”آیئے پروفیسر صاحب! آیئے۔“ بلتان چہکا۔
”پروفیسر صاحب! میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں۔ یہ ہمارا آخری وقت ہے۔ کیا آپ میری بات سننا پسند کریں گے۔“
”آ پ لوگوں ہی نے تو ہمیں اس مصیبت میں پھنسایا ہے۔ ہم آپ کی بات کیوں سنیں۔“
”شاید وہ بات آپ کے حق میں ہو۔“
”اچھی بات ہے سن لیتا ہوں۔“ پروفیسر سام نے برا سا منہ بنایا اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔
پروفیسر سام کے قدم ان کی طرف اٹھنے لگے۔ ان کی نظریں پروفیسر پر جم کر رہ گئی تھیں۔ ایسے میں محمود نے دبی آوا ز میں کہا۔
”ابا جان! آپ پروفیسر صاحب سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”بس دیکھتے جاﺅ۔“ وہ بولے۔
”جی…. کیا دیکھتے جائیں؟“
”یہ کہ میں ان سے کیا کہنا چاہتا ہوں۔“
”آپ کہتے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں، ہمارا کیا جاتا ہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔ اگرچہ موت کے دہانے پر مسکرانا آسان کام نہیں تھا، لیکن ان کی زندگیوں میں ایسے لمحات آتے ہی رہتے تھے، لہٰذا مسکراسکتے تھے۔ آخر پروفیسر سام ان کے بالکل نزدیک پہنچ گئے۔
”ہاں انسپکٹر جمشید آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”میں آپ کے کان میں کہنا چاہتا ہوں۔ مہربانی فرما کر اور نزدیک آجائیں۔“
”اوہو…. وہ ایسی کیا بات ہے آخر۔“
”آپ سن کر حیرت زدہ رہ جائیں گے۔“
”چلیے مان لیامیں سن کر دھک سے رہ جاﺅں گا، لیکن بات ہے کیا۔“
”وہ تو میں کان میں بتاسکتا ہوں۔“
”اچھی بات ہے، میں نزدیک آجاتا ہوں۔“
اس کے قدم اٹھنے لگے یہاں تک کہ وہ ان کے بالکل نزدیک پہنچ گیا۔
”لیجیے آگیا نزدیک کہیے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“
”کان قریب کیجیے نا۔“ انہو ں نے منہ بنایا۔
پروفیسر سام نے بھی منہ بنایا تاہم وہ ان سے اور نزدیک ہوگیا اور اپنا کا ن ان کے منہ کی طرف کردیا۔
عین اس وقت انسپکٹر جمشید نے ایک عجیب حرکت کی۔
وہ عجیب حرکت یہ تھی کہ انسپکٹر جمشید نے پروفیسر سام کی گردن کے گرد اپنا دایاں بازو کس دیا تھا اور بایاں ہاتھ اس کے سر پر اس طرح رکھا کہ جونہی ذرا سا جھٹکا دیں تو اس کی گردن ٹوٹ جائے اور یہ انسپکٹر جمشید کا ایک خاص انداز تھا۔ ایک عجیب داﺅ تھا۔ اس داﺅ سے وہ بڑے سے بڑے ماہر لڑاکے کو قابو میں کرچکے تھے۔ ان کے اس داﺅد کے جواب میں ان کا شکار اگر ذرا بھی حرکت کرنے کی کوشش کرتا تو اس کی گردن ٹوٹ جاتی تھی۔ شکار فوراً محسوس کرلیتا تھا کہ وہ بہت بری طرح پھنس گیا ہے۔
”یہ…. یہ کیا انسپکٹر جمشید ؟ تم نے اپنے ساتھی کو اس طرح کیوں پکڑلیا۔“ بلتان کی حیرت زدہ آواز گونجی۔
”یہ ہمارا ساتھی نہیں، البتہ ہمارے ساتھ یہاں تک آیا ضرور ہے۔ اب یہ اس حالت میں ہے کہ اس کے جسم کو ذرا بھی حرکت ہوئی تو اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔ یہ خود حرکت کرے یا میں حرکت کروں ، ایک ہی بات ہوگی بلکہ تم میں سے کوئی کسی طرح بھی ہم پر وار کرے، اس کی گردن پہلے ٹوٹے گی۔ اگر یقین نہیں تومسٹر ساکا خود اس سے پوچھ لو۔“
”کیا …. کیا کہا مسٹر ساکا؟“ وہ بری طرح اچھلا۔
”ہاں! تم بلتان نہیں ہو ساکا ہو۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا جرائم پیشہ تم سے میری ملاقات ایک کیس کے سلسلے میں ہوچکی ہے، لیکن تم میرے ہاتھ سے بچ کر نکل گئے تھے۔ میں چونکہ اس وقت تمہاری آوا ز سنتا رہا ہوں، اس لیے اب جب میں نے تمہاری آواز سنی تو میرے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ میرے دماغ نے مجھے فوراً بتایا کہ یہ شخص بلتان نہیں ساکا ہے۔ ایک مقامی جرائم پیشہ کیوں میں غلط تو نہیں کہہ رہا؟“
”نہیں! تم بالکل ٹھیک سمجھے۔“ اس نے ہنس کر کہا۔
”خوب! تم نے اتنی بات تو مانی۔ اب اپنے ساتھیوں کو حکم دو، وہ درختوں سے نیچے آجائیں لیکن نیچے آنے سے پہلے اپنے پستول اور رائفلیں گرادیں۔“
”کیا آپ پاگل ہوگئے ہیں انسپکٹر جمشید۔“ ساکا غرایا۔
”نہیں البتہ تم لوگوں کو پاگل کردینے کا ارادہ ہے اور وہ تم آج ضرور ہوگے۔“
”کیا اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہو؟ پروفیسر سام کو چھوڑ دو۔ تم لوگ پوری طرح ہماری زد پر ہو۔ ایک پل میں سب کے سب تڑپتے نظر آﺅگے۔“
”اس میں شک نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے ساتھ پروفیسر سام بھی تڑپتے نظر آئیں گے۔“
”تو کیا ہوا ہماری بلا سے۔ آجائیں تڑپتے نظر۔“ساکا بولا۔
”تب پھر اپنے ساتھیوں کو حکم دوکہ وہ ہم پر فائرنگ شروع کریں۔ ہم پوری طرح ان کی زد پر ہیں نا؟فائرنگ شروع کرنا ان کے لیے کیا مشکل ہے شروع کریں۔“
”لگتا ہے آپ واقعی پاگل ہوگئے ہیں۔ بھلا ہمیں پروفیسر سام کی کیا پروا؟ تم لوگو ںکے ساتھ یہ بھی مرتے ہیں تو ہمیں کیا۔“
”اسی لیے تو کہہ رہا ہوں اپنے ساتھیوں سے کہو ہم پر فائرنگ کریں۔“
”یہ حکم تو خیر مجھے دینا ہی ہے، لیکن….“ ساکا کہتے کہتے رک گیا۔
”لیکن کیا…. یہ لیکن اٹک کیوں گیا؟“ فاروق کی شوخ آواز سنائی دی۔ اب صورت حال ان کی سمجھ میں بہت تیزی سے آرہی تھی۔
”لیکن…. میں سوچتا ہوں بلاوجہ پروفیسر سام کیوں مارے جائیں؟ آپ انہیں چھوڑ دیں تاکہ ہم فائرنگ شرو ع کرسکیں۔ انہیں ساحل کی طرف جانے دیں۔“
”اب میں اتنا بھی پاگل نہیں۔“ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
”کتنے بھی جمشید؟“ خان عبدالرحمن نے حیران ہوکر کہا۔
”یار سمجھا کرو۔“ وہ جھلا کر بولے۔
”اچھی بات ہے، اب سمجھا کروں گا۔“ خان عبدالرحمن نے فوراً کہا۔
”کیا سمجھا کروگے؟“ انسپکٹر جمشید بولے۔ جب کہ ان کی پوری توجہ پروفیسر سام کی طرف تھی۔ وہ ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں دیکھ رہے تھے۔
”جج…. جو تم کہوگے بس وہی سمجھا کروں گا۔“
”انسپکٹر جمشید تم بھی اپنے بچوں کی طرح اِدھر اُدھر کی باتوں میں لگ گئے۔ ہے کوئی تک…. تم پروفیسر سام کو چھوڑتے ہو یا میں فائرنگ کا حکم دوں۔“
”یہی تو میں کہہ رہا ہوں تم فائرنگ کا حکم دے دو۔“
”ضرور تم پاگل ہوگئے ہو۔“ ساکا گرجا۔
”تو پھر تمہیں اس سے کیا؟ میں پاگل ہوگیا ہوں، تمہاری بلا سے۔ میں تو تمہارا دشمن ہوں، تمہارے قابو میں ہوں اور پروفیسر سام کوئی تمہارے سگے رشتے دار بھی نہیں ہیں کہ تمہیں ان کی زندگی کی کوئی پروا ہوگی، تو پھر حکم دو اپنے ساتھیوں کو وہ ہم پر فائرنگ کریں۔“
”اب یہی کرنا ہوگا۔ میں تو بس اس لیے رک گیا تھا کہ بے چارے پروفیسر سام بلاوجہ مارے جائیں گے جب کہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور ہمیں ان سے کوئی دشمنی نہیں، لہٰذا میں آخر ی بار کہہ رہاہوں پروفیسر سام کو چھوڑ دیں۔“
”اور میں بھی تمہیںآخری بار کہہ رہاہوں کہ فائرنگ کا حکم دو۔“ انسپکٹر جمشید گرجے۔
ان کی گرج نے ان سب کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن خود انسپکٹر جمشید نہیں ہلے تھے، اس لیے کہ اگر وہ ہلتے تو پروفیسر سام کی گردن ٹوٹ جاتی۔
”اچھی بات ہے انسپکٹر جمشید! آپ جیت گئے۔ آپ پروفیسر کو چھوڑدیں، ہم آپ سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔“ ساکا نے ڈھیلی ڈھالی آواز میں کہا۔
”انسپکٹر جمشید نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔“انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا کہہ رہے ہیں ابا جان؟ آپ کے بال تو ابھی سفید ہوئے ہی نہیں۔“ فاروق نے حیران ہوکر کہا۔
”اوہ…. معاف کرنا محاورہ درمیان میں ٹپک پڑا۔“
”کیا کہنا چاہتے ہیں انسپکٹر جمشید؟“ ساکا نے جھلائے ہوئے اندا ز میں کہا۔
”با ت تو جتنی بھی ہوگی اسی حالت میں ہوگی یعنی پروفیسر سام کو چھوڑے بغیر۔“
”اوکے…. آپ کیا چاہتے ہیں؟“ساکا کی آواز اور ڈھیلی ہوگئی۔
”ہاں! اب آپ آئے سیدھے راستے پر…. درختوں پر جتنے لوگ موجود ہیں ان سب سے کہو اپنی رائفلیں اور پستول نیچے گرادیں۔ اگر کسی کے پاس بھی پستول یا رائفل نظر آئی تو ہم اسے نہیں چھوڑ یں گے۔“
”گرادو بھئی….نیچے۔“ ساکا بولا۔
”یہ کیا؟ یہ صاحب توپروفیسر سام کو بچانے کے لیے آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوگئے کمال ہے۔“ محمود نے حیران ہوکر کہا۔
”اسی کو کہتے ہیں انقلاب زمانہ۔“ انسپکٹر جمشید ہنسے۔
”یہ تو کمال ہوگیا جمشید…. لیکن یہ ہو کیسے گیا؟“ پروفیسر داﺅد کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ساکا کے چہرے کی طرف دیکھ لیں۔“
”ساکا کے چہرے کی طرف دیکھ لوں کیا وہاں پر لکھا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا۔“
”کچھ نہ کچھ تو لکھا نظر آ ہی جائے گا۔“
”اچھی بات ہے جمشید تم کہتے ہو تو دیکھ لیتا ہوں۔ ورنہ اس کی طرف دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ارے یہ کیا؟ اس کے چہرے پر تو سیاہی ہی سیاہی نظر آرہی ہے۔“
”بلکہ یوں کہیں کہ کالک ملی نظر آرہی ہے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اوہو! سوال تو یہ ہے کہ کیوں؟ پروفیسر سام کی ان لوگوں کے نزدیک کیا اہمیت ہے؟“ فاروق نے جھلائے ہوئے اندا ز میں کہا۔
”ابھی تک رائفلیں نہیں گرائی گئیں۔“ انسپکٹر جمشید کی سرد آواز لہرائی۔
”گراتے کیوں نہیں۔“ ساکا چلایا۔
رائفلیں اور پستول نیچے گرنے لگے۔
”تم لوگ حرکت میں آجاﺅ۔ تمام رائفلوں اورپستولوں کو خالی کرکے دور پھینک دو۔ اس قدر دور کہ اس سے زیادہ دور نہ پھینک سکو۔“
”جی اچھا۔“ وہ بولے۔
اور انہوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ جلد ہی میدان رائفلوں اور پستولوں سے پاک ہوگیا۔
”اب ان لوگوں سے کہو کہ نیچے آجائیں۔“
”نیچے آجاﺅ۔“ ساکا بولا۔
ان لوگوں نے درختوں سے رسیوں کی سیڑھیاں لگائی ہوئی تھیں۔ فوراً ہی وہ ان کے ذریعے نیچے اترتے نظر آئے۔
”فاروق ان رسیوں کو کاٹ کر نیچے گرادو۔“
”جی اچھا۔“
فاروق نے وہ چاقو اٹھالیاجو میدان میں پڑا تھا اور اس کو لے کر درخت پر چڑھ گیا۔ اس طرح اس نے رسیاں کاٹ ڈالیں۔
”اب ان رسیوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کردو۔“
وہ اس کام میں لگ گئے۔ جب سب کو باندھ لیا گیا تو انسپکٹر جمشید نے کہا:
”مسٹر ساکا! اب تم خود کو بندھوالو۔“
”اچھی بات ہے۔“
انہوں نے اسے بھی باندھ دیا۔
”میں اس کی گردن پکڑے رہوں گا۔تم لوگ اسے بھی رسیوں سے باندھ دو۔“
”آپ کا مطلب ہے پروفیسر سام کو ۔“ مارے حیرت کے محمود کے منہ سے نکلا۔
”ہاں! پروفیسر سام کو۔“
”تت…. تو یہ بھی ان کا ساتھی ہے۔“ فاروق چلا اٹھا۔
”بہت دیر بعد سمجھے…. جب میں نے خان عبدالرحمن کی گاڑی اڑنے کی خبر سنی تھی، تو میں اس وقت چونکا تھا۔ پھر جب لانچ اڑی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب پروفیسر سام کررہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ یہ بھی ان کا ساتھی ہے۔ اسی لیے تو ایک ایسے جزیرے کو منتخب کیا گیا جس کے بارے میں ہمیں اس سے رابطہ کرنا پڑا۔ اب کیوں نہ میں تمہیں اس کا اصل نام بھی بتادوں؟“
”جج…. جی …. اصل نام…. آپ…. آپ کامطلب ہے …. جیفر سام اس کا اصل نام نہیں ہے۔“
”نہیں…. جیفر نام کا آدمی تو اس وقت بھی اپنے گھرمیں موجود ہے۔ یہ تو اس کے میک اپ میں ہے۔“
”کیا؟“ مارے حیرت کے ان کے منہ سے نکلا۔
”ہاں ! بالکل یہی بات ہے۔ یہ جیفر سام نہیں ہے۔ اس کے میک اپ میں ہمارا اصل مجرم ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آپ….آپ کا مطلب ہے یہ بلتان ہے۔“ وہ چلا اٹھے۔
”ہاں بالکل…. دراصل ہمارا سب سے بڑا دشمن انشارجہ ہمارے ملک کی اہم ترین جگہوں پر اسلامی ذہن کے لوگ پسند نہیں کرتا۔ اس بار اس نے بلتان کے ذمے کچھ لوگوں کو ٹھکانے لگانے کا کام لگایا تھا۔ ان میں پہلا نمبر نصیر الدین شاہ کا تھا۔ بلتان جیسے لوگ دور بیٹھ کر اپنا کام کرنا پسند کرتے ہیں، لہٰذا اس نے یہ کام دوسروں سے لینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ آٹھ دس خاص خاص آدمیوں کو یہ اسی قسم کی سازشوں کے ذریعے ٹھکانے لگاتا اور فتح کے شادیانے بجاتا انشارجہ چلا جاتا۔ منصوبہ تو بس اتنا سا تھا۔ اب اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس کا پہلا ہی شکار ا س کے ہاتھوں سے پھسل جائے گا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ حاجو خان اس کا سارا منصوبہ چوپٹ کردے گا جہاں تک میرا خیال ہے اس نے اس شہر میں پروفیسر جیفر سام کے گھر کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایاتھا…. جیفر سام انہی کا کارندہ ہوگا، لہٰذا اسی کے مشورے سے اس جزیرے کا نام ہمیں دیا گیا تاکہ ہم اس کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس کے پاس جائیں اور وہاں سے جیفر سام کے روپ میں بلتان ہمارے ساتھ ہولے۔ جب ہماری گاڑی ساحل سمندر پر بھک سے اڑ گئی تو مجھے بہت حیرت ہوئی کیونکہ پروفیسر داﺅد پہلے ہی گاڑی کو چیک کرچکے تھے اور اس وقت کوئی چیز اس میں نہیں ملی تھی۔ پھر گاڑی میں دھماکا کرنے کا سامان کب رکھا گیا؟ یہ بات مجھے اس وقت سوجھی جب لانچ بھی اسی طرح اُڑ گئی۔ اس وقت مجھے قطعاً کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ بلتان خود ہمارے ساتھ ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت بلتان کا پورا منصوبہ خاک میں مل چکا ہے۔ اس کے تمام ساتھی ہماری قید میں ہیں اور خود یہ موت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ لو میں اس کا بھی کانٹانکالے دے رہا ہوں۔“
”واہ! کیا انصاف ہے۔“ایسے میں بلتان نے اپنے جسم کو حرکت دیے بغیر کہا۔
”انصاف…. گو یا تم مجھے ناانصافی کا طعنہ دے رہے ہوبھلا وہ کیسے؟“
”دھوکے سے مجھے قابو میں کرلیا۔یہ کیا بہادری ہے؟ مزہ تو تب تھا جب مجھے مقابلے کے لیے للکارتے۔ میری تمہاری جنگ ہوتی پھر میں تمہیں بتاتا، تم کتنے پانی میں ہو۔“
”یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جس نے اس وقت تک صرف اور صرف دھوکے سے کام لیاہے۔ ہماری گاڑی اڑا دی، لانچ اڑادی اور اس سے پہلے حاجوخان کو دھوکا دیا۔ اب یہ صاحب مجھ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ میں انہیں باقاعدہ مقابلہ کرکے شکست دوں۔ واﺅ کیا خوب۔“
”گویا تم مجھے اسی طرح ہلاک کردینا چاہتے ہو۔“
”ہاں بالکل! میں دشمن کو بلاوجہ موقع دینے کے حق میں نہیں۔ تم میرے ذاتی دشمن نہیں ہو میر ے ملک کے دشمن ہو ، میری قوم کے دشمن ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اسلام کے دشمن ہو۔ اب دیکھو نا میں بہادری کے گھمنڈ میں تمہاری گردن چھوڑ دوں اور تم سے کہوں آﺅ کرو مجھ سے مقابلہ اور مقابلے میں جیت جاﺅ تم، تو یہ نقصان کس کا ہوگا؟ مجھے تو یہ نقصان پہنچے گا کہ میں تمہارے ہاتھوں مارا جاﺅں گا یا شدید زخمی ہوجاﺅں گا اور میرے بچے تمہارے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ میرے ساتھی بھی مارے جائیں گے۔ غرض ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ بات صرف یہاں تک ہوتی، تو بھی میں تمہاری خواہش پوری کرتااور تم سے دو دو ہاتھ کرتا، لیکن خطرہ بس یہ نہیں اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہے کہ تم اسلام کے دشمن ہو۔ ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہو، لہٰذایہ تم جاری رکھوگے اور اگر ایسا ہوا تو یہ میری اس بہادری کے گھمنڈ کا نتیجہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ میں دشمن کو مہلت دینے کا قائل نہیں۔ ہاں اس کی ایک صورت ہے۔“
”ایک صورت…. اور وہ کیا؟“ بلتان کی آواز میں تجسس تھا۔
”وہ یہ کہ تم میرے ایک سوال کا جواب دے دو۔“
”کک…. کیسا سوال؟“
”بالکل آسان سا سوال ہے۔ یہ بتادو کہ ہم سب کو ختم کرنے کی صورت میں تم لوگ یہاں سے کس طرف جاتے؟ ظاہر ہے اس جزیرے پر تو رہنے کے لیے انتظام نہیں ہے۔“
بلتان کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا، وہ کچھ نہ بول سکا۔
”مسٹر بلتان ! تم نے جواب نہیں دیا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
وہ اب بھی خاموش رہا۔
”واہ جمشید …. تم نے تو کمال کردیا اِسے گنگ کردیا۔
”میں اب اس کی گردن توڑ رہا ہوں کیونکہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔“
”ٹھیک ہے جمشید…. یہی بہتر ہے۔ سانپ کو چھوڑ دینا عقل مندی نہیں۔“
”ٹھہرو انسپکٹر جمشید ! میں تمہارے سوال کا جواب دے رہا ہوں۔ یہاں پاس ہی ایک اور جزیرہ ہے وہاں میرے بہت سے ماتحت موجود ہیں۔ ان کے پاس ایسی کئی لانچیں ہیں۔“
”خوب بہت خوب! آپ نے دیکھا پروفیسر صاحب۔“ انسپکٹر جمشید چہکے۔
”کک…. کیادیکھا۔“ پروفیسر ہکلائے۔
”یہ کہ ادھر میرا اور اس کا مقابلہ شروع ہوتا، ادھر اس کے ساتھی ہمیں پکڑلیتے اور رائفلیں ہم پہلے ہی یہاں سے بہت دور پھینک چکے ہیں اور وہ سب ان کے ہاتھ لگ جاتیں اور ہم بہت آسانی سے ان کے ہاتھوں مارے جاتے۔ بازی پھر بلتان کے ہاتھ میں رہتی۔“
”ارے باپ رے۔“ پروفیسر داﺅد اور خان عبدالرحمن بوکھلا اٹھے۔ وہ مسکرادیے۔
”پھر اب کیا کرنا ہے جمشید؟“
”بس دیکھتے جاﺅ۔“
”اچھا دیکھتے جائیں گے،ہمارا کیا جاتا ہے۔“پروفیسر داﺅد نے منہ بنایا۔
”چلو بھئی بلتان اپنے ساتھیوں سے کہو وہ ادھر ہی آجائیں۔ وہ بھی یہ مقابلہ دیکھیں گے۔“
”ٹھیک ہے۔“ بلتان نے فوراً کہا۔
”تو دو نا پیغام۔“
”میری جیب سے موبائل نکال کر مجھے دیں۔“ وہ بولا۔
”نمبر بتاﺅ میں دائل کرتا ہوں۔ کیا نام ہے؟ اس ماتحت کا جسے تم ہدایات دوگے۔“
”راجر بوم۔“ وہ بولا۔
”محمود بہت احتیاط سے اس کی جیب سے موبائل نکال لو۔ خود کو اس کی زد سے بچائے رکھنا۔“
”کیا اِس حالت میں یہ صاحب مجھ پر حملہ کرسکتے ہیں؟“
”نہیں…. لیکن ہوشیار رہنا اچھا ہے۔“
”جی اچھا۔“
محمود نے موبائل اس کی جیب سے نکال لیا۔ پھر اس سے نمبر پوچھا۔ اس نے جونہی نمبربتایا۔ انسپکٹر جمشید نے اس کے جسم کو زو ر دار جھٹکا دیا…. اس کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکل گئی۔
”یہ …. یہ آپ نے کیا کیا؟ اسے ختم کردیا۔“ فاروق بول اٹھا۔
”نہیں ! بے ہوش کیا ہے۔“
اب وہ خان عبدالرحمن کی طرف مڑے اور بولے۔
”خان عبدالرحمن حرکت میں آجاﺅ۔“
”کیا کہا…. حرکت میں آجاﺅں…. کیسے؟“
”سب لوگ ان رائفلوں کو تلاش کرلیں۔ ان میں میگزین بھرلیں اور درختوں کی بہترین انداز میں اوٹ لے لیں۔ دشمن کے ساتھی سیدھے ادھر آئیں گے۔ ان کا نشانہ لینا بھلا کیا مشکل ہوگا۔“
”بہت خوب جمشید!“
اور پھر اس ہدایت پر کام شروع ہوگیا۔ جلد ہی وہ درختوں کے پیچھے پوزیشن لے چکے تھے۔ اب انسپکٹر جمشید نے پروفیسر داﺅ دسے کہا۔
”جن لوگوں کو ہم نے رسیوں سے باندھا ہے، انہیں آپ کوئی چیز سونگھا کر بے ہوش کردیں تاکہ یہ شور وغیرہ کرکے آنے والوں کو خبردار کرنے کی کوشش نہ کریں۔“
”اچھی بات ہے جمشید۔“ وہ مسکرا دیے ۔
جب سب لوگ بے ہوش ہوگئے تو انسپکٹر جمشید نے راجر بوم کے نمبرملائے جونہی اس کی آواز ابھری۔ انہوں نے حلق سے بلتان کی آواز نکالی۔
”راجر بوم۔“
”یس سر!“ دوسری طرف سے فوراً کہا گیا۔
”ہم نے ان سب کو قابو کرلیا ہے۔ اب تم بے فکر ہوکر آجاﺅ۔“
”اوکے سر۔“
انہوں نے فون بند کیا ہی تھا کہ فاروق نے پریشانی کے عالم میں کہا۔©
”ہم ایک بات نظر انداز کرگئے ابا جان۔“
”اور وہ کیا؟“
ان سب کے منہ سے نکلا۔
”ہم یہ بات نظر انداز کرگئے ہیں کہ ہمارا مقابلہ بلتان سے ہے۔“ محمو د مسکرایا۔
”حد ہوگئی بھلا یہ بات بھی کوئی بھولنے والی ہے؟ بلتان ہمارے سامنے پڑ اہے۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
”کیا کہنا چاہتے ہو محمود؟“ انسپکٹر جمشید الجھن کے عالم میں بولے۔
”بلتان نے بھی آخر اپنے منصوبے کا ہر طرح جائزہ لیا ہوگا۔ اس نے یہ اندازہ لگایا ہوگا کہ آپ نے اس کے بارے میں بھانپ لیا تو اس صورت میں وہ کیا قدم اٹھائے گا۔ ایک قدم تو آپ سمجھ گئے لیکن میرا خیال ہے اس نے کوئی اور قدم بھی سوچا ہے یعنی یہ راجر بوم اور اس کے آدمیوں کو ختم کردیتے ہیں۔ بلتان پر بھی قابو پالیتے ہیں تو اس صورت میں آخری داﺅ کے طور پر وہ کیا قدم اٹھائے گا۔“
”ہوں…. تمہارا خیال ٹھیک ہے محمود۔ بلتان نے اس مقام پر شکست کے بعد ضرو رکوئی اور پہلو بچا رکھا ہے۔“
”اور ابا جان ! وہ پہلو یہ ہے کہ جب ہم بلتان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر لانچ پر سوار ہوجائیں گے تو اس وقت وہ آخر ی وار ہوگا۔“
”ہوں…. ضرور یہی بات ہے۔“
”بس تو پھر بلتان کو آپ اسی طرح پھر سے قابو میں کرلیں۔“ محمود نے تجویز پیش کی۔
”لیکن جمشید اسے ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے۔“پروفیسر داﺅد بولے۔
”ہوں ٹھیک ہے اس کا کانٹانکال ہی دیتے ہیں۔ پھر ہم راجر بوم اور اس کے ساتھیوں کا انتظار کریں گے۔ وہ زد میں آگئے تو ان کا کام بھی تمام کردےں گے۔ اس کے بعد ہم یہیں اسی طرح انتظار کریں گے۔ ان کی لائی ہوئی لانچوں میں ہر گز سفر نہیں کریں گے۔“
”یہ ٹھیک رہے گا۔ بلتان والا موبائل اب ہمارے پاس ہے۔ ہم اس کے ذریعے آئی جی صاحب کو فون کرکے یہاں لانچیں منگوا سکتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے جمشید بسم اللہ کرو اور بلتان کاکام تمام کردو۔“
انسپکٹر جمشید اس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ بلتان کے جسم میں بجلی کی سی حرکت پیدا ہوئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بری طرح چونکے اب ان کے چہروں پر حیرت ہی حیرت تھی۔
”تم سے چوک ہوگئی جمشید۔ میں پوری طرح تمہارے قابو میں تھا۔ مجھے بے ہوش کرنے کے بجائے ختم کردینا چاہیے تھا۔“ وہ ہنسا۔
”اللہ مالک ہے جس نے مجھے تم پر پہلے قابو دیا تھا۔ وہ اب پھر دے دے گا۔“
”اس وقت اور بات تھی میں تمہارے دھوکے میں آگیا تھا۔“
”کوئی بات نہیں آﺅ دو دو ہاتھ بھی ہو ہی جائیں کہ یہی تمہاری خواہش ہے۔ خان عبدالرحمن …. تم اپنا کام کرو۔ راجر بوم اور اس کے ساتھی کم از کم بلتان کی مدد کو نہ پہنچیں۔“
”ٹھیک ہے جمشید ! تم فکر نہ کرو۔“ خان عبدالرحمن کی پرسکون آواز سنائی دی۔
”تم لوگ بھی اپنے انکل کے ساتھ جاﺅ۔“
”یہ…. یہ کیسے ممکن ہے ابا جان!یہاں آپ کے اور بلتان کے دود و ہاتھ ہونے والے ہیں۔“ محمود نے پریشان ہوکر کہا۔
”اور ادھر دشمن آنے والا ہے۔ اگر آنے والوں کو نہ روکا گیا تو بلتان کی طاقت کئی گناہ بڑھ جائے گی، لہٰذا تم دشمن کی طرف توجہ دو۔ پروفیسر صاحب آپ بھی خان صاحب کی مدد کریں۔“
”ٹھیک ہے جمشید ہم چاروں پوزیشن لے لیتے ہیں، لیکن جب تک لانچیں نظر نہیں آجاتیں، اس وقت تک تو ہم رخ پھیر کر لڑائی دیکھ سکتے ہیں۔“ فاروق نے مارے بے چینی کے کہا۔
”ہاں ! اتنی اجازت ہے، لیکن تم خود لڑائی میں دخل اندازی نہیں کروگے۔ یہ مقابلہ صرف میرے اور بلتان کے درمیان ہوگاسمجھ گئے۔“
”جی ہاں ! وہ ایک ساتھ بولے۔
”چاہے میری پوزیشن کچھ بھی کیوں نہ ہوجائے۔ تم اپنی جگہ سے نہیں ہلوگے….تم نے سنا …. میں نے کیا کہا ہے۔“
”جی ….جی ہاں ۔“ وہ بولے۔
ایسے میں انہوں نے بلتان کو ہوا میں اڑ کر ان کی طرف آتے دیکھا۔
”سنبھل کر۔“ وہ چلا اٹھے۔
لیکن ان کے چیخنے سے بھی پہلے انسپکٹر جمشید ایک طرف گرکر لڑھک چکے تھے۔ گویا وہ پوری طرح ہوشیار تھے۔ ادھر بلتان اپنی جھونک میں سیدھا ایک درخت کی طرف آیا اور اگر وہ دونوں ہاتھ آگے نہ کردیتا تو بری طرح درخت سے ٹکرا گیا تھا۔ ساتھ ہی وہ ان کی طرف مڑا۔ اس کے چہرے پر حیرت نظر آئی اوریہ حیرت ضرور وار خالی جانے پر تھی۔
”ابا جان ! لانچیں نظر آرہی ہیں۔“
”بس ٹھیک ہے۔ اب تم لوگوں کی پوری توجہ حملہ آوروں کی طرف ہونی چاہیے۔ ادھر کوئی نہ دیکھے بلکہ خان عبدالرحمن تم ان لوگوں کے ساتھ کافی آگے چلے جاﺅ۔“
”لیکن جمشید….“
”خان عبدالرحمن ! یہاں کسی لیکن کی گنجائش نہیں ہے۔ سنا تم نے۔“ وہ تیز آواز میں بولے۔
”اچھی بات ہے جیسا تم کہوگے ، ہم کریں گے۔“
اور پھر وہ لڑائی کے اس مقام سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ اگر چہ ان میں سے ایک کا جی بھی آگے جانے کو نہیں چاہ رہاتھا، لیکن مجبوری تھی۔ حملہ آوروں کو نہ روکا جاتا، تو پھر وہ سب کے سب مارے جاتے۔
”آﺅ بھئی رک کیوں گئے ۔“ انسپکٹر جمشید دونوں بازو پھیلاتے ہوئے بولے۔
”آرہا ہوں لوسنبھالو میرا وار۔“ یہ کہتے ہوئے بلتان پرسکون انداز میں ان کی طرف قدم اٹھانے لگا۔ انسپکٹر جمشید اس پر نظر جمائے اپنی جگہ کھڑے رہے۔پھر جونہی وہ نزدیک پہنچا تو یک دم اونچا اُچھلا۔ اس کے دونوں پاﺅں ان کے سینے کی طر ف آتے نظر آئے۔ وہ فوراً ترچھے ہوگئے اور ساتھ ہی دو ہتڑ چلادیا ۔ ان کے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر لگے اور وہ اوندھے منہ گرا۔
”دو وار خالی ہوچکے ہیں۔ بس ایک کی اور مہلت دوں گا۔ تاکہ تم یہ نہ کہومیں نے مقابلہ نہیں کیا۔“
”ٹھیک ہے میرا بھی تیسرا وار فیصلہ کن ہوگا۔ اگر میں اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکا، تو اپنی ہار مان لوں گا۔“
یہ کہتے ہی وہ زمین پر گرگیا اور بلا کی رفتار سے ان کی طرف آیا۔ نزدیک آتے ہی اس نے ایک ہاتھ زمین پر رکھا اور پورا جسم گھمادیا۔ انسپکٹر جمشید اس کے اس وار سے بچنے کے لیے اوپر اُچھل گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح اس کا جسم نیچے سے نکل جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ اس کے دونوں پیرا ِن کی پنڈلیو ں سے ٹکراگئے۔ انہیں یوں جیسے ان کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔ وہ بے دم سے ہوکر زمین پر اوندھے منہ گرے۔
”انسپکٹر جمشید آپ تو گئے کام سے۔ اب آپ کے باقی ساتھیوں کو ٹھکانے لگانا میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا۔“بلتان ہنسا۔
”گویا…. گویا تم مجھے موقع نہیں دوگے جب کہ میں نے تمہیں تین مواقع دیے ہیں۔ جب تم درخت سے ٹکرائے تھے اس وقت میں چاہتا تو ایک ہی وار میں تمہارا کام تمام کرسکتا تھا۔ پھر دوسرے وار کے بعد بھی میرے پا س حملہ کرنے کا وقت تھا اور تیسرا وار تمہارا کارگر رہا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ تم بھی مجھے تین مواقع دو۔“
”نہیں ! میں ایسا نہیں کروں گا۔ اس حالت میں آپ کی گردن مروڑ دینا میرے لیے آسان ہے۔“
یہ کہتے ہوئے وہ ان کی طرف بڑھا۔ اس کے دونوں ہاتھ ان کی گردن کی طرف آئے۔ انہوںنے اپنی قوت کو جمع کیا اور دائیں ہاتھ کو گھمادیا۔ وہ اس وقت تک پوری طرح ان پر جھک چکا تھا۔ دائیں ہاتھ کا مکا اس کے چہرے پر پوری قوت سے لگا۔ اس کے منہ سے ایک دل دو زچیخ نکل گئی۔وہ بری طرح لڑکھڑایا اور دھڑام سے گرا۔ ساتھ ہی انسپکٹر جمشید اس پر جا پڑے اور اس کی گردن بازو کی گرفت میں لے لی۔ بالکل ایسی طرح جیسے وہ پہلی با رقابو میں آیا تھا۔
”بلتان! اب کیا کہتے ہو؟“
اس کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے اس کی گردن کو جھٹکا دیا۔ اس کے منہ سے آخری چیخ نکلی اور وہ ساکت ہوگیا۔ وہ اسے اسی طرح پکڑے بیٹھے رہے کہ کہیں مکر نہ کررہا ہو اور زندہ نہ ہو، لیکن اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی۔ آخر اس کی موت کا یقین ہوجانے پر وہ اسے چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ایک نظر اس کے بے جان جسم پر ڈالی۔ اس کی کھلی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
وہ مڑے اور اپنے ساتھیوں کی طرف چل پڑے۔ دور سے انہیں لانچیں صاف نظر آئیں۔ اپنے ساتھیوں کے نزدیک پہنچ کر انہوں نے ایک درخت کی اوٹ لے لی کہ کہیں ان کے ساتھی انہیں دشمن خیال کرتے ہوئے فائر نہ کردیں۔ پھر وہ پرسکون آواز میں بولے۔
” میں بھی اب تمہارے ساتھ موجود ہوں۔“
”بلتان کا کیا بنا؟“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”اللہ کی مہربانی سے مارا گیا۔“
”یا اللہ تیرا شکر ہے۔“
آخر لانچیں ساحل سے آلگیں ۔ بلتان کے ماتحت ساحل پر اترنے لگے۔ پھر بے فکری سے آگے بڑھنے لگے کیونکہ انہیں تو یہی معلوم تھا کہ ان کا راستہ صاف ہے جونہی وہ زد میں آئے۔ انہوں نے فائر کھول دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاک اور خون میں تڑپتے نظر آئے۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکا۔
دو گھنٹے بعد پولیس کی لانچیں جزیرے کو گھیر چکی تھیں او ر وہ ایک لانچ پر ساحل کا رخ کررہے تھے۔
”اللہ کا شکر ہے ایک سازشی سے تو نجات ملی۔“ محمود کی آواز سنائی دی۔
”لیکن ہمارے ملک میں ایسے سازشیوں اور غداروں کی کیا کمی ہے۔ جلد ہی کسی اور سے ملاقات ہوجائے گی۔“ فاروق نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔
٭….٭….٭
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے