تھوڑی محبت اور تھوڑے ڈراوے کے ساتھ انہوں نے خالو عثمان کو کیس کی پیرونی سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ یہ بڑی تلخ صورت حال تھی۔ ایک گھرانے کو شدید ترین اذیت سے دوچار کرنے کے بعد اب اس کو دباؤ کا شکار بنایا جار ہا تھا۔ میری رگوں میں خون کھول رہا تھا اور پورے جسم میں زہر بن کر پھیل جاتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ نا انصافی کرنے والوں کی گردنوں تک اپنا ہاتھ پہنچاؤں اور انہیں گھسیٹ کر چوراہوں میں لے آؤں لیکن ایسا کرنے کے لیے جو فطری ہمت اور توانائی درکار تھی، وہ میرے اندر نہیں تھی ۔
اگلے روز صبح گیارہ بجے کے لگ بھگ میں ثروت سے ملنے خالو کے گھر پہنچا۔ مجھے معلوم تھا کہ خالو عثمان اور ناصر بھائی وغیرہ گھر میں نہیں ہوں گے ۔ خالہ صفیہ کی اجازت سے میں ثروت کے ساتھ چند باتیں کرلوں گا۔ گم صم خالہ سے علیک سلیک کرنے کے بعد میں ثروت کے کمرے میں پہنچا تو وہ چادر اوڑھے لیٹی ہوئی تھی۔ بیڈ پر سر ہانے کی طرف اس کی ایک خوبصورت تصویر آویزاں تھی ۔ یہ گھر کے پھولوں بھرے لان کا منظر تھا۔ وہ ہاف سلیو قمیص میں تھی اور واٹر پائپ کے ذریعے اپنے چھوٹے بھتیجے پر پانی پھینک رہی تھی ۔ پانی کی پھوار کے پیچھے وہ خود کسی جل پری کی طرح نظر آتی تھی۔ ہوا سے اُڑتے بال، کلیوں جیسے دانت اور رخساروں پر ٹھہرے ہوئے پانی کے قطرے، جیسے گلاب پر شبنم کا بسیرا ہو۔ کتنی شوخی اور خوشی سمٹ آئی تھی اس ایک لمحے میں اس - کے اندر ۔ یہ میری پسندیدہ تصویر تھی اسی لیے ثروت نے اپنے بیڈ روم میں لگائی تھی۔
ثروت ! میں نے ہولے سے آواز دی۔
ثروت ! میں نے ہولے سے آواز دی۔
وہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے چادر اپنے اوپر سے ہٹائی اور سوجی سوجی سرخ آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر تحیر نمودار ہوا اور وہ دو پٹہ سنبھالتی ہوئی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے عقب میں پھولوں بھرے لان والی تصویر تھی ۔ کتنا فرق تھا ان دونوں مناظر میں ۔ ایک میں خوشی کا عروج، ایک میں مایوسی اور غم کی انتہا وہ دنوں میں ہی مہینوں کی
بیمار نظر آنے لگی تھی ۔ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔ کیسی ہو ثروت؟
وہ سسکی اور منہ پھیر کر بولی ۔ اب کوئی کسر رہ گئی ہے۔ جو تم نکالنے آئے ہو۔“ کیوں کیا ہوا ؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ جو کچھ ہوا ہے، تمہیں بھی ضرور پتا ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری مرضی بھی اس میں
شامل ہو۔ قسم سے ثروت ! مجھے کچھ پتا نہیں ہے۔ کچھ بھی پتا نہیں ۔
کل تمہاری امی کا فون آیا تھا۔ انہوں نے امی سے پتا نہیں کیا باتیں کی ہیں وہ کل شام
سے رورہی ہیں ۔ نہ کچھ کھایا پیا ہے، نہ کسی سے بات کرتی ہیں ۔“ لیکن پتا تو چلے ثروت ! بات کیا ہوئی ہے؟“
تم انجان بنو تو اور بات ہے۔ ورنہ تمہیں بھی اندازہ ہو گیا ہوگا ؟“ ثروت نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے گھٹنوں پر ماتھا ٹیکا اور چہرہ چھپا کر سسکیوں کے درمیان بولتی چلی گئی ۔ میری طرف سے تم آزاد ہو تابش! میں تم پر کوئی روک نہیں لگاؤں گی ۔ نہ گزرے دن یاد دلا کر تم سے کوئی شکوہ شکایت کروں گی ۔ میری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمہاری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ بس مجھے معاف کر دو۔ میں بد نصیب ہوں۔ خود کو تمہارے لائق نہ رکھ سکی ۔ اب جو سزا مجھے ملنی ہے، وہ میں اچھی طرح جان گئی ہوں اور یہ بھی جان گئی ہوں کہ منت سماجت سے یہ سزا معاف نہیں ہوئی ۔ اس لیے میں قبول کرتی ہوں ، سب کچھ قبول کرتی ہوں ۔ وہ روتی چلی گئی ۔
میرا دل کٹ کر سو ٹکڑے ہو گیا۔ میں ثروت کی حساس طبع کے بارے میں بڑی اچھی طرح جانتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی ہو گی ۔
میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
ثروت ! تم کسی کی باتوں پر نہ جاؤ ۔ شادی میری اور تمہاری ہونی ہے اور یہ ضرور ہو گی۔ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ امی جان کو بھی وہی کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔ میں
سب کچھ سنبھال لوں گا ۔“
میرے لیے کس کس سے لڑو گے؟ کس کس کی زبان بند کرو گے؟ میں تمہاری زندگی کو عذاب میں ڈالنا نہیں چاہتی تابش ! تم وہی کرو جو تمہارے بڑے کہتے ہیں۔ اس کا چہرہ بدستور گھٹنوں پر جھکا رہا۔
ایسا نہیں ہو گا ثروت ! اور نہ ہوتا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے میں
تھوڑا سا وقت ضرور لگے گا۔ بس اس تھوڑے سے وقت کو ہم نے ہمت اور حو صلے سے گزارنا ہے تم دیکھنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔“
میری طبیعت خراب ہے تابش ! اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ پلیز پلیز " میری آنکھوں میں نمی تھی۔ میں اس کے ہاتھ کو تسلی بخش انداز میں تھپک کر باہر آ گیا۔
خاله صفیہ اور نصرت وغیرہ میں سے کوئی میرے سامنے نہیں آیا اور نہ کوئی بات کی۔ میں نے زندگی میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ پیش آنے والا اس طرح کا
واقعہ اس کی اور اس کے وارثوں کی زندگی میں اس طرح کا طوفان مچا سکتا ہے۔ میں بہت پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔ امی کچن میں تھیں ۔ میرا چہرہ دیکھ کر ٹھٹک گئیں۔ کیا ہوا
تابی؟ انہوں نے بے چین کر پوچھا۔
یہ تو آپ بتائیں کہ کیا ہوا ہے؟“
میں سمجھی نہیں؟“
آپ نے کل خالہ صفیہ کو فون کیا ہے۔ اس کے بعد سے ان کا رو رو کر برا حال ہے۔“ امی نے محبت سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور مجھے ایک طرف کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا
کہ
تابش ! مجھ سے قسم لے لو جو میں نے کوئی ایسی ویسی بات کہی ہو۔ میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ میں ابھی آنہیں سکتی کیونکہ فرح کے پیپر ہو رہے ہیں۔ اس لیے مصروف ہوں ۔ آپ ذرا خود سوچیں امی ! جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے آپ صرف ایک دفعہ خالہ کے گھر گئی ہیں۔ فون بھی آپ نے بس ایک آدھ بار ہی کیا ہوگا ۔ اگر اب خالہ صفیہ نے آنے کا کہا تھا تو آپ چلی جاتیں مگر آپ نے مصروفیت والی بات کہہ دی اور میں سمجھتا ہوں امی کہ بات سے بھی زیادہ وہ لہجہ اہم ہوتا ہے جس میں بات کہی جاتی ہے۔ آپ خود ہی تو کہا کرتی ہیں کہ
تابش ! کوئی بات نہیں ہوئی ۔ امی نے تیزی سے میرا جملہ کاٹا بس صفیہ محسوس زیادہ کر لیتی ہے۔“
اگر آپ کو پتا ہے کہ وہ زیادہ محسوس کرتی ہیں تو پھر آپ کو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے
تھی۔
ان کی ذہنی حالت آج کل جیسی ہو رہی ہے آپ کو بھی پتا ہے ۔“ امی خاموشی سے سبزی بناتی رہیں۔ ان کے چہرے سے ان کی دلی کیفیت کا اندازہ لگانا
مشکل تھا۔ میں نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔ امی ! آپ جو بھی سوچتی ہوں لیکن مجھے امید ہے کہ آپ میری مرضی کا خیال رکھیں گی۔ بچپن سے لے کر آج تک میرے لیے ہر چھوٹی بڑی چیز آپ نے ہی پسند کی ہے۔ ثروت کو بھی آپ نے ہی پسند کیا تھا۔ یہ آپ ہی کا
دکھایا ہوا راستہ ہے جس پر میں چل رہا ہوں ۔“ میں اُٹھا اور اپنے کمرے میں آگیا۔ میرے بیڈ پر اخبار پڑا تھا۔ اس میں پھر سیٹھ سراج
کے مفرور صاحبزادے اور ثروت کے بارے میں ایک مختصر خبر موجود تھی ۔ خبر کے آغاز میں ہی یہ خیال آرائی موجود تھی کہ متاثرہ لڑکی "ث" کی دوستی ماضی میں واجد عرف واجی سے بھی ہے
میرا جی چاہا کہ اس اخبار کو جلا دوں ! اور اس کے ساتھ ہی اس دفتر کو بھی جہاں سے یہ
اخبار شائع ہوا ہے
پتا نہیں کہ کچھ نام نہاد صحافی شرفاء کی شرفاء کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے اتنے
مستعد کیوں ہوتے ہیں؟ میں سوچنے لگا کہ اگر اس اخبار والے کی اپنی بیٹی یا بہن کے ساتھ
اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہوتا تو کیا پھر بھی وہ اسی طرح کی سرخیاں جماتا ؟ میں نے اخبار پھاڑ کر ایک طرف پھینک دیا۔ امی جان تو ایسا نہیں کر سکتی تھیں ۔ یقینا یہ چچی یا چاچا کا کام ہی تھا جو اتنے اہتمام سے یہ اخبار میرے بیڈ پر رکھا گیا تھا۔
کمرہ بند کر کے میں بے قراری سے ٹہلنے لگا۔ ثروت کی ستی ہوئی صورت بار بار آنکھوں کے سامنے آرہی تھی۔ چند ہی روز میں وہ کملایا ہوا پھول ہو گئی تھی ۔ گزرے ہوئے دو سالوں کا ایک ایک لمحہ میرے تصور میں چمکنے لگا۔ پہلی دفعہ میں نے ثروت کو پورے دھیان سے شادی کی ایک تقریب میں ہی دیکھا تھا۔ اسی تقریب میں امی جان نے بھی اسے خاص نظروں سے دیکھا اور میرے لیے منتخب کر لیا۔ خالہ صفیہ اور پھر خالو عثمان وغیرہ سے بات ہوئی اور دونوں طرف سے ”ہاں“ ہوگئی۔ منگنی کی چھوٹی سی تقریب کا بھی ارادہ تھا مگر وہ بہ وجوہ ٹلتا رہا۔ در اصل دونوں گھرانے ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے تھے کہ اس قسم کے کسی تکلف کی
ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ شروع میں ہمارے درمیان جھجک تھی۔ پھر عید کے موقعے پر میں نے ثروت کو ایک خوبصورت ساعید کارڈ بھیجا۔ ثروت نے بھی فرح کے ذریعے مجھے کارڈ ارسال کیا۔
اس کے بعد کبھی کبھی فون پر ہماری مختصر بات ہونے لگی۔ ثروت عام کا لج گرلز کی طرح ایکسٹرا شوخ نہیں تھی۔ اس کی گفتگو میں ایک طرح کا وقار اور رکھ رکھاؤ تھا۔ اس کا یہی انداز مجھے زیادہ اچھا لگا۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ دانائی اور سمجھ بوجھ رکھتی تھی۔ وہ خداداد ذہانت کی مالک تھی۔ انگلش اور اردو کی بے شمار شاعری اسے زبانی یاد تھی۔
دھیرے دھیرے فون پر ہماری گفتگو بے تکلف ہوتی گئی۔ پھر کبھی کبھی ہم گھر سے باہر بھی ملنے لگے ۔ ہمارا ٹھکانا زیادہ تر شیزان ہوٹل یا شاہراہ قائد اعظم کا ایک آئس کریم بار ہوتا تھا ۔ ثروت ایک دھیمی لیکن مسلسل بارش کی طرح میری ذات میں سرایت کرتی چلی گئی۔ ہم نے سرما کی سنہری دو پہروں ، بہار کی خوشبو دار شاموں اور گرما کی چاندنی راتوں میں ایک ساتھ بہت سے خواب دیکھے۔ کبھی کبھی تو ہم مستقبل میں اس قدر کھو جاتے کہ اپنے گھر کا
ڈیزائن اور اندرونی آرائش کی تفصیلات تک طے کرنے لگتے ۔ یہ جیسے کل ہی کی آوازیں تھیں جو میرے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔ ہم ریسٹورنٹ کے پر سکون ماحول میں بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ۔ مجھے ٹی وی لاؤنجز وغیرہ میں ذرا سا گہرا رنگ
پسند ہے۔“
اس معاملے میں میری پسند تھوڑی سی مختلف ہے۔ ٹی وی لاؤنج یا کامن روم میں مجھے
ایپل وائٹ بڑا اچھا لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہلکے سبز پر دے ہوں اور فرنیچر میں بھی اس کلر کا ٹچ ہو۔
لیکن یار! یہ ہلکا رنگ گندا بڑی جلدی ہو جاتا ہے، خاص طور سے ٹی وی لاؤنج میں “ تو بندہ ذرا احتیاط کرلے ۔ وہ چائے کی چسکی لے کر مسکرائی۔ بندہ تو احتیاط کر لیتا ہے اور کرے گا بھی لیکن بچوں کا کیا کیا جائے ۔ یہ تو چند ہفتوں بلکہ دنوں میں گلکاریاں کر دیتے ہیں ۔ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر شفق کا رنگ لہرا گیا۔ اس نے پریشان نظروں سے دائیں بائیں دیکھا۔ پھر سنبھل کر بولی ۔ بچوں کو سکھایا جائے تو وہ سب کچھ سیکھ جاتے ہیں۔ یہ بڑے ہی
ہوتے ہیں جن کی عقل میں کوئی بات نہیں آتی ۔“
اگر بڑوں سے مراد میں ہوں ، تو میں نے کون سی ایسی بے عقلی کی ہے؟“ کوئی ایک ہو تو بتاؤں ۔ ہر وقت تو ستاتے ہو ۔ وہ ہلکی سی شوخی سے بولی ۔
میرے لہو میں میٹھا میٹھا درد جاگ اُٹھا ۔ اچھا کوئی ایک بے عقلی تو بتاؤ ۔ میں نے
لطف لینے والے انداز میں کہا۔ ایک بے عقلی تو جناب اب بھی فرما رہے ہیں ۔ ہزار دفعہ کہا ہے کہ ریسٹورنٹ میں بولا کرو۔
آہستہ زیادہ آہستہ بولنے سے بھی لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ لوگوں کا تو کام ہی شک کرنا ہے۔“
یہ اور اس طرح کی بہت سی آوازیں میرے کانوں میں گونجنے لگیں۔ میں کمرے میں
ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا۔ وہ پہلے والی ثروت کتنے عرصے میں واپس لوٹے گی اور لوٹے گی بھی یا
نہیں میری رگوں میں اندھیرا سا اُترنے لگا۔ میں جانتا تھا کہ وہ بہت حساس ہے۔ اندر
سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ اس کے ارد گرد جو سر گوشیاں اُبھر رہی تھیں، وہ اسے مزید توڑ پھوڑ
رہی تھی۔
واجی اور اس کے تینوں دوست ابھی تک لاپتا تھے ۔ ان کالا پتا ہونا بھی ہماری مایوسی میں
اضافہ کر رہا تھا اور اس سے بھی بڑی مایوسی یہ تھی کہ مقامی پولیس کا رویہ حوصلہ شکن تھا۔ تھانیدار
اشرف واضح طور پر ملزم پارٹی کی سائیڈ لے رہا تھا۔ مجھے پتا چلا تھا کہ کل خالو عثمان اپنے
دوست وہاب صاحب کے ساتھ تھانیدار اشرف سے ملنے گئے تو اس کے اے ایس آئی نے
ان سے درشت لہجے میں بات کی اور ڈیڑھ گھنٹہ باہر بٹھائے رکھا۔ بعد میں بتایا کہ اشرف
صاحب ایک ضروری میٹنگ میں چلے گئے ہیں۔
میں رات آخری پہر تک جاگتا رہا اور اپنی ہی سوچوں سے نبرد آزما رہا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں کمزور آدمی کو انصاف حاصل کرنے کے لیے برف اور آگ کے سات سمندروں میں سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ وہ مظلوم و مضروب ہو کر بھی ڈرتا کیوں ہے؟ کیوں ہر دستک پر چونکتا ہے، کیوں ہر فون بیل پر اس کا دل ہولتا ہے؟ عدل کی زنجیر
ہلانے سے پہلے اس کے ناتواں ہاتھ کیوں کا نپ کانپ جاتے ہیں؟ اگلے روز میں ایک دفتر میں نوکری کے لیے انٹرویو دے کر واپس آ رہا تھا۔ گاڑی عاطف لے کر گیا ہوا تھا اس لیے میں پیدل ہی تھا۔ علامہ اقبال ٹاؤن کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا ، ہوٹل ذیشان کے سامنے سے نکلا تو ایک شخص نے آواز دے کر مجھے بلایا ۔ سنو بھائی
جان !
میں نے بائیں طرف دیکھا، ہوٹل کی پارکنگ میں ایک چمچھاتی ہنڈا گاڑی کے قریب اس کا ڈرائیور کھڑا تھا۔ وہ تیزی سے میرے قریب آیا۔ صاحب بلا رہے ہیں ۔“ اس نے
اپنے عقب میں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے دیکھا اور چونک گیا۔ یہ سیٹھ سراج تھا۔ یہ سیاہ گاڑی بھی اس کی تھی۔ سیٹھ سراج
سفید لٹھے کی کھڑکھڑاتی شلوار قمیص میں تھا۔ وہ ایک لحیم شحیم شخص تھا تاہم جسم کے مقابلے میں سر کافی چھوٹا تھا۔ گھنگریالے بالوں میں خوب تیل لگا کر رکھتا تھا۔ میری معلومات کے مطابق یہ
شخص چٹا ان پڑھ تھا۔ میں چند لمحے تذبذب میں رہنے کے بعد اس کے پاس پہنچا۔ اس نے مجھ
سے مصافحہ کیا اور بتیسی دکھا کر بولا ۔ ” تمہارا نام تابش ہے نا؟“ جی فرمائیے ۔“ میں نے کہا۔
میں تم سے ملنا چاہتا تھا۔ یہ اچھا اتفاق ہے کہ تم سے ملاقات ہو گئی ۔ وہ گلابی اردو
میں بولا ۔
" کہیے میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
یہاں کھڑے کھڑے کیا خدمت ہو سکتی ہے باؤ جی ! تم سے ایک بہت ضروری گل
کرنی تھی۔ اگر تمہارے پاس ٹائم ہے تو آؤ ذرا دو منٹ اندر بیٹھ جاتے ہیں ۔ لیکن میں ذرا جلدی میں تھا۔ دراصل .
یار باؤ! یہ دراصل ، لیکن، چنانچہ اگر مگر سب بیکار کے لفظ ہیں ۔ بس دومنٹ کی بات
ہے۔ چائے کا ایک کپ پیتے ہیں ۔ پھر تم چلے جانا ۔ اس نے اپنا بھاری بھر کم ہاتھ دوستانہ انداز میں میرے کندھے پر رکھ دیا۔ چارونا چار میں سیٹھ سراج کے ساتھ چلتا ہوا ہوٹل کے نیم گرم ڈائننگ ہال میں آ گیا۔ اس ہوٹل کی اندرونی سجاوٹ گاؤں کے انداز کی تھی۔ یہاں جدید کھانوں کے علاوہ دیہات کے سارے پکوان بھی ملتے تھے۔ ہم رنگین پایوں والی نواڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے ۔ جی کہیں آپ کو کیا کہنا ہے؟“ میری سنی ان سنی کرتے ہوئے سیٹھ سراج نے بیرے کو بلایا اور کہا۔ بس وہی روز
والا لیکن ڈیل بیرا ادب سے جھک کر واپس چلا گیا۔ سیٹھ سراج ادھر اُدھر کی باتیں کرتا رہا۔ میں نے کئی بار چاہا کہ وہ کام کی بات کی طرف آ جائے مگر وہ ٹالتا رہا۔ یہاں تک کہ کھانا آ گیا ۔ کھانا کیا تھا ، سات آٹھ آدمیوں کی خوراک تھی ۔ چھوٹے پائے ، روسٹ مچھلی ، بانڈی گوشت ، کنہ گوشت اور پتا نہیں کون کون سے گوشت ۔ ساتھ میں نمکین لسی سے بھرا ہوا جگ اور تندوری
پر اٹھے وغیرہ ۔
سیٹھ سراج کے بے حد اصرار پر میں نے چند لقمے لیے۔ میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اس بھینسے کا لنچ جلد ختم ہو اور میں اس سے جان چھڑا کر باہر نکل سکوں ۔ کھانے کے بعد نیپکن سے ہاتھ اور ٹھوڑی وغیرہ صاف کرنے کے بعد سراج نے دو طویل ڈکاریں لیں اور اچانک بولا ۔ یار باو تم شکل سے سمجھدار لگتے ہو۔ تم ہی اس معاملے کا کچھ کرو۔ منڈوں سے گھلتی ہوگئی ہے، پر ہر گھلتی کی کوئی مافی تلافی بھی تو ہوتی ہے نا۔ کورٹ کچہری میں جائیں گے تو ساروں کی بدنامی ہو گی اور لڑکی کی زیادہ ہوگی ۔ وہ جیسے عثمان صاحب کی دھی ہے، ویسے ہی
میری بھی دھی ہے۔ ہم اس بات کو اور بڑھانا نہیں چاہندے۔“ بات تو اب بڑھ چکی ہے سیٹھ جی ! جو بد نامی اب ہو رہی ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا
ہونی ہے۔
باقی رہی معافی تلافی والی بات تو اس کا آپ لڑکی کے وارثوں سے پوچھیں ۔“ پر تم اس گھر کے ایک اہم بندے ہو یار بہاؤ ! تم کرنا چاہو تو بہت کچھ کر سکتے ہو۔ اپنے
خالو صاحب کو بہت کچھ سمجھا سکتے ہو۔ بدلے میں تم جو کام مجھ سے لینا چاہو میں حاضر ہوں۔ اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے باؤ یار! وہ وڈے وڈیرے کہتے ہیں نا کہ ایک ہتھ دوسرے ہتھ کو
دھوتا ہے
میرا خون کھول اُٹھا لیکن میں بولا کچھ نہیں ۔ سیٹھ سراج طاقت کے زعم میں مجھے اپنی راہ
پر لانا چاہ رہا تھا۔ اسی دوران میں سیٹھ کے ڈرائیور نے موبائل فون اس کی طرف بڑھایا۔ تہاڑی کال اے جی ۔ ان دنوں موبائل فون کم لوگوں کے پاس تھے۔ سیٹھ سراج نے کال اٹینڈ کی ۔ ڈرائیور اٹین شین حالت میں پاس ہی کھڑا رہا۔ سیٹھ سراج کچھ دیر تک کال سنتا رہا اور ہوں ہوں کرتا رہا۔ آخر میں بولا ۔ ” تم فکر نہ کرو ڈاکٹر صاحبہ! ہمارے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہو سکتا۔
میں ابھی انتظام کرتا ہوں ۔“ فون بند کر کے اس نے ایک اور نمبر ملایا پھر بولا ۔ ایم این اے صاحب سے بات کراؤ۔ چند لمحے بعد ایم این اے مشتاق گورایا سے اس کی بات چیت شروع ہوئی ۔ ” او جی کوئی سفارشی ٹٹو آ گیا ہے گورا یا صاحب ! ڈاکٹرنی کی نوکری پکی ہوگئی تھی۔ اب اسے پیچھے ہٹا
کر اپنی کسی پھوپھی چاچی کو آگے لانا چاہندا اے۔ آپ نے یہ کام نہیں ہونے دینا ہے کسی بھی طرح ٹھیک ہے ہاں جی ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ہے۔ میں خود جاؤں گا ۔ سلاماں لیکم ۔
گفتگوختم کرنے کے بعد اس نے آدھا گلاس لسی پی اور مونچھیں صاف کر کے بولا ۔ یہ
اپنے گورا یا صاحب بڑے کام کے بندے ہیں۔ اپنے شہر کی ساری نہیں تو آدھی نوکریوں پر ضرور ان کا زور چل جاتا ہے ۔ پھر وہ ذرا چونک کر خاموش ہوا اور بولا ۔ ہاں ... مجھے ایک
دن عثمان صاحب سے پتا چلا تھا کہ تم بھی نوکری شوکری ڈھونڈ رہے ہو؟ میں خاموش رہا۔
وہ بولا ۔ " آج کل گورا یا صاحب کا ہتھ بہت آگے تک جا رہا ہے۔ اگر تم کہو تو میں آج
ہی تمہارے بارے میں ان سے گل کرتا ہوں ۔“ مجھے ایسی سیاسی نوکری نہیں چاہیے جی جو اگلے الیکشن کے بعد چھوڑنی پڑے۔ اب
مجھے اجازت دیں۔ کھانے کے لیے بہت شکریہ۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا۔
یار باؤ ! تم بڑے روکھے بولتے ہو۔“
بس میں ایسا ہی ہوں ۔ دراصل ..
پھر وہی دراصل تمہیں کہا ہے نا یہ دراصل لیکن اگر مگر بولنے والے بندے مجھے زہر لگتے ہیں ۔ سیدھی سیدھی گل کرنی چاہیے ۔“
کیا سیدھی سیدھی گل کروں؟“ تم اس ماملے میں کچھ کر سکتے ہو یا نہیں؟“
جی نہیں ۔
جی بھی اور نہیں بھی۔ تم دوغلی گل کر رہے ہو اور دوغلی گل کرنے والے بندے چنگے نہیں ہوتے ۔ اس نے عجیب لہجے میں کہا۔ اس کی تیل سے چپڑی ہوئی تنگ پیشانی کے نیچے
اس کی آنکھوں میں دو چنگاریاں سی چمکیں ۔
اس سے پہلے کہ میں جواب میں کچھ کہتا، وہ اپنے ڈرائیور سے بولا ۔ ” چلو فتح محمد۔۔۔۔۔ ہیرے کو لمبی ٹپ دیتا ہوا وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ میں دوسرے دروازے سے بغلی
سڑک پر آگیا ۔ :
سات آٹھ روز اسی طرح گزر گئے ۔ صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ سوائے اس کے کہ جو دو افراد ثروت کو سڑک سے اُٹھانے والی کارروائی میں شریک تھے، ان کا پتا چل گیا ۔ بادی النظر میں تو یہی پتا چلتا تھا کہ وہ کرائے کے غنڈے ہیں ۔ انہیں اس کام کے لیے پندرہ ہزار روپے فی بندہ دیا گیا تھا۔ پانچ ہزار پیشگی، دس ہزار کام کے بعد ملا
تھا۔ اس کے علاوہ کچھ انعام وغیرہ بھی تھا۔ ان دونوں افراد کے ساتھ تیسرا بندہ واجی کا یار
قادر لمبا خود تھا۔
اسٹیشن وین بھی واجی وغیرہ نے ہی فراہم کی تھی۔ ان دونوں افراد کی نشان دہی پر پولیس نے واجی کے چوتھے ساتھی ابدال کو پکڑ لیا۔ پولیس نے ابدال کو عدالت میں پیش کر
کے اس کا سات روزہ ریمانڈ لیا تھا لیکن ابھی تک اس سے کچھ معلوم نہیں ہو سکا تھا یا شاید پولیس نے نیک نیتی سے پوچھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی ۔ ابدال کا مؤقف تھا کہ وہ واجی وغیرہ
کا دوست ضرور رہا ہے لیکن مذکورہ واردات میں اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے
موجودہ ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکا۔
ان سات آٹھ روز میں ثروت سے بھی میری ملاقات نہیں ہو سکی ۔ ہمارے اپنے گھر
میں بھی صورت حال کچھ کشیدہ ہی تھی۔ امی اور فرح میرے لیے پریشان رہتی تھیں ۔ ایک روز صبح سویرے گھنٹی بجی۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ یہ فون ثروت کے گھر سے ہے اور وہاں سے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
میرا اندیشه درست نکلا ۔ نصرت نے روتے ہوئے بتایا کہ ابو کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور
وہ ہسپتال میں ہیں ۔
یہ تشویشناک صورت حال تھی۔ خالو عثمان کو انجائنا کی ہلکی پھلکی تکلیف تو پہلے سے تھی۔ ڈاکٹر نے انہیں اینجو گرافی کا مشورہ دیا ہوا تھا جسے وہ مسلسل نظر انداز کر رہے تھے۔
ہم بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے ۔ اس وقت تک خالو عثمان اپنے خالق حقیقی سے مل چکے تھے۔ ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ میں کہرام مچا ہوا تھا۔ خالہ صفیہ بے ہوش تھیں ۔ نصرت ، ثروت اور ان کی پھوپھی دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ دیگر عزیز بھی اشک بار کھڑے تھے۔ ثروت کی پھوپھی جان زینب نے مجھے دیکھا تو روتے ہوئے کہا۔ ” میرے بھائی کو بچی
کا دکھ لے گیا۔ اللہ غارت کرے ان بد معاشوں کو انہوں نے میرے بھائی کی جان لے لی۔ ہم کہاں انصاف مانگیں ۔ کس کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں ۔“
خالو عثمان کی تجہیز و تکفین کے دوران میں سکتے کی سی کیفیت میں رہا۔ خالو عثمان کو فجر
کے وقت دل کی تکلیف شروع ہوئی تھی ۔ وہ پہلے تو ہسپتال جانے سے کتراتے رہے پھر جب درد بڑھ گیا تو انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں پندرہ بیس منٹ کے اندر وہ ختم ہو گئے ۔ میں نے خالہ صفیہ اور ناصر بھائی وغیرہ سے بہت پوچھا کہ کوئی ایسی خاص بات تو نہیں ہوئی تھی جس کا خالو نے اثر لیا ہو ۔ انہیں کوئی ایسی بات معلوم نہیں تھی ۔ مگر میرے دل میں نہ جانے کیوں کھٹکا سا تھا کہ ثروت کے حوالے سے ہی کوئی خاص بات ہوئی ہے جس کا دُکھ انہیں پہنچا
ہے۔ میرا دھیان بار بار تھانیدار اشرف ساہی اور سیٹھ سراج وغیرہ کی طرف ہی جاتا تھا۔
خالو عثمان کی وفات کے بعد خالہ صفیہ بھی بستر سے لگ گئیں۔ انہیں مسلسل بخار ہو رہا تھا۔ یہ بڑی پریشانی کے دن تھے۔ ناصر بھائی بینک میں ملازم تھے۔ اپنی ڈیوٹی میں سے وقت نکالنا ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ نصرت گھر کا کام کاج سنبھالتی تھی ، ثروت خود بیمار ہونے کے باوجود ماں کی تیمار داری میں لگی رہتی تھی ۔ خالو عثمان ایک پرائیویٹ سروس کرتے تھے۔ اس کے علاوہ چند سال پہلے تک وہ کیمیکلز کی فروخت کا کام بھی کرتے رہے تھے۔ ان کی تنخواہ آنی بند ہوئی تو گھر پر معاشی دباؤ بھی آگیا۔ لیکن ان سارے مصائب سے بڑی وہ مصیبت تھی
جو بدنامی کی صورت میں خالو مرحوم کے گھر پر مسلط ہو گئی تھی۔ ایک دن ناصر بھائی نے مجھ سے کہا۔ ”یار تابش ! کسی وقت تو دل چاہتا ہے کہ یہ گھر
چھوڑ دیں ۔ کہیں اور مکان لے لیں ۔ آپ کا مطلب ہے کہ یہ مکان بیچ دیں؟“
ہاں ایک گا ہک بھی لگ رہا ہے ۔ اچھے پیسے دے دے گا۔ میں اس جگہ سے کچھ الرجک سا ہو گیا ہوں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آتے جاتے سیٹھ سراج یا اس کے گھر کا کوئی اور فرد نظر آ جاتا ہے۔ ان لوگوں کو دیکھتا ہوں تو خون کھول جاتا ہے ۔“ "
سراج کی صورت تو مجھ سے بھی نہیں دیکھی جاتی ۔ خالو کے جنازے پر آیا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا ، قبرستان میں ہی اسے پکڑلوں اور مار مار کر حلیہ بگاڑ دوں۔ میں تو کہتا ہوں یہی بندہ خالو کی موت کا ذمے دار ہے۔ یہ مسلسل انہیں ذہنی اذیت پہنچارہا تھا۔“
اب کس کس پر الزام دھریں۔ ایک طرف وہ ایس ایچ او اشرف ہے۔ وہ صاف طور پر ملزم پارٹی کی سائیڈ لے رہا ہے۔ پھر وہ ایم این اے گورایا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تینوں لڑکوں کو پناہ بھی اسی نے دی ہوئی ہے۔ کسی دن میں گھوم گیا تو پستول لے کر نکل جاؤں گا اور
ایک ایک کو شوٹ کردوں گا ۔“ میں ایک آہ بھر کر رہ گیا۔ شوٹ کرنے اور جان سے مارنے والی باتیں میں بھی کئی دفعہ سوچ چکا تھا لیکن ایسی سوچوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور سے ہم جیسے لوگوں کے لیے۔ سوچ اور عمل کے درمیان بے شمار تاویلیں اور مصلحتیں آن کھڑی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں ناصر بھائی اس معاملے میں مجھ سے بہتر تھے لیکن کوئی بڑا جھگڑا کھڑا کرنے یا کسی کو
شوٹ کرنے کی حد تک وہ بھی نہیں جاسکتے تھے۔ ہم دونوں گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ ابھی ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ اندر
سے رونے چلانے کی آوازیں آئیں ۔ ہم بھاگتے ہوئے صحن میں پہنچے منظر دل دوز تھا۔ خالہ صفیہ سیڑھیوں کے قریب بے سدھ پڑی تھیں ۔ ان کا سر ثروت کی گود میں تھا۔
خالہ صفیہ کے سر سے مسلسل خون بہ رہا تھا اور نچلا ہونٹ بری طرح پھٹ گیا تھا۔ ثروت مسلسل چلا رہی تھی۔ امی جی ! آنکھیں کھولیں امی جی
ثروت سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ وہ سیڑھیوں سے گری تھیں، قریب ہی ۔
صابن کی ٹکیہ اور چھوٹا تولیہ پڑا ہوا تھا۔
انہیں ہسپتال لے جاؤ ۔ نصرت دل دوز آواز میں بولی ۔ ہم نے خونچکاں خالہ صفیہ کو ہاتھوں میں اُٹھایا اور کسی نہ کسی طرح سوزو کی گاڑی تک پہنچایا ، وہ گہری بے ہوشی میں تھیں ۔ ثروت بھی والدہ کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔ میں نے حتی
الامکان تیزی سے گاڑی چلاتے ہوئے انہیں قریبی ہسپتال پہنچایا۔ راستے میں ثروت نے روتے ہوئے بتایا۔ نیچے کا ٹوائلٹ خالی نہیں تھا۔ وہ بخار کی حالت میں اوپر چلی گئیں اور واپس آتے ہوئے گر گئیں۔“
ثریا عظیم ہسپتال والوں نے کہا کہ ان کے سر پر چوٹ لگی ہے، انہیں فورا جنرل ہسپتال لے جاؤ۔ وہاں ان کے سر کا سی ٹی اسکین وغیرہ ہو گا ۔ ہم انہیں لے کر جنرل ہسپتال پہنچے۔
بہت بھاگ دوڑ کر کے سی ٹی اسکین ہوا۔ معلوم ہوا کہ دماغ میں خون کے دو لوتھڑے ہیں جو
زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ آپریشن کی ضرورت ہے۔
اسی روز رات کو خالہ کا آپریشن ہو گیا لیکن وہ ہنوز بے ہوش تھیں ۔ ثروت اور نصرت کا رو رو کر برا حال تھا۔ ابھی باپ کی موت کا صدمہ تازہ تھا کہ یہ آفت ٹوٹ پڑی تھی ۔ خالہ صفیہ کی بے ہوشی طویل ہوتی جا رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ہی ہماری پریشانیاں بھی بڑھ رہی تھیں ۔ آخر ایک صبح ڈاکٹر نے یہ منحوس خبر سنائی کہ وہ قومہ میں چلی گئی ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کے تمام دکھوں اور مسائل سے پیچھا چھڑا کر بے ہوشی کی اوٹ میں اوجھل ہوگئی تھیں ۔ میں ان کا چہرہ دیکھتا تو مجھے لگتا تھا کہ وہ اس عالم بے خبری میں بھی اپنی مصیبت زدہ بیٹی کے لیے دعا گو ہیں ۔ ان کے لبوں کی خفیف لرزش کسی ایسی ہی دعا کی نشان دہی کرتی تھی ۔
ہم بھی دعائیں مانگ رہے تھے۔ ان کی زندگی کے لیے، ان کی واپسی کے لیے ... ایک دن ناصر بھائی نے مجھے زبردستی گھر بھیجا تا کہ میں چند گھنٹے آرام کرلوں اور تازہ دم ہو جاؤں ۔ شام کے وقت میں نے ناصر بھائی کو فون کیا اور پوچھا۔ ” میں کتنے بجے تک پہنچ
جاؤں؟“
دوسری طرف سے چند لمحے خاموشی رہی۔ پھر ناصر بھائی پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے۔ وہ چلی گئیں تابش ! وہ ہمیں چھوڑ گئیں ۔
میں پتھر کا بت بنا بیٹھا رہ گیا۔ تقریبا بارہ دن بے ہوش رہنے کے بعد وہ بھی سفر آخرت پر روانہ ہوگئی تھیں ۔
ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ مصیبت تنہا نہیں آتی

سے ثروت کے پیچھے پڑ گیا۔ میں ایک بار پھر ثروت کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کی جھیل سی آنکھوں کی چمک لوٹانا چاہتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اس کے دُکھ بہت بڑے ہیں مگر میں دُکھوں کا یہ
حصار توڑنا چاہتا تھا۔ دل کرتا تھا، میں اس کے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنا دوں۔ وہ میرے سینے میں چہرہ چھپا کر آنکھیں بند کرلے۔ میں اس کی طرف بڑھنے والے ہر رنج والم کا رُخ
موڑ دوں ۔
خالہ صفیہ کے چالیسویں کے موقعے پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امی تو قرآن خوانی کے بعد جلدی ہی واپس چلی گئیں، میں وہیں موجود رہا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح ثروت سے بات کرنے کا کوئی موقع مل جائے ۔ فون تو وہ اُٹھاتی ہی نہیں تھی۔ پچھلے ایک مہینے میں میں بیسیوں مرتبہ کوشش کر چکا تھا ۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کمرے میں گئی تو میں بھی کچھ دیر بعد اس - کے پیچھے چلا گیا۔ وہ مصلے پر پر بیٹھی تھی اور سلام پھیر کر فارغ ہوئی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ ذرا سا چونک گئی میں نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ " ثروت ! اگر میرا کوئی گناہ ہے تو ہے مجھے بتا دو۔ میں ہر طرح کا
کفارہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ کسی کا کوئی گناہ نہیں۔ میں ہی بدنصیب ہوں ۔ جو کچھ ہو رہا ہے میری وجہ سے ہو رہا ہے۔ اس نے حسب سابق اپنا سر گھٹنوں پر جھکا لیا۔
" ثروت پلیز خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرو۔ ناصر بھائی بہت پریشان ہیں۔ اگر تم لوگ خود کو نہیں سنبھا لو گے تو وہ بھی بکھر جائیں گے۔“
میرے بس میں کچھ نہیں ۔ اپنی جان لینا حرام ہے، ورنہ شاید ایسا کر لیتی ۔ مایوسی بھی تو حرام ہے۔ کفر ہے۔“
پلیز تابش ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ بھول جاؤ کہ کوئی ثروت تمہاری
زندگی میں آئی تھی ۔ اب ہم دونوں کے لیے یہی بہتر ہے۔" لیکن ثروت
پلیز خدا کے لیے خدا رسول کے لیے ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میری تکلیف کو اور مت بڑھاؤ۔ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں ۔ میرا خیال دل سے نکال دو
جیسے تمہاری امی کہتی ہیں اور بڑے کہتے ہیں ویسا کر لو۔ وہ گھٹنوں پر سر رکھ کر رونے لگی۔
میں گنگ ہو کر رہ گیا۔ اسی دوران میں نصرت کی آواز سنائی دی۔ وہ آپی آپی
پکارتے ہوئے اوپر آ رہی تھی۔ میں آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس رات میں دیر تک دیوانوں کی طرح لاہور کی سڑکوں پر پھرتا رہا۔ میرے اندر ایک
جوالا مکھی تھا۔ ایک جلتا ہوا لاوا تھا جوہر قابل نفرت شے کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا تھا مگر میری جسمانی طاقت اور میری فطرت اس جوالا مکھی کی تاب نہ لا سکتی تھی اور نہ اس سے پھیلنے
والی تباہی کی ۔ اس رات سڑکوں پر گھومتے گھومتے میں نے کئی بارسیٹھ سراج کو قتل کیا۔ کئی بارایم این اے گورایا کی جان لی اور کئی بار تھانیدار اشرف کو بدترین انجام سے دو چار کیا۔ میرے جیسے لوگ ایسے حالات کا شکار ہو کر یہی کچھ کیا کرتے ہیں۔ اپنے تصورات کا سہارا لے کر دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی سراب سے بھی پیاس بجھا کرتی ہے؟

اس سے تو ناتوانیوں کا دُکھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کسی وقت دل چاہتا کہ خود فراموشی کا سہارا لوں۔ خود کو شراب میں یا کسی اور نشے میں غرق کرلوں۔ مجھے پتا ہی نہیں چلے کہ میرے ارد گرد کیا ہو رہا ہے یا پھر ویسے ہی کسی طرف نکل جاؤں۔ کچھ عرصے کے لیے ارد گرد سے ناتہ توڑ لوں ۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل .. بس اس طرح کی لا تعداد سوچیں تھیں جو دماغ کو اتھل پتھل کر رہی تھیں ۔
اسی دوران میں چند روز بعد مجھے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مناسب جاب مل گئی۔ جاب ملنے سے جہاں خوشی ہوئی وہاں ایک طرح سے دُکھ نے بھی دل کو چیر ڈالا ۔ ثروت کو میری جاب کا بڑا چاؤ تھا۔ وہ کہا کرتی تھی کہ جب تم پہلے دن جاب پر جاؤ گے تو ہم اس موقعے کو سیلیبریٹ کریں گے۔ ریسٹورنٹ میں ہائی ٹی لیں گے اور پھر دریائے راوی میں ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر دیکھیں گے۔
آج میری جاب کا پہلا دن تھا۔ مگر ریسٹورنٹ نہیں تھا، ہائی ٹی بھی نہیں تھی اور راوی میں ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر بھی نہیں تھا۔ سب کچھ ایک دھند لکے میں گم ہو گیا تھا۔
اس شام میں اکیلا ہی شیزان ریسٹورنٹ میں جا بیٹھا۔ وہی میز تھی جہاں ہم اکثر بیٹھا کرتے تھے۔ دائیں طرف ایک گلدان رکھا تھا اور شفاف کھڑکی میں سے سڑک کا منظر دکھائی دیتا تھا۔
میں نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑ کی کی طرف دیکھنے لگا۔ دل میں آس پیدا ہوئی ۔ دل خوش فہم دور دراز کے امکانات کو ذہن میں لانے لگا۔ یقینی بات تھی کہ ناصر بھائی کے ذریعے ثروت کو بھی میری جانب کی خبر ہو چکی ہوگی ۔ شاید اسے یہ بھی پتا ہو کہ آج میری ڈیوٹی کا پہلا دن تھا اور آج اس ریسٹورنٹ کی موسیقی بکھیرتی فضا میں ایک نیم تاریک گوشے میں ہم نے اکٹھے بیٹھنا تھا۔ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامنے تھے اور ایک ساتھ مسکرنا تھا۔
میں سڑک کی طرف دیکھتا رہا۔ دیوانہ دل یہ سوچتا رہا۔ کیا پتا وہ آ جائے ۔ اپنی گلابی
پھولوں والی چادر کو سنبھالتی ہوئی ، اپنے شولڈر بیگ کو بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے متوازن چال چلتی ہوئی ۔ خزاں کے سارے رنگ ایک دم بہار کے رنگوں میں بدل جائیں ۔ میری آنکھیں منتظر ر ہیں لیکن کوئی نہیں آیا۔ کسی کو آنا ہی نہیں تھا۔ جب فاصلے پیدا ہو
جائیں تو ایک گھر میں رہتے ہوئے ملاقات نہیں ہوتی ۔ یہ تو پھر 60 لاکھ کی آبادی والا شہر تھا۔ میں نے اکیلے ہی چائے پی اور سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ پانچ دس منٹ اسی طرح گزر گئے ۔ مایوسیوں کی دھند مجھے ڈھانپتی رہی ۔ اچانک قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ ”السلام علیکم کسی نے دلکش آواز میں کہا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا، سامنے آرسہ کھڑی تھی۔ میں حیران رہ گیا۔ آرسہ چچی سلطانہ کی وہی بھتیجی تھی جس کا رشتہ وہ ماضی میں مجھ سے کرنا چاہ رہی تھیں ۔ یہ لوگ پنڈی میں رہتے تھے۔ میں آرسہ کو یہاں دیکھنے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ تم کب آئیں یہاں؟ میں نے پوچھا۔ آج ہی ۔ جناب تو صبح کے گھر سے نکلے ہوئے تھے۔ اس لیے خبر کیسے ہوتی ۔ ابوامی بھی ساتھ آئے ہیں۔ ابو کی چھٹیاں ہیں۔ اب ایک دو ہفتے آپ کے پاس رہیں گے اور آپ کا ناک میں دم کریں گے ۔ وہ چہکی ۔
میرا واقعی ناک میں دم ہونے لگا۔ آرسہ مجھے کبھی اچھی نہیں لگی تھی۔ میں نے اپنی اندرونی کیفیت چھپاتے ہوئے کہا۔ لیکن تم یہاں کیسے پہنچیں؟“
میں فرح کے ساتھ تھوڑی سی شاپنگ کے لیے نکلی تھی ۔ اچانک ہماری نظر آپ کی گاڑی پر پڑ گئی ۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ آپ یہاں بیٹھے ہوں گے ۔“ اس نے بڑے ناز سے اپنے بالوں کو پیشانی سے ہٹاتے ہوئے کہا۔ فرح کہاں ہے؟“
وہ سامنے رکشہ میں بیٹھی ہے۔“ اس نے کھڑکی سے باہر اشارہ کیا۔ میں طویل سانس لے کر رہ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں فرح اور آرسہ کو لے کر واپس گھر جا
رہا تھا۔ آرسہ خوبصورت تھی لیکن اس کی خوبصورتی سورج کی طرح تھی۔ چمکیلی، بھڑکیلی اور کبھی کبھی جلاتی ہوئی۔ اس کا رنگ غیر معمولی سفید تھا۔ آنکھیں براؤن، بال شہد رنگ اور جسم منہ زور ۔ وہ بڑی تیزی سے بولتی تھی ۔
اس کا موازنہ ثروت سے کیا جاتا تو ثروت کی خوبصورتی کو چاندنی سے تشبیہ دی جا سکتی تھی۔ بے شک چاندنی ، دھوپ سے کم روشن ہوتی ہے لیکن اس کا ایک اپنا حسن اور دھیما پن ہوتا ہے۔ ایک پر وقار ٹھہراو ، ایک ٹھنڈک اور ایک جذب ہو جانے والی صلاحیت

وہ پورے گھر میں دندنانے لگی۔ بلا وجہ میرے کمرے میں بھی آجاتی تھی۔ خاص طور پر وہ آج کل والدہ کے ارد گرد بہت گھوم رہی تھی ۔ ایک دن میں دفتر سے لوٹا تو میرا پورا کمرہ بڑی اچھی طرح سنورا سنبھالا ہوا تھا۔ آرسہ میرے ہی بیڈ پر اوندھی لیٹی انگلش میوزک پر ہولے ہولے پاؤں ہلا رہی تھی۔ اس نے ٹراؤزر پہن رکھا تھا۔ میری چاپ پر اس نے پلٹ کر دیکھا ۔ ” یہ کیا ہے آرسہ؟ میں نے ناگواری کا اظہارکیا۔
ہ تمہارا کمرہ ہے ڈئیر۔۔۔ اور یہ میں ہوں۔ وہ بستر پر نیم دراز ہو کر بولی ۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا آرسہ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
تمہارا مطلب میرے لباس سے ہے؟“ اس کے چہرے پر رنگ سالہرایا پھر وہ ڈھیٹ بن کر مسکرائی ۔ پتا نہیں اس فقرے سے میرا مطلب تمہاری ہر چیز سے ہے۔“
تمہارا کیا مطلب ہے؟“ میں سٹپٹایا ہوا ہاتھ روم میں گھس گیا۔ یونہی منہ پر پانی کے چھینٹے مارکر باہر لگا تو وہ جا چکی تھی۔
امی کمرے میں داخل ہوئیں ۔ یہ تو کیا بول رہا تھا آرسہ سے؟“
وہ میرے کمرے میں کیوں آجاتی ہے؟“ میں نے ہی کہا تھا اسے کہ ذرا تیرا کمرہ دیکھ لے ۔ امی نے کہا۔
میں نے دروازہ بند کرتے ہوئے امی کو اپنے سامنے کرسی پر بٹھایا اور خود بھی بیٹھ گیا۔ امی ! مجھے صاف صاف بتائیں آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ کیوں باسی کڑی میں ابال دے رہی ہیں؟ میں اتنا انجان نہیں ہوں ۔ میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں ۔
تابی ! تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟ وہ تو چند دن کے لیے یہاں آئی ہے پھر چلی جائے گی۔ تمہیں پتا ہی ہے کہ اس کی طبیعت ذرا شوخ ہے۔ اگر اس نے۔۔۔
مجھے ایسی شوخیاں نہیں چاہئیں امی ! میں نے تیزی سے ان کی بات کائی۔
پلیز اسے کہہ دیں کہ میرے کمرے میں نہ آیا کرے۔ میں اس کے منہ لگنا نہیں چاہتا ۔ اچھا آہستہ بولو۔ کوئی سن لے گا۔ میں سمجھا دوں گی اسے لیکن آرسہ کے ابوامی
کے پاس تو دو چار منٹ بیٹھ جایا کرو ۔ وہ کیا کہیں گے کہ اچھے مہمان آئے ہیں ۔ ان کے لیے چچی چاچا کافی ہیں۔ میرے اپنے بہت سے مسئلے ہیں۔ کام کا بوجھ اتنا
زیادہ ہے کہ کئی دن سے خالہ صفیہ کے گھر بھی نہیں جاسکا۔ ان کا فون بھی نہیں ملتا ہے ۔“ فون تو میں نے بھی ایک دن کیا تھا۔ بس بیل ہوتی رہی ۔“ لیکن امی ! کیا اگر فون نہیں ملے گا تو ہم ان کا اتا پتا ہی نہیں لیں گے؟ ہنستا بستا گھر تھا، دیران ہو گیا ہے۔ وہ تینوں بالکل بے سہارا ہو گئے ہیں۔ ہمیں تو ہر گھڑی ان کی خبر رکھنی چاہیے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ ایک دن فون کیا تھا ۔ ایک دم امی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وہ چپ سی ہو گئیں ۔ پھر بولیں ۔ چلو ٹھیک ہے۔ کل ان کی طرف جائیں گے ۔ فرح کو بھی لے جائیں گے ۔“ صرف جانے سے کچھ نہیں ہو گا امی ! پہلے ہم سب اپنا ذہن صاف کر لیں۔ یہ بات اچھی طرح اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ ہمیں ان حالات میں ان لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑنا۔ ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو نبھانا ہے۔ ثروت وہی ہے جو آج سے چند ماہ پہلے تھی اور اگر خدانخواستہ اس واقعے میں اس کے ساتھ کچھ ہو بھی جاتا تو میرے لیے میری آواز بھرا گئی اور میں فقرہ مکمل نہ کر سکا۔
امی نے کہا۔ "اچھا تو دل چھوٹا نہ کر ۔ ہم کل چلیں گے ان کی طرف ۔“
لیکن مجھے اس طرح نہیں جانا جس طرح ہم پہلے جاتے رہے ہیں۔ ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کر کے آ جاتے ہیں۔ جو کچھ اس بچاری کے ساتھ ہوا ہے، وہ خدانخواستہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ تو کیا ہم اسے دھتکار پھٹکار کر ایک طرف رکھ دیں گے؟ اس کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں گے؟ میرے سینے میں تپش تھی۔ میں بولتا چلا گیا۔
اس روز میرے اور امی کے درمیان آدھ پون گھنٹہ بات ہوئی۔ پتا نہیں کہ میں انہیں کس حد تک قائل کر سکا مگر اتنا ضرور ہوا کہ وہ ثروت کے ہاں خوش دلی سے جانے اور ان سے رابطہ برقرار رکھنے پر آمادہ ہو گئیں ۔
اگلے روز گھر سے نکلنے سے پہلے فرح نے پھر ثروت کے گھر فون کیا۔ حسب سابق بیل ہوتی رہی لیکن کال ریسیو نہیں کی گئی ۔ ہم روانہ ہوئے ۔ راستے سے ہم نے آئس کریم اورفروٹ وغیرہ لیا۔
ثروت کے گھر پہنچ کر دیر تک بیل دیتے رہے پھر گیٹ کھٹکھٹایا لیکن اندر سے کوئی برآمد نہیں ہوا۔ ساتھ والے پڑوسی نے دروازہ کھولا ۔ مجھے پہچان کر علیک سلیک کی پھر بتایا کہ ناصر صاحب اور ان کی فیملی تو یہاں سے جاچکے ہیں۔
👇👇
0 تبصرے