بازار میں آپ جب بھی جاتے ہیں وہاں ملنے والی سب سے اچھی چیز ہی خریدنا چاہتے ہیں- سب سے پسندیدہ چیز ہی پانا چاہتے ہیں- تم خوش قسمت ہو، تمہیں کسی بازار میں جانا نہیں پڑا مگر پھر بھی تمھارے پاس سب سے بہتر چیز ہے- اسلام تمہارا مذہب، تمہارا دین -- حضرت محمد صلى الله عليه وسلم تمھارے پیغمبر اور الله تمہارا رب اکیلا، واحد اور اب تم بہترین چیز چھوڑ کر ----------" حدید نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی تھی
"کرسٹینا! مذہب بازار میں رکھی ہوئی کوئی چیز نہیں ہوتا- مذہب سکون دیتا ہے، اطمینان دیتا ہے- اگر کوئی مذہب یہ چیز نہیں کر پاتا تو اسے کیوں چھوڑا نہ جائے، دوسرا مذہب کیوں نہ اختیار کیا جائے؟ یہ سارے مذہب خدا کے بنائے ہوئے ہیں، ہر ایک الله کی تلاش ہی کرواتا ہے- اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں مسلم رہوں یا کرسچن بن جاؤں یا پھر کوئی تیسرا مذہب اختیار کر لوں-"
"فرق پڑتا ہے حدید بہت فرق پڑتا ہے- تم محمد صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر عیسٰی کے Follower (پیروکار) بننا چاہتے ہو- تم خدا کی واحدنیت کو چھوڑ کر Trinity پر ایمان لانا چاہتے ہو، تم ہر چیز replace کرنا چاہتے ہو ----- ہر چیز پیغمبر، دین، خدا ----- تم سب کچھ غلط کرنا چاہتے ہو سب کچھ غلط کر رہے ہو-
مجھے صرف یہ بتاؤ کہ محمد صلى الله عليه وسلم کا نام نہیں لو گے تو زندہ کیسے رہو گے- تم ان کے بارے میں سوچو گے نہیں تو سانس کیسے لو گے- تم ان کی جگہ کسی دوسرے کو کیسے دے دو گے- چرچ کے اوپر لگا ہوا وہ کراس نظر آ رہا ہے تمہیں؟ تمہیں پتا ہے وہ کیا ظاہر کر رہا ہے؟ اگلی بار جب تم اپنے سینے پر کراس بناؤ گے تو پتا ہے تم کیا کر رہے ہو گے- تم الله کا نام لے رہے ہو گے؟ تم اس کو یاد کرو گے؟ نہیں حدید! تم جسے یاد کرو گے وہ خدا نہیں ہو گا، خدا تو واحد ہوتا ہے، ایک ہوتا ہے، یکتا ہوتا ہے-"
کرسٹینا نے بلند آواز میں بات کرتے کرتے اپنا ہاتھ اٹھایا اور حدید کے سینے پر ہولی کراس بنایا تھا- "تم کہو گے... Father son and the holy spirit
"کیا تم جانتے ہو تم کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہاری فیملی جانتی ہے تم کیا کر رہے ہو؟"
وہ ابھی خاموش ہونا نہیں چاہتی تھی، وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی- بہت کچھ بتانا چاہتی تھی- مگر اسے یک دم چپ ہونا پڑا تھا- وہ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے اس کی باتیں سنتے سنتے یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا- بالکل بچوں کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے کو چھپائے وہ اپنے گھٹنوں پر جھک گیا تھا-
"تم نہیں سمجھ سکتیں کہ میں کن حالات میں ہوں، کوئی نہیں سمجھ سکتا- تم سب ایک جیسے ہو صرف condemn کر سکتے ہو صرف ریمارکس دے سکتے ہو، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں.... کبھی بھی کچھ بھی نہیں-"
وہ روتے ہوئے بلند آواز میں کہ رہا تھا- اس نے زندگی میں کسی مرد کو روتے نہیں دیکھا تھا اور اس طرح بچوں کی طرح بلند آواز میں رونا وہ نہیں جانتی تھی کسی روتے ہوئے کو کس طرح چپ کروایا جاتا ہے اور اگر رونے والا مرد ہو تو پھر.... پھر کس طرح اسے دلاسا دیا جانا چاہیے- وہ بے بسی سے اسے روتے بلکتے ہوئے دیکھتی رہی- وہ کہہ رہا تھا-
کاش میں پیدا نہ ہوتا، کاش میں مر سکتا-
ایک سرد لہر اس کے وجود سے گزر گئی تھی، کرسٹینا کو کوئی یاد آیا تھا-
کاش میں تمھارے لئے ہی ہوتی، صرف تمہارے لیے-
کسی کی آواز اس کے ذھن میں لہرائی تھی- وہ بے اختیار حدید پر جھک گئی تھی- وہ اب اس آواز اس چہرے کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی کبھی بھی-
"حدید پلیز، مت روؤ -"
اس نے ایک ہاتھ اس کی پشت پر پھیلا دیا تھا- دوسرے ہاتھ سے وہ اس کا سر سہلانے لگی تھی بالکل بچے کی طرح، وہ چپ نہیں ہوا تھا- وہ روتا رہا تھا- بلک بلک کر یوں جیسے وہ زندگی میں پہلی بار رو رہا تھا-
کرسٹینا کو پتا نہیں چلا وہ کتنی دیر اس کے پاس بیٹھی اس کر سر سہلاتی رہی تھی- پھر آھستہ آھستہ اس کا لرزتا ہوا وجود ساکت ہو گیا تھا اور پھر وہ یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا-
کرسٹینا نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹشو سے اس کے بھیگے ہوئے چہرے کو خشک کرنا چاہا تھا- ٹشو گال پر لگتے ہی حدید نے اس کے ہاتھ سے ٹشو لے لیا تھا- اس سے نظریں ملائے بغیر اس نے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں- کرسٹینا نے دیکھا تھا اس کے ہاتھ میں لرزش تھی-
"میں تمہیں پانی لا کر دیتی ہوں-" وہ بینچ سے اٹھنے لگی تھی اور تب حدید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا- "پلیز میرے پاس رہو- میں اس وقت اکیلا رہنا نہیں چاہتا مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے-"
اس کی آواز میں بھی لرزش تھی- کرسٹینا رک گئی تھی- حدید نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا، بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں- وہ بھی خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی- حدید نے اپنی گردن کو تھوڑا سا اس کی طرف موڑا تھا اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا تھا-
"کیا تمہاری فیملی جانتی ہے کہ تم مسلمان ہونا چاہتی ہو؟"
کرسٹینا کے لیے اس کا سوال غیر متوقع تھا-
"ہاں-" ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس نے نظر چراتے ہوئے اس سے کہا تھا-
"کیا انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے؟"
کرسٹینا نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا- "نہیں-"
"تم جھوٹ بول رہی ہو-" وہ اسے صرف دیکھ کر رہ گئی تھی-
"حدید! کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ تم کیوں اپنا مذہب چھوڑنا چاہتے ہو؟"
بہت نرم آواز میں اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا- کرسٹینا نے اس کے چہرے پر تھکن دیکھی تھی- حدید نے ایک بار پھر چہرے کو موڑ کر اسے دیکھا تھا اور پھر پہلے کی طرح بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں- اپنی چادر کو اس نے اپنے گرد کچھ اور لپیٹ لیا تھا- پھر اس نے حدید کے چہرے کو دیکھا تھا، وہ اسی طرح آنکھیں بند کے ہوئے تھا مگر اب وہ کچھ کہہ رہا تھا- کرسٹینا نے اس کے چہرے پر نظریں جما دی تھیں- وہ جو کہہ رہا تھا، وہ سن رہی رہی تھی-
"اگر میں یہاں نہیں آتا تو میں خود کشی کر لیتا، میں نے کبھی.." وہ کہہ رہا تھا-
"دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل عورت کوئی دوسری نہیں ہو گی-" اس نے پاپا کو چلاتے سنا تھا-
"اور تم سے زیادہ ذلیل مرد کوئی دوسرا نہیں ہو گا-" اس بار اس نے ممی کو پاپا سے بھی زیادہ بلند آواز میں دھاڑتے سنا تھا- اس کا دل چاہا تھا وہ وہاں سے بھاگ جائے اور دوبارہ کبھی وہاں نہ آئے-
"میں نے تم سے شادی کر کے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی- تم جیسی عورتیں ٹائم پاس کرنے کے لیے ٹھیک ہوتی ہیں لیکن ان کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی- کاش میں تم سے کبھی شادی نہ کرتا-"
پاپا نے کئی بار کہا جانے والا جملہ ایک بار پھر دہرایا- وہ کمرے میں جانے کے بجائے لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا تھا- کمرے میں ان دونوں کا شور زیادہ نمایاں ہوتا کیونکہ اس کا کمرہ ان کے کمرے کے قریب تھا-
"اس شادی پر تمہیں مجھ سے زیادہ پچھتاوا نہیں ہو سکتا- میرے پیرنٹس نے ٹھیک کہا تھا تمہارے پاس صرف روپیہ ہے دماغ نہیں- تمہارا دل اور دماغ دونوں تنگ تھے اور تنگ ہیں- تم لوگ نہ خود خوش رہ سکتے ہو نہ دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہو- اصل میں تم جیلس ہوتے ہو کیونکہ اس شہر، اس ملک میں مجھے جاننے والے لوگ تمہارے جاننے والوں سے زیادہ ہیں-"
"جاننے والے یا چاہنے والے؟" حدید نے سر اٹھا کر کچن کے دروازے کو دیکھا تھا- وہاں ملازم کام میں مصروف تھے، اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ وہ کس حد تک باتیں سن سکتے تھے- اس کے والدین کی آوازیں یقیناً کچن تک جا رہی تھیں مگر ملازمین کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے- وہ حسب معمول کچن میں ادھر ادھر پھر کر معمول کا کام نپٹانے میں مصروف تھے- ان کے لیے یہ آوازیں نئی نہیں تھیں- حدید کی طرح وہ بھی یہ سب کچھ کئی سالوں سے سنتے آ رہے تھے-
"ٹھیک ہے چاہنے والے ہی سمجھ لو- تم جیسی تھرڈ کلاس ذہنیت رکھنے والے انسان سے کسی اچھی بات کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے-"
"یہ سب کچھ جو آج تمہارے پاس ہے یہ اسی تھرڈ کلاس ذہنیت والے آدمی کی وجہ سے ہے-"
"تم نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا، جو تم نے مجھے دیا وہ ہر شوہر بیوی کو دیتا ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ دیتا ہے جتنا تم نے مجھے دیا-"
"آئی وش میں نے تمہیں کچھ نہ دیا ہوتا، میں نے تمہیں گھر کے ایک کمرے میں بند رکھا ہوتا تمہیں کبھی باہر نہ جانے دیا ہوتا-" اس نے پاپا کی بات پر ممی کا ایک طنزیہ قہقہ سنا تھا
تم بیسویں صدی میں رہتے ہو بلال علی اٹھارویں صدی میں نہیں- تم مجھے قید کیسے کر سکتے تھے- میرے جیسی عورت کو ایک کمرے میں بند کر کے کیسے رکھ سکتے تھے- تم جانتے ہو جس سوسائٹی میں ہم موو کرتے ہیں وہاں تم زرشی کے حوالے سے جانے جاتے ہو تمہاری اپنی کوئی پہچان نہیں ہے وہاں، میری وجہ سے تم کروڑوں کے کنٹریکٹ حاصل......"
اس نے پاپا کو ممی کی بات کاٹ کر چلاتے سنا تھا-
"میں تمہاری وجہ سے کچھ حاصل نہیں کرتا- تمھارے حوالے سے صرف بدنامی اور رسوائی ملتی ہے مجھے، تمہاری آوارگی کی وجہ سے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہوں میں، میں تمھارے حوالے سے پہچانا جانا نہیں چاہتا، تم عذاب بن گئی ہو میری زندگی کے لیے-
حدید کاچہرہ سفید ہوتا جا رہا تھا- کچھ بھی نیا نہیں تھا پھر بھی ہر بار ان لفظوں کی اذیت پہلے سے زیادہ ہوتی تھی-
"میں آوارہ ہوں تم کیا ہو- تمھارے کارنامے گنوانے بیٹھوں تو صبح ہو جائے گی- دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو تم کیا ہو، تم کیا سمجھتے ہو تمہاری سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، سب جانتی ہوں بلال علی سب کچھ جانتی ہوں- تم جس بزنس ٹور کے لیے اپنی سیکرٹری کے ساتھ مری گئے ہوئے تھے میں اس سے بھی واقف ہوں-"
"ہاں گیا تھا لیلیٰ کے ساتھ مری پھر تمہیں کیا تکلیف ہے- ایک بار نہیں دس بار جاؤں گا- خود تم کون سی پارسا ہو، وہ آج کل نیا ماڈل جو ہر وقت ساتھ لیے پھرتی ہو، جانتا ہوں- اس کے ساتھ تمھارے کیسے تعلقات ہیں-"
حدید اپنا سر بے بسی سے ہاتھوں میں لے کر بیٹھ گیا تھا- یہ سب روز نہیں ہوتا تھا کیونکہ ممی اور پاپا کا سامنا روز نہیں ہوتا تھا- وہ کئی کئی دن کے بعد ملا کرتے تھے- کبھی پاپا اپنے بزنس ٹور پر گئے ہوتے اور کبھی ممی اپنے فیشن شوز کے سلسلے میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتیں لیکن جب بھی ان دونوں کا سامنا گھر پر ہوتا تھا وہ یہی سب کچھ کہا اور کیا کرتے تھے- ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایکدوسرے سے نفرت کا اظہر، ایک دوسرے کی خامیوں کو اچھالنا، چیخنا چلانا، گالیاں دینا، برتن توڑنا یا ہر وہ چیز جو ان دونوں کے ہاتھ میں آ جاتی وہ توڑ دیتے- وہ بچپن سے یہی سب کچھ دیکھتا آ رہا تھا- بچپن میں وہ بہت سی باتوں کو زیادہ گہری سے نہیں سمجھتا تھا- والدین کے درمیان ہونے والے ہر جھگڑے کے بعد وہ الله سے دعا کرتا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے- ان دونوں کے درمیان صلح ہو جائے اور ناراضگی ختم ہو جائے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اور اگر ایسا کبھی ایسا ہوا بھی تو صرف وقتی طور پر-
اس کی ممی شادی سے پہلے ایک ماڈل گرل تھیں شادی کے کچھ عرصہ بعد تک وہ ماڈلنگ کرتی رہیں، پھر حدید کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے ماڈلنگ چھوڑ کر کپڑوں کی ڈیزائننگ کا کام شروع کر دیا- اس کے پاپا ایک مشور بزنس مین تھے- ممی کو انھوں نے ایک کیٹ واک میں ہی دیکھا تھا- اس وقت وہ لندن میں تھیں اور بلال علی بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں تھے- کیٹ واک کے بعد دونوں میں ایک مختصر ملاقات ہوئی تھی، پھر یہ مختصر ملاقات لمبی ملاقاتوں کی بنیاد بن گئی تھی-
ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر بلال علی نے باقاعدہ طور پر زرشی کو پرپوز کر دیا- زرشی کے والدین نے کچھ اعتراضات اٹھائے تھے کیونکہ وہ زرشی کو پاکستان میں سیٹل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور بلال علی کو پاکستان ہی آنا تھا کیونکہ یہاں ان کی فیکٹریز تھیں، زرشی نے اپنے والدین کے اعتراضات اور ناپسندیدگی کے باوجود بلال علی سے شادی کر لی تھی کیونکہ اس وقت ان کے سر پر بلال علی کے عشق کا جنون سوار تھا-
مگر بعد میں جب وہ باقاعدہ طور پر انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان رہنے لگیں تو انھیں احساس ہونے لگا کہ بلال علی ایک بہت ہی کنزرویٹو آدمی تھے کم از کم بیوی کے معاملے میں جبکہ بلال علی کا خیال تھا کہ اس نے زرشی کو جتنی آزادی دے رکھی ہے اتنی آزادی اس خاندان کی کسی دوسری عورت کو حاصل نہیں تھی اور یہ خیال بڑی حد تک ٹھیک تھا-
زرشی شادی کے بعد بھی کچھ عرصہ تک ماڈلنگ کرتی رہی، بلال علی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا- حدید کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی مگر وہ گھر بیٹھنے والی عورت نہیں تھی-
اس نے باقاعدہ طور پر کپڑوں کی ڈیزائننگ شروع کر دی تھی- شروع میں بلال علی نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی اسے سپورٹ کیا تھا مگر آھستہ آھستہ جب ان کی مصروفیات میں اضافہ ہونے لگا تو انھیں اعتراض ہونے لگا تھا- وہ رات گئے تک مختلف پارٹیز میں رہتی اور حدید کو گورنس پاس چوڑے رکھتی- بات اگر صرف حدید اور گھر کو نظر انداز کرنے کی ہوتی تو شاید بلال علی برداشت کر لیتے مگر زرشی نے بہت سے بوائے فرینڈز بھی بنا لئے تھے- وہ سارے ماڈلز جو اس کے کپڑوں کے لیے ماڈلنگ کرتے تھے کھلے عام اس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے تھے- وہ خود بھی گھر پر وقت گزارنے کے بجائے ان لوگوں کے ساتھ خوش رہتی- آھستہ آھستہ اس کے اور بلال علی کے اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگے تھے پھر گھر میں جھگڑے شروع ہو گئے تھے-
بلال علی خود بھی زیادہ پارسا بندہ نہیں تھا اور یہ بات زرشی اچھی طرح جانتی تھی اور اس کمزوری کو وہ ہر جھگڑے میں طعنہ دیا کرتی تھی- بلال علی اگر اس کے افیئرز اور اسکینڈلز کی بات کرتے تو وہ ان کے افیئرز کی تعداد گنوانے لگتی-
وہ زندگی کو اس طریقے سے گزرنا چاہتی تھی جس طرح انگلینڈ میں گزارا کرتی تھی کسی روک ٹوک کے بغیر، اپنی مرضی سے اور بلال علی اس کے راستے میں جیسے ایک بڑی رکاوٹ بن گئے تھے-
دوسری طرف بلال علی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی حماقت کا پچھتاوا پہلے سے بھی شدید ہوتا- وہ حدید کے لئے اس کے ساتھ گزارا کر رہے تھے اور اس کے لیے بھی انھوں نے حق مہر میں اسے اپنی جائیداد اور فیکٹری کے شیئرز کا ایک بڑا حصہ دے دیا تھا- اب اگر وہ اسے طلاق دے دیتے تو انھیں مالی طور پر کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا اور یہ وہ نہیں چاہتے تھے-
انھوں نے زرشی کی طرح گھر سے باہر بہت سی سرگرمیاں تلاش کر لی تھیں- وہ دونوں کسی نہ کسی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اپنی اس کوشش میں انھوں نے جس چیز کو بھلا دیا تھا وہ حدید تھا- پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ہی زرشی اور بلال علی نے یہ گورنس بدل کر ایک اور گورنس رکھ دی تھی اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک اولیول کے بعد وہ باہر نہیں چلا گیا-
گورنس کو بار بار بدلنے سےیہ ہوا کہ وہ کسی کے ساتھ بھی مانوس نہیں ہو پایا اور اس کی زندگی میں رشتوں کی کمی اس کے لئے بڑا عذاب بن گئی تھی- زرشی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور بلال علی کی صرف دو بہنیں تھیں جو دوسرے شہروں میں سیٹل تھیں- نتیجہ یہ ہوا کہ حدید بیرونی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گیا تھا-
ایک دفعہ اسکول سے گھر آنے کے بعد وہ سارا دن گھر پر ہی رہتا- ٹیوٹر سے ہوم ورک کرتا- کسی دوست سے فون پر بات کرتا- ٹی وی دیکھتا یا بلا مقصد گھر میں پھرتا رہتا- بعض دفعہ وہ کئی کئی دن ماں باپ کا چہرہ بھی نہ دیکھ پاتا کیونکہ صبح وہ جس وقت اسکول جاتا اس وقت وہ دونوں سو رہے ہوتے اور جس وقت شام کو بلال علی فیکٹری سے واپس آتے اور زرشی اپنے بوتیک سے اس وقت عموما وہ اپنے ٹیوٹر کے پاس ہوم ورک کر رہا ہوتا- جب تک وہ ہوم ورک سے فارغ ہوتا تب تک بلال علی اور زرشی دوبارہ اپنی سرگرمیوں کے لیے گھر سے جا چکے ہوتے-بعض دفعہ وہ دونوں اکھٹے چلے لیکن زیادہ تر وہ الگ الگ جایا کرتے تھے-
ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ حدید نے ناشتہ، لنچ اور رات کے کھانے پر ان دونوں کو اکھٹے دیکھا ہو- چھٹی کے دن بھی ان دونوں کی اپنی مصروفیات ہوتی تھیں- بچپن کی اس تنہائی نے اسے extrovert کی بجائے introvert بنا دیا تھا-
وہ بہت خاموش رہا کرتا تھا- ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود کسی سے لڑ نہیں سکتا تھا- بلند آوازوں سے اسے خوف آتا تھا- اس کی کمپنی بھی شروع سے ہی محدود تھی اور وہ دوست بھی اس کے گھر ہونے والی کسی بات سے آگاہ نہیں تھے- حدید کو خوف آتا تھا کہ اگر وہ ان کے ساتھ کچھ شیئر کرے گا تو وہ اس کا مذاق اڑائیں گے صرف اس کا ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ کا بھی اور وہ یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا- اسی لیے اس نے کبھی اپنے فرینڈز سے ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کا ذکر نہیں کیا تھا-
آھستہ آھستہ ہی سہی لیکن وہ گھر کے ماحول کا عادی ہو گیا تھا- پہلے کی طرح اب اسے بات بات پر ماں باپ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی- اس نے ہر چیز ان کا بغیر کرنا سیکھ لیا تھا- ہاں مگر بعض دفعہ وہ یہ ضرور سوچتا کہ اس کے ماں باپ اس کے بغیر بھی گزارا کر رہے ہیں پھر انھوں نے اسے پیدا کرنے کی حماقت کیوں کی اور اس وقت اسے اپنا وجود سب سے بے وقعت لگتا-
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں سمجھ آنے لگی تھیں- بعض ایسی حقیقتیں اور سچائیاں بھی جنھیں پہلے اس کا دماغ سمجھنے سے قاصر تھا- اسے مذہب سے کوئی للگاؤ نہیں تھا کیونکہ جس ماحول میں وہ رہتا تھا وہاں مذہب ایک دقیانوسی چیز سمجھی جاتی تھی- بلال علی اور زرشی دونوں بہت لبرل تھے شاید یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ وہ دونوں صرف نام کی حد تک مسلمان تھے- وہ دونوں اپنے اصولوں اور خواہشات کے مطابق اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور جس سوسائٹی میں وہ رہتے تھے، وہاں کبھی بھی کسی کو خدا کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی- وہاں کام نکلاوانے کے لیے یا تو روپے کی ضرورت ہوتی تھی یا تعلقات کی اور یہ دونوں چیزیں لوگوں کو زمین پر مل ہی جاتی تھیں- اس لئے کسی کو خدا کے سامنے گڑگڑانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی-
بلال علی اور زرشی نے یہی "مذھبی آزادی" حدید کو بھی دی تھی- بچپن میں اسے ایک مولوی صاحب نے گھر آ کر قران پاک پڑھا دیا تھا، تب اس کی عمر نو سال تھی- بلال علی کا خیال تھا انھوں نے مذہب سے متعلق اپنے سارے فرائض ادا کر دیے تھے- حدید نے کبھی بھی نماز پڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی مگر ہر بار جب اس کے امتحانات ہو رہے ہوتے یا جب زرشی اور بلال علی میں بہت زیادہ جھگڑا ہوتا تو وہ لاشعوری طور پر خدا سے سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی دعا ضرور کرتا مگر کبھی بھی اسے یہ نہیں لگا تھا کہ اس کی دعا قبول ہوئی تھی- بلال علی اور زرشی کے جھگڑے ہمیشہ اسی رفتار کے ساتھ ہوتے رہے تھے اور امتحان میں وہ ہمیشہ دوسری یا تیسری پوزیشن ہی لے پاتا- پہلی پوزیشن صرف ایک خواب ہی رہی تھی- مگر وہ پھر بھی اکثر خدا سے دعا ضرور منگا کرتا تھا- خاص طور پر تب جب وہ بہت تنہائی محسوس کر رہا ہوتا-
او لیولز میں پہنچنے تک وہ بہت میچور اور سنجیدہ ہو چکا تھا اور او لیولز کے دوران ہی اس کی زندگی میں بھی ایک بہت بڑی تبدیلی آئی تھی-
اس رات وہ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں گیا تھا جب ملازم اس کے پیچھے ہی آ گیا تھا-
"آپ کا فون ہے-"
اس نے حدید کو اطلاع دی تھی- حدید باہر لاؤنج میں آ گیا تھا- اس کے دوست اکثر اسی وقت فون کیا کرتے تھے- اس رات بھی اس نے یہی سوچ کر فون اٹھایا تھا کہ اس کے کسی دوست نے اسے رنگ کیا ہو گا مگر رسیور سے آنے والی آواز سن کر اسے جھٹکا لگا تھا، وہ کوئی لڑکی تھی
0 تبصرے