”حاجو خان! تم سے ایک کام ہے۔ اس کام کے بدلے میں تمہیں دس ہزار روپے دوں گا۔ کام اتنا مشکل نہیں ہے۔ بس تم وہ چیز لاکر مجھے دے دوگے اور تمہارا کام ختم۔ پھر تم سے اس چیز کے بارے میں کوئی نہیں پوچھے گا۔ نہ کوئی تم پر شک کرے گا۔ کیا خیال ہے ، یہ کام کروگے؟“
”ہاں! کیوں نہیں۔ مجھے آج کل پیسوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آپ بس کام بتائیں۔“ حاجو خان نے کر کہا۔
وہ پراسرار آدمی اس سے جب بھی کوئی کام لیتا تھا، پہلے اسے ایک خط لکھتا تھا۔ اس خط میں ایک چابی ہوتی تھی۔ وہ چابی لے کر اس کی بتائی ہوئی عمارت تک پہنچ جاتا۔ عمارت کے دروازے پر لگا تالا اس چابی سے کھل جاتا تھا۔ عمارت کے ایک کمرے میں اسے اس پراسرار آدمی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اُ سے جو کام لینا ہوتا ، وہ اس کی تفصیل بتاتا تھا۔ معاوضے کی رقم بھی اس کمرے میں میز کی دراز سے مل جاتی تھی۔
وہ پراسرار آدمی آج تک ا س کے سامنے نہیں آیا تھا۔ پہلی مرتبہ بھی اس نے اس طرح اس کے نام ایک خط لکھا تھا۔ اس میں چابی تھی اور اس عمارت کا پتا جس میں اسے جانا تھا اور یہ ہدایات لکھی تھیں کہ وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر اگر وہاں آجائے تو اس سے ایک بہت آسان سا کام لیا جائے گا اور معاوضہ دس ہزارو روپے بیٹھے بٹھائے مل جائے گا۔
اور واقعی وہ کام بہت آسان تھا۔ بس دفتر کے ایک آدمی کا قلم چرانا تھا۔ اس نے قلم چرا کر اس عمارت تک پہنچا دیا اور اپنے دس ہزار کھرے کرلیے۔ اس بات کو جب ایک ماہ گزر گیا اور پھر اس پراسرار آدمی کا فون نہ آیا تو اسے بے چینی محسوس ہونے لگی۔ وہ چاہنے لگا کہ اس کا فون آجائے اور وہ اس سے کوئی کام لے اور اسے دس ہزار اور مل جائیں۔ آخر ڈیڑھ ماہ بعد اس کا خط آ گیا۔ اس نے ایک اور چھوٹا سا کام اس سے لیا اور اسے دس ہزار مل گئے۔
اس وقت تک وہ اس سے ایسے کتنے ہی کام لے چکا تھا۔ وہ ایک سرکاری دفتر میں چپراسی تھا چوں کہ سب سے اعلیٰ افسر کا چپراسی تھا، اس لیے دوسرے آفیسرز کے کمروں میں اس کا روز کا آناجانا تھا۔
ان حالات میں قلم جیسی چیزیں پارکردینا اس کے لیے ذرا بھی مشکل کام نہیں تھا۔
”ہاں تو حاجو! اس مرتبہ تم اپنے آفیسر کی گھڑی چراکے لاﺅگے۔ یہ کام تمہارے لیے مشکل تو نہیں ہوگا۔“ آواز آئی۔
”جی…. جی نہیں ۔ مشکل تو نہیں ہوگا، لیکن ان کی گھڑی بہت قیمتی ہے، لہٰذا وہ سب سے باری باری پوچھیں گے اور جب نہیں ملے گی تو پولیس کو بلالیں گے۔ پولیس ہم جیسوں سے سوالات ضرور کرے گی۔ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پولیس کے سامنے اپنے چہرے کے تاثرات کو معمول پر رکھنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ میرا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر انہیں مجھ پر شک ہوجائے گا اور آخر کار وہ مجھ سے اگلوالیں گے۔ پھر یہ ہوگا کہ میں انہیں یہاں تک لاﺅں گا۔ آگے کیا ہوگا؟ مجھے پتا نہیں، لیکن میرے حق میں بہرحال اچھا نہیں ہوگا۔“ یہاں تک کہہ کر حاجو خاموش ہوگیا۔
”تم اپنی بات پوری کرچکے۔“ ناخوش گوار آواز سنائی دی۔
”جی ہاں بالکل۔“
”میز کی دراز کھولو۔“
اس نے میز کی دراز کھولی تو چونک اٹھا۔ دراز میں ایک گھڑی رکھی تھی۔
”یہ…. یہ کیا جناب اس میں تو گھڑی موجود ہے۔“
”ہاں! یہ گھڑی جیب میں ڈال لو…. اپنے آفیسر کی گھڑی اٹھا کر اس کی جگہ یہ والی رکھ دینا۔ اس طرح نہ تو انہیں کوئی شک ہوگا نہ پولیس آئے گی اور نہ تم سے کوئی پوچھ گچھ ہوگی۔ اس سے اندازہ لگا لو مجھے تمہارا کتنا خیال ہے۔“
”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ حاجو خان نے حیران ہوکر کہا۔
”کیا کیسے ہوسکتا ہے؟“
”بھلا گھڑی تبدیل ہونے کا انہیں کیوں پتا نہیں چلے گا۔“
”اس لیے کہ یہ گھڑی انہوں نے ابھی کل ہی خریدی ہے۔ لہٰذا اس دکان سے بالکل اسی جیسی گھڑی خریدنا کیا مشکل بات تھی۔“
”اب میرے لیے اور زیادہ حیرت کی بات ہوگئی۔ آخر آپ اس گھڑی کا کیا کریں گے۔“
”حاجو خان! تم سوالات بہت کرنے لگے ہو۔ اب میں اس قسم کے آسان سے کام کسی اور سے لیا کروں گا۔“
”نن…. نہیں سر…. نہیں۔“ وہ کانپ گیا کیوں کہ وہ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے دس دس ہزار روپے کئی بار وصول کرچکا تھا اور کمائی کے اس ذریعے سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتا تھا۔
”اچھا تو پھر جاﺅ وہ گھڑی لاکر یہیں رکھ دینا۔ تمہارا معاوضہ اسی دراز سے تمہیں مل جائے گا۔“
”جی اچھا۔“
گھڑی جیب میں ڈال کر وہ باہر نکل آیا، لیکن آج وہ حد درجے الجھن محسوس کررہا تھا کیوں کہ یہ چکر اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ سمجھ میں تو اس شخص کی کوئی بات پہلے بھی نہیں آئی تھی، لیکن گھڑی والے معاملے نے اسے کچھ زیادہ ہی الجھن میں ڈال دیا تھا۔ اس سے پہلے جب ایک آفیسر کا قلم اس نے چوری کرایا تھا تو اس نے بہت الجھن محسوس کی تھی۔ بھلا کوئی کسی کا قلم دس ہزار روپے خرچ کرکے کیوں چوری کرانے لگا؟ وہ اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتا تھا؟ اسی طرح کی چند اور چیزیں اس نے دفتر کے لوگوں کی چوری کروائی تھیں۔ اب معاملہ ذرا مختلف تھا۔ اسے گھڑی اٹھا کر بدلے میں دوسری گھڑی رکھنا تھی۔ اس کے آفیسر کی عادت تھی کہ میز پر بیٹھتے ہی گھڑی اتار کر رکھ دیتے تھے اور پھر جانے کے وقت ہی پہنتے تھے۔ ان حالات میں اس کے لیے یہ کام بہت آسان تھا کیوں کہ آفیسر کئی بار اٹھ کر ادھر اُدھر جاتے تھے، لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ بدلے میں رکھی جانے والی گھڑی میں نہ جانے کیا بات ہوگی اور وہ نامعلوم آدمی اس طرح کیا کرنا چاہتا ہے۔ ان باتوں نے اس کی الجھن میں اضافہ کردیا تھا۔
دوسرے دن پروگرام کے مطابق وہ اس کمرے کا تالا کھول کر اندر داخل ہوا تو گھڑی اس کی جیب میں موجود تھی۔ اس نے دراز کھولی تو وہاں دس ہزار روپے موجود تھے۔ اس نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ گھڑی وہاں رکھ دی اور نوٹ جیب میں رکھ لیے۔
”میں نے گھڑی رکھ دی ہے۔“ اس نے منہ اوپر اٹھا کر کہا، لیکن اس شخص کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس کا مطلب تھا، وہ اس وقت اس مکان میں نہیں تھا، چنانچہ وہ باہر نکل آیا اور دروازے کو تالا لگا کر اپنے گھر چلا آیا۔
دوسرے دن صبح سویرے ناشتے سے پہلے وہ اخبار دیکھ رہا تھا کہ بہت زور سے اچھلا، اس کی آنکھیں مارے خوف کے پھیل گئیں۔
عین اس وقت اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لرزتے ہاتھوں سے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے اسی پراسرار آدمی کی آواز سنائی دی۔
”حاجو خان۔“
”جج…. جی جناب۔“
”یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔“
”کیا…. کیا مطلب؟“
”ایسا کرکے تم نے اپنے پاﺅں پر کلہاڑی ماری ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”تم نے میری ہدایات پر عمل نہیں کیا جو گھڑی میں نے تمہیں دی تھی۔ وہ تم نے اپنے آفیسر کی میز پر نہیں رکھی اور اس کی گھڑی اٹھا کر اس مکان میں نہیں رکھی بلکہ تم نے مکان میں وہی گھڑی رکھ دی جو میں نے تمہیں دی تھی۔ تم نے ایسا ہی کیا ہے نا۔“
”ہاں! اس لیے کہ مجھے خوف محسوس ہوا تھا۔میں ڈر رہا تھا کہ نہ جانے اس گھڑی کی وجہ سے آفیسر صاحب کے ساتھ کیا معاملہ ہوجائے لہٰذا میں نے ایسا کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ آفیسر بچ گئے اور وہ مکان تباہ ہوگیا۔“
”لیکن…. اب تم کس مشکل میں پھنس گئے ہو یہ ابھی تمہیں معلوم نہیں۔ آج ہی کسی وقت تم جان لوگے۔“
ان الفاظ کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا وہ آج دفتر نہیں جاسکے گا، چنانچہ اس نے دفتر فون کردیا اور طبیعت خراب ہونے کا بتا کر چھٹی کرلی۔ اب بھی اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔
”کیا بات ہے؟ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے تو آپ بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ مزے سے ناشتا کررہے تھے۔ پھر اخبار دیکھ کر آپ گھبراگئے اور اس کے بعد یہ فون سن کر آپ کی حالت اور خراب ہوگئی…. بات کیا ہے؟“
اس نے ان دونوں کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھا اور کتنی ہی دیر دیکھتا رہا…. پھر بولا:
”مجھ سے ایک بہت خوفناک غلطی ہونے لگی تھی۔ اللہ نے مجھے اس سے بچالیا، لیکن اب پریشانی آکر رہے گی۔“
”بات کیا ہے؟ آپ پوری بات بتائیں۔“ بیوی گھبرا گئی۔
وہ انہیں تفصیل سے سنانے لگا کیوں کہ اس نے سوچا تھا کہ بات تواب ویسے بھی نکل کر رہے گی کیوں نہ انہیں بتا کر دل ہلکا کرے۔ جونہی اس نے بات پوری کی۔ اس کا بیٹا بہت زور سے چونکا اور چلایا
”جلدی کریں آئیں میرے ساتھ۔“
”لیکن کہاں؟“ وہ گھبرا گیا۔
”ان باتوں کا وقت نہیں ہے جلدی کریں۔“
دوسرے ہی لمحے وہ ایک ٹیکسی میں بیٹھے اڑے جارہے تھے اور یہ ٹیکسی ایک صاف ستھرے گھر کے سامنے رکی۔ لڑکا اچھل کر ٹیکسی سے باہر نکلا اور اس نے دروازے کی گھنٹی بجادی۔ دروازہ کھلا اور ایک خوبصورت سا، شوخ سا لڑکا نظر آیا۔ یہ فاروق تھا۔ اسے دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔
”ارے اجمل تم!“ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام کہو خیریت تو ہے؟“
”خیریت نہیں ہے۔ ہم…. ہمیں …. انسپکٹر صاحب سے ملنا ہے….۱ ابھی اسی وقت۔“
”آپ اندر آجائیں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
اجمل اندر داخل ہوا۔ ادھر محمود نے اسے دیکھا، تو اس کے منہ سے بھی نکلا۔”ارے اجمل تم!!“
”ہاں محمود …. میں۔“ اجمل نے اٹک اٹک کر کہا۔
”خیر تو ہے اجمل…. بہت پریشان ہو۔“ محمود نے پوچھا۔
”جج…. جی ہاں۔“
”محمود تمہارے دوست ضرورت سے کچھ زیادہ پریشان ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے بھی ٹھہرجانا چاہیے، کہیں انہیں میری ضرورت نہ ہو۔ آیئے تشریف رکھیے۔“ انسپکٹر جمشید نے اجمل کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
”وہ…. آپ…. آپ بہت اچھے ہیں۔“
”شکریہ۔“ انسپکٹر جمشیدمسکرائے۔
”ڈرائنگ روم میں میرے والد صاحب موجود ہیں۔“ اجمل بولا۔
”پہلے آپ بات بتائیں پھر ان سے ملاقات کروں گا۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”یہ آپ نے کس لیے کہا؟“ محمود کے لہجے میں حیرت در آئی۔
”بس یونہی…. آپ بات بتادیں۔“
اب اجمل نے پوری بات تفصیل سے بتادی۔ انسپکٹر جمشید چند لمحے تک سوچ میں غرق رہے پھر اس سے بولے:
”اچھی بات ہے آپ یہیں ٹھہریں۔ میں اکیلا ان سے بات کروں گا۔“
”جی اچھا۔“ اجمل نے قدرے پریشان ہوکر کہا۔
انسپکٹر جمشید ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولے:
”السلام علیکم حاجو خان صاحب۔“
”جج…. جی …. وعلیکم السلام۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ چہرے پر گھبراہٹ ہی گھبراہٹ تھی۔
”بچے سے میں نے تفصیل سنی ہے۔ آپ محکمہ اطلاعات میں ہیں۔“
”جی ہاں۔“
”اس نامعلوم شخص سے تو ہم لوگ آپ کو بچانے کی کوشش کریں گے اور ان شاءاللہ آپ کو اس کی طرف سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن جو جرم آپ کرچکے ہیں، میں آپ کو اس کی معافی نہیں دلاسکوں گا۔ اب یہ عدالت کا معاملہ ہے کہ وہ آپ کو کیا سزا دے گی۔“
یہ بھی بہت ہے کہ آپ مجھے اس شخص سے بچانے کی کوشش کریں گے۔“ اس نے مریل آواز میں کہا۔
”خوب ! اب ذرا آپ شروع سے بتائیں۔ اس نے آپ سے کس طرح رابطہ کیا۔“
”جی میں عرض کرتا ہوں پہلی بار ا س نے مجھے ایک خط لکھا تھا۔ خط میں ایک چابی تھی۔ اس نے لکھا تھا، میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ مالی مشکلات میں مبتلا ہو، کوئی مدد کرنے والا نہیں، لیکن میں تمہاری بہت اچھے طریقے سے مدد کرسکتا ہوں۔ پتا لکھ رہا ہوں، اس پتے پر آجاﺅ۔ چابی سے تالا کھول کر میرا نتظار کرنا، میں جلد ہی آجاﺅں گا۔“ یہ خط پڑھ کر اور چابی دیکھ کر میں بہت حیران ہوا اور پھر یہ الجھن مجھے وہاں لے گئی کہ آخر یہ شخص چاہتا کیا ہے۔ وہاں یہ شخص میرے سامنے نہیں آیا بلکہ میں نے اس کی آوا ز سنی۔ اس نے مجھ سے کہا:” ایک چھوٹا سا کام ہے۔ تم اپنے دفتر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر فیاض حامد کا پین مجھے لاکر دے دو، میں تمہیں اتنے سے کام کے دس ہزار روپے دوں گا، کیوں کیا خیال ہے؟“ اب آپ خود سوچیں میں ٹھہرا محکمہ کے ڈائریکٹر نصیر الدین شاہ صاحب کا چپراسی۔ مجھے تو ہر کمرے میں جانا آنا پڑتا ہے اور اس قسم کی چیز اٹھا کر جیب میں رکھ لینا میرے لیے بھلا کیا مشکل کام ہوسکتا ہے۔ میں حیران تو بہت ہوا، لیکن دس ہزار کا لالچ میری حیرت پر چھا گیا اور میں نے یہ کام کرنے کی حامی بھرلی۔ میرا جواب سن کر اس نے کہا۔”بس تو پھر تم وہ قلم کل لے کر یہیں آجانا۔ تمہیں دس ہزار روپے مل جائیں گے۔ سو میں وہاں قلم لے گیا۔ اس کی آواز سنائی دی کہ میز کی دراز کھول کر قلم اس میں رکھ دو اور اس میں سے دس ہزار روپے لے لو۔ بس میں نے ایسا ہی کیا۔ دو ماہ بعد اس کا خط پھر مجھے ملا۔ اس میں پھر چابی تھی۔ میں حیران ہوا، اس بار اس نے ہیڈ کلرک سلیم راشد صاحب کا لائٹر منگوایا تھا۔ میں نے ان کا لائٹر بھی وہاں پہنچادیا۔ اس طرح مجھے دس ہزار اور مل گئے۔ پھر ڈیڑھ ماہ بعد اس کا خط ملا۔ اس بار اس نے نصیرالدین شاہ صاحب کی ردی کی ٹوکری کے کاغذات منگوائے تھے۔ میں نے وہ بھی وہاں پہنچادیے۔ اب یہ چوتھا موقع تھا۔ اس بار اس نے کہا تھا کہ اپنے آفیسر کی گھڑی چرا کر وہاں پہنچادوں۔ اس پر میں نے کہا کہ ان کی گھڑی تو بہت مہنگی ہے۔ دفتر میں شور مچ جائے گا۔ پھر پولیس آئے گی اور وہ اگلوالے گی۔ اس طرح میں پھنس جاﺅں گا۔ تب اس نے کہا کہ میز کی دراز میں سے ایک گھڑی اٹھالو۔ یہ اس کی جگہ رکھ دینا کیونکہ یہ بالکل ویسی ہے۔ یہ اور زیادہ الجھن میں مبتلا کردینے والی بات تھی۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا۔ میں نے صاحب کی گھڑی تو چرائی نہ اور اسی کی گھڑی دراز میں رکھ دی اور پیسے اٹھا کر لے آیا۔ دوسرے دن وہ مکان دھماکے سے اڑ گیا۔ تب میرے ہوش جاتے رہے۔ یہ گویا نصیر الدین شاہ صاحب کو اڑانے کا پروگرام تھا۔ ادھر ساتھ ہی اس کا فون ملا۔ اس نے مجھے جان سے مار ڈالنے کی دھمکی دی۔ مجھے پریشان دیکھ کر میرا بیٹے مجھے یہاں لے آیا۔ اب میں حاضر ہوں جو جرم مجھ سے سرزد ہوا ہے، میں نے بیان کردیا ہے اور میں اللہ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ میں نے وہ گھڑی شاہ صاحب کی میز پر نہیں رکھ دی۔ ورنہ شاید اس وقت….“ یہ کہتے ہوئے وہ کانپ گیا۔
اس کے خاموش ہونے پر انسپکٹر جمشید چند سیکنڈ تک سوچ میں گم رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔
”آپ کی حفاظت کی جائے گی۔ آپ پر مقدمہ اس پراسرار شخص کی گرفتاری کے بعد قائم کیا جائے گا۔ فی الحال آپ کو حوالات نہیں بھیجا جاسکتا کیوں کہ ہوسکتا ہے، وہ شخص آپ کو حوالات میں ختم کرانے کی کوشش کرے، لہٰذا میں آپ کو خفیہ جگہ رکھوں گا۔ آپ کے بچے اور گھر والے بھی آپ کے ساتھ رہیں گے۔ آپ مجھے یہ بتائیں کیا آپ کو ہر مرتبہ اسی مکان میں بلایا جاتا تھا یا وہ مکان ہر بار بدل دیتا تھا؟“
”جی نہیں میں ہر بار وہیں جاتا رہا ہوں۔“
”ہوں! اس مکان کا پتا مجھے لکھوادیں۔ ویسے تو وہاں بہت لوگ جمع ہوں گے۔ دور سے ہی پتا چل جائے گا کہ وہ مکان ہے۔“
”جی ہاں! وہ مکان رام گلی نمبر 19میں ہے۔“ اس نے کہا۔
انہوں نے پتا نوٹ کرلیا۔پھر اکرام کے نمبر ملائے۔ وہ آیا تو حاجو خان کو اس کے حوالے کردیاگیا اور ہدایات بھی دیں۔ اکرام اسے لے کر اسی وقت چلا گیا۔ اجمل کو وہیں روک لیا گیا تھا۔ پھر اکرام اس کے والد کو خفیہ ٹھکانہ نمبر ایک میں لے گیا۔ جلد ہی ا س کی واپسی ہوئی۔ اب اس نے اجمل کو ساتھ لیا اور اس کے گھر پہنچا۔ گھر کے افراد کو ساتھ لیا اور خفیہ ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ جیپ میں لگے آلات نے اسے اس قابل بنادیا تھا کہ کوئی جیپ کا تعاقب نہیں کرسکتا تھا اور اگر کرتا تو پتا چل جاتا۔
ان کی طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد انسپکٹر جمشید ان سے بولے۔
”میں ذرا اس تباہ شدہ مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ محمود، فاروق کیا تم میرے ساتھ چل رہے ہو؟“
”جی ہاں! کیوں نہیں۔“
وہ اسی وقت گھر سے روانہ ہوئے اور مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ پولیس نے اس کے گرد گھیرا ڈالا ہوا تھا۔ مکان اس بری طرح تباہ ہوا تھا کہ بس اب صرف ملبے کا ڈھیر نظر آرہا تھا۔ انہوں نے وہاں موجود ایک حوالدار کی طرف قدم اٹھادیے۔ وہ معمول کے مطابق سادہ لباس میں تھے اور آئے بھی تھے اپنی ذاتی کار میں۔ اس لیے حوالدار نے ان کی طرف لپکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”کیا معلوم ہوا؟“
”کس بارے میں۔“ اس کا لہجہ کافی اکھڑا تھا۔
”اس دھماکے کے بارے میں۔“ وہ مسکرائے۔
”صا ف ظاہر ہے کسی دہشت گرد کی کارروائی ہے۔“
”مکان تھا کس کا؟“
”آپ ہیں کون؟ سوالات تو ایسے کررہے ہیں جیسے مجھ پر افسر لگے ہوئے ہیں۔“
”نہیں ! میں آپ پر افسرنہیں ہوں۔ ویسے میرا نام انسپکٹر جمشید ہے۔“
”جی!!!“اس کا رنگ اڑ گیا۔
”مکان کے مالک کے بارے میں معلوم ہوا؟“
”جی ہاں! مکان کا مالک اسی محلے میں رہتا ہے۔“
”میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔“
”ابھی یہیں کھڑا حسرت بھری نظروں سے ملبے کے ڈھیر کو دیکھ رہا تھا۔ پھر چلا گیا، اس نے یہ مکان کرائے پر دیا ہوا تھا۔ خوش قسمتی سے کرائے دار اس وقت گھر میں نہیں تھا۔“
”ہوں! مجھے اس کے گھر تک لے چلیں۔“
”آیئے۔“ اس نے کہا اور چل پڑا۔
جلد ہی وہ ایک شان دار مکان کے سامنے پہنچے۔ حوالدار نے گھنٹی کا بٹن دبایا تو فوراً ایک شخص باہر نکل آیا۔
”یہ ہمارے آفیسر ہیں۔ آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔“
مالک مکان نے جونہی ان کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر زلزلے کے آثار طاری ہوگئے۔ ادھر انسپکٹر جمشید کے منہ سے نکلا۔
”باقر شاہ…. تم؟“
دوسرے ہی لمحے انسپکٹر جمشید کے ہاتھ میں پستول نظر آیا۔ وہ سرد آوا ز میں بولے۔
”خبردار! ہاتھ اوپر اٹھا دو۔“
”لیکن کیوں؟ مدت ہوئی میں جرائم کی زندگی چھوڑ چکا ہوں۔ جرائم سے اب میرا دور کا بھی واسطہ نہیں۔“
”میںنے کہا ہے ہاتھ اوپر اٹھاﺅ۔“
اس نے بھنائے ہوئے انداز میں دونوں ہاتھ بلند کرلیے۔
”اب ساکت کھڑے رہنا۔ محمود! اس کی تلاشی لو۔“
”جی اچھا۔“ ا س نے کہا اور جلدی جلدی تلاشی لینے لگا، لیکن اس کے پاس سے کوئی ایسی ویسی چیز برآمد نہ ہوئی۔
”کچھ نہیں ہے ابا جان۔“ محمود بولا۔
”ٹھیک ہے۔ ہاتھ نیچے کرلو اور یہ بتاﺅ تم یہ حرکتیں کیوں کررہے ہو؟“
”جی…. کون سی حرکتیں؟“
”بھئی یہ حاجو خان والی۔“
”میں کسی حاجو خان کو نہیں جانتا۔“
”یہ مکان جو تباہ ہوا…. کیا تمہارا نہیں ہے۔“
”جی بالکل میرا ہے۔ کچھ مدت پہلے میں نے خریدا تھا۔“
”اور یہ مکان جس میں تم رہ رہے ہو۔“ انہوں نے پوچھا۔
”یہ بھی میرا ہے۔ اس میں، میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ وہ میں نے اس لیے خریدا تھا کہ کرائے پر چڑھایا کروں گا۔ اس طرح روزی کی ایک صورت بنی رہے گی۔“
”خوب خوب! آج کل کس نے کرائے پر لے رکھا تھا۔“
”ایک صاحب ہیں۔ نصیر جان کچھ ہی دن پہلے انہو ں نے کرائے پر لیا تھا۔ چھے ماہ کا پیشگی کرایہ دیا تھا انہوں نے۔“
”کیا وہ یہاں رہتے بھی رہے ہیں۔“
”وہ تمام دن باہر رہتے ہیں۔ اپنے کام کا ج کے سلسلے میں۔ رات گئے آتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے مجھے پہلے ہی بتادی تھی۔ اس لیے ظاہر ہے انہیں کم ہی لوگوں نے دیکھا ہوگا۔“
”ہوں! ان کا حلیہ تو آپ بتا ہی سکتے ہیں۔“انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”جی ہاں! کیوں نہیں۔ وہ لمبے قد کے، دبلے پتلے سے آدمی ہیں۔ رنگ سرخ اور سفید ہے۔ آنکھیں نیلے رنگ کی، ناک بہت باریک سی اور سر کے بال سرخی مائل اور ہونٹ بھی بہت پتلے پتلے سے۔ بس یوں لگتا ہے جیسے دو لکیریں سی ہوں۔“
”کیا؟“ انسپکٹر جمشید مارے خوف کے چلائے۔
انہیں اس حد تک خوف زدہ دیکھ کر محمود، فاروق، خان عبدالرحمن اور پروفیسر داﺅد بھی ساکت رہ گئے۔
”کیا تم نے بالکل درست حلیہ بتایا ہے۔“
”جج…. جی ہاں…. لیکن بات کیا ہے؟ آپ جیسا شخص اور خوف زدہ۔“
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories urdu font, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, ,yum stories in urdu, hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,
0 تبصرے