کبریٰ کو حسان کی صورت سے بھی نفرت ہو چکی تھی۔ اس کے دل میں بس ماضی کی تلخ یادیں اور ایک گہری شکایت باقی رہ گئی تھی۔ لیکن اُس دن جب اس نے حسان کو بچوں کی طرح بلکتے، روتے دیکھا، تو اس کے دل میں کچھ پگھل سا گیا۔ وہ بے بسی کے ساتھ سوچنے لگی، شاید میاں بیوی کا رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے، جو سب کچھ سہہ کر بھی آخرکار معاف کر دیتا ہے۔ اس نے اپنے دل پر جمی ماضی کی تلخیوں کی گرد کو جھاڑتے ہوئے حسان کو معاف کر دیا۔
لیکن یہ تو محض کہانی کا ایک منظر تھا۔ صبا نے افسانہ ختم کرتے ہی تیزی سے تبصرہ کیا، "یہ تو بالکل بکواس ہے! آخر افسانہ نگار اتنے سادہ اور جذباتی کیوں ہوتے ہیں؟ ہر کہانی ایک جیسی کیوں ہوتی ہے؟ شوہر ظلم کرے، اور بیوی ایک مہان دیوی بن کر معاف کر دے!"
"اب کون سا افسانہ برا لگ گیا، محترمہ؟" ندا، جو قریب ہی بیٹھی تھی، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
صبا نے غصے سے کہا، "امی ہمیشہ کہتی ہیں کہ یہ افسانے زندگی کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن میں نہیں مانتی! بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ ظلم کرے، اور پھر معافی مانگ لے، اور وہ سب کچھ بھول کر اسے معاف کر دے؟"
ندا نے نرمی سے جواب دیا، "ابھی تم نے زندگی دیکھی ہی کتنی ہے؟ شادی شدہ زندگی کے اپنے الگ اصول اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔"
"توبہ، توبہ! باز آئی ایسی شادی سے!" صبا نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
ندا، جو صبا سے صرف ایک سال بڑی تھی، اسے ڈراتے ہوئے بولی، "چپ کر جاؤ، ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ اللہ نہ کرے کبھی ایسا وقت آئے۔"
صبا نے ڈر کے مارے دوبارہ کان پکڑے اور خاموش ہو گئی۔
نائلہ نے قلم رکھ کر ایک گہری سانس لی۔ "پھر وہی پرانی کہانی! اب کیا میں یہ لکھوں کہ صبا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا؟" وہ خود سے مخاطب ہوئی۔ نائلہ ایک افسانہ نگار تھی، لیکن ہر بار ایک جیسی کہانی لکھتے لکھتے وہ بور ہو چکی تھی۔ اس نے کہانی ادھوری چھوڑ دی اور کچھ نیا سوچنے کا ارادہ کیا۔
کچھ دن بعد، جب نائلہ نے کہانی کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی، تو وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ اسی دوران اس کی اپنی شادی طے پا گئی۔ شادی کی تیاریاں، رسومات اور اس کے بعد کی زندگی میں وہ اتنی مصروف ہو گئی کہ لکھنے لکھانے کا شوق پیچھے رہ گیا۔
نائلہ، جو کبھی خواب دیکھنے والی لڑکی تھی، اب حقیقت کی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی۔ وہ اپنے شوہر حسن کا دل جیتنے اور ساس کو خوش رکھنے میں مصروف رہتی۔ آہستہ آہستہ، اس نے سب کا اعتماد اور محبت جیت لی۔ ساس اس کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کرتیں، اور نندیں اور دیور بھی اس کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔
وقت گزرتا گیا، اور نائلہ کو احساس ہی نہ ہوا کہ وہ خود کہیں کھو چکی ہے۔ ایک دن، جب اس نے آئینے میں اپنی طرف غور سے دیکھا، تو ایک بے ترتیب عورت اسے گھورتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کا بے رونق چہرہ، سفید بال اور تھکا ہوا سراپا اسے حیران کر گیا۔ "یہ میں ہوں؟" وہ خود سے سوال کرنے لگی۔
اس کے خیالات کا سلسلہ حسن کی ایک بات سے ٹوٹا۔ حسن نے کہا، "مجھے کسی اور سے محبت ہو گئی ہے، اور میں دوسری شادی کا سوچ رہا ہوں۔"
نائلہ کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس نے نم آنکھوں سے سوال کیا، "کیوں؟ آخر میں نے آپ کے لیے کون سا کام نہیں کیا؟ ہر چیز وقت پر ملتی ہے، گھر صاف ستھرا رہتا ہے، سکون بھی ہے۔ آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں، پھر آپ نے ایسا کیوں سوچا؟"
حسن نے گہری سانس لی اور دھیرے سے کہا، "کبھی گھر کے کاموں سے ہٹ کر خود کو بھی دیکھا ہے؟"
یہ سن کر نائلہ آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اپنے آپ کو غور سے دیکھنے لگی۔ یہ بے ترتیب عورت کون تھی؟ یہ وہ نائلہ تو نہیں تھی جس نے خواب دیکھے تھے۔ وہ سوچنے لگی، "میری کہانی کی ہیروئن تو ہمیشہ خود کو بچا لیتی تھی، پھر میں کیوں نہیں؟"
نائلہ نے اپنی پرانی ڈائری نکالی اور لکھا، "یہ کہانی ادھوری اس لیے ہے کیونکہ ہیروئن نے ہار نہیں مانی۔ اب مجھے بھی اپنی کہانی مکمل کرنی ہوگی۔"
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی بدل کر رہے گی۔ اگلے ہی دن نائلہ نے اپنی جلد کا خیال رکھنا شروع کیا، بالوں کو ڈائی کروایا، اور ایک جدید انداز کی کٹنگ کرائی۔ اس نے ڈائٹ پلان بنایا، بوتیک کے سروے کیے، اور اپنی شخصیت کے مطابق بہترین ملبوسات کا انتخاب کیا۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ نائلہ نے حسن سے کوئی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کسی اور کے بارے میں سوال کیا۔ وہ اس کی پسند کے کھانے بنانے لگی، اس سے ہنسی مذاق کرنے لگی، اور رات کو واک پر ساتھ جانے کی پیشکش کی۔
شادی کی سالگرہ کا دن آ پہنچا۔ نائلہ نے ایک خوبصورت کالی ساڑھی پہنی، موتیے کے پھولوں کا زیور سجایا، اور آئینے میں خود کو دیکھا۔ یہ بدلی ہوئی نائلہ تھی، جو آج بھی ایک خواب جیسی لگ رہی تھی۔
تقریب میں حسن نے اسے حیرت سے دیکھا۔ اس کے دل میں سوال اٹھا، "یہ وہی نائلہ ہے؟ جو ہر وقت تھکی تھکی لگتی تھی؟"
تقریب کے دوران حسن کے دوست نے اس کے کان میں کہا، "یار، تم کہتے تھے تمہاری بیوی بے ڈھنگی ہے۔ لیکن اگر یہی بے ڈھنگی ہے، تو ہم سب معاف ہی ہیں!"
حسن یہ سن کر خاموش ہو گیا۔
رات کو حسن نے نائلہ سے کہا، "سوری، نائلہ۔ شاید میں نے غلط سوچا تھا۔"
نائلہ نے مسکرا کر کہا، "محبت میں اعتماد ہوتا ہے، سوری نہیں۔"
اس نے اپنی ڈائری کھولی اور تین مہینے پہلے لکھا ہوا جملہ پڑھا: "ہیروئن نے اسے معاف کر دیا، لیکن اس بار خود کو جیت لیا۔"
وہ مسکرا دی اور اپنی کہانی کے نئے باب کی طرف بڑھ گئی۔
👇👇
0 تبصرے