آخری گولی - آخری حصہ

urdu stories online

اسی وقت بادلوں کی بار بار گرج کے ساتھ بجلی چمکنے لگی اور پھر گڑگڑارہٹ کے ساتھ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی ۔ سلیمان گھنے درخت کے نیچے آکھڑا ہوا۔ وہ کچھ بھیگ گیا تھا لیکن اُسے کیا پروا تھی، وہ تو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔ اس کی جیب میں ایک پولیس آفیسر کا جعلی کارڈ بھی موجود تھا، جو اسے لوگوں سے تحفظ دے سکتا تھا۔

 تقریباً پندرہ بیس منٹ بارش ہوتی رہی، وہ درخت کے نیچے سے کھسک کر ایک شیڈ کے نیچے چلا آیا اور سگریٹ سلگا کر گہرے گہرے کش لینے لگا۔ بلبوں کی روشنی میں باغ ڈھلا ہوا اور مہکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو باغ میں پھیلی ہوئی تھی۔ بارش کا زور ٹوٹ گیا اور بادلوں کے بیچ سے ستارے اور روشن چاند جھانکنے لگا۔ وہ تصور ہی تصور میں عروہ کو باغ کی روش پر ٹہلتا ہوا دیکھنے لگا۔ 

وہ دونوں بے فکری اور دل بستگی کے ساتھ گھوم پھر رہے تھے، کھلتے ہوئے پھول اور ٹہنیوں پر جھکے ہوئے مالٹے اور سیب انہیں جھک جھک کر سلامی دے رہے تھے۔ اس کا خُوبصورت تصور اس وقت ٹوٹا جب ایک چھوٹی سفید کار زینے کے سامنے روش پر آ کر رکی۔ چوکیدار اس بھی وقت سویا ہوا تھا۔ کار کا پسنجر سیٹ والا درواز کھلا اور ستارہ باہر نکل کر کار کے دوسرے دروازے کی طرف چلی آئی۔ کار کے اندر بیٹھا ہوا سنہری بالوں والا خُوبصورت لڑکا ہاتھ ہلاتا ہوا اسٹارٹ گاڑی کو ٹرن دے کر مین روڈ کی طرف روانہ ہو گیا۔ ستارہ اپنے ہینڈ بیگ کو گھماتی ہوئی زینے پر قدم اٹھانے لگی۔ وہ واقعی آسمان کا ستارہ ہی معلوم ہورہی تھی۔ اُس کے سلور کلر کے لباس سے چمک اور خیرگی پھوٹ رہی تھی۔ وہ حسن و شباب کا پیکر تھی۔ 

سلیمان کی نگاہ برابر اس پر جمی ہوئی تھی۔ وہ اپنے اخروٹی کلر کے بالوں کو جھٹکتی تو سلیمان کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ وہ دبے پائوں بھاگ کر قریب آتے ہوئے اُسے زینے سے اوپر جاتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی رومینٹک فلم کی شوٹنگ میں حصہ لے رہا ہے۔ پھر وہ رومانویت کے حصار سے باہر نکلا اور ریوالور پر ہاتھ جماتا ہوا تیزی سے دبے پائوں سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ وہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول رہی تھی جب وہ اس کے بدن سے اٹھنے والی مسحور کن خوشبو سونگھتا ہوا اس کے قریب چلا گیا۔ ہیلو مس ستارہ ! سلیمان نے جھک کر باادب لہجے میں کہا۔ ستارہ ایک دم چونک کر سیدھی ہوئی اور مڑ کر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس کو دیکھنے لگی۔ تت. … تم کون ہو؟ رات کے ڈیڑھ بجے کیا لینے آئے ہو ؟ ستارہ کے منہ سے رُک رُک کر نکلا۔ مس ستارہ! میں ایک روزنامے کا رپورٹر ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن آدھی رات کے وقت کیوں آئے ؟ اس وقت تو چور اچکے اور ڈاکو ہی آتے ہیں۔ ستارہ نے درشت لہجے میں کہا- میڈم میں کئی دنوں سے آپ سے ملنے ، آٹو گراف لینے اور انٹرویو کرنے کا متمنی تھا مگر کلب والے آگے ہی نہیں جانے دیتے، آپ تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔

 سلیمان نے نظریں جھکاتے ہوئے مسکین صورت بنالی۔ کیا نام ہے تمہارا؟ ستارہ نے نظریں اُس کے چہرے پر گاڑ دیں، سلیمان کے نام بتانے پر وہ بولی۔ نام تو اچھا ہے لیکن آنے کا وقت بالکل غلط۔ آپ مجھ سے کل شام آٹھ بجے کلب کے لائبریری روم میں مل لیں۔ میں آٹو گراف اور انٹر ویو دے دوں گی۔ وہ گرین شیشوں والا کمرا… سلیمان نے استفسار کیا۔ ہاں۔ اب تم جا سکتے ہو۔ میں تھکی ہوئی ہوں، آرام کرنا چاہتی ہوں۔ ستارہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور پھر دروازہ بند کر لیا۔ سلیمان ایک منٹ وہاں کھڑارہا، پھر واپس ہو لیا۔ فی الحال اتنا ہی تعارف کافی تھا۔

اگلی صبح ستارہ اپنے فلیٹ سے باہر نکلی اور ٹیکسی میں سوار ہو کر کسی طرف روانہ ہو گئی۔ کوئی بے تابی سے اس کے جانے کا منتظر تھا۔ اس کے جاتے ہی سلیمان بالٹی، جھاڑو اور صفائی کرنے والی دیگر اشیاء لیے زینے کی طرف بڑھنے لگا۔ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والا چوکیدار آج لیٹ ہو گیا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا زینہ عبور کرنے لگا۔ اوپر آکر اُس نے راہداری سُنسان دیکھ کر ماسٹر کی، جو پرویز خان کا ایک ساتھی اُسے دے گیا تھا، ماسٹر کی مدد سے ستارہ کے فلیٹ کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو کر دروازہ بھیڑ دیا۔ وہ تیزی سے صفائی کے بہانے اس کے فلیٹ کی تلاشی لینے لگا۔ راہداری میں لوگوں کے قدموں کی آوازیں سنائی دیں مگر ہر شخص جلدی میں تھا۔ کسی نے ستارہ کے دروازے کے کھلے تالے کا نوٹس نہ لیا۔ سلیمان نے پورے کمرے کی تلاشی لی مگر اُسے چھپائی ہوئی دولت نوٹوں کی صورت میں نہ ملی۔ 

وہ صفائی کا سامان پکڑے باہر نکلا تو ایک بوڑھی عورت نے اسے آواز دے دی۔ وہ اُسے اپنے فلیٹ میں لے گئی اور کچھ صفائی وغیرہ کروانے لگی۔ سلیمان اندر کا اندر سلگ اٹھا مگر وہ اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بڑھیا کو بتایا کہ اس کا بھائی بیمار ہے لہذا وہ اس کی جگہ صفائی کے لیے چلا آیا تھا۔ بڑھیا نے اُسے سو روپیہ تھمایا وہ شکریہ کا لفظ کہتا ہوا جلدی سے باہر نکل آیا۔ گم شدہ دولت کا سراغ لگانا ایک مشکل کام تھا جس کا احساس اُسے اب ہو رہا تھا کہ بندہ مارنے کی نسبت گمشده دولت کو دستیاب کرنا زیادہ محنت طلب اور دشوار کام ہے۔ رات آٹھ بجے سلیمان نے بلیو مون کلب میں اپنا پریس کارڈ دکھایا، تب کائونٹر گرل نے اُسے ایک بیرے کے ساتھ ستارہ کو اطلاع دے کر لائبریری روم میں بھیجا۔ ایک گن مین اپنی مونچھوں کو بل دیتا ہوا اسے گھور رہا تھا۔ سلیمان کے پاس نوٹ بک ، بال پوائنٹ اور چھوٹا ٹیپ ریکارڈر موجود تھا۔ اس نے اشارہ پا کر وہ اشیاء میز پر رکھ دیں ستارہ کی اجازت سے اُس کے سامنے آرام دہ نشست پر بیٹھ گیا۔ میز پر اخبارات و فیشن میگزینز، بکھرے ہوئے تھے۔

 میز کے بیچوں بیچ کولڈ ڈرنک اور دو گلاس رکھے تھے۔ سلیمان نے تیار شدہ سوالات کئے ۔ ستارہ نے ہر سوال کا مناسب جواب دیا۔ اس طرح یہ ملاقات تمام ہوئی۔ سلیمان کا پروگرام تھا کہ اس سے دوسری ملاقات ڈرامائی انداز سے کرے اور اپنی آمد کا مقصد بھی اُس کے گوش گزار کر دے۔ وہ جیسے ہی کلب کے خارجی دروازے کی طرف بڑھا، دُور کھڑی ستارہ نے اپنے وفادار ویٹر کو انعام دے کر اُس کے تعاقب میں روانہ کر دیا۔ سلیمان باہر نکل کے چند لمحے ادھر اُدھر محتاط انداز سے دیکھتا ہوا کھڑارہا پھر کچھ دُور کھڑے ایک رکشا کی طرف چلنے لگا۔ ویٹر بالا باہر نکل کر اُسے رکشا میں سوار ہوتے دیکھنے لگا۔ اسی وقت اُس کا دوست ویٹر شوکت اپنی موٹر سائیکل اسٹینڈ سے نکال کر سڑک پر لے آیا۔ جو نہی رکشا حرکت میں آیا موٹر سائیکل بھی اُس کے تعاقب میں متحرک ہو گئی۔

اچانک بستر پر سوتے سوتے ایک چیخ کے ساتھ سلیمان کی آنکھ کھل گئی۔ اس لمحے اس نے کمرے کی کھلی کھڑکی کو دیکھا جسے وہ بند کر کے سو گیا تھا۔ وہ تیزی سے کروٹ بدل گیا اور تیز چمکتا ہوا خنجر زور سے اُس کے بستر پر آلگا۔ سیاہ لباس پہنے لڑکے نے خنجر بستر سے کھینچا۔ سلیمان لڑھک کر بستر سے نیچے آگیا۔ وحشی لڑکا دوبارہ اس پر حملہ آور ہوا۔ سلیمان چند قدم پیچھے ہٹا پھر تیزی سے اُس کے خنجر والے لہراتے ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ میں جکڑ لیا۔ لڑکا زور آزمائی کرتے ہوئے غرایا۔ اس کا دوسرا ہاتھ بھی سلیمان نے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا، جس پر نوکدار چونچ والا سیاہ دستانہ چڑھا ہوا تھا۔ دونوں میں پوری طاقت کے ساتھ زور آزمائی ہونے لگی۔ لڑکا ستارہ کے عشق میں دیوانہ ہو رہا تھا۔ 

وہ ورزشی جسم کا مضبوط لڑکا تھا لیکن سلیمان قدرتی طور پر طاقتور اور پھرتیلا نوجوان تھا۔ کبھی وہ اسے پیچھے دھکیل دیتا، کبھی لڑکا اسے پیچھے لے جاتا۔ تم کیوں مجھے مارنے آئے ہو ؟ سلیمان نے پوچھا۔ تم میری محبوبہ کے پیچھے پڑ گئے ہو۔ لڑ کا چیخا۔ اسی وقت بھاگتے قدموں کی آوازیں آئیں، پھر سلیمان کے کمرے کے دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔ دروازہ ہلنے لگا۔ شاید تمہارے مددگار آگئے۔ سیاہ لباس والا لڑکا کچھ پریشان ہو کر بولا اور پھر ایک جھٹکے کے ساتھ سلیمان سے الگ ہو کر بڑی پھرتی سے کھلی کھڑکی میں سے گزر کر باہر گلی میں بھاگتا چلا گیا۔ لڑکا جھنجھلاہٹ میں اپنا خنجر وہیں پھینک گیا تھا۔ سلیمان نے تعاقب بے کار سمجھا اور آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ پرویز خان کے چار ساتھی اس کے سامنے کھڑے تھے۔ سلیمان نے کھڑکی کا جائزہ لیا۔ شاید وہ رات کے وقت چٹخنی لگانا بھول گیا تھا۔ مزید سونے کے بجائے اس نے کچھ کارروائی کرنے کی ٹھانی۔

رات کے آخری پہر پیاس کی وجہ سے ستارہ کی آنکھ کھل گئی۔ پانی پینے کے بعد جب وہ بستر کی طرف بڑھی تو دائیں جانب کی کھڑکی کے بھاری پردے کے پیچھے سے کھانستا ہوا سلیمان اُس کے سامنے آگیا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ اسے دیکھ کر ستارہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، جبکہ سلیمان اس کی حیرت پر ہنس پڑا۔ میں زندہ ہوں۔ تمہارا عاشق مجھے قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھلا ایک بکرا شیر کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہے۔ ستارہ نے غصے سے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبالیا، تاہم کچھ بولی نہیں۔ سلیمان اس کے قریب چلا آیا۔ مس ستارہ ! تم ارباز خان کی محبوبہ رہ چکی ہو ، اس لڑکے کو تم نے حال ہی میں پھانسا ہے۔

 دلاور خان نے پرویز خان کی جو دو کروڑ کی رقم اڑائی تھی، اس میں سے پچاس لاکھ روپیہ میں برآمد کر چکا ہوں۔ باقی رقم کہاں ہیں ؟ سلیمان نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ ستارہ نے حیرت سے آنکھیں پیپٹائیں اور ٹال مٹول کرنے لگی کہ اُسے کچھ معلوم نہیں ، تب سلیمان نے پستول کا ٹرائیگر دبا دیا۔ پستول سے دھوئیں کی لکیر نکل کر ستارہ کے چہرے پر پڑی اور وہ لڑکھڑا کر بے ہوش ہونے لگی تھی کہ سلیمان نے آگے بڑھ کر اُس کے پُرشباب بدن کو گرنے سے بچالیا۔ ستارہ کی آنکھ کھلی تو وہ سلیمان کے ساتھ دریا کے کنارے ویران مقام پر بنے ایک آسیب زدہ بنگلے میں قید تھی۔ اس کے دائیں بائیں دو آدمی کھڑے تھے ، جو اس کے لیے اجنبی تھے۔ اسی اثناء میں، اچانک تیز بارش کے ساتھ ہی دروازے پر دستک کی آواز میں سُنائی دینے لگیں۔ سلیمان اپنی کتابیں چھوڑ کر خارجی دروازے کی طرف بھاگا اور بیرونی دروازہ کھول دیا۔ گیٹ پر دلاور خان کھڑا تھا۔ سلیمان نے اُسے اندر آنے کا اشارہ کیا اور اس کمرے میں لے گیا، جہاں ستارہ موجود تھی ۔ 

اس کا نام ستارہ ہے۔ اس کے ارباز خان سے تعلقات تھے ، مگر یہ کہتی ہے کہ رقم اس کے پاس نہیں۔ ارباز خان نے اُسے رقم کی ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ سلیمان نے بتایا۔ یہ جھوٹ بول رہی ہے۔ دلاور خان یہ کہتے ہوئے ستارہ کی طرف بڑھا ہی تھا کہ سلیمان تیزی سے اس کے اور ستارہ کے درمیان آکھڑا ہوا۔ کیا تمہیں پر ویز خان نے یہاں بھیجا ہے؟ اس نے پوچھا۔ نہیں، میں خود آیا ہوں ، تاکہ اس سے پوچھ کچھ کر سکوں۔ دلاور خان نے جواب دیا۔ تمہیں کوئی اعتراض ہے؟

ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ سلیمان نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود دونوں آدمی اپنی جگہ سے اٹھ کر دلاور خان کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ سلیمان کو صورت حال سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی تھی۔ کوئی بات نہیں۔ دلاور خان مسکرایا۔ میں تمہیں سمجھانے کے لیے پوری طرح تیار ہو کر آیا ہوں۔ میں تم سے الجھنا نہیں چاہتا۔ سلیمان نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔ تم بھی بات بڑھانے کی کوشش مت کرو، میں پرویز خان کے لیے کام کرتا ہوں اور میرا فرض ہے کہ میں کام کو اس طرح انجام دوں، جس سے وہ مطمئن ہو۔ اس سے پہلے کہ میں اور تم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جس سے بعد میں پچھتانا پڑے، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم پر ویز خان کو فون کرلیں ! اب یہ ممکن نہیں کالج بوائے۔ دلاور خان کا لہجہ اور مسکراہٹ عجیب تھی۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ پرویز خان مرچکا ہے۔ سلیمان ایک دم سکتہ میں آگیا۔ اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ اسے اپنے جسم میں سردی کی تیز لہریں دوڑتی محسوس ہونے لگیں۔ میں غلط نہیں کہہ رہا۔ دلاور خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کل رات اچانک اس کا انتقال ہو گیا۔

 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو آخری درد اس کے اٹھا تھا وہ السر کا نہیں بلکہ دل کا تھا۔ چنانچہ جب تک تنظیم کے بڑے کوئی دوسری ہدایت جاری نہ کریں، پرویز کی جگہ میں اس کے کام کا انچارج ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں باقی رقم بر آمد کرنے میں کامیاب ہو جائوں تو تنظیم کی انتظامیہ پر میری کارکردگی کا اچھا اثر پڑے گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے دائیں طرف کھڑے ساتھی ٹونی کی طرف دیکھا۔ اسے لوگوں کی زبان کھلوانے میں کافی مہارت حاصل ہے۔ سلیمان اگرچہ ستارہ کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا مگر اسے احساس تھا کہ وہ بُری طرح کانپ رہی ہے۔ اس نے اس کی مدد کا فیصلہ کر لیا۔ تو یہ ہے پوری داستان کالج بوائے۔ دلاور خان کہہ رہا تھا۔ اب بھی کوئی اعتراض ہے؟

نہیں۔ سلیمان نے کچھ سوچتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ میں سمجھتا ہوں ایسی صورت میں اب تم ہی باس ہو۔ دلاور خان نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ٹونی کو کہا کہ وہ ستارہ کو دوسرے کمرے میں لے جائے۔ ٹونی مسکراتا ہوا ستارہ کی طرف بڑھا، لیکن ابھی اُس نے دو قدم ہی اُٹھائے تھے کہ سلیمان نے پھرتی سے اپنی پتلون کی پیٹی میں لگا ہوا ریوالور نکالا اور یکے بعد دیگرے دو فائر اس کے سینے میں جھونک دیئے۔ ٹونی کوئی آواز نکالے بغیر خون اگلتا ڈھیر ہو گیا۔ دلاور خان کا منہ حیرت و خوف سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ سلیمان تیزی سے اُس کی جانب گھوما اور اس کی تیسری گولی دلاور خان کے حلق کے پار ہو گئی۔ 

اتنی دیر میں اس کا دوسرا ساتھی ریوالور نکال چکا تھا، مگر اس سے قبل کہ وہ فائر کرتا سلیمان نے لگاتار تین گولیاں اس پر فائر کر دیں پھر بھی اُس نے گرتے گرتے ایک فائر کر دیا جو سلیمان کے سینے میں لگا۔ وہ فرش پر گر پڑا، اس کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ گیا۔ ستارہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔ شکر ہے تم میری مدد کے لیے موجود ہو ۔ سلیمان نے ایک ہاتھ اپنے زخم پر رکھ کر کراہتے ہوئے کہا، پھر دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ نیم بے ہوشی میں ستارہ کے ہاتھ اسے اپنے جسم پر رینگتے ہوئے محسوس ہوئے۔ وہ اُس کی جیبیں ٹول رہی تھی۔ سلیمان کو حیرت ہوئی۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ستارہ اس کی جیب سے کار کی چابی نکال رہی تھی۔ تم کیا کر رہی ہو ؟ اس نے بھاری آواز میں پوچھا۔ یہاں سے جانے کی تیاری۔ ستارہ نے غیر جذباتی لہجے میں کہا۔ مگر مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ وہ ملتجیانہ لہجے میں بولا۔ 

ستارہ نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کا اور دلاور خان کے دوسرے ساتھی کا ریوالور اٹھا لیا۔ اگر پھر کسی نے مجھ سے باقی رقم چھیننے کی کوشش کی تو یہ میرے کام آئیں گے۔ اس نے جیسے اپنے آپ سے کہا اور تیزی سے دونوں ریوالور اپنے بیگ میں رکھ لیے، پھر ایک تولیے سے چیزوں پر سے اپنی انگلیوں کے نشانات کی صاف کرنے لگی۔ ابھی وہ کام سے فارغ ہوئی تھی کہ اس نے اپنے قریب کسی کے کراہنے کی آواز سنی۔ وہ چونک کر پلٹی تو اس کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ سلیمان دیوار کا سہارا لیے کھڑا تھا اور اس کے ہونٹوں پر خونی مسکراہٹ تھی۔ تم دلاور خان کے پہلے ساتھی کو بھول گئیں۔ وہ ریوالور کا رُخ اس کی طرف کرتے ہوئے بڑی مشکل سے بولا۔ ایک ریوالور اس کے پاس بھی تھا۔ 

میں نے یہ بات پہلے ہی جان لی تھی کہ تم رقم کے متعلق ضرور کچھ نہ کچھ جانتی ہو ، پھر بھی میں نے تمہاری مدد کرنا چاہی، اب جب میری زندگی ختم ہو رہی ہے تو پھر تم کیوں زندہ رہو اس نے چند گہرے گہرے سانس لیے پھر آہستہ سے بولا۔ اگر تم اس وقت میری مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتیں تو میں تمہیں زندہ چھوڑ دیتا مگر اس نے مضطرب لہجے میں کہا۔ اس کے سینے سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ تم ایک سنگ دل عورت ہو… یہ کہتے ہوئے اُس نے ٹرئیگر دبا دیا۔ یہ اس کی زندگی کی آخری گولی تھی، جو ہمیشہ کی طرح اپنے ہدف کے سینے میں پیوست ہو چکی تھی۔
(THE END)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے