کراچی کی گلیوں میں خوف اور دہشت کا راج تھا، اور ان گلیوں کا بادشاہ کاشف تھا۔ ایک ایسا گینگسٹر جس کا نام سن کر بڑے بڑے لوگ کانپ اٹھتے تھے۔ کاشف کے ارد گرد ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس لوگ ہوتے اور اس کی ہر بات قانون بن جاتی تھی۔ مگر اس خوفناک زندگی کے باوجود، کاشف کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی رہتی تھی۔ وہ اکثر رات کے وقت چھت پر کھڑا ہو کر سوچتا کہ کیا اس کی زندگی صرف یہی ہے؟ کیا وہ ہمیشہ ایسے ہی گناہوں کی دنیا میں جیتا رہے گا؟ لیکن ان سوالوں کا جواب اسے کبھی نہیں ملتا تھا۔
ایک دن کاشف اپنی چھوٹی بہن کے اسکول گیا۔ وہ اپنی بہن سے بےحد محبت کرتا تھا اور اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا۔ اسکول کے ایک کونے میں اسے ایک لڑکی نظر آئی۔ یہ رمشہ تھی، اسکول کی ٹیچر۔ رمشہ کے چہرے پر ایک عجیب سی معصومیت تھی۔ اس کی ہنسی میں ایک ایسا سکون تھا جو کاشف نے اپنی پوری زندگی میں کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ بچوں کے ساتھ نہایت محبت سے بات کر رہی تھی، اور اس کے انداز میں ایک خاص کشش تھی۔ کاشف، جو ہمیشہ اپنی دنیا کے مسائل میں گھرا رہتا تھا، پہلی بار رمشہ کو دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔
کاشف نے اسکول آنا شروع کر دیا، پہلے بہانے سے اور پھر کھلے عام۔ رمشہ نے اسے دیکھا اور سوچا کہ یہ آدمی یہاں کیوں آتا ہے؟ وہ اپنی بہن کا خیال رکھنے والا بھائی لگتا تھا، لیکن اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو رمشہ کو پریشان کرتا تھا۔ ایک دن، کاشف نے ہمت کر کے رمشہ سے بات کی۔ وہ سیدھا اس کے پاس گیا اور کہا، "میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔" رمشہ حیران ہوئی لیکن اس نے سکون سے کہا، "کہیے، کیا بات ہے؟" کاشف نے تھوڑی جھجک کے ساتھ کہا، "میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔" رمشہ کا چہرہ سرخ ہو گیا، لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے کہا، "کاشف صاحب، آپ ایک اچھے انسان لگتے ہیں، لیکن میں آپ کی زندگی کے بارے میں جانتی ہوں۔ آپ کو اپنے راستے بدلنے ہوں گے اگر آپ واقعی مجھ سے محبت کرتے ہیں۔"
کاشف کو یہ سن کر جھٹکا لگا۔ اس کی دنیا میں، محبت کے لیے زندگی بدلنے کی شرط کبھی نہیں رکھی گئی تھی۔ لیکن رمشہ کی باتوں نے اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی بدل دے گا۔ کاشف نے گینگ سے دور ہونے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے معمولی نوکری کرنی شروع کی اور اپنی بہن کے لیے زیادہ وقت نکالنے لگا۔ لیکن یہ سب آسان نہیں تھا۔ گینگ کے لوگوں کو محسوس ہونے لگا کہ کاشف ان سے دور ہو رہا ہے۔ خاص طور پر فہد، جو کاشف کا قریبی ساتھی تھا، اس بات سے ناراض تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر کاشف گینگ چھوڑ دے گا، تو سب کچھ برباد ہو جائے گا۔
فہد نے کاشف کے خلاف سازش کی۔ ایک قتل کی منصوبہ بندی کی گئی، اور سارا الزام کاشف پر ڈال دیا گیا۔ پولیس نے کاشف کو اس کے گھر سے گرفتار کر لیا۔ اس وقت کاشف رمشہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اپنی زندگی کے نئے خوابوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوتے وقت کاشف نے رمشہ سے کہا، "میں بےقصور ہوں، لیکن مجھے پتا ہے کہ یہ سب کچھ آسان نہیں ہوگا۔ رمشہ، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس آؤں گا۔ تم میرا انتظار کرنا۔"
رمشہ کے لیے یہ وقت بہت مشکل تھا۔ وہ جانتی تھی کہ کاشف کو بےقصور ہونے کے باوجود جیل میں دس سال کی سزا ہوئی ہے۔ لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ وہ ہر ہفتے کاشف کو خط لکھتی اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتی۔ دوسری طرف، جیل میں کاشف نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دن رات اپنی اصلاح کرنے میں لگا رہا۔ اس نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی، اپنی غلطیوں پر غور کیا، اور خدا سے معافی مانگی۔ محبت کی اس قید نے
دس سال کاشف کے لیے ایک طویل وقت تھا، لیکن رمشہ نے اپنے وعدے کو نبھایا۔ جب کاشف جیل سے رہا ہوا، تو رمشہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بے اختیار رو پڑے۔ کاشف نے رمشہ سے کہا، "میں نے تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کیا۔ آج میں وہی کاشف ہوں، لیکن ایک بہتر انسان۔" رمشہ نے اسے تسلی دی اور کہا، "ہماری زندگی اب ایک نئی شروعات ہوگی۔"
کاشف اور رمشہ نے شادی کر لی، لیکن کاشف کے دل میں ایک بات باقی تھی۔ فہد اب بھی گینگ چلا رہا تھا اور شہر کے نوجوانوں کی زندگی خراب کر رہا تھا۔ کاشف نے رمشہ سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی پرانی زندگی میں واپس نہیں جائے گا، لیکن وہ فہد کو روکنے کے لیے کچھ کرے گا۔ کاشف نے پولیس کے ساتھ مل کر فہد کے گینگ کو ختم کیا اور شہر کے لوگوں کو ایک نئی امید دی۔
اب کاشف اور رمشہ ایک خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ کاشف نے ایک بحالی مرکز قائم کیا جہاں وہ نوجوانوں کو زندگی کے بہتر راستے دکھاتا ہے۔ رمشہ اس کے ساتھ کھڑی ہے، اور دونوں اپنی زندگی کو ایک مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ
محبت اور صبر کے ذریعے زندگی کیسے بدلی جا سکتی ہے۔
0 تبصرے