میری سہیلیاں اس کی تعریف کرتیں تو میرے دل میں اس کی جگہ بن جاتی۔ جب وہ مجھ سے بات کے لئے آگے قدم بڑھاتا تو میری رعونت عود کر آتی اور میں حقارت سے اس کو ٹھکرادیتی۔ اس کے چچا کا گھر ہمارے گھر کے پاس تھا، اس لئے وہ اکثر ادھر آیا کرتا تھا۔ میری آنکھوں میں حقارت اور نفرت دیکھ کر بھی اس کے دل سے میری قدر کم نہ ہوئی اور وہ بدستور مجھ کو چاہت بھری نظروں سے دیکھتارہا۔
ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ اگر تم کہو تو میں تمہارے گھر اپنے والدین کو بھیج دوں تا کہ شادی کی بات کریں لیکن میں نے اتنا کہہ کر اس کے دل کو ٹھیس پہنچائی کہ تم واقعی پاگل ہو۔ جانے ابو نے ایسا کیوں کیا۔ جب میں تم سے لگاؤ نہیں رکھتی تو بھلا شادی کیوں کروں گی؟ میں نے ابھی شادی نہیں کرنی۔ میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔وہ میری ان باتوں کا بالکل برا نہ مناتا ، بس مسکرا دیتا تھا۔ کہتا ٹھیک ہے…… جب تم کہو گی تب ہی شادی کریں گے…… میں کہتی…. یاد رکھنا جب تک میں نہ کہوں تمہارے والدین میرے گھر شادی کی تاریخ لینے نہ آئیں ورنہ بے عزت ہو کر جائیں گے۔
یہی نہیں، میں ہمیشہ اس پر طرح طرح کے الزامات لگائی کہ وہ کسی رشتے دارلڑ کی سے ملتا تو میں موقع پا کر اس کو ذلیل کرتی ۔ شاید کہ میں چاہتی تھی کہ کسی طرح ابو اس منگنی کوتوڑ دیں اور مجھ پر حرف بھی نہ آۓ۔ ایک دفعہ نجانے وہ کس حال میں تھا کہ حسب معمول ہماری گلی سے گزرا۔ اس کے ساتھ دوست بھی تھا۔ یہ لوگ آپس میں باتیں کرتے جارہے تھے۔ میں نے سوچا شاید میرے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے اس کو ذلیل کرنا شروع کر دیا لیکن آج وہ ہمیشہ کی طرح خاموش نہ رہا بلکہ غصے میں آ گیا اور مجھ کو گھورتا آگے بڑھ گیا۔ شاید کوئی نیا دوست اس کے ساتھ تھا، تب ہی وہ میری بدکلامی سے خفا ہو گیا تھا۔ میں نے دسیوں بار اس کی تذلیل کی تھی مگر وہ ہمیشہ مسکراتا ہوا گزرجاتا تھا۔ مگر آج وہ سخت برہم ہواتھا۔
ایک گھنٹے بعد وہ واپس آیا تو اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔ اس نے پاس آ کر مجھے مخاطب کیا… ماجدہ … خبردار، آج کے بعد مجھے تم یوں مخاطب نہ کرنا۔ تم نے مجھے خرید نہیں لیا ہے کہ جب چا ہوذلیل کردو۔ یہ کہ کر وہ اپنے چچا کے گھر چلا گیا اور زور سے دروازہ بند کر دیا۔
چار سال کے عرصے میں، میں نے پہلی بار ایسے الفاظ اس کے منہ سے سنے تھے۔ میرا وجود ہل گیا اور آج مجھے محسوس ہوا کہ میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ زیادتی کی ہے حالانکہ وہ میری مرضی کے بغیر کسی سے بات تک نہ کرتا تھا۔ وہ میرا حد سے زیادہ خیال کرتا تھا اور میں اس کو سزا دے رہی تھی، اس بات کی کہ وہ کسان کا بیٹا ہے۔ وہ ہمارے برابر کا نہیں پھر بھی برابری پر آنا چاہتا ہے۔ وہ میرا حد سے زیادہ کیوں خیال کرتا تھا؟ یہی اس کا جرم تھا اور میں سمجھتی تھی وہ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میری محبت پر اس لئے قربان ہونا چاہتا ہے کہ ہم سے کم تر ہے۔ اس نے مجھ سے بولنا چھوڑ دیا۔ میری طرف دیکھنا تو کجا اس نے راستہ ہی بدل لیا۔ وہ لاتعلق ہو گیا تو میرے دل کو ایک انجانی سی خلش ستانے لگی۔ میں پچھتانے لگی۔ غرور اور رعونت خاک میں مل گئی ….. جی چاہتا تھا کہ وہ ملے۔ اس سے بات کروں، اپنے پچھلے رویے کی معافی طلب کروں اور آئندہ اس کو ذلیل نہ کرنے کا عہد کروں ۔
میں نے دعا کی اور خدا نے میری دعا سن لی۔ ایک دن وہ سامنے آ گیا۔ میں نے بات کرنا چاہی وہ سمجھ گیا۔ خوش اسلوبی سے بولا کہ ماجدہ کبھی ایسے دوست ساتھ ہوتے ہیں جن کے سامنے عزت مطلوب ہوتی ہے، تم ہر وقت میری پگڑی نہ اچھالا کرو۔ آخر تمہارے اس رویے کی وجہ کیا ہے؟ کیا تم مجھے کوناپسند کرتی ہو؟ مجھ سے منگنی پر خوش نہیں ہو؟ اگر ایسی بات ہے تو میں تمہارے راستے سے ہٹ جاتا ہوں ، تم کسی بھی وقت میری طرف سے اس بندھن سے آزاد ہوسکتی ہو۔
اس نے کچھ ایسے لہجے میں یہ باتیں کہیں کہ تیر کی مانند یہ بول میرے دل میں ترازو ہو گئے۔ سوچا آخر کیوں میں اس کا دل دکھاتی ہوں ۔ کیوں ستاتی ہوں۔ اس کا کیا قصور ہے۔ واقعی وہ سچ کہ رہا تھا۔ میں نے اس کی تذلیل میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ، تاہم میں اپنے ذہن کو سمجھ نہ سکی کہ آخر ایسا میں کیوں کرتی تھی۔ وہ دور چلا جاتا تو میں بے چین ہو جاتی تھی۔ وہ پاس آتا تھا تو میرا دل بیزار ہو جاتا تھا۔اس کے لئے حقارت سے بھر جاتا تھا، گویا میں نہ اس کو چھوڑ سکتی تھی اورنہ اپنا سکتی تھی ۔ عجب احوال تھا میرا۔
اس کو برا بھلا کہ کر میں پچھتائی تو بہت مگر بس چند دن …میری رعونت اور غرور نے پھر سے دل پر قبضہ کر لیا یہ تنگ نظری حکومت کرنے گی …یہ وہ تانگ نظری تھی جو طبقاتی فرق سے جنم لیتی ہے اور نسلوں میں صدیوں تک جاری وساری رہتی ہے۔ اس دفعہ میں نے صرف اس بات پر اس سے لڑائی کر لی کہ وہ ایک دن دھوتی کرتے میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا۔ میری سہیلیوں نے اس لباس میں اس کو دیکھا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگیں۔ مجھے بہت برا لگا۔اب وہ کالج کا طالب علم تھا کم از کم اس کولباس تو پہننے کی تمیز آجانی چاہئے تھی-
میں پھر سے اس سے ناراض ہوگئی ۔ دل نے کہا چلو جان چھوٹی، یہ ہمارے قابل کہاں ہے جو ہمارے خاندان میں بطور داماد متعارف ہو۔ اس کو تو کپڑے پہنے کا سلیقہ بھی نہیں ہے۔ جب میں کافی دن اس کے سامنے نہ گئی بلکہ میں نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تو اس نے بے قرار ہو کر میری سہیلی کے ہاتھ پیغام بھیجا۔ ماجدہ سے کہو کہ کیوں خفا ہو گئی ہو، مجھ سے صلح کر لو ورنہ میں پڑھائی چھوڑ کرکھیتی باڑی شروع کر دوں گا ۔ اسے کہو کہ میرے چچا کے گھر کے سامنے آ جائے تا کہ میں اس سے بات کر سکوں ۔
ہمارے ملک کو تعلیم یافتہ سے زیادہ کھیتی باڑی کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا ایگری کلچرل نظام تباہ ہو گیا ہے۔ تعلیم یافتہ تو اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں کو فائدہ دینے چلے جاتے ہیں جبکہ ان پڑھ کسان یہیں رہ کر بیج بوتا اور فضل اگاتا ہے جس کو ہم کھاتے ہیں۔
میرا وہ یہ جواب سن کر پریشان ہو گیا ۔ میری سمبلی سے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کیوں ۔۔۔۔ ماجدہ ایسا کرتی ہے، وہ مجھ سے عجیب وغریب رویے رکھتی ہے۔ کیا اس کے باپ نے میرے ساتھ منگنی کر کے اسے کوئی سزادی ہے، شاید اس بات کی سزا کہ وہ اسکول سے آتے ہوۓ مجھ سے راستے میں رک کرباتیں کرتی تھی؟ ماجدہ اس منگنی سے خوش نہیں ہے، وہ پریشان لگتی ہے۔ کم از کم مجھ کو تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ تو پھر وہ یہ منگنی تو ڑ دے نا۔
اسے کوئی نفسیاتی الجھن ہے۔ میری سہیلی نے جواب دیا۔ بہر حال دیکھو میں اس کو سمجھاؤں گی کہ تم سے اچھا رویہ رکھے یا پھر اپنے والد کو یہ رشتہ توڑنے کا کہہ دے….. اس طرح تو زندگی نہیں گزرسکتی۔ میری سہیلی نے جیسا سنا ویسا مجھے آ کر بتایا، تو میں نے اس کو ٹالنا چاہا کہ میں فیض سے نفرت نہیں کرتی مگر اس کے لائف اسٹائل سے پریشان ہوتی ہوں، ان کے گھر والے تو اجڈ گنوارہی رہیں گے۔ یہ پڑھ لکھ گیا تو کیا ہوا۔ ان کی برادری کی وجہ سے ہماری ناک کٹ جائے گی۔
تم اپنے والد سے یہ بات کہو اور ان کو بتا دو کہ ویسے ہی اس سے کلام کیا کرتی تھی اور تمہارا اس کے ساتھ پیار ومحبت کا کوئی سلسلہ نہ تھا تا کہ ان کی غلط فہمی دور ہو اور وہ اس رشتے کوختم کر دیں۔
جانے کیا بات ہے رابو کہ میں ایسا بھی نہیں کر سکتی۔ جب سوچتی ہوں کہ فیض سے کنارہ کشی اختیار کر لوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے اور پھر یوں لگتا ہے جیسے میں اس کو چاہتی ہوں ، پسند کرتی ہوں مگر جب سامنے آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ اس سے رخ پھیرلوں، اس کو کم تر خیال کر کے اس کی تذلیل کر ڈالتی ہوں۔
رابعہ کہنے لگی۔ ماجو، تمہارا کچھ نفسیاتی مسئلہ ہے ورنہ محبت اور تزلیل ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ جذبے الگ الگ سمت میں سفر کرتے ہیں، اگر محبت ہے تو محبت ہے، اگر نہیں ہے تو نہیں ہے۔ یہ کیا کہ اس کے بغیر رہا نہیں جاتا اور اس کا ساتھ بھی گوارہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
یہ تو سمجھ میں آنی والی بات نہیں ہے بلکہ تم ایک معصوم انسان کے جذبات سے کھیل رہی ہو۔ خدانخواستہ بھی اس کو آزمانا نہیں ورنہ اس کی جان چلی جائے گی۔
رابعہ نے سچ کہا تھا کہ اس کو آزمانا نہیں اور میں نے اس کے پیارکوآزمائش میں ڈالا ۔ میں ہمیشہ اپنی سہیلی سے کہا کرتی تھی کہ وہ تو ایسے کہتا ہی رہتا ہے، کچھ کر کے دکھاتا تو ہے نہیں ۔ انہی دنوں اس کا رزلٹ آیا، وہ شاندار کامیابی سے ہم کنار ہوا تھا۔ اس کا داخلہ شہر کے میڈیکل کالج میں ہو گیا۔
وہ بہت خوش تھا۔ ابو بھی خوش ہوۓ ، وہ چاچا دین احمد کے گھر گئے مبارکباد دینے ۔ فیض کا باپ بائیس بیگھے کا مالک تھا۔ اپنی زمین سے اتنی آمدنی تھی کہ اچھا گزارہ ہورہا تھا لیکن بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کی خاطر وہ یہ زمین فروخت کر رہے تھے۔ والد صاحب نے کہا دین احمد یہ زمین تمہاری روزی کا ذریعہ ہے، اس کومت بیچو۔ میں تمہارے بیٹے کی پڑھائی کے اخراجات برداشت کروں گا لیکن انہوں نے اس پیش کش کو رد کر دیا۔ بولے …… میں خود بیٹے کی پڑھائی کے اخراجات برداشت کرلوں گا۔
فیض کی کامیابی کی خوشی میں والد صاحب نے نہر کے کنارے دعوت کا اہتمام کیا۔ عورتوں میں امی اور میری سہیلیاں بھی آئیں۔ فیض اور اس کے والدین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ تب جانے کیا مجھے سوجھی کہ میں نے اپنا دوپٹہ نہر میں پھینک دیا اور شور مچانےلگی کہ میری سہیلی کو بچاؤ اس کا پاؤں پھسل گیا ہے، وہ نہر میں گرگئی ہے ۔
عورتیں ایک طرف تھیں اور مرد دوسری طرف تھے اور سب کھانا کھا رہے تھے ۔ شور سن کر مرد اٹھ کر ہماری جانب آۓ۔ سب سے آگے فیض تھا۔ میں نے پریشانی کی ایکٹنگ کرتے ہوۓ نہر کی طرف اشارہ کیا کہ میری سہیلی کو کوئی بچاۓ۔ تب ہی فیض نے آنا فانا سوچے سمجھے بغیر نہر میں چھلانگ لگادی ۔ نہر کافی گہری تھی ، اس نے سر کے بل غوطہ لگایا تو اس کا سر پتھر ایسی کسی شے سے ٹکرایا اور وہ کافی دیر تک سطح پر نہ ابھر سکا تو دوسرے لوگوں نے بھی چھلانگیں لگا دیں۔
وہ اب دو ڈوبنے والوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ کافی دیر بعد انہوں نے فیض کو نہر سے نکالا۔ کنارے پرلٹایا مگر وہ کافی زخمی تھا۔ البتہ میری سہیلی کا جسد نہ ملا …… ہوتا تو ملتا کیونکہ میں نے تو جھوٹا واویلا کیا تھا۔ سب سہیلیاں صحیح سلامت کنارے پر موجود تھیں۔ ابو اور کچھ دوسرے لوگ فیض کو گاڑی میں ڈال کر شہر کے اسپتال لے گئے ۔
اس کی حالت خطرے سے باہر نہ تھی، بڑی مشکل سے جان بچی مگر وہ شدید زخمی ہوا تھا۔ ایک ماہ اسپتال میں رہا۔ امی ابو با قاعدگی سے اس کو دیکھنے جاتے تھے۔ میں بھی دعائیں مانگتی تھی۔ خدا کرے وہ صحت یاب ہو جاۓ ، خود کو ہر دم کوستی تھی کہ جانے کیوں میں نے ایسی حرکت کی ۔ ایسا مذاق کر ڈالا کہ اب ہاتھ مل رہی تھی۔ یہ میں نے کیا کیا اور کیوں کیا؟
میں پہلے بتا چکی ہوں کہ فیض کے چچا کا گھر ہمارے پڑوس میں تھا اور وہ ایک مربع زمین کا مالک تھا۔ جب فیض صحت یاب ہوا۔ اس کے چچانے گھر پر دعوت کا انتظام کیا اور دعا کرائی۔ وہ اپنے چچا کے گھر آیا۔ میں تو پہلے ہی اس کے آنے کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی اور جب اس نے میری چھوٹی بہن کے کہنے پر زخم دکھایا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سر کے علاوہ اس کے سینے پر گھاؤ آیا تھا۔
میں دوڑ کر وہاں سے نکلی اور اپنے گھر آ کر بہت روئی کیونکہ وہ میری حماقت کی وجہ سے زخمی ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں دوبارہ وہاں گئی تا کہ اس کو دیکھوں۔ اس وقت وہ لڑکیوں میں گھرا ہوا تھا، جو اس سے باتیں کر رہی تھیں ۔اس کی چاچا زاد بہنیں، دوسری کزنیں اور ان کی سہیلیاں ۔ یہ نظارہ دیکھ کر میں برداشت نہ کر سکی۔ مجھ کو اس کا لڑکیوں سے باتیں کرنا برا لگا…. اور جو ہمدردی کچھ دیر پہلے ابھری تھی ، وہ یک بارگی نفرت میں بدل گئی۔
وہی کیفیت پھر مجھ پر طاری ہوگئی کہ تنہائی میں اس کی کمی محسوس کرنا اور سامنے ہو تو غصہ میں آ جانا۔ اس کے برعکس وہ جب مجھ کو دیکھتا …… اس کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ۔عزت بھری نظروں سے بات کرتا۔ اس کی حالت اس مسافر کی طرح ہوتی جو پلیٹ فارم پر کھڑا گاڑی کا انتظار کرتا ہے اور گاڑی آنے پر اس میں سوار نہیں ہوتا۔ شاید جیب میں ٹکٹ نہیں ہوتا … تب ہی مسکراہٹ آمیز متلاشی نظروں سے ہر طرف دیکھتا ہے۔
میں جانتی تھی کہ اس کی منتظر اور بھی کئی لڑکیاں ہیں مگر وہ سب کو نظر انداز کر کے صرف مجھ کو تلاش کرتا۔ انہی دنوں فرحان بھی لندن سے پڑھ کر آ گیا۔ اس نے آتے ہی میرا پوچھا، پھر وہ میرے اردگرد رہنے لگا۔ اپنی ماں سے بار بار کہنے لگا، میں نے سارا لندن دیکھ ڈالا مگر اس جیسی کوئی نہیں ہے۔ میری یہی عم زاد میری منگیتر تھی اور اب یہی میری جیون ساتھی بنے گی۔
جن دنوں فرحان آیا۔ فیض اپنے میڈیکل کالج چلا گیا تھا۔ وہ پڑھائی میں مصروف تھا اور فرحان مجھ کو لبھانے میں لگا تھا کہ ماجدہ تم ہاں کر دو۔ منگنی ٹوٹ سکتی ہے۔ فیض کی اوقات ہی کیا ہے جبکہ میں تمہارا چچازاد ہوں ،تمہارامنگیتر تھا اور اب پھر سے تم کو پانے کی آرزو ہے۔ یہ کوئی دشوار بات نہیں ،بس تم ایک بار اپنے والد سے کہو کہ تم کو فیض نہیں، میں پسند ہوں اور تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو۔ میں نے فیض کو امتحان میں نہیں ڈالا تھا مگر فرحان نے مجھے امتحان میں ڈال دیا۔ اس نے اتنا میرا سر کھایا کہ آخر کار مجھے امی ابو سے کہنا ہی پڑا کہ مجھے فیض پسند نہیں ہے۔ جب میں نے کافی رونا دھونا ڈالا تو امی ابو کو میری خوشی کے لئے فیض سے رشتہ توڑنا ہی پڑا اور میری بات انہوں نے مان لی۔
فیض پر جو گزری وہی جانے مگر میں بھی کچھ نیم مردہ سی ہوگئی۔ فرحان کی خوشی پوری ہوگئی ،مگر میں جس خوشی کو پانا چاہتی تھی ، وہ مجھے نہ مل سکی۔ فرحان نے مجھے چند دن خوش رکھا، پھر وہ عیش کی دنیا میں کھو گیا۔ مجھ کو گھر میں ایک فالتو شے سمجھ کر رکھ گیا اور بھول گیا۔ وہ چھ ماہ ہی ٹھیک رہا اور دوبارہ لندن چلا گیا۔ کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لئے ۔ میری زندگی ویران کرنے آیا تھا ،سوویران کر کے چلا گیا اور میں آج بھی جانے والے کے لوٹ آنے کی آس میں جی رہی ہوں۔
میری منگنی ٹوٹی تو چچا دین احمد نے اپنی زمین فروخت کر دی اور وہ شہر چلے گئے جہاں فیض پڑھ رہا تھا۔انہوں نے گاؤں سے ناتا توڑ لیا،شاید غریب کسان لوگ ہم امیروں سے ناتا توڑ کر دنیا کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے تھے۔ فیض نے طب کی تعلیم مکمل کر لی ، اس نے بہت محنت سے پڑھا، اس کے چچانے کافی مدد کی اور وہ مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلا گیا۔ جب تعلیم مکمل کر کے لوٹا تواس نے اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کر لی۔
آج وہ ایک بڑا ڈاکٹر ہے اور شہر میں نہایت خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے جبکہ میں خانماں برباد گاؤں میں پڑی ہوں ۔ سچ ہے کہ جوہری ہی ہیرے کی قدر جانتا ہے۔ میری والد صاحب جوہری تھے مگر میں نہ تھی۔ تب ہی زمینداری کے غرور میں ایک کسان کے بیٹے کا رشتہ ٹھکرا کر میں نے اپنے جیون میں اندھیرے بھر لئے۔
👇ختم شد👇
0 تبصرے