگی گھوڑوں کی ہنہناہٹ اور ٹاپوں سے درودیوار گونج اُٹھے۔ کچھ للکارتی ہوئی آوازیں سنائی دیں اور ایک دم فائرنگ ہونے لگی۔ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹنے اور سپاہیوں کے بھاگنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ڈی ایس پی راجپال کی للکارتی ہوئی آواز میرے کانوں میں پڑی ۔ اوپر چلو اوپر چلو وہ اپنے کسی رائفل مین کو ہدایت دے رہا تھا۔
پھر کسی نے آٹومیٹک گن کا برسٹ مارا۔ ایک چیخ گھونجی اور جیسے کوئی زینوں سے لڑھکتا ہوا برآمدے کے پختہ فرش پر آن گرا۔ اتنے میں ہمارے کمرے کے بالکل قریب ایک تیز سریلی آواز گونجی ۔ مجھے یہ جانے میں ذرا بھی دشواری نہیں ہوئی کہ یہ دھنی رام سنگھ کی نوخیز بیوی کی آواز ہے۔ وہ کسی سے خوفزدہ ہو کر بری طرح بھاگی جا رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے فائرنگ شدت پکڑ گئی۔ ریسٹ ہاؤس کے مین گیٹ پر مینہ کی طرح گولیاں برس رہی تھیں ۔ اب دھماکوں کے ساتھ گندی گالیاں بھی سنائی دے رہی تھیں اور مختلف اشیاء کے ٹوٹنے پھوٹنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ بلال شاہ نے گھٹے ہوئے لہجے میں کہا۔ ” میرا خیال ہے ڈاکو پڑ گئے ہیں۔“ اس کے خیال کو جھٹلانے کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ کمرے سے باہر جو کچھ ہو رہا تھا وہ مسلح ڈاکوؤں کے سوا اور کون کر سکتا تھا۔ دھنی رام سنگھ نے اس خطر ناک علاقے میں ریسٹ ہاؤس بنایا تھا تو اس کی حفاظت کا بھی مناسب انتظام کر رکھا تھا لیکن مسلح افراد نے اس قدر اچانک اور شدت سے حملہ کیا تھا کہ بلال شاہ کی زبان میں "ہیٹلھی اتے" ہو گئی تھی۔ ہم حیران پریشان کھڑے تھے جب دروازے کے قریب تیز تیز بولنے کی آوازیں آئیں۔ پھر کسی نے کاربین سے دو فائر کئے اور دروازے پر لگا تالا توڑ دیا۔
دروازہ جھٹکے سے کھلا اور میں نے اپنے سامنے دو ڈھاٹا پوش افراد کو دیکھا۔ ان کے لباس گرد سے اٹے ہوئے تھے اور آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ ایک کے ہاتھ میں کارپین اور دوسرے کے ہاتھ میں دو نالی رائفل تھی۔ کارپین والے کو میں نے اس کی آنکھوں سے پہچان لیا۔ وہ ٹیک سنگھ کا ایک پرانا ساتھی راجو بارا تھا۔ بارے کے متعلق کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ ہندو ہے، مسلمان یا سکھ لیکن یہ بات یقینی تھی کہ اس کا اور ٹیک سنگھ کا ساتھ پرانا ہے۔ میں نے اس سے پہلے بارے کی صرف تصویر ہی دیکھی تھی۔ اس کی دائیں آنکھ پتھر کی تھی۔ اسی آنکھ کے سبب میں اسے پہچان سکا ۔ بارے نے بلند آواز میں کہا۔ تمہیں کیوں باندھ رکھا ہے ان سور کے پتروں نے؟“ یہ شاندار لقب بارے نے راجپال سنگھ اور اس کے عملے کے لئے استعمال کیا تھا۔
بارے کے لہجے میں اپنے لئے نرمی محسوس کر کے اچانک ایک نئی بات میرے ذہن میں آئی۔ میں نے اپنے لہجے کو بالکل دھیما کر لیا اور ڈری ڈری آواز میں کہا۔ ” پتہ نہیں بھرا جی ، ہم نے تو کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ سیدھے سادے بندے ہیں ۔ " ( بارا مجھے نہیں جانتا تھا ) " کہاں سے آئے ہو؟“ بارے کے ساتھی نے پوچھا۔ کپورتھلہ سے شکار کے لئے نکلے تھے یہاں آکر خود شکار ہو گئے ہیں۔ بڑا مارا ہے بھرا جی ان پولیس والوں نے پنڈا ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔
“
بارے کی آنکھوں سے جھانکتی ہوئی ہمدردی کچھ اور گہری ہوگئی۔ اس نے ہمیں باہر آنے کا اشارہ کیا۔ باہر کا منظر حیران کن تھا۔ پانچ دس منٹ کے ہنگامے نے ریسٹ ہاؤس کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ کھڑکیاں دروازے ٹوٹ چکے تھے ۔ مین گیٹ کے عین سامنے ڈی ایس پی راجپال کی جیپ اوندھی پڑی تھی اور دھڑا دھڑ جل رہی تھی۔ جیپ کے ارد گرد کم از کم پانچ تازی کتے مرے پڑے تھے ۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ریسٹ ہاؤس کے محافظوں نے ان کتوں کو ڈاکوؤں پر چھوڑا تھا اور ڈاکوؤں نے انہیں چھلنی کر دیا تھا۔ اصطبل کے عین سامنے ایک تازہ بتازہ لاش پڑی تھی۔ یہ راجپال کا ایک ہیڈ کانسٹیبل تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے اندر اور باہر ڈھاٹا پوش افراد دندناتے اور بندوقیں لہراتے پھر رہے تھے ۔ اب بات سے صاف ظاہر تھا کہ نہ صرف پولیس کا عملہ موقع سے فرار ہو گیا ہے بلکہ ریسٹ ہاؤس کے تنخواہ دار محافظ بھی جانیں بچا کر بھاگ گئے ہیں۔ دھنی رام سنگھ ریسٹ ہاؤس میں نہیں تھا۔ وہ کل سہ پہر ہی اپنے تین محافظوں کے ساتھ کپورتھلہ گیا تھا اور ابھی تک ان کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی بیوی ریسٹ ہاؤس میں ہی تھی اور اب میں اسے دو ہٹے کٹے افراد کی گرفت میں دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اس کے ہاتھ مونجھ کی رسی سے باندھ کر ایک گھوڑے پر اوندھا لیٹایا ہوا تھا۔ وہ گھوڑے سے اترنے کے لئے بُری طرح مچل رہی تھی لیکن مسلح افراد نے اسے دونوں طرف سے تھام رکھا تھا۔
بارے کی آنکھوں سے جھانکتی ہوئی ہمدردی کچھ اور گہری ہوگئی۔ اس نے ہمیں باہر آنے کا اشارہ کیا۔ باہر کا منظر حیران کن تھا۔ پانچ دس منٹ کے ہنگامے نے ریسٹ ہاؤس کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا تھا۔ کھڑکیاں دروازے ٹوٹ چکے تھے ۔ مین گیٹ کے عین سامنے ڈی ایس پی راجپال کی جیپ اوندھی پڑی تھی اور دھڑا دھڑ جل رہی تھی۔ جیپ کے ارد گرد کم از کم پانچ تازی کتے مرے پڑے تھے ۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ریسٹ ہاؤس کے محافظوں نے ان کتوں کو ڈاکوؤں پر چھوڑا تھا اور ڈاکوؤں نے انہیں چھلنی کر دیا تھا۔ اصطبل کے عین سامنے ایک تازہ بتازہ لاش پڑی تھی۔ یہ راجپال کا ایک ہیڈ کانسٹیبل تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے اندر اور باہر ڈھاٹا پوش افراد دندناتے اور بندوقیں لہراتے پھر رہے تھے ۔ اب بات سے صاف ظاہر تھا کہ نہ صرف پولیس کا عملہ موقع سے فرار ہو گیا ہے بلکہ ریسٹ ہاؤس کے تنخواہ دار محافظ بھی جانیں بچا کر بھاگ گئے ہیں۔ دھنی رام سنگھ ریسٹ ہاؤس میں نہیں تھا۔ وہ کل سہ پہر ہی اپنے تین محافظوں کے ساتھ کپورتھلہ گیا تھا اور ابھی تک ان کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی بیوی ریسٹ ہاؤس میں ہی تھی اور اب میں اسے دو ہٹے کٹے افراد کی گرفت میں دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اس کے ہاتھ مونجھ کی رسی سے باندھ کر ایک گھوڑے پر اوندھا لیٹایا ہوا تھا۔ وہ گھوڑے سے اترنے کے لئے بُری طرح مچل رہی تھی لیکن مسلح افراد نے اسے دونوں طرف سے تھام رکھا تھا۔
جلد ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ ریسٹ ہاؤس کے اندر ایک اور شخص ہلاک ہوا ہے۔ یہ جالندھر کا سول جج ہری کرشن سنگھ تھا۔ تھری ناٹ تھری کی گولی اس کے سر پر لگی تھی اور کھوپڑی کا ایک حصہ صاف اُڑ گیا تھا۔ اس کا کریم کلر سلیپنگ گاؤن خون سے لالہ زار ہو رہا تھا۔ ریسٹ ہاؤس کے سامنے اب صرف ایک شخص موجود تھا اور وہ انسپکٹر اروڑا تھا۔ اس کی ٹانگ میں گولی لگی تھی اور وہ پورچ کے سامنے سرسبز لان میں پڑا کراہ رہا تھا۔ اس ڈر سے کہ انسپکٹر اروڑا ہم سے جان پہچان ظاہر نہ کردے۔ میں نے اونچی آواز میں پولیس والوں کو کوسنا شروع کر دیا اور یہ خیال ظاہر کیا کہ پولیس والوں کو اپنے کئے کی سزا ملی ہے۔ اب بلال شاہ میری چال سے آگاہ ہو چکا تھا اور اس نے بھی چہرے پر مظلومیت طاری کر لی تھی۔ ریسٹ ہاؤس میں لوٹ مار کرنے کے بعد اب مسلح افراد جلد از جلد وہاں سے کھسک جانا چاہتے تھے ۔ بارے وغیرہ کا رویہ ہمارے ساتھ بدستور دوستانہ تھا۔ بارے نے میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ ”چلو استاد! ہمارے ساتھ تمہاری مرہم پٹی کرواتے ہیں اور شکار بھی کھیلاتے ہیں تم کو ۔
اس کا لہجہ معنی خیز تھا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ ہم تو کب سے ان کے ساتھ جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ بہر حال معمولی پس و پیش ظاہر کر کے ہم نے آمادگی ظاہر کر دی۔ اصطبل گھوڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ بارے اور اس کے ساتھیوں نے دس صحت مند گھوڑے ان میں سے چن لئے تھے ۔ کوٹ کے ان دس گھوڑوں کی مالیت ہزاروں میں تھی۔ ان میں سے ایک گھوڑا مجھے اور بلال شاہ کو دے دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بلال شاہ کے حصے میں وہ گھوڑا آیا جو واقعی اس کا اپنا تھا۔ انسپکٹر اروڑا کو زخمی حالت میں وہیں پڑا رہنے دیا گیا تھا۔ لاشیں بھی جوں کی توں پڑی تھیں۔ بے خوف ڈاکوؤں کا یہ جتھا گھوڑوں پر سوار ہوا اور ہمیں لے کر آنا فانا جنگل میں داخل ہو گیا۔ اب صبح کا اجالا پھیلنے والا تھا۔ جنگل جاگ اُٹھا تھا اور پرندے شاخوں پر چہچہا رہے تھے ۔ ڈاکوؤں کا جتھا ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے ڈیک نالے میں سے گزرا اور اس پر خطر علاقے میں داخل ہو گیا جہاں چپے چپے پر لاقانونیت کا راج تھا۔ یہاں جھاڑ جھنکاڑ کثرت سے تھا جگہ جگہ قدرتی جوہڑ بنے ہوئے تھے اور ان کے کنارے بلند و بالا سرکنڈے جھوم رہے تھے۔
ایک برس پہلے سرکنڈوں کے کسی ایسے ہی جھنڈ میں ڈاکوؤں نے انگریز کپتان کو گھیر کر اس کمپنی کو تہس نہس کر دیا تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے راستے تنگ اور جنگل گھنا ہوتا گیا۔ کہیں کہیں مسلح افراد سے مڈ بھیڑ بھی ہوئی۔ دیکھنے میں یہ لوگ آوارہ گرد دیہاتی نظر آتے تھے لیکن حقیقت میں ڈاکو تھے ۔ یہ لوگ بارے اور اس کے ساتھیوں سے کافی مرعوب نظر آتے تھے۔ جھک کر سلام کرتے تھے اور فورا راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ راستے میں ایک دو مقامات پر ہمیں فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ دوسروں کی طرح بلال شاہ اور میں نے بھی اپنے چہرے چادروں میں چھپارکھے تھے لہذا اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ یہاں اتفاق سے بھی کوئی ہمیں پہچان سکے گا۔ بارا راستے میں مجھ سے مسلسل باتیں کرتا رہا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم باز پکڑنے کے لئے نکلے ہوئے تھے ۔ لاہور کے ایک ٹھیکیدار نے کہا تھا کہ وہ شکاری باز کی قیمت ایک ہزار روپیہ دے گا۔ ہم بیروزگار ہیں ۔ قسمت آزمانے نکل کھڑے ہوئے ۔ بارا مجھے سمجھانے کے انداز میں بولا۔ استاد! کیا بچوں جیسی باتیں کر رہا ہے ۔ قسمت آزمائی نہیں جاتی قسمت بنائی جاتی ہے اور قسمت باز سے نہیں بازوؤں سے بنتی ہے۔ ان بازوؤں میں بندوق اُٹھاؤ پھر دیکھو تمہارے ہاتھ کی لکیریں کیسے بدلتی ہیں۔
اسی طرح کی باتیں کرتے ہم نے قریبا دس میل کا فاصلہ طے کیا اور ایک بڑے ٹیلے کے دامن میں پہنچ گئے۔ اس ٹیلے کے اوپر اور اردگرد کثرت سے جنتر اُگا ہوا تھا۔ یہاں ایک بہت بڑی کھوہ نظر آئی۔ کہا نہیں جاسکتا تھا کہ کھوہ قدرتی ہے یا بنائی گئی ہے بہر حال اس ویرانے میں سر چھپانے کے لئے بہت مناسب جگہ تھی ۔ جنگلی جانوروں سے بچاؤ کے لئے کھوہ کے دہانے پر ایک کچی دیواری بنا دی گئی تھی۔ اس دیوار میں لکڑی کا دروازہ لگا تھا۔ اس کے علاوہ دیوار میں کچھ رخنے بھی بنائے گئے تھے۔ دیکھتے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ یہ رائفل وغیرہ کے لئے ہیں اور یہ دیوار ایک طرح سے مورچے کا کام بھی دیتی ہے۔
پہلا خیال ذہن میں یہی آیا کہ ہم منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ یعنی یہ کھوہ ٹیک سنگھ اور شہباز کا ڈیرہ ہے، لیکن پھر فورا ہی یاد آیا کہ ایاز عرف ایازی نے تو کچھ اور بتایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہاں چند کچے کوٹھے بنے ہوئے ہیں اور زمین ہموار ہے۔ یقینا یہ کوئی اور جگہ تھی۔ بہر حال اپنے طور پر میں شہباز پہلوان کا سامنا کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھا۔ شہباز پہلوان مجھے پہچانتا تھا۔ اس کے سامنے جاتے ہی ہمارا بھانڈا پھوٹ جانا تھا۔ دعا یہی تھی کہ شہباز پہلوان سے سامنا نہ ہو اور اگر ہو تو ایسے موقعے پر ہو کہ ہم اس پر قابو پاسکیں نہ کہ وہ ہمیں چوہے دان میں پھنسا لے۔
0 تبصرے