سازشی چہرہ - تیسرا حصہ


”اور میں اب اور زیادہ خوف محسوس کررہا ہوں۔ میرا خیال ہے ہمیں واپس ساحل پر چلنا چاہیے۔ ہم اپنا یہ سفر پھر سے شروع کریں گے کیونکہ روانہ ہونے سے پہلے ہم نے لانچ کو بھی چیک نہیں کیا۔“ فاروق نے جلدی جلدی کہا۔

”اب اس کا کوئی فائدہ نہیں جو ہونا ہے ، ہوکر رہے گا۔ پھر ہمیں جزیرہ نانگا پر تو جانا ہی ہے ہم کیسے رک سکتے ہیں؟“

”مم…. میر ا مشورہ بھی یہی ہے کہ واپس چلتے ہیں۔“ پروفیسر سام نے کانپتی آواز میں کہا۔

”اگر اس لانچ پر بم موجود ہے تو یہ ہمارے واپس پہنچنے سے پہلے پھٹ جائے گا، لہٰذا واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہاں لانچ کی رفتار بڑھا کر جلد از جلد جزیرے پر پہنچنے کی کوشش کرلی جائے اوراس دوران لانچ کی تلاشی جاری رکھی جائے۔“

”یہ ٹھیک رہے گا جمشید۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔

”تب پھر آپ اپنے آلات کے ذریعے تلاشی لے لیں۔“

”وہ تو میں نے پہلے بھی لی تھی، لیکن گاڑی سے کوئی بم نہیں ملا تھا حالاں کہ بم گاڑی میں موجود تھا۔“

”اس پرہم سب کو حیرت ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں اپنا کام کرنا ہوگا۔“

انہوں نے لانچ کی اچھی طرح تلاشی لی، لیکن کوئی بم دم نہ ملا۔ ان کا سفر جاری رہا۔ آخر کار پروفیسر سام کی آواز ابھری:

”وہ رہا جزیرہ نانگا۔“

وہ سب جزیرے کو دیکھنے میں محو ہوگئے اور لانچ ساحل سے جالگی۔ وہ اتر پڑے ان کے ساتھ پروفیسر سام بھی اتر آئے اور بولے:

”یہ چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ دو کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ اس میں بہت گھنے درخت ہیں اور بہت زیادہ بڑ ے اور تن آور ہیں۔ میں حیران ہوں آپ لوگ یہاں کیوں آئے ہیں یہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا۔“

”ہمارے ساتھی اور انہیں اغوا کرنے والے آگے کہیں ہوں گے۔ ہمیں پورا جزیرہ تو نظر نہیں آرہا۔“ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔

”ہاں! یہی بات ہے جمشید۔ پروفیسر صاحب اب آپ واپس جاسکتے ہیں۔ کپتان صاحب آپ انہیں لے جائیں۔ ساحل پر ان کے لیے گاڑی تیار ملے گی۔“

”اوکے سر۔“ اس نے کہا۔ وہ بھی ان کے ساتھ لانچ سے اتر کر ساحل پر آگیا تھا۔

”نن…. نہیں۔ “ پروفیسر سام ہکلائے۔

”جی…. کیا کہا آپ نے؟“

”مجھے …. خوف محسوس ہورہا ہے۔ کہیں گاڑی کی طرح یہ لانچ بھی نہ اڑ جائے۔“

”ارے ! باپ رے۔“ ڈرائیور بھی کانپ گیا۔

”لیکن ہمارے ساتھ آپ کیسے رہ سکیں گے؟ ہم تو یہاں موت اور زندگی کی جنگ لڑنے آئے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں۔“ انسپکٹر جمشید یہاں تک کہہ کر خاموش ہوگئے۔

”کیا معلوم نہیں۔“

”مجرم نے ہمیں یہاں کس لیے بلایا ہے۔“

”کس لیے بلایا ہے؟“

”وہ ہمیں مو ت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔“

”لیکن کیوں؟“

”اس وقت وہ جس ملک کے لیے کام کررہا ہے۔ اس ملک کی یہی خواہش ہے۔ حاجو خان اور میری بیگم وغیرہ کو اغوا کرکے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ ہم سب کو آسانی سے ٹھکانے لگا سکے۔“

”اور آپ یہاں آگئے۔“ پروفیسر سام نے حیران ہوکر کہا۔

”اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ بلتان کی منصوبہ بندی اس قسم کی ہوتی ہے۔ وہ ہر طرف سے اپنے دشمن کو بالکل بے بس کردیتا ہے اور ہمارے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کھیل کھیلنا چاہتا ہے۔“

عین اس لمحے کان پھاڑ دینے والا ایک دھماکا ہوا۔ وہ بری طرح اچھل کر دور جا گرے۔ انہوں نے خود کو سنبھال کر ساحل کی طرف دیکھا تو لانچ کے پرخچے پانی پر تیرتے نظر آئے۔ بہت سے ٹکڑوں کو آگ لگ چکی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہے۔

”اللہ اپنا رحم فرمائے۔ یہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے جمشید۔“ پروفیسر داﺅد نے لرزتی آواز میں کہا۔

”اور…. اب …. اب میرا کیا ہوگا؟ میں کیسے واپس جاﺅں گا۔“پروفیسر سام نے تھرتھرائی آواز میں کہا۔

”اور میں…. میں ۔“کپتان ہکلایا۔

”مجھے افسوس ہے کہہمارے ساتھ آپ لوگ بھی مصیبت میں پھنس گئے۔ لیکن آپ دونوں فکر نہ کریں ۔ میں ابھی آپ کے لیے لانچ منگواتا ہوں۔“

”لیکن کیسے؟“ پروفیسر سام بولے۔

”کیا مطلب؟“

”لانچ یہاں تک آئے گی کیسے؟ نانگا جزیرے کا راستہ کپتان کیسے معلوم کرے گا۔ یہ تو میں تھا جو آپ لوگوں کو یہاں تک لایا ہوں۔“

”اوہ…. اوہ۔“

ان کے منہ سے نکلاہ پھر اچانک انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

”کوئی مسئلہ نہیں۔“

”جی ؟ کیا کہا آپ نے؟ کوئی مسئلہ نہیں؟“ پروفیسر سام بولے۔

”ہاں ! میں نے یہی کہا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں میں آپ دونوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس بھجوائے دیتا ہوں۔ ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے میں برابر موبائل پر رابطہ رکھوں گا اور یہاں ہم کپڑے اور خشک شاخوں کو آگ لگا کر دھواں بلند کرتے جائیں گے۔ پائلٹ دھواں دیکھ کر آخر یہاں پہنچ جائے گا۔“

”بس تو پھر پہلے آپ یہی کام کریں۔ “ پروفیسر سام نے جلدی سے کہا۔

”ہاں! کیوں نہیں ہم اپنے ساتھ آپ دونوں کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔“

انہوں نے موبائل نکالا نمبر ڈائل کرنا چاہا، لیکن ان کا فون بند تھا۔

”میرا فون بند ہے، محمو داپنا فون مجھے دو۔“

اس نے گھبرا کر اپنا فون نکالا۔ وہ بھی بند تھا، اب تو سب نے اپنے اپنے فون دیکھے…. سب بند تھے۔

ان کے رنگ اڑ گئے۔ چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایسے میں جزیرہ ایک آواز سے گونج اٹھا۔

”خوش آمدید انسپکٹر جمشید! مجھے تمہارا ہی انتظار تھا اور مجھ سے زیادہ تمہاری بیوی، بیگم شیرازی ، حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کو تمہارا انتظار تھا۔ ان لوگوں کا خیال تو یہ تھا کہ تم ان کے نجات دہندہ بن کر آﺅگے اور میرا خیال یہ تھا کہ تم بھی اپنی موت کی تلاش میں یہاں آﺅگے۔“

”شکریہ! موت کا کیا ہے وہ تو ایک دن آکر رہے گی۔“

”تب پھر آگے چلے آﺅ موت تیار ہے۔“

”کیا کہا موت تیار ہے؟“ پروفیسر سام چلا اٹھے۔

”بھائی صاحب! آپ مو ت تیار ہے تو ا س طرح کہہ رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں، کھانا تیار ہے۔“ محمود نے جھلا کر کہا، لیکن اس نے یہ الفاظ بلند آواز میں نہیں کہے تھے۔

”فکر نہ کرو پہلے تمہیں کھانا کھلایا جائے گا۔ پھر موت کی نیند سلایا جائے گا۔“

”ارے باپ رے! بھائی صاحب نے تو میری آہستہ آواز بھی سن لی۔“

”ا س جزیرے پر سوئی گرنے کی آواز بھی میں سن لوں گا۔“

”آپ کی تعریف۔“ محمود نے بلند آواز میں پوچھا۔

”پروفیسر صاحب! میراتعارف اس سے کرادو۔“ آواز آئی۔

”کک…. کون سے پروفیسر صاحب یہاں تو دو عدد پروفیسر موجود ہیں۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔

”آپ تو کیا تعارف کرائیں گے، ہاں پروفیسر جیفر شاید کر ادیں۔“

”نن…. ہاں۔“ وہ ہکلائے۔

”آپ نے ہاں کہا یا نہیں۔“

”اپنے ساتھ آپ لوگ مجھے بھی لے بیٹھے۔ اب مجھے بھی آپ کے ساتھ مرنا پڑے گا۔“

”مرنا تو آپ کو ویسے بھی پڑے گا اور موت تو سب کو آئے گی۔“

”اور میں …. میں تو بالکل مفت میں مرگیا۔“ لانچ کے کپتان نے لرزتی آوازمیں کہا۔

”میں آپ دونوں کو واپس بھجوادیتا ہوں۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

”کیا کہا آپ نے؟ آپ ہمیں واپس بھجواسکتے ہیں، وہ کیسے؟“ کپتان کے لہجے میں بلا کی حیرت در آئی۔

”ہاں ! بھجواسکتا ہوں کیوں پروفیسر سام؟ آپ واپس جانا پسند کریں گے یا ہمارے ساتھ ٹھہرنا۔“

”حد ہوگئی بھلا میں کیوں آپ لوگوں کے ساتھ ٹھہروں گا؟ ویسے لگتا ہے جزیرے پر آتے ہی آپ کا دماغ الٹ گیا ہے۔“

”اللہ کی مہربانی سے ایسا نہیں ہے۔“

”تب پھر آپ ہمیں کس طرح بھجواسکتے ہیں۔ پہلے ذرا اس کی وضاحت کردیں۔“

”ابھی میرے پاس اپنے ماتحتوں سے رابطہ کرنے کا ایک ذریعہ موجود ہے۔“

”اور…. اور وہ کیا ؟“ وہ سب ایک ساتھ بولے۔

”میری گھڑی۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

”حد ہوگئی…. گھڑی نہ ہوئی ٹیلی فون ہوگیا۔“

”ابھی دکھاتا ہوں۔“

یہ کہہ کر انہوں نے گھڑی کی طرف ہاتھ اٹھایا۔ ایسے میں پروفیسر سام مارے خوف کے چلائے۔

”اُف …. وہ دیکھیے۔“

ساتھ ہی انہوں نے ایک جانب اشارہ کیا۔ سب نے بوکھلا کر اس طرف دیکھا اور پھر انہیں اپنی رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا۔

انسپکٹر جمشید بھی گھڑی کا بٹن دبانے سے رہ گئے۔ ان گنت رائفلیں درختوں کے پیچھے سے ان کی طرف تنی ہوئی تھیں۔

”حرکت نہ کرنا ، انسپکٹر جمشید ورنہ پرخچے اڑجائیں گے۔“

وہ ساکت رہ گئے ۔

”تم لوگوں کے پاس جو کچھ بھی ہے نیچے گرا دو اور پندرہ قدم گن کر آگے آجاﺅ۔ انسپکٹر جمشید تم اپنی گھڑی کو ہاتھ نہیں لگاﺅگے۔ ہاتھ سر سے بلند کرکے کھڑے رہو۔ تمہارے ہاتھ سے گھڑی پروفیسر اتاریں گے۔ باقی لوگ اپنی سب چیزیں اتار کر نیچے گرادیں ۔ جسموں پر صرف کپڑے رہ جائیں ۔“

انہوں نے اپنی چیزیں گرادیں۔

”پروفیسر سام! آپ انسپکٹر جمشید کی گھڑی اتار کر سمندر میں پھینک دیں…. تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔“

”جج…. جی ….جی اچھا…. حضور…. لل…. لیکن ۔“

”لیکن کیا؟“ پوچھا گیا۔

”اگر انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا تو؟“

”ا ن کے پیچھے سے آکر گھڑی اتارلیں، یہ پوری طرح ہماری زد پر ہیں۔“

”اچھی بات ہے۔“ پروفیسر سام نے کہا۔

اور پھر اس نے ان کی کمر کی طرف آکر گھڑی اتارلی۔ انہوں نے کوئی حرکت نہ کی۔ وہ واقعی پوری طرح زد پر تھے اور جو رائفلیں ان پر تنی ہوئی تھیں ، وہ بہت خوفناک تھیں۔

”پروفیسر سام! آپ نے گھڑی سمندر میں گرادی؟“

”جی ….جی ہاں۔“ وہ بولے۔

”اب سب لوگ پندرہ قدم آگے آجائیں۔“

ان سب نے انسپکٹر جمشید کی طرف دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں اب کیا کریں؟

”جو کہا گیا ہے ، کرو۔ ہمارے پیچھے سمندر ہے اور آگے بلتان اور ابھی ہماری اپنے ساتھیوں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی لہٰذا پندرہ قدم گن ڈالو۔“ انہوں نے خوش گوار لہجے میں کہا۔

”لیکن جناب! اس سارے معاملے میں میرا کیا قصور ہے؟“ کپتان نے روتی آواز میں کہا۔

”آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہمارا بھی کوئی قصور نہیں، یہ سب تو لکھا ہوا ہے، انسان کے مقدر میں جو لکھ دیا گیا ہے وہ پیش آکر رہے گا، لہٰذا صبر کرو۔ ایک بات میں تم سے کہے دیتا ہوں اور وہ یہ کہ پہلے ہم مریں گے بعد میں تمہاری باری آئے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ کسی موقعے پر ہم اپنی جانیں بچانے کے لیے آپ کو آگے کردیں۔“

”لیکن اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔

”اگر یہ بات ہے تو پھر سن لیں۔ مرنا تو آپ کو ویسے بھی پڑے گا۔ موت اس جزیرے پر آئے یا کسی اور جگہ آئے۔“

”تم لوگ بلاوجہ دیر لگارہے ہو۔ ان باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قدم اٹھانے کی کرو۔“

انہوں نے قدم اٹھانے شروع کردیے۔ جلدہی آواز پھر ابھری:

”یہ کیا؟ کچھ لوگ پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔“

انسپکٹر جمشید، خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد نے چونک کر دیکھا۔ محمود اور فاروق باقی سب سے کئی قدم پیچھے نظر آئے:

”کیا ہوا تمہیں؟“

”جی…. ہوا تو کچھ بھی نہیں۔“ محمود مسکرایا۔

”تو پھر پیچھے کیوں رہ گئے؟“

”آپ کے قدم لمبے ہیں اور ہمارے چھوٹے، لہٰذا ہم پندرہ قدم اٹھا کر وہاں نہیں پہنچ سکیں گے جہاں آپ لوگ پہنچ جائیں گے۔“ محمود نے جلدی جلدی کہا۔

وہ مسکرادیے۔ ادھر جھنجھلاتی ہوئی آواز میں کہا گیا:

”تم بھی بڑوں کے پاس پہنچ جاﺅ۔ پندرہ قدم کا مطلب یہ نہیں کہ تم اپنے ساتھیوں تک پہنچنے کے لیے کوئی اور قدم اٹھا ہی نہیں سکتے۔“

”اب آپ نے کہا ہے تو اٹھا لیتے ہیں۔ ہمارا کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔“

”نہیں! اس کی ضرورت نہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں نہ کرو۔ میں تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں۔“

”اچھی طرح جانتے ہیں…. کیا مطلب؟“

”مطلب یہ کہ تم لوگ اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگا کر اپنا کام نکالنے کے ماہر ہو، لیکن میں تمہیں کوئی موقع نہیں دوں گا۔“

”چلیے خیر…. نہ دیجیے گا موقع۔ ہم آپ سے مانگیں گے بھی نہیں۔“ محمود نے برا سا منہ بنایا۔

”کیا نہیں مانگیں گے ۔ “ بلتان نے اسے گھورا۔

”بھئی موقع اور کیا۔“

”آپ لوگوں کے ساتھ میں بھی پھنس گیا۔ وہ دس ہزار میرے کس کام آئے؟“

”بعد میں کام آجائیں گے فکر نہ کریں۔“ محمود نے جلدی سے کہا۔

”میں، میں آگے نہیں جاﺅں گا۔ میں تو بس جزیرے کے کنارے پر رہوں گا۔ کیا خبر کوئی جہاز یا لانچ اس طرف آجائے۔ اس صورت میں اس پر سوار تو ہو سکوں گا، لیکن اگر میں آپ لوگوں کے ساتھ آگے چلا گیا، تو ایسا کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے گا۔“

”اگر مسٹر بلتان آپ کو اجازت دیتے ہیں، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے خوش گوار لہجے میں کہا۔

”اگر یہ دونوں حضرات کنارے پر جا کر کسی گزرتے جہاز کا انتظار کرنا چاہیں، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں شوق سے چلے جائیں۔ اگر ان دونوں نے آپ لوگوں کی کسی بھی طرح سے مدد کرنے کی کوشش کی، تو پھر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی۔“

”ٹھیک ہے ہم کیوں کریں گے ان کی مدد؟ ان کی وجہ سے تو ہم اس مصیبت میں پھنسے ہیں۔ ہماری طرف سے یہ لوگ جائیں جہنم میں۔“

”ایسا تو نہ کہو۔ کیا تم نے اپنے بارے میں ہمارے والد کے الفاظ نہیں سنے، یعنی ان کے جذبات کیا ہیں اور آپ کیا سوچ رہے ہیں۔“

”آپ لوگ اگر ہم سے پہلے اپنی جانیں دے دیتے ہیں، تو اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوجائے گا؟ ہم دونوں بھی اپنی جان سے تو ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔“

”اب بات سمجھ میں آئی۔ آپ دونوں جزیرے کے کنارے اس لیے ٹھہرنا چاہتے ہیں کہ جان سے ہاتھ دھونے کے بجائے پانی سے ہاتھ دھوسکیں۔“ محمود نے جل بھن کر کہا اور وہ سب مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔

”ہم کچھ بھی کریں آپ کو کیا اور میرا خیال ہے ان کے دشمن کو ہمارے الگ ہوجانے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“

”بالکل نہیں آپ دونوں خوشی سے کنارے پر چلے جائیں، لیکن اگر کوئی چال چلنے کی کوشش کی تو نقصان میں رہیں گے۔“

”ہم کوئی چال نہیں چلیں گے۔ ہمیں ضرورت بھی کیا ہے کچھ کرنے کی؟ یہ لوگ ہمارے کس کام آئیں گے۔ رہ گئے آپ…. آپ سے نہ ہماری دوستی ہے نہ دشمنی اس لیے آپ سے کوئی امید ہوسکتی ہے کیونکہ وقت کی باگ ڈور اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے۔“

”آپ دونوں عقل مند ہیں۔ کنارے پر چلے جائیں اور ہمیں ان لوگوں سے فارغ ہولینے دیں۔ پھر آپ کو ساحل کی طرف بھجوادیا جائے گا۔“

”بہت خوب…. آپ کا شکریہ ! آپ بہت اچھے ہیں۔“ پروفیسر سام نے خوش ہوکر کہا۔

”تب پھر ایک کام کرتے جائیں۔“ آواز آئی۔

”جی …. وہ کیا؟“

”ان لوگوں نے جو چیزیں گرائی ہیں، وہ اٹھا کر لے جائیں اور سمندر میں گرادیں۔“

”اچھی بات ہے۔“

”اور میرے تین ساتھی ان لوگوں کی اچھی طرح تلاشی لیں۔ کوئی چیز ان کے پاس رہ گئی ہو تو وہ بھی نکال کر سمندر میں گرادی جائے۔“

اس پر عمل کیا گیا۔ ایسے میں اچانک انسپکٹر جمشید کی آنکھیں مارے حیرت کے پھیل گئیں۔

انسپکٹر جمشید اتنے زور سے چونکے تو ان کے ساتھی بھی حیران رہ گئے۔

”کک…. کیا ہوا ابا جان؟“ محمود گھبرا کر بولا۔

”ایک خیال آیا ہے۔ کیا پروفیسر جیفر سام اور کپتان ساحل کی طرف جا چکے ہیں؟“ وہ بولے۔

”جی ہاں وہ تو ان لوگوں کے تلاشی شروع کرنے سے پہلے چلے گئے تھے۔“

”خفیہ عمارت نمبر ایک کو جب بلتان کے آدمیوں نے گھیرا تھا، تو ہم وہاں ایک آواز سنتے رہے تھے….“ انہوں نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔

”جی…. جی ہاںبالکل سنتے رہے ہیں۔“

”بعد میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ آواز بلتان کی نہیں تھی۔“

”جی…. جی ہاں! یہی بات ہے۔“

”اب جو ہم نے آواز سنی ہے۔ کیا یہ وہی نہیں ہے؟“

”اوہ جی ہاں! یہ وہی آواز ہے، تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ بلتان کی آواز ہے۔“

”میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آواز بلتان کی ہے یا کسی اور کی، لیکن یہ آواز ہے وہی جو ہم خفیہ عمارت نمبر ایک کے باہر سنتے رہے ہیں۔“

”مطلب یہ کہ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہی بلتان ہے۔“

”ہاں! یہ کہا جاسکتا ہے۔“

”لیکن انسپکٹر جمشید۱ اس سے کیا فرق پڑتا ہے بھلا۔“ آواز لہرائی۔

”یہ میں بعد میں بتاﺅں گا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔

ان کی یہ مسکراہٹ بہت عجیب تھی۔ اس مسکراہٹ نے ان کے ساتھیوں کو شدید الجھن میں ڈال دیا۔

”کیا مطلب ؟“ وہ بول اٹھے۔

”ابھی اس کامطلب رہنے دیں۔“ وہ ہنسے۔

”لیکن ابا جان! ہم شدید الجھن محسوس کررہے ہیں۔“

”کوئی بات نہیںکرتے رہیں الجھن محسوس۔“ انہوں نے پھر عجیب اندا ز میں کہا۔

”مطلب یہ کہ آپ کو کوئی خاص بات معلوم ہوگئی ہے۔“ فاروق نے ان کی طرف غور سے دیکھا۔

”ہاں ! تم یہ کہہ سکتے ہو۔“

”اب یہ اپنی اِدھر اُدھر کی باتیں ختم کرو اور قدم اٹھاﺅ۔ میرے ماتحتو! تم یہ ہدایت سن لو کہ اگر اب ان کے قدم رکیں تو فائر کردینا۔“

”اوکے سر!“

”پیچھے سے چند ہوائی فائر کرکے انہیں جتادو کہ تم لو گ ان کے پیچھے موجود ہو اور بہت آسانی سے تم انہیں نشانہ بناسکتے ہو۔ سب لوگ ایک ہی وقت میں فائر کریں۔“

”اوکے سر!“

اس کے ساتھ ہی جزیدہ ان گنت گولیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ جزیرے کے پرندے خوف زدہ انداز میں درختوں سے اڑے اور ان کا بے تحاشا شور مچ گیا، اب تو گویا کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی…. ان کے قدم اٹھتے رہے۔ تین چار منٹ بعد کہیں جاکر پرندے پرسکون ہوئے۔

”کیا ضرورت تھی ان پرندوں کو خوف زدہ کرنے کی؟“

انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔

”تم لوگ پوری طرح ہماری زد پر ہو صرف یہ بتایا ہے۔“

”یہ بات تو ہم اس جزیدے پر قدم رکھنے سے پہلے سے جانتے تھے۔“ انسپکٹر جمشید جھلا اٹھے۔

”آگیا غصہ…. میں نے تو سنا تھا انسپکٹر جمشید کو غصہ نہیں آتا اور دشمنوں سے مقابلے میں یہی ان کی کامیابیوں کا رازہے۔“

”میں بھی آخر انسان ہوں کبھی آبھی جاتا ہے۔“ وہ ہنس دیے۔

وہ چلتے رہے،پندرہ منٹ بعد ایک کھلے میدان میں داخل ہوئے۔ اس کے چاروں طرف درخت ایک دائرے کی صورت میں تھے۔ گویا اس وقت وہ ان درختوں کے گھیرے میں تھے۔

”ان کے ساتھی نیچے لٹکادو۔“

”کیا کہا نیچے لٹکا دو۔“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی انہوں نے اوپر دیکھا درختوں سے چند رسیاں لٹکتی نظر آئیں۔ ان کے سروں پر ان کے ساتھی بری طرح بندھے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیچے آرہے۔

”اُف اتنا ظلم سربلتان! میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ خیر …. میں آپ کو اس ظلم کا مزہ چکھاﺅں گا۔“

”خوب بہت خوب پہلے اپنے ساتھیوں کی خبر لے لو۔“

”محمود جلدی کرو چاقونکالو۔“

محمود نے جوتے کی ایڑھی سرکائی اور پھر دھک سے رہ گیا۔ ایڑی میں چاقو نہیں تھا۔ اس نے پریشانی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا۔

”چاقو غائب ہے ابا جان۔“

”اوہو اچھا! خیر کوئی بات نہیں۔“

”انہیں کوئی چاقو دے دو بھئی۔ بے چارے آخری بار اپنے ساتھیوں سے مل لیں گے۔“

اوپر سے ایک چاقو نیچے آگرا۔ وہ عام سا چاقو تھا۔ انہوں نے ا س کے ذریعے رسیاں کاٹنی شروع کردیں اور جلد ہی وہ آزاد ہوگئے۔ ان کے ہونٹوں پر بھی ٹیپ چپکائی گئی تھی۔ اسے اتارتے وقت انہیں شدید تکلیف محسوس ہوئی۔منہ کھلتے ہی ان سب نے کہا:

”اللہ کا شکر ہے اس مصیبت سے نجات ملی اور آپ لوگوں کی شکل نظر آئی۔“

”اچھی طرح اللہ کا شکر ادا کرلو۔ آج تم لوگوں کی زندگیوں کا آخری دن ہے۔“

”تب پھر پہلے ہمیں یہ بتادیں کہ حاجو خان سے آپ کیا کام لے رہے تھے۔ دفتر کے لوگوں کی چیزیں کیوں اس کے ذریعے اڑا رہے تھے۔“

”پہلے چند آدمیوں کی چھوٹی چھوٹی چیزیں اڑ ا کر حاجو خان کو یہ احساس دلایا تھا کہ یہ کام بے ضررہے۔ پھر اس کے ذریعے نصیر الدین شاہ کی دراز میں گھڑی رکھوانے کا پروگرام تھا، لیکن حاجو خان کم بخت دھوکا دے گیا۔

امید نہیں تھی کہ وہ ایسا ثابت ہوگا۔ میرا تو خیال تھا وہ پوری طرح شیشے میں اتر چکا ہے، لیکن ہو ااِس کا اُلٹ۔ خیر …. کوئی بات نہیں۔ تم لوگوں کے ساتھ اس کا بھی کانٹا نکال دیاجائے گا۔ جب تم ایک دوسرے کو خوب جی بھر کر دیکھ چکو تو بتا دینا۔ اُس وقت میرے ساتھی درختوں پر سے فائرنگ کرکے تم لوگوں کو اگلے جہاں پہنچادیں گے۔“

”اچھی بات ہے، لیکن یہ تو کوئی مزے داری نہ ہوئی۔“ انسپکٹر جمشید نے حیران ہوکر کہا۔

”کیا مطلب؟“

”مسٹر بلتان! کم ا ز کم ہماری اور آپ کی ملاقات تو ہونی چاہیے تھی۔“

”اچھی بات ہے۔ تم سے ملاقات بھی کر لیتا ہوں۔ کہیں مرتے وقت تم یہ خوش فہمی لے کر نہ مرو کہ میں تم سے ڈر رہا تھا ، اس لیے سامنے نہیں آیا۔“

”چلیے ٹھیک ہے۔ ہم یہ خوش فہمی لے کر نہیں مریں گے وعدہ کرتے ہیں۔“ فاروق نے خوش ہوکر کہا۔

”حد ہوگئی یہ خوش ہونے کا کون سا موقع ہے؟“

”اچھا جب خوش ہونے کا موقع آئے تو بتادینا۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔

اب انہوں نے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ دی۔

”ہمیں افسوس ہے کہ یہ لوگ آپ لوگوں کو اغوا کرکے لے آئے۔ غلطی ہماری تھی۔“

”اب تو جوہونا تھا ہوچکا۔“ حاجو خان نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

”موت کا وقت مقررہے اور اپنے وقت پر آکر رہتی ہے۔ بس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معاف کردے، ہمارے گناہوں سے درگزر کرے۔“

”آمین ۔“ ان سب کے منہ سے نکلا۔ ساتھ ہی آنکھو ں میں آنسو آگئے۔

”انسپکٹر جمشید! تم لوگوں کی آنکھوں میں آنسو؟ میں نے تو سنا تھا تم لوگ وہ ہو جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہو، لیکن میں تو تم لوگوں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ رہا ہوں۔“

”یہ آنسو حاجو خان اور اس کے بیوی بچوں کے لیے ہیں۔ ہم ان کی حفاظت نہ کرسکے۔ وہ ہماری پناہ میں تھے۔“

”اس میں آپ کا کیا قصور؟“ حاجو خان کے منہ سے نکلا۔

”کیا تم لوگ ایک دوسرے سے مل چکے؟“

”ہاں! لیکن ا ب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“

”میں آرہا ہوں۔ بالکل آرہا ہوں….فکر نہ کریں۔“

اور پھر خاموشی چھا گئی۔ وہ چارو ں طرف دیکھنے لگے …. درختوں کے حلقے کے اندران کے سوا کوئی نہیں تھا۔

اچانک انہیں درختوں کے درمیان سے نکل کر کوئی آتا نظر آیا۔

پھر وہ درختوں کے دائرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ وہ درمیانے قد کا دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ پرسکون انداز میں چلتے ہوئے وہ ان کے سامنے آکھڑا ہوا:

”اس نقاب کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئی جب کہ ہمیں معلوم ہے آپ بلتان ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے الجھن کے عالم میں کہا۔

”میں نے سوچا کہیں تم لوگ مجھے دیکھ کر ڈر نہ جاﺅ۔“

”جہاں تک بلتان کے حلیے کا تعلق ہے مجھے معلوم ہے، لہٰذا اس کے حلیے سے تو ہم خوف زدہ ہوں گے نہیں کوئی اور بات ہو تو وہ آپ بتادیں۔“

”میرا خیال تھا تم حلیے کے چکر میں پڑنے کی بجائے یہ پوچھو گے کہ میں کیا چاہتا ہوں؟ یہ سارا چکر کیا ہے۔“

”اس میں شک نہیں ۔ ضروری یہی ہے، چلیے خیر اگر آپ اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتے تو پھر یہ باتیں بتادیں جن کی طرف خود آپ نے اشارہ کیا ہے؟“

”ضرور کیوں نہیں حاجو خان کے محکمے کے ڈائریکٹر پر ہماری ایک مدت سے نظریں تھیں۔ محکمہ اطلاعات بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کا ڈائریکٹر اگر ہماری مرضی کا ہو تو بہت سے کام چٹکیوں میں نکل آتے ہیں۔ سو اوپر سے حکم ملا، نصیر الدین شاہ کو ختم کردیاجائے ، لیکن اس طرح کہ تفتیش کرنے والے چکر ہی کھاتے رہ جائیں۔ سو حاجو خان کو چھوٹے چھوٹے معاملات میں دس دس ہزار روپے دے کر قابو کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اصل واردات کی باری میں وہ ہاتھ سے پھسل گیا اور اس نے ہدایات کے مطابق عمل نہ کیا۔ اب ظاہر ہے ہمیں نصیر الدین کو تو ٹھکانے لگانا تھا۔ سوچا اس کے ساتھ ہی ، حاجو خان کو بھی مزہ چکھا دیا جائے لیکن یہ حضرت پہنچ گئے آپ کے پاس۔ جب انہیں آپ کے گھر سے اغوا کیا گیا تو پروگرام طے پایا کہ ساتھ میں آپ کے گھر کو بھی لپیٹ میں لیا جائے تاکہ ایک تیر سے تین شکار ہوجائیں چنانچہ دیکھ لیں سب یہاں موجود ہیں۔ نصیر الدین شاہ بھی ہیں۔ ایک ہی بار آپ سب کو لپیٹ دیا جائے گا۔ پھر یہاں لاشوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ اٹھا کر سمندر میںپھینک دیں گے اور فارغ…. پھر ہم ہوں گے اور آپ کا ملک ہوگا۔ بات ایک ڈائریکٹر پر تو ختم نہیں ہوجائے گی۔ تمام اسلام پسندوں کو ایک ایک کرکے ختم کریں گے اور ان کی جگہ اپنی مرضی کے آدمی لائے جائیں گے…. اس طرح یہ ملک بغیر کسی جنگ کے فتح ہوجائے گا۔ جب انسپکٹر جمشید جیسے لوگ نہیں ہوں گے تو ہمارے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی اور تم لوگوں کے ہوتے ہوئے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔“

”یہاں آپ خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔“ انسپکٹر اس کے خاموش ہوتے ہی بولے۔

”وہ کیسے؟“

”ایسے کہ اس ملک میں ایک ہم ہی نہیں ہیں۔ ہم جیسے نہ جانے کتنے سرپھرے موجود ہیں۔“

”کوئی پروا نہیں…. باری باری سبھی کو اس جزیرے پر لایا جائے گا اور یہ جزیرہ موت کا جزیرہ بن جائے گا۔“

”چلیے ٹھیک ہے۔ اب ذرا آخر میں اپنا چہرہ دکھا دیں تاکہ ہم بھی دیکھ لیں بلتان کیسا ہوتا ہے۔“ انہوں نے شوخ انداز میں کہا۔

”اچھی بات ہے۔ تم لوگ بھی کیا یاد کروگے۔“

اس نے کہا اور چہرے سے نقاب اتار دیا۔ انہوں نے بالکل اس حلیے کے آدمی کو اپنے سامنے دیکھا…. جو حلیہ انہوںنے بلتان کا سن رکھا تھا۔

”چلو اس بہانے زندگی میں بلتان کو دیکھ لیا، بہت شہرت سنی تھی آپ کی۔ اب ایک بات اور بتادیں۔“

”جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔ پھر تمہیں کہاں موقع ملے گا۔“ وہ ہنسا۔

”اس مرتبہ آپ کس ملک کے لیے کام کررہے ہیں۔“

”انشارجہ کے لیے…. ویسے میں زیادہ تر انشارجہ کے لیے ہی کام کرتا ہوں۔“

”خوب بہت خوب میرا بھی یہی اندازہ تھا۔ یہ انشارجہ ہی تو ہے جو ہر ملک کو غلام بنانے کی فکر میں رہتا ہے۔ وہ بھی بلتان جیسے لوگوں کے ذریعے۔“

”بس ہوگئیں تم لوگوں کی باتیں ختم۔ اب ہم اپنا کام کریں گے۔“

”میری ایک خواہش تھی۔“ انسپکٹر جمشید کی آواز ابھری۔

”کیا مطلب؟کیسی خواہش؟‘ ‘ وہ چونکا۔

”دو بے چارے ساحل پر رہ گئے۔ اس معاملے میں واقعی ان کا کوئی قصور نہیں وہ بلاوجہ پھنس گئے۔ میں چاہتا تھا آپ انہیں بھی یہاں بلالیں جو کچھ ہوان کے سامنے ہوجائے۔ اس طرح اس واقعے کے گواہ بھی ہوں گے۔“

”ان گواہوں کا تم لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا بھلا؟“

”بات فائدے اور نقصان کی نہیں۔ میں تو بس ان کا خیال کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں۔ وہ بھی دیکھ لیتے اپنے دین اور ملک کے لیے کس طرح زندگیاں قربان کی جاتی ہیں۔“

”اگرچہ اس کی ضرورت نہیں پھر بھی میں اس کو آپ کی آخری خواہش سمجھ کر پوری کیے دیتا ہوں۔ پروفیسر سام اور کپتان صاحب! آپ دونوں تک میری آوز پہنچ رہی ہے نا۔“

”جج….جی ہاں پہنچ رہی ہے۔“

”بس تو پھر آپ بھی آگے چلے آیئے۔ آپ دونوں کو خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایاجائے گا۔ بس آپ ان لوگوں کی موت کا منظر دیکھیں گے۔“

”نن نہیں…. ہم یہ خوفناک منظر نہیں دیکھ سکتے ۔“ پروفیسر سام کی لرزتی آواز سنائی دی۔

”میں نے کہا نا آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں …. بس چلے آیئے۔ ورنہ پھر ہم آپ لوگوں کو جزیرے پر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔“

”ن…. نہیں…. ایسا نہ کیجیے۔“ ڈرائیور خوف زدہ آواز میں چلا اٹھا۔

”تو پھر چلیں آئیں ناک کی سیدھ میں آکر ان کی موت کا منظر دیکھ لیں۔ پھر ہم یہاں سے چلیں گے۔“

”چلیے پروفیسر صاحب! اب تو چلنا پڑے گا۔“

”ہاں …. بالکل۔“

اور پھر وہ انتظار کرنے لگے۔ یہاں تک کہ دونوں درختوں کے دائرے میں داخل 
ہوتے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر خوف طاری تھا۔

سازشی چہرہ - پارٹ 4

تمام قسط وار کہانیاں وزٹ کریں
قسط وار کہانیاں
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے