بلال شاہ کا بھرا ہوا ریوالور اب میری قمیص کے نیچے منتقل ہو چکا تھا اور میں اسے استعمال کرنے کے لئے دل و جان سے تیار تھا۔ ہمیں کھوہ کے اندر پہنچا دیا گیا۔ دھنی رام کی کم عمر گجراتی بیوی کامنی راستے میں مسلسل آہ و بکا کرتی رہی تھی۔ کھوہ میں پہنچ کر بارے نے اس کے منہ پر بندھا ہوا کپڑا ہٹایا تو لڑکی کا رونا دھونا اور بلند ہو گیا۔ وہ ناز و نعم میں پلی عیش و عشرت کی عادی، اس سخت کھردرے ماحول میں آئی تھی تو بُری طرح کراہ اُٹھی تھی۔
پہلے تو وہ بارے وغیرہ کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتی رہی اور انہیں اپنے امیر کبیر شوہر کے اثر و رسوخ سے ڈراتی رہی پھر منت سماجت پر اتر آئی اور دیوی دیوتاؤں کے واسطے دینے لگی ۔ بارے اور اس کے ساتھیوں پر اس داد فریاد کا بھلا کیا اثر ہو سکتا تھا۔ انہوں نے ہاتھ کھولے بغیر اسے گرد آلود فرش پر پٹخ دیا اور ڈرا دھمکا کر چپ کرا دیا۔ جلد ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ ٹیک سنگھ اور شہباز کا مرکزی ڈیرہ یہی ہے لیکن اس وقت وہ دونوں یہاں موجود نہیں تھے۔ (وہ اسی ڈیرے پر تھے جس کا ذکر ایاز عرف ایازی نے کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ کچے کوٹھوں والا وہ ڈیرہ یہاں سے پانچ میل مشرق کی طرف ہے) کھوہ میں پہنچتے ہی بارے نے ہماری مرہم پٹی کروائی اور مزے دار کھانا کھلایا۔ سالن شکار کے گوشت سے بنایا گیا تھا۔ ساتھ میں چھوٹی چھوٹی بھنڈی توری جیسی مچھلیاں تھیں جنہیں کھال اور سرسمیت پکایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بکری کے دودھ کا دہی اور شراب کے دو پوے تھے۔
اس آخری آئیٹم کے سوا ہم نے سب کچھ کھایا پیا۔ بارے اور اس کے ساتھیوں نے جنگل میں منگل کر رکھا تھا۔ طبلے سے لے کر گراموں فون تک اور شیشے کنگھی سے لے کر گرم حمام تک سب کچھ اس ڈیرے پر موجود تھا۔ رات کو ہم پرالی کے بستر پر آرام سے سوئے ۔ اگلے روز بارے نے مجھے بتایا کہ آج شام بڑا سردار آرہا ہے۔ وہ ہمیں اس سے ملوائے گا اور کوئی ایسی نوکری دلوانے کی کوشش کرے گا جس میں خطرہ نہ ہو اور معاوضہ بھی اچھا ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بارے نے ابھی تک ہمارے سامنے تسلیم نہیں کیا تھا کہ وہ مفرور ڈاکو ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کا سردار یہاں کا با اثر شخص ہے ارد گرد کا جنگل اس کی ملکیت ہے اور سردار کے دم قدم سے علاقے میں امن و امان قائم ہے۔ اس نے اپنے با اثر سردار کا نامی گرامی نہیں بتایا تھا لیکن بتائے بغیر ہی میں سمجھ رہا تھا کہ وہ ٹیک سنگھ کی بات کر رہا ہے۔
سہ پہر تک ہم یعنی بلال اور میں آزادانہ آس پاس کے علاقے میں گھومتے رہے۔ میں نے اردگرد کے پُر پیچ راستے اچھی طرح ذہن نشین کر لئے ۔ ہم نے کھوہ میں بھی گھوم پھر کر دیکھا۔ یہ کھوہ کافی وسیع تھی اور اس کے اندر دو تین اور سرنگیں بھی تھیں ۔ ایک سرنگ غالباً باورچی خانے کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ اس کی چھت دھوئیں سے کالی ہورہی تھی اور دہانہ خوفناک نظر آتا تھا۔ اس سرنگ کے ساتھ والی سرنگ پتھر رکھ کر بند کر دی گئی تھی اور یہاں ایک مسلح شخص پہرہ دے رہا تھا۔ یہ بات ہمیں تین ماہ بعد معلوم ہوسکی کہ اس سرنگ میں لوٹ مار اور منشیات کا ذخیرہ تھا۔ آثار سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ اس ڈیرے پر عورتیں وغیرہ بھی لائی جاتی ہیں۔
دوپہر کے فورا بعد بارا اور اس کے ساتھی جیسے کسی ضیافت کی تیاری کرنے لگے۔ دو بکرے لائے گئے۔ ان میں سے ایک کا جھٹکا کیا گیا اور دوسرے کے گلے پر چھری پھیری گئی۔ چند مرغیاں بھی جان سے گئیں۔ تانبے کے تین بڑے بڑے دیکچوں میں چاول رکھ دیئے گئے ۔ چابی والا گراموفون زور و شور سے بج رہا تھا اور کسی کسی وقت کوئی شخص مستی میں اُٹھ کر ناچنے بھی لگتا تھا۔ شام ہونے تک غار میں موجود افراد کی تعداد ساٹھ ستر تک پہنچ گئی۔
اندھیرا گہرا ہوا تو بلال اور میں نے چین کا سانس لیا۔ اب ہمارا پہچانا جانا خاصا مشکل تھا۔ مشعلوں اور لالٹینوں کی روشنی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ایک نظر میں کسی کو شناخت کیا جا سکتا۔ ویسے بھی بہت سے دوسرے افراد کی طرح ہم نے بھی چادروں کے ڈھاٹے سے بنا رکھے تھے ۔ پلاؤ اور قورمے کی خوشبو کھوہ میں پھیل گئی تو سب کی بھوک بھی چمک اُٹھی بڑا سردار کوئی آٹھ بجے کے لگ بھگ ڈیرے پر پہنچا۔ میں نے اسے بیس گز دور ہی سے پہچان لیا۔ وہ سو فیصد ٹیک سنگھ تھا۔ چمکتا ہوا سانولا رنگ اور انگارہ آنکھیں۔ اس کے کندھے سے پستول لٹک رہا تھا۔ اس کے ساتھ شہباز پہلوان تھا۔ وہ پہلوان جو چند ماہ پہلے اکھاڑے کی شان تھا۔
بے راہ روی میں اتنی دور نکل گیا تھا کہ اسے پہچاننا مشکل ہورہا تھا۔ جسم بھدا ہو چکا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے تھے۔ وہ سرتا پا نشے میں غرق نظر آتا تھا۔ وہ دونوں کھوہ میں پہنچے تو مسلح افراد نے جھک جھک کر مصافحے کرنے شروع کر دئیے ۔ ہجوم کے سبب میں اور بلال شاہ اس دعا سلام سے بچ گئے ۔ کھوہ میں ہی ایک ہموار جگہ پر کھانا لگا دیا گیا۔ دیسی اور ولایتی شراب کی بوتلیں گردش میں آگئیں۔ کھانے کے دوران ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اب مجرے کا پروگرام ہوگا۔ کسی قریبی گوشے سے ہارمونیم کے سُر درست کرنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ تھوڑی ہی دیر بعد جو پردے کے پیچھے تھا وہ سامنے آگیا۔ یہ دو سیکنڈ ہینڈ طوائفیں تھیں ۔ نہ رنگ نہ روپ چہروں پر سرخی پاؤڈر، جسم ڈھلکے ہوئے لیکن عورت کے لئے ترسے ہوئے مردوں بلکہ مردودوں کے لئے یہی پری زادیاں تھیں ۔ کھانے کے بعد ایک گھنٹے تک خوب ہلا گلا ہوا۔
میں نے قریب بیٹھے ایک سکھ نوجوان سے پوچھا۔ "یار وہ ولایتی مچھلی کہاں ہے، جو کل سردار بارا نا لے پار سے پکڑ کر لایا تھا۔ میرا اشارہ نوخیز کامنی کی طرف تھا۔نوجوان نے ایک گالی میری طرف اچھالی اور بولا ۔ " تجھے بڑی فکر ہے تیری کچھ لگتی تو نہیں ہے۔“ قریب بیٹھے دو گجراتی بدمعاش زور زور سے ہنسنے لگے۔ بے غیرتی کا ڈرامہ ضروری تھا اس لئے میں نے بھی بننے میں ان کا ساتھ دیا۔ ایک گجراتی بدمعاش بولا ۔ " آج وہ ولایتی مچھلی سردار ٹیک سنگھ کے دستر خوان پر سجے گی ، کل استاد شہباز کے دستر خوان پر ، پرسوں سردار بارا کے دستر خوان پر، پھر مولا سنگھ پھر ٹیکا سنگھ کالیا، پھر شاہ دین، پھر پربت کمار باڈر والا ایک ہی سانس میں اس نے مجھے دس بیس نام گنوا دیئے۔ آخر میں ہاتھ لہرا کر بولا ۔ ہم تم کس گنتی میں آتے ہیں شہزادے۔ ہم تک پہنچتے پہنچتے ولایتی اور دیسی سب مچھلیاں ایک جیسی ہو جاتی ہیں۔ اس لئے زیادہ فکر مت کرو اور لال پری کو چوم چاٹ کر سو جاؤ یہیں آگ کے پاس۔
“
دھیرے دھیرے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس جشن کی وجہ وہ کامیاب حملہ ہے جو کل صبح بارے اور اس کے ساتھیوں نے ریسٹ ہاؤس پر کیا تھا۔ اپنے ایک بھی شخص کی جان گنوائے بغیر وہ ریسٹ ہاؤس کو تہس نہس کر آئے تھے اور مال غنیمت میں کئی تو لے زیور اور سامان کے علاوہ ایک چلتی پھرتی قیامت بھی اُٹھا لائے تھے۔ رات گیارہ بجے کے قریب محفل برخاست ہوگئی۔
دھیرے دھیرے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس جشن کی وجہ وہ کامیاب حملہ ہے جو کل صبح بارے اور اس کے ساتھیوں نے ریسٹ ہاؤس پر کیا تھا۔ اپنے ایک بھی شخص کی جان گنوائے بغیر وہ ریسٹ ہاؤس کو تہس نہس کر آئے تھے اور مال غنیمت میں کئی تو لے زیور اور سامان کے علاوہ ایک چلتی پھرتی قیامت بھی اُٹھا لائے تھے۔ رات گیارہ بجے کے قریب محفل برخاست ہوگئی۔
وہ افراد جنہیں جنگل میں پہرہ دینا تھا یا دوسری جگہوں پر سونا تھا کھوہ سے رخصت ہو گئے ۔ ٹیک سنگھ اور شہباز پہلوان بھی جھومتے ہوئے اُٹھے اور کھوہ کے اندرونی حصے کی طرف چلے گئے ۔ ان کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد کسی گوشے سے کامنی کی دبی دبی چیخیں ابھر نے لگیں۔ ضمیر زندہ ہو تو ایسی چیخیں سن کر انسان کے جسم کی بنیادیں ہل جاتی ہیں لیکن کھوہ کے باسیوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انہیں کسی نے پھڑکتا ہوا لطیفہ سنایا ہے۔ وہ قہقہے لگاتے اور مستی میں اُٹھ اُٹھ کرناچنے لگے جو زیادہ من چلے تھے وہ ناچتے ناچتے ایک آدھ ہوائی فائر بھی کر دیتے تھے۔ بڑا وحشیانہ منظر تھا یہ شراب بدستور پی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ سب غفیل ہونے لگے۔ سردار بارا اور ایک جالندھری بدمعاش مولا سنگھ آخر تک جاگتے رہے لیکن پھر ان پر بھی نیند حاوی ہونے لگی۔ بارے نے نیم باز آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بولا ۔ استاد تو بڑا کھوچل ہے۔ اتنی چڑھائی ہے پھر بھی چنگا بھلا ہے۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ بلال اور میں نے جتنی پی ہے وہ سب کھوہ کی کچی زمین میں جذب ہو چکی ہے۔ مولا سنگھ میرے کندھے پر ہاتھ مار کر کہنے لگا۔ "اچھا . جا پھر اُدھر خاکی درواجے پر پہرہ دے۔
سردار کو کسی شے کی جرورت ہوگی تو مولا کہہ کر آواج دے گا۔ درواجا کھول کر اندر چلے جانا۔ گھبرانا نہیں۔“نیند کی وجہ سے سردار بارے کے جہاز بھی اب مکمل طور پر ڈوب چکے تھے۔ ہاتھ لہرا کر بولا ۔ اور ہاں وہ پولیس والے ماں کے ویر اپنی کڑی لینے آجائیں تو سب کو مار دینا سب کو مار دینا بے فکر ہو کے میں صبح اُٹھ کر خود نپٹ لوں گا ہائیکورٹ کے وڈے مامے سے۔ پتہ نہیں وہ نشے میں کیا اول فول بک رہا تھا۔ ذرا دیر بعد وہ گونج دار خراٹے لینے لگا۔ سوتے میں اس کی پتھر کی آنکھ ادھ کھلی تھی اور خوفناک لگ رہی تھی۔ مولا سنگھ نے مجھے دھکیل کر خاکی دروازے کی طرف بھیج دیا۔ یہ دروازہ پچیس تیس گز آگے کھوہ کے بائیں حصے میں تھا۔ کوئی پون گھنٹہ پہلے کامنی کی چیخیں اسی دروازے کے پیچھے سے بلند ہوئی تھیں میں دروازے کے پاس پہنچا تو اندر مکمل خاموشی تھی لیکن پھر اچانک دبی دبی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
کامنی کی روتی ہوئی آواز سنائی دی۔ چھوڑ دے مجھے اب میں جاؤں گی ۔‘ ٹیک سنگھ کی مخمور سرگوشی ابھری۔ ابھی کہاں میری جان، اتنی لمبی رات پڑی ہے ایسا ظلم ڈھاؤ گی تو مر جائے گا تمہارا دیوانه تب اندر سے ایک بار پھر ہاتھا پائی کی آوازیں آنے لگیں۔ میری پیشانی پسینے سے تر ہو رہی تھی۔ اب اور انتظار میرے بس میں نہیں تھا۔ مولا سنگھ نے کہا تھا کہ آواز آئے تو دروازہ کھول کر اندر چلے جانا۔ اس کا مطلب ہے دروازہ کھلا ہے۔ میں نے بھرا ہوا ریوالور ہاتھ میں لیا اور تیزی سے اندر گھس گیا۔ لالٹین کی مدھم روشنی میں میری نگاہ سب سے پہلے ٹیک سنگھ کے منحوس چہرے پر پڑی۔ خبردار۔ " میں نے پھنکار کر کہا۔ "حرکت مت کرنا ۔ " میرے ریوالور کی نال اس کے سر سے تقریبا پانچ فٹ دور تھی۔ نشے میں نزدیکیاں اور دوریاں کون دیکھتا ہے۔
ٹیک سنگھ نے بھی ریوالور کو نظر انداز کر کے مجھ پر جھپٹنا چاہا۔ مجھے گولی چلانا پڑی۔ دھماکہ ہوا اور ٹیک سنگھ کی پیشانی پر دائیں آنکھ کے عین اوپر ایک سیاہ نشان نمودار ہو گیا۔ یہ موت کا نشان تھا۔ یہ اجل کی وہ مہر تھی جو قدرت نے میرے ہاتھوں ایک بدکار کے ماتھے پر لگوائی تھی۔ یہ مہر لگتے ہی اس دنیا سے اس کا جانا ضروری ہو گیا تھا۔ ٹیک سنگھ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ کٹے شہتیر کی طرح کامنی کے پاؤں میں گرا۔ وہ چیختی ہوئی اٹھی اور خود کو کسی چادر میں لپیٹتی ہوئی ایک کونے میں جاگھسی۔ اب میری نگاہ دوسری چار پائی پر پڑی۔ لالٹین اس چار پائی کے قریب رکھی تھی ۔ لہذا یہاں کا منظر زیادہ روشن تھا۔ میں نے شہباز کو دیکھا۔ وہ آنکھیں سکوڑ سکوڑ کر مجھے گھور رہا تھا۔ جیسے سوچ رہا ہو کہ ابھی تک نیند میں ہے یا جاگ گیا ہے۔ پھر یکبارگی اس کا ہاتھ اپنی رائفل کی طرف بڑھا۔ دوسرا دھماکہ ہوا اور 38 بور کی گولی شہباز کے بائیں کندھے میں پھنس گئی۔
اس نے کراہ کر اپنا کندھا دوسرے ہاتھ سے تھاما۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار ٹھوکر اس کے منہ پر ماری۔ کل کا نامی گرامی پہلوان ایک خستہ برج کی طرح ٹوٹ کر چار پائی سے نیچے جا گرا۔ دھماکوں کی آواز پوری کھوہ میں سو گونجی تھی۔ میں جانتا تھا بدمست شرابیوں میں سے کئی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے ہوں گے اور اگر وہ نہ اُٹھے ہوں گے کھوہ سے باہر پہرہ دینے والے ہوشیار ہو گئے ہوں گے ... مجھے اور بلال شاہ کو ایک خطر ناک صورت حال کا سامنا تھا لیکن دس بارہ سیکنڈ خیریت سے گزر گئے تو مجھ پر ایک اطمینان بخش حقیقت کھلی ....
دھماکوں کی آواز نے کسی کو جگایا تھا اور نہ ہوشیار کیا تھا۔ مجرے کے دوران اور بعد میں کھوہ کے اندر مسلسل ہوائی فائرنگ کی جاتی رہی تھی اور ان دھماکوں کو بھی اسی فائرنگ کا حصہ سمجھ لیا گیا تھا۔ بلال شاہ بھاگتا ہوا اندر آیا اور اس نے بتایا کہ کھوہ کے دہانے پر چھ سات گھوڑے موجود ہیں اور وہاں کوئی چوکیدار بھی موجود نہیں۔ میں نے لالٹین اُٹھا کر شہباز پہلوان کا چہرہ دیکھا۔ چارپائی سے گرتے ہی اس کے سر پر چوٹ لگی تھی اور پیشانی لہولہان ہو رہی تھی۔ وہ نشے میں تو پہلے ہی تھا۔ اب زخمی ہو کر اس کا دم خم بالکل ختم ہو گیا تھا۔ اس پر راکھ کے پہاڑ والی مثال صادق آتی تھی۔ میں نے ایک پگڑی سے اس کے ہاتھ پشت پر کس دیئے اور پھر بلال شاہ کے ساتھ مل کر منہ پر کپڑا بھی ٹھونس دیا۔ اپنے قریب ایک سنگھ کی لحیم شحیم لاش دیکھ کر کامنی مسلسل گھٹی گھٹی آواز میں چیخ رہی تھی۔ میں نے ڈانٹ کر اسے چپ کرایا۔ بلال شاہ جلدی جلدی کمرے کی تلاشی لے رہا تھا۔ اس تلاشی کے سبب ہمیں ٹیک سنگھ وغیرہ کے خلاف چند اہم ثبوت حاصل ہو گئے ۔ پہلوان شہباز بہت وزنی تھا۔
کم از کم میرے یا بلال شاہ کے لئے اسے کندھے پر اُٹھانا ممکن نہیں تھا۔ ہم اسے کندھوں سے تھام کر گھسیٹتے ہوئے کھوہ سے باہر لے آئے۔ وہ نشے میں غوں غاں کر رہا تھا اور بار بار سر کو جھٹکے دیتا تھا پہلوان کو گھوڑے پر لادنا ایک مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ حل کرنے میں کامنی نے بھی ہماری مدد کی ۔ ہم نے مل جل کر اسے گھوڑے پر اوندھا ڈال دیا۔ بلال شاہ نے بڑی پھرتی کے ساتھ ایک رسی کی مدد سے پہلوان کو زین پر کس دیا۔ ہم نے تین صحت مند گھوڑے چنے اور انہیں راسوں سے تھام کر دھیرے دھیرے ڈھلوان کی طرف بڑھنے لگے۔ اب ہم پوری طرح مسلح تھے۔
میرے ہاتھ میں شہباز پہلوان والی طاقتور رائفل تھی جب کہ بلال شاہ بھی ایک خودکار رائفل سے مسلح تھا۔ یہ زندگی اور موت کا کھیل تھا اور ہم کسی بھی بُری صورت حال کے لئے پوری طرح تیار تھے ۔ کل دوپہر ہی میں ایک محفوظ راستہ دیکھ چکا تھا۔ یہ راستہ تھوڑا سا طویل تھا لیکن ہم پہرے داروں کا خطرہ مول لئے بغیر ڈیرے کی حدود سے نکل سکتے تھے۔ ڈیرے سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر دو مسلح افراد سے ہماری مڈ بھیڑ ہوگئی۔ انہوں نے ہمیں روکنا چاہا۔ میرے ہاتھ میں بھری ہوئی رائفل تھی اور میرے سامنے وہ افراد تھے جو پکڑے جاتے تو سینکڑوں برس قید اور کئی کئی پھانسیاں ان کے حصے میں آتیں۔
میرے دل میں ان کے لئے ذرا بھر رحم نہیں تھا۔ میں نے بے دریغ لبلبی دبائی۔ یکے بعد دیگرے وہ دونوں اچھل کر جنتر کی جھاڑیوں میں گرے۔ ایک شخص کے ہاتھ میں لالٹین تھی جو اس کے گرتے ساتھ ہی بجھ گئی۔
اب چاروں طرف گہری تاریکی تھی۔ میں دیکھ نہیں سکا کہ وہ زندہ بچے ہیں یا اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ میرے اشارے پر بلال شاہ اور کامنی ڈیک نالے کی طرف بڑھنے لگے۔ ڈیڑھ دو میل آگے پھر ہمیں روک لیا گیا لیکن اس دفعہ روکنے والے زیادہ ہوشیار چالاک نہیں تھے۔ ہم نے انہیں چکمہ دیا کہ ایک ساتھی زخمی ہو گیا ہے اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جارہے ہیں۔ ان افراد کے پاس ماچس کے علاوہ اور کوئی روشنی نہیں تھی ۔ وہ تیلیاں جلا جلا کر ہمارے چہرے دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ پھر ہمیں راستہ دے دیا ۔ ڈیک نالے تک کا وہ سفر بے حد دشوار بلکہ نا قابل فراموش تھا۔ اس کی تفصیل میں گیا تو یہ روئیداد بہت طویل ہو جائے گی۔ بس یہ سمجھ لیں کہ تاریک اور ٹھٹھرے ہوئے جنگل میں وہ پہاڑ جیسی رات تھی جس کا ہر پل ہم نے ایک عذاب کی طرح کاٹا۔ سفر کے دوران ہم ایک مرتبہ راستہ بھی بھولے لیکن قسمت اچھی تھی کہ جلد ہی راہِ راست پر آ گئے ۔ مشرق کی طرف سے سپیدہ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ آخر ہم خراشوں، زخموں اور تھکن سے چور ڈیک نالے پر پہنچے اور اس خطرناک حد کو پار کر کے کھلے علاقے میں آگئے ۔
✩============✩
ٹیک سنگھ کی موت اور شہباز پہلوان کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ علاقے میں کھلبلی مچ گئی۔ شہباز پہلوان کو پہلے کپورتھلہ اور وہاں سے امرتسر لے جایا گیا۔ یہاں ہسپتال میں اس کے کندھے سے گولی نکالی گئی اور سر کے زخم کی مرہم پٹی کی گئی ۔ ہسپتال سے باہر شہباز کو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ۔ گولی نکلنے کے بعد شہباز پہلوان قدرے چاق و چوبند نظر آنے لگا۔ ڈاکٹروں کے خیال میں اس کا چھ سات روز ہسپتال میں رہنا ضروری تھا۔ ہسپتال میں اسے ہتھکڑیاں لگی تھیں اور چوبیس گھنٹے پولیس کی نگرانی میں تھا۔ ایک روز میں اسے دیکھنے گیا تو وہ لڑکی اس سے ملنے آئی ہوئی تھی جو بڑے اور چھوٹے بھائی میں فساد کی بنیاد بنی تھی۔ میرا مطلب صفیہ سے ہے۔ میں ایازی کے بٹوے میں اس کی تصویر دیکھ چکا تھا اس لئے پہچان گیا۔
✩============✩
ٹیک سنگھ کی موت اور شہباز پہلوان کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ علاقے میں کھلبلی مچ گئی۔ شہباز پہلوان کو پہلے کپورتھلہ اور وہاں سے امرتسر لے جایا گیا۔ یہاں ہسپتال میں اس کے کندھے سے گولی نکالی گئی اور سر کے زخم کی مرہم پٹی کی گئی ۔ ہسپتال سے باہر شہباز کو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ۔ گولی نکلنے کے بعد شہباز پہلوان قدرے چاق و چوبند نظر آنے لگا۔ ڈاکٹروں کے خیال میں اس کا چھ سات روز ہسپتال میں رہنا ضروری تھا۔ ہسپتال میں اسے ہتھکڑیاں لگی تھیں اور چوبیس گھنٹے پولیس کی نگرانی میں تھا۔ ایک روز میں اسے دیکھنے گیا تو وہ لڑکی اس سے ملنے آئی ہوئی تھی جو بڑے اور چھوٹے بھائی میں فساد کی بنیاد بنی تھی۔ میرا مطلب صفیہ سے ہے۔ میں ایازی کے بٹوے میں اس کی تصویر دیکھ چکا تھا اس لئے پہچان گیا۔
لڑکی کے لباس اور چال ڈھال سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بچے کی ماں بننے والی ہے۔ وہ کھلتے ہوئے رنگ کی ایک خوبصورت لڑکی تھی ۔ پنجابی مٹیاروں کی طرح اونچی لمبی اور جوان تھی لیکن مٹیاروں کی طرح ان پڑھ نظر نہیں آتی تھی۔ میرے پہنچتے ہی وہ پہلوان کے پاس سے اُٹھ کر باہر چلی گئی۔ میں چند کاغذوں پر انگوٹھا لگوانے پہلوان کے پاس آیا تھا۔ انگوٹھا لگوا کر واپس جیون چلا گیا۔ شام تک مجھے پورن کچھ کے متعلق اپنی رپورٹ تیار کر کے انگریز ایس پی تک پہنچانی تھی شام کو ابھی میں بمشکل فائل سے فارغ ہوا تھا کہ ایک دھماکہ خیز خبر ملی کچھ سکھوں نے ہسپتال میں شہباز پہلوان پر حملہ کیا تھا اور اسے شدید زخمی کر کے فرار ہو گئے تھے۔ اس سنسنی خیز خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔
دھیان فورا وچن سنگھ پہلوان کے وارثوں کی طرف گیا۔ سب کام چھوڑ کر میں بھاگم بھاگ پھر امرتسر پہنچا۔ معلوم ہوا کہ شہباز پہلوان ایمرجنسی وارڈ میں ہے اور اس کی حالت ٹھیک نہیں۔ میں نے وہ کمرہ دیکھا جہاں شہباز حملے سے پہلے زیر علاج تھا۔ کمرہ میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ ہر چیز ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ کرسیاں، میز، بیڈ سب کچھ الٹ دیا گیا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود کانسٹیبلوں سے رائفلیں چھین لی گئی تھیں اور ایک سب انسپکٹر اس ہنگامے میں شدید زخمی ہوا تھا۔ میرا اندازہ بالکل درست نکلا تھا۔ حملہ کرنے والے پہلوان وچن سنگھ کے حمایتی تھے۔ ان کی تعداد دو درجن سے زائد تھی۔ سب ہاکیوں ، ڈنڈوں اور کرپانوں سے مسلح تھے۔ وہ انتقام نتقام کے نعرے لگاتے ہوئے ہسپتال میں گھسے تھے اور بھوکے بھیڑیوں کی طرح پہلوان پر ٹوٹ پڑے تھے۔ اس واقعے میں سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ پہلوان کے چھوٹے بھائی ایاز کو بھی حملہ آوروں کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ گو اس نے اپنا منہ سر پگڑی میں لپیٹ رکھا تھا لیکن ایک زخمی کانسٹیبل نے اسے پہچان لیا تھا۔
پہلوان سے میری ملاقات اگلے روز صبح سویرے ہوسکی۔ یوں لگا چراغ سحری کی طرح اس کی زندگی کا چراغ بھی ٹمٹما رہا ہے۔ اس کے چوڑے چکلے سینے اور پیٹ پر کرپان کے کئی زخم آئے تھے ۔ سر اور چہرے پر ہاکیوں اور لاٹھیوں کی ضربیں بھی ان گنت تھیں۔ کھینچ کھینچ کر سانس لے رہا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ میں اس سے زیادہ دیر بات نہیں کر سکتا لیکن پہلوان جب بولنے پر آیا تو بولتا چلا گیا ۔ جیسے شمع بجھنے سے پہلے زور سے بھڑکتی ہے۔ وہ بھی بھڑک رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے پہلوان کے جسم میں وہی شہباز عرف بجلی پہلوان زندہ ہو گیا ہے جو ہار کر بھی ہار نہیں مانتا تھا۔ جو اکھاڑے میں چیتے کی طرح پلٹتا جھپٹتا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے حریف کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ جاتا تھا۔
قارئین نے محسوس کیا ہوگا کہ شروع سے آخر تک میں شہباز پہلوان کے بارے میں کشمکش کا شکار رہا۔ میں وچن سنگھ پہلوان کے حمائیتیوں کی طرف دیکھتا تھا تو شہباز کے لئے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی تھی لیکن جب اس کے اپنے کرتوتوں پر نظر پڑتی تھی تو ہمدردی کی جگہ نفرت لے لیتی تھی۔ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں شہباز پہلوان سے جو میری آخری گفتگو ہوئی اس نے میرے اندر کی کشمکش کو ختم کر دیا۔ میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی کے سوا اور کچھ نہ رہا۔ تصویر کا ایک بالکل نیا رخ تھا لیکن افسوس کہ یہ رخ بہت دیر سے سامنے آیا۔ گفتگو کرتے ہوئے شہباز پہلوان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سکھ حملہ آوروں میں اپنے چھوٹے بھائی کو اس نے بھی پہچان لیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ دکھ اسی بات کا تھا کہ غیروں کے ساتھ مل کر اپنوں نے بھی اس کے سینے پر زخم لگائے تھے۔
اس نے روئیداد بناتے ہوئے کہا۔ تھانیدار صاحب! اس روز اکھاڑے میں جو کچھ ہوا آپ کو بھی پتہ ہے۔ میں سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ وچن کو قتل کر دوں گا۔ میں نے اسے داؤ لگا رکھا تھا۔ اس نے داؤ سے نکلنے کے لئے اندھا زور لگایا۔ میں داؤ چھوڑ دیتا تو نیچے آجاتا اس لئے زور تو میں نے بھی لگانا تھا۔ بس اسی چکر میں وچنے کی کمر ٹوٹ گئی۔ میری غلطی تھی کہ جان بچانے کے لئے میں موقعے سے غائب ہو گیا۔ وچنے کے حمائتیوں نے انسپکٹر نہال سنگھ کو شکاری کتے کی طرح میرے پیچھے لگا دیا۔ آپ پولیس کے محکمے میں ہیں، جانتے ہی ہوں گے کہ نہال سنگھ محکمے کے بدنام تھانیداروں میں سے ایک ہے۔ اس نے میری ماں اور بہنوں کو تھانے میں کھینچا اور پھر پولیس کی دو گاڑیاں لے کر مجھ پر چڑھ دوڑا۔ آپ کے کاغذوں میں میرا سب سے بڑا جرم یہی لکھا ہے ناں کہ میں نے پولیس مقابلہ کیا ہے اور نہال سنگھ سمیت تین پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ میں بڑی سے بڑی قسم کھا سکتا ہوں کہ میں مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا اور میں نے خود کو گرفتاری کے لئے پیش کر دیا تھا لیکن نہال سنگھ مجھے گرفتار کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ فیصلہ کر کے آیا تھا کہ وچن سنگھ کے بدلے میں میری لاش لے کر جائے گا۔
مجبور ہوکر بالکل مجبور ہو کر میں نے پولیس پارٹی پر فائر کھولا اور جان بچا کر بھاگ نکلا ۔ آپ کی اور ایازی کی نظروں میں میں نے جو دوسرا بڑا جرم کیا وہ یہ ہے کہ میں نے اس لڑکی کو گھر میں ڈال لیا جس کو ایازی پسند کرتا تھا۔ ایازی کو کچھ پتہ نہیں ہے وہ لڑکی کون ہے ، نہ ہی آپ کو پتہ ہے۔ آپ اب تک ایک لڑکی کا کھوج لگاتے رہے ہیں جس کا نام آپ کی فائل میں میری محبوبہ کے طور پر لکھا ہے یہ صفیہ ہی وہ لڑکی ہے۔ وہ مجھے اس وقت سے جانتی ہے جب ایازی کی ابھی مونچھیں بھی نہیں پھوٹی تھیں۔
جب اسے پتہ چلا کہ مجھ پر قتل کا الزام لگ گیا ہے تو وہ سب کچھ چھوڑ کر مجھے ڈھونڈتی ہوئی پورن کچھ پہنچ گئی۔ میں نے اسے واپس بھیجنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی ایک ہی ضد تھی کہ میرے ساتھ جئیے مرے گی جب وہ کسی طرح واپس نہیں گئی تو میں نے اس سے شادی کر لی ، اب وہ میرے بچے کی ماں بننے والی ہے۔" شہباز پہلوان نے ایک گہری سانس لی۔ وہ رک رک کر بول رہا تھا۔ کبھی اس کی آواز اتنی دھیمی ہو جاتی تھی کہ مجھے اس کے چہرے پر جھکنا پڑتا تھا۔ اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر وہ بولا۔ ٹیک سنگھ کے ساتھ رہ کر میں شراب ضرور پینے لگا ہوں، کبھی کبھی ناچ گانا بھی دیکھ لیتا ہوں لیکن خدا گواہ ہے صفیہ کے سوا کبھی کسی عورت سے میرا تعلق واسطہ نہیں رہا۔
میں اتنا بُرا نہیں تھا جتنا مجھے بنا دیا گیا۔ مجھے پر وہ الزام بھی لگائے گئے جن کی میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی۔ نہ میں نے ٹیک سنگھ کے ساتھ مل کر لوگوں کو لوٹا ہے، نہ اپنے مامے کو قتل کی دھمکیاں دی ہیں، نہ آپ کے گھر کو آگ لگائی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے الزام خواہ مخواہ میرے سر تھوپ دیئے گئے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نرس نجمہ کے بارے میں بھی مجھ پر شک کیا جاتا رہا ہے۔ میں اسے بہن سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں۔
میں اتنا بُرا نہیں تھا جتنا مجھے بنا دیا گیا۔ مجھے پر وہ الزام بھی لگائے گئے جن کی میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی۔ نہ میں نے ٹیک سنگھ کے ساتھ مل کر لوگوں کو لوٹا ہے، نہ اپنے مامے کو قتل کی دھمکیاں دی ہیں، نہ آپ کے گھر کو آگ لگائی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے الزام خواہ مخواہ میرے سر تھوپ دیئے گئے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نرس نجمہ کے بارے میں بھی مجھ پر شک کیا جاتا رہا ہے۔ میں اسے بہن سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں۔
میں نے اسے دیپالپور صرف اس لئے بلایا تھا کہ میں پولیس کے آگے اور بھاگنا نہیں چاہتا تھا۔ میں خود کو گرفتاری کے لئے پیش کرنا چاہتا تھا۔ نجمہ کا بہنوئی عدالت میں پیش کار ہے۔ میں نے اسے بھی ساتھ بلایا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے صحیح قانونی مشورہ دے۔ خانہ بدوشوں کی بستی میں نجمہ اور اس کے بہنوئی عاقل سے میری ملاقات ہوئی ۔ یقینی بات تھی کہ اس ملاقات کے بعد میں اپنی گرفتاری دے دیتا لیکن اس وقت وچن سنگھ کے حمائیتیوں اور پولیس نے بستی پر دھاوا بول دیا۔ مجھے ایک بار پھر جان بچا کر بھاگنا پڑا باتیں کرتے کرتے پہلوان کی سانس اکھڑنے لگی۔
بڑے ڈاکٹر نے آکر اسے بولنے سے منع کر دیا۔ میں پہلوان کے پاس سے اُٹھ کر جانے لگا تو اس نے نمناک نظروں سے میری طرف دیکھا اور رک رک کر بولا۔ تھانیدار جی! میری وجہ سے میرے چھوٹے بھائی پر کوئی مصیبت نہیں آنی چاہیے . میری درخواست ہے کہ آپ اس سے نرمی کریں اور اگر ہو سکے تو صفیہ کو کہیں سر چھپانے کی جگہ دلا دیں۔ وہ بالکل بے آسرا ہے۔“ ٹھیک دو گھنٹے بعد پہلوان مر گیا۔ وہ شخص مرگیا جو اکھاڑے کی آبرو اور پنج پانیوں کی پہچان تھا۔ کبھی نہ ہارنے والا اپنی تقدیر سے ہار گیا۔ سینے پر ناقدری کے زخم لے کر منوں مٹی کے نیچے سو گیا۔ اسے اکھاڑے کی مٹی سے قبر کی مٹی تک پہنچانے میں تقدیر کے ساتھ ساتھ اس کے چھوٹے بھائی کا ہاتھ بھی تھا اور یہی زیادہ دکھ کی بات تھی۔
دوسرے تیسرے روز میں نے ایاز عرف ایازی کو جالندھر میں جا پکڑا ۔ جیون لاکر اس سے پوچھ گچھ کی گئی۔ دو دن چھتر کھانے کے بعد اس نے سب کچھ بک دیا۔ اپنے بڑے بھائی پر پہلی دفعہ بھی ایازی نے ہی حملہ کروایا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ شہباز سردار تلکو رام کی بستی میں نجمہ سے ملنے والا ہے تو اس نے وچن سنگھ کے لواحقوں کو اطلاع دے دی اور وہ کیل کانٹے سے لیس ہو کر دیپالپور پہنچ گئے یوں شہباز زندگی کی طرف آتے آتے پھر موت کی طرف لوٹ گیا۔ اس واقعے کے بعد جب ایازی نے محسوس کیا کہ میں نے شہباز کی گرفتاری میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے تو اس نے مجھے اکسانے کی کوشش کی اور مظلوم ماموں کا ذکر کر کے مجھے چوکس کرنا چاہا۔ ناکام ہو کر اس نے اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا اور رات کی تاریکی میں میرے کوارٹر کو آگ لگادی۔
چونکہ مجھے اس سے پہلے شہباز ایک خط لکھنے کی غلطی کر چکا تھا لہذا آگ لگنے پر میرا دھیان فورا اس کی طرف چلا گیا۔ ایازی کو کچھ لوگوں نے آگ لگاتے دیکھا تھا۔ ایازی بھی بھاری تن و توش کا تھا لہذا سمجھا گیا کہ وہ شہباز پہلوان ہے۔ یوں ہم سے غلطی پر غلطی ہوتی چلی گئی۔ بالکل آخر میں جب پہلوان گرفتار ہو کر ہسپتال پہنچ گیا تو ایازی وغیرہ کو ایک بار پھر فکر لاحق ہوئی کہ کہیں پورن کچھ کے ڈاکوؤں کے لئے عام معافی کے چکر میں شہباز پہلوان کو بھی رعایت نہ مل جائے۔ انہوں نے اچانک شب خون مارا اور ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے شہباز پہلوان کو ہسپتال کے بستر پر ہی زخم زخم کر دیا۔ یوں جو شخص سات آٹھ ماہ تک اپنے دشمنوں کو اور پولیس کو چکمہ دیتا رہا وہ اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں موت سے مات کھا گیا۔ شاید ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ۔
مجھے وہ منظر آج تک یاد ہے جب ایازی کو پتہ چلا کہ صفیہ ہی شہباز کی گمنام محبوبہ ہے۔ ایازی کو پہلے تو یقین ہی نہیں آیا تھا اور جب آیا تھا تو وہ دھاڑیں مار مار کر رویا تھا اور اس نے حوالات کی سلاخوں سے سر ٹکرایا تھا اور خود کو لہولہان کر لیا تھا لیکن جو کچھ ہو چکا تھا اسے بدلا نہیں جا سکتا تھا، نہ ہی مرنے والے کو واپس لایا جاسکتا تھا۔ عدالت میں ایازی پر کیس چلا اور مختلف جرائم کی سزا میں اسے سات سال قید بامشقت ہوئی ۔ ٹیک سنگھ اور جج ہری کشن سمیت اس کہانی کے دیگر کردار اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے، صرف ڈی ایس پی راجپال زندہ تھا۔ اس نے دھنی رام کے ریسٹ ہاؤس میں اپنے اختیار سے تجاوز کر کے مجھ پر حملہ کرایا تھا اور حبس بیجا میں رکھا تھا۔ اس کے خلاف یہ جرم ثابت ہو چکا تھا۔ میں اس معاملے کو عدالت میں لے جا کر راجپال کو سزا دلا سکتا تھا لیکن افسران کے کہنے پر اور اپنی خواہش کے مطابق میں نے اسے معاف کرنا مناسب سمجھا۔ راجپال نے مجھ سے معافی مانگ لی اور یوں ہمارے درمیان راضی نامہ ہو گیا۔
ان واقعات کے قریباً دو ماہ بعد جالندھر، امرتسر اور کپورتھلہ کے کئی تھانوں کی پولیس نے پوری تیاری کے ساتھ پورن کچھ پر ہلہ بولا ۔ اس کارروائی میں ڈی ایس پی راجپال اور میں بھی شریک تھے یہ کارروائی بہت ہنگامہ خیز لیکن کامیاب رہی۔ ٹیک سنگھ کی موت نے ڈاکوؤں کو تتر بتر کر رکھا تھا۔ وہ پولیس سے شدید مزاحمت نہ کر سکے۔ پولیس نے ان کے بڑے ڈیرے کو گھیر لیا اور اسلحہ و منشیات برآمد کرنے کے علاوہ قریباً ایک سو ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا ۔ گرفتار شدگان میں ٹیک سنگھ کا قائم مقام بارا بھی تھا۔ یوں پکی کے اکھاڑے سے شروع ہونے والی کہانی ایک سال بعد پورن کچھ کے گھنے جنگل میں اختتام کو پہنچی۔
اس کہانی کا اہم ترین کردار صفیہ ہے۔ انسپکٹر اروڑا کہا کرتا تھا یہ لڑکی پہلوان کی محبوبہ نہیں اس کی مریدنی تھی۔ وہ اس سے محبت ہی نہیں کرتی تھی کسی بہت بڑے پیر کی طرح اس کی عزت بھی کرتی تھی۔ اسی لئے تو اس کی خاطر بہن، بھائی، گھر بار، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگل میں جا بسی تھی۔ وہ اپنے شوہر کا ذکر بڑے احترام سے ” پہلوان جی " کہہ کر کرتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد 1955ء میں جب وہ دوبارہ ہندوستان گیا تو امرتسر میں صفیہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اسی پرانے محلے گر والی دروازے میں رہتی تھی ۔ اس نے پھر دوبارہ شادی نہیں کی۔ اس کا سب کچھ ایک بارہ سالہ گورا چٹا صحت مندلڑکا تھا۔ وہ سکول کی کبڈی ٹیم کا کپتان تھا اور اس کا نام تھا۔ شہباز ۔
ختم شُد۔

0 تبصرے