حاصل (عمیرہ احمد) - پارٹ 4

urdu stories online

حدید تم ان سب باتوں کو ذہن پر سوار مت کرو، تم بس اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو- تم واپس انگلینڈ جا کر اے لیولز کے پیپرز دو- اپنے پیرنٹس کے بارے میں تم کچھ نہیں کر سکتے-" ٹینا نے بڑی لاپرواہی سے اسے سمجھایا تھا-
"ٹینا! میں کسی چیز پر ذہن مرکوز نہیں کر پا رہا- میں ان دونوں کے لیے فکرمند ہوں- جس نے ممی پر اس بار فائرنگ کروائی ہے، وہ یہ حرکت دوبارہ بھی کر سکتا ہے- ممی کا خیال ہے کہ یہ سب پاپا نے کروایا ہے اور اب اس کا بدلہ لینا چاہتی ہیں- مجھے نہیں پتا کہ ان دونوں میں کون سچا اور جھوٹا ہے مگر وہ دونوں میرے پیرنٹس ہیں- ان کے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے- ان میں سے جس کو بھی نقصان پہنچے گا، تکلیف مجھے ہو گی-"
"میری سمجھ میں نہیں آتا حدید" تمھارے پاس اپنے ماں باپ کے علاوہ اور کوئی ٹاپک کیوں نہیں ہے- تم ہمیشہ ان ہی کے قصے لے کر بیٹھے رہتے ہو، کیا تم مجھ سے اور بات نہیں کر سکتے بلیو می-" حدید نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا- اس کے چہرے پر بیزاری نمایاں تھی-
"ٹینا! وہ میرے پیرنٹس ہیں، مجھے ان سے محبت ہے-"
حدید کو اس کے بدلے ہوئے لہجے پر حیرانی ہو رہی تھی-
-
"میں ٹھیک کہ رہی ہوں- تمہیں مجھے محبت کا جھانسا نہیں دینا چاہیے تھا- تمھارے لیے تمھارے پیرنٹس کی محبت ہی کافی ہے- تمہیں تو کسی دوسری محبت کی ضرورت ہی نہیں ہے-"
"تمہیں کیا ہو گیا ہے ٹینا؟"
"اتنے سالوں سے ہم دونوں مل رہے ہیں- اتنے سالوں میں تمھارے پاس اپنے ماں باپ کے قصے کے علاوہ اور کون سا ٹاپک ہے- ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، تمہارا خیال ہے دنیا میں ہر کوئی خوش ہے اگر کسی پر قیامتیں ٹوٹی ہیں تو وہ صرف تم ہو-"
ٹینا کی تلخی آج عروج پر پہنچی ہوئی تھی اور وہ چپ چاپ اسے دیکھتا جا رہا تھا- یقیناً وہ کسی وجہ سے پریشان ہو گی ورنہ ٹینا ایسی تو نہیں تھی- وہ خود کو تسلی دے رہا تھا- بہت دیر تک اسے جلی کٹی سنانے کے بعد شاید ٹینا کو اس کی خاموشی کا احساس ہو گیا تھا اور وہ آھستہ آھستہ ٹھنڈی ہو گئی تھی-
"آئی ایم سوری حدید" مجھے غصہ آ گیا تھا-" اس نے بلآخر اسے کہا تھا اور حدید نے خوش دلی سے اسے معاف کر دیا تھا- وہ ایک بار پھر ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے تھے-
"میں اے لیولز کرنے کے بعد واپس آ جاؤں گا- باقی تعلیم یہیں مکمل کروں گا-" ریسٹورنٹ سے نکلتے ہوئے اس نے ٹینا سے کہا تھا-
"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے-"
"نہیں، میرا دماغ خراب نہیں ہوا- شاید میرے یہاں رہنے کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں- میں ان دونوں کو اس طرح ایک دوسرے کی جان لینے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا-" وہ بہت سنجیدہ تھا-
"اور تمہارا کیریئر؟ تم نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہے؟" ٹینا ایک بار پھر تلخ ہو گئی تھی-
"میں اپنا ایم سی ایس یہاں بھی کر سکتا ہوں-"
"تم جانتے ہو، پاکستان کی ڈگری کی کیا ویلیو ہے؟"
"جانتا ہوں مگر بعض چیزیں ڈگری سے زیادہ اہم ہوتی ہیں- میں اپنے پیرنٹس کے قریب رہنا چاہتا ہوں-"
اس کا لہجہ بالکل قطعی تھا- ٹینا عجیب سے انداز سے اسے دیکھتی رہی تھی، پھر اس نے کچھ اور نہیں کہا تھا-
تین دن کے بعد وہ واپس انگلینڈ چلا گیا تھا- اے لیولز کے امتحاں میں بہت کم عرصہ تھا اور وہ بلال علی کو بتا گیا تھا کہ وہ اے لیولز کے بعد پاکستان آ جائے گا- بلال علی نے فی الحال اس سے کوئی بحث نہیں کی تھی- انہوں نے سوچا تھا کہ جب وہ اے لیولز کرے گا تو پھر وہ اس سے بات کریں گے-
اے لیولز کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا سامان پیک کر کے ہاسٹل چھوڑنے کی تیاریوں میں مصروف تھا- جب پاکستان سے زرشی کا فون آیا تھا- اس نے اس کی سیٹ بک کروا کر اسے فورا واپس آنے کے لیے کہا تھا- حدید اس کے لہجے سے کھٹکا- اس کے اصرار پر بھی زرشی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا-
"تم پاکستان آ جاؤ، پھر تم سے بات ہو گی-" وہ ایک ہی جملہ کہہ رہی تھی-
"ممی! پاپا تو ٹھیک ہیں؟" اس کے دل میں اچانک ایک خدشہ ابھرا تھا-
"ہاں، وہ ٹھیک ہیں- بس تم اگلی فلائٹ سے پاکستان آ جاؤ-" زرشی نے فون بند کر دیا تھا- حدید نے اسی وقت بلال علی کے موبائل پر کال کی تھی مگر موبائل آف تھا- اس نے وقفے وقفے سے انہیں کئی بار کال کی تھی، ہر بار موبائل آف ملا تھا- اس کے اضطراب میں اضافہ ہو چکا تھا- اس نے زرشی کو کال کی تھی-
"تمھارے پاپا کی طبیعت خراب ہے- وہ ہاسپٹل میں ہیں، اس لیے موبائل آف ہے-" زرشی نے اس کے اصرار پر بتایا تھا-
"پاپا کو کیا ہوا ہے؟"
"بلڈ پریشر کی وجہ سے ڈاکٹرز نے ایڈمٹ کیا ہے، تم فورا آ جاؤ-" انھوں نے ایک بار پھر فون بند کر دیا تھا-
جس وقت وہ لاہور ایئر پورٹ پر اترا تھا، اس وقت وہ بے حد دباؤ میں تھا- اس کی چھٹی حس اسے کسی بات سے خبردار کر رہی تھی- زرشی نے اسے ایئر پورٹ پر ریسیو کیا تھا اور گاڑی میں اس کے سارے خدشات اس وقت صحیح ثابت ہو گئے تھے-
"تمھارے پاپا پر فیکٹری سے نکلتے وقت کسی نے فائرنگ کی ہے- انہیں سینے میں دو گولیاں لگی ہیں- ان کی حالت بہت خراب ہے- ڈاکٹرز ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں-" زرشی نے گاڑی میں اسے بتانا شروع کیا تھا- وہ بہت دیر تک کچھ کہے بغیر اپنی ماں کا چہرہ دیکھتا رہا-
"یہ سب آپ نے کیا ہے، ہے نا ممی؟"
بہت دیر بعد اس نے زرشی سے کہا تھا- اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی- زرشی اس کی بات پر ہکا بکا رہ گئی تھی- چند لمحوں بعد بھرائی ہوئی آواز میں اس نے کہنا شروع کیا تھا-
"حدید! میں نہیں جانتی تھی کہ تم بھی میرے بارے میں اس طرح سوچو گے جیسے باقی سوچ رہے ہیں- میں بلال علی کی طرح ظالم اور خود غرض نہیں ہوں- تمھارے باپ نے تین ماہ پہلے مجھے بتائے بغیر دوسری شادی کر لی اور اب وہ عورت اور اس کی فیملی مجھے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں- انہوں نے ایف آئی آر میں اس فائرنگ کے لیے مجھے ذمہ دار قرار دیا ہے- تمہاری دونوں پھپھو بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں- وہ سب لوگ مجھے ہر چیز سے محروم کر دینا چاہتے ہیں- وہ مجھے بھکاری بنا دینا چاہتے ہیں-"
زرشی اب زاروقطار رو رہی تھی-
"تم میرا واحد سہارا ہو، میرا خیال تھا کہ تم مجھے سپورٹ کرو گے مگر تم بھی وہی سب کچھ کہہ رہے ہو جو وہ لوگ کہہ رہی ہیں-"
وہ اپنا سر پکڑے اس کی باتیں سن رہا تھا- باپ کے ساتھ ہونے حادثہ اگر اس کے لیے ایک شاک تھا تو باپ کی دوسری شادی اس سے بھی بڑا شاک- اور اس شادی کے لیے پاپا نے ممی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تھی- ممی نے اپنے اوپر ہونے والی فائرنگ کے بارے میں ٹھیک اندازہ لگایا تھا- یقیناً وہ پاپا نے ہی کروائی ہو گی اور اب ممی نے-
وہ آگے نہیں سوچ سکا تھا- زرشی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی سسکیوں سے رو رہی تھی-
"گاڑی کو ہاسپٹل لے چلیں-" اس نے سر اٹھا کر ڈرائیور سے کہا تھا-
آئی سی یو کے شیشے سے اس نے پٹیوں اور نلکیوں میں جکڑے ہوئے بلال علی کو دیکھا تھا- وہ دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کر سکا- اس نے اپنے باپ کو بہت سے سالوں میں کبھی اس طرح نہیں دیکھا تھا- وہ گلاس ڈور پر دونوں ہاتھ رکھے اندر دیکھتا رہا- اپنے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ پڑنے پر وہ مڑا تھا- اس کی بڑی پھپھو روتے ہوئے اس کے ساتھ لپٹ گئی تھیں-
"دیکھ لو حدید! تمہاری ماں نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا-"
اس نے انہیں کہتے سنا تھا- وہ کوئی جواب نہیں دے سکا، وہ کچھ کہنا چاہتا بھی نہیں تھا- بہت فاصلے پر اس نے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا- اس کی دوسری پھپھو، ان کے شوہر اور کچھ اور لوگ وہ سب شاید اس کے پاس آنا چاہتے تھے- وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتا تھا- بڑی پھپھو کو خود سے الگ کر کے وہ آئی سی یو کے اندر داخل ہو گیا تھا- بلال علی کے بیڈ کے پاس جا کر اس نے ان کا چہرہ دیکھا تھا- وہ respirator کے ذریعے سانس لے رہے تھے- وہ نہیں جانتا، وہ کتنی دیر ان کے پاس اسی طرح کھڑا رہا تھا- کچھ ڈاکٹرز راؤنڈ پر آئے تھے اور ان میں سے ایک نے تسلی کے کچھ کلمات کہتے ہوئے اس کی پشت تھپتھپائی تھی-
"کیا آپ ان کو بچا سکتے ہیں؟"
حدید نے خود کو کہتے سنا تھا-
"ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں، باقی الله کے ہاتھ میں ہے-"
ڈاکٹر نے ہلکی آواز میں اس سے کہا تھا- اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر کو دیکھا تھا-
"گاڈ-" اس کے ذہن میں ایک نام لہرایا تھا- "میں خدا سے دعا کروں گا کہ وہ..." وہ اپنی بات مکمل نہیں کر سکا- اس کی آواز بھرا گئی تھی-
ڈاکٹر نے ایک بار پھر اس کی پشت تھپتھپائی تھی اور اسے لے کر آئی سی یو سے باہر آ گیا تھا- وہ باہر کھڑے لوگوں کے پاس جانے کے بجائے انہیں نظر انداز کرتا ہوا ہاسپٹل کی پارکنگ میں آ گیا- زرشی گاڑی میں اس کا انتظار کر رہی تھی-
"بلال علی کیسا ہے؟" اس نے حدید کے گاڑی میں بیٹھے ہی پوچھا تھا- اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا- اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں-
گھر پہنچ کر بھی وہ خاموش ہی رہا تھا- اس نے زرشی سے کوئی بات نہیں کی تھی- زرشی بے چین ہو گئی تھی-
"ممی" میں بہت تھک گیا ہوں- مجھے کچھ دیر سونے دیں- میں ابھی کوئی بات کرنا نہیں چاہتا-"
اس نے گھر پہنچتے ہی زرشی سے کہا تھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا تھا- لیکن وہ کمرے میں جا کر سویا نہیں تھا، وہ بہت دیر تک روتا رہا تھا-
"دنیا میں کچھ چیزیں صرف خدا ہی دے سکتا ہے اور اس میں ایک میرے پاپا کی زندگی بھی ہے اور میں یہ چیز خدا سے مانگوں گا-" اس رات آٹھ بجے اپنے کمرے کے کارپٹ پر جائے نماز بچھاتے ہوئے اس نے سوچا تھا- اسے نہیں یاد اس نے زندگی میں کبھی اس طرح گڑگڑاتے ہوئے خدا سے کچھ مانگا تھا- جس طرح اس رات اس نے اپنے پاپا کی زندگی مانگی تھی-
"میں مسلمان ہوں اور میں نے زندگی میں کوئی بڑا گناہ بھی نہیں کیا اور مجھے آپ سے اور اپنے پیغمبر سے محبت بھی ہے اور میں اپنے لیے نہیں اپنے فادر کے لیے کچھ مانگ رہا ہوں- کیا اتنے حوالوں کے بعد بھی آپ مجھے اسی طرح مایوس کر دو گے جس طرح آپ مجھے بچپن سے کرتے آ رہے ہو- اگر میرے باپ کو زندگی مل جائے تو میں آپ سے کبھی بھی اپنے لئے کچھ نہیں مانگوں گا- کچھ بھی نہیں- بس میرے پاپا ٹھیک ہو جائیں- انھیں کچھ نہ ہو-"
وہ خدا کو پکارتا رہا-
وہ روتا رہا تھا، گڑگڑاتا رہا تھا- کبھی سجدے میں، کبھی ہاتھ اٹھا کر، کبھی قران پاک پڑھتے ہوئے، کبھی بچوں کی ہچکیوں سے روتے ہو۔
وہ ساری رات جاگتا رہا تھا- صبح چار بجے ہاسپٹل سے فون آیا تھا- اس نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ فون ریسیو کیا تھا- اس کا تعارف سننے کے بعد دوسری طرف سے کسی نے اطلاع دی تھی-
"آپ ہاسپٹل آ جائیں- آپ کے فادر کی ڈیتھ ہو گئی ہے-"
وہ ریسیور ہاتھ میں لیے بہت دیر تک بے حس و حرکت کھڑا رہا تھا- دوسری طرف سے فون بند کیا جا چکا تھا-
"تو خدا نے اس بار بھی میرے لئے کچھ نہیں کیا- حالانکہ میں نے اتنی دعائیں مانگی تھیں- کیا اتنی دعائیں مانگنے کے بعد بھی کوئی کسی کو اس طرح ٹھوکر مار سکتا ہے- میں نے خدا سے پاپا کی زندگی کی بھیک مانگی تھی- خدا دوسروں کو بغیر مانگے خزانے دے دیتا ہے اور مجھے.... مجھے اس نے بھیک میں بھی کچھ نہیں دیا-"
وہ بے یقینی نے عالم میں کھڑا تھا-
"میں..... میں دوبارہ کبھی اسکے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا- میں اب اس سے کچھ نہیں مانگوں گا-" اس نے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے طے کیا تھا اور فون کا ریسیور رکھ دیا-
اگلے چند دن اس کے لئے بہت سخت تھے- بلال علی کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد اس کے گھر میں زبردست جھگڑا ہوا تھا-
اس نے تدفین کے موقع پر ہی بلال علی کی دوسری بیوی کو دیکھا تھا، وہ تیس بتیس سال ایک خوبصورت لڑکی تھی اور بار بار غش کھا کے بے ہوش ہو رہی تھی- وہ حدید کی پھپھو کے ساتھ آئی تھی اور زرشی کے اصرار کے باوجود حدید نے اسے اپنے گھر آنے سے نہیں روکا تھا- اسے اس عورت کو دیکھ کر غصہ بھی نہیں آیا تھا- بلال علی کی زندگی میں اس شادی پر اس کا ردعمل شاید کچھ اور ہوتا مگر اب سب کچھ اس کے لیے بے معنی ہو چکا تھا-
سوئم والے دن بلال علی کی دوسری بیوی اور اس کے والدین نے جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا تھا اور وہ اس کام میں اکیلے نہیں تھے- حدید کی دونوں پھوپھیاں اور ان کے شوہروں نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ کیا تھا- زرشی ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے اب تک پولیس کی گرفت میں آنے سے بچی ہوئی تھی لیکن خاندان کے سب لوگ حدید کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ زرشی کو گرفتار کروا دے کیونکہ وہ سب اسے ہی بلال علی کی قاتلہ سمجھتے تھے-
انگلینڈ سے حدید کے نانا اور نانی بھی آ چکے تھے اور سوئم والے دن ان کے اور بلال علی کی دوسری بیوی اور حدید کی پھپھوؤں کے درمیان زبردست جھگڑا ہوا تھا- زرشی بلال علی کی دوسری بیوی اور اس کے والدین پر بلال علی کے قتل کا الزام عائد کر رہی تھی اور اس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی تھی اور جواباً وہ لوگ بمعہ حدید کی پھپھو کے زرشی پر یہ الزام عائد کر رہے تھے اور اسے بلال علی کی جائیداد سے دستبردار ہونے پر مجبور کر رہے تھے-
حدید عجیب کشمکش کا شکار تھا- وہ کچھ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، زرشی اپنے بے گناہ ہونے پر اصرار کر رہی تھی اور اور خود اس کا دل بھی یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایسا کام کر سکتی ہے-
بلال علی کے وکیل نے جو وصیت ان سب کی موجودگی میں پڑھ کر سنائی تھی وہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن تھی- انہوں نے اپنی جائیداد کے بہت سے حصے کر دیے تھے- کچھ جائیداد حدید کے نام تھی کچھ اپنی دوسری بیوی کے، کچھ اپنی دونوں بہنوں کے اور کچھ رقم اپنے ملازموں کے، لیکن انہوں نے زرشی کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا اسے انھوں نے اپنی جائیداد سے عاق کر دیا تھا-
انہوں نے ان چیزوں سے بھی زرشی کو محروم کرنے کو لکھا تھا جو پہلے ہی زرشی کی ملکیت میں تھیں یا ان دونوں کے نام تھیں یا پھر زرشی کے نام تھیں- قانوناً وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے لیکن وصیت میں بلال علی نے وہ تمام چیزیں اپنی دوسری بیوی کے نام کر دی تھیں-
اور یہ سب زرشی کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی تھا- اس نے اپنے وکیل سے جائیداد کے حصول کے لیے مقدمہ کرنے کے لیے کہا تھا- لیکن وصیت کا اعلان کرنے کے تیسرے دن پولیس ضمانت ختم ہونے پر انہیں گرفتار کر کے لے گئی تھی- اس کی ضمانت کی معیاد میں عدالت نے اضافہ نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے خلاف واقعات و شواہد بہت مضبوط تھے- زرشی کے ماں باپ اور حدید نے گرفتاری رکوانے اور انہیں رہا کروانے کے لئے بہت بھاگ دوڑ کی تھی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا-
پولیس نے زرشی کا ریمانڈ حاصل کر لیا تھا- بلال علی کی دوسری بیوی اور بہنیں زرشی کو سزا دلوانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی تھیں کیونکہ زرشی کے مجرم ثابت ہو جانے کی صورت میں وہ آرام سے جائیداد کے مالک بن سکتے تھے-
"میں یہاں نہیں رہ سکتی- میں یہاں مر جاؤں گی- فار گاڈ سیک حدید! مجھےیہاں سے نکال لو- کچھ بھی کرو مگر مجھے یہاں سے نکال لو-"
ہر بار ملاقات ہونے پر وہ حدید کے سامنے روتی اور گڑگڑاتی اور حدید بے بسی سے اسے تسلی دے کر آ جاتا- ان دنوں اخبار زرشی اور بلال علی کے متعلق خبروں سے بھرے ہوئے تھے- زرشی کے بارے میں ہر نئی پتا چلنے والی بات کو مرچ مسالا لگا کر چھاپا جاتا تھا- ہر روز صبح اخبار دیکھ کر حدید کا دل چاہتا وہ کسی ایسی جگہ بھاگ جائے جہاں کوئی انسان نہ ہو-
ٹینا کا رویہ بھی بہت عجیب ہو چکا تھا- وہ اس سے ملنے سے کتراتی تھی، صرف فون پر چند منٹ بات کرتی اور پھر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فون بند کر دیتی- فیکٹری بند کی جا چکی تھی کیونکہ اس کی ملکیت کے بارے میں کورٹ میں کیس چل رہا تھا- سارے لاکرز اور اکاؤنٹس بھی فریز کر دے گئے تھے- حدید نانا سے ملنے والی رقوم سے کورٹ اور گھر کے اخراجات پورے کر رہا تھا-
"یہ سب میرے ساتھ لوگ نہیں خدا کر رہا ہے-" وہ ہر نئی پریشانی پر سوچتا-
مگر اس کے لئے ابھی بہت سی مصیبتیں باقی تھیں-
چھے ماہ بعد اچانک زرشی نے اقبال جرم کر لیا تھا- حدید اس خبر پر سکتہ میں آ گیا تھا- وہ جیل میں زرشی سے ملنے گیا تھا- اس نے اس بار پہلی دفعہ حدید سے نظریں نہیں ملائی تھیں- سلاخوں کے اس پار وہ سر جھکائے بیٹھی رہی تھی- اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس سے کیا پوچھے، اس سے کیا کہے-
"آپ نے مجھ پر بہت ظلم کیا-"
بہت دیر بعد اس نے کہا تھا اور زرشی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا-
"آپ کو ان سے محبت نہیں تھی مگر وہ آپ کے شوہر تھے- آپ کو انہیں قتل کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا- مجھے یقین نہیں آتا، کیا کوئی عورت ایسی ہو سکتی ہے-"
اس نے زرشی کی آنکھوں میں پانی امڈتے دیکھا تھا-
"ہر چیز کی ابتداء اس نے کی تھی- میں نے تو بس......"
"آپ ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں تو ان سے طلاق لے لیتیں مگر آپ نے دولت کی خاطر طلاق لینے کے بجائے انہیں مار دیا- آپ نے میرے باپ کو مار دیا- اب کہاں ہے وہ دولت جس کے لئے آپ نے؟" وہ بلند آواز میں چلایا تھا-
"میں اس کو قتل نہ کرتی تو وہ مجھے قتل کر دیتا- تم جانتے ہو، اس نے مجھ پر حملہ کروایا تھا- میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے میرے لئے دوسرا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا-" وہ اب رو رہی تھی-
"اگر کبھی میں آپ کے لئے دوسرا راستہ نہیں چھوڑوں گا تو کیا آپ مجھ کو بھی قتل کروا دیں گی-" اس نے زہریلے لہجے میں پوچھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے