ثروت مجھ سے بات کرتے کرتے ایک دم خاموش ہو گئی۔ اس کے خوبصورت چہرے پر سایہ سا لہرا گیا تھا۔ میں نے اپنا رخ پھیر کر اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور چونک کر رہ گیا۔ وہ چارلڑ کے اسنیک بار میں داخل ہو رہے تھے ۔ لڑکوں میں ان کا سرغنہ واجد عرف واجی بھی شامل تھا۔ وہی کم ظرف امیر زادوں والا حلیہ، لمبے چمکیلے بال، گلے میں سونے کا لاکٹ اور کھلے گریبان والی امپورٹڈ شرٹ ۔ وہ بڑی مستی سے چلتا ہوا ہمارے پاس سے گزرا۔ اس کے ساتھیوں میں سے ایک دراز قد لڑ
کا لوفر سے انڈین گانے کی دھن پر سیٹی بجا رہا تھا۔
اس کا حلیہ بھی واجی سے ملتا جلتا تھا۔ وہ چاروں ہم سے کچھ فاصلے پر ایک میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ ثروت نے خشک ہونٹوں پر
زبان پھیر کر کہا ۔ چلو آؤ تابش! چلتے ہیں ۔“ میں نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔ نہیں ۔ اس طرح اُٹھنا ٹھیک نہیں ۔ بس یہ جو دو گھونٹ چائے رہ گئی ہے، پی لو۔ پھر اُٹھتے ہیں ۔“
ثروت کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اب اسے چائے میں کوئی دلچسپی رہی ہے اور نہ مجھ سے باتیں کرنے میں ۔ اب یہاں جو بھی وقت گزرے گا ، وہ سخت تکلیف ، میں رہے گی ۔ میں نے کپ اُٹھا کر چائے کی چسکی لی تو مجھے لگا کہ ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اس لرزش کو ثروت کی
نگاہ سے چھپانے کے لیے میں نے کپ پھر نیچے رکھ دیا۔
ثروت میری منگیتر تھی ۔ وہ بی ایس سی کر رہی تھی۔ میں ایم ایس سی کے آخری سال میں تھا۔ ہم دونوں لاہور میں رہتے تھے اور رشتے دار بھی تھے ۔ واجد نامی یہ لڑکا جو ابھی اپنی ۔
ٹولی کے ساتھ اسنیک بار میں داخل ہوا، پچھلے کئی ماہ سے ثروت کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ اس
بس اسٹاپ کے گرد چکراتا رہتا جہاں سے ثروت کالج جانے کے لیے سوار ہوتی تھی۔ وہ ثروت کا محلے دار بھی تھا۔ شروع میں تو وہ اخلاق کے دائرے کے اندر ہی رہا، بس ایک دو بار اس نے ثروت کو اپنی ڈبل سائلنسر ہنڈا موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کی کوشش کی مگر جب ایک روز اس نے مجھے اور ثروت کو مال روڈ کے شیزان ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تو وہ کچھ جارحانہ موڈ میں آگیا۔ وہ اب ثروت کے کالج کے متواتر چکر بھی لگا رہا تھا اور شیزان ریسٹورنٹ میں بھی دو بار ہمارے پیچھے آیا۔
ہم نے شیزان میں ملنا چھوڑ دیا۔ پچھلی بار ہم انار کلی کے ایک اسنیک بار میں ملے تھے۔ تب تو خیریت گزری تھی لیکن آج پھر واجد اپنی چنڈال چوکڑی کے ساتھ یہاں آدھمکا تھا۔ ہم جیسے تیسے چائے ختم کر کے اُٹھنا چاہ رہے تھے۔ میں نے بیرے کو بل لانے کا اشارہ کر دیا تھا لیکن وہ ابھی کاؤنٹر پر مصروف تھا۔ واجد نے ہمیں سنانے والے انداز میں زور سے
کہا۔ "یار شکیل ! چائے پینے کے لیے تو یہ کافی سستی جگہ ہے ۔“ شکیل بولا ۔ بھئی جیب میں جتنے پیسے ہوں، ویسی ہی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے ۔
واجد نے کہا ۔ اتنا سوہنا مکھڑا ایسی جگہ پر ہو تو لگتا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا ہے
یا یہ کہہ لو کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند “ دراز قد لڑکے نے لقمہ دیا۔ اس کا نام قادر تھا۔ واجد میز پر ہلکا ہلکا طبلہ بجانے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہا تھا ۔ دل توڑنے والے
دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ... راہوں میں ... ثروت تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ چلو تابش !‘ اس نے شولڈر بیگ سنبھالتے ہوئے
کہا۔
میرا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جی چاہتا تھا کہ ان خبیثوں کے منحوس چہرے نوچ لوں ، حلیے بگاڑ دوں ان لوفروں کے لیکن۔۔۔۔۔۔
اس لیکن سے آگے کئی ایک سوالیہ نشان تھے؟ میں نے خود کو سنبھالا اور کاؤنٹر پر ہی ادائیگی کرتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ ثروت مجھ سے ایک قدم آگے تھی۔
ہمارے عقب میں کورس کی شکل میں آواز لگائی گئی ۔ واک آؤٹ ..... واک آؤٹ “
مجھے اندیشہ تھا کہ شاید یہ لوگ ہمارے پیچھے باہر آئیں گے اور سڑک پر بھی بد تمیزی کریں گے لیکن فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم اسنیک بار کے عقب میں واقع پارکنگ میں
پہنچے۔ میں اپنی سوزوکی کار کی طرف بڑھا تو پتا چلا کہ اس کے عقب میں دو عدد دیو ہیکل ہنڈا موٹر سائیکلیں پارک ہیں۔ ایک بار پھر رگوں میں لہو سنسنا کر رہ گیا۔ یہ واجی وغیرہ کی ہی شرارت تھی۔ ابھی ہم پارکنگ والے سے بات ہی کر رہے تھے کہ واجی اور اس کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے ۔
پارک لاٹ والے لڑکے نے واجی سے کہا۔ سرجی! آپ کی موٹر سائیکل ۔ انہوں نے
اپنی گاڑی نکالنی ہے۔“ او ہو ہو ہو ۔ واجی نے چونکنے کی اداکاری کی پھر شائستگی سے بولا ۔ غلطی ہو گئی۔ میں سمجھا تھا کہ یہ کار دو تین گھنٹے یہاں رُکے گی ۔ ابھی لو جی میں ہٹا لیتا ہوں موٹر سائیکل ۔
اس نے جیبیں ٹٹولیں مگر چابی نہیں ملی ۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ وہ دراز قد قادر سے مخاطب ہو کر بولا ۔ کہاں گئی یار! چابی تیرے پاس تو نہیں ہے؟“
میرے پاس تو میری چابی ہے اور بس میرے تالے میں لگتی ہے ۔“ قادر معنی خیز لہجے میں بولا ۔
یعنی تمہارا مطلب ہے کہ کچھ چابیاں ایک سے زیادہ تالوں میں لگتی ہیں ؟“ کیوں نہیں یار! ہوتی ہیں ایسی بھی ۔ یہ چابیاں رنگ برنگے تالوں میں لگتی رہتی ہیں ۔
ان کو ہر جائی چابیاں کہتے ہیں ۔“ واجد عرف واجی نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ کیوں بھرا جی ! تمہارے پاس ہے کوئی
ایسی چابی؟“
کک کیا مطلب؟“ میں نے خود کو بمشکل سنبھالا ۔
شکیل مجھے سمجھانے والے انداز میں بولا ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی شکل وصورت سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس رنگ برنگے تالوں میں لگنے والی چابی ہے۔“
یعنی ہر جائی چابی۔ قادر نے لقمہ دیا۔
تم تمیز سے بات کرو اور یہ موٹر سائیکل ، ہٹاؤ ۔ ثروت سٹپٹا کر بولی ۔
چابی کے بغیر کیسے پیچھے ہٹالوں میں صاحبہ ؟ شکیل نے کہا۔
میں نے بھنا کر موٹر سائیکل کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے گھسیٹ کر پیچھے کرنا چاہا۔ نونو۔۔۔۔۔ ڈونٹ ٹچ ۔ واجی نے خطرناک لہجے میں کہا۔
تو پھر اسے پیچھے ہٹاؤ ۔ میری آواز غصے سے کانپ رہی تھی ۔
میں کہہ رہا ہوں ڈونٹ ٹچ اٹ ۔“ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا اور اس کے ساتھ ہی مجھے دھکا دیا۔ میں لڑکھڑا کر دو تین قدم پیچھے گیا۔ غصے اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت نے مجھے سرتا پا ہلا دیا۔ مجھے لگا کہ میرا دل سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ بہتر ہوا کہ اس موقعے پر ثروت میرے آگے آگئی ۔ وہ چلاتے ہوئے بولی ۔ نہیں تابش ! ہمیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا ۔ وہ مجھے دھکیلتی ہوئی چند قدم اور پیچھے
لے گئی۔
میں سرتا پا لرز رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ، ایک بار تو اس خبیث واجی پر ٹوٹ پڑوں ۔ دوسری طرف واجی بپھرا ہوا شیر نظر آ رہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ میری کوئی پیش چلنے دے گا۔ بہتر ہوا کہ شکیل اور قادر نے اس کا راستہ روک لیا۔ شکیل ، واجی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولا ۔ چھوڑو یار سنگل پسلی بندہ ہے۔ ضائع شائع نہ ہو جائے ۔“
پتا نہیں میرے منہ میں کیا آیا اور میں نے کیا کہا۔ بہر طور یہ کوئی متاثر کن الفاظ نہیں تھے۔ میں اپنے چکراتے ہوئے ذہن کو سنبھال کر پیچھے ہٹ آیا۔ واجی کے دوستوں نے دونوں موٹر سائیکلیں پیچھے ہٹا دیں۔ واجی بدستور میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ لوگ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر چلے گئے تو ہم بھی گاڑی میں آبیٹھے۔ گھر آ کر میں دیر تک اپنے کمرے میں بند رہا۔ کمرے کے اندر ہی بے قراری سے ٹہلتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا ر ہا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ میرے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ میں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں ۔ والدین کا لاڈ پیار مجھ سے بہت زیادہ تھا۔ والد محکمہ آثار قدیمہ میں آفیسر تھے لیکن چونکہ ایمان دار آفیسر تھے اس لیے مشکل سے ہی گزر بسر ہوتی تھی۔ کوئی دو سال پہلے ان کا انتقال ہوا تو اندیشہ تھا کہ ہم معاشی دباؤ میں آ جائیں گے لیکن والد صاحب کی دور اندیشی نے ہمیں سنبھال لیا۔ انہوں نے اچھے وقت میں ایک بڑی سڑک کے کنارے دو کنال زمین لی تھی ۔ کچھ زمین خالی چھوڑ دی تھی ۔ باقی میں گھر تعمیر کیا تھا مگر اس طرح کہ اگر ہم اوپر کی منزل پر شفٹ ہو جاتے تو گراؤنڈ فلور پر دس بارہ دکانیں تعمیر کر کے کرائے پر چڑھائی جا سکتی تھیں ۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس کے علاوہ والد
صاحب کی بیمہ پالیسی نے بھی ہمیں فائدہ دیا۔ میں بچپن میں جسمانی لحاظ سے خاصا کمزور واقع ہوا تھا۔ تاہم لڑکپن تک پہنچتے پہنچتے جسم پر تھوڑی بہت بوٹی آگئی۔ اس کے باوجود ہم عصر لڑکوں میں مجھے سنگل پسلی ہی سمجھا جاتا تھا۔ لڑائی بھڑائی میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مگر لڑکپن اور جوانی میں بارہا ایسے مواقع
آئے جب میرے لیے لڑنا ضروری تھا۔ ایسے موقعوں پر اکثر میری ہمت جواب دے جاتی تھی ۔ ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوتی تھی اور دل ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑ کنے لگتا۔ اپنی اس خامی پر قابو پانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج کل پھر وہی صورت حال در پیش تھی ۔ شومی قسمت ثروت کے محلے کا ہی یہ لڑکا اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ اس کی ہمت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ وہ آسانی سے پیچھا نہیں
چھوڑے گا۔
اس دن کمرے میں بے قراری سے ٹہلتے ٹہلتے میں نے فیصلہ کر لیا کہ دو تین ماہ کے لیے ثروت سے میل جول بالکل بند رکھوں گا اور ثروت سے بھی کہوں گا کہ وہ بس میں کالج
جانے کے بجائے ناصر بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر چلی جایا کرے۔ ا
پچھلے دو چار سالوں میں مجھے جب بھی کہیں اپنی ناتوانی کے سبب ہزیمت اٹھانا پڑی یا شرمندگی کا سامنا ہوا، میرے اندر ایک خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوئی اور وہ یہ کہ میں خود کو جسمانی طور پر مضبوط کروں ۔ کم از کم اتنا تو کر سکوں کہ اپنے جیسے کسی بندے کی زیادتی کا مناسب جواب دے سکوں ۔ ان دنوں مارشل آرٹ کا کافی شور تھا، کرانے کے کلب کھلے ہوئے تھے۔ میں بھی گاہے بگا ہے اردو بازار کے قریب واقع ایک کلب میں جاتا رہا تھا اور ہاتھ پاؤں چلاتا رہا تھا۔ بہر حال میری اس مصروفیت میں مستقل مزاجی کی کمی تھی ۔ عموماً دو چار ماہ تک کلب جانے کے ! بعد میری توجہ ہٹ . جاتی تھی۔ دھیان کسی اور طرف چلا جاتا ؟ دھیان دوبارہ کلب کی طرف تب آتا تھا جب پھر کسی جگہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان دنوں مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ جسمانی فٹنس علیحدہ چیز ہے جبکہ لڑائی بھڑائی والا مزاج
رکھنا دیگر بات ہے۔
اسنیک بار والے واقعے کے بعد میں نے ایک بار پھر شدومد سے مارشل آرٹ کلب
جانا شروع کر دیا۔ ان دنوں ہمارا یہ کلب اردو بازار کے قریب سے تبدیل ہو کر انار کلی کی طرف چلا گیا تھا۔ مدثر عارف صاحب ہمارے استاد تھے۔ وہ بڑی محنت سے ہمیں داؤ پیچ سکھایا کرتے تھے۔ میں چھ سات ہفتے تک باقاعدگی سے گیا لیکن پھر انہی دنوں مجھے ٹائیفائڈ
ہوا اور کلب جانے کا سلسلہ ایک بار پھر منقطع ہو گیا ۔
میں جنوری کی وہ ٹھٹھری ہوئی سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ لبرٹی مارکیٹ سے شاپنگ کر کے گھر واپس آیا تو فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف ثروت کی چھوٹی بہن نصرت تھی ۔ اس نے اشک بار لہجے میں کہا۔ ”
بھائی
جان! باجی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ انہوں نے بارہ بجے آ جانا تھا۔ اب تین بج گئے ہیں ۔ وہ
کالج میں بھی نہیں ہیں ۔
میں سرتا پا لرز گیا ۔ تو کہاں گئی وہ ؟“
ابو اور ناصر بھائی پولیس اسٹیشن گئے ہیں ۔ کسی نے انہیں خبر دی ہے کہ باجی کو شاید۔۔۔ وہ فقرہ مکمل نہ کر سکی اور ہچکیوں سے رونے لگی۔ اسی دوران میں ثروت کی پھپھو نے ریسیور تھام لیا۔ انہوں نے بھی روتے ہوئے کہا۔ تابش بیٹا ! جلدی سے تھانے جاؤ ۔ پتا چلا ہے کہ گھر کے پاس والی سڑک سے کچھ لوگوں نے ثروت کو زبردستی گاڑی میں ڈالا ہے اور لے گئے ہیں ۔ میری نگاہوں کے سامنے زمین آسمان گھومنے لگے۔ ریسیور پھینک کر میں تیزی سے
گیراج کی طرف بڑھا۔ امی آوازیں ہی دیتی رہ گئیں ۔ کیا ہوا تابش ؟ آکر بتاتا ہوں ۔ میں نے کہا اور لرزتے ہاتھوں سے گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پر
آگیا۔ میرا دھیان سیدھا واجی اور اس کے یاروں کی طرف جا رہا تھا۔ حالانکہ چند دن پہلے بھی میں نے فون پر ثروت سے پوچھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ آج کل واجی نظر نہیں آ رہا۔ مجھے اس وقت بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہ مجھے پریشانی سے بچانا چاہتی ہے اور آج کے واقعے نے تو میرے بد ترین اندیشوں کو حقیقت کا رنگ دے دیا تھا۔ میں سیدھا تھانے پہنچا۔ ثروت کے والد، خالو عثمان، ان کے دو محلے دار دوست اور ناصر بھائی تھانے میں ہی موجود تھے۔ لگتا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے خالو عثمان اور تھانیدار میں تلخ کلامی
ہوئی ہے۔ کشیدہ کشیدہ سے ماحول میں تھانیدار کچی رپورٹ لکھ رہا تھا۔
خالو عثمان بتا رہے تھے۔ ” یہ دو تین بندے تھے۔ ان میں سے ایک شاید اسٹیشن وین کے اندر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے چہرے مفلر وغیرہ میں چھپا رکھے تھے۔ انہوں نے میری
بچی کو گھسیٹ کروین میں پھینکا ہے۔ یہ دیکھیں۔ موقعے سے اس کی یہ دو کتا بیں ملی ہیں ۔
خالو عثمان نے لرزتے ہاتھوں سے دو کتا بیں تھانیدار کی میز پر رکھیں ۔
بے شک یہ ثروت ہی کی کتابیں تھیں ۔
تھانیدار نے کتابیں بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔
نمبر پلیٹ پڑھی ہے کسی نے؟“ تھانیدار نے قدرے نرم لہجے میں پوچھا۔ نہیں پر گاڑی کا رنگ اور میک وغیرہ دو تین بندوں نے دیکھا ہے ۔“
تھانیدار کے پوچھنے پر خالو عثمان کے دوست وہاب صاحب نے تفصیل سے گاڑی کے
بارے میں بتایا۔
تھانیدار کی ہدایت پر ایک اے ایس آئی ، وائرلیس سیٹ پر پٹرولنگ گاڑیوں سے رابطے میں مصروف ہو گیا ۔ خالو عثمان کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں انہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ ہو جائے ۔ میں نے ناصر بھائی کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ ” مجھے تو لگتا ہے کہ یہ انہی لڑکوں کا کام
ہے۔
کون لڑکے؟“ وہی واجی شکیل اور قادر وغیرہ ۔ میں نے آپ کو ان کے بارے میں بتایا تھا۔“ نہیں تابش!‘ ناصر بھائی نے نفی میں سر ہلایا۔ ” مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کا کام ہے۔ جس وقت یہ معاملہ ہوا ، واجی وغیرہ اپنے گھر کی چھت پر تھے ۔ ویسے بھی لوگوں نے جن تین
بندوں کے بارے میں بتایا ہے، وہ اپنے حلیے سے بڑی عمر کے لگتے تھے ۔“
کہیں ایسا تو نہیں کہ واجی وغیرہ نے کسی دوسرے سے یہ کام کروایا ہو ۔“ میں نے خیال ظاہر کیا۔ کرب کی شدت سے میری آواز ٹوٹ رہی تھی ۔
ابھی کیا کہا جا سکتا ہے؟ ویسے واجی کے والد سراج صاحب تو خود رپورٹ درج کرانے ابو کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ یہ جو دائیں طرف کریم کلر کی شلوار قمیص میں ہیں ۔
ناصر بھائی نے ایک صحت مند شخص کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس والوں نے قاعدے کی کارروائی کر کے اور ہمیں تسلی تشفی دے کر واپس بھیج دیا۔
میں خالو وغیرہ کے ساتھ ہی ان کے گھر چلا گیا۔ گھر کا ماحول سخت افسردہ تھا۔ ثروت کی دادی سلسل مصلے پر تھیں اور سجدے میں گری ہوئی تھیں۔ خالہ صفیہ کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔ وہ کسی بھی امید افزا اطلاع کے لیے ٹیلی فون سے لگی بیٹھی تھیں ۔ محلے کی دو تین عورتیں بھی
موجود تھیں۔ میں نے خالہ صفیہ کو تسلی دی ، وہ میرے گلے سے لگ کر سسکنے لگیں ۔ پتا نہیں کیوں میرا دھیان بار بار واجی اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہی جا رہا تھا۔ میں
واجی سے ملنا اور بات کرنا چاہتا تھا لیکن پھر یہ خیال بھی ذہن میں آتا تھا کہ کہیں بگڑا ہوا معاملہ اور نہ بگڑ جائے ۔ صرف شک کی بنیاد پر واجی وغیرہ پر اتنا بڑا الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
میں نے فون کر کے والدہ اور چچی کو بھی خالہ صفیہ کے گھر ہی بلا لیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خالہ کے پاس رہیں اور دلاسہ دیں۔
وہ رات جس مشکل اور کرب میں گزری، میں ہی جانتا ہوں۔ میں گاڑی لے کر دیوانہ
وار سڑکوں ، ہسپتالوں اور پولیس اسٹیشنوں پر گھومتا رہا۔ میرے کالج کے ایک دوست زبیر خان کے بھائی پولیس افسر تھے۔ زبیر خان سے فون پر بات ہوئی ۔ اس نے کہا کہ آجاؤ ۔ ابھی جا کر
بھائی سے ملتے ہیں اور مشورہ کرتے ہیں۔ صبح کے پانچ بجے تھے۔ ابھی اندھیرا پوری طرح چھٹا نہیں تھا۔ میں خالہ کے گھر سے نکلا اور گاڑی پر زبیر کی طرف روانہ ہوا ۔ ابھی میں دو اندرونی سڑکوں سے نکل کر بڑی سڑک پر مڑنے ہی والا تھا کہ سامنے سے آنے والے ایک رکشے کی وجہ سے رفتار دھیمی کرنا پڑی۔ جگہ تھوڑی تھی اور میں چاہ رہا تھا کہ رکشہ آسانی سے گزر جائے ۔ اچانک میری نگاہ رکشے کے اندر بیٹھی سواری پر پڑی اور میں بھونچکارہ گیا۔ وہ ثروت تھی۔ اس کے سر پر دو پٹہ تھا اور دوپٹے کے پلو نے دو تہائی چہرے کو نقاب کی طرح چھپایا ہوا تھا۔ میں نے ہی ثروت کو نہیں دیکھا، اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوئے ۔ میں نے گاڑی روک لی۔ رکشہ بھی رک گیا۔ میں دروازہ کھول کر جلدی سے ثروت کے پاس گیا۔ وہ رکشے سے اتر
آئی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دہک رہے تھے۔ صبح کے ان اولین لمحوں میں یہ اندرونی سڑک تقریباً سنسان ہی تھی ۔ ثروت میرے کندھے سے چمٹ گئی اور سسکیوں سے رونے لگی۔
میں نے رکشے والے کو کرایہ دے کر رخصت کیا اور ثروت کو لے کر گاڑی میں آبیٹھا۔ ۔
ثروت ! تم ٹھیک تو ہونا ؟“
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
ایک دو را بگیر تعجب سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ میری گاڑی کا رُخ بڑی سڑک کی طرف
تھا۔ میں نے گاڑی کو اسی رخ پر آگے بڑھایا اور تین چار منٹ ڈرائیو کرنے کے بعد ایک -
چلڈرن پارک کے عقب میں روک دیا۔
میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ثروت آنکھیں بند کیے مسلسل سسک رہی تھی۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور تسلی بخش لہجے میں کہا۔ ” ثروت ! تم زندہ سلامت ہمارے سامنے ہو اس
سے بڑی اور کوئی بات نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ مجھے بس اتنا بتا دو . وہ کون لوگ تھے جو تمہیں لے کر گئے تھے ۔“
وہ بدستور روتی رہی۔ اس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
میں نے کہا۔ چلو ٹھیک ہے۔ کچھ نہ بتاؤ ۔ اگر تمہارے ذہن پر بوجھ پڑتا ہے تو خاموش
رہو۔ میرے لیے یہ خوشی ہی کم نہیں ہے کہ میں تمہیں صحیح سالم اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ۔ خالہ، خالو بہت پریشان ہیں تمہارے لیے۔ ایک ایک سیکنڈ ان پر بھاری گزر رہا ہے۔ چلو گھر
چلتے ہیں ۔“
مجھے لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔
کیا بات ہے ثروت ! جو کہنا ہے بلا جھجک کہو ۔“ اس نے آنسو پونچھ لیے اور قدرے حوصلے میں نظر آنے لگی۔ آنسوؤں کے چند گھونٹ بھر کر وہ بولی ۔ " مجھے لے جانے والے واجی اور اس کے دوست تھے ۔“
یہ انکشاف دھما کہ خیز تھا لیکن میرا مطلب ہے ثروت! وہ خود تو موقعے پر موجود نہیں تھے۔ ناصر بھائی نے
بتایا ہے کہ وہ ... میں ہکلا کر رہ گیا۔
ہاں انہوں نے خود کچھ نہیں کیا۔ کسی سے کرایا ہے ۔“
م مجھے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ ثروت ! شروع سے بتاؤ کیا ہوا تھا ؟“ اگلے پانچ دس منٹ میں ثروت نے اشک بار لہجے میں اور رُک رُک کر مجھے جو کچھ بتایا ،
اس کا خلاصہ یہ ہے۔
قریباً آٹھ دس روز پہلے ثروت کے بھائی ناصر کو کسی کام سے اسلام آباد جانا پڑا تھا۔ ان دنوں ثروت حسب سابق بس میں کالج گئی ۔ ایک دن بس اسٹاپ پر واجی نے پھر ثروت سے بد تمیزی کی ۔ اس نے دو تین شرمناک جملے کسے جس کے بعد ثروت بھی طیش میں آ
گئی ۔ اس نے اسے بُری طرح ڈانٹا، دھمکایا اور کہا کہ تم گندی نسل سے ہو۔ اس سے پہلے کہ لوگ اکٹھے ہو جاتے ، واجی اپنی ڈبل سائلنسر موٹر سائیکل پر وہاں سے
رفو چکر ہو گیا۔ بہتر تھا کہ ثروت اس واقعے کے بارے میں گھر والوں کو یا پھر مجھے بتا دیتی لیکن یہ سب کچھ پی گئی ۔ اس نے اُمید کی کہ شاید اس واقعے کے بعد واجی کو عقل آجائے گی اور وہ اس معاملے کو مزید خراب نہیں کرے گا۔
مگر یہ سب کچھ خیال خام ثابت ہوا ۔ کل صبح ثروت کو پھر بس میں کالج جانا پڑا۔ شاید واجی اور اس کے ساتھی کسی ایسے ہی موقعے کی تاک میں تھے ۔ جب وہ دو پہر کے وقت کالج
سے واپس آ رہی تھی ، اچانک دو ہٹے کئے افراد نے اسے گھسیٹ کر اسٹیشن وین میں ڈال لیا۔ اس کے منہ پر ایک بد بودار رومال رکھا گیا ۔ ثروت کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس سے بالکل بیگانہ ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو شام ہونے والی تھی ۔ وہ ایک نا معلوم کمرے میں تھی ۔ اس کے
دونوں ہاتھ نائیلون کی رسی سے پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ فرش پر ایک فوم پڑا تھا اور کونے
میں الماری رکھی تھی ۔ ثروت کا سر بھاری ہو رہا تھا اور جی متلا رہا تھا۔ اس نے مدد کے لیے
پکارنا شروع کیا اور بند دروازے کو ٹھوکریں ماریں۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور واجی اندر آ گیا۔ اس نے ثروت کو دھکیل کر فوم پر پھینکا اور چاقو نکال کر اسے دھمکایا۔ اس کے ساتھ ہی بولا کہ وہ جتنا مرضی چلا لے، یہاں دور دور تک اس کی آواز سننے والا اور کوئی نہیں۔ ثروت کے ہاتھ رسی کی سخت بندش سے نیلے ہو رہے تھے۔ واجی نے چاقو کی مدد سے رسی کاٹ دی۔ ثروت نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے معافی مانگی۔ اس سے کہا کہ وہ اسے جانے دے۔ واجی نے جواب میں کہا کہ وہ گندی نسل کا ہے اور اس کا تھوڑا بہت ثبوت
دیئے بغیر وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا۔ ثروت نے روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔ وہ بولا ۔ میں بھی تو ایک
سال سے تمہارے آگے پیچھے پھر رہا ہوں۔ تمہاری منت ترلا کر رہا ہوں لیکن تم ٹس سے مس نہیں ہوتی ہو۔ جس کے ساتھ گل چھرے اڑاتی ہو، اس میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو ہم میں نہیں ہیں۔ باقی میں نے تمہیں یہاں رکھنا نہیں ہے۔ چھوڑ دینا ہے لیکن
چھوڑنے سے پہلے تھوڑی سی سزا ضرور دینی ہے۔“
ان باتوں کے دوران میں ہی اچانک کہیں آس پاس پولیس گاڑی کا سائرن سنائی دیا۔ واجی کے چہرے پر رنگ سا آ کر گزر گیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا اور نکلتے ہوئے دروازے کو باہر سے لاک کر گیا۔ تاہم وہ ثروت کے ہاتھ دوبارہ نہیں باندھ سکا تھا۔ کسی ساتھ والے کمرے سے اس کی آواز آئی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ پھر وہ سارے افراتفری میں کہیں چلے گئے ۔
ثروت مدد کے لیے زور زور سے چلاتی رہی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں پولیس کی گاڑی اسے ڈھونڈے بغیر آگے نہ نکل جائے ۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ثروت کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا ۔ گاڑی غالباً آگے نکل چکی تھی۔ ثروت کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ لاہور میں ہے یا لاہور سے باہر اور یہ کون سی جگہ ہے۔
جب دروازہ پیٹ پیٹ کر اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے اور چلا چلا کر گلا بیٹھ گیا تو اس کو یوں لگنے لگا کہ شاید ارد گرد کوئی موجود نہیں مگر اس کی چھٹی جس کہہ رہی تھی کہ کوئی موجود ہے۔ بس دم سادھے بیٹھا ہے۔ شدید پریشانی اور ہر اس کے باوجود ثروت اپنا دماغ استعمال کرنے لگی تھی ۔ وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس کمرے سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔ کمرے کی اکلوتی کھڑکی
سے باہر آہنی گرل لگئی تھی اور کسی اسٹور نما تاریک کمرے کی جھلک نظر آتی تھی ۔ اٹیچ باتھ روم میں بھی ایک چھوٹی کھڑ کی موجود تھی اور وہاں بھی مضبوط آہنی گرل لگی تھی ۔
ثروت نے الماری کھولی ۔ وہاں سے اسے چھوٹے دستے کی ایک ہتھوڑی مل گئی۔ وہ اس ہتھوڑی کے ساتھ کمرے کی کھڑکی کی گرل پر ضربیں لگانے لگی ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس آہنی گرل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تاہم اسے اُمید تھی کہ اگر کوئی باہر موجود ہوا تو اس حرکت کے بعد سامنے ضرور آئے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دروازے کا تالا کھلنے کی آواز آئی ۔ ثروت نے ہمت کی اور دروازے کے بالکل پاس کھڑی ہو گئی۔ ایک شلوار قمیص والا شخص رائفل بدست اندر داخل ہوا۔ ثروت نے اندھا دھند اس کے سر کے پچھلے حصے پر ہتھوڑی کی ضرب لگائی۔ اس ایک ضرب نے ہی جواں سال شخص کو زمین بوس کر دیا۔ یہ کوئی پٹھان چوکیدار تھا۔ ثروت اس کی طرف دیکھے بغیر باہر بھاگی۔ یہ ایک فیکٹری تھی۔ تین چار نا مکمل بسیں یہاں وہاں کھڑی تھیں ۔ ثروت کاٹھ کباڑ کے درمیان بھاگتی گیٹ تک پہنچی اور باہر نکل آئی۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ جی ٹی روڈ پر لاہور کے مضافات میں ہے۔ یہاں سے ایک خدا ترس کار والے نے اسے لفٹ دی اور راوی کے پل تک پہنچا دیا۔ وہاں سے رکشہ پکڑ کر وہ میرے پاس پہنچ گئی۔
میں نے ثروت کی یہ ساری رو دادسنی۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے، وہ اس نے من وعن مجھے بتا دیا ہے۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مسلسل آنسو رواں رہے۔ جب غنڈوں نے اسے اسٹیشن وین میں ڈالا تو ثروت کے جسم پر کئی خراشیں آئی تھیں۔ اس کی پنڈلیوں سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ اس کی یہ خونی خراشیں دیکھ کر میرا دل ہول گیا۔ میری نگاہوں میں واجد عرف واجی کا منحوس چہرہ گھومنے لگا ۔ جی چاہا کہ میرے پاس پستول ہو اور میں اس کو گولیوں سے چھلنی کر دوں ۔ شدید طیش کے عالم میں مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ بدن لرزتا تھا اور سینے میں دھڑکن کے گولے پھٹتے تھے۔
دماغ بہت کچھ کرنے کو چاہتا تھا مگر جسم ساتھ دینے سے انکار کر دیتا تھا۔ اس وقت بھی کچھ یہی عالم تھا۔ ہمیں گاڑی میں بیٹھے پندرہ بیس منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کر کے واپس گھر کی طرف موڑ دی۔ دس منٹ بعد ہم گھر کے اندر تھے۔
ثروت کو دیکھ کر گھر میں تہلکہ مچ گیا۔ خالہ صفیہ نے اسے گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور تشکر کے آنسوؤں سے بھگونے لگیں۔ باقی اہلِ خانہ بھی شدید حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ثروت کو اندر کمرے میں پہنچایا گیا۔ اسے پانی وغیرہ پلایا گیا تا کہ وہ نارمل حالت میں آ سکے۔ کمرے میں ہجوم زیادہ ہو گیا تھا۔ خالو جان کے کہنے پر باقی افراد با ہر نکل آئے۔ صرف
خالہ صفیہ، نصرت ، امی اور چچی وغیرہ وہاں رہ گئیں۔
ڈرائنگ روم میں جاکر میں نے خالو اور ناصر بھائی وغیرہ کو تفصیل بتائی کہ ثروت کے ساتھ کیا ہوا ہے اور وہ کس طرح شاہدرے کے قریب ایک فیکٹری سے بھاگ کر یہاں پہنچی ہے۔ یہ انکشاف سب کے لیے تکلیف دہ تھا کہ یہ اسی محلے کے رہنے والے واجی اور قادر
وغیرہ کا کام ہے۔
ناصر بھائی ایک دم آگ بگولا نظر آنے لگے ۔ انہوں نے کہا۔ ” میں جا رہا ہوں ۔ اس
بد معاش کی طرف .... اسے لاش بنا کر ہی واپس آؤں گا ۔“ وہ پستول لینے کے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔ ہم سب نے انہیں بمشکل روکا۔ خالو جان نے کہا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری بچی صحیح سلامت واپس آگئی ، اب ہمیں قانون کو
اپنے ہاتھ میں لے کر معاملے کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ ہم جو کریں گے قانون کے مطابق
کریں گے۔ ہم ابھی تھوڑی دیر میں تھانے جاتے ہیں ۔
خالو جان نے ایک دو جگہ فون کیے۔ میں نے بھی اپنے دوست زبیر کو بلا لیا۔ ہم تھانے پہنچے اور متعلقہ تھانیدار اشرف ساہی کو تفصیل کے ساتھ ساری بات بتائی۔ تھانیدار یہ سب کچھ ثروت کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ ثروت کا بیان لینے کے لیے وہ اس وقت ہمارے ساتھ گھر
جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
میں نے کہا۔ جناب ! ابھی وہ شاک کی حالت میں ہے۔ اسے سنبھلنے کے لیے تھوڑا سا وقت دیں۔ اس دوران میں آپ اپنی کارروائی شروع کریں۔“
آپ کی یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ پر مجھے قانون قاعدے کے مطابق چلنا ہے۔ کارروائی مغویہ کے بیان کے بعد ہی شروع ہوگی ۔“
مجبوراً ہمیں تھانیدار اشرف ساہی کو گھر لے جانا پڑا۔ میں اس کے پہنچنے سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی گھر پہنچ گیا اور ثروت کو بیان دینے کے لیے تیار کیا۔
تھانیدار کے آنے کے بعد بھی میں، خالو جان اور ناصر بھائی کمرے میں موجود رہے۔ بات کرتے ہوئے ثروت کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ بہر حال اس نے وہ سب کچھ تھانیدار اشرف کے گوش گزار کر دیا جو دو اڑھائی گھنٹے پہلے مجھے بتایا تھا۔
تھانیدار اشرف ساہی نے پوچھا۔ ” آپ نے واجد عرف واجی کو خود دیکھا ہے مگر اس کے ساتھیوں کے بارے میں آپ کس طرح کہہ سکتی ہیں؟“
میں نے ان کی آوازیں سنی ہیں جی میں قادر اور ایک دوسرے لڑکے شکیل کی
آواز اچھی طرح پہچانتی ہوں ۔“
تنگ تو آپ کو واجی کرتا تھا۔ دوسرے لڑکوں کی آواز یں آپ کیسے پہچانتی ہیں؟“ میں نے کہا۔ جناب! آپ وقت ضائع کرنے والے سوال کر رہے ہیں ۔ وہ دونوں خبیث بھی واجی کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ سب ایک ٹولی کی شکل میں تھے ۔“ تھانیدارا شرف نے گھور کر مجھے دیکھا ۔ تو جب یہ لوگ ان کو تنگ کرتے تھے آپ آس
پاس ہی ہوتے تھے؟“ میں ایک دم گڑ بڑا یا پھر سنبھل کر بولا ۔ ایک دو بار ایسا ہوا ہے کہ ہم ریسٹورنٹ میں
اکٹھے چائے پینے گئے اور یہ لوگ آدھمکے ۔“ تھانیدار نے اپنے سوالات کا رخ خوامخواہ میری اور ثروت کی طرف موڑ دیا۔ خالو عثمان اسے بمشکل واپس اصل موضوع پر لائے ۔ بیان قلم بند کرنے کے فورا بعد تھانیدار اشرف اپنے عملے کے ساتھ پیدل ہی واجی وغیرہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ ایک گلی چھوڑ کر یہ ایک دو منزلہ شاندار کوٹھی تھی۔ ہم نے ساتھ جانا چاہا مگر تھانیدار اشرف نے منع کر دیا۔
قریبا ایک گھنٹے بعد پولیس کے اس چھاپے کا نتیجہ سامنے آ گیا اور یہ نتیجہ ہمارے خدشات کے عین مطابق تھا۔ گھر میں فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف
تھانیدار اشرف ساہی خود تھا۔
اس نے خالو عثمان کو بلانے کا کہا۔ میں نے بتایا کہ وہ واش روم میں ہیں۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ چاروں لڑکے اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ ہم انہیں ان کے دوسرے ٹھکانوں پر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ شام تک پوزیشن صاف ہو جائے گی جو چوکیدار زخمی ہوا تھا ، اس کا کچھ پتا نہیں چلا ؟“ ۔
ابھی تک نہیں ۔ بہر حال ہم رابطے میں رہیں گے ۔ جیسے ہی کوئی خبر ملی آپ لوگوں تک
پہنچ جائے گی۔“ میں نے فون پر بات ختم کی ہی تھی کہ اندر سے خالہ صفیہ کی آواز آئی۔ وہ مجھے بلا رہی تھیں۔ میں اندر پہنچا۔ امی اور چچی کے علاوہ محلے کی ایک دو عورتیں بھی بیٹھی تھیں۔ خالہ صفیہ
نے پوچھا۔ ”کس کا فون تھا ؟“ پولیس اسٹیشن سے تھا۔ انسپکٹر بتا رہا تھا کہ ہم لڑکوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔
خالہ صفیہ نے اشک بار انداز میں کہا۔ " تابش ! مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ یہ اچھے لوگ
نہیں ہیں۔ پیسے والے بھی ؟ ہیں۔ ان سے دشمنی پڑ گئی تو جینا مشکل ہو جائے گا۔
چچی کلثوم نے تنک کر کہا ۔ ہائے ہائے کیسی بات کرتی ہو آپا! اب جس پر ظلم ہوا ہے
وہ بولے بھی نہ۔ پھول سی بچی تھی ہماری "
تھی " کے لفظ چچی نے اس طرح ادا کیے کہ میرے دل پر گھونسہ سا لگا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، ایک محلے دار عورت بول پڑی ۔ ایسے لوگوں پر تو کتے چھوڑ دینے چاہئیں ۔ زندہ گاڑ دینا چاہیے۔ عورت کے پاس عزت آبرو کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ ہائے
ظالموں کو ذرا ترس نہ آیا۔ چچی نے بڑے تاسف سے ثروت کو سر تا پا دیکھا ۔ بچی کو زخم زخم کر کے رکھ دیا ہے۔ بھلا کیا قصور تھا؟ یہی ناکہ ان بد معاشوں کے منہ لگنا نہیں چاہتی تھی۔ اس جرم کی اتنی بڑی سزا ؟
موت جو گوں نے ساری عمر کا رونا پلے باندھ دیا ہے ۔“
ہمدردی کے اس انداز نے ثروت کو سر جھکا کر سسکنے پر مجبور کر دیا۔
ثروت کی چھوٹی بہن نصرت نے جھلا کر کہا۔ ” چچی! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ خدا کا
شکر کرنا چاہیے کہ آیا صیح سلامت گھر واپس آگئی ہیں ۔ اللہ نے ہم پر کرم کیا ہے ۔“ اللہ کے کرم سے تو انکار نہیں ہے بیٹی ! پر اپنے دل کو کیسے تسلی دوں؟ اس کی اُجڑی
پجڑی صورت دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔“ میرا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ میں نے دبے دبے طیش سے کہا۔ " چی ! آپ سب لوگ کچھ
دیر کے لیے باہر بیٹھ جائیں ۔ اسے ذرا آرام کرنے دیں ۔“
چچی نے مجھے گھورا۔ میں پاؤں پٹختا ہوا باہر آگیا۔
ان عورتوں کی باتیں میرے سینے میں تیروں کی طرح لگی تھیں ۔ خاص طور سے چچی کی
باتیں ۔ میں چچی کے مزاج کو اچھی طرح جانتا تھا۔ چچی شروع سے ہی میرے اس رشتے کے
خلاف تھیں ۔ وہ میرے لیے اپنی سگی بھتیجی کولانا چاہتی تھیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے در پردہ کوششیں بھی کی تھیں ۔ اب یہ معاملہ ختم ہو چکا تھا مگر وہ بغض ابھی تک چچی کے دل میں موجود
تھا۔ اب انہیں یہ موقع ملا تھا تو وہ اپنے اندر کی عداوت کو چھپا نہیں پارہی تھیں ۔ بظاہر انہوں .
نے ہمدردی کے بول بولے تھے مگر ان بولوں کے پیچھے جو دشمنی تھی ، وہ زہر قاتل کی تاثیر رکھتی تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ امی جان بھی ثروت کی واپسی کے بعد سے
کچھ چپ چپ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایک آدھ دن مزید یہاں رہیں گی اور ثروت کی دلجوئی کریں گی مگر وہ اگلے ہی روز طبیعت خراب ہونے کا کہہ کر گھر واپس چلی گئیں۔ کہنے
والوں نے درست کہا ہے کہ مارنے والوں کے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں مگر بولنے والوں کی زبانیں نہیں ۔
اگلے ایک دو روز میں مجھے صحیح معنوں میں اس حقیقت کا ادراک ہوا کہ اگر کسی لڑکی کے ساتھ ثروت جیسی صورت حال پیش آ جائے تو اس پر کیا بیتی ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر تھا کہ ثروت جیسے گئی ویسے ہی واپس آگئی تھی مگر ارد گرد کے لوگ یہ بات ماننے کے لیے دل
سے تیار نہیں تھے۔
ثروت کے گھر میں اگلے روز میں نے پھر ایک عورت کو اس طرح کی بات کرتے سنا۔ یہ بھی کوئی محلے دار ہی تھی ۔ شکل سے پڑھی لکھی لگتی تھی اور اپنی طرف سے اظہار ہمدردی کے لیے تشریف لائی تھی۔ اس نے رونی صورت بنا کر ثروت کو گلے سے لگایا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے کے بعد خالہ صفیہ سے بولی ۔ میں تو کہتی ہوں بہن کہ ظلم سہہ کر چپ رہنا بھی گناہ ہے۔ آپ اس معاملے کی پوری پیروی کریں۔ بچی کا ڈاکٹری معائنہ کرایا ہے
آپ نے؟“ نصرت نے سٹپٹا کر کہا۔ "آنٹی ! ہم کیوں کرائیں ڈاکٹری معائنہ۔ کیوں اپنی بے عزتی کا اشتہار دیواروں پر لگا ئیں؟ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ نے بڑا کرم ہے ہمارے اوپر “
ہاں بیٹی ! یہ تو بڑا کرم ہے کہ یہ زندہ سلامت واپس آگئی ہے مگر ان بد معاشوں نے جو
کیا ہے اس کی سزا تو انہیں ملنی چاہیے نا۔ لڑکی ایک رات گھر سے باہر رہ آئے تو اس بیچاری کے پلے کیا رہ جاتا ہے ۔ ابھی پچھلے سال کی بات ہے، ڈیفنس میں ہماری برادری کی ایک لڑکی تھی۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ بیچاری یتیم تھی، پر اس کی ماں پوری ہمت کے
ساتھ ڈٹ گئی۔ کہنے لگی کہ ہمارے ساتھ تو جو ہونا تھا ہو گیا، پر اب ان غنڈوں کو پھانسی تک ضرور پہنچائیں گے۔ پتا نہیں اور کتنوں کا بھلا ہو جائے گا اس سے ۔ اب وہ دونوں غنڈے جیل میں ہیں۔ ان میں سے ایک کو تو سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ۔“
اس عورت کی گفتگو کے دوران میں ہی نصرت ، ثروت کو لے کر باہر نکل گئی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس کے چہرے پر شدید جھلاہٹ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
دو روز بعد میں گھر گیا تو امی بجھی بجھی نظر آئیں۔ کیا بات ہے امی ! آپ چپ ہیں؟“ میں نے ناشتے کی میز پر
پوچھا۔ کچھ نہیں بس وہی ثروت کی طرف بار بار دھیان چلا جاتا ہے۔ اچھی بھلی ہنستی کھیلتی لڑکی تھی ۔“
کوئی بات نہیں امی ! پھر اسی طرح ہو جائے گی۔ ابھی تو شاک میں ہے نا ۔
اسی طرح کہاں ہوا جاتا ہے تابش ! جب اس طرح کی بات ہو جائے تو پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے ۔ امی نے طویل آہ بھر کر کہا۔ پھر وہ اُٹھیں اور الماری میں سے ایک دن پہلے کا اخبار نکالا ۔ اخبار والے نے حسب روایت ثروت والی خبر کو خوب مرچ مسالا لگا کر بیان کیا تھا۔ ثروت کی ایک پرانی تصویر بھی موجود تھی جو نہ جانے کہاں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس تین کالمی خبر کی سرخیاں پڑھ کر ہی میری رگوں میں انگارے سے بھر گئے ۔ خبر نویس نے خبر کو دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔ خبر کے آخر میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مذکورہ فیکٹری کے ایک کمرے سے امپورٹڈ سگریٹ، انڈین شراب کی دو بوتلیں اور مووی کیمرہ وغیرہ بھی ملا ہے۔ ان شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاروں ملزمان مغویہ کی ویڈیو بنانے کا ارادہ رکھتے تھے
اور ممکن ہے کہ یہ ویڈیو بنائی بھی گئی ہو۔ اس قسم کی اور بھی کئی باتیں خبر میں موجود تھیں ۔ میں نے اخبار کو پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا اور ناشتہ کیے بغیر باہر نکل گیا۔ امی بھی
میری کیفیت دیکھ کر گم صم کھڑی رہیں ۔
آج تھانیدار اشرف نے خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ کو مشورے کے لیے تھانے بلایا تھا۔ میں بھی اپنے دوست زبیر خان کو لے کر پہنچ گیا۔ تھانیدار شرف سے کسی اچھی خبر کی توقع نہیں تھی اور ایسا ہی ہوا۔ پتا چلا کہ چاروں ملزمان میں سے ابھی تک کسی کا کھوج نہیں ملا ہے۔ دو تین پولیس پارٹیاں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کی گئی تھیں جو نا کام واپس آئی تھیں ۔ آخر میں تھانیدار اشرف نے سگریٹ سلگاتے ہوئے خالوعثمان سے کہا۔ عثمان صاحب ! کل ایک ایم این اے صاحب کا فون آیا ہوا تھا۔ ایم این اے مشاق گورا یا صاحب کا نام تو سنا ہو گا آپ
"نے؟
خالو عثمان نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کا پریشان چہرہ کچھ مزید پریشان نظر آنے لگا۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ ایم این اے صاحب کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ مزید نہ بگڑے۔ وہ مانتے ہیں کہ لڑکوں سے ایک بڑا جرم ہوا ہے۔ اپنی بیوقوفی سے انہوں نے قانون کو پیچھے لگا لیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بچی صحیح سلامت گھر واپس پہنچ گئی ہے۔ اس صورت حال میں اگر
کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے بہتر ہوگا۔ ناصر بھائی نے چیخ کر کہا۔ انسپکٹر صاحب! یہ کوئی زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں جس میں دو پارٹیاں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ اغوا کا سنگین ترین جرم ہے۔ ایم این اے صاحب
اس کا درمیانی راستہ کیا نکالیں گے۔ کیا ہمیں کوئی معاوضہ دیں گے؟ خدا کا خوف کرنا چاہیے انہیں۔ ہماری جو بدنامی ہوئی ہے اور ہم جس اذیت میں ہیں، اس کا مداوا کوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی تھوڑا بہت مداوا ہے تو یہی ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو ۔ واجی اور اس کے یاروں کو
ان کے کیے کی پوری سزا ملے۔“ تھانیدار اشرف کا گندمی چہرہ ایک دم سرخ ہوا پھر وہ ذرا تحمل سے بولا ۔ دیکھو برخوردار! مجھے تمہارے دُکھ کا احساس ہے لیکن مصیبت کے وقت عقلمندی اور
حو صلے سے کام نہ لیا جائے تو مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قانونی کارروائی تو ہو ہی رہی ہے، تم لوگ اپنے سامنے راستے بھی کھلے رکھو۔ تمام راستے بند نہیں کرنے چاہئیں ۔“ میں نے کہا۔ انسپکٹر صاحب ! اس طرح تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ یہ چاروں لڑکے
کہیں ایم این اے صاحب کے پاس ہی پناہ نہ لیے ہوئے ہوں ۔“ بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ ناصر بھائی نے فوراً کہا۔ ” اور لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم ایم این اے صاحب سے بات چیت کریں گے تو بیوقوف ہی کہلائیں گے نا۔“
تھانیدار اشرف کا چہرہ ایک بار پھر سرخ ہو گیا ۔ وہ خالو عثمان سے مخاطب ہو کر بولا۔ دیکھو عثمان صاحب ! آپ کے یہ لڑکے ہر بات کو الٹا لے رہے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیں ور نہ معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے اس لیے یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ سیٹھ سراج کو پتا ہے کہ ان کے بچے سے جرم ہوا ہے، اس لیے ان کی نظر نیچی ہے لیکن جب ان کو اپنے بچے کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی تو ان کا رویہ بدل جائے گا۔ وہ مثال تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ بلی کو جب اپنے بھاگنے کا کوئی رستہ نظر نہ آئے تو وہ گھیر نے والے کی آنکھوں کی طرف آتی ہے۔ میں خدانخواستہ آپ کو ڈرا نہیں رہا ہوں، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے کے ہر پہلو پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں ۔“
میں نے کچھ کہنا چاہا مگر خالو عثمان نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منع کر دیا۔ یہ بات عیاں ہوتی جا رہی تھی کہ تھانیدار اشرف ساہی مخالف پارٹی کا اثر قبول کر رہا ہے۔ یہ اثر دباؤ
کی شکل میں ہو سکتا تھا اور لالچ کی شکل میں بھی ۔
گھر میں بھی عجیب تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ یہ چوتھے یا پانچویں روز کی بات ہے، امی جان نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ میری چھوٹی بہن فرح کالج گئی ہوئی تھی ۔ مجھ سے چھوٹا
عاطف سویا ہوا تھا۔
امی جان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ کہنے لگیں ۔ ” تابش بیٹا ! پتا نہیں کیوں مجھے
لگتا ہے کہ ہم تیری خالہ صفیہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھا نہیں سکیں گے ۔“
آپ کسی وعدے کی بات کر رہی ہیں ؟“
امی نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ ” دیکھو تابش ! صفیہ رشتے میں میری بہن ہے مگر
میں اسے سگی بہنوں کی طرح ہی سمجھتی ہوں۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ثروت کو دلہن بنا کر
اس گھر میں لاؤں ۔ میں نے لرز کر کہا۔ ” تو اب کیا ہو گیا ہے امی ! کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ ثروت اس گھر میں دلہن بن کر آئے گی اور ضرور آئے گی؟“ امی نے نفی میں سر ہلایا ۔ تابش ! تو ابھی بچہ ہے، ان باتوں کو نہیں سمجھتا۔ دیکھ جو کچھ بھی تھا۔ اس کے بعد ہمیں بہت . کچھ سوچنا پڑے گا اور ہم نے کون سا
شامیانے لگا کر منگنی کی انگوٹھی پہنائی تھیں۔ بس ایک منہ زبانی بات ہی تھی نا "
امی ! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کے منہ میں شاید چچی جان کی زبان آگئی ہے ۔ کیا منہ زبانی بات کوئی بات نہیں ہوتی ؟ زبان پر تو لوگ جانیں دے
دیتے ہیں۔ آپ کو اس طرح ہر گز نہیں سوچنا چاہیے ۔“
میں سوچنے پر مجبور ہو رہی ہوں تابش ! ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم یہ رشتہ چھوڑ دیں۔ اب تو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ ۔ تیری چھوٹی بہن ہے، بھائی ہے۔ ہم نے اگلے ایک دو سالوں میں ان کے رشتے بھی ڈھونڈنے ہیں۔ ہم نے ثروت کا رشتہ کر لیا تو ثروت کے ساتھ ہی بدنامی بھی ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لے گی۔ پھر تیری بہن کے لیے یہاں کوئی رشتہ آئے گا اور نہ تیرے بھائی کو ڈھنگ کا رشتہ ملے گا۔
امی جان ! خدا کے لیے خدا کے لیے یہ دقیانوسی باتیں نہ کریں ۔ ثروت ویسی ہی ہے، جیسی دو ہفتے پہلے تھی۔ وہ پاک اور معصوم ہے۔ اس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ہے امی ! اور اگر خدانخواستہ کچھ ہو بھی جاتا تو اس کو معصوم ہی رہنا تھا۔ میں اسے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا
آپ پلیز ایسی باتیں نہ کریں، میرے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے ۔
اسی دوران میں ایک ہمسائی ہمارے گھر میں داخل ہو گئی ۔ وہ بھی غالبا ثروت والے واقعے پر ہمدردی جتانے کے لیے آئی تھی۔ مجھے اور امی کو خاموش ہونا پڑا۔ میں چکرایا ہوا سا اپنے کمرے میں آگیا اور بے جان سا ہو کر بیڈ پر گر گیا۔
یہ سب کیا ہو رہا تھا ؟ امی جان کے رویے میں جو تبدیلی تھی وہی تبدیلی میں چھوٹے بھائی عاطف میں بھی دیکھ رہا تھا۔ ہاں چھوٹی بہن فرح کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ ثروت
سے بڑا پیار کرتی تھی۔ بہر حال، اس سانحے کے بعد سے وہ بھی کچھ چپ چاپ ہو گئی تھی ۔ باقی رہے چچا، چچی اور ان کے بچے سو وہ بھی اس رشتے کے حق میں ہوئے ہی نہیں تھے ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس طرح کی باتیں کہیں ثروت کے کانوں تک پہنچ گئیں تو وہ بہت زیادہ اثر لے گی میں اس سے ملوں اور اسے ہر طرح اپنی غیر مشروط اور غیر متزلزل محبت کا یقین دلاؤں ۔ یہ یقین ہی تھا جو اسے دُکھ اور مایوسی کے بھنور
سے اُبھرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ میں ابھی ثروت کی طرف جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بیرونی دروازے پر بیل ہوئی ۔ چھوٹے بھائی عاطف نے باہر جا کر دیکھا اور مجھے بتایا کہ کچھ لوگ مجھ سے ملنے
آئے ہیں ۔
میں باہر پہنچا تو سات آٹھ معز ز صورتوں والے افراد باہر گلی میں کھڑے تھے۔ میں نے ان سے فردا فردا مصافحہ کیا۔ ایک سفید ریش، بھاری تن و توش والے شخص نے کہا۔
میرا نام حاجی فیروز ہے۔ شاہ عالمی بازار میں سیٹھ سراج میرا ہمسایہ ہے۔ یہ باقی
لوگ بھی بازار کے ہی ہیں ۔ ہم آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ طوعاً و کرنا میں نے ان حضرات کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ویسے بات میری سمجھ میں آ
گئی تھی کہ یہ حضرات کس لیے تشریف لائے ہیں ۔ جلد ہی مدعا حاجی فیروز کی زبان پر آگیا۔ انہوں نے کہا۔ جو کچھ ہوا ہے، بہت بُرا ہوا ہے۔ ہم سب بہنوں، بیٹیوں والے ہیں۔ اس دُکھ کو بڑی اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں ۔ لیکن ایک طرح سے اللہ کا شکر بھی ہے کہ بچی صحیح
سلامت گھر واپس آگئی ہے۔“ میں نے کہا ۔ حاجی صاحب! یہ بات ہم پہلے بھی بہت دفعہ سن چکے ہیں۔ آپ نے جو
کہنا ہے صاف صاف لفظوں میں کہیں لیکن اگر آپ یہ بات کہنے کے لیے آئے ہیں ہم سیٹھ : سراج اور اس کے بیٹے سے کسی طرح کی صلح صفائی کر لیں ۔ تو یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔
میں اس کے لیے آپ سے بہت بہت معذرت چاہتا ہوں ۔
حاجی فیروز نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ دیکھو بیٹا ! تم عثمان صاحب کے ہونے والے داماد ہو۔ اس گھر میں تمہاری بات سنی بھی جاتی ہے۔ عثمان صاحب اور دیگر گھر والے تو
اس وقت زیادہ صدمے میں ہیں لیکن تم انہیں اس معاملے کی اونچ نیچ سمجھا سکتے ہو ۔ اس طرح کے کیس جب کورٹ کچہری تک پہنچتے ہیں تو پھر جگ ہنسائی اور
اس کا حلیہ بھی واجی سے ملتا جلتا تھا۔ وہ چاروں ہم سے کچھ فاصلے پر ایک میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ ثروت نے خشک ہونٹوں پر
زبان پھیر کر کہا ۔ چلو آؤ تابش! چلتے ہیں ۔“ میں نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا۔ نہیں ۔ اس طرح اُٹھنا ٹھیک نہیں ۔ بس یہ جو دو گھونٹ چائے رہ گئی ہے، پی لو۔ پھر اُٹھتے ہیں ۔“
ثروت کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ اب اسے چائے میں کوئی دلچسپی رہی ہے اور نہ مجھ سے باتیں کرنے میں ۔ اب یہاں جو بھی وقت گزرے گا ، وہ سخت تکلیف ، میں رہے گی ۔ میں نے کپ اُٹھا کر چائے کی چسکی لی تو مجھے لگا کہ ہاتھ کانپ رہا ہے۔ اس لرزش کو ثروت کی
نگاہ سے چھپانے کے لیے میں نے کپ پھر نیچے رکھ دیا۔
ثروت میری منگیتر تھی ۔ وہ بی ایس سی کر رہی تھی۔ میں ایم ایس سی کے آخری سال میں تھا۔ ہم دونوں لاہور میں رہتے تھے اور رشتے دار بھی تھے ۔ واجد نامی یہ لڑکا جو ابھی اپنی ۔
ٹولی کے ساتھ اسنیک بار میں داخل ہوا، پچھلے کئی ماہ سے ثروت کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ وہ اس
بس اسٹاپ کے گرد چکراتا رہتا جہاں سے ثروت کالج جانے کے لیے سوار ہوتی تھی۔ وہ ثروت کا محلے دار بھی تھا۔ شروع میں تو وہ اخلاق کے دائرے کے اندر ہی رہا، بس ایک دو بار اس نے ثروت کو اپنی ڈبل سائلنسر ہنڈا موٹر سائیکل پر لفٹ دینے کی کوشش کی مگر جب ایک روز اس نے مجھے اور ثروت کو مال روڈ کے شیزان ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تو وہ کچھ جارحانہ موڈ میں آگیا۔ وہ اب ثروت کے کالج کے متواتر چکر بھی لگا رہا تھا اور شیزان ریسٹورنٹ میں بھی دو بار ہمارے پیچھے آیا۔
ہم نے شیزان میں ملنا چھوڑ دیا۔ پچھلی بار ہم انار کلی کے ایک اسنیک بار میں ملے تھے۔ تب تو خیریت گزری تھی لیکن آج پھر واجد اپنی چنڈال چوکڑی کے ساتھ یہاں آدھمکا تھا۔ ہم جیسے تیسے چائے ختم کر کے اُٹھنا چاہ رہے تھے۔ میں نے بیرے کو بل لانے کا اشارہ کر دیا تھا لیکن وہ ابھی کاؤنٹر پر مصروف تھا۔ واجد نے ہمیں سنانے والے انداز میں زور سے
کہا۔ "یار شکیل ! چائے پینے کے لیے تو یہ کافی سستی جگہ ہے ۔“ شکیل بولا ۔ بھئی جیب میں جتنے پیسے ہوں، ویسی ہی جگہ ڈھونڈنی پڑتی ہے ۔
واجد نے کہا ۔ اتنا سوہنا مکھڑا ایسی جگہ پر ہو تو لگتا ہے کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگا ہوا ہے
یا یہ کہہ لو کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند “ دراز قد لڑکے نے لقمہ دیا۔ اس کا نام قادر تھا۔ واجد میز پر ہلکا ہلکا طبلہ بجانے لگا۔ ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہا تھا ۔ دل توڑنے والے
دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ... راہوں میں ... ثروت تیزی سے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ چلو تابش !‘ اس نے شولڈر بیگ سنبھالتے ہوئے
کہا۔
میرا دل شدت سے دھڑک رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ابھی پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا۔ جی چاہتا تھا کہ ان خبیثوں کے منحوس چہرے نوچ لوں ، حلیے بگاڑ دوں ان لوفروں کے لیکن۔۔۔۔۔۔
اس لیکن سے آگے کئی ایک سوالیہ نشان تھے؟ میں نے خود کو سنبھالا اور کاؤنٹر پر ہی ادائیگی کرتا ہوا بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔ ثروت مجھ سے ایک قدم آگے تھی۔
ہمارے عقب میں کورس کی شکل میں آواز لگائی گئی ۔ واک آؤٹ ..... واک آؤٹ “
مجھے اندیشہ تھا کہ شاید یہ لوگ ہمارے پیچھے باہر آئیں گے اور سڑک پر بھی بد تمیزی کریں گے لیکن فوری طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہم اسنیک بار کے عقب میں واقع پارکنگ میں
پہنچے۔ میں اپنی سوزوکی کار کی طرف بڑھا تو پتا چلا کہ اس کے عقب میں دو عدد دیو ہیکل ہنڈا موٹر سائیکلیں پارک ہیں۔ ایک بار پھر رگوں میں لہو سنسنا کر رہ گیا۔ یہ واجی وغیرہ کی ہی شرارت تھی۔ ابھی ہم پارکنگ والے سے بات ہی کر رہے تھے کہ واجی اور اس کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے ۔
پارک لاٹ والے لڑکے نے واجی سے کہا۔ سرجی! آپ کی موٹر سائیکل ۔ انہوں نے
اپنی گاڑی نکالنی ہے۔“ او ہو ہو ہو ۔ واجی نے چونکنے کی اداکاری کی پھر شائستگی سے بولا ۔ غلطی ہو گئی۔ میں سمجھا تھا کہ یہ کار دو تین گھنٹے یہاں رُکے گی ۔ ابھی لو جی میں ہٹا لیتا ہوں موٹر سائیکل ۔
اس نے جیبیں ٹٹولیں مگر چابی نہیں ملی ۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہا ہے۔ وہ دراز قد قادر سے مخاطب ہو کر بولا ۔ کہاں گئی یار! چابی تیرے پاس تو نہیں ہے؟“
میرے پاس تو میری چابی ہے اور بس میرے تالے میں لگتی ہے ۔“ قادر معنی خیز لہجے میں بولا ۔
یعنی تمہارا مطلب ہے کہ کچھ چابیاں ایک سے زیادہ تالوں میں لگتی ہیں ؟“ کیوں نہیں یار! ہوتی ہیں ایسی بھی ۔ یہ چابیاں رنگ برنگے تالوں میں لگتی رہتی ہیں ۔
ان کو ہر جائی چابیاں کہتے ہیں ۔“ واجد عرف واجی نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ کیوں بھرا جی ! تمہارے پاس ہے کوئی
ایسی چابی؟“
کک کیا مطلب؟“ میں نے خود کو بمشکل سنبھالا ۔
شکیل مجھے سمجھانے والے انداز میں بولا ۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی شکل وصورت سے لگتا ہے کہ آپ کے پاس رنگ برنگے تالوں میں لگنے والی چابی ہے۔“
یعنی ہر جائی چابی۔ قادر نے لقمہ دیا۔
تم تمیز سے بات کرو اور یہ موٹر سائیکل ، ہٹاؤ ۔ ثروت سٹپٹا کر بولی ۔
چابی کے بغیر کیسے پیچھے ہٹالوں میں صاحبہ ؟ شکیل نے کہا۔
میں نے بھنا کر موٹر سائیکل کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے گھسیٹ کر پیچھے کرنا چاہا۔ نونو۔۔۔۔۔ ڈونٹ ٹچ ۔ واجی نے خطرناک لہجے میں کہا۔
تو پھر اسے پیچھے ہٹاؤ ۔ میری آواز غصے سے کانپ رہی تھی ۔
میں کہہ رہا ہوں ڈونٹ ٹچ اٹ ۔“ وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا اور اس کے ساتھ ہی مجھے دھکا دیا۔ میں لڑکھڑا کر دو تین قدم پیچھے گیا۔ غصے اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت نے مجھے سرتا پا ہلا دیا۔ مجھے لگا کہ میرا دل سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ بہتر ہوا کہ اس موقعے پر ثروت میرے آگے آگئی ۔ وہ چلاتے ہوئے بولی ۔ نہیں تابش ! ہمیں ان سے جھگڑا نہیں کرنا ۔ وہ مجھے دھکیلتی ہوئی چند قدم اور پیچھے
لے گئی۔
میں سرتا پا لرز رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ، ایک بار تو اس خبیث واجی پر ٹوٹ پڑوں ۔ دوسری طرف واجی بپھرا ہوا شیر نظر آ رہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ میری کوئی پیش چلنے دے گا۔ بہتر ہوا کہ شکیل اور قادر نے اس کا راستہ روک لیا۔ شکیل ، واجی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولا ۔ چھوڑو یار سنگل پسلی بندہ ہے۔ ضائع شائع نہ ہو جائے ۔“
پتا نہیں میرے منہ میں کیا آیا اور میں نے کیا کہا۔ بہر طور یہ کوئی متاثر کن الفاظ نہیں تھے۔ میں اپنے چکراتے ہوئے ذہن کو سنبھال کر پیچھے ہٹ آیا۔ واجی کے دوستوں نے دونوں موٹر سائیکلیں پیچھے ہٹا دیں۔ واجی بدستور میری طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ لوگ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر چلے گئے تو ہم بھی گاڑی میں آبیٹھے۔ گھر آ کر میں دیر تک اپنے کمرے میں بند رہا۔ کمرے کے اندر ہی بے قراری سے ٹہلتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا ر ہا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ میرے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا تھا۔ میں تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہوں ۔ والدین کا لاڈ پیار مجھ سے بہت زیادہ تھا۔ والد محکمہ آثار قدیمہ میں آفیسر تھے لیکن چونکہ ایمان دار آفیسر تھے اس لیے مشکل سے ہی گزر بسر ہوتی تھی۔ کوئی دو سال پہلے ان کا انتقال ہوا تو اندیشہ تھا کہ ہم معاشی دباؤ میں آ جائیں گے لیکن والد صاحب کی دور اندیشی نے ہمیں سنبھال لیا۔ انہوں نے اچھے وقت میں ایک بڑی سڑک کے کنارے دو کنال زمین لی تھی ۔ کچھ زمین خالی چھوڑ دی تھی ۔ باقی میں گھر تعمیر کیا تھا مگر اس طرح کہ اگر ہم اوپر کی منزل پر شفٹ ہو جاتے تو گراؤنڈ فلور پر دس بارہ دکانیں تعمیر کر کے کرائے پر چڑھائی جا سکتی تھیں ۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس کے علاوہ والد
صاحب کی بیمہ پالیسی نے بھی ہمیں فائدہ دیا۔ میں بچپن میں جسمانی لحاظ سے خاصا کمزور واقع ہوا تھا۔ تاہم لڑکپن تک پہنچتے پہنچتے جسم پر تھوڑی بہت بوٹی آگئی۔ اس کے باوجود ہم عصر لڑکوں میں مجھے سنگل پسلی ہی سمجھا جاتا تھا۔ لڑائی بھڑائی میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مگر لڑکپن اور جوانی میں بارہا ایسے مواقع
آئے جب میرے لیے لڑنا ضروری تھا۔ ایسے موقعوں پر اکثر میری ہمت جواب دے جاتی تھی ۔ ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوتی تھی اور دل ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑ کنے لگتا۔ اپنی اس خامی پر قابو پانے کی میں نے بہت کوشش کی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج کل پھر وہی صورت حال در پیش تھی ۔ شومی قسمت ثروت کے محلے کا ہی یہ لڑکا اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ اس کی ہمت روز بروز بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے لگ رہا تھا کہ وہ آسانی سے پیچھا نہیں
چھوڑے گا۔
اس دن کمرے میں بے قراری سے ٹہلتے ٹہلتے میں نے فیصلہ کر لیا کہ دو تین ماہ کے لیے ثروت سے میل جول بالکل بند رکھوں گا اور ثروت سے بھی کہوں گا کہ وہ بس میں کالج
جانے کے بجائے ناصر بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر چلی جایا کرے۔ ا
پچھلے دو چار سالوں میں مجھے جب بھی کہیں اپنی ناتوانی کے سبب ہزیمت اٹھانا پڑی یا شرمندگی کا سامنا ہوا، میرے اندر ایک خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوئی اور وہ یہ کہ میں خود کو جسمانی طور پر مضبوط کروں ۔ کم از کم اتنا تو کر سکوں کہ اپنے جیسے کسی بندے کی زیادتی کا مناسب جواب دے سکوں ۔ ان دنوں مارشل آرٹ کا کافی شور تھا، کرانے کے کلب کھلے ہوئے تھے۔ میں بھی گاہے بگا ہے اردو بازار کے قریب واقع ایک کلب میں جاتا رہا تھا اور ہاتھ پاؤں چلاتا رہا تھا۔ بہر حال میری اس مصروفیت میں مستقل مزاجی کی کمی تھی ۔ عموماً دو چار ماہ تک کلب جانے کے ! بعد میری توجہ ہٹ . جاتی تھی۔ دھیان کسی اور طرف چلا جاتا ؟ دھیان دوبارہ کلب کی طرف تب آتا تھا جب پھر کسی جگہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان دنوں مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ جسمانی فٹنس علیحدہ چیز ہے جبکہ لڑائی بھڑائی والا مزاج
رکھنا دیگر بات ہے۔
اسنیک بار والے واقعے کے بعد میں نے ایک بار پھر شدومد سے مارشل آرٹ کلب
جانا شروع کر دیا۔ ان دنوں ہمارا یہ کلب اردو بازار کے قریب سے تبدیل ہو کر انار کلی کی طرف چلا گیا تھا۔ مدثر عارف صاحب ہمارے استاد تھے۔ وہ بڑی محنت سے ہمیں داؤ پیچ سکھایا کرتے تھے۔ میں چھ سات ہفتے تک باقاعدگی سے گیا لیکن پھر انہی دنوں مجھے ٹائیفائڈ
ہوا اور کلب جانے کا سلسلہ ایک بار پھر منقطع ہو گیا ۔
میں جنوری کی وہ ٹھٹھری ہوئی سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ لبرٹی مارکیٹ سے شاپنگ کر کے گھر واپس آیا تو فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف ثروت کی چھوٹی بہن نصرت تھی ۔ اس نے اشک بار لہجے میں کہا۔ ”
بھائی
جان! باجی کا کچھ پتا نہیں چل رہا۔ انہوں نے بارہ بجے آ جانا تھا۔ اب تین بج گئے ہیں ۔ وہ
کالج میں بھی نہیں ہیں ۔
میں سرتا پا لرز گیا ۔ تو کہاں گئی وہ ؟“
ابو اور ناصر بھائی پولیس اسٹیشن گئے ہیں ۔ کسی نے انہیں خبر دی ہے کہ باجی کو شاید۔۔۔ وہ فقرہ مکمل نہ کر سکی اور ہچکیوں سے رونے لگی۔ اسی دوران میں ثروت کی پھپھو نے ریسیور تھام لیا۔ انہوں نے بھی روتے ہوئے کہا۔ تابش بیٹا ! جلدی سے تھانے جاؤ ۔ پتا چلا ہے کہ گھر کے پاس والی سڑک سے کچھ لوگوں نے ثروت کو زبردستی گاڑی میں ڈالا ہے اور لے گئے ہیں ۔ میری نگاہوں کے سامنے زمین آسمان گھومنے لگے۔ ریسیور پھینک کر میں تیزی سے
گیراج کی طرف بڑھا۔ امی آوازیں ہی دیتی رہ گئیں ۔ کیا ہوا تابش ؟ آکر بتاتا ہوں ۔ میں نے کہا اور لرزتے ہاتھوں سے گاڑی اسٹارٹ کر کے سڑک پر
آگیا۔ میرا دھیان سیدھا واجی اور اس کے یاروں کی طرف جا رہا تھا۔ حالانکہ چند دن پہلے بھی میں نے فون پر ثروت سے پوچھا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ آج کل واجی نظر نہیں آ رہا۔ مجھے اس وقت بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہ مجھے پریشانی سے بچانا چاہتی ہے اور آج کے واقعے نے تو میرے بد ترین اندیشوں کو حقیقت کا رنگ دے دیا تھا۔ میں سیدھا تھانے پہنچا۔ ثروت کے والد، خالو عثمان، ان کے دو محلے دار دوست اور ناصر بھائی تھانے میں ہی موجود تھے۔ لگتا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے خالو عثمان اور تھانیدار میں تلخ کلامی
ہوئی ہے۔ کشیدہ کشیدہ سے ماحول میں تھانیدار کچی رپورٹ لکھ رہا تھا۔
خالو عثمان بتا رہے تھے۔ ” یہ دو تین بندے تھے۔ ان میں سے ایک شاید اسٹیشن وین کے اندر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے چہرے مفلر وغیرہ میں چھپا رکھے تھے۔ انہوں نے میری
بچی کو گھسیٹ کروین میں پھینکا ہے۔ یہ دیکھیں۔ موقعے سے اس کی یہ دو کتا بیں ملی ہیں ۔
خالو عثمان نے لرزتے ہاتھوں سے دو کتا بیں تھانیدار کی میز پر رکھیں ۔
بے شک یہ ثروت ہی کی کتابیں تھیں ۔
تھانیدار نے کتابیں بھی اپنی تحویل میں لے لیں۔
نمبر پلیٹ پڑھی ہے کسی نے؟“ تھانیدار نے قدرے نرم لہجے میں پوچھا۔ نہیں پر گاڑی کا رنگ اور میک وغیرہ دو تین بندوں نے دیکھا ہے ۔“
تھانیدار کے پوچھنے پر خالو عثمان کے دوست وہاب صاحب نے تفصیل سے گاڑی کے
بارے میں بتایا۔
تھانیدار کی ہدایت پر ایک اے ایس آئی ، وائرلیس سیٹ پر پٹرولنگ گاڑیوں سے رابطے میں مصروف ہو گیا ۔ خالو عثمان کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں انہیں ہارٹ اٹیک ہی نہ ہو جائے ۔ میں نے ناصر بھائی کو ایک طرف لے جا کر کہا۔ ” مجھے تو لگتا ہے کہ یہ انہی لڑکوں کا کام
ہے۔
کون لڑکے؟“ وہی واجی شکیل اور قادر وغیرہ ۔ میں نے آپ کو ان کے بارے میں بتایا تھا۔“ نہیں تابش!‘ ناصر بھائی نے نفی میں سر ہلایا۔ ” مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کا کام ہے۔ جس وقت یہ معاملہ ہوا ، واجی وغیرہ اپنے گھر کی چھت پر تھے ۔ ویسے بھی لوگوں نے جن تین
بندوں کے بارے میں بتایا ہے، وہ اپنے حلیے سے بڑی عمر کے لگتے تھے ۔“
کہیں ایسا تو نہیں کہ واجی وغیرہ نے کسی دوسرے سے یہ کام کروایا ہو ۔“ میں نے خیال ظاہر کیا۔ کرب کی شدت سے میری آواز ٹوٹ رہی تھی ۔
ابھی کیا کہا جا سکتا ہے؟ ویسے واجی کے والد سراج صاحب تو خود رپورٹ درج کرانے ابو کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ یہ جو دائیں طرف کریم کلر کی شلوار قمیص میں ہیں ۔
ناصر بھائی نے ایک صحت مند شخص کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس والوں نے قاعدے کی کارروائی کر کے اور ہمیں تسلی تشفی دے کر واپس بھیج دیا۔
میں خالو وغیرہ کے ساتھ ہی ان کے گھر چلا گیا۔ گھر کا ماحول سخت افسردہ تھا۔ ثروت کی دادی سلسل مصلے پر تھیں اور سجدے میں گری ہوئی تھیں۔ خالہ صفیہ کا بھی رو رو کر برا حال تھا۔ وہ کسی بھی امید افزا اطلاع کے لیے ٹیلی فون سے لگی بیٹھی تھیں ۔ محلے کی دو تین عورتیں بھی
موجود تھیں۔ میں نے خالہ صفیہ کو تسلی دی ، وہ میرے گلے سے لگ کر سسکنے لگیں ۔ پتا نہیں کیوں میرا دھیان بار بار واجی اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہی جا رہا تھا۔ میں
واجی سے ملنا اور بات کرنا چاہتا تھا لیکن پھر یہ خیال بھی ذہن میں آتا تھا کہ کہیں بگڑا ہوا معاملہ اور نہ بگڑ جائے ۔ صرف شک کی بنیاد پر واجی وغیرہ پر اتنا بڑا الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
میں نے فون کر کے والدہ اور چچی کو بھی خالہ صفیہ کے گھر ہی بلا لیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ خالہ کے پاس رہیں اور دلاسہ دیں۔
وہ رات جس مشکل اور کرب میں گزری، میں ہی جانتا ہوں۔ میں گاڑی لے کر دیوانہ
وار سڑکوں ، ہسپتالوں اور پولیس اسٹیشنوں پر گھومتا رہا۔ میرے کالج کے ایک دوست زبیر خان کے بھائی پولیس افسر تھے۔ زبیر خان سے فون پر بات ہوئی ۔ اس نے کہا کہ آجاؤ ۔ ابھی جا کر
بھائی سے ملتے ہیں اور مشورہ کرتے ہیں۔ صبح کے پانچ بجے تھے۔ ابھی اندھیرا پوری طرح چھٹا نہیں تھا۔ میں خالہ کے گھر سے نکلا اور گاڑی پر زبیر کی طرف روانہ ہوا ۔ ابھی میں دو اندرونی سڑکوں سے نکل کر بڑی سڑک پر مڑنے ہی والا تھا کہ سامنے سے آنے والے ایک رکشے کی وجہ سے رفتار دھیمی کرنا پڑی۔ جگہ تھوڑی تھی اور میں چاہ رہا تھا کہ رکشہ آسانی سے گزر جائے ۔ اچانک میری نگاہ رکشے کے اندر بیٹھی سواری پر پڑی اور میں بھونچکارہ گیا۔ وہ ثروت تھی۔ اس کے سر پر دو پٹہ تھا اور دوپٹے کے پلو نے دو تہائی چہرے کو نقاب کی طرح چھپایا ہوا تھا۔ میں نے ہی ثروت کو نہیں دیکھا، اس نے بھی مجھے دیکھ لیا۔ اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار نمودار ہوئے ۔ میں نے گاڑی روک لی۔ رکشہ بھی رک گیا۔ میں دروازہ کھول کر جلدی سے ثروت کے پاس گیا۔ وہ رکشے سے اتر
آئی ۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دہک رہے تھے۔ صبح کے ان اولین لمحوں میں یہ اندرونی سڑک تقریباً سنسان ہی تھی ۔ ثروت میرے کندھے سے چمٹ گئی اور سسکیوں سے رونے لگی۔
میں نے رکشے والے کو کرایہ دے کر رخصت کیا اور ثروت کو لے کر گاڑی میں آبیٹھا۔ ۔
ثروت ! تم ٹھیک تو ہونا ؟“
ہاں میں ٹھیک ہوں ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔
ایک دو را بگیر تعجب سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ میری گاڑی کا رُخ بڑی سڑک کی طرف
تھا۔ میں نے گاڑی کو اسی رخ پر آگے بڑھایا اور تین چار منٹ ڈرائیو کرنے کے بعد ایک -
چلڈرن پارک کے عقب میں روک دیا۔
میرے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ ثروت آنکھیں بند کیے مسلسل سسک رہی تھی۔ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا اور تسلی بخش لہجے میں کہا۔ ” ثروت ! تم زندہ سلامت ہمارے سامنے ہو اس
سے بڑی اور کوئی بات نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ مجھے بس اتنا بتا دو . وہ کون لوگ تھے جو تمہیں لے کر گئے تھے ۔“
وہ بدستور روتی رہی۔ اس نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
میں نے کہا۔ چلو ٹھیک ہے۔ کچھ نہ بتاؤ ۔ اگر تمہارے ذہن پر بوجھ پڑتا ہے تو خاموش
رہو۔ میرے لیے یہ خوشی ہی کم نہیں ہے کہ میں تمہیں صحیح سالم اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ۔ خالہ، خالو بہت پریشان ہیں تمہارے لیے۔ ایک ایک سیکنڈ ان پر بھاری گزر رہا ہے۔ چلو گھر
چلتے ہیں ۔“
مجھے لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔
کیا بات ہے ثروت ! جو کہنا ہے بلا جھجک کہو ۔“ اس نے آنسو پونچھ لیے اور قدرے حوصلے میں نظر آنے لگی۔ آنسوؤں کے چند گھونٹ بھر کر وہ بولی ۔ " مجھے لے جانے والے واجی اور اس کے دوست تھے ۔“
یہ انکشاف دھما کہ خیز تھا لیکن میرا مطلب ہے ثروت! وہ خود تو موقعے پر موجود نہیں تھے۔ ناصر بھائی نے
بتایا ہے کہ وہ ... میں ہکلا کر رہ گیا۔
ہاں انہوں نے خود کچھ نہیں کیا۔ کسی سے کرایا ہے ۔“
م مجھے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ ثروت ! شروع سے بتاؤ کیا ہوا تھا ؟“ اگلے پانچ دس منٹ میں ثروت نے اشک بار لہجے میں اور رُک رُک کر مجھے جو کچھ بتایا ،
اس کا خلاصہ یہ ہے۔
قریباً آٹھ دس روز پہلے ثروت کے بھائی ناصر کو کسی کام سے اسلام آباد جانا پڑا تھا۔ ان دنوں ثروت حسب سابق بس میں کالج گئی ۔ ایک دن بس اسٹاپ پر واجی نے پھر ثروت سے بد تمیزی کی ۔ اس نے دو تین شرمناک جملے کسے جس کے بعد ثروت بھی طیش میں آ
گئی ۔ اس نے اسے بُری طرح ڈانٹا، دھمکایا اور کہا کہ تم گندی نسل سے ہو۔ اس سے پہلے کہ لوگ اکٹھے ہو جاتے ، واجی اپنی ڈبل سائلنسر موٹر سائیکل پر وہاں سے
رفو چکر ہو گیا۔ بہتر تھا کہ ثروت اس واقعے کے بارے میں گھر والوں کو یا پھر مجھے بتا دیتی لیکن یہ سب کچھ پی گئی ۔ اس نے اُمید کی کہ شاید اس واقعے کے بعد واجی کو عقل آجائے گی اور وہ اس معاملے کو مزید خراب نہیں کرے گا۔
مگر یہ سب کچھ خیال خام ثابت ہوا ۔ کل صبح ثروت کو پھر بس میں کالج جانا پڑا۔ شاید واجی اور اس کے ساتھی کسی ایسے ہی موقعے کی تاک میں تھے ۔ جب وہ دو پہر کے وقت کالج
سے واپس آ رہی تھی ، اچانک دو ہٹے کئے افراد نے اسے گھسیٹ کر اسٹیشن وین میں ڈال لیا۔ اس کے منہ پر ایک بد بودار رومال رکھا گیا ۔ ثروت کچھ دیر کے لیے ہوش و حواس سے بالکل بیگانہ ہو گئی۔ جب ہوش آیا تو شام ہونے والی تھی ۔ وہ ایک نا معلوم کمرے میں تھی ۔ اس کے
دونوں ہاتھ نائیلون کی رسی سے پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ فرش پر ایک فوم پڑا تھا اور کونے
میں الماری رکھی تھی ۔ ثروت کا سر بھاری ہو رہا تھا اور جی متلا رہا تھا۔ اس نے مدد کے لیے
پکارنا شروع کیا اور بند دروازے کو ٹھوکریں ماریں۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور واجی اندر آ گیا۔ اس نے ثروت کو دھکیل کر فوم پر پھینکا اور چاقو نکال کر اسے دھمکایا۔ اس کے ساتھ ہی بولا کہ وہ جتنا مرضی چلا لے، یہاں دور دور تک اس کی آواز سننے والا اور کوئی نہیں۔ ثروت کے ہاتھ رسی کی سخت بندش سے نیلے ہو رہے تھے۔ واجی نے چاقو کی مدد سے رسی کاٹ دی۔ ثروت نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے معافی مانگی۔ اس سے کہا کہ وہ اسے جانے دے۔ واجی نے جواب میں کہا کہ وہ گندی نسل کا ہے اور اس کا تھوڑا بہت ثبوت
دیئے بغیر وہ اسے یہاں سے جانے نہیں دے گا۔ ثروت نے روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ۔ وہ بولا ۔ میں بھی تو ایک
سال سے تمہارے آگے پیچھے پھر رہا ہوں۔ تمہاری منت ترلا کر رہا ہوں لیکن تم ٹس سے مس نہیں ہوتی ہو۔ جس کے ساتھ گل چھرے اڑاتی ہو، اس میں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو ہم میں نہیں ہیں۔ باقی میں نے تمہیں یہاں رکھنا نہیں ہے۔ چھوڑ دینا ہے لیکن
چھوڑنے سے پہلے تھوڑی سی سزا ضرور دینی ہے۔“
ان باتوں کے دوران میں ہی اچانک کہیں آس پاس پولیس گاڑی کا سائرن سنائی دیا۔ واجی کے چہرے پر رنگ سا آ کر گزر گیا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا اور نکلتے ہوئے دروازے کو باہر سے لاک کر گیا۔ تاہم وہ ثروت کے ہاتھ دوبارہ نہیں باندھ سکا تھا۔ کسی ساتھ والے کمرے سے اس کی آواز آئی۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ پھر وہ سارے افراتفری میں کہیں چلے گئے ۔
ثروت مدد کے لیے زور زور سے چلاتی رہی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں پولیس کی گاڑی اسے ڈھونڈے بغیر آگے نہ نکل جائے ۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ثروت کی مدد کے لیے کوئی نہیں آیا ۔ گاڑی غالباً آگے نکل چکی تھی۔ ثروت کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ وہ لاہور میں ہے یا لاہور سے باہر اور یہ کون سی جگہ ہے۔
جب دروازہ پیٹ پیٹ کر اس کے ہاتھ زخمی ہو گئے اور چلا چلا کر گلا بیٹھ گیا تو اس کو یوں لگنے لگا کہ شاید ارد گرد کوئی موجود نہیں مگر اس کی چھٹی جس کہہ رہی تھی کہ کوئی موجود ہے۔ بس دم سادھے بیٹھا ہے۔ شدید پریشانی اور ہر اس کے باوجود ثروت اپنا دماغ استعمال کرنے لگی تھی ۔ وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس کمرے سے کیسے نکلا جاسکتا ہے۔ کمرے کی اکلوتی کھڑکی
سے باہر آہنی گرل لگئی تھی اور کسی اسٹور نما تاریک کمرے کی جھلک نظر آتی تھی ۔ اٹیچ باتھ روم میں بھی ایک چھوٹی کھڑ کی موجود تھی اور وہاں بھی مضبوط آہنی گرل لگی تھی ۔
ثروت نے الماری کھولی ۔ وہاں سے اسے چھوٹے دستے کی ایک ہتھوڑی مل گئی۔ وہ اس ہتھوڑی کے ساتھ کمرے کی کھڑکی کی گرل پر ضربیں لگانے لگی ۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس آہنی گرل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ تاہم اسے اُمید تھی کہ اگر کوئی باہر موجود ہوا تو اس حرکت کے بعد سامنے ضرور آئے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دروازے کا تالا کھلنے کی آواز آئی ۔ ثروت نے ہمت کی اور دروازے کے بالکل پاس کھڑی ہو گئی۔ ایک شلوار قمیص والا شخص رائفل بدست اندر داخل ہوا۔ ثروت نے اندھا دھند اس کے سر کے پچھلے حصے پر ہتھوڑی کی ضرب لگائی۔ اس ایک ضرب نے ہی جواں سال شخص کو زمین بوس کر دیا۔ یہ کوئی پٹھان چوکیدار تھا۔ ثروت اس کی طرف دیکھے بغیر باہر بھاگی۔ یہ ایک فیکٹری تھی۔ تین چار نا مکمل بسیں یہاں وہاں کھڑی تھیں ۔ ثروت کاٹھ کباڑ کے درمیان بھاگتی گیٹ تک پہنچی اور باہر نکل آئی۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ جی ٹی روڈ پر لاہور کے مضافات میں ہے۔ یہاں سے ایک خدا ترس کار والے نے اسے لفٹ دی اور راوی کے پل تک پہنچا دیا۔ وہاں سے رکشہ پکڑ کر وہ میرے پاس پہنچ گئی۔
میں نے ثروت کی یہ ساری رو دادسنی۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے، وہ اس نے من وعن مجھے بتا دیا ہے۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں مسلسل آنسو رواں رہے۔ جب غنڈوں نے اسے اسٹیشن وین میں ڈالا تو ثروت کے جسم پر کئی خراشیں آئی تھیں۔ اس کی پنڈلیوں سے ابھی تک خون رس رہا تھا۔ اس کی یہ خونی خراشیں دیکھ کر میرا دل ہول گیا۔ میری نگاہوں میں واجد عرف واجی کا منحوس چہرہ گھومنے لگا ۔ جی چاہا کہ میرے پاس پستول ہو اور میں اس کو گولیوں سے چھلنی کر دوں ۔ شدید طیش کے عالم میں مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ بدن لرزتا تھا اور سینے میں دھڑکن کے گولے پھٹتے تھے۔
دماغ بہت کچھ کرنے کو چاہتا تھا مگر جسم ساتھ دینے سے انکار کر دیتا تھا۔ اس وقت بھی کچھ یہی عالم تھا۔ ہمیں گاڑی میں بیٹھے پندرہ بیس منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے گاڑی اسٹارٹ کر کے واپس گھر کی طرف موڑ دی۔ دس منٹ بعد ہم گھر کے اندر تھے۔
ثروت کو دیکھ کر گھر میں تہلکہ مچ گیا۔ خالہ صفیہ نے اسے گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور تشکر کے آنسوؤں سے بھگونے لگیں۔ باقی اہلِ خانہ بھی شدید حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں تھے۔ ثروت کو اندر کمرے میں پہنچایا گیا۔ اسے پانی وغیرہ پلایا گیا تا کہ وہ نارمل حالت میں آ سکے۔ کمرے میں ہجوم زیادہ ہو گیا تھا۔ خالو جان کے کہنے پر باقی افراد با ہر نکل آئے۔ صرف
خالہ صفیہ، نصرت ، امی اور چچی وغیرہ وہاں رہ گئیں۔
ڈرائنگ روم میں جاکر میں نے خالو اور ناصر بھائی وغیرہ کو تفصیل بتائی کہ ثروت کے ساتھ کیا ہوا ہے اور وہ کس طرح شاہدرے کے قریب ایک فیکٹری سے بھاگ کر یہاں پہنچی ہے۔ یہ انکشاف سب کے لیے تکلیف دہ تھا کہ یہ اسی محلے کے رہنے والے واجی اور قادر
وغیرہ کا کام ہے۔
ناصر بھائی ایک دم آگ بگولا نظر آنے لگے ۔ انہوں نے کہا۔ ” میں جا رہا ہوں ۔ اس
بد معاش کی طرف .... اسے لاش بنا کر ہی واپس آؤں گا ۔“ وہ پستول لینے کے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔ ہم سب نے انہیں بمشکل روکا۔ خالو جان نے کہا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری بچی صحیح سلامت واپس آگئی ، اب ہمیں قانون کو
اپنے ہاتھ میں لے کر معاملے کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ ہم جو کریں گے قانون کے مطابق
کریں گے۔ ہم ابھی تھوڑی دیر میں تھانے جاتے ہیں ۔
خالو جان نے ایک دو جگہ فون کیے۔ میں نے بھی اپنے دوست زبیر کو بلا لیا۔ ہم تھانے پہنچے اور متعلقہ تھانیدار اشرف ساہی کو تفصیل کے ساتھ ساری بات بتائی۔ تھانیدار یہ سب کچھ ثروت کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ ثروت کا بیان لینے کے لیے وہ اس وقت ہمارے ساتھ گھر
جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
میں نے کہا۔ جناب ! ابھی وہ شاک کی حالت میں ہے۔ اسے سنبھلنے کے لیے تھوڑا سا وقت دیں۔ اس دوران میں آپ اپنی کارروائی شروع کریں۔“
آپ کی یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ پر مجھے قانون قاعدے کے مطابق چلنا ہے۔ کارروائی مغویہ کے بیان کے بعد ہی شروع ہوگی ۔“
مجبوراً ہمیں تھانیدار اشرف ساہی کو گھر لے جانا پڑا۔ میں اس کے پہنچنے سے دس پندرہ منٹ پہلے ہی گھر پہنچ گیا اور ثروت کو بیان دینے کے لیے تیار کیا۔
تھانیدار کے آنے کے بعد بھی میں، خالو جان اور ناصر بھائی کمرے میں موجود رہے۔ بات کرتے ہوئے ثروت کی آواز میں کپکپاہٹ تھی۔ بہر حال اس نے وہ سب کچھ تھانیدار اشرف کے گوش گزار کر دیا جو دو اڑھائی گھنٹے پہلے مجھے بتایا تھا۔
تھانیدار اشرف ساہی نے پوچھا۔ ” آپ نے واجد عرف واجی کو خود دیکھا ہے مگر اس کے ساتھیوں کے بارے میں آپ کس طرح کہہ سکتی ہیں؟“
میں نے ان کی آوازیں سنی ہیں جی میں قادر اور ایک دوسرے لڑکے شکیل کی
آواز اچھی طرح پہچانتی ہوں ۔“
تنگ تو آپ کو واجی کرتا تھا۔ دوسرے لڑکوں کی آواز یں آپ کیسے پہچانتی ہیں؟“ میں نے کہا۔ جناب! آپ وقت ضائع کرنے والے سوال کر رہے ہیں ۔ وہ دونوں خبیث بھی واجی کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ سب ایک ٹولی کی شکل میں تھے ۔“ تھانیدارا شرف نے گھور کر مجھے دیکھا ۔ تو جب یہ لوگ ان کو تنگ کرتے تھے آپ آس
پاس ہی ہوتے تھے؟“ میں ایک دم گڑ بڑا یا پھر سنبھل کر بولا ۔ ایک دو بار ایسا ہوا ہے کہ ہم ریسٹورنٹ میں
اکٹھے چائے پینے گئے اور یہ لوگ آدھمکے ۔“ تھانیدار نے اپنے سوالات کا رخ خوامخواہ میری اور ثروت کی طرف موڑ دیا۔ خالو عثمان اسے بمشکل واپس اصل موضوع پر لائے ۔ بیان قلم بند کرنے کے فورا بعد تھانیدار اشرف اپنے عملے کے ساتھ پیدل ہی واجی وغیرہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ ایک گلی چھوڑ کر یہ ایک دو منزلہ شاندار کوٹھی تھی۔ ہم نے ساتھ جانا چاہا مگر تھانیدار اشرف نے منع کر دیا۔
قریبا ایک گھنٹے بعد پولیس کے اس چھاپے کا نتیجہ سامنے آ گیا اور یہ نتیجہ ہمارے خدشات کے عین مطابق تھا۔ گھر میں فون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف
تھانیدار اشرف ساہی خود تھا۔
اس نے خالو عثمان کو بلانے کا کہا۔ میں نے بتایا کہ وہ واش روم میں ہیں۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ چاروں لڑکے اپنے گھروں سے غائب ہیں۔ ہم انہیں ان کے دوسرے ٹھکانوں پر ڈھونڈ رہے ہیں ۔ شام تک پوزیشن صاف ہو جائے گی جو چوکیدار زخمی ہوا تھا ، اس کا کچھ پتا نہیں چلا ؟“ ۔
ابھی تک نہیں ۔ بہر حال ہم رابطے میں رہیں گے ۔ جیسے ہی کوئی خبر ملی آپ لوگوں تک
پہنچ جائے گی۔“ میں نے فون پر بات ختم کی ہی تھی کہ اندر سے خالہ صفیہ کی آواز آئی۔ وہ مجھے بلا رہی تھیں۔ میں اندر پہنچا۔ امی اور چچی کے علاوہ محلے کی ایک دو عورتیں بھی بیٹھی تھیں۔ خالہ صفیہ
نے پوچھا۔ ”کس کا فون تھا ؟“ پولیس اسٹیشن سے تھا۔ انسپکٹر بتا رہا تھا کہ ہم لڑکوں کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔
خالہ صفیہ نے اشک بار انداز میں کہا۔ " تابش ! مجھے بڑا ڈر لگ رہا ہے۔ یہ اچھے لوگ
نہیں ہیں۔ پیسے والے بھی ؟ ہیں۔ ان سے دشمنی پڑ گئی تو جینا مشکل ہو جائے گا۔
چچی کلثوم نے تنک کر کہا ۔ ہائے ہائے کیسی بات کرتی ہو آپا! اب جس پر ظلم ہوا ہے
وہ بولے بھی نہ۔ پھول سی بچی تھی ہماری "
تھی " کے لفظ چچی نے اس طرح ادا کیے کہ میرے دل پر گھونسہ سا لگا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ، ایک محلے دار عورت بول پڑی ۔ ایسے لوگوں پر تو کتے چھوڑ دینے چاہئیں ۔ زندہ گاڑ دینا چاہیے۔ عورت کے پاس عزت آبرو کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ ہائے
ظالموں کو ذرا ترس نہ آیا۔ چچی نے بڑے تاسف سے ثروت کو سر تا پا دیکھا ۔ بچی کو زخم زخم کر کے رکھ دیا ہے۔ بھلا کیا قصور تھا؟ یہی ناکہ ان بد معاشوں کے منہ لگنا نہیں چاہتی تھی۔ اس جرم کی اتنی بڑی سزا ؟
موت جو گوں نے ساری عمر کا رونا پلے باندھ دیا ہے ۔“
ہمدردی کے اس انداز نے ثروت کو سر جھکا کر سسکنے پر مجبور کر دیا۔
ثروت کی چھوٹی بہن نصرت نے جھلا کر کہا۔ ” چچی! کیسی باتیں کرتی ہیں آپ؟ خدا کا
شکر کرنا چاہیے کہ آیا صیح سلامت گھر واپس آگئی ہیں ۔ اللہ نے ہم پر کرم کیا ہے ۔“ اللہ کے کرم سے تو انکار نہیں ہے بیٹی ! پر اپنے دل کو کیسے تسلی دوں؟ اس کی اُجڑی
پجڑی صورت دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔“ میرا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ میں نے دبے دبے طیش سے کہا۔ " چی ! آپ سب لوگ کچھ
دیر کے لیے باہر بیٹھ جائیں ۔ اسے ذرا آرام کرنے دیں ۔“
چچی نے مجھے گھورا۔ میں پاؤں پٹختا ہوا باہر آگیا۔
ان عورتوں کی باتیں میرے سینے میں تیروں کی طرح لگی تھیں ۔ خاص طور سے چچی کی
باتیں ۔ میں چچی کے مزاج کو اچھی طرح جانتا تھا۔ چچی شروع سے ہی میرے اس رشتے کے
خلاف تھیں ۔ وہ میرے لیے اپنی سگی بھتیجی کولانا چاہتی تھیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے در پردہ کوششیں بھی کی تھیں ۔ اب یہ معاملہ ختم ہو چکا تھا مگر وہ بغض ابھی تک چچی کے دل میں موجود
تھا۔ اب انہیں یہ موقع ملا تھا تو وہ اپنے اندر کی عداوت کو چھپا نہیں پارہی تھیں ۔ بظاہر انہوں .
نے ہمدردی کے بول بولے تھے مگر ان بولوں کے پیچھے جو دشمنی تھی ، وہ زہر قاتل کی تاثیر رکھتی تھی۔
نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ امی جان بھی ثروت کی واپسی کے بعد سے
کچھ چپ چپ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ ایک آدھ دن مزید یہاں رہیں گی اور ثروت کی دلجوئی کریں گی مگر وہ اگلے ہی روز طبیعت خراب ہونے کا کہہ کر گھر واپس چلی گئیں۔ کہنے
والوں نے درست کہا ہے کہ مارنے والوں کے ہاتھ پکڑے جا سکتے ہیں مگر بولنے والوں کی زبانیں نہیں ۔

سے تیار نہیں تھے۔
ثروت کے گھر میں اگلے روز میں نے پھر ایک عورت کو اس طرح کی بات کرتے سنا۔ یہ بھی کوئی محلے دار ہی تھی ۔ شکل سے پڑھی لکھی لگتی تھی اور اپنی طرف سے اظہار ہمدردی کے لیے تشریف لائی تھی۔ اس نے رونی صورت بنا کر ثروت کو گلے سے لگایا اور اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے کے بعد خالہ صفیہ سے بولی ۔ میں تو کہتی ہوں بہن کہ ظلم سہہ کر چپ رہنا بھی گناہ ہے۔ آپ اس معاملے کی پوری پیروی کریں۔ بچی کا ڈاکٹری معائنہ کرایا ہے
آپ نے؟“ نصرت نے سٹپٹا کر کہا۔ "آنٹی ! ہم کیوں کرائیں ڈاکٹری معائنہ۔ کیوں اپنی بے عزتی کا اشتہار دیواروں پر لگا ئیں؟ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اللہ نے بڑا کرم ہے ہمارے اوپر “
ہاں بیٹی ! یہ تو بڑا کرم ہے کہ یہ زندہ سلامت واپس آگئی ہے مگر ان بد معاشوں نے جو
کیا ہے اس کی سزا تو انہیں ملنی چاہیے نا۔ لڑکی ایک رات گھر سے باہر رہ آئے تو اس بیچاری کے پلے کیا رہ جاتا ہے ۔ ابھی پچھلے سال کی بات ہے، ڈیفنس میں ہماری برادری کی ایک لڑکی تھی۔ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ بیچاری یتیم تھی، پر اس کی ماں پوری ہمت کے
ساتھ ڈٹ گئی۔ کہنے لگی کہ ہمارے ساتھ تو جو ہونا تھا ہو گیا، پر اب ان غنڈوں کو پھانسی تک ضرور پہنچائیں گے۔ پتا نہیں اور کتنوں کا بھلا ہو جائے گا اس سے ۔ اب وہ دونوں غنڈے جیل میں ہیں۔ ان میں سے ایک کو تو سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا ہو چکی ہے ۔“
اس عورت کی گفتگو کے دوران میں ہی نصرت ، ثروت کو لے کر باہر نکل گئی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس کے چہرے پر شدید جھلاہٹ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔
دو روز بعد میں گھر گیا تو امی بجھی بجھی نظر آئیں۔ کیا بات ہے امی ! آپ چپ ہیں؟“ میں نے ناشتے کی میز پر
پوچھا۔ کچھ نہیں بس وہی ثروت کی طرف بار بار دھیان چلا جاتا ہے۔ اچھی بھلی ہنستی کھیلتی لڑکی تھی ۔“
کوئی بات نہیں امی ! پھر اسی طرح ہو جائے گی۔ ابھی تو شاک میں ہے نا ۔
اسی طرح کہاں ہوا جاتا ہے تابش ! جب اس طرح کی بات ہو جائے تو پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے ۔ امی نے طویل آہ بھر کر کہا۔ پھر وہ اُٹھیں اور الماری میں سے ایک دن پہلے کا اخبار نکالا ۔ اخبار والے نے حسب روایت ثروت والی خبر کو خوب مرچ مسالا لگا کر بیان کیا تھا۔ ثروت کی ایک پرانی تصویر بھی موجود تھی جو نہ جانے کہاں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس تین کالمی خبر کی سرخیاں پڑھ کر ہی میری رگوں میں انگارے سے بھر گئے ۔ خبر نویس نے خبر کو دلچسپ اور سنسنی خیز بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی۔ خبر کے آخر میں پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ مذکورہ فیکٹری کے ایک کمرے سے امپورٹڈ سگریٹ، انڈین شراب کی دو بوتلیں اور مووی کیمرہ وغیرہ بھی ملا ہے۔ ان شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاروں ملزمان مغویہ کی ویڈیو بنانے کا ارادہ رکھتے تھے
اور ممکن ہے کہ یہ ویڈیو بنائی بھی گئی ہو۔ اس قسم کی اور بھی کئی باتیں خبر میں موجود تھیں ۔ میں نے اخبار کو پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا اور ناشتہ کیے بغیر باہر نکل گیا۔ امی بھی
میری کیفیت دیکھ کر گم صم کھڑی رہیں ۔
آج تھانیدار اشرف نے خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ کو مشورے کے لیے تھانے بلایا تھا۔ میں بھی اپنے دوست زبیر خان کو لے کر پہنچ گیا۔ تھانیدار شرف سے کسی اچھی خبر کی توقع نہیں تھی اور ایسا ہی ہوا۔ پتا چلا کہ چاروں ملزمان میں سے ابھی تک کسی کا کھوج نہیں ملا ہے۔ دو تین پولیس پارٹیاں مختلف علاقوں کی طرف روانہ کی گئی تھیں جو نا کام واپس آئی تھیں ۔ آخر میں تھانیدار اشرف نے سگریٹ سلگاتے ہوئے خالوعثمان سے کہا۔ عثمان صاحب ! کل ایک ایم این اے صاحب کا فون آیا ہوا تھا۔ ایم این اے مشاق گورا یا صاحب کا نام تو سنا ہو گا آپ
"نے؟
خالو عثمان نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کا پریشان چہرہ کچھ مزید پریشان نظر آنے لگا۔ تھانیدار اشرف نے کہا ۔ ایم این اے صاحب کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ مزید نہ بگڑے۔ وہ مانتے ہیں کہ لڑکوں سے ایک بڑا جرم ہوا ہے۔ اپنی بیوقوفی سے انہوں نے قانون کو پیچھے لگا لیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بچی صحیح سلامت گھر واپس پہنچ گئی ہے۔ اس صورت حال میں اگر
کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جائے تو دونوں پارٹیوں کے لیے بہتر ہوگا۔ ناصر بھائی نے چیخ کر کہا۔ انسپکٹر صاحب! یہ کوئی زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں جس میں دو پارٹیاں آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ یہ اغوا کا سنگین ترین جرم ہے۔ ایم این اے صاحب
اس کا درمیانی راستہ کیا نکالیں گے۔ کیا ہمیں کوئی معاوضہ دیں گے؟ خدا کا خوف کرنا چاہیے انہیں۔ ہماری جو بدنامی ہوئی ہے اور ہم جس اذیت میں ہیں، اس کا مداوا کوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی تھوڑا بہت مداوا ہے تو یہی ہے کہ ہمارے ساتھ انصاف ہو ۔ واجی اور اس کے یاروں کو
ان کے کیے کی پوری سزا ملے۔“ تھانیدار اشرف کا گندمی چہرہ ایک دم سرخ ہوا پھر وہ ذرا تحمل سے بولا ۔ دیکھو برخوردار! مجھے تمہارے دُکھ کا احساس ہے لیکن مصیبت کے وقت عقلمندی اور
حو صلے سے کام نہ لیا جائے تو مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قانونی کارروائی تو ہو ہی رہی ہے، تم لوگ اپنے سامنے راستے بھی کھلے رکھو۔ تمام راستے بند نہیں کرنے چاہئیں ۔“ میں نے کہا۔ انسپکٹر صاحب ! اس طرح تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ یہ چاروں لڑکے
کہیں ایم این اے صاحب کے پاس ہی پناہ نہ لیے ہوئے ہوں ۔“ بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ ناصر بھائی نے فوراً کہا۔ ” اور لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ ایسے میں ہم ایم این اے صاحب سے بات چیت کریں گے تو بیوقوف ہی کہلائیں گے نا۔“
تھانیدار اشرف کا چہرہ ایک بار پھر سرخ ہو گیا ۔ وہ خالو عثمان سے مخاطب ہو کر بولا۔ دیکھو عثمان صاحب ! آپ کے یہ لڑکے ہر بات کو الٹا لے رہے ہیں۔ آپ ان کو سمجھائیں ور نہ معاملہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے اس لیے یہ باتیں کہہ رہا ہوں۔ سیٹھ سراج کو پتا ہے کہ ان کے بچے سے جرم ہوا ہے، اس لیے ان کی نظر نیچی ہے لیکن جب ان کو اپنے بچے کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آئے گی تو ان کا رویہ بدل جائے گا۔ وہ مثال تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ بلی کو جب اپنے بھاگنے کا کوئی رستہ نظر نہ آئے تو وہ گھیر نے والے کی آنکھوں کی طرف آتی ہے۔ میں خدانخواستہ آپ کو ڈرا نہیں رہا ہوں، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس معاملے کے ہر پہلو پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں ۔“
میں نے کچھ کہنا چاہا مگر خالو عثمان نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منع کر دیا۔ یہ بات عیاں ہوتی جا رہی تھی کہ تھانیدار اشرف ساہی مخالف پارٹی کا اثر قبول کر رہا ہے۔ یہ اثر دباؤ
کی شکل میں ہو سکتا تھا اور لالچ کی شکل میں بھی ۔
گھر میں بھی عجیب تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ یہ چوتھے یا پانچویں روز کی بات ہے، امی جان نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔ میری چھوٹی بہن فرح کالج گئی ہوئی تھی ۔ مجھ سے چھوٹا
عاطف سویا ہوا تھا۔
امی جان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ وہ کہنے لگیں ۔ ” تابش بیٹا ! پتا نہیں کیوں مجھے
لگتا ہے کہ ہم تیری خالہ صفیہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھا نہیں سکیں گے ۔“
آپ کسی وعدے کی بات کر رہی ہیں ؟“
امی نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ ” دیکھو تابش ! صفیہ رشتے میں میری بہن ہے مگر
میں اسے سگی بہنوں کی طرح ہی سمجھتی ہوں۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں ثروت کو دلہن بنا کر
اس گھر میں لاؤں ۔ میں نے لرز کر کہا۔ ” تو اب کیا ہو گیا ہے امی ! کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ ثروت اس گھر میں دلہن بن کر آئے گی اور ضرور آئے گی؟“ امی نے نفی میں سر ہلایا ۔ تابش ! تو ابھی بچہ ہے، ان باتوں کو نہیں سمجھتا۔ دیکھ جو کچھ بھی تھا۔ اس کے بعد ہمیں بہت . کچھ سوچنا پڑے گا اور ہم نے کون سا
شامیانے لگا کر منگنی کی انگوٹھی پہنائی تھیں۔ بس ایک منہ زبانی بات ہی تھی نا "
امی ! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟ مجھے تو لگتا ہے کہ آپ کے منہ میں شاید چچی جان کی زبان آگئی ہے ۔ کیا منہ زبانی بات کوئی بات نہیں ہوتی ؟ زبان پر تو لوگ جانیں دے
دیتے ہیں۔ آپ کو اس طرح ہر گز نہیں سوچنا چاہیے ۔“
میں سوچنے پر مجبور ہو رہی ہوں تابش ! ہمارے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم یہ رشتہ چھوڑ دیں۔ اب تو ذرا ٹھنڈے دل سے سوچ ۔ تیری چھوٹی بہن ہے، بھائی ہے۔ ہم نے اگلے ایک دو سالوں میں ان کے رشتے بھی ڈھونڈنے ہیں۔ ہم نے ثروت کا رشتہ کر لیا تو ثروت کے ساتھ ہی بدنامی بھی ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لے گی۔ پھر تیری بہن کے لیے یہاں کوئی رشتہ آئے گا اور نہ تیرے بھائی کو ڈھنگ کا رشتہ ملے گا۔
امی جان ! خدا کے لیے خدا کے لیے یہ دقیانوسی باتیں نہ کریں ۔ ثروت ویسی ہی ہے، جیسی دو ہفتے پہلے تھی۔ وہ پاک اور معصوم ہے۔ اس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا ہے امی ! اور اگر خدانخواستہ کچھ ہو بھی جاتا تو اس کو معصوم ہی رہنا تھا۔ میں اسے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا
آپ پلیز ایسی باتیں نہ کریں، میرے دل کو کچھ ہونے لگتا ہے ۔
اسی دوران میں ایک ہمسائی ہمارے گھر میں داخل ہو گئی ۔ وہ بھی غالبا ثروت والے واقعے پر ہمدردی جتانے کے لیے آئی تھی۔ مجھے اور امی کو خاموش ہونا پڑا۔ میں چکرایا ہوا سا اپنے کمرے میں آگیا اور بے جان سا ہو کر بیڈ پر گر گیا۔
یہ سب کیا ہو رہا تھا ؟ امی جان کے رویے میں جو تبدیلی تھی وہی تبدیلی میں چھوٹے بھائی عاطف میں بھی دیکھ رہا تھا۔ ہاں چھوٹی بہن فرح کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ وہ ثروت
سے بڑا پیار کرتی تھی۔ بہر حال، اس سانحے کے بعد سے وہ بھی کچھ چپ چاپ ہو گئی تھی ۔ باقی رہے چچا، چچی اور ان کے بچے سو وہ بھی اس رشتے کے حق میں ہوئے ہی نہیں تھے ۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اس طرح کی باتیں کہیں ثروت کے کانوں تک پہنچ گئیں تو وہ بہت زیادہ اثر لے گی میں اس سے ملوں اور اسے ہر طرح اپنی غیر مشروط اور غیر متزلزل محبت کا یقین دلاؤں ۔ یہ یقین ہی تھا جو اسے دُکھ اور مایوسی کے بھنور
سے اُبھرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ میں ابھی ثروت کی طرف جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ بیرونی دروازے پر بیل ہوئی ۔ چھوٹے بھائی عاطف نے باہر جا کر دیکھا اور مجھے بتایا کہ کچھ لوگ مجھ سے ملنے
آئے ہیں ۔
میں باہر پہنچا تو سات آٹھ معز ز صورتوں والے افراد باہر گلی میں کھڑے تھے۔ میں نے ان سے فردا فردا مصافحہ کیا۔ ایک سفید ریش، بھاری تن و توش والے شخص نے کہا۔
میرا نام حاجی فیروز ہے۔ شاہ عالمی بازار میں سیٹھ سراج میرا ہمسایہ ہے۔ یہ باقی
لوگ بھی بازار کے ہی ہیں ۔ ہم آپ سے ملنے آئے ہیں ۔ طوعاً و کرنا میں نے ان حضرات کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ویسے بات میری سمجھ میں آ
گئی تھی کہ یہ حضرات کس لیے تشریف لائے ہیں ۔ جلد ہی مدعا حاجی فیروز کی زبان پر آگیا۔ انہوں نے کہا۔ جو کچھ ہوا ہے، بہت بُرا ہوا ہے۔ ہم سب بہنوں، بیٹیوں والے ہیں۔ اس دُکھ کو بڑی اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں ۔ لیکن ایک طرح سے اللہ کا شکر بھی ہے کہ بچی صحیح
سلامت گھر واپس آگئی ہے۔“ میں نے کہا ۔ حاجی صاحب! یہ بات ہم پہلے بھی بہت دفعہ سن چکے ہیں۔ آپ نے جو
کہنا ہے صاف صاف لفظوں میں کہیں لیکن اگر آپ یہ بات کہنے کے لیے آئے ہیں ہم سیٹھ : سراج اور اس کے بیٹے سے کسی طرح کی صلح صفائی کر لیں ۔ تو یہ ایک نہ ہونے والی بات ہے۔
میں اس کے لیے آپ سے بہت بہت معذرت چاہتا ہوں ۔
حاجی فیروز نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔ دیکھو بیٹا ! تم عثمان صاحب کے ہونے والے داماد ہو۔ اس گھر میں تمہاری بات سنی بھی جاتی ہے۔ عثمان صاحب اور دیگر گھر والے تو
اس وقت زیادہ صدمے میں ہیں لیکن تم انہیں اس معاملے کی اونچ نیچ سمجھا سکتے ہو ۔ اس طرح کے کیس جب کورٹ کچہری تک پہنچتے ہیں تو پھر جگ ہنسائی اور
پریشانی کے بہت سارے موقعے نکلتے ہیں۔
پریس کا تو آپ کو پتہ ہی ہے وہ ایسے معاملوں کو کس طرح اچھالتا ہے
پھر عدالت میں جرح کے دوران عورت سے جس طرح کے سوال پوچھے جاتے ھیں وہ بھی ہیں
سب جانتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ "آپ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں جی. لیکن کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ شرمندگی اور جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے اس طرح کی ساری مظلوم لڑکیاں اپنی زبانوں کو تالے لگالیں اور ظلم کرنے والے سینہ تان کر دندناتے پھریں اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے لیے نئے
نئے شکار ڈھونڈتے رہیں؟“ حاجی فیروز کے ساتھ آنے والے ایک معزز شخص نے شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ دھرتے ہوئے کہا۔ ” تابش بیٹا ! جرم کی سنگین نوعیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن سیٹھ سراج کا لڑکا عادی مجرم نہیں ہے۔ وہ بس بُری سوسائٹی کا شکار ہوا ہے۔ اگر اسے ایک بار سدھرنے کا
موقع مل گیا تو وہ سدھر کر دکھا دے گا۔“ سزا بھی تو سدھارنے کے لیے ہی ہوتی ہے چاچا جی! میں نے تلخ لہجے میں کہا۔ سزا تو بہت مل رہی ہے، اسے بھی اور اس کے گھر والوں کو بھی لیکن جس سزا کی تم
بات کر رہے ہو، وہ کسی کو سدھارتی نہیں ہے بیٹا جی! جیل میں سے اچھے بھلے لوگ پکے مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ تم لوگ بہت بڑی نیکی کرو گے اگر ان لڑکوں کے لیے دل میں کسی طرح کی نرمی پیدا کر لو گے ۔"
میں نے کہا۔ آپ سب مجھ سے زیادہ بڑے اور سمجھدار ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کے لیے یہ موقع مناسب نہیں ہے۔ ہمارے زخم ہرے ہیں۔ آپ ان پر نمک نہ چھڑکیں تو بہتر ہے۔“
یہ بزرگ دس پندرہ منٹ تک مزید میرے پاس بیٹھے ۔ وہ مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ میں کم از کم ایک بار اپنے خالو عثمان اور سیٹھ سراج کی ملاقات کا اہتمام کر دوں ۔ بہر حال میں کسی نہ کسی طرح ان لوگوں کو رخصت کرنے میں کامیاب رہا۔ شام کو مجھے پتا چلا کہ یہ مصالحتی کمینی خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ سے بھی ملی ہے۔
پھر عدالت میں جرح کے دوران عورت سے جس طرح کے سوال پوچھے جاتے ھیں وہ بھی ہیں
سب جانتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ "آپ اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہیں جی. لیکن کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ شرمندگی اور جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے اس طرح کی ساری مظلوم لڑکیاں اپنی زبانوں کو تالے لگالیں اور ظلم کرنے والے سینہ تان کر دندناتے پھریں اور پوری آزادی کے ساتھ اپنے لیے نئے
نئے شکار ڈھونڈتے رہیں؟“ حاجی فیروز کے ساتھ آنے والے ایک معزز شخص نے شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ دھرتے ہوئے کہا۔ ” تابش بیٹا ! جرم کی سنگین نوعیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن سیٹھ سراج کا لڑکا عادی مجرم نہیں ہے۔ وہ بس بُری سوسائٹی کا شکار ہوا ہے۔ اگر اسے ایک بار سدھرنے کا
موقع مل گیا تو وہ سدھر کر دکھا دے گا۔“ سزا بھی تو سدھارنے کے لیے ہی ہوتی ہے چاچا جی! میں نے تلخ لہجے میں کہا۔ سزا تو بہت مل رہی ہے، اسے بھی اور اس کے گھر والوں کو بھی لیکن جس سزا کی تم
بات کر رہے ہو، وہ کسی کو سدھارتی نہیں ہے بیٹا جی! جیل میں سے اچھے بھلے لوگ پکے مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ تم لوگ بہت بڑی نیکی کرو گے اگر ان لڑکوں کے لیے دل میں کسی طرح کی نرمی پیدا کر لو گے ۔"
میں نے کہا۔ آپ سب مجھ سے زیادہ بڑے اور سمجھدار ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان باتوں کے لیے یہ موقع مناسب نہیں ہے۔ ہمارے زخم ہرے ہیں۔ آپ ان پر نمک نہ چھڑکیں تو بہتر ہے۔“
یہ بزرگ دس پندرہ منٹ تک مزید میرے پاس بیٹھے ۔ وہ مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ میں کم از کم ایک بار اپنے خالو عثمان اور سیٹھ سراج کی ملاقات کا اہتمام کر دوں ۔ بہر حال میں کسی نہ کسی طرح ان لوگوں کو رخصت کرنے میں کامیاب رہا۔ شام کو مجھے پتا چلا کہ یہ مصالحتی کمینی خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ سے بھی ملی ہے۔
0 تبصرے