"بچوں کی آنکھیں اور گاؤں کے راستے شام ہوتے ہی بند ہو جاتے ہیں" — زریاب کو اس کہاوت پر کبھی یقین نہیں آیا تھا۔ وہ شہر میں پلی بڑھی تھی، جہاں شام کا اندھیرا چھانے سے پہلے ہی برقی قمقمے جگمگا اٹھتے تھے۔ ہر گھر میں ٹیلی ویژن چلتا رہتا، اور بچے رات 11 بجے سے پہلے سونا جانتے ہی نہیں تھے۔
زمانہ بہت ترقی کر چکا تھا۔ اب گاؤں اور دیہات بھی برقی روشنیوں سے منور ہو چکے تھے۔ دور دراز علاقوں تک پختہ سڑکیں بن چکی تھیں، جن پر بڑی بڑی بسیں اور دیگر ہر قسم کی ٹریفک دن رات رواں دواں رہتی تھی۔ اس طرح وہ کہاوت اب بالکل بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔
برانچ لائنوں پر چلنے والی ٹرینوں کا حال وہی جانتے ہیں جو اُن پر سفر کرتے ہیں۔ صدیوں پرانے اسٹیم انجن، جنہیں یورپی ممالک عجائب گھروں کی زینت بنا چکے ہیں، یہاں اب بھی دھڑلے سے استعمال ہو رہے تھے۔ برانچ لائن کے کسی سفر کی کامیابی کا دارومدار اسٹیم انجن کے موڈ پر ہوتا ہے۔ یہ بُتوں جیسے کالے انجن بھی بڑے من موجی ہوتے ہیں—موڈ اچھا ہو تو خراماں خراماں چلتے رہتے ہیں، اور اگر بگڑ جائے تو مسافروں کی پریشانی کی پروا کیے بغیر کہیں بھی رک جاتے ہیں۔
اس روز بھی شاید اُس کالے انجن کا موڈ بگڑ گیا تھا، اور یوں ٹرین ویرانے میں جا رُکی تھی۔
اس وقت دن کے تین بجے تھے۔ چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں ٹرین کے مسافر بدحال ہو رہے تھے۔ بعض لوگ کھل کر ریلوے انتظامیہ کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ٹرین کی بوگیوں کی حالت انجن سے بھی بدتر تھی—نہ پانی دستیاب تھا، نہ پنکھے چل رہے تھے۔ گرمی اور پیاس کی شدت سے بچے رو رو کر آسمان سر پر اُٹھا چکے تھے۔ بہت سے مسافر بچوں کو لے کر ٹرین سے اتر چکے تھے اور ریل کی پٹڑی سے چند گز دور درختوں کے سائے تلے بیٹھے، ریلوے انتظامیہ کو کوس رہے تھے۔
زریاب جس بوگی میں بیٹھی تھی، وہاں عورتیں اور بچے یوں بھرے تھے جیسے بھیڑ بکریاں ہانک دی گئی ہوں۔ اگرچہ زریاب کی سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اور جب تک ٹرین چلتی رہی، ہوا لگتی رہی، لیکن اب وہ تیز دھوپ کی زد میں تھی۔ جسم جھلس رہا تھا، اور دھوپ سوئیوں کی طرح چبھتی محسوس ہو رہی تھی۔ پسینہ کیچوے کی طرح اس کے جسم پر رینگ رہا تھا، اور پسینے سے بھیگی لان کی قمیض اُس کے بدن سے چپک گئی تھی۔
بوگی میں موجود تمام عورتیں دیہاتی تھیں، اور بچوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی چیخ و پکار کر رہی تھیں۔ زریاب کے ساتھ والی سیٹ پر ایک نوجوان دیہاتی عورت بیٹھی تھی۔ اس نے شوخ رنگوں اور بڑے بڑے پھولوں والا ریشمی لباس پہن رکھا تھا۔ عمر شاید سولہ سال سے زیادہ نہ تھی، مگر وہ شادی شدہ تھی، اور اس کی گود میں پانچ چھ ماہ کی ایک بچی تھی۔ گرمی کی شدت سے بچی نڈھال ہو چکی تھی اور مسلسل رو رہی تھی۔ عورت کے ایک ہاتھ میں کھجور کا پنکھا تھا، جسے وہ بے دلی سے ہلا رہی تھی۔
راستے میں اس عورت سے زریاب کا مختصر تعارف ہو چکا تھا۔ وہ چند ہفتے میکے میں گزارنے کے بعد سسرال واپس جا رہی تھی۔ اُس کی منزل پہاڑ گنج سے دو اسٹیشن آگے تھی۔ اس معصوم بچی کی حالت دیکھ کر زریاب کو ترس آ رہا تھا۔ ایک دو بار اس نے بچی کو گود میں لے کر بہلانے کی کوشش بھی کی، مگر بچی کا رونا بند نہ ہوا۔
0 تبصرے